’’سکینہ یہ لے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو کمرے میں نہ پا کر جاجی فوراً ہی اندر گھس آیا تھا۔آتے ہی اُس نے ایک شاپر سکینہ کی طرف بڑھایا جو ہاتھ میں پکڑے خواتین ڈائجسٹ کو میز پر رکھ کر اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔جاجی دن بہ دن اُس کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔
’’یہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ نے طنزیہ ہنکارہ بھرتے ہوئے ابرو چڑھا کر اُسے دیکھا ۔
’’کھول کر تو دیکھو،تمہارے لیے لایا ہوں۔۔۔‘‘سکینہ کے سرد انداز کابھی جاجی پر رتی برابر اثر نہیں ہوا تھا اس لیے وہ ڈھٹائی سے کھڑا تھا۔
’’کس خوشی میں۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ کے مزاج میں تلخی کے سبھی رنگ جھلکے ۔
’’وہ تونے ،ٹی وی پر جانا ہے ناں تو میں نے سوچا کہ تیرے لیے کوئی چھوٹی موٹی جیولری لے آؤں۔۔۔‘‘وہ بے خوفی سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا۔
’’ایک بات تو بتا جاجی،آخر تو اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر یہاں کیوں ٹکا ہوا ہے۔۔۔‘‘سکینہ کا ضبط آج جواب دے گیا۔
’’تیرے لیے۔۔۔‘‘ اُس نے دو لفظوں میں قصّہ نبٹایا۔
’’کیوں ،مجھ میں کون سے ایسے ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘سکینہ نے اکتاہٹ کے ساتھ سر کو ہلکی سی جنبش دی۔
’’تجھے میری کمر کا یہ کُب بُرا نہیں لگتا۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں چھلکتی خود اذیتی پر اس نے شکوہ کناں نظروں سے اُسے دیکھا۔
’’مجھے تمہاری کمر کا کُب (کوہان)نظر ہی نہیں آتا۔’’مجھے تو ،تو کسی دیس کی پری لگتی ہے۔۔۔‘‘جاجی نے اُس کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر اعتماد سے کہا تھا اُس کی بات پر اُس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔اُس کی آنکھوں سے چھلکتے محبت کے پیمانے سکینہ کو خوفزدہ کر گئے۔ ’’اگر تجھے اتنا بڑا پہاڑ نظر نہیں آتا تو فورا اپنی آنکھیں چیک کروا کے آ ،سرکاری ہسپتا ل میں۔۔۔‘‘وہ ایک دم مشتعل ہوئی۔
’’کملی جب بندہ محبت کی عینک لگا کر اپنے محبوب کو دیکھتا ہے تو اُسے وہ ہی نظر آتا ہے جو اُس کا دل اُسے دِکھاتا ہے۔میرے دل کی آنکھ سے ذرا خود کو دیکھ،تجھے زندگی بہت خوبصورت لگے گی۔‘‘جاجی نے بھی آج اظہار کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔اُس کی آنکھوں میں چمکتے ستارے سکینہ کو وحشت میں مبتلا کر رہے تھے
’’تیری تو مت ماری گئی ہے ،اب میرا یہاں رہ رہ کر دماغ خراب نہ کر۔۔۔‘‘ صبح سے ایک تو کمر کے درد نے اور اب جاجی کے دل کے انوکھے راگ اُس کو بے زار کر رہے تھے۔ وہ تو خیریت رہی کہ امّاں کمرے میں آ گئی تھی۔
’’اعجاز علی ،پتر یہ میرے والے موبائیل میں لوڈ تو کروا دے ،تیرے تائے سے بات کرنی ہے مجھے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے چہرے پر پھیلی تشویش پر جاجی نے فکرمندی سے دیکھا۔
’’تائی ضروری بات کرنی ہے تو میرے والے نمبر سے کر لے۔۔۔‘‘ جاجی نے فراخدلی سے اپنا سیٹ امّاں کی طرف بڑھایا۔
’’باہر جا کر بات کرتی ہوں،اندر ڈھنگ سے آواز نہیں آتی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے کمرے سے نکلتے ہوئے جاجی کو بھی آنکھ سے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
’’تائی کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟ خیر تو ہے ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جاجی نے باہر نکلتے ہی بے تابی سے پوچھا۔
’’بس پتّر،اللہ سوہنا کرم کرئے اپنا، سکینہ دے ڈاکٹر نے بلایا سی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے چہرے پر پھیلی رنجیدگی کی گہری تہہ جاجی کو فوراً ہی نظر آ گئی تھی۔
