لکھنؤ کے ایک پرانے محلّے میں ہمارے کچھ عزیز رہتے تھے یا رہتے ہیں کیونکہ بقول بشیر بدرؔ ؎
انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں
یہ کافی پہلے کی بات ہے اس محلے میں ایک بہت بڑا پھاٹک ہوا کرتا تھا۔ جس کے اوپر دونوں طرف پتھر کی بڑی بڑی مچھلیاں بنی تھیں۔ پھاٹک کے کونوں میں اتنی جگہ تھی جیسے کہ چھوٹے چبوترے جن پر بیٹھ کر ہم اور رخسانہ گُٹّے کھیلتے تھے۔ پھاٹک کے اندر سامنے بہت بڑا کچّا صحن تھا اور بائیں ہاتھ کی طرف بہت بڑی صحنچی اور کئی دروں کے دالان تھے غالباً پرانے زمانے میں کسی نواب کا زنان خانہ رہا ہو گا اس کی بناوٹ کچھ ایسی ہی تھی۔ اس میں پورا محلہ بسا ہوا تھا۔ داہنی جانب ایک راستہ تھا جس میں دونوں طرف کچھ گھر بنے تھے جو نسبتاً اچھے تھے اور اس میں متوسط طبقے کے لوگ رہتے تھے۔
ان گھروں میں ایک گھر آمنہ خالا کا تھا۔ آمنہ خالا ہماری دور کی رشتہ دار تھیں اماں کے رشتہ کے ماموں یا چچا کی بیٹی اس رشتہ سے ہم انھیں آمنہ خالا کہتے تھے۔ ان کا گھر کافی بڑا اور کھلا کھلا سا تھا۔ خوب بڑا سا صحن جس میں لال اینٹوں کا فرش ایک طرف نیچی سی دیوار جس میں داخلی دروازہ دوسری طرف دالان اور ایک طرف بڑے بڑے دو کمرے اور کچن۔ آنگن کے ایک کونے میں امرود کا پیڑ بھی ابھی تک یاد ہے۔
کچن کا فرش سمینٹ کا تھا بے حد چکنا اور صاف شفاف۔ کئی صاف ستھری پیڑھیاں رکھی تھیں۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ مٹی کے لپے پتے چولھے پر آمنہ خالا باریک چپاتیاں پکا رہی ہوتیں اور بے تکان اماں سے باتیں کرتیں ہم اور رُخسانہ تام چینی کی پھول دار پلیٹوں میں وہیں پیڑھی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ ارہر کی بگھری دال اور سفید موتی جیسے چاول۔ کیا ذائقہ تھا آمنہ خالا کے ہاتھ میں اس کے بعد آج تک وہ ذائقہ نصیب نہ ہوا۔
آمنہ خالا اچھی خاصی تندرست خاتون تھیں سرخ سفید رنگ‘ ناک کے پاس ایک موٹا سا مسّہ بے حد گھنے گھونگھروالے بال جنہیں وہ ایک ربر بینڈ میں قید کرتیں مگر چہرے پر بکھر بکھر آتے۔ خالو دبلے پتلے اور بےحد مسکین تھے وہ اکثر آمنہ خالا سے جھڑکیاں کھایا کرتے مگر خاموش رہتے۔ ان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ اس دن کافی گرمی تھی لائٹ ہمیشہ کی طرح غائب تھی ہم اور رخسانہ گھرکے باہر کچے صحن میں کھیل رہے تھے تبھی بڑے زور کی بارش شروع ہو گئی اس شدید گرمی کے بعد وہ بارش خدا کے حسین تحفے کی طرح ہم نے ہاتھوں اور سروں پر لی خوب بھیگ بھیگ کر اُسی پانی میں کھیلتے رہے کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔ اماں نے کئی بار دروازہ کھول کر ہم کو ڈانٹا اور کہا کہ نہا کر کپڑے بدل لو مگر کون سنتا ہے شام کا اندھیرا چھانے لگا تو دل بری طرح گھبرایا اسی وقت اماں اور آمنہ خالا گھر سے نکلیں خوب عمدہ کپڑے پہنے اس پر برقعہ اوڑھے وہ دونوں کہیں جا رہی تھیں۔
’’ہم بھی جائیں گے۔ ‘‘ ہم اور رخسانہ ان کے پیچھے دوڑے۔
مگر وہ دونوں رکشہ میں بیٹھ کر آگے چلی گئیں ہم بے تحاشہ ان کے پیچھے دوڑتے رہے مگر رکشہ تیز ہوتا گیا ہم دونوں روتے رہے اور رکشے کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے پھر اماں نے نقاب اٹھا کر ہمیں ڈانٹا۔
’’پہلے کہا کہ نہا کر کپڑے بدل لو تو نہیں بدلے اب گھر جاؤ واپس۔ ‘‘
رکشہ بہت آگے چلا گیا ہم روتے ہوئے گندے سندے گھر آئے اور بغیربستر کی چار پائیوں پر لیٹ کر سو گئے ہم کو زور کا بخار چڑھا تھا کب اماں آئیں کب اٹھا کر ہمیں دودھ پلایا دوا کھلائی کچھ یاد نہیں صبح جاگے تو طبیعت بہتر تھی۔
