آج اس کی طبیعت بہتر تھی اس لئے بگیچھے میں آ گیا وہ جانتا تھا اس وقت سیم بھی وہیں ہوگی وہ درخت کے نیچے بیٹھ کر سیٹیاں بجا رہی تھی
یوسف بھی اسی کے پاس آ کر بیٹھ گیا
” تمھیں پتا ہے کل گھر آ کر امی سے مجھے خوب ڈانٹ پڑی” اس نے بتایا
” پر تمہارے کان پر جوں تک نہی رینگی ہوگی ہے نہ” سیم نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا
یوسف مسکرا دیا ہان کیوں کے میرے سر میں جویں ہیں ہی نہیں
سیم ہنس دی پھر یاد آیا تو بولی یوسف تمھیں یاد ہے نہ کل ہمارا ساتویں کلاس کا رزلٹ ہے
ہان یاد ہے اس نے لاپرواہی سے کہا
“مجھے ڈر لگ رہا ہے یوسف”
ارے پاگل فکر نہ کرو نہیں ہوگی تم فیل اس نے تسلی دی
” مجھے پتا ہے میں پاس ہو جاؤں گی میں تو تمہارے لئے فکر مند ہوں”
تم فکر نہ کرو اگر تم پاس ہوئی تو میں بھی پاس ہو جاؤں گا کیوں کے میں نے سارا پیپر تم ہی سے دیکھ کر لکھا تھا اس نے اطمینان سے بتایا
یوسف تم نے مجھے کاپی کیا”. سیم غصے میں آ گئی
“زیادہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم بھی تو مجھے کاپی کرتی ہو”
جھوٹے میں نے کب تمھیں کاپی کیا یوسف نے اک طنزیہ نگاہ اسکے سراپے پر ڈالی سیم اسکا مطلب سمجھ کر شرمندہ ہو گئی پر شمریندگی مٹانے کے لئے بولی
اچھا ٹھیک ہے معاف کیا
یوسف ہنس دیا میں نے معافی کب مانگی تم سے سیم
سیم دانت پیس کر رہ گئی
اسی طرح ہنستے کودتے تو کبھی لڑتے جھگڑتے وقت کا پہیہ گھومتا گیا
اور انکے بچپن کو سمیٹتا گیا
بچپن
لڑکپن
اور پھر جوانی تک کے سفر میں بہت کچھ تبدیل بھی ہوا تھا
رمشا آپی کی کچھ مہینے پہلے ہی شادی ہو چکی تھی
گھر میں بھی چھوٹی بڑی بہت سی تبدیلیاں آئین تھی
پر اگر کچھ نہیں بدلہ تھا تو سیم کا یوسف کو کاپی کرنا جیسے وہ بولتا تھا جیسے وہ رہتا تھا یہاں تک کہ جو وہ پہنتا تھا
جیسا یوسف کا ہیر سٹائل ہوتا ویسا ہی سیم کا ہوتا جو چیز یوسف کو پسند ہوتی لازمی بات تھی کے سیم کو بھی وہی چیز پسند کرتی وہ بلکل یوسف کی کاپی تھی پہلی بار ملنے والے تو انہیں بھائی ہی سمجھ لیتے
——————————————————————-
اس وقت یوسف بیٹھا ریسکلنگ دیکھ رہا تھا
سیم گلے میں لڑکوں کو طرح سکارف لٹکاۓ آ گئی
“یوسف چلو گھومنے چلتے ہیں ”
میرا اس سردی میں مرنے کا ارادہ بلکل نہی ہے میں تو بلکل نہیں آ رہا اس نے صاف انکار کیا
ٹھیک ہے نہ آو میں اکیلی ہی چلی جاتی ہوں وہ کہ کر باہر نکل ائی ہیلمٹ پہنا بائیک سٹارٹ کی اور چلی گئی
ساری سڑک سنسان پڑی تھی وہ بڑے مزے سے بائیک چلا رہی تھی… تبھی پیچھے سے اک اور بائیک ای… چلانے والے نے بھی ہیلمٹ پہنا تھا
پر وہ بائیک کو اور بائیک والے کو پہچانتی تھی
وہ یوسف تھا وہی یوسف جو کہتا تھا کہ وہ لڑکیوں کو پسند نہی کرتا پر اک لڑکی ہی کے پیچھے اس سردی میں نکل پڑا تھا
وہ ہمیشہ اس سڑک پر ریس لگاتے تھے
اب بھی سیم کا ارادہ ریس لگانے کا تھا اس لئے جوں ہی یوسف کی بائیک اس کے قریب ای اس نے سپیڈ بڑھا دی