’’کیا،کہا ڈاکٹر نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اعجاز کی ساری حسیّں بیدار ہوئیں۔
’’اللہ سائیں رحم کرئے ہم پر، سکینہ کی رپورٹیں ٹھیک نئیں آئیں پتّر۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی قوت برداشت قابل رشک تھی۔جب کہ جاجی کے چہرے کا رنگ ایک سیکنڈ میں فق ہوا تھا۔وہ حواس باختہ انداز سے امّاں کا افسردہ چہرہ دیکھ رہا تھا۔
* * *
ڈی واٹسن کے گلاس ڈور کو تیزی سے دھکیل کر نکلنے کی کوشش میں وہ سامنے والے بندے سے بُری طرح ٹکرائی۔۔۔میڈیسن والالفافہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دُور جا گرا تھا۔
ایک لمحے کو تو عائشہ کا دماغ سن سا ہو گیا تھا۔آنکھوں کے آگے ستارے محو رقص تھے جب ایک انتہائی مہذب لہجہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔’’محترمہ ،آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’دیوار چین سے ٹکرانے کے بعد کون بندہ ٹھیک رہ سکتا ہے۔۔۔‘‘وہ دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے بلند آواز سے بڑبڑائی تھی۔
’’جی ،کیا کہا،آپ نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سامنے والے کو بات تو سمجھ میں آ گئی تھی لیکن تصدیق کے لیے اُس نے دوبارہ پوچھا۔عائشہ نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو اُسے جھٹکا لگا۔وہی شخص اپنے چہرے پر بڑی جاندار سی مسکراہٹ سجائے اسکی آنکھوں میں ایک دم ہی ڈھیروں جگنو چمک اٹھے تھے۔
’’مانا کہ میں نے اُس دن آپ کو پینٹینگ نہیں دی ،لیکن اس کا مطلب یہ تھوڑی تھا کہ آپ میرا سر ہی توڑ دیں۔۔۔‘‘عائشہ نے اپنے سر کو سہلاتے ہوئے جل کر کہا تھا۔اس کی بات پر سامنے موجود شخص کے حلق سے نکلنے والا قہقہہ بڑا بے ساختہ تھا۔
’’آئی ایم سوری،میں نے ایسا دانستہ نہیں کیا،ویسے بھی میں دل میں بغض رکھنے والا بندہ نہیں۔۔۔‘‘اُس نے بڑے مہذب انداز سے صفائی دی لیکن اس کی آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی۔وہ اب اس کی تمام ادویات اکھٹی کر کے شاپر میں ڈال رہا تھا۔
’’ویسے کیا آپ کا اپنا میڈیکل اسٹور کھولنے کا ارادہ ہے۔۔۔‘‘اُس نے ادویات کی تعداد کودیکھتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
’’نہیں،یہ مجھے ایک فری میڈیکل کیمپ کے لیے چاہیے تھیں۔۔۔‘‘اُس نے بے ساختہ کہا۔
’’اوہ ،تو آپ ڈاکٹربھی ہیں کیا۔۔۔‘‘ اُس کو خوشگوار سی حیرانی نے گھیر لیا ۔
’’جی نہیں۔۔۔‘‘اُس نے شاپر پکڑتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔’’لائیں میں یہ گاڑی میں رکھ دیتا ہوں، کافی بھاری ہے۔‘‘ اُ س نے پرخلوص انداز میں کہا تو وہ بھی انکار نہیں کر پائی۔ شاپر پچھلی سیٹ پر رکھ کر وہ جانے کے لیے مُڑا تو عائشہ نے بے ساختہ اُسے پکارا۔
’’یہ میری ایگزیبیشن کا انوٹیشن کارڈ ہے،آپ ضرور آئیے گا۔۔۔‘‘ عائشہ نے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھے شاپر سے ایک کارڈ نکالا۔
’’آپ مجھے کارڈ نہ بھی دیتیں تو میں ضرور آتا۔۔۔‘‘وہ زیر لب مسکراتے ہوئے بولاتھا۔
’’آپ کو یاد تھاکہ ایگزیبیشن کب ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے اس کی سحر انگیز آنکھوں سے بمشکل نظریں چرائیں۔
’’میری یاداشت الحمداللہ بہت عمدہ ہے۔آپ نے اُس دن بتایا تو تھااس لیے میں نے آرٹ گیلری سے تمام تفصیلات لے لی تھیں۔‘‘اُسکی بات پر عائشہ نے اچھنبے سے اُسے دیکھا
’’آپ نے میری مطلوبہ پینٹنگ بنالی ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کا پریقین لہجہ اُسے چونکا گیا۔
