صبح صادق سے نکلتا سورج اپنی پوری اب و تاب کے ساتھ طلوع ہوتا ہر سو اپنی تیز کرنیں پھیلا چکا تھا۔رات کا اندھیرا چھٹ چکا تھا۔ نیلگوں آسمان کو گہرے بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔آج کا موسم ذرا ابر الود سا تھا۔محکمے موسمیات کے مطابق آج تیز موسلادار بارش متوقع تھی۔ساری رات تیز ہواؤں ، اندھی نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔تیز ہواؤں کے جھکڑوں کہ باعث ساری رات کھڑکیوں کے پٹ بجتے رہے تھے۔مگر سمبل نے اٹھ کر انہیں بند کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔دوسرے کمرے میں لیٹا شایان آنکھوں پراپنے آہنی بازو دهارے کُھلی آنکھوں سے آیندہ وقت کے لئے تانے بانے بننے میں مصروف تھا۔الگ الگ کمروں میں نیم دراز سمبل اور شایان دونوں کی ہی رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی۔
رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی۔ رات کا نا جانے کون سا پہر تھا جب شایان کو اپنے لفظوں کا احساس ہوا تھا۔احساس ندامت دل و دماغ پر کاری ضربیں لگا رہا تھا۔اضطرابی سی کفیت میں ایک لمبی سانس فضا کے سپرد کرتا اٹھ کر بیٹھا ،قدم اٹھا کر کمرے سے باہر آیا۔لاؤنج میں نیم اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔کچن کی لائٹ بھی بند پڑی ہوئی تھی۔ہر سو وحشت ناک خاموشی کا راج تھا۔شایان قدم اٹھاتا سمبل کہ کمرے کے دروازہ کہ نزدیک آکر چند پل کو ٹھر سا گیا تھا۔۔
جھجھک کر ہاتھ اپر کو دستک دینے کے لئے اٹھایا۔اور شرمندگی سے ایک بار پھر ہاتھ پہلو میں گرا لیا۔ہمّت جمع کر کہ ہولے سے ہاتھ دستک کہ لئے ہوا میں بلند کیا۔
“سمبل۔۔”هلكی سی دستک کے ساتھ سرگوشی میں پکارا۔
“سمبل۔۔دروازہ کھولو،کمرے میں آکر لیٹوں۔دیکھو موسم کے تیور کس قدر بگڑ رہے ہیں۔”شایان کی مسلسل پکار پر جواب اب بھی ندار تھا۔
سمبل جو بیڈ پر سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی۔یکدم چونک کر اٹھی تھی۔آنکھیں رونے کے باعث سوجھ کر سرخ پڑ چکی تھیں۔شایان کی جانب سے مسلسل دستک جاری تھی۔۔
سمبل غصہ میں سر جھٹک کر اسکی ندامت بھری پکار نظر انداز کرتی منہ تکیہ میں دے کر خاموش پڑی رہی۔جبکہ وہ کافی دیر تک دروازہ بجاتا تھک ہار کر مایوس ہوتا واپس پلٹ گیا تھا۔۔
______________________
“ماہین ڈارلنگ تمہارا مجنوں ابھی تک نظر تو نہیں آرہا۔”
نومی نے یونیورسٹی کے وسیع گراؤنڈ سے ہی چاروں جانب نظر گھما کر برو اٹھا کر اس بابت پوچھا۔۔
“آجاۓ گا۔آجائے گا۔اتنی جلدی کس بات کی ہے۔”ماہین نے شانے بے نیازی سے کندھے آچکاۓ.