یوسف اسکا انداز سمجتا تھا دونوں نے خوب ریس لگائی پر ہمیشہ کی طرح جب وہ ہارنے لگی تو اس نے بائیک کی سپیڈ کم کر کے گیر لگایا اور جھٹکے سے بائیک کا اگلا وہیل اٹھا لیا وہ ون وہیلنگ کرنے میں ماہر ہو گئی تھی
پر یوسف کو ہمیشہ اسکی ون وہیلنگ سے مسلہ رہا تھا اس لئے اس نے اپنی بائیک اک سائیڈ پر روک دی
سمیہ نے اسے بائیک روکتے دیکھا تو خود بھی اس کے پاس آ کر رک گئی
سیم میں تمھیں یہ آج آخری بار سمجھا رہا ہوں آئندہ میں تمھیں ون وہیلنگ کرتا نہ دیکھوں ورنہ میں چچی سے تمہاری شکایت لگا دوں گا”
سمیعہ ہنسنے لگی “یوسف شکایت لڑکیاں لگاتی ہیں”
یوسف نے غصے سے موٹھیاں بھینچ لی
مجھے تمھیں ون وہیلنگ سکھانی ہی نہی چائیے تھی
سمعیہ نے لاپرواہی سے کھندے اچکا دیے یوسف کو اسکی یہ حرکت مزید غصہ دلا گئی
اس نے چپ چاپ اپنی بائیک سٹارٹ کی اور چلا گیا سمیعہ کو بھی اب گھر جانے کی جلدی پڑ گئی تاکہ جلدی سے جا کر اسے منا سکے
“سمیہ کدھر گئی تھی تم”
“وہ مما میں یوسف کے ساتھ گھومنے گئی تھی”
“پاگل تو نہی ہو گئی اتنی سردی میں گھومنے چلی گئی خود بھی بیمار ہو گی اور بیچارے یوسف کو بھی کرو گی”
چچی میں نے ہی کہا تھا کے چلتے ہیں گھر بیٹھ کر بور ہو گئے تھے یوسف نے پیچھے سے آ کر بتایا
سعدیہ بیگم نے اسے کچھ نہی کہا اور ٹی وی کی طرف موتوجہ ہو گیں جہاں انکا پسندیدہ ڈرامہ آ رہا تھا
سیم کچن میں آ گئی یوسف بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا
تم یہاں کیسے آ گیے اس نے فرج میں سے کچھ کھانے کے لئے ڈھونڈتے ہووے پوچھا
کیوں کے مجھے پتا تھا کے جب تم گھر آؤ گی تو چچی تمھیں ڈانٹیں گی اس لئے بچانے آ گیا
ہان اچھا کیا وہ ڈھونڈنے میں ہی مصروف رہی
یوسف باہر آ کر بیٹھ گیا
سمیہ کچن میں کیا کر رہی ہے” سعدیہ بیگم نے اس سے پوچھا”
“کچھ کھانے کے لئے ڈھونڈ رہی ہے”
یوسف بیٹا تم ہی اس کو کچھ سمجھاؤ کچھ تو گھر داری سیکھ لے انہوں نے پریشانی سے کہا
“چچی میں کیا کہ سکتا ہوں”
بیٹا جو تم کرو گے وہ بھی وہی کرے گی”
یوسف کو انکی بات سمجھ میں آ گئی ٹھیک ہے چچی میں سمجھاتا ہوں وہ فوراً ہی اٹھ کر کچن میں آ گیا
سیم اب کرسی پر بیٹھی بسکٹ کھا رہی تھی وہ بھی اک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا
سیم میں سوچ رہا تھا کیوں نہ کوکنگ سیکھیں
سیم نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر ہنس دی یوسف کوکنگ تو لڑکیاں کرتی ہیں
ضروری تو نہیں ہم جو ہر بات انگریزوں کی کاپی کرتے ہیں تو ان سے یہ بھی سیکھ لینا چائیے کے انکے مرد بھی کوکنگ کرتے ہیں اس نے سمجھایا
تو تم واقعی کوکنگ سیکھو گے سیم حیران تھی
یوسف نے سر ہلا دیا
ٹھیک ہے پھر میں بھی سیکھوں گی بلکہ چلو ابھی شروح کرتے ہیں وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
“مما جلدی سے ادھر آئیں”
کیا بات ہے سمیہ” انہوں نے پوچھا
مما مجھے اور یوسف کو کوکنگ سیکھنی ہے
