وئیر ہاؤس کے باہر اترتا اندھیرا مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا ۔اسکے باہری کمرے میں وہ دونوں بے حد آرام دہ انداز میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اور پیر سامنے دوسری کرسی پر رکھے بیٹھے تھے ۔ان دونوں کے چہرے پر ہلکی سی شکن بھی نہیں تھی اور نا ہی اس بات کی فکر تھی کہ انہوں نے اندر ایک جیتی جاگتی لڑکی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے ۔
“افہام! یار تم مجھے آج بھی نہیں بتاؤگے کہ وہ لڑکی کون ہے جو یہاں رہتی ہے؟” یہ کہتے ہوئے وہ تھوڑا سا آگے جھکا اور انگلی سے افہام کے دل کے مقام پر دستک دی ۔
افہام کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ ابھری اور ساتھ ہی آنکھوں میں ‘اس’ کا عکس اترا۔”انتظار کرو وکی… انتظار کرو…وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب میں اسے لے کر تمہارے پاس آؤنگا اور کہونگا کہ دیکھ یار! یہی ہے وہ جو یہاں رہتی ہے ۔” اسنے اپنے سینے کے بائیں جانب ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وکی بے اختیار ہنس پڑا۔
“فنگر کراسڈ۔” اسنے مسکراتے ہوئے اپنی دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کراس کر کے اسے دکھایا۔” چلو دعا کرتے ہیں کہ افہام حیدر کی ڈریم گرل صرف اسکے خوابوں میں ہی نا رہے بلکہ ایک دن مجسم حقیقت بن کر سامنے موجود ہو۔” حسن مجتبٰی نے خلوص سے کہا مگر اسکی گہری بھوری آنکھوں سے جھانکتی شرارت نے افہام کو تپا دیا۔
“اور حسن مجتبٰی کی ڈریم گرل کون ہے؟” اسنے لبوں کو بھینچ کر سوال کیا۔
وہ کوئی جواب دینا چاہتا تھا کہ اسکا فون بجنے لگا۔اسکرین پر نظر ڈالتے ہوئے اسکے تاثرات مؤدب ہو گئے۔
“آنٹی ہیں؟” افہام نے اندازہ لگایا ۔اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسنے کال اٹھا لی۔
“وکی! آنٹی کو میرا سلام کہہ دو۔”اسنے سرگوشی کرنے والے لہجے میں کہا تو اسنے اسے اشارہ کیا کہ وہ ممی کو کہہ دیگا۔
“ہیلو ممی! آج میرا انتظار مت کریں ۔مجھے آنے میں دیر ہو سکتی ہے ۔”
“واٹ؟ ممی کیا کہہ رہی ہیں آپ؟” وہ تیزی سے کہتا کھڑا ہوا تو افہام بھی بوکھلا کر سیدھا بیٹھ گیا ۔اسے وکی کے چہرے پر پریشانی نظر آ رہی تھی اور اب وہ بائیں ہاتھ سے پیشانی مسلتا فون پر سوالات کر رہا تھا ۔
فون بند کرتے ہوئے اسنے دایاں ہاتھ پہلو میں گرایا اور بے رنگ چہرے کے ساتھ افہام کو دیکھا۔
“کیا ہوا ہے؟” اسنے پوچھا تو وہ بے بس انداز میں لبوں پر زبان پھیر کر رہ گیا ۔
“کیا ہوا ہے وکی؟” اس بار اسنے اسکے دونوں شانوں پر مضبوطی سے اپنے ہاتھ جمائے۔
وکی نے اپنا سر اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھے اسکے ہاتھ دیکھے اور گہری سانس لی۔جیسے اسے کچھ حوصلہ ہوا تھا ۔
” میری بہن… پری پانچ گھنٹوں سے غائب ہے ۔اکیڈمی سے واپس نہیں آئی ہے…”
“تو ایک دفعہ اکیڈمی میں کال کرو۔”اسکے برعکس وہ بالکل پریشان نہیں ہوا تھا ۔
“ممی نے کال کی تھی ۔وہ وہاں سے چھٹی ہونے کے پہلے ہی نکل گئی تھی ۔کسی نے اسے کال کر کے بلایا تھا۔”
“ٹھیک ہے اسکی ساری فرینڈز کو کال کرتے ہیں ۔”اسنے کہا ۔وہ اب بھی اسکے شانے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔
