اسے ڈیوٹی جوئن کیے دو دن ہوگئے تھے۔۔
مگر اسے ہر لمحہ ہر جگہ شفی کا عکس دیکھائی دیتا۔۔
اسے وہ دن یاد آئے جب وہ۔۔۔شرارتیں کرتے۔۔
ساتھ کھیلتے، ساتھ رہتے۔۔
بچپن سے لے کر جوانی تک وہ لوگ ساتھ رہے۔۔
اسے اکیڈمی کے وہ دن یاد آنے لگے۔۔
جب شفی اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔۔
“کیا ہمارا ساتھ بس اتنا سا تھا۔۔۔؟”
وصی کھلے آسمان کو گھور رہا تھا۔۔
“حور۔۔۔سب میری شادی حور سے کروانا چاہتے ہیں۔۔۔
میں کیسے کر سکتا ہوں یہ۔۔کوئی مجھے نہیں سمجھتا۔۔بس ایک تو تھا جو مجھے سمجھتا تھا۔۔میرا ایسا بھائی۔۔جو ایک بہت دوست بھی تھا۔۔شفی واپس آجا یار۔۔”
وصی نے نم آنکھوں سے دل میں کہا۔۔
اور ایک بار پھر سے اداسی اس پر چھانے لگی۔۔
وہ وارڈ روب سے کپڑے نکال رہی تھی۔۔
جب شائستہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔
“حور کیا کر رہی ہو؟”
وہ اسے دیکھ پوچھنے لگی۔۔
“کچھ نہیں مما۔۔بس کپڑے پریس کیے تھے۔۔وہی رکھ رہی ہوں۔۔”
حور نے مصروفیت سے جواب دیا۔۔
“حور۔۔چھوڑو یہ کام۔۔ابھی ٹھیک ہوئی ہو تم۔۔مجھے کہ دیتی۔۔”
وہ اس سے کپڑے لیتے ہوئے کہنے لگی۔۔
“میں کرلوں گی۔۔”
حور نے کہا
“تم یہاں بیٹھو۔۔مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے”
انہوں نے اسے صوفے پر بیٹھاتے ہوئےکہا ۔
حور نا سمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔
“حور ہم چاہتے ہیں تمہاری اور وصی کی شادی ہونائے۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
حور نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔
“میں نے وصی سے بھی بات کرلی۔۔ اگگلے مہینے۔۔کی تاریخ رکھی ہے سادگی سے نکاح کردیں گے۔۔
اسی لیے اب تم سے پوچھ رہی ہوں۔۔”
شائستہ بیگم نے اسے بتایا۔۔
وہ یک ٹک شائستہ بیگم کو دیکھ رہی تھی۔۔
“تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟”
انہوں نے پوچھا
“نہیں۔۔آپ پوچھ نہیں رہی مما۔۔آپ بتا رہی ہیں۔۔”
حور نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“اسے پوچھنا نہیں کہتے بتانا کہتے ہیں۔۔ پہلے آپ نے میری ناسمجھی کی عمر میں ہی مجھے شفی کے نام کردیا۔۔
جب کہ شفی کو کبھی مجھ میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔۔
پھر ۔۔پھر جب میں نے اور شفی نے سمجھوتا کرلیا تو۔۔۔”
حور کے گال پر دو آنسوں پھسلے۔۔
“اور اب آپ نے وصی سے شادی کی تاریخ بھی فکس کردی۔۔
تو اب کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔؟”
حور نے نم آنکھوں سے گلہ کیا
“حور۔۔۔میری جان۔۔ایسے تو مت کہو۔۔”
شائستہ بیگم نے اسے گلے سے لگایا
“میں تمہاری ماں ہوں۔۔۔کیا میں تمہارا برا سوچ سکتی ہوں؟”
شائستہ بیگم نے سوال کیا۔۔
وہ بس رو رہی تھی۔۔
“وصی اچھا لڑکا ہے۔۔شفی کے بعد مجھے نہیں لگتا میں تمہارے لیے وصی سے زیادہ اچھا کوئی لڑکا ڈھونڈ سکتی ہوں۔۔”
شائستہ بیگم نے پیار سے کہا
دن گزر رہے تھے۔۔۔
گھر والے نکاح کی تیاری کر رہی تھے۔۔
مگر وصی اور حور دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوچ نہیں پا رہے تھے۔۔
ایک پل میں ان کا سب کچھ بدل جاتا۔۔۔
وہ رشتہ جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا تک نہیں۔۔
آج عمر بھر کے بننے جارہا تھا۔۔
