کہیں نہ کہیں ۔۔ کبھی نہ کبھی تو ساشہ کے دل میں بھی دھڑکن بن کر دھڑکا تھا وہ ۔۔۔۔۔ عجیب سی کیفیت کا شکار ہوتی وہ میشا سے نظریں چراتی پھر رہی تھی ۔۔۔ حالانکہ میشا کا دھیان اس پر نہیں تھا ۔۔۔ اسے تو الگ ہی وسوسے ستا رہے تھے کہ پارس نے نہ صبح سے کوئی چکر لگایا تھا ۔۔ نہ کسی کال اور میسج کا ہی جواب دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
ایک شخص چوبیس میں سے دس گھنٹے کسی نہ کسی طرح آپ کے سر سوار رہے اور اچانک ہی نظروں سے بلکل اوجھل ہوجائے تو وسوسے تو ستانے ہی تھے ۔۔۔۔!
“کس قدر گرا ہوا انسان ہے وہ ۔۔۔”
یہ ساشہ کا منان کے بارے میں خیال تھا ۔۔۔۔۔
“گھٹیا شخص لگا ہوگا کسی اور قسمت کی ماری کو شیشے میں اتارنے ۔۔۔۔ کب تک اپنے اصل سے کٹ کر رہ سکتا ہے ۔۔۔۔”
میشا بھی دل میں پارس پر کڑھتی سارے بہن بھائیوں پر بکتی جھکتی پھر رہی تھی ۔۔۔
“آ جائیں گے پارس بھائی ۔۔۔ انتظار کا نزلہ ہم پر نہ گرائیں ۔۔۔۔”
علیشہ صاف گوئی کی انتہا کرتے ہوئے میشا کے چپل اٹھا لینے پر دوڑ پڑی تھی ۔۔۔ پیچھے وریشہ اور تینوں بھائی پیٹ پکڑ کر ہنس پڑے تھے ۔۔۔۔
عجیب تھا نہ ۔۔؟ وہ دونوں بہنیں پریشان تھیں ۔۔۔۔۔۔ گم صم گم صم تھکی تھکی سی ۔۔ اور باقی سب کی ہنسی ہی نہیں تھم رہی تھی ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہانہ بنا کر ہنس پڑتے ۔۔۔۔
شائد کہ ایسی ذہنی بےفکری انہیں زندگی میں پہلی بار نصیب ہوئی تھی ۔۔۔
ہاں اب سے پہلے باپ کے بعد ساری ذمہ داریاں میشا نے اٹھائی تھیں ۔۔
مگر اسے دن رات تھکتا دیکھ کر ان سب کے ذہن و دل پر بھی بوجھ سوار ہو جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔
یہ احساس اور پریشان رکھتا تھا کہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔
لیکن اب ۔۔۔۔ !!
پندرہ دنوں میں جادو کر دیا تھا پارس نے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ آتا ۔۔ سب کو ہنساتا ۔۔ میشا کو مناتا ۔۔۔ چھوٹے موٹے ہر قسم کے کام کاج کی ذمہ داری اٹھا لیتا ۔۔۔۔
سب اندر سے بےفکر ہو گئے تھے ۔۔۔۔
پارس پر اعتبار نہ ہونے کے باوجود سب کے دل مان گئے تھے ۔۔۔۔ اور ہر وقت یہ دعا ان کے دلوں سے نکلتی تھی کہ پارس اس بار ان کا اعتبار نہ توڑے ۔۔۔۔۔۔
“اگر اس بار اعتبار توڑا تو ہم ٹوٹ جائیں گے ۔۔۔”
یہ باقی سب کا کہنا تھا ۔۔۔
“اس بار اعتبار توڑا تو ہڈیاں توڑ دوں گی میں اس کی ۔۔۔۔!!”