“مجھے تو بس شو دیکھنے کی جلدی ہے۔” نومی نے مسکرا کر آنکھ بلنک کی تو وہ دونوں قہقاہ لگا اٹھے۔
_____________________
شایان کی جب آنکھ کھلی تو نظر سیدھی چھت پر لگے پنكهے پر گئی تھی۔جیسے وہ رات کی خنکی بڑھتی دیکھ بند کر کہ سویا تھا۔کچھ دیر خالی دماغ سے چھت کو گھورتا رہا۔رات کا ناجانے کونسا سا پھیر تھا جب اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔۔آہستہ آہستہ گزری رات کے مناظر واضح ہوۓ تو تیزی سے بستر چھوڑتا کمرے سے باہر آیا۔قدم قدم چلتا دوسرے کمرے کی جانب آیا۔دروازہ کا ہنڈل گھمایا تو وہ اندر کی جانب کھلتا ہی چلا گیا۔اس کا مطلب سمبل اس کہ اٹھنے سے پہلے ہی یونیورسٹی کے لئے نکل چکی تھی۔ایک دم غصّہ سے دروازہ واپس بند کرتا کمرے میں واپس آیا۔اپنے کپڑے لئے اور واشروم میں بند ہوگیا۔۔
نہا دھو کر فریش ہو کر واپس آیا۔کچن پر ایک نظر ڈالی جہاں آج خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔۔سر جھٹک کر بڑے بڑے قدم لیتا فلیٹ سے باہر نکل گیا۔۔جہاں اس کا رخ اب یونیورسٹی کی جانب تھا۔
______________________
“سمبل یار کیا ہوگیا ہے۔منہ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا۔”دانین صبح سے کوئی دس مرتبہ اس کہ موڈ کہ بابت دریافت کر چکی تھی۔مگر وہاں وہی نو لفٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔
“کچھ نہیں ہوا۔بتایا تو ہے۔”سمبل اب اس کہ ایک ہی سوال پر جھنجھلا سی گئی تھی۔
“اچھا!!تو منہ پر بارہ کیوں بج رہے ہیں۔کل تک تو تم اچھی خاصی تھیں۔کہیں شایان بھائی سے لڑائی تو نہیں کر لی تم نے۔”دانین نے آئبرو اٹھا کر تفشیشی انداز میں پوچھا۔
“اففف اللّه جیمز بانڈ زیرو زیرو سیون کچھ نہیں ہوا۔اپنے اندر کی شکی عورت کو تهپکی دے کر سلا دو۔”سمبل اس کی تفشیش سے عاجز آگئی تھی۔
“اچھا اچھا۔۔تو رو کیوں رہی ہو۔میں کون سا شایان بھائی کے پاس جا رہی ہوں تصدیق کرنے۔”دانین نے شرارتً آنکھیں گھمائیاں تو سمبل محض ایک گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔اس لڑکی کا واقعی کچھ نہیں ہو سکتا۔۔
“اچھا چلو سب چھوڑو۔جلدی سے لیکچر لو۔پھر میرے ساتھ گھر چلنا۔آج کا لنچ میری طرف سے۔”دانین اپنی رو میں بولتی اسے بھی اپنے ساتھ ہی گھسیٹ کر لے گئی۔وہ تو ویسے بھی آج کی تاریخ میں شایان کی جانب سے راہ فرار چاہ رہی تھی۔
_________________
“ماہین چلو میرے ساتھ ۔مجھے تم سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔”شایان فری پیریڈ میں ماہین کو نو می کے ساتھ بیٹھا دیکھ سیدھا اس کہ سر پر ان پہنچا تھا۔
“ہاں بولو تم۔میں سن رہی ہوں۔”وہ فورا الرٹ ہو کر بیٹھی تھی۔
“یہاں نہیں۔میرے ساتھ اؤ۔”شایان کے ماتھے پر ناگواری سے بل واضح تھے۔
لیکن۔۔۔۔”