’’جی ہاں،لیکن ایگزیبیشن سے پہلے میں آپ کو نہیں دوں گی۔‘‘عائشہ کی سادگی پر وہ مسکرایا۔ ’’مائی گاڈ،آپ نے واقعی پینٹینگ بنا لی ،میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے یونہی میرا دل رکھنے کے لیے ہاں کر دی ہو گی۔‘‘اُس کی چہکتی ہوئی آواز میں سخت حیرانی تھی۔
’’جب کہ میں سمجھی کہ آپ نے یونہی میرا دل رکھنے کو فرمائش کر دی ہوگی۔۔۔‘‘عائشہ کے منہ سے بے ساختہ پھسلا،وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
’’محترمہ اس کا مطلب ہے کہ ہم انجانے میں ایک دوسرے کے دلوں کی حفاظت کرتے پھر رہے تھے۔۔۔‘‘اُس کی گہری نظروں کے حصار پر عائشہ بوکھلا سی گئی ۔ذومعنی لہجہ ،بولتی نگاہیں اور گھنی مونچھوں کے نیچے مسکراتے گلابی لب،تمام چیزوں نے عائشہ کو منجمد سا کر دیا تھا۔دل میں اٹھتے انوکھے راگ الگ ہاتھ پاؤں پھیلا رہے تھے۔
* * *
’’اماّں۔۔۔‘‘اُس نے گلا کھنکھا ر کر کروشیے کی بیل بناتی جمیلہ مائی کو مخاطب کیا تواُس نے سر اٹھا کر سکینہ کو دیکھا۔جو بڑی مہارت سے آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی۔
’’سکینہ تو،نعت کے مقابلے میں جارہی ہے یا کسی کی جنج (برات)میں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی آنکھوں میں ہلکی سی ناگواری تھی،اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی سکینہ نے ہاتھ اٹھا کر اُسے فوراً کوفت بھرے انداز سے بولنے سے روکا۔
’’دیکھ امّاں ،خدا کے واسطے ،آج کچھ نہ کہنا،ٹی وی کی اسکرین پر بغیر میک اپ کے بالکل بے سوادی آؤں گی ۔۔۔‘‘سکینہ کے لہجے میں عجیب سی بچگانہ ضد محسوس کر کے جمیلہ مائی بادل نخواستہ چپ کرگئی۔وہ اب سخت حیرت سے سکینہ کی لوہے کی ڈرمی سے نکلنے والا میک اپ کا سامان دیکھ رہی تھی جو اُس نے نہ جانے کس سے اور کب منگوایا تھا اور اُسے خبر ہی نہیں ہوئی ۔وہ اب اپنی آنکھوں پر نیلے پیلے رنگوں کے آئی شیڈ لگا رہی تھی۔
’’ناں سکینہ تیر ا کی خیال اے کہ تو،یہ کالے پیلے رنگ لگا کے بہت سو ہنی لگ ری اے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے ناک پر انگلی رکھ کر تعجب کا اظہار کیا تو وہ جھنجھلا گئی۔
’’ہاں کہہ دے کہ اپنے پنڈ کے شیدے قصائی کی کالی کٹّی (کالی بھینس کی بچی) لگ رہی ہوں۔۔۔‘‘
’’لو مجھے کہنے کی کیا لوڑہے،تجھے تیرا یہ دوسو روپے والا شیشہ خو د بتادے گا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے ہنس کر دوپٹہ اٹھا لیا اور کروشیے سے بیل بنانے لگی۔سکینہ نے چوری چوری شیشے میں دیکھا اور اپنا چہرہ عجیب مضحکہ خیز سا لگا۔
’’امّاں کبھی کبھی واقعی کتنی سچی باتیں کرتی ہے ‘‘۔اُس نے دل ہی دل میں سوچتے ہوئے فوراپاس پڑے تولیے سے منہ رگڑکر صاف کیا۔
’’امّاں سچ سّچ بتا،کہ اب تیری سکینہ کیسی لگ رہی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘سرخ لان کا دوپٹہ سر پر سلیقے سے اوڑھتے ہوئے اُس نے بے تابی سے پوچھا تو اماّں نے رنگوں سے مبّرا اس کا چہرہ دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔
’’میری دھی تو مجھے ویسے ہی پریوں کی ملکہ لگتی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کو اچانک ہی اُس پر پیا ر آیا ۔۔
’’امّاں شکل وصورت کا تو مجھے پتا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ تیری دھی کی آواز پورے پنڈ کی لڑ کیوں سے زیادہ پیاری ہے۔‘‘سکینہ کے لہجے میں چھلکتے غرور پر جمیلہ مائی کا دل دہل سا گیا اُس نے ناگواری سے اپنی بیٹی کو ایک دفعہ پھر شیشہ دیکھتے ہوئے دیکھا۔
’’ہزار دفعہ سمجھایا ہے سکینہ ،سوچ سمجھ کر بولا کر کرئیے،اللہ نوں انّا مان پسند نئیں۔۔۔‘‘