” ممی کر چکی ہیں ۔کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ کس کی کال پر باہر گئی۔افہام میں کیا کروں؟ کدھر ڈھونڈوں اسے؟ “وہ بہت نا امید نظر آ رہا تھا ۔
” کیا ہو گیا ہے یار! تم اتنی جلدی مایوس کیسے ہو سکتے ہو؟ میرا وکی تو اتنی جلدی کبھی پریشان نہیں ہوتا ہے ۔وہ تو ہر مسئلے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکا حل نکالتا ہے۔”وہ اسکی بھوری آنکھوں میں جھانکتا مضبوط لہجے میں کہہ رہا تھا ۔”ہم ڈوھنڈینگے پری کو۔وہ مل جائیگی۔”اسنے کہا مگر ایک جھٹکے سے حسن نے اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا ۔اسکی بھوری آنکھوں میں اس وقت نا ہی پریشانی تھی اور نا ہی وہ مایوس لگ رہا تھا ۔افہام نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ شرمندہ نظر آ رہا تھا ۔ہاں وہ نادم لگ رہا تھا ۔وہ اسے دائیں ہاتھ سے دھکا دیتا اندر جانے لگا تو افہام نے تیزی سے آگے آتے ہوئے اسکا بازو سختی سے پکڑا۔
“ڈونٹ ٹیل می وکی کہ تم آبش کو…” اسنے بے یقین لہجے میں کہتے ہوئے اپنا جملہ ادھورا چھوڑا ۔
“ہاں میں آبش کو چھوڑنے جا رہا ہوں ۔” اسنے سرد انداز میں اسکی بے یقینی کو یقین دلایا ۔
“تم پاگل ہو گئے ہو۔اگر پری نہیں مل رہی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ آبش کو چھوڑ دینے سے وہ مل جائیگی۔”
” مجھے چھوڑ دو افہام ۔میں جو کر رہا ہوں مجھے وہ کرنے دو۔” اسنے جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کرایا ۔افہام نے یکدم پوری قوت سے ایک مکا اسکے منہ پر دے مارا ۔حسن مجتبٰی نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنا سر جھٹکا ۔
” میں تمہیں یہ پاگل پن نہیں کرنے دے سکتا۔جاؤ تم پہلے سکون سے پری کو ڈھونڈو۔مجھے یقین ہے کہ وہ کسی دوست کی طرف چلی گئی ہے ۔مگر میں تمہیں یہ نہیں کرنے دے سکتا۔” وہ اسکا کالر پکڑے اسے دیوار سے لگائے ہر لفظ پر زور دیتا کہہ رہا تھا ۔
“” افہام! لیٹ می گو۔”اسنے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا مگر وہ کوئی مزاحمت نہیں کر رہا تھا ۔اسکے ہونٹ سے رستے خون کو دیکھ کر افہام کی گرفت ڈھیلی ہوئی۔اسنے اسکا کالر چھوڑا اور اپنی جیب سے رومال نکال کر اسکے لبوں پر رکھا۔
” وکی! “اب کی وہ بولا تو اسکا لہجہ نرم تھا۔” ہم نے اتنی پلاننگ کی ہے ۔اتنی محنت کی ہے ۔اس پلان کے لئے خود کو خطرے میں بھی ڈال چکے ہیں تو پھر تم پیچھے کس طرح ہٹ سکتے ہو؟”
“آبش کسی کی بیٹی ہے، کسی کی بہن ہے۔دوسروں کی بہنوں کو رسوا کرنے کے بعد میں اپنی بہن کی بہتری کی توقع کروں تو یہ تضاد ہوگا نا۔پری کو تلاش کرتے وقت میرے ذہن میں یہی سوچ رہیگی کہ آبش کے گھر والے بھی اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہے ہونگے۔اور اگر زندگی میں کبھی بھی پری کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو میں یہی سوچ کر پاگل ہو جاؤنگا کہ میرا مکافات عمل میری بہن کو سزا دے رہا ہے ۔”اسکے الفاظ میں پختگی تھی اور آنکھوں میں مضبوطی تھی۔
” آبش جنکی بیٹی ہے انہوں نے تمہاری پھپو کے ساتھ جو کیا ہے کیا اسے تم بھول گئے ہو حسن مجتبٰی؟ اٹھارہ سالوں سے تمہیں اپنی پھپو کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں؟ تمہیں اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ کریم یزدانی نے انکے ساتھ کیا کیا ہوگا؟ کیا یہ سب تم نظر انداز کرنا چاہتے ہو؟ “اسنے کہا مگر اب اسکے لہجے میں بھی تندی نہیں تھی۔