اور یہ جنگجو خیال میشا کا تھا ۔۔۔۔
خیر اس وقت تو اسے بس پریشانی ہی ستا رہی تھی ۔۔ اتنی پریشانی کہ اسے ساشہ کے پھیکے پڑتے چہرے پر بھی توجہ دینے کا خیال نہیں آیا تھا ۔۔
****************
رات کی تاریکی میں ہلکی سی خنکی بھی تھی ۔۔۔۔ کہیں سے آتی میٹھی میٹھی سی خوشبو طبیعت پر بہت خوشگوار اثر چھوڑ رہی تھی ۔۔۔
“پتا نہیں کس چیز کی خوشبو ہے ۔۔۔”
چھت پر بنے چبوترے پر بیٹھی وہ ہتھیلی پر تھوڑی جمائے ستاروں سے سجے آسمان پر نظریں ٹکائے اس وقت تمام پریشانیاں بھلائے ہوئے تھی ۔۔۔۔
اسے راتیں پسند تھی ۔۔
خامشوش خاموش ۔۔ کچھ کہتی ہوئی سی ۔۔۔۔۔
دل و دماغ رات کی تنہائی میں فعال ہوجاتے تھے ۔۔۔ اور اچھی بات یہ تھی کہ حالات کتنے بھی پیچیدہ صحیح ۔۔۔ اس وقت اس کے ذہن میں صرف خوش کن خیالات ڈیرہ جماتے تھے ۔۔!
شائد کہ اگلا دن خوشیوں کے در ان پر کھول دے ۔۔۔۔۔
شائد کہ امتحان ختم ہو جائیں ۔۔ اور صبر کا پھل مل جائے ۔۔۔۔
شائد ۔۔۔۔۔
وہ ہر رات کئی سارے “شائد” کی آس لیئے نیند کی وادیوں میں اتر جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔
نیند کے احساس سے اچانک ہی سر بھاری ہوا تو وہ سلکی سیاہ بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی پیچھے کو جھٹکتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔۔ چائے کا خالی کپ اٹھا کر وہ جونہی پلٹی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے اس ہیولے کو دیکھ کر چیختے چیختے رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
منہ پر ہاتھ رکھے وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
“تم ۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔؟ کیسے آئے ۔۔۔؟ ہمت کیسے ہوئی تمہاری یہاں آنے کی ۔۔۔۔؟”
بھڑک کر پوچھتی وہ کہیں سے بھی ڈری سہمی ساشہ نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔
“دروازے سے آنا چاہا تھا ۔۔۔ میشا نے اجازت ہی نہیں دی ۔۔ سو چھت پر چڑھا آیا ۔۔۔۔۔ اندازہ نہیں تھا تم یہیں مل جائو گی ۔۔۔۔”
سکون سے کہ کر منان اس کے شہد رنگ چہرے پر نظریں جمائے ہی چبوترے پر اس کی چھوڑی جگہ سنبھال چکا تھا ۔۔
“مگر تم آنا کیوں چاہتے تھے ۔۔۔؟
میش۔۔۔۔۔۔”
غصے سے پوچھ کر ساشہ نے میشا کو پکارنا چاہا تھا مگر منان نے اس کی کلائی تھام کر اسے پہلو میں بٹھا لیا تھا ۔۔۔
اس افتاد پر کپ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا ۔۔ رات کے سناٹے میں اچھی خاصی آواز پیدا ہوئی تھی ۔۔۔۔
جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑوا کر اس نے آگ اگلتی نظریں منان کے وجیہ چہرے پر ٹکا دی تھیں ۔۔۔
“کیا چاہتے ہو ۔۔؟”
“گھسا پٹا مگر سچا جواب دوں گا ۔۔۔۔ “تمہیں” ۔!