’’امّاں کیا ہے،آج کے دن تو نصیحتیں نہ کر،ایک تو مجھے ساری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آئی کہ میں نے پہلی دفعہ ٹی وی پر آنا ہے۔ اب طبیعت عجیب سی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ سکینہ نے ہاتھ میں پکڑا فیس پاؤڈر تکیے پر پٹخا تو اس کا مزاج برہم دیکھ کر جمیلہ مائی دانستہ خاموش رہی کچھ توقف کے بعد اُس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
’’دیکھ سکینہ ،یہ پہلی اور آخری دفعہ تجھے ٹی وی پر لے کر جارہی ہوں لیکن اگلی دفعہ مجھ سے امید نہ رکھنا۔‘‘جمیلہ مائی نے اس کی بات سنی ان سنی کر کے ایک اور نصیحت کی ۔’’ہم یہاں علاج کے لیے آئے ہیں اللہ سوہنا شفاء دے تو ہم اپنے پنڈ واپس جائیں۔‘‘
’’اچھا ناں امّاں، اب ڈاکٹر صاحب کے سامنے یہ پینڈو باتیں نہ کرنا،خدا خدا کر کے تو ،تو نے اپنی پنڈ والی بولی بولنا یہاں چھوڑی ہے۔۔‘‘سکینہ بُری طرح چڑ گئی تھی۔’’ہاں اور اپنے جاجی کو بتا دیا ہے ناں کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں جائے گا۔‘‘ اُسے ایک دم یاد آیا۔
’’زیادہ اوکھی نہ ہوا کر ۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے ناک سے مکھی اڑائی ’’بتا دیا ہے کہ میڈم صیبہ کا دماغ ٹھکانے نئیں اے ،اس لیے وہ کملا یہیں بیٹھ کر ہمیں اڈیک لے گا۔‘‘جمیلہ مائی نے غصّے سے کہاتو اُس نے بھی مزید تبصرہ نہیں کیا۔
ڈاکٹر خاور کا ڈرائیور انہیں اپنی گاڑی پر ہوٹل چھوڑ آیا تھا۔ان کے ساتھ سسٹر ماریہ بھی تھی جس کو ڈاکٹرخاور نے امّاں کی مدد کے خیال سے ساتھ آنے کو کہا تھا۔ تاکہ وہیل چئیر سے اتارنے اور چڑھانے میں مدد کر سکے۔
مشہور و معروف ہوٹل کے اس خوبصورت ہال میں بے شمار کیمرے،روشنیاں اور لوگوں کو دیکھ کر سکینہ کافی بوکھلا سی گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں جمیلہ مائی پرسکون تھی اور حسب معمول وہ اپنی تسبیح میں مگن تھی ۔سکینہ کو اسٹیج پر پہنچا دیا گیا تھا جہاں اس مقابلے میں شرکت کرنے والے شرکاء موجود تھے۔ بہت سی آنکھوں میں اپنے لیے ترحم کے جذبات دیکھنا سکینہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی،لیکن اس وقت وہ عجیب سی گھبراہٹ کا شکارہو رہی تھی۔اُس نے بے شمار لوگوں میں بھی ڈاکٹر خاور کو ایک دراز قد ،خوبصورت مگرپر وقار خاتون کے ساتھ اندر آتے دیکھا تو اُس کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔لوگوں کی آنکھوں میں موجود تمسخر ، ترحم اور ہمدردی اب اُسے کوفت میں مبتلا نہیں کر رہا تھا۔
مقابلے کا آغاز ہو چکا تھا۔اسٹیج سیکرٹری حصّہ لینے والے افراد کو باری باری بلا رہی تھی۔ سکینہ کو پہلی نعت سننے کے بعد ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ مقابلہ اتنا آسان نہیں اور دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے موجود ہیں جن کی آوازیں دل پر اثر کرتی ہیں۔
’’امّاں بتا ناں،میں نے نعت کیسی پڑھی۔۔۔؟؟؟؟مقابلے کے اختتام پر سسٹر ماریہ اُس کووہیل چئیر پر بیٹھا کر ہال میں لے آئی تھیں۔نتائج کا اعلان ایک وقفے کے بعد تھا ۔سکینہ نے امّاں کے پاس پہنچتے ہی بے تابی سے پوچھا تھا۔اس سے پہلے کہ جمیلہ مائی اس کے سوال کا جواب دیتیں، ڈاکٹر خاور گرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس ایک سوبر سی خاتون کے ساتھ وہاں تشریف لے آئے۔ سکینہ کی دھڑکنوں نے اودھم سا مچا دیا۔
’’ماما،ان سے ملیں، یہ سکینہ ہیں، جن کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کو ایک دم اپنے سامنے پا کر وہ بوکھلا سی گئی۔
’’ماشاء اللہ بیٹا ،آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے۔‘‘ اُس خاتون نے تھوڑا سا جھک کے سکینہ کے ماتھے پر بوسہ دیا۔اُن کے محبت بھرے انداز پر سکینہ ششدر سی رہ گئی۔اپنی بیماری کے دنوں میں جمیلہ مائی کے بعد یہ اس کی زندگی میں دوسری خاتون تھیں جنہوں نے انتہائی محبت اور شفقت بھرے انداز سے سکینہ کو مخاطب کیا تھا۔اُس کی تو سخت حیرت سے قوت گویائی ہی سلب ہو گئی تھی۔وہ خاتون اب اسی انداز سے جمیلہ مائی سے مخاطب تھیں۔
