ایک ذرہ خاک سے آفتاب کیسے ہوتا ہے
صحