واچ مین نے گیٹ کھولا تو پجارو برق رفتاری سے پورچ میں داخل ہوئی۔۔ یاسر خان زادہ پجارو سے نکلے اور خان زادہ ہاوس میں داخل ہوئے۔۔۔ انھیں دیکھتے ہی ایک ملازم نے اگے برھ کر ان کا بریف کیس اور کوٹ تھاما جبکہ دوسرے ملازم نے پانی کا گلاس اگے کیا ۔۔ مخملی کارپیٹ پر وہ جوتوں سمیت لاونج میں داخل ہوئے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاری سی من موہنی صورت ، میدہ جیسی صاف رنگت، چمکتی ہوئی انکھیں ،کٹے ہوئے بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے جنھیں وہ بار بار ہٹا رہی تھی مخروطی انگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ پر حرکت کررہیں تھیں نازک سراپہ بلاشبہ پری کی مانند لگتی تھی ہاتھ لگانے سے میلی ہوجائے۔۔۔۔
سحرش صوفہ پہ بیٹھی ہوئی انہماک سے گیم میں مصروف تھی ۔۔۔۔
Sehar my child how are you ?????
Ohhhhh…. dad what a pleasant surprise????
سحرش نے یاسر خان زادہ کی آواز پر گردن موڑ کر دیکھا اور چہکتی ہوئی ان کے گلے لگی۔۔۔۔۔۔
ڈیڈ اپکو میں نے کتنا مس کیا اتنے لمبے ٹور پر گئے ہوئے تھے آپ ؟؟؟
سحرش نے لاڈ سے شکوہ کیا۔۔۔۔
“اوہ ۔۔۔ میرا بیٹا کل کا پورا دن آپکا ۔۔۔ کل ہم شوپنگ پر جائیں گے گھومیں گے اور ڈنر بھی ”
“اوہ۔۔۔۔۔ ڈیڈ آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔”
ہممم چلو میں ذرا فریش ہوجاوں ۔؟؟
یاسر سحرش کا گال تھپتھپا کر کمرے میں چلے گئے اور وہ دوبارہ لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگئ۔۔۔۔۔۔۔۔
خان زادہ ہاوس کی بنیاد برسوں پہلے عبدالرحمن صاحب نے پنجاب کے ایک گاوں میں رکھی تھی شادی کر کے وہ وہاں آباد ہوگئے تھے گاوں کو آباد کرنے کیلئے وہاں اسکول ، پسپتال بنائے ۔۔۔ یوں گاوں کا پوش علاقہ آباد ہوا وہاں کا سردار بھی لوگوں نے ان کی کارکردگی نیکی اور نرم مزاجی کو دیکھ کر منتخب کیا تھا ۔۔۔۔۔منتوں مرادوں سے یاسر دنیا میں آئے تھے چونکہ اکلوتے تھے اس لیے عبدالرحمن کے بعد انھیں ہی گددا نشین ہونا تھا اس لئے ان کی تربیت نوابوں جیسی ہوئی تھی عیش وعشرت میں پلنے والے یاسر ضدی اور مغرور ہوگئے تھے۔۔۔ بچپن میں ہی عبدالرحمن صاحب نے اپنی بھانجی(عالیہ) سے یاسر کی نسبت طے کردی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
عبدالرحمن کی وفات کے بعد یاسر خان زادہ پنچائیت کے مشترکہ فیصلہ سے گدی نشین بنے۔۔۔
یوں گاوں کہ چھوٹے بڑے فیصلے یاسر کی معیشیت میں طے پانے لگے۔۔۔۔
منشی عالم یہ لڑکی کون ہے؟؟؟
“خان صاحب یہ اپنے ملک نواز کی پوتی ہے رب نواز اس کا بھائی ہے ”
“ہممم ۔۔۔۔۔۔”
منشی عالم یاسر کا مشیر تھا ہر وقت اس کے سائے کی طرح ساتھ رہتا تھا ۔۔
“منشی عالم تم ایسا کرو حویلی کا چکر لگا آو میں یہیں ہوں۔۔”
“جی خان صاحب جو حکم ۔۔۔۔”
یاسر خان زادہ کی لڑکی کو دیکھ کر نیت خراب ہوگئ تھی تھا بھی وہ آوارہ طبیعت کا مالک ۔۔۔۔
وہ میانی چال چلتا ہوا اسکے قریب آیا !