’’خاور آپ کا اور سکینہ کے والد صاحب کا بھی بہت ذکر کرتا ہے،وہ بہت متاثر ہے آ پ دونوں سے‘‘ڈاکٹر خاور کی والدہ کا خمیر بھی محبت سے گندھا ہوا لگ رہا تھا۔اُن کے محبت بھرے انداز پر جمیلہ مائی اور سکینہ کھل کر مسکرائیں۔دونوں کو ہی وہ خاتون بہت اچھی لگیں تھیں۔
’’بس بہن جی میرے مولا کا کرم ہے ،سب تعریف اسی ذات کی ہے،ہم انسانوں کا تو کوئی زور نہیں۔‘‘ جمیلہ مائی کا لہجہ شکرگزاری سے لبریز تھا۔
’’میں تو خاور سے کہہ رہی تھی کہ بچی کی آواز میں دل کو چھو لینے والا سوز ہے۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی والدہ کے اپنائیت بھرے انداز کے باوجودسکینہ سے ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا۔وہ کنکھیوں سے اپنے بالکل سامنے بلیک پینٹ پرلائٹ پرپل شرٹ پہنے مردانہ وجاہت سے مالا مال ڈاکٹر خاور کو دیکھ رہی تھی جو سسٹر ماریہ سے گفتگو میں مگن تھے۔ان کی والدہ کچھ دیر ان کے پاس ٹھہرنے کے بعد کسی اور کو ملنے کے لیے بڑھ گئیں تھیں۔
’’ڈاکٹر خاور کو دیکھ کر یہ ہی لگتا تھا کہ کسی نیک عورت نے ان کی پرورش کی ہے۔آج اس بات کا یقین بھی آ گیا۔‘‘ ادھیڑ عمر سسٹر ماریہ نے ان کے جاتے ہی بلند آواز میں تبصرہ کیا۔
’’اللہ پاک ان کو زندگی اور صحت دے اور اولاد کی خوشیاں دِکھائے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے بھی خلوص دل سے دعا دی۔
اسی دوران پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو گیا تھا۔ سسٹر ماریہ نے سکینہ کی وہیل چئیر کو اسٹیج کے بالکل قریب کر دیا تھا۔مہمان خصوصی کے خطاب کے بعد نتائج کا اعلان ہونا تھا۔ سکینہ کو عجیب سی بے چینی لاحق ہوئی۔دل میں عجیب سی پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسٹیج سیکرٹری سے نتائج والاصفحہ چھین کر پڑھ لیتی۔وہ اماّں سے کچھ فاصلے پر دیوا رکے پاس تھی۔
’’نی سکینہ جدوں دل بے چین ہو وے تے آیت الکرسی پڑھیا کر۔۔۔‘‘امّاں کی بات اچانک ہی ذہن کے پردے پر روشن ہوئی تو وہ آنکھیں بند کر کے آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔
’’کوئی فائدہ نہیں ،جو چیزیں اللہ تعالی قسمت میں لکھ دیتا ہے،وہ ہو کر رہتی ہیں۔۔۔‘‘ یہ بات سن کر وہ دنگ رہ گئی۔اُس نے گردن گھما کر اپنے سے چند گز کے فاصلے پر ایک انتہائی ہینڈسم شخص کو وہیل چئیر پر بیٹھے دیکھا۔جس کے چہرے پر ایک بے رحم سی مسکراہٹ تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہیں کہ اتنے خوبصورت اور ہینڈ سم بندے کو قسمت نے کہاں لا بٹھا یا ہے۔۔۔‘‘ وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔سکینہ اپنے خیالات کے عیاں ہونے پر ایک دم خفت زدہ ہوئی۔
’’ویسے آواز آپ کی اچھی تھی اور نعت کا انتخاب بھی اچھا تھا۔۔‘‘وہ اسٹیج پر موجود مہمان خصوصی کی تقریر سننے کی بجائے اس پر بے لاگ تبصرہ کر رہا تھا۔سکینہ کی ساری حسیات چاق و چوبند ہو گئیں لیکن وہ دانستہ چپ رہی۔
’’کیا آپ کا بھی دل کرتا ہے کہ ایک دفعہ تو ضرور زمین کو اپنے قدموں سے چھو کر دیکھیں۔۔۔‘‘وہ تھکن گزیدہ لہجے میں اُس سے پوچھ رہا تھاسکینہ نے ایسے تعجب سے آنکھیں کھول کر اس کی بات سنی جیسے کوئی بہت غیر معمولی بات ہو۔
’’بتائیں ناں سکینہ اللہ دتّا۔۔۔‘‘اُس کے منہ سے اپنا نام سن کر سکینہ کا رنگ فق ہو گیا۔اُسے پہلی دفعہ اس بندے سے خوف محسوس ہوا۔جو اپنی وہیل چئیر اُس کے قریب لے آیا تھا۔
’’پپ پتا نہیں۔۔۔‘‘وہ تھوک نگل کر بمشکل بولی۔