حسن نے لب بھینچے سرخ آنکھوں کے ساتھ اسکی پوری بات سنی۔” میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔لیکن آبش کے جذبات سے کھیلنے کے بعد اب میں دوسری غلطی نہیں کرنا چاہتا ۔”وہ کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا ۔
” رکو وکی! آبش میری کزن ہے ۔اسے کس طرح ہینڈل کرنا ہے مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ۔ورنہ وہ تمہارے لئے مشکلات کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیگی۔”اسنے کہا تو حسن رک گیا ۔افہام اپنے سیاہ کوٹ کا کالر درست کرتا ہوا آبش کے کمرے کی طرف جا رہا تھا ۔
اہبے انتقام کے راستے میں آنے والی آزمائش کو ان دونوں نے گزار لیا تھا۔وہ ایک بھیانک غلطی کرنے سے بچ گئے تھے ۔
– – – – – – – – –
دیوار سے پشت لگائے وہ دونوں گھٹنوں کو موڑے بیٹھی ہوئی تھی ۔اسکی پلکیں ساکت اور چہرہ بالکل سفید تھا۔وہ شل سی خلا میں گھور رہی تھی ۔اسکے ذہب میں اس وقت پچھتاؤں، ندامت اور بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔کاش اسنے ڈیڈی کی بات مان لی ہوتی۔یوں وہ حسن مجتبٰی کے دکھائے راستے پر اندھوں کی طرح نا چل پڑی ہوتی۔یکدم دروازہ کھلا اور سیاہ سوٹ میں ملبوس افہام اندر داخل ہوا۔اسے سامنے دیکھ کر آبش کی غلافی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں ۔افہام چلتا ہوا اسکے قریب آیا اور بالکل اسکے سامنے دو زانو بیٹھ گیا ۔اسکے ساکت وجود میں حرکت ہوئی اور وہ اسکے بازو پر سر رکھے بے اختیار رو پڑی۔ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان وہ نا جانے کیا کہہ رہی تھی ۔اسکے سر کو دھیمے دھیمے تھپکتے ہوئے افہام نے سیاہ لباس میں ملبوس اس مغرور شہزادی کو دیکھا جسکا سارا غرور، ساری انا اور گھمنڈ کچھ گھنٹوں میں ہی مٹی ہو چکا تھا ۔اسے خود سے لگائے اسے اسنے رونے دیا۔تھوڑی دیر بعد جب اسکے آنسو تھمے تو اسنے پوچھا کہ اسنے اسے کہاں سے ڈھونڈا تو جواباََ اسنے یہی بتایا کہ وہ اس کار کو ٹریس کر کے یہاں آیا ہے۔
“افہام میں ڈیڈی کو بتاؤنگی کہ میرے ساتھ یہ سب کس نے کیا ہے؟ پھر تم میرے ڈیڈی کو جانتے ہو نا وہ حسن مجتبٰی کی زندگی اتنی مشکل بنا دینگے کہ…”
“تمہاری بات پر کون یقین کریگا؟” اسنے سختی سے اسکی بات کاٹی تو آبش نے اسکے بازو پر رکھا اپنا سر اٹھا کر اسے حیرت سے دیکھا۔
” ہاں! تم نے بالکل صحیح سنا ہے ۔تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ حسن مجتبٰی نے تمہیں قید کیا تھا؟ کیونکہ وہ بیوٹیشین اور پارلر کے آس پاس کے دس لوگ یہ گواہی دینگے کہ تم اپنی مرضی سے کار میں بیٹھی تھیں ۔” اسنے کہا ۔
“میرے پاس اسکی کال ریکارڈز اور میسیجز ہیں ۔”
“اچھا دکھاؤ کہاں ہے تمہارا موبائل؟ “اسنے اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تو آبش کا چہرہ زدر ہوا۔
” موبائل تو وہیں کار میں… ”
” تب تو سارے ریکارڈز ڈیلیٹ ہو گئے ہونگے۔اور تمہیں لگتا ہے کہ تم بغیر کسی ثبوت کے اس جیسے نامور رپورٹر پر الزام لگاؤگی تو تمہارا یقین کر لیا جائیگا۔نہیں آبش ڈئیر! “اسنے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔”ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ تم ایک دفعہ اپنی زبان سے حسن مجتبٰی کا نام لو اور تمہارے سامنے ایک ایسا لڑکا آ کر کھڑا ہو جائے جسے تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔اور وہ کہے کہ اسکے کہنے پر تم اپنی شادی کو چھوڑ کر بھاگی تھیں ۔پھر سوچو کہ کیا ہوگا؟ تمہارے ڈیڈی جنہوں نے آج فنکشن میں پوری منسٹر کیبنٹ سمیت کئی نیوز چینلز کو بھی بلایا ہے انکی عزت کا کیا ہوگا؟ انکی ریپوٹیشن، انکی ویلیو اور جس خاندان سے تمہارا رشتہ جڑنے والا اس خاندان سے انکے تعلقات. ان سب کا کیا ہوگا؟ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا پہلے تو ہیڈ لائنز لگینگی ۔ہے ناں؟ اور تم… “ایک لمحہ کے لئے رک کر اسکا زرد چہرہ دیکھا ۔” اور تمہاری زندگی تو سوالیہ نشان بن جائیگی۔تمہارا اسکینڈل تمہیں کہیں چہرہ دکھانے لائق نہیں چھوڑیگا۔کوئی اچھا خاندان تمہیں اپنا حصہ نہیں بنائیگا۔اور تمہارے ڈیڈی جن پر تمہیں بہت زعم ہے وہ بھی تمہارا ساتھ نہیں دینگے۔تمہارے اوپر سے انکا اعتبار ہمیشہ کے لئے اٹھ جائیگا ۔”وہ بغیر رکے بے رحمی سے بولے جا رہا تھا ۔اور آبش نے افہام کی طرف دیکھا ۔اسے زندگی میں پہلی دفعہ افہام حیدر کی آنکھوں سے خوف آیا تھا ۔
” افہام… افہام تم تو مجھ پر یقین کرتے ہو نا؟ تمہیں تو حقیقت معلوم ہے ۔میں حسن مجتبٰی کا نام نہیں لونگی.. مگر تم مجھ سے شادی کر لو۔مجھے اپنی زندگی کا حصہ بنا لو۔تم جانتے ہو نا ڈی ڈی گروپ میں میرے بھی شئیرز ہیں ۔” وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے بولی۔اسکے لہجے میں ضد تھی… عدم تحفظ کا احساس تھا۔
افہام نے نچلا لب دباتے ہوئے اپنا سر جھٹکا۔وہ کریم یزدانی کی بیٹی تھی۔ہر معاملے، ہر مسئلے میں اپنے مفاد کو پیش نظر رکھنے والی، کسی بھی مشکل میں آنے سے پہلے اپنے لئے محافظت ڈھونڈنے والی۔
“تمہیں یاد ہے آبش! ایک دفعہ میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر تم دنیا کی آخری لڑکی بھی ہوگی تب بھی میں تمہارا انتخاب نہیں کرونگا ۔” اسنے ٹھنڈے لہجے میں کہا تو آبش کے ہاتھ آہستہ سے اسکے ہاتھ سے ہٹے ۔
“ابھی دیر نہیں ہوئی ہے ۔بارات تین گھنٹے لیٹ ہے۔اسلئے اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔گھر پر تم نے کیا کہنا ہے یہ تم خود سوچوگی کیونکہ حقیقت بتانے پر وہی ہوگا جو میں تمہیں بتا چکا ہوں ۔”اسے ہدایت دیتے ہوئے اسنے اسکے سر پر ٹکا دوپٹہ درست کیا اور اسکا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا ۔وہ مردہ قدموں سے گھسٹتی اسکے پیچھے بڑھ گئی تھی۔اسی وقت افہام کے موبائل پر وکی کا میسج آیا کہ پری اسے بخیریت مل گئی ہے ۔اسکے چہرے پر سکون آ گیا تھا ۔
– – – – – – – – –
آبش کی شادی بغیر کسی ہنگامے کے وقوع پذیر ہو گئی تھی ۔افہام کی دی گئی بلا واسطہ دھمکیوں کی وجہ سے اسنے اپنے ڈیڈی کو کچھ نہیں بتایا تھا ۔وہ اس وقت اپنے کمرے میں آرام دہ انداز میں بیٹھا تھا کہ اسکا موبائل بجا۔چونک کر اسنے اسکرین پر نظر ڈالی ۔اس پر “انابہ کالنگ” لکھا آ رہا تھا ۔
– – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...