سعدیہ بیگم نے مشکور نظروں سے یوسف کو دیکھا
وہ بس مسکرا دیا
مما کہاں سے شروع کریں سمیہ خاصی پرجوش ہو گئی
چلو آج تم لوگوں کو چاۓ بنانا سکھاتی ہوں
دونوں نے سر ہلا دیا
پھر سعدیہ بیگم نے انہیں چائے بنا کر دکھائی
مما اب ہم بنائیں گے اپ باہر جا کر بیٹھیں
سعدیہ بیگم مسکراتی ہوئی باہر چلی گئیں ان کے لئے یہی خوشی بہت تھی کے انکی بیٹی آج پہلی بار کوئی لڑکیوں والا کام سیکھ رہی تھی ورنہ آج تک تو صرف لڑکوں والے کام ہی سیکھے تھے
چلو یوسف میں پانی ابالتی ہوں تم چیزیں نکالو
یوسف نے جلدی سے چیزیں نکل لیں پھر پانی ابال کر سیم نے پتی ڈالی اور یوسف نے چینی
آخر پر آدھا دودھ سیم نے ڈالا اور آدھا یوسف نے سب کام بانٹ کر اس لئے کیے کہ وہ دونوں برابر کا کریڈٹ لے سکیں
“یوسف تم چاۓ کپ میں ڈالو مما کو دے کر میں آؤں گی”
“کیوں جی بنائی میں نے ہے تو دے کر بھی میں آؤں گا”
جھوٹے تم نے تو صرف چینی ڈالی ہے اور تھوڑا سا دودھ باقی سب تو میں نے کیا ہے”
“اچھا تو سچی پھر بچتا کیا ہے تم نے بھی تو صرف پتی ڈالی ہے اور تھوڑا سا دودھ”
“مما میری ہیں تو انہیں دوں گی بھی میں”
“چچی میری ہیں میں دوں گا”
وہ دونوں لڑتے رہی اور چاۓ ساری ابل کر باہر آ گئی یوسف نے دیکھا اور جلدی سے برنر بند کر دیا
دیکھو میں نے چاۓ کی جان بچائی ہے یوسف نے فخر سے کہا
بچا لی نہ اب دو سیم نے اگے بڑھ کر چاۓ کو کپ میں ڈالا
اب مجھے دو یوسف نے ہاتھ آگے بڑھایا
ہاتھ پیچھے کرو ورنہ ساری چاۓ تمہی پر گرا دوں گی”
گرا کر تو دکھاؤ وہ تن کر کھڑا ہو گیا
اچھا ایسا کرتے ہیں کپ کو اک طرف سے تم پکڑو دوسری طرف سے میں پکڑتی ہوں پھر لے کر جاتے ہیں
ٹھیک ہے” یوسف نے اگے بڑھ کر کپ کو اک طرف سے پکڑ لیا اور دونوں باہر آ گیے
سعدیہ بیگم نے انہیں اس طرح اتے دیکھا تو مسکرا دیں اور دل ہی دل میں انکی نظر اتاری
مما پی کر بتایں کیسی بنی ہے”
انہوں نے اک گھونٹ بھرا لیکن چاۓ اتنی اچھی تھی کے وہ دوسرا گھونٹ نہ لے سکیں
اچھی بنی ہے انہوں نے بمشکل کہا
سیم اور یوسف خوش ہو گئے
مما اب میں روز آپکو ایسی ہی اچھی چاۓ بنا کر پلاؤں گی سیم جوش میں آ گئی
نہیں بیٹا میں خودی بنا لیا کرو گی تم رہنے دو…
سیم اور یوسف نے کھندے اچکا دیے
——————————————————————————-
آج موسم اچھا تھا دھوپ نکلی ہوئی تھی اور چھٹی بھی تھی اس لئے سب بگیچے میں آ کر بیٹھ گئے
سمیہ اور یوسف بڑوں کی محفل میں بور ہوتے تھے اس لئے جھولے کے پاس آ گئے سیم جھولے پر بیٹھ گئی اور یوسف جھلانے لگا ”
“یوسف مجھے کچھ بتانا ہے”
اب کس سے لڑ آئ ہو” اس نے اطمینان سے پوچھا”
میں کبھی پہل نہیں کرتی یوسف”
ہان مجھے پتا ہے پر بتاؤ تو ہوا کیا”
وہ کل میں جب کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ سے آ رہی تھی نہ تو میری اک کلاس فیلو نے میرا مذاق اڑایا میں نے تھوڑی دیر برداشت کیا پر پھر بھی وہ چپ نہیں ہوئی تو میں نے اسے جا کر تھپڑ مار دیا