دوسرے دن ہم لوگوں کو واپس جانا تھا۔ آمنہ خالا صبح سے تیاریوں میں مشغول تھیں کئی چیزیں انھوں نے ہمارے ساتھ کیں ہمیں نئی فراکیں بھی دیں۔ رات کے کھانے میں بے حد اہتمام کیا اورساری دوپہر کچن میں مصروف رہیں موسم نسبتاً اچھا تھا آنگن میں پلنگوں پر سفید چادروں کے بستر بچھا دئیے گئے تھے ہم اور رخسانہ ایکبستر سے دوسرے بستر پر کود رہے تھے اور چادر خراب ہونے کی وجہ سے اماں ہمیں مسلسل ڈانٹ رہیں تھیں۔ آنگن میں بڑی سی میز پر دسترخوان بچھایا گیا اور آس پاس کر سیاں لگا کر کھانے کا اہتمام کیا گیا سبھی بہن بھائی پلنگوں پر کرسیوں پر بیٹھے ہنس رہے تھے باتیں کر رہے تھے خوب لطیفے سنائے جا رہے تھے آج خالو بھی کافی دنوں کے بعد سب کے ساتھ آ کر بیٹھے اور اماں سے باتیں کر رہے تھے ہم اور رخسانہ بھی بچھڑ جانے کے خیال سے گھبرا رہے تھے اور نہ جانے کیا کیا عہد و پیماں کر رہے تھے۔ عشرت باجی اور رفعت باجی نے کھانا ٹیبل پر لگانا شروع کیا تو ہم اور رخسانہ دوڑ دوڑ کر پلیٹیں چمچ گلاس وغیرہ لگانے لگے۔ پلاؤ کباب قورمہ سلاد سبھی چیزیں تقریباً آ چکی تھیں۔ آمنہ خالا شاہی ٹکڑے نکال رہی تھیں اور مستقل باتیں کئے جا رہی تھیں تبھی ایک عجیب واقعہ ہوا۔
دروازے کی زنجیر کسی نے کھٹ کھٹائی افضال بھائی نے بڑھ کر دروازہ کھولا ایک صاحب ایک دم سے اندر آ گئے انھوں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔ لمبا قد خوبصورت گورے چٹّے سے آدمی تھے عمر میں شاید افضال بھائی کے برابر ہی کے ہوں گے یا شاید چند برس بڑے ہوں گے سفید کرتا پائیجامہ پہنے ہوئے تھے اس پر سُرمئی رنگ کی کافی قیمتی لیکن میلی سی شیروانی بھی پہنی تھی پیروں میں چمڑے کے بد وضع جوتے تھے جو ان کے خوبصورت پیروں میں بالکل سوٹ نہیں کر رہے تھے۔
وہ بغیر ایک بھی لفظ بولے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے اور پلیٹ میں کھانا نکالا اور جلدی جلدی کھانے لگے ان کی انگلیاں بے قراری سے کپکپا رہی تھیں مگر کھانا وہ بے حد تمیز سے کھا رہے تھے۔ سب لوگ ہکا بکا کھڑے تھے مگر ان کی شخصیت ایسی تھی کہ کسی کی ہمت نہیں تھی کہ ان سے کچھ کہے یا انہیں گھر سے نکالے۔ ایک طرف خالو خاموش کھڑے ان کو کھانا کھاتے دیکھ رہے تھے دوسری طرف اماں مبہوت تھیں انھیں اس وقت پردے کا بھی بالکل خیال نہیں تھا۔ خالا اپنی دھُن میں بولتی ہوئی شاہی ٹکڑے لئے ہوئے کچن سے بر آمد ہوئیں اور ’’اوئی بیوی‘‘ کہہ کر وہیں رک گئیں۔
کھانا کھا کر ان صاحب نے جگ اپنی طرف کیا اور گلاس میں پانی انڈیلنے لگے اس درمیان بھی انھوں نے کسی طرف نہیں دیکھا کئی گلاس پانی پی کر وہ کھڑے ہو گئے اور پھر انھوں نے سب کی طرف دیکھا اور خالو کی طرف بڑھ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گئے خالو گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹے تو انھوں نے خالو کے قدم تھام لئے …اور آنسوؤں بھری آواز سے بولے :
’’اب آپ مجھے کوئی بھی سزا دیجئے یا پولیس میں دے دیجئے …یا پھر معاف کر دیجئے میں آپ کے سامنے ہوں۔ میں پانچ دن سے مارا مارا پھر رہا ہوں پہلے بھُنے چنے تھے تین دن پہلے وہ بھی ختم ہو گئے بھوک سے میرا بُرا حال تھا گدا گری میرا پیشہ نہیں اور محنت کرنا مجھے آتا نہیں ہے اپنے اجداد کا نام بتا کر میں ان کی روحوں کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا…ہو سکے تو میری اس جسارت کو معاف کر دیجئے گا۔ ‘‘
ان کی زبان ان کا لہجہ ان کا انداز، ہر ایک فرد رقّتِ آگیں تھا اماں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا تھا اور آنسوؤں سے چہرہ تر تھا آمنہ خالا کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ خالو نے انھیں دونوں شانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور کرسی پر بٹھا لیا ان سے کچھ اور کھانے کی درخواست مگر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ’’اجازت چاہتا ہوں ‘‘ کہہ کر دروازے کے اندھیرے میں گم ہو گئے۔ سب لوگ چند منٹ تک سناٹے میں کھڑے رہے کسی کو کھانا کھانے کا ہوش بھی نہیں رہا سبھی کے ذہنوں میں معصوم صفت غریب لیکن بے حد شریف شخص کے دل پذیر الفاظ گونج رہے تھے اور رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔
آج بھی جب کبھی گھر میں دعوت کا اہتمام ہوتا ہے تو میری نظریں اچانک دروازے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ نہ جانے کیوں ……؟
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...