وقت تھوڑا تھا اور کام زیادہ اس لیے جلدی سے اٹھ کر ہاتھ منہ دھویا آ پی مریم میرے پاس ہی کھانا لے کر آ گئی اور مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگی آ پی کی صورت بالکل امی جیسی ہے مجھے وہ دن یاد آ گئے جب امی یوں مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی اور سب بہنیں امی سے اس بات پہ لڑ پڑتی کہ آ پ نے اس لارڈ صاحب کی عادتیں بگاڑ کے سر پہ چڑھا رکھا ہے اور امی کہتی ہائے میرا ایک ہی بیٹا ہے ساری اکھٹی ہو کے چڑیلوں کی طرح اس کے پیچھے پڑ جاتی ہو میں تو ہزار بار اپنے پت(بیٹے)کے نخرے اٹھا ؤ ں اور میں پیار سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر لپٹ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مریم آ پی کا ہر انداز ماں جیسا تھا کیا سوچ رہے ہو ویر آ پی نے میرے چہرے کی طرف دیکھ کے سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کے پوچھا کچھ نہیں آ پی بس آ پ سب کے بارے میں ہی ۔۔۔۔۔۔۔رانیہ اور صائقہ کیسی ہیں اب ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے مریم آ پی سے پوچھا صائقہ کو تو شدید کمزوری ہے ابارشن کی وجہ سے خون کی شدید کمی ہو گئی ہے عائشہ اور حیرم اسے ساتھ لے کر ہاسپٹل گئے ہیں ابھی ابھی ان کی کال آ ئی ہے کہ اب وہ کچھ بہتر ہے شاید صائقہ کو تین چار دن ہاسپٹل میں ہی رکھنا پڑے رانیہ کو کل میں اور آ منہ چیک اپ کے بعد واپس لے کر آ گئی ہیں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کے سر پہ کوئی شدید چوٹ لگی ہے جس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے اس نے ٹیسٹ لکھ کر دئیے ہیں وہ کروا کے پھر اصل بات پتہ چلے گی ۔۔۔۔۔ اور سیرت پتہ نہیں کس حال میں ہے بھائی مجھے لگتا ہے رانیہ کو سیرت کے بارے میں پتہ ہے کل جب ہم نے اس کے سامنے سیرت کا ذکر کیا تو وہ پہلے ہنسنے لگی پھر بولی سیرت بھاگ گئی میں نے اسے پچھلے گیٹ سے بھگا دیا وہ بھاگ گئی سیرت بھاگ گئی ایسے ہی کیے جا رہی تھی مگر اسے اور کچھ یاد نہیں آ رہا تھا آ پی مریم میں آ ج رات واپس چلا جاؤں گا اب ان سب کی اور سیرت کو تلاش کرنے کی ذمے داری تمھاری ہے میں نے انکل ستار کو گاؤں والی حویلی صاف کرنے کے لیے کہہ دیا تھا اس نے وہ صاف کروا کے سیکورٹی کا مکمل بندو بست کر دیا ہے تم سب کو ساتھ لے کر وہیں شفٹ ہو جانا انکل ستار ہر ماہ تمھیں خرچ بھیجتا رہے گا مجھ سے ملنے کبھی جیل مت آ نا ورنہ تم سب پھر سے شوکی کی نظروں میں آ جاؤ گی اور ایک بات اور آ پی پوری کوشش کرنا کہ سب بہنیں پچھلی زندگی کو بھلا کر ایک نئی زندگی کی شروعات کر سکیں جی بھائی میں اب چلتا ہوں میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے. ۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں انکل ستار بھی ٹرک لے کر آ گئے اور میں نے اپنی نگرانی میں ان سب کو سامان سمیت گاؤں رخصت کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔شام ہونے والی تھی مگر ابھی ایک بہت ضروری کام باقی تھا شوکی گولی مار کی موت کا کام ۔۔۔۔۔