اس کی جگمگاتی نظروں میں نہ جانے کیا تھا کہ ساشہ نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔۔
“مجھے کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا اور ہاسپٹل سے بھاگ آئیں ۔۔۔۔۔۔”
“کیا کہنا تھا تمہیں اس وقت ۔۔۔۔؟ کہہ ہی کیا سکتے تھے تم ۔۔۔؟؟
کچھ کہنے کے قابل تھے ۔۔؟
میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں ۔۔ تم اس کے حوالے سے جھوٹ بھی نہیں بول سکتے ۔۔۔۔۔”
“میں بولوں گا بھی نہیں ۔۔۔۔”
ساشہ کے جتاتے انداز پر اس نے بھی جتا دیا تھا ۔۔۔
“دیکھو تم میرے لیئے کتنی خاص ہو ۔۔۔۔ میں تم سے غلط بیانی نہیں کروں گا ۔۔ تم مجھ سے سارے راز پا سکتی ہو ۔۔۔۔”
زبان سے تو منان نے یہ نہیں کہا تھا ۔۔ لیکن آنکھیں لہک لہک کر کہہ رہی تھیں ۔۔۔ ساشہ کو سمجھا رہی تھیں ۔۔ اس کی اہمیت کا ادراک کروا رہی تھیں ۔۔۔۔
کپ کے ٹکڑے کو اٹھا کر چہرہ دوسری طرف موڑ کر اس نے گویا اجازت دی تھی منان کو اپنی کہنے کی ۔۔۔
سکون کی طویل سانس بھرتا وہ سرگوشیانہ انداز میں بولتا چلا گیا تھا ۔۔۔۔
“مجھے نہیں پتا یہ محبت پیار وغیرہ کیا چیز ہیں ۔۔؟
ہاں سنا بہت ہے ۔۔۔۔۔ جو سنا ہے اس کو سوچا تو اندازہ ہوا ، میرے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔۔۔۔
ساشہ ۔۔! میری زندگی کا شائد ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب میں نے تمہیں یاد نہ کیا ہو ۔۔۔۔
تمہیں ایک جہنم سے دور رکھنا چاہا تھا میں نے ۔۔۔۔۔ اندازہ نہیں تھا دوسری طرف بھی ایک جہنم منتظر ہے تمہارا ۔۔۔۔۔!
مجھے صبا سے کوئی ہمدردی نہیں ۔۔ وہ بھی تمہارے مجرموں میں شامل ہے میری طرح ۔۔!
میں پھر بھی اسے سزا دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن تم چاہو تو تمہارے صدقے اسے اس جہنم میں داخل ہونے سے روک لوں گا ، حالانکہ وہ پوری طرح تیار لگتی ہے ۔۔”
آہستگی سے کہتا وہ ساشہ کے کھوئے کھوئے چہرے سے نظریں ہٹا گیا تھا ۔۔۔۔
“ساشہ ۔۔۔!! ساشہ میں اور پارس ایک دلدل میں دھنسے ہیں ۔۔ چاہیں بھی تو نکل نہیں سکتے ۔۔۔۔!
جتنا ہاتھ پیر مارتے ہیں اتنے ہی دھنستے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہاں اگر کوئی مدد کر دے تو ۔۔ تو ممکن ہے ہم اس دلدل سے نکل جائیں ۔۔۔۔”
بات ختم کر کے اس نے بہت آس سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔ لیکن ساشہ کا بےتاثر چہرہ اس کی وہ آس توڑنے لگا تھا ۔۔۔۔
بجھے چہرے کے ساتھ وہ جانے کے لیئے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے لگتا ہے تم مجھے معاف نہیں کرو گی ۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔
میرے لیئے یہ احساس ہی بہت ہے کہ کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ۔۔
کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی ۔۔
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ۔۔۔!”
زرا سا جھک کر اس کے کان میں گنگناتا وہ اس کے تڑپ کر اٹھ کھڑے ہونے پر دونوں ہاتھ معذرت خواہ انداز میں اٹھا کر دھیرے سے ہنستے ہوئے دیوار کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔
اسے دیوار پھلانگتے دیکھ کر ساشہ کا دل حلق میں اچھل آیا تھا ۔۔ لیکن وہ بس دل پر ہاتھ رکھے سر جھٹک کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
*****************
رات کے گیارہ بجے ہونے والی دستک پر اسے یقین تھا وہی آیا ہوگا ۔۔۔۔ اور دروازہ کھولنے پر اس کا اندازہ بلکل صحیح بھی ثابت ہوا تھا ۔۔۔۔
“آداب ۔۔۔”
چہک کر چڑانے والے انداز میں کہتا ہوا وہ جھلنگا پلنگ پر گر گیا تھا ۔۔۔۔
“اتنا پیارا چہرہ ہے ۔۔۔ کیوں اتنا برا بنا لیتی ہو مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔؟”
پڑے پڑے ہی چہرہ اس کی طرف موڑ کر وہ ایسے گلہ آمیز انداز میں بولا تھا جیسے ان کے تعلقات بہت خوشگوار ہوں ۔۔۔۔
اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے ۔۔ خود کو بہت روکنے کے باوجود بھی میشا نے کچھ جھجکتے ہوئے نظریں چراتے ہوئے پوچھ ہی لیا تھا ۔۔!