“ماہین تم میرے ساتھ آرہی ہو یا نہیں۔”شایان کا لہجہ پہلے کی بانسبت خاصہ سخت تھا۔نومی چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ لئے ان دونوں کی تكرار سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔
اچھا چلو۔”ماہین شایان کا اس قدر روکھا انداز دیکھ فوری کھڑی ہوئی تھی۔
شایان اسے بازو سے پکڑ کر یونیورسٹی کا احاطہ عبور کرتا ،گاڑی میں بیٹھاتا سپیڈ کا کاٹا بڑھا گیا۔
“شایان ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟”گاڑی کو ہوا سے باتیں کرتا دیکھ ماہین نے خوف زادہ لہجے میں دريافت کیا۔
“دوسری جانب ہنوز خاموشی برقرار تھی۔”شایان پلیز گاڑی آہستہ چلاؤں۔ہمارا ایکسیڈنٹ ہوجاۓ گا۔”ماہین کہ ماتھے پر ڈر کے مارے پسینے کے ننھے ننھے سے قطرے نمودار ہوۓ تھے۔۔
” شایان۔۔۔۔شایان پلیز بات کو سمجھو۔۔
تمھیں ہو کیا گیا ہے۔
پلیز رفتار آہستہ کرو۔۔
شایان مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔
شایان پلیز اسٹاپ دا کار۔۔۔”ماہین دڑ اور خوف کے مارے اونچا اونچا چلا رہی تھی۔جبکہ شایان تو جیسے بہرہ ہو چکا تھا۔اس کی کسی بھی قسم کی مذمت سے اس کہ کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔۔۔
“کیا مسٔلہ ہے تمہارے ساتھ۔کیوں چلا رہی ہو۔”کار روک کر شایان اس کی جانب منہ کئے اچانک دهاڑا تھا۔
“شایان وہ۔۔میں ڈر۔۔۔تم۔۔”ماہین اس کہ غصّہ پر حواس باختہ سی رہ گئی تھی۔
“شٹ اپ۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔تمھیں میری کوئی بات سمجھ آتی بھی ہے یا نہیں۔۔”شایان کا غصّہ عروج پر تھا۔جبکہ وہ ناسمجھی سے اس کا منہ تک رہی تھی۔۔
“کیا مطلب ہے شایان۔۔ہوا کیا ہے۔کیوں اتنا ہائپر ہو رہے ہو۔”
ساری صورتحال فلحال ماہی کی سمجھ سے باہر تھیں۔
“یہ پوچھوں کیا نہیں ہوا۔جب میں نے تمھیں ایک بار کہا تھا کہ مجھے وہ نومی پسند نہیں۔اس کہ ساتھ مت بیٹھا کرو۔پھر تم مجھے باربار اسی کے ارد گرد منڈلاتی ہوئی کیوں نظر آتی ہو۔”شایان نے پھاڑ کھاتے لہجے میں سوال کیا تھا۔
“شایان وہ صرف میرا دوست۔۔”ماہی کو پہلے ہی اس کہ غصّہ سے ڈر لگ رہا تھا۔اور اب یہ انداز۔ماہین کے تو اؤسان ہی خطا ہوگئے تھے۔۔
“نہیں پنسد وہ مجھے سمجھیں۔اسی لئے کہ رہا ہوں دور رہو اس سے۔۔”شایان کے لہجے میں وارننگ تھی۔۔
“اوکے۔اوکے۔میں آئندہ کبھی اس سے بات نہیں کرونگی۔تم رليكس رہو بس۔۔”وہ خود اس سے خوف زدہ ہوگئی تھی۔۔
شایان کتنی ہی دیر گاڑی ایک کونے میں روک کر کھڑا اپنا غصّہ قابوں میں کرتا رہا۔جبکہ ماہی بلکل خاموش تھی۔اس میں اتنی ہمّت نہیں تھی کہ وہ اس بهپرے ہوۓ شیر کو چھیڑ دے۔وہ آج نا جانے کیوں جوالا بنا گھوم رہا تھا۔۔
_____________________
“شایان ایم ام ریئلی سوری۔مجھے ذرا بھی تمہارے اس قدر ہارش ریکشین کا انداز ہوتا تو میں کبھی نومی سے کلام تک نہ کرتی “ماہی فلحال کسی بھی طرح اس کا غصّہ ٹھنڈا کرنا چاہتی تھی۔جو آئس کریم پارلر میں انے کے باوجود بھی منہ بگاڑے ہی بیٹھا تھا۔۔
