(Last Updated On: )
وقت کی ہر آفت کو اپنے سر سے ٹالے رکھتا ہوں
یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں
خواب کے روزن سے در آئی روشنیوں کا کیا کہنا
گھور اندھیرے میں بھی اپنے پاس اجالے رکھتا ہوں
ہر مایوسی سہہ لیتا ہوں شاید اس کی برکت سے
یہ جو انہونی کا سپنا دل میں پالے رکھتا ہوں
کیا معلوم کہ جانے والا سمت شناس فردا ہو
تھوڑی دور تو ہر مرکب کی باگ سنبھالے رکھتا ہوں
اپنے اس انکار کے باعث دین کا ہوں نہ ہی دنیا کا
ہر خواہش کو پاؤں کی ٹھوکر پہ اچھالے رکھتا ہوں
زہر کا پیالہ، سوکھا دریا اور صلیب و دار و رسن
میں بھی اپنے ہونے کے دو چار حوالے رکھتا ہوں
٭٭٭