“کہاں تھے تم ۔۔۔۔؟؟”
پارس جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تھا ۔۔ میشا بےساختہ تین قدم پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔
“تم مجھے یاد کرتی رہی تھیں ۔۔۔؟”
بڑا اشتیاق تھا اس کے گمبھیر لہجے میں ۔۔۔
“نہیں دعا کرتی رہی تھی ۔۔۔”
“دعا ؟ سیریسلی ؟ میرے لیئے ۔۔؟”
اس بار پارس اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔ بس نہیں چل رہا تھا اسے شانوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ گھما ڈالتا ۔۔۔۔
“اس بیچاری کے لیئے ۔۔۔”
میشا کی پیشانی ہر سلوٹوں کا جال بچھا تھا ۔۔۔
“کس بیچاری کے لیئے ۔۔۔؟”
پارس کے کچھ پلے نہ پڑا ۔۔۔
“جسے آج سارا دن لگا کر آپ جناب شیشے میں اتار رہے تھے ۔۔۔”
اس کے پریقین انداز میں کچھ تھا کہ پارس اس سچ کو جھٹلا نہیں سکا تھا ۔۔۔۔
شانے اچکا کر وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پھر سے پلنگ پر گر گیا تھا ۔۔۔
اس کے جذبات میشا کے لیئے ضرور بدلے تھے لیکن وہ اب بھی وہی تھا ۔۔۔۔۔۔
کچھ وقت اس ماحول سے دور رہ کر اسے وہ سب برا لگنے لگا تھا ۔۔
یہ کچی پکی گلیاں ۔۔۔
یہاں بنا یہ چھوٹا سا گھر ۔۔۔۔
اس گھر میں بسے سادہ سے لوگ۔۔۔
ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ۔۔۔۔
چھوٹے چھوٹے غم ۔۔۔
یہ ماحول اسے راس آنے لگا تھا ۔۔ اپنا پن محسوس ہوتا تھا ۔۔۔۔
مگر ایک بار پھر اس ہی راہ کا رخ کر کے اسے اندازہ ہوا تھا وہ کبھی نہیں بدل سکتا تھا ۔۔!!
وہ تعفن زدہ ماحول اس کے اندر بس چکا تھا ۔۔۔۔۔
خدا جانے میشا نے کیسے اس تعفن سے بچ بچا کر اس کے دل تک رسائی حاصل کر لی تھی ۔۔۔۔؟
وہ میشا اور اس سے منسوب ہر چیز کو اس گندگی سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن خود نہیں بچنا چاہتا تھا ۔۔۔!
چنگھاڑتے فون نے اسے سوچوں کے جال سے نکالا تھا ۔۔۔۔
“مون کالنگ” دیکھ کر اس نے ایک نظر چائے لاتی میشا پر ڈالی تھی ۔۔ پھر کپ تھام کر زرا فاصلے پر جا کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
میشا کی گھوریاں محسوس کر کے اس کے لب پل بھر کے لیئے مسکرائے تھے ۔۔۔۔
“ہاں ۔۔۔؟”
“پارس دس منٹ کے اندر سب کو لے کر باہر گاڑی میں آئو ۔۔۔ دس منٹ کے اندر ۔۔۔۔ سب کو ۔۔۔!!!”
ایک ایک لفظ پر زور دے کر جلدی جلدی کہہ کر منان نے کال کاٹ دی تھی ۔۔۔
“ہیلو منان ہوا۔۔۔۔۔۔
کیا مصیبت ہے ۔۔ اب کیا ہو گیا ۔۔۔۔”
بڑبڑاتے ہوئے وہ میشا کی طرف پلٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
*****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...