وہ روم میں آئی کچھ دیر سوچتی رہی پھر کچھ یاد انے پر سر پر ہاتھ مارا ہائے میں نے آج بھائ سے بات نہیں کی جلدی سے بلال کا نمبر ملایا ہیلو بھائی نور نے کہا اووو تو آگئی بھائی کی یاد دوسری طرف سے شکوہ کیا گیا بھائی سوری میں آج بہت مصروف تھی نور نے شرمندہ ہوتے ہوے کہا دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی یعنی وہ ناراض ہے بھائی یار کچھ تو کہے پہلے ہی اس لڑکی کی وجہ سے مجھے غصہ ارہا ہے
نور نے کہا کون لڑکی اور میرا بچا کیوں غصہ میں ہے بلال نے پوچھا بھائی آج مریم گھر ائی تھی میں نے اس کے لیے کھانا بنیا اور وہ لڑکی اتنی بتمزی تھی اس کی کوئی حد نہیں اگر وارث کا خیال نہ ہوتا اور یا وہ ہماری مہمان نہیں ہوتی تو میں اس کو بتاتی میرے ہی سامنے میرے شوہر پر ڈور ڈال رہی تھی نور کو نئے سر سے پھر غصہ ایا گیا مریم پر
جبکہ بلال نے اس کی بات پر قہقہا لگایا اچھا کون مریم مجھے بتاو بلال نے پوچھا بھائی آپ ہسنا رہے ہے اور وہ جو آپ کی اور وارث کی گلاس فلیو تھی نور نے بتایا بچے جہاں تک مجھے یار ہے ہماری کلاس میں تین مریم تھی تم کون سی والی کی بات کر رہی ہوں بلال نے پوچھا وہہی مریم جو آپ کے گروپ میں تھی آپ چار لوگوں تھے گروپ میں آپ مریم عائشہ اور وارث نور نے کہا
عائشہ بلال زیر لب بولا بھائی وہ لڑکی کہتی تھی کہ میں وارث کی چوائیز نہیں ہوں اور بھائی وہ اتنی بے شرم تھی بار بار وارث کو شاہ کہ رہی تھی ہیلو بھائ آپ سن رہے ہے ہیلو ہیلو نور جو اپنی بات کر رہی تھی کہ اچانک احساس ہوا کہ بلال تو موجود نہیں ہے
بلال عائشہ کے نام پر ماضی میں کھویا تھا نور کے ہیلو بولے پر ہوش میں ایا ہاں بچے صبح بات ہوتی ہے بلال نے کہا اور بغیر نور کی بات سنے فون بند کر دیا جبکہ نور ارے ارے کرتی رہ گئی یار پتا نہیں بھائ کو کیا ہو گیا نور نے خود سے کہا
____________
کچھ وقت بعد روم کا درواذ کھولا اور شاہ اندر ایا نور جو فون ہاتھ میں لیے بلال کے بارے میں سوچ رہی کی اپنی سوچے سے باہر آئ
نور دیکھ میں آئسکریم لایا ہوں وارث نے نور کے پاس بیٹھے ہوے کہا مجھے نہیں کھانے نور نے منہ بناتے ہوے کہا اور صوفہ سے اٹھ گئی تو اس ہی وقت وارث نے اس کا ہاتھ تھام کر پھر سے واپس بیٹھیا کیوں وارث نے وجہ پوچھی دل نہیں کر رہا نور نے کہا اچھا ٹھیک ہے آپ جا کہاں رہی تھی وارث نے پوچھا چینچ کرنے نور نے جواب دیا ضرورت نہیں ہے بیٹھے ابھی مجھے آپ سے بہت ساری باتے کرنی ہے
وارث نے کہا کیوں آپ کا دل نہیں بھر اس لڑکی سے باتے کر کے نور نے تنظر کیا پھر کیا وارث نے قہقہا لگایا افففف یار آپ غصہ کرتی بہت کیوٹ لگتی ہے وارث نے نور نے گال کو چھوتے ہوے کہا جاے جا کر سوے آپ ٹھک گئے ہوے گئے آج ایک بار پھر تنظر کیا گیا نور آپ کو کوئی سمیل ارہی ہے وارث نے سنجیدہ ہوتے ہوے پوچھا
نہیں نور نے جواب دیا لیکن مجھے آرہی ہے کچھ جلنے کی وارث نے کہا جبکہ اب نور کو وارث کی بات سمجھ میں ائی تھی وارث بہت برے ہے آپ میں بات نہیں کروے گئی آپ سے نور نے کہا اور اپنے ہاتھ کا مکار بناتے ہوے وارث کے سینے پر مکار جبکہ اس بار وارث مسکرایا نور وہ بس میری دوست ہے اور وہ شروع سے ہی ایسی ہے مجھے کبھی کسی سے شئیر نہیں کر سکتی وارث نے کہا ایک واقعہ سنتا ہوں سکول کے زمانہ کا