’’دیکھو لڑکی زندگی بہت ظالم چیز ہے۔ اس میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب آپ کے قدموں کے نیچے سے زمین اور سر کے اوپر سے آسمان چھن جائے۔ اس لیے خود کو ہر قسم کے حالات کے لیے تیا ر رکھنا چاہیے ورنہ میرے جیسا حال ہوتا ہے۔‘‘وہ اس اجنبی شخص کی بے موقع اوربے محل نصیحت کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ جس کے چہرے پر اذیت، بے بسی اور تلخی کا بسیرا تھا۔۔
سامنے اسٹیج پر نتائج کا اعلان شروع ہو گیا تھا۔ سکینہ کا سارا وجود مجسم سماعت بن گیا تھا کچھ لمحوں کے لیے وہ اپنے پہلو میں موجود وہیل چئیر والے خوبصورت شخص کوبھی بھول گی۔اُس کے اعصاب پر منوں وزن آن گرا ۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی دھڑکنیں مدھم ہوتی جارہی تھیں۔
* * *
’’وقت کی زنجیر میں الجھا ہوا لمحہ۔۔۔‘‘اُس نے پینٹنگ کاعنوان پڑھا اور ٹھٹھک کر رک گیا۔
’’سورج پر دستک دیتاہوا مخروطی ہاتھ۔۔۔‘‘ اس تصویر نے تو گویا اس کی قوت گویائی سلب کر لی ۔
’’خزاں رت کی پہلی کونپل۔۔۔‘‘ وہ مبہوت سا ہو گیا۔اُس کی ستائشی نظریں اگلے کئی لمحوں تک اس پینٹنگ پر جمی رہیں۔
’’آپ کے تخیل کی دنیا بہت وسیع ہے،بہت اچھوتے خیالات کو آپ نے کینوس پر منتقل کیا ہے۔۔۔‘‘ سیاہ پینٹ پر کاسنی شرٹ پہنے اور بازؤں کو کہنی تک فولڈ کیے وہ تازہ تازہ کی گئی شیو میں انتہائی خوبرو اور وجیہہ لگ رہا تھا۔وہ نمائش کے پہلے دن، شام چار بجے کے قریب پہنچا اتنے عرصے میں عائشہ کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اب نہیں آئے گا۔اُس وقت وہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات میں گھری ہوئی تھی۔
’’آپ کب آئے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ایک فطری سی خوشی کے بڑے بے ساختہ رنگ اس کے چہرے پر چھلکے ۔آج تو پنک کلر کی لمبی قمیض اور سفیدچوڑی دار پاجامے کے ساتھ وہ اپنے کندھوں تک آتے بال کھولے عام دنوں سے ہٹ کر بڑی دلکش لگ رہی تھی۔
’’میں اُس وقت آیا تھا جب آپ عوام الناس کو آٹو گراف دینے میں مگن تھیں۔۔۔‘‘اُس کے لہجے سے زیادہ آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی۔وہ اس کی بات پر جھینپ کر ہنس پڑی۔
’’اوہ مائی گاڈ،بہت سحر انگیز ہے یہ تصویر‘‘وہ ایک پینٹینگ کے سامنے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اُس کی طرف مڑا۔اُسکی آنکھوں میں موجود ستائش پروہ مسکرائی۔
’’سمندر کے پانیوں پر رقص کرتی ہوئی لڑکی اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ اُس شخص کی نظریں کسی مقناطیس کی طرح اس تصویر پر جم گئیں تھیں۔عائشہ نے اس پینٹنگ کو ’’محبت ‘‘کا عنوان دیا تھا۔
’’محبت میں وصل کا خمار جب دل کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے تو زندگی ایسے ہی رقص کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔انسان اپنے بازؤں میں خوشبوؤں کو اوڑھ لیتا ہے۔اُسے ہواؤں کی سرگوشیاں ،چٹکتی کلیوں کی صدااور درختوں کی برہنہ شاخوں پر کونپلوں کی شرارتیں تک سمجھ آنے لگتی ہیں۔‘‘ اُ س کے الفاظ میں بہتے پانیوں کی سی روانی پر اب حیران ہونے کی باری عائشہ کی تھی وہ چونک کر اُس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کے نقوش میں کسی دیوتا کی سی تمکنت اور بے نیازی تھی۔
’’آپ کے نزدیک محبت کیا ہے عائشہ۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ اُس کی گہری نگاہ نے عائشہ کے دل کی دنیا اتھل پتھل کر دی تھی۔وہ ہال کے ایک ستون سے ٹیک لگائے بازؤں کو سینے پر لپیٹے بڑی فرصت سے اس طرح اُس سے مخاطب تھا جیسے دونوں میں صدیوں کی شناسائی ہو۔
’’میں کوئی مصنفہ نہیں ،ایک عام سی اور معمولی سی مصورہ ہوں۔مجھے اپنے جذبات کا اظہار رنگوں کی صورت میں کرنا آتا ہے۔میں لفظوں کے معاملے میں تہی دست ہوں۔‘‘اُس نے بے بسی سے کندھے اچکائے تو وہ بڑے دھیمے سروں میں ہنسا ۔