“بس کر جاؤ یار ماہین تمھیں نہیں پتہ۔میں آج کل سمبل کی طرف سے کس قدر پریشان ہوں۔”شایان نے اب ذرا ٹھنڈے لہجے میں کہا تھا۔۔
“تو مت لیا کرو۔اس کی طرف سے ٹینشین۔تم بس رلیکس رہو۔”ماہی نے ناگواری سے کہا تو شایان نے اسے گھورا۔۔
“اچھا بابا سب چھوڑوں۔یہ بتاؤ۔کونسا فلیور لو گئے۔۔”ماہی نے اس کہ سخت تاثر دیکھ اسے باتوں میں لگا کر اس کا دھیان بھٹکانا چاہا۔۔
ماہی آئس کریم لینے کاؤنٹر کی جانب بڑھ گئی۔جبکہ شایان کی نظریں ارد گرد کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔
جبھی نظر سب سے آخر میں ایک کونے والی ٹیبل کی جانب اٹھی تھی۔جہاں سمبل اکیلی بیٹھی آنکھوں میں نفرت لئے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔شایان کی نظر اپنی جانب متوجہ پاکر وہ یکدم سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔جبکہ سمبل کہ ساتھ برابر والی سیٹ پر ایک اجنبی شخص کو سیٹ سمبھالتے دیکھ شایان کے ماتھے پر ناگواری سے بل واضح تھے۔۔
اس سے پہلے کہ شایان اس تک پہنچتا۔سمبل اپنا بیگ سمبھالتی وہاں سے نكلتی چلی گئی تھی۔ماہی کہ وہاں انے پر شایان فوری کھڑا ہوتا خود بھی اس کہ پیچھے پیچھے باہر اگیا۔مگر جب تک سمبل رکشہ پکڑ کر وہاں سے جا چکی تھی۔
شایان غصّہ میں مٹھی بھینچتا ماہین کے ہمرا وہاں سے نكلتا چلا گیا۔۔۔
_______________________
شایان گھر میں داخل ہوا تو سمبل سامنے ہی کچن میں کھڑی نظر آگئی تھی۔جو شاید اپنے لئے کافی بنا رہی تھی۔
شایان قدم اٹھاتا کچن کاؤنٹر تک آیا۔کچھ دیر خاموشی سے اسے کام کرتا دیکھتا رہا۔جب سمبل کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا تو خود ہی آگے بڑھ کر کبنیٹ سے گلاس نکالا اور فریج سے ایک پانی کی بوتل نکال کر پانی پیا۔اس سارے عرصے میں سمبل اپنی جانب سے لاتعلقی ظاہر کرتی اپنے ہی کام میں مگن رہی تھی۔جیسے وہاں اس کہ سوا کوئی تیسرا موجود ہی نا ہو۔
سمبل اپنی کافی لیکر کچن سے باہر نکل گئی تو شایان بھی فریش ہونے کی غرض سے کمرے کی جانب بڑھا۔شایان کچھ دیر بعد آرام داہ سے سوٹ میں گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا باہر آیا تو سمبل کو کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتے ٹی وی دیکھنے میں محو پایا۔جہاں کوئی ترکش ڈرامہ چل رہا تھا۔
شایان اپنی جانب سے پہل کرنے کی خاطر قدم قدم اٹھاتا اس کہ سر پر آکھڑا ہوا۔جو ارد گرد سے فراموش ساری توجہ ڈرامے کی جانب کئے بیٹھی تھی۔
“سمبل ایک کپ کافی مجھے بھی بنا دو۔”شایان نے اس کہ برابر سوفے پر جگہ سمبھال کر متوازن لہجے میں کہا۔
سمبل نے سن کر بھی ان سنا کردیا تھا۔۔—
“سمبل میں کہ رہا ہوں مجھے ایک کپ کافی بنا دو۔”شایان کو اپنی بات کا نظر انداز کرنا ایک آنکھ نا بھایا تھا۔یکدم ہی پٹھانوں کے خون نے جوش مارا تھا۔