کلاس میں ایک نئی لڑکی ائی تھی اس کو نوٹس کی ضرورت تھی سو اس نے مجھے سے مانگے اور میں نے دے دیے اس دن مریم چھٹی پر تھی اگلے دن اس نے مجھے نوٹس واپس کیا اور میرا شکریہ ادا کیا مریم نے اس کو میرے ساتھ مسکراتے ہوے دیکھ لیا پھر کیا مریم نے اس کو مارنا شروع کر دیا میں اور بلال نے بری مشکل سے اس لڑکی کی جان بچیے ہم سب نے مریم سے یہ سب کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ شاہ بس میرا دوست ہے وہ کیسی اور سے بات کر میں یہ برداشت نہیں کر سکتی اور آج بھی اس کا یہی حال ہے وہ دل کی بری نہیں ہے
جبکہ نور اس کی بات پر خاموش ہی رہی کچھ کہے گئی نہیں آپ وارث نے پوچھا وہ آپ سے محبت کرتی ہے وارث نور نے کہا جانتا ہوں اور آپ جانتی ہے میں کس سے محبت کرتا ہوں وارث نے پوچھا جی جانتی ہوں نور نے کہا اور چپ ہوگئی کسں سے وارث نے پھر سے پوچھا مجھے سے نور نے نظریں نیچے کرتے ہوے کہا تو یہ بدگمانی کیسی وارث۔ نے پوچھا نہیں بس اس لڑکی پر مجھے غصہ ایا تھا جب وہ آپ کو شاہ کہ رہی تھی نور نے منہ بناتے ہوے کہا
اور آپ کو پتا ہے غصہ میں میری بیوی بہت کیوٹ لگتی ہے وارث نے کہا اور اگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا جبکہ نور آنکھیں بند کرتی اپنے اندر سکون اتررہی تھی اس سے الگ ہوتے کر وارث کچھ وقت اس کو پیار بھری نظروں سے دیکھتا رہا جبکہ نور گھبرا کر اٹھ گئی اب میں چینچ کرلو نور نے پوچھا
تو وارث نے اس کو اٹھیا اور بیڈ پر لیٹیا مجھے آج آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے شکریہ اتنا اچھا کھانا بننے کا شکریہ اتنا اچھا تیار ہونے کا شکریہ مریم کو برداشت کرنے کا وارث نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی اور پھر اس کا دوپٹہ اتارا جبکہ نور سانس روکے اس کی کاروری دیکھ رہی تھی
نور اجازت ہے شاہ نے پوچھا تو نور پرکے جھکا گئی اور اس کی ادا پر وارث دل سے مسکرایا اور لائٹ بند کی اور باہر بارش شروع ہو گئی
_____________
صبح نور کی آنکھ کھولی تو خود کو شاہ کے حصار میں پایا وارث کو دیکھ کر سب کچھ یاد ایا کیسے وارث نے ساری رات اس کو اپنی محبت کا یقین دلایا اس کے ہونٹوں پر شرملی سی مسکاں ائی پھر اس کے حصار سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ہر بار کی طرف وارث کی گرفت مضبوط تھی
وارث جانے دے پلیز نور نے آہستہ آواز میں بولی کیونکہ وہ جان گئی کے وارث اٹھ گیا تھا لیکن آنکھیں بند کر کے لیٹ تھا اس کی بات پر وارث مسکرایا اور پھر کڑوٹ لیتا اس کو آزادی دی آزادی ملتے ہے نور وشروم میں گئی
فریش ہو کر باہر آئی اور شسشہ میں اس نے خود کو دیکھا آج وہ بہت پیاری لگ رہی تھی شائد یہ وارث کی محبت کا رنگ تھا آج وارث نے نور کو مکمل کر دیا اس ہی وقت وارث نے اس کو پیچھے سے ہگ کیا نور کو پتا نہیں چلا کہ وارث اس کے پاس کب ایا
آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہے وارث نے شسشہ میں اس کے عکس کو دیکھے ہوے کہا اور اس کے گھلیے بال پیچھے کر کے اپنی تھوڑی نور کے کندے پر رکھی