’’محبت کسی خزاں رسیدہ شاخ پر پھوٹنے والا پہلا شگوفہ ہے۔کسی کی آنکھ میں خوشی کا احسا س منجمد کرنے والا جذبہ ہے۔کسی معصوم بچے کی پہلی قلقاری ہے اورتتلی کے پروں کی آہٹ ہے‘‘ ماہم منصور بہت خاموشی سے اس منظر کا حصّہ بنی تھی۔وہ دونوں چونکے۔
لیمن کلر کے سوٹ میں وہ موسم بہار کا کوئی اولین پھول محسوس ہو رہی تھی۔اُس شخص نے سوالیہ نظروں سے اُس لڑکی کو دیکھا جس کی آنکھوں میں ایک مسحورکن سی چمک تھی۔جب کہ وہ ان کی بات کا جواب دے کر اپنے ہاتھ میں پکڑا بکے عائشہ کے ہاتھوں میں منتقل کرتے ہوئے بولی۔
’’میں ماہم منصور ہوں،عائشہ رحیم کی بہترین دوست۔۔۔‘‘ وہ اپنے سامنے کھڑے شخص کی شخصیت میں چھپی تمکنت سے بُری طرح مرعوب ہو چکی تھی۔’’آپ کی تعریف؟‘‘ ماہم نے انتہائی اشتیاق بھرے لہجے میں دریافت کیا تھا۔
’’مجھے علی کہتے ہیں۔۔۔‘‘وہ بے نیازی سے اب اپنے سامنے دیوار پر آویزاں پینٹنگ کی طرف متوجہ تھا۔اس نے ماہم پر صرف ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور اپنے سابقہ مشغلے میں مصروف ہو گیا۔
’’مائی گاڈ۔۔۔!!!!‘‘ وہ اس تصویر کے آگے بھی جم کر کھڑا ہو گیا ۔
’’کون ہے یہ ۔۔۔؟؟؟ ماہم نے آنکھ کے اشارے سے عائشہ سے دریافت کیا۔
’’اپالو کا مجسمہ۔۔۔‘‘ ماہم نے اُس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ ٹھٹک گئی اور سخت حیرت اور بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگی۔
’’عائشہ ۔۔۔یہ تو حقیقت میںآپ کا ماسٹر پیس ہے ۔۔۔‘‘ وہ مڑا اور اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی عائشہ کو دیکھا جواُس کی بات پر سادگی سے مسکرائی جب کہ ماہم جو ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھنے میں مگن تھی ۔اُس کے اس طرح اچانک پلٹنے پر ہڑبڑا کر اُس تصویر کی طرف متوجہ ہو گئی ۔
’’صنم کدے میں دیوتا کے چرنوں میں بیٹھی ہوئی داسی کی آنکھوں میں اتنی وحشت ہے کہ مجھے لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے یہ مورت بول پڑے گی۔‘‘وہ پر شوق نظروں سے اُس پینٹنگ کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔
’’وحشت،خوف ،ڈر،اضطراب،نفرت ،محبت بلکہ دنیا کا ہر جذبہ لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔وہ قوت گویائی نہیں رکھتا لیکن اس کی زبان پھر بھی سمجھ میں آتی ہے‘‘ عائشہ نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا۔
’’دیٹس مائی پوائنٹ۔۔۔!!!!!! ‘‘ وہ پرجوش ہوا۔
’’آپ کی بات سے میں سوفیصد متفق ہوں لیکن ا س کے باوجود محبت واحد ایسا جذبہ ہے جب بولتا ہے تو پوری کائنات رقص کرنے لگتی ہے۔ سماعتیں اس کے ذائقے کو چکھنا چاہتی ہیں۔دل کی بنجر زمین پر جب لفظوں کے پھول کھلتے ہیں تو ہر چیز بہار کا پیراہن اوڑھ لیتی ہے۔آنکھ کی بستی میں جب محبتوں کے موسم اترتے ہیں تو زندگی سرخ گلابوں سے سجی سیج محسوس ہوتی ہے۔‘‘ اُس کا لہجہ دل کو چھوتا ہوا جب کہ لفظوں کا انتخاب اس قدر عمدہ تھا کہ وہ دونوں ہی چونک گئیں۔
’’آپ کیا کوئی شاعر ہیں یا ادیب۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کا دل چاہا کہ وہ اس ساحر سے مخاطب ہواس لیے وہ خود کو بولنے سے نہیں روک پائی۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ حد درجہ سنجیدہ ہوا۔
’’اصل میں آپ لفظوں کا استعمال اس قدر خوبصورتی اور مہارت سے کر رہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کا تعلق ادبی مکتبہ فکرسے ہے۔۔۔‘‘ماہم کو اپنا سارا اعتماد اس شخص کے سامنے بھک کرکے فضا میں تحلیل ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔وہ زندگی میں پہلی دفعہ اس واردات سے گذری تھی اس لیے ہلکی سی جھنجھلاہٹ کا شکارہو ئی۔