اے لڑکی تمہارا نام کیا ہے ؟؟؟
تم کون ہو ہم تم کو اپنا نام کیوں بتائیں ؟؟
“میں کون ہوں یہ چھوڑو بس اتنا جان لو کہ تم ہمارے من کو بھاگئ ہو۔۔۔”
یاسر نے مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا :
نگین نے گھبرا کر اپنی چندری سےچھپے ہوئے منہ کو اور چھپایا اب صرف اسکی بھوری انکھیں ہی دکھ رہی تھیں –
“عورت کو اللہ نے یہ خوبی دی ہے کہ وہ مرد کی نیت کو پہچان لیتی ہے۔ جبکہ یاسر کے سامنے عقل و شعور رکھنے والی پڑھی لکھی اور بالغ لڑکی کھڑی تھی تو وہ اسکی نیت کے کھوٹ کو کیسے نہ پہچانتی۔۔۔۔”
“ہم اجنبی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے “۔
وہ یہ کہہ کر اگے بڑہی ہی تھی کہ یاسر نے اسکی کلائی پکڑلی۔۔۔ وہ جو اگے قدم بڑھا چکی تھی یاسر کے ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھیچنے سے لڑکھڑا کر اسکے سینے سے لگی چندری سر سے پھسل گئ تھی ۔۔۔
یاسر کی تو انکھیں اسے دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔ چاند سا مکھڑا گلابی ہونٹ بلاشبہ وہ نہایت حسین تھی۔۔۔۔۔
یاسر کی محویت کو نگین کے پڑنے والے ٹھپڑ نے توڑا تھا۔۔۔۔
” ہم تم جیسے آوارہ مزاج لڑکوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتے ۔۔آئیندہ کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑو تو یہ ٹھپڑ ضرور یاد کرلینا۔”
نگین کی اس حرکت نے یاسر کو مشتعل کردیا تھا وہ تو شکر تھا دوپہر کا ٹائم تھا سب کسان آرام کی غرض سے اپنی اپنی جھونپڑیوں میں تھے ۔۔۔۔اسکا ارادہ اس لڑکی کو گھسیٹ کر ڈیرہ پر لے جانے کا تھا کہ نسوانی آواز پر نگین پلٹ کر اس کی جانب بڑھ گئ۔۔۔ وہ شاید نگین کی ملازمہ تھی۔۔۔۔
وہ ٹھپڑ کی تپش ابھی بھی اپنے گال پر محسوس کررہا تھا نفرت کی ایک لہر اس کے رگوں میں سرائیت کرگئ ۔۔۔۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ڈیرے کی طرف نکل آیا ۔۔۔ جہاں اسکی عیاشی کا سامان موجود تھا ۔۔۔ اس نے شراب کی بوتل منہ سے لگائی اور آدھی سے زیادہ زہر مائل مسروب کو حلق میں اتارا۔۔۔۔۔۔۔۔
“منشی۔۔۔۔۔ منشی ۔۔۔۔ ”
اس کی آواز سن کر ایک ملازم بھاگتا ہوا آیا جو اس کے ڈیرے پر ہر وقت رہتا تھا۔۔۔
تو منشی ہے جو آیا ہے ؟؟؟
یاسر نے سرخ ہوتی انکھوں سے گھورتے ہوئے کہا :
صاحب جی۔۔۔۔ وہ تو حویلی۔۔۔۔ییی گیا ۔۔۔۔ہے؟؟
“تو بلاو اس کو ورنہ میں تم سب کو زمین میں گاڑ دوں گا”
“جی صاحب جی ابھی بلاتا ہوں”
ملازم گھبرا کر جلدی جلدی بولتا ہوا وہاں سے نکلا تھا ۔۔۔۔
اتنی دیر میں اس نے پوری بوتل چڑھا لی تھی ۔۔۔
پندرہ منٹ میں منشی عالم ڈیرہ پر موجود تھا ۔۔
کہاں مر گیا تھا تو ؟؟
یاسر نے ڈھاڑ کر شراب کی خالی بوتل دیوار پر ماری :
“صاحب جی اپنے ہی تو بھیجا تھا ”
“زبان چلاتاہے بے غیرت ادھے گھنٹے میں وہ لڑکی یہاں ہونی چاہیئے ورنہ تجھ سمیت تیرے بیوی بچوں کو بھی اوپر بھیج دوں گا ”
کککون سسسی لللڑکی صاحب؟؟؟؟
“وہی بھوری آنکھوں والی لڑکی جو آج پگڈنڈی پر دیکھی تھی ”
نگین صاحب جی ؟؟
“ہاں ہاں نگین۔”
پررررر صاحب جی وہ ایسی ویسی نہیں ہے اسکے باپ کو آپ جانتے تو ہیں ؟؟؟
“تجھ سے جتنا کہا ہے وہ کر دفع ہوجا یہاں سے۔”
منشی سر جھکائے ڈیرہ سے نکل کر سیدھا اپنے گھر آیا اور زور زور سے لکڑی کے دروازے کو پیٹا ۔۔
ارے کون ہے صبر کر آرہی ہوں۔؟؟؟