وصی کے دل میں صرف نور تھی۔۔اور شاید وہ جگہ وہ کسی کو دینا نہیں چاہتا تھا۔۔
وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا۔۔
سب کے فیصلے کے سامنے اس نے سر جھکایا تھا مگر یہ اس کے لیے بہت مشکل تھا۔۔
وہ ٹرین میں بیٹھا۔۔۔
سیٹ سے ٹیک لگائے سوچوں میں گم تھا۔۔
کل اس کا نکاح تھا۔۔
اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ گھر نا جائے مگر وہ سمجھوتہ کر چکا تھا۔۔
تبھی ٹرین رک گئی۔۔
آسمان پر گھٹا چھائی تھی۔۔کے بادلوں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا۔۔
ہوا بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔۔
آسمان کو دیکھ پتا چل رہا تھا کہ آج بارش برسنے والی ہے۔۔
وہ ہینڈل کو پکڑتا۔۔۔کاندھے پر بیگ لٹکائے۔۔ٹرین سے اترا۔۔
اس نے یہاں وہاں نظر دوڑائی۔۔
داہنی طرف دور سے اسے اس کا عکس دکھائی دیا۔۔
جو سادہ سے کاٹن کے سفید جوڑے میں دوپٹہ کاندھوں پر ڈالے۔۔بال کھلے ہوا میں اڑ رہے تھے۔۔وہ مسکراتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
اسے دیکھ وصی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
وہ کاندھے سے بیگ اتارتا۔۔اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔۔
تبھی اس لڑکی نے اپنی بانہیں پھیلائے اپنی طرف بلایا۔۔
اسے دیکھ وصی کے جوگرز نے جنبش کی۔۔
اور وہ بیگ زمین پر رکھتے ہی تیزی سے بھاگتا اس کی طرف جانے لگا۔۔
وہ اسی طرح مسکراتی اس کے لیے بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔۔
جیسے کتنی ہی دیر سے کھڑی اس کے آنے کا انتظار کر رہی ہو۔۔
اور دور کھڑی اس اپسرا کے عکس کو دیکھ اندھا دھند دوڑ رہا تھا۔۔
جیسے اس سے ملنے کو کچھ دن بھی صدیوں کی طرح تھے۔۔
اس کی محبت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔
وہ اس شدت سے بھاگ رہا تھا جیسے اس کی جدائی میں بہت تڑپا ہو۔۔ایک ایک پل سولی پر گزارا ہو۔۔
آنکھوں میں چمک لیے بھاگ رہا تھا۔۔
مگر وہ اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔۔۔
اور وہ چند ہی لمحوں میں بھاگتا وہ فاصلہ طے کر گیا۔۔
اس لڑکی کے قریب آکر ہانپتا ہوا رکا۔۔
نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
وہ ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔۔
وصی کی آنکھ سے آنسوں گرے۔۔
جو محبت کی شدت اس کے دل میں تھی وہ آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔۔
وصی نے کانپتا ہوا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔
وہ اسے چھونا چاہتا تھا۔۔
مگر ڈر تھا کہیں اسے چھوتے ہی وہ غائب نا ہوجا ئے۔۔
اور ایسا ہی ہوا۔۔
وصی نے جیسے ہی اسے چھوا۔۔
وہ یک دم غائب ہوگئی۔۔اب وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
بس وصی اور اس کے اندر پلتی تنہائی۔۔
“نور۔۔۔” اس کی زبان سے لفظ ادا ہوا۔۔
اور وہ اسے کھوجتا یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔مگر وہ نہیں تھی۔۔
چند لمحے وہ خاموشی سے وہیں کھڑا رہا۔۔۔
جانے اس کے دل میں کیا چل رہا تھا۔۔
“نور۔۔۔” وہ چیخنے کے ساتھ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔
پاس سے گزرتے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔۔
مگر وہ سب کی نظر سے بے پرواہ شدت سے رو رہا تھا۔۔
باش بھی تیز رفتار سے شروع ہوگئی تھی۔۔
جیسے آسمان بھی اس کے ساتھ رو رہا ہو۔۔
اس کے آنسوں بھی بارش کے ساتھ صلح کرنے لگے۔۔
کتنی ہی دیر وہ روتا رہا۔۔۔پھر یک دم اس کے سامنے حور کا معصوم چہرہ آیا۔۔۔
وہ آنسوں صاف کرتا اٹھا اور آگے بڑھ گیا…
مگر شاید زندگی میں آگے بڑھنا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔۔
وہ جب گھر پہنچا تو ددو اور ددا لان میں بیٹھے تھے۔۔
شاید بھیگے بھیگے موسم کا لطف اٹھانے۔۔
وہ لوگ چائے کپ ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے۔۔
وہ چلتا ہوا قریب آیا۔۔
“اسلام علیکم ددا” وصی نے کہا
“وعلیکم السلام۔۔” ددا نے اسے گلے لگایا۔۔
وہ بھی خوش دلی سے ان سے ملا۔۔
ددو نے اسے پیار کیا۔۔
“چلو۔۔تم فریش ہوجاؤ۔۔میں کھانا لگواتی ہوں”
ددو نے کہا۔۔
اور وہ اثبات میں سر ہلاتا اندر بڑھ گیا۔۔
وہ کمرے میں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی کہ شائستہ بیگم اندر آئی۔۔
ہاتھ میں ریڈ کلر کا ڈریس لیے۔۔
“حور۔۔۔یہ لو۔۔۔بیوٹیشن آگئی ہے۔۔”
انہوں نے بیڈ پر ڈریس رکھتے ہوئے کہا۔۔
“مما۔۔۔بیوٹیشن کو واپس بھیج دیں
میں خود تیار ہوناؤں گی”
حور نے سنجیدگی سے کہا
“کیوں؟۔۔۔حور میری بچی۔۔۔کیا بات ہے؟”
وہ اس کے قریب بیٹھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔
“کچھ نہیں۔۔”
حور نے سر جھکائے مختصر کہا۔۔
“تم وصی کے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے جارہی ہو۔۔
سب کچھ قسمت پر چھوڑ دو۔۔انشاءاللہ تم وصی کےساتھ خوش رہو گی۔۔”
انہوں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔
“تیار ہوجاؤ۔۔مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
اور اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
وہ سادہ سے کپڑوں میں چادر اوڑھے چل رہا تھا
رات کا وقت تھا ہر طرف اندھیرا تھا۔۔
وہ چلتا ہوا گیٹ کے قریب آیا۔۔
گیٹ پر لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا
روشنی دور تک پھیل رہی تھی۔۔
جب اس نے گیٹ سے اندر قدم رکھا۔۔
تو اسے ہر طرف گہما گہمی نظر آئی۔۔
گھر کو ہلکا پھلکا سجایا گیا تھا۔۔
خاص خاص مہمانوں کو بلایا گیا تھا۔۔
وہ حیرت سے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔۔
پھر آہستہ قدم رکھتا اندر داخل ہوا۔۔
تبھی مہمانوں نے اسے گھیر لیا۔۔۔
ددا ددو سب بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے۔۔
کتنے دنوں بعد انہوں نے اسے دیکھا تھا۔۔
سب اسے بہت پیار کر رہے تھے۔۔
وہ بھی ان سے مل کر کب سے ضبط کیے آنسوں بہانے لگا۔۔
شفی نے انہیں بتایا کہ وہ کس طرح دشمنوں کی قید سے رہا ہوکر واپس آیا۔۔
اس نے کتنی ععزیتیں برداشت کی۔۔
اس کے بازوں جگہ جگہ سے جلے ہوئےتھے۔۔
مگر اس نے اف تک نہیں کی۔۔وطن کے لیے جان قربان کرنا۔۔۔
انہیں اچھے سے سکھایا جاتا تھا۔۔
“میرے بچے نے بہت ظلم سہے ہیں۔۔”
ددو نے اسے گلے لگایا۔۔
“ددو میں کچھ دن اور وہاں رہتا نا۔۔۔میں مر جاتا۔۔۔”
شفی نے نم آنکھوں سے کہا
“اللہ نا کرے میرا بچہ۔۔۔اللہ تجھے لمبی عمر دے۔۔”
ددو نے اسے پیار کیا۔۔
تبھی وصی اندر داخل ہوا۔۔۔
اور تیزی سے آکر شفی کے گلے لگا۔۔۔
