(Last Updated On: )
ورق دل پہ لہو رنگ سی تحریریں ہیں
کوئی پڑھ لے تو یہی شوق کی تفسیریں ہیں
اور کچھ بھی نہ ہو آغوشِ طلب میں لیکن
غم کی پرچھائیاں ہیں، زخموں کی تنویریں ہیں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوں، سمجھے گا کون
میرے ہاتھوں کی لکیریں ہی تو تقدیریں ہیں
میرے پنجاب کی شاداب زمینوں کی قسم
اسی مٹی میں کئی رانجھے کئی ہیریں ہیں
ننگے پاؤں جو نکل آیا ہوں گھر سے لیکن
رینگتے راستے، ڈستی ہوئی زنجیریں ہیں
موجۂ سیلِ حوادث نہ کہیں شور نشور
یہ جزیرے کوئی دیوانوں کی جاگیریں ہیں
اے ضیا ان میں کوئی رنگِ غزل بھر دیتا
شہر افرنگ میں تصویریں ہی تصویریں ہیں
٭٭٭