“اور وہ نازک سے لڑکی تمہارا تھپڑ برداشت نہی کر سکی ہوگی اور بےہوش ہو گئی ہو گی یوسف ہنسنے لگا
سیم شرمندہ ہو گئی نہی بے ہوش تو نہی ہوئی پر گر ضرور گئی
“پھر”
پھر کیا میں وہاں سے آ گئی”
“تو مسلہ کیا ہے”
وہ اسکا نہ باڈی بلڈر ٹائپ بھائی اسے لینے اتا ہے مجھے لگتا ہے کل وہ مجھے اس سے مرواۓ گی
یوسف نے اک بھرپور قہقہ لگایا
سب بڑوں نے باتیں روک کر انہیں دیکھا دونوں کتنے اچھے لگتے ہیں نہ ساتھ ہاجرہ بیگم نے کہا
بلکل خدا کرے یہ یوں ہی ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں سعدیہ بیگم نے بھی تائید کی
“یوسف مذاق نہ اڑاؤ دیکھنا کل وہ مجھے ضرور پٹواۓ گی”
ٹھیک ہے کل میں بھی چلوں گا دیکھوں تو ذرا ایسی کون سی لڑکی ہے جو میری سیم کو مرواۓ گی اور ایسا بھی کون سا باڈی بلڈر ہے جو تمھیں ہاتھ لگاۓ گا
سیم انسٹیٹیوٹ سے باہر نکلی تو یوسف کو اپنا منتظر پایا
چلو اب بتاؤ کون ہے وہ لڑکی”
سیم نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی وہ اسے اپنے بھائی کے ساتھ ہی کھڑی نظر آ گئی
وہ دونوں بھی انہیں ہی دیکھ رہے تھے
یوسف وہ رہی” سیم نے آنکھوں سے ہی اشارہ کیا
وہ دونوں بہن بھائی انہی کی طرف چل دیے
یوسف نامحسوس طریقے سے سیم کے اگے آ گیا
اس باڈی بلڈر نے آ کر یوسف کو سلام کیا یوسف نے بھی ہاتھ بڑھا دیا
میرا نام سرمد ہے اور یہ میری بہن زلیخا ہے اس نے بتایا
یوسف مسکرا دیا سیم کو تو مانو آگ ہی لگ گئی یوسف کسی لڑکی کو دیکھ کر پہلی بار مسکرایا جو تھا
” میرا نام یوسف ہے اور یہ میری کزن ہے سمیعہ”
سیم غصے کو قابو کرنے کے لئے مونھ دوسری طرف کر کے کھڑی رہی
درصل ہمیں مس سمعیہ سے کچھ کہنا تھا
وہ اصل بات کی طرف آیا
” ہان بولئیے نہ اپنی بہن کا بدلہ لینے اے ہیں نہ اپ میں نے کل اسے مارا اب اپ مجھے مارنے آ گے ہیں سمعیہ غصے سے بولی
سرمد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی
سیم چپ رہو یوسف نے ڈانٹا
وہ اصل میں زلیخا اپ سے معافی مانگنے ای ہے سرمد نے اک گہری نظر اس پر ڈال کر کہا زلیخا نے حیرانی سے بھائی کو دیکھا وہ یہ کیا کہ رہا تھا وہ تو یہاں سمعیہ کو ڈانٹنے آیا تھا اور اب اسے دیکھ کر الٹا ہی بولے جا رہا تھا
ٹھیک ہے معاف کیا سیم سے وہاں مزید کھڑا نہی ہووے جا رہا تھا وہ اپنا غصہ قابو نہی کر پا رہی تھی اس لئے اگے بڑھ گئی
یوسف بھی خدا حافظ کہتا جلدی سے اس کے ساتھ ہو لیا
بھائی یہ اپ کیا که رہے تھے زلیخا نے غصے سے پوچھا
ارے زلی تم بھی نہ پاگل ہو اتنی پیاری لڑکی کا مذاق اڑا رہی تھی”
بھائی یہ اپ کیا کہ رہے ہیں وہ اور پیاری ہنہ لڑکا ہے پوری”
سرمد نے مزید کچھ نہی کہا اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا زلیخا نے بھی مجبوراً تقلید کی ورنہ بھائی پر اسے غصہ بہت آ رہا تھا
——————————————————————————-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...