“میں کیوں بناؤ آپ کی کافی؟ جا کر بنوا لیں اپنی اسی لیلٰی سے جیسے ہر روز لنچ اور ڈنر کہ بہانے گھومآیا پھیرآیا جاتا ہے۔”کل رات ہوئی بحث کہ بعد سمبل کی بھی بس ہوگئی تھی۔دن کہ مناظر نظروں کے سامنے گھومتے ہی تڑاخ کر گویا ہوئی تھی۔
“کیا بکواس کر رہی ہو تم۔۔اپنی حد میں رہو سمبل شایان خانزادہ۔۔مجھے اپنا ضبط آزمانے پر مجبور مت کرو سمجھیں۔بتاؤ کون تھا وہ جو آج شام تمہارے ساتھ بیٹھا تھا۔”حقیقت سے نظریں چرا کر شایان الٹا اسی پر چڑ دوڑا تھا۔۔
“کیوں کیا ہوا۔اپنی حقیقت بھی برداشت نہیں ہو رہی۔اور چلیں ہیں مجھ پر الزام لگانے۔”سمبل تلخی سے مسکرائی تھی۔۔
“بات کو غلط رنگ مت دو۔میں کوئی الزام نہیں لگا رہا ۔میں صرف پوچھ رہا ہوں۔۔”شایان نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر ضبط سے کہا۔۔
“کیوں پوچھ رہیں۔آپ ہوتے کون ہیں مجھ سے سوال کرنے والے۔جب آپ کو میری ذات میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تو میری مرضی جو چاہے کروں۔۔”سمبل بھی غصّہ میں اپے سے باہر ہوئی تھی۔
میں تم سے سوال کا پورا پورا حق رکھتا ہوں سمجھ آئی بات”۔شایان غصّہ سے بولا تھا۔
“درست کہا۔جیسے آپ کا حق ہے۔ویسے میں بھی پورا حق رکھتی ہوں آپ سے سوال کرنے کا۔”تو بتائیں مسڑ شایان خانزادہ کون لگتی ہے وہ لڑکی آپ کی،جو میری جگہ ہر وقت ہر جگہ آپ کہ ساتھ گھومتی پھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔”سمبل نے دنوں ہاتھ سینے پر باندھ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برجستہ سوال کیا تھا۔جبکہ شایان ایکدم خاموش ہوگیا تھا۔۔
“بتائیں نا کیا ہوا؟؟؟خاموش کیوں ہوگئے۔”شایان کو خاموشی سے خود کو تکتا پاکر سمبل طنزیہ مسکرائی تھی۔
“بس اب کچھ نہیں ہے نا آپ کے پاس کہنے کو۔آپ اس سے زیادہ کچھ بول بھی نہیں سکتے۔آپ ایک کم ظرف انسان ہیں۔جو خود تو کچھ بھی کر لے تو کوئی سوال تک نا کرے۔اور خود دوسروں کو اپنی ہی نظر سے دیکھ کر اپنے ہی مفروذات اخاز کر کہ بیٹھ جاتے ہیں۔”سمبل کے لہجے میں واضح حقارت تھی۔
“سمبل۔۔خاموش ہوجاؤ۔ایک لفظ بھی اور مت نکالنا۔ورنہ اب میں برداشت نہیں کرونگا۔”شایان کو یکدم سر پر لگی تھی اور تالو پر بجی تھی۔
“میں تو خاموش ہی ہوں۔اور رہو گی۔کیوں کہ میں مجبور ہوں۔چاہ کر بھی یہاں سے نہیں جا سکتی۔کیوں کہ آپ سے شادی کا فیصلہ میرا اپنا تھا۔مگر بے بس نہیں ہوں کہ آپ کا جو دل چاہیے ویسا سلوک کرتے رہیں۔اور آپ کو کوئی پوچھنے والا بھی نا ہو۔”تیز لہجے میں بولتے بولتے آخر میں اس کا لہجہ رندھ گیا تھا۔جبھی سمبل اپنی آنکھوں میں آئی نمی چھپآتی اپنے کمرے میں آگئی۔جبکہ پیچھے خاموش کھڑا شایان اس کہ لفظوں پر ٹھر سا گیا تھا۔