جبکہ نور نے ایک بار بھی وارث کو نہیں دیکھا اس کو بہت شرم آرہی تھی وارث نے نور کو اپنی طرف کیا اس کے ماتھے پر لب رکھے
نور وارث نے پکارا نور نے بند آنکھوں سے ہی ہم کہا کیا میری طرف دیکھے گئی بھی نہیں وارث نے پوچھا تو نور نے نفی میں سر ہلایا اور اس کے سینے پر سر رکھ یار ایسا کر کے آپ مجھے بے خود کر رہی ہے وارث نے شرارت سے کہا وارث پلیز تنگ نہیں کرے نور نے کاپبتی آواز میں کہا تو وارث مسکرایا اوکے میں کچھ نہیں کرتا ری ریلکس وارث نے کہا اور واش روم کی طرف بڑھ
اس کو جاتا دیکھ کر نور نے گہری سانس لی اللہ مجھے اتنی شرم کیوں آرہی ہے نور یار وہ شوہر ہے تمہارا نور نے خود سے کہا
یہ رات کا وقت تھا اور باہر بارش ہو رہی تھی وارث روم میں بیٹھا لیب ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا اور نور روم میں آئی اس کے ہاتھ میں کافی کا کپ موجود تھا وہ چلتی ہوی وارث کے پاس ائی کپ وارث کو دیا بیڈ پر بیٹھ کر وارث کو دیکھنے لگئی جو انہماک سا کام میں مصروف تھا
وارث نور نے اس کو پکارا جی مصروف سا جواب ایا کام کب ختم ہو گا آپ کا سوال کیا گیا کچھ دیر تک کوئی بات کرنی ہے آپ نے کرے میں سن رہا ہوں وارث نے نور کو دیکھا بغیر کہا جی بات نہیں کرنی بہت ساری باتے کرنی ہے نور نے منہ بناتے ہوے کہا تو کرے روکا کس نے ہے کرے وارث نے مسکراتے ہوے کہا
وارث آپ صبح جاتے ہے اور رات کو واپس آتے ہے اور گھر اکر بھی آپ کام میں مصروف رہتے ہے نور نے شکوہ کیا اگے سے مکمل خاموشی تھی کچھ دیر وہ وارث کو دیکھتی رہی اور پھر مخاطب کیا گیا وارث لیکن اب بھی لیب ٹاپ میں مصروف تھا اب نور کو غصہ ارہا تھا وہ اٹھی اور لیب ٹاپ بند کیا
یہ کیا حرکت تھی نور وارث نے گھورتے ہوئے پوچھا آپ میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہے نور نے پوچھا تو وارث نے گہرا سانس لیا نور یار ایک بہت ضروری میل فاریڈ کرنے ہے کچھ دیر تک فارغ ہوتا ہوں پھر آپ کے سارے شکوے سنتا ہوں اور ان کو دور کرنے کی کوشش کروے گا وارث نے کہا
روم میں تین منٹ کی خاموشی رہی پھر نور بولی وارث اب کیا ہے نور وارث نے چرتے ہوے کہا یہ آپ کو دینا تھا اب یاد ایا ہے نور نے ایک پارسل وارث کی طرف بڑھیا یہ کیا ہے وارث نے پوچھا خان بھائ نے دیا ہے کون آدمی آیا تھا آج گھر نور نے بتایا جبکہ وارث کے ماتھے پر بل آئے اور۔ کیا کہا اس آدمی نے وارث نے پوچھا اس نے کہا کپٹن صاحب کو اسلام دینا وارث جلدی سے اٹھا اور دو منٹ
پارسل کو گھورتا رہا پھر گاڑھی چابی لی اور روم سے جانے لگا تو نور نے اس کو روکا کہاں جارہے ہے آپ نور میری جان مجھے ضروری کام سے جانا ہے آپ میڈیسن کھا کر سو جانے وارث نے کہا اور اس کے ماتھے پر پیار کرتا باہر چلا گیا افففف پہلے ہی سارا دن بور ہوتی رہی ہوں اور اب بھی یا اللہ ایک آرمی والے کی بیوی ہونے کتنا مشکل ہے
________
رات کا دوسرا پہر تھا نور کی آنکھ کھولی تو اس کی نظر سامنے گھڑی پر گئی ۲ بجے رہے تھی نور نے کڑوٹ لی تو دوسری سائیڈ پر وارث موجود نہیں تھا نور پریشان ہوئی اور اٹھ کر بیٹھ گئی وارث ابھی تک واپس نہیں آئے نور نے خود سے کہا