’’دیکھیں محترمہ،خوبصورت لفظوں پر صرف ادبی لوگوں کی اجارہ داری نہیں ہوتی اور ضروری نہیں کہ جن لوگوں کا تعلق ادب سے نہ ہو تو وہ سارے کے سارے ’’بے ادب‘‘لوگوں کی کیٹگری میں آتے ہوں۔‘‘اُس کے دوٹوک سپاٹ سے انداز پر ماہم کا چہرہ سرخ ہوا ۔
جب کہ وہ اب اگلی تصویر کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ ماہم کو اپنی ذات کی تحقیر سی محسوس ہوئی ۔وہ دل ہی دل میں اُس لمحے کو کوس رہی تھی جب اُس نے اس مغرورشخص کو مخاطب کرنے کی غلطی کی۔جو دوبارہ سے بڑی بے نیازی کے عالم میں پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے بڑی فرصت سے اُس کام میں مشغول ہو گیا تھا جس کے لیے وہ گھر سے آیا تھا۔
’’ہم اس کے ملازم نہیں ہیں جو یہاں اسے پروٹوکول دینے کو کھڑے رہیں۔‘‘ماہم نے سخت ناگواری سے عائشہ کودھیمے لہجے میں کہا تو وہ گڑ بڑا سی گئی۔
’’ایکسکیوزمی۔۔۔ہمیں کچھ اور لوگوں سے ملنا ہے ،امید ہے آپ مائنڈ نہیں کریں گے۔۔۔‘‘ عائشہ نے بڑے محتاط سے انداز سے اُسے مخاطب کیا تو وہ فوراً مڑا۔
’’اوہ ۔۔۔شیور،وائے ناٹ۔۔۔‘‘اُس کی آنکھوں میں بڑا نرم سا تاثر تھا۔
’’یہ شخص دیکھنے میں جتنا ہینڈسم اور ڈیشنگ ہے۔اس سے زیادہ روڈ اور بدتمیز ہے،کوئی ضرورت نہیں اس کو منہ لگانے کی۔۔۔‘‘ماہم تھوڑا سا فاصلے پر جاتے ہی پھٹ پڑی۔’’اس کو تو خواتین سے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں۔۔۔‘‘ماہم کے رخسار غصّے کی زیادتی سے تپ کر اسٹابری کی طرح سرخ ہو گئے تھے۔
’’نو مائی ڈئیر ،ایسا نہیں ہے۔تم خوامخواہ حساّس ہو رہی ہو۔وہ ایسا نہیں ہے۔۔‘‘عائشہ نے تحمل بھرے انداز سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تمہیں بڑی لوگوں کی پہچان ہے۔۔۔‘‘ ماہم نے اس کی بات پر سرجھٹکتے ہوئے بیزاری سے کہا۔ ’’پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے ،ذرا سی شکل اچھی ہے لیکن اخلاقیات نام کی کوئی چیز اُسے چھو کر بھی نہیں گذری ‘‘ماہم کو بے تحاشاغصّہ آرہاتھا۔اُسے پہلی دفعہ کسی نے اس طرح نظر انداز کیا تھا۔
’’بی ریلکس ماہم۔۔۔‘‘عائشہ نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت بھرے انداز سے کہا اور پھر صرف اس کا موڈ تبدیل کرنے کے لیے بات کا رخ بدلا۔۔ ’’تم نے رامس کو نہیں انوائیٹ کیا تھا اس ایگزیبیشن میں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’میں نے انوائیٹ کیاتھا۔وہ آج کچھ بزی ہے اس لیے کل آئے گا۔۔۔‘‘ اُس نے بمشکل اپنے تنے ہوئے اعصاب پر قابو پایا۔’’ایک بات تو بتاؤ۔۔۔عائشہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس کا انداز اتنا عجیب نہیں تھا جتنا آنکھوں میں موجود تاثر اُسے عجیب سا بنا رہا تھا۔
’’ہاں پوچھو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے اس کی پیشانی پر موجود ان گنت شکنوں کی تعداد کو گنا۔
’’کیا یہ شخص رامس سے زیادہ ہینڈ سم ہے۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘وہ ماہم کے اس بے تکے سوال پرہکا بکاّ رہ گئی ۔اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ماہم کی سوئی اُس شخص پر آ کر کیوں اٹک سی گئی ہے۔اُس کے چہرے پر سوچ کا تاثر خاصا نمایاں تھا۔
’’ماہم اس کا رامس سے بھلا کیا مقابلہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے ماہم کو دیکھا جو بڑے عجیب سے انداز سے اپنے سے کچھ فاصلے پر موجود اُس شخص کی پشت پر نظریں ٹکائے کھڑی تھی۔اُس کے لبوں پر پھیلتی پر اسرار سی مسکراہٹ جوں جوں گہری ہو رہی تھی عائشہ کو ویسے ویسے اپنا دل کسی گہری کھائی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...