دونوں کی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے۔۔
“تو کہاں چلا گیا تھا یار۔۔مجھے چھوڑ کر”
وصی کی آواز بھر آئی۔۔
“پتا ہے وصی۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا وہاں۔۔۔ جیسے میں اب کبھی تم لوگوں سے مل نہیں پاؤں گا۔۔۔”
شفی نے نم آنکھوں سے کہا
“پتا ہے ددا۔۔۔دشمن ملک میں بھی ایک بھلے انسان نے میری مدد کی۔۔۔ہم جسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں نا۔۔۔اچھے انسان وہاں بھی ہیں۔۔۔شاید اگر وہ مجھے بھگانے میں مدد نا کرتا تو شاید میں آپ لوگوں کے بیچ نا ہوتا۔۔”
شفی نے بتایا۔۔
“اس شخص نے صرف ایک بات کہی کہ اگر دو ملکوں کی دشمنی کو پیار سے ختم کیا جاسکتا ہے تو ہمیں پیار بانٹنا چاہیے۔۔۔”
شفی نے کہا
“اللہ بھلا کرے اس شخص کا جس نے ہمیں ہمارا بچہ واپس لوٹا دیا۔۔”
ددو نے دعا دی۔۔
“ویسے یہ گھر کیوں سجایا گیا ہے۔۔ وصی کی شادی ہے کیا ؟” شفی نے وصی کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا
وہ جو شیروانی پہنے بیٹھا تھا۔۔
یک سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
وہ آئینے کے سامنے بیٹھی خود کو گھور رہی تھی۔۔
ریڈ لہنگا پہنے وہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔۔
تھوڑی ہی دیر میں اسکی شادی تھی۔۔
حور بیٹی اپنی زندگی پر نظر ثانی کر رہی تھی۔۔
کیا سب اس کے لیے اتنا آسان تھا۔۔؟
آج اسے ہمیشہ کے لیے وصی کا ہوجانا تھا۔۔
جس کے اس کا دل تیار نہیں تھا۔۔
مگر قسمت کو شاید یہی منظور تھا۔۔
اس نے ضبط سے آنکھیں بند کی۔۔
دو قطرے آنکھ سے نکل کر گال پر پھسل گئے۔۔
تبھی کمرے میں ایک لڑکی نے آکر اسے شفی کے آنے کی خبر دی۔۔
وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔۔
جیسے یقین ہی نا آیا ہو۔۔
لیکن جب اسے یقین ہوا کہ وہ سچ کہ رہی ہے تو۔۔۔یک اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“شفی۔۔۔” اس نے زیر لب کہا۔۔
پھر لہنگے کو دونوں ہاتھوں سے سمبھالتی تیزی سے باہر بھاگی۔۔
وہ سیڑھی اترتی نیچے گئی۔۔
لاؤنج کے بند دروازے پر آکر لمحہ بھر رکی۔۔
شاید وہ ڈر رہی تھی۔۔
کسی نے اس کے ساتھ مزاق نا کیا ہو۔۔
ڈرتی بھی کیوں نا۔۔قسمت نے واقع اس کے ساتھ مزاق ہی کیا تھا۔۔
وہ گہرے سانس خارج کرتی وہیں ساکت کھڑی تھی۔۔
پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھولنا چاہا۔
یک دم شفی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔
مگر اس کے سوال نے اسے چونکا دیا۔۔
“ویسے یہ گھر کیوں سجایا گیا ہے۔۔ وصی کی شادی ہے کیا؟”
اس کے سوال نے اس کے حوش اڑا دیے
“شفی وہ۔۔۔وصی کی شادی تھی۔۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا
“کیا۔۔۔؟ ارے واہ۔۔ویسے تو مانتا نہیں تھا شادی کے لیے۔۔
اور میرے بغیر دولہا بھی بن گیا۔۔؟ یہ غلط بات ہے۔۔”
شفی نے خفگی سے کہا۔۔
سب خاموش تھے۔۔
شاید سب شرمندہ تھے۔۔
“ویسے لڑکی کون ہے۔۔۔جس کی قت پھوٹ رہی ہے۔۔؟”
شفی نےشرارت سے پوچھا۔۔
یک دم وصی اٹھ کر اس کے قریب آیا
“تو کھڑا ہو۔۔” وصی نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔
“کیا ہوا؟” شفی اٹھا۔۔
“میرے ساتھ آ۔۔۔” وہ اسے ہاتھ پکڑے دروازے کی طرف بڑھا۔۔
جیسے ہی دروازہ کھولا۔۔
سامنے حور پر دونوں کی نظر پڑی۔۔