ہاں وہ مجبور ہی تو تھی۔اس سے شادی کرنے پر بھی اور شادی کے بعد اس کی بات ماننے پر بھی۔ورنہ کیا یہ زمانہ اسے اکیلے جینے دیتا۔جسکا نام بچپن سے اس کہ ساتھ جوڑ کر گویا کوئی سزا سنا دی گئی تھی۔جہاں دونوں ہی فریقین بچپن کے ان کچے رشتوں کی ڈوری کو پکا کرنے کی تکو دو میں ناجانے کیا کیا کر رہے تھے۔کبھی مجبور تھے تو کہیں سمجھوتا تھا۔مگر خوشی ۔۔۔نہیں بڑوں کہ اس فیصلے میں خوشی تو جیسے کہیں ناپید ہوگئی تھی۔اگر اب تک ساتھ رہنے کی کوئی وجہ زندہ تھی تو وہ تھی بچپن کا رشتہ اور اس کہ آگے ہر احساس بے معنی تھا۔ایک ایسا رشتہ جو انہیں گلے پڑے ڈھول کی طرح ہر حال بجانا تھا چاہیے مرضی شامل ہو یا نا ہو۔مگر اللّه نے نکاح میں برکت رکھی ہے۔نکاح کی ہی بادولت دو اجنبی ایک ہی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں۔مگر یہ بات سمجھنے کہ لئے دونوں کو ہی وقت درکار تھا۔ہر رشتہ کو پروان چڑھنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔کبھی کبھی بڑوں کے فیصلے سخت ضرور ہوتے ہیں مگر غلط نہیں۔بڑوں کی رضا میں راضی ہونے والے ہمیشہ سکھی ہی رہتے ہیں۔حالات کا تقاضہ تھا کہ ان دونوں کا رشتہ اس نہج پر ان پھنچا تھا۔جہاں رشتہ کی شروعات ہی بے اعتباری سی ہوئی تھی۔رشتوں میں بے اعتباری رشتوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو۔
______________________
ایک ہفتہ پر لگا کر اڑ گیا تھا۔سمبل اور شایان کے بیچ اس روز سے ہی بات چیت بند تھی۔دونوں ہی الگ الگ کمروں میں اپنی اپنی زندگی گزار رہے تھے۔اگر کبھی رات کے کسی پہر سامنا ہو بھی جاتا تو سمبل نظر پھیر کر جبکہ شایان نظر بچا کر وہاں سے نکل جاتا تھا۔تعلقات ہموار کرنے کہ لئے پہل دونوں میں سے کسی کی بھی جانب سے نہیں ہوئی تھی۔دونوں ہی اپنی اپنی جگہ آڑے ہوۓ تھے۔
ماہین کا تقاضہ دن با دن بڑھتا جا رہا تھا۔جبکہ شایان حالات سے تنگ اکر پچھلے ایک ہفتے سے اسے ٹال رہا تھا۔مگر آج صبح ماہی کی ضد پر اسے مانتے ہی بنی تھی۔ ماہی اور نومی کے دل میں تو جیسے لڈو پھوٹ رہے تھے۔
“آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔”سمبل کی بے ساختہ چیخ پر بیڈ پر چت لیٹا اپنی سوچوں میں گم شایان ہڑبڑا کر باہر کو ڈوراتھا۔۔
“کیا ہوا۔۔۔۔۔”شایان نے کچن کہ دروازے پر کھڑے ہو کر سانس بحال کرتے پوچھا۔جو اسے دیکھ بے ساختہ تیزی سے روتی ہوئی اس کی پشت پرچھپ سی گئی تھی۔۔
“کیا ہوا۔۔اتنا کیوں رو رہی ہو۔۔”شایان نے اس کا سر تهپک کر حیرانی سے پوچھا جو یکدم خاموش ہوگئی تھی۔۔آج نا جانے اسے کیا ہوا تھا کہ باربار اپنی اپنی ماں کی یاد آرہی تھی۔
“وہ وہ چوہا۔۔۔وہاں۔۔۔”سمبل نے شرمندگی سے گندے برتنوں سے بھرے سنک کی جانب اشارہ کرتے شرمندگی سے آنکھیں میچ کر کہا۔۔
جب سے ان دونوں کے بیچ تلخ کلامی ہوئی تھی۔جب سے سمبل نے ایک بار پھر گھر کے کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔جس کا نتیجا سنک میں بھرے پڑے برتنوں کے ڈھیر کی صورت نکلا تھا۔