میں اسے ایسی اذیت ناک موت مارنا چاہتا تھا جیسی اذیت میری بہنوں نے اس کی وجہ سے برداشت کی دل چاہ رہا تھا کہ اسے زندہ پکڑ کر ہر بہن کا نام لے کر اس کے جسم کے سات ٹکڑے کروں جس کی اذیت سے وہ ہوں تڑپ تڑپ کر مرے جیسے میری بہنیں روز مرتی تھیں میں اس کے علاقے میں پہنچا رات کے دو بج چکے تھے پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب چکا تھا اور ماضی کا شوکی گولی مار موجودہ زمانے کا چوہدری شوکت گل ایم این اے اور کوئی حکومت کا وزیر بھی بن چکا تھا اس کی کوٹھی کے چاروں طرف سرکاری پہرہ لگا ہوا تھا اس لیے اس کے گھر میں گھسنا آ سان نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے باہر گھومتے پہرے دار سے کسی نہ کسی طرح سے تھوڑی بہت واقفیت پیدا کر کے چوہدری شوکت گل عرف شوکی کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ یہاں نہیں ہے بلکہ ایک سرکاری دورے پہ ملک سے باہر ہے اور دو دن بعد لوٹ کے آ ئے گا مجھے شدید مایوسی ہوئی یوں شوکی میرے ہاتھوں سے بچ گیا رات کے بارہ بج گئے تھے میں واپس جیل کی طرف چل پڑا کیونکہ صبح پوہ پھوٹنے سے پہلے مجھے یہاں پہنچنا تھا اور میں اپنے وعدے کے مطابق واپس آ گیا میری بہنیں اب بالکل خیریت سے تھیں سیرت کا بھی پتہ چل گیا رانیہ نے ٹھیک ہو کے بتایا کہ جب شوکی نے دوسری بہنوں کی طرح مجھے اور سیرت کو تو مجھے تو جاتے ہی دنوں میں کوٹھے کی زینت بنا دیا گیا مگر سیرت کے لیے وہ لوگ مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے تاکہ مناسب وقت پر اس کی صیح دام لگ سکیں اور پھر کچھ سالوں کے بعد ہی میری ایک سا تھی طوائف نے وہاں سے بھاگنے کی مکمل تیاری کر لی اور میں نے اسے اپنے ساتھ سیرت کو بھی یہاں سے لے جانے پہ راضی کر لیا اور پھر ایک رات میں نے ان دونوں کو وہاں سے فرار کروا دیا کچھ دنوں بعد میں نے اس سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ بھی ٹھیک ہے اور سیرت کو اس نے اپنی بہن کے سپرد کر دیا ہے جو بے اولاد ہے اس کا اڈریس بھی اس نے دے دیا کہ جب کبھی بھی موقع ملے اپنی بہن کو لے جانا بلکہ یہاں سے فرار ہو کے یہیں آ جاؤ ان لوگوں کو پتہ نہیں کیسے پتہ چل گیا کہ سیرت کو میں نے فرار کیا ہے اور پھر اس دن کے بعد وہ لوگ مجھ پہ ظلم کے پہاڑ توڑ نے لگے ہر طرح کا ٹارچر مجھے کیا کہ میں بتا دوں کہ سیرت کہاں ہے اور ایک دن جب وہ لوگ مجھے مار رہے تھے اور میں زبان نہیں کھول رہی تھی تو ایک آ دمی نے مجھے اٹھا کے کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیا مجھے شدید چوٹیں آ ئیں اور میرے سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے میں پاگل ہو گئی اور ان لوگوں کے لیے کسی کام کی نہ رہی اور میں پھر یونہی گلیوں بازاروں کے دھکے کھاتی رہی آ پی اور رانیہ وہاں جا کر سیرت کو گھر لے آ ئیں انھوں نے سیرت کا بہت خیال رکھا تھا اور سیرت بھی ان کے ساتھ خوش تھی ایک سال پلک جھپکتے ہی گزر گیا میرے بد نصیب خاندان میں پہلی خوشی نے گھر کی دہلیز پار کر کے اندر آ نے کی ہمت کی تھی میری بہنوں عائشہ اور آ منہ کی شادیوں کی تیاریاں ہونے لگیں ۔. ۔. ایک زمیندار اپنے بیٹوں کے لیے ان کا ہاتھ مانگنے آ یا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور آ پی مریم نے اسے میرے بارے میں بتا کر یہاں بھیج دیا تھا کہ ہمارا بھائی جو فیصلہ کرے گا ہمیں منظور ہو گا. ۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...