ہماری زندگی کا انحصار ان وسائل پر ہے جو قدرت ہمیں فراہم کرتی ہے اور یہ قدرتی سرمایہ کئی طرح کا ہے۔ اس میں قدرتی اثاثے، قدرتی خدمات اور زمین کا جینیاتی پول آتے ہیں۔
ان میں محدود اثاثے بھی ہیں جیسا کہ ہائیڈروکاربن، معدنیات اور زیرِزمین فوسل پانی۔ اور ری نیو ایبل اثاثے بھی ہیں جیسا کہ دریا، کاشت کے لئے زمین، لکڑی اور جنگلی زندگی۔
قدرتی خدمات میں زندگی کے لئے لازمی پراسس ہیں جیسا کہ فوٹوسنتھیسز، سمندروں کا کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنا، کیڑوں کا فصلوں کو پولینیٹ کرنا۔ اس کے علاوہ ہمیں زمین پر جانداروں کا جینیاتی پول درکار ہے ہے جس کا مطلب زمین پر پائے جانے والے جانداروں میں جینیاتی تنوع ہے۔
اس کو مکمل طور پر سمجھنا آسان نہیں کہ ہمارا ان پر کس قدر زیادہ انحصار ہے۔ فولادی مشینیں تیل کو جلا کر ہماری فصلیں اگاتی اور کاٹتی ہیں۔ کھادیں قدرتی گیس سے بنتی ہیں۔ اور اس طرح ہم اسی زمین سے کئی گنا پیداوار حاصل کر سکتے ہیں جو کسان اور جانوروں کی مدد سے کی جاتی۔
ہمیں جینیاتی کوڈ کا تنوع درکار ہے کیونکہ جاندار وہ بنیادی بلڈنگ بلاک ہیں جن پر ہماری خوراک، بائیوٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکل کی صنعت منحصر ہے۔ ہم اپنی عمارتوں میں لکڑی، فولاد اور سیمنٹ لگاتے ہیں۔ ہم پانی کو زمین سے نکالتے ہیں یا اسے ڈیم بنا کر قید کر سکتے ہیں تا کہ صحرا میں کپاس اور گھاس اگائی جا سکے۔ ہمیں ٹرک اور ڈیزل اور دیوہیکل بحری جہاز درکار ہیں تا کہ معدنیات اور مصنوعات اور خوراک کو ان کی پیداوار کی جگہوں سے ان جگہوں تک منتقل کیا جا سکے جہاں ان کی ضرورت ہے۔
تجارت کے اس بہاوٗ نے نئی معیشتیں اور جگمگاتے شہر تخلیق کئے ہیں۔ کوئلہ جلا کر بننے والی بجلی دھات کی تاروں میں اربوں میل سفر کرتی ہے۔ ہماری عمارتیں، موبائل فون، انٹرنیٹ اور برقی گاڑیاں اس طاقت پر منحصر ہیں۔ ہوائی جہاز اور گاڑیاں کب کے مردہ ہو جانے والے جانداروں کی باقیات کو جلانے سے چلتے ہیں۔ اور یہ ہمیں اس دنیا کو دیکھنے کا موقع اور آزادی دیتے ہیں۔
ہمارے مستقبل پر اثرانداز ہونے والی دوسری اہم عالمی فورس انسانوں کی قدرتی وسائل، قدرتی خدمات اور جینیاتی پول سے بڑھتی مانگ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کوئی راز کی بات نہیں کہ بیسویں صدی میں آبادی کے پھیلاوٗ، ماڈرنائزیشن، تجارت اور ٹیکنالوجی نے ان سب کی مانگ بڑھا دی ہے۔ اور اس خام مال کی دستیابی کی تشویش 1970 کی دہائی سے لوگوں کے ذہنوں میں جگہ لینا شروع ہوئی ہے۔
ناسا نے پہلا سویلین سیٹلائیٹ “لینڈ سیٹ” بھیجا تھا جس نے زمین کی تصاویر لینا شروع کیں اور اس میں ایمزون بیسن میں صاف ہو جانے والے گھنے جنگل پہلی بار نمایاں نظر آئے تھے۔ آج، دنیا بھر میں خبروں میں تیل کی کمی، پانی کی جنگوں اور اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتوں کا چرچا رہتا ہے۔ کئی پودے اور جانور غائب ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی رہنے کی جگہوں پر ہمارے کھیت اور پارکنگ کے پلازے بن چکے۔ اینٹارٹیکا کو چھوڑ کر زمین کی سطح کا اسی فیصد حصہ براہِ راست انسانی سرگرمیوں کے زیرِاثر ہے۔ اس میں استثنا شمالی ٹنڈرا اور یہاں کے جنگلوں کو، کانگو اور ایمزون کے گھٹتے جنگلوں کے مرکزی حصوں کو اور افریقہ، آسٹریلیا اور تبت کے کچھ صحراوٗں کو ہے۔
کسی قدرتی ریسورس پر اتنا پریشر نہیں جتنا فوسل ہائیڈروکاربن ایندھن کو ہے۔ اس کی مانگ دنیا میں ہر جگہ پر ہے۔ یہ سب سے زیادہ امریکہ میں ہے، اس لئے یہاں پر اس کی تاریخ دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...