“ہاہاہاہا۔۔۔صرف چوہا۔ویسے جتنی گندگی تم نے پھیلا رکھی ہے۔مجھے تو لگا چوہے بلی کی پوری فوج یہاں پارٹی کر رہی ہوگی۔۔”شایان نے اس کی نم آنکھیں دیکھ طنزیہ قهقاہ لگا کر اسے اس کہ پھوہڑ پن کا احساس کروایا تھا۔۔
سمبل نے ایک نظر گند کا ڈھیر بنے کچن میں نظر گھما کر اسے دیکھا۔جو فریج سے لارج پزا کا ڈبہ اٹھا کر اسے ایک جتاتی مسکراہٹ پاس کرتا کچن سے باہر نکل گیا تھا۔سمبل نے ذرا حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔جو اتنے آرام سے بات کر رہا تھا۔جیسے ان دونوں کے بیچ کچھ ہوا ہی نا ہو۔
جبکہ سمبل اپنی رات کی اس بے وقت بھوک پر صرف صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی تھی۔گزشتہ ہفتہ سے وہ دونوں الگ ہی الگ کھانا کھا رہے تھے۔اور آج طبعیت کے بوجھل پن کے باعث وہ رات کا کھانا گول کر گئی تھی۔مگر اب بھوک کے باعث پیٹ میں چوہے ڈور رہے تھے۔
سمبل نے بلاوجہ روانی سے گرتے آنسو پونچھ کر آگے بڑھ کر فریج کا دروازہ کھولا جہاں محض ٹھنڈے پانی کی بوتلوں کہ سوا کچھ نا تھا۔اپنی بے بسی پر یکدم پھر سے رونا سا آیا تھا۔۔
“بھوک لگ رہی ہے کیا؟؟۔۔۔۔”اس اچانک نمودار ہوتی آواز پر سمبل کی چیخ بے سختہ تھی۔چکنے پڑے ٹآئیل پر بے دھیانی میں پیر پھسلا تھا اور وہ اچانک دھڑام سے زمین بوس ہوئی تھی۔۔اسی ساری صورتحال میں رات کی تاریکی میں خاموشی کو چیرتا شایان کا بلند و بانگ قہقاہ گونجا تھا۔۔
وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔جبکہ سمبل جلدی سے خجالت اور شرمندگی سے سرخ پڑتی گرتی پڑتی اپنے ہی سہارے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
ایک غصّہ بھری نگاہ اس کہ چلتے منہ پر ڈال سمبل اس پر دو حرف بھیجتی کچن سے باہر نکلنے گئی۔جبھی شایان نے اس کہ راستے میں حآئل ہو کر آنکھوں کے اشارے سے کھانے کا پوچھا۔سمبل کو ایک بار پھر تپ چڑی اور مکمل طریقے سے نظر انداز کرتی تن فن کرتی وہاں سے غائب ہوگئی۔
شایان نے ڈبہ میں پڑے ادھے پزا پر نظر ڈالی ۔قدم چلتا کمرے کے پاس آیا سائیڈ پر رکھی ٹیبل اٹھا کر اس پر پزا کا ڈبہ رکھا۔اور کمرے کا دروازہ زور سے بجا کر اپنے کمرے میں اگیا۔
پہلے تو سمبل اس دستک پر بیٹھی رہی۔پھر کچھ سوچ کر باہر آئی تو لاؤنج مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ارد گرد نظر ڈالی جہاں سائیڈ پر پزا کے ڈبے کے ساتھ ایک چٹ بھی رکھی ہوئی تھی۔جس پر بڑا بڑا سوری لکھا ہوا تھا۔
چٹ پڑھ کر سمبل کہ ہونٹوں پر خود با خود مسکراہٹ رقصہ ہوئی تھی۔اور پھر مسکرا کر ڈبہ کمرے میں لیجا کر ایک طرف رکھا۔موبائل اٹھایا اور اپنے مطلوبہ نمبر پر شکریہ کا پیغام بھیج کر مطمئن سی اس آدھے بچے پزا سے بھرپور انصاف کرنے میں مصروف ہوگئی۔۔
____________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...