نور نے۔ وارث کو کال کی لیکن کوئی اٹھ نہیں رہا تھا ایک گھنٹے سے نور وارث کو کال کررہی تھی لیکن کوئی جواب موصل نہیں ہو رہا تھا اب وہ پریشان ہونے لگئی بھائی کو فون کرو نور نے خود سے کہا نہیں وہ پریشان ہو گئے کیا کرو میں اللہ میری مدر فرما پھر کچھ وقت اور سوچنے کے بعد فصیلہ کیا کہ وہ بلال کو فون کرے گئی
_______________
یہ ہپستال کا روم تھا اس کو کچھ دیر پہلے ہوش ایا تھا ڈاکٹر ابھی اس کا چیک آپ کرنے میں مصروف تھا کہ اس ہی وقت روم کا درواذ کھولا اور بلال اندر ایا
شاہ تم ٹھیک ہے بلال نے فکر سے پوچھا جبکہ شاہ اس کو دیکھا کر حیران ہوا تو یہاں کیا کر رہا ہے شاہ نے پوچھا بلال نے اس کو گھورا
اچھا یار ٹھیک ہوں میں اب گھونا بند کر شاہ نے کہا شاہ کہی اور چوٹ تو نہیں گئی بلال نے پوچھا نہیں بس گولی کندے کو چھو کر گئی ہے تم کو کیسے پتا چلا شاہ نے پوچھا ڈیڈ نے بتایا وہ بہت پریشان ہے بلال نے کہا یار میں ٹھیک ہو تو فون کر چھوٹے پاپا کو۔ اور انہے بتا میں ٹھیک ہوں
ٹھیک ہے بلال ابھی کچھ اور کہتا کہ بلال کا فون بجا کال نور کی تھی پہلے تو وہ حیران ہو پھر پریشان اس وقت نور کی کال سے ہیلو نور بلال نے کہا جبکہ وارث اب اس کی طرف متوجہ ہوا
بھائ وارث اب تک گھر نہیں ائے میں کب سے انہے فون کررہی ہو وہ اٹھا نہیں رہے ہے اب مجھے پریشانی ہو رہی ہے نور نے ایک سانس میں ہی بات کی نور میرے بچے پانی پیو پہلے بلال نے کہا جی بھائی نور نے کہا اور پھر پانی پیا میں اور شاہ کچھ دیر تک گھر آتے ہے بلال کیا آپ اسلام آباد میں ہے نور کو شاک لگا تھا نور گھر اکر بات کرتے ہے اللہ حافظ بلال نے کہا اور فون بند کیا
کیا کہ رہی تھی نور وارث نے پریشانی سے پوچھا کچھ نہیں وہ تیرے لیے پریشان ہو رہی تھی چل ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہو پھر گھر چلتے ہے بلال نے کہا اور روم سے چلا گیا
__________
نور ابھی بھی بلال کی بات پر گھور کر رہی تھی بھائی کیا وارث کے ساتھ ہے لیکن وارث کو کیسی کام سے گئے تھے اور بھی بہت سے سوال ہے نور کے پاس جن کے جواب شاہ یا بلال کے پاس تھا
اللہ اللہ کر کے ایک گھنٹے اور گزرا اور پھر گھر میں ایک گاڑی داخل ہوئی نور بھاگ کر باہر آئی بلال کو دیکھ کر مسکرائ اور اس کے ملی بھائی میں نے آپ کو بہت بہت مس کیا جبکہ بلال اور وارث نور کو خوش دیکھا کر
مسکرائے میں نے بھی اپنے بچے کو بہت مس کیا بلال نے نور کے بالوں پر پیار کرتا ہوئے کہا اب نور کی نظر وارث پر گئی وارث یہ کیا ہوا کیا آپ کو نور نے پریشانی سے پوچھا
ارے کچھ نہیں ہوا بس ایک چھوٹا سا اکیسڈنٹ ہو تھا جواب بلال کی طرف سے ایا وارث کیا ضرورت تھی باہر جانے کی نور نے کہا یار پریشان نہیں ہو میں ٹھیک ہوں اب اندر چلے وارث نے کہا
آپ کب اسلام آباد ائے بھائی نور کی سوئی ابھی اس بات پر آری تھی کچھ ضروری کام تھا اس لیے ائے ہوں بلال نے جواب دیا اور یہ کام یقینا آدھی رات۔ کو تھا نور نے تنظر کیا کیونکہ نور کو کچھ کچھ پتا چل گی تھا کہ وہ دونوں کچھ چھپا رہے ہے
جی بچے بلال نے سکون سے جواب دیا اچھے بھائی کیا کھا گئے آپ نور نے بات ختم کی کیونکہ کوئی فائدہ تھا بھنس کرنے کا کچھ نہیں بس میں اب سوے گا بلال نے کہا ٹھیک ہے آئے آپ کو روم میں لے جاتی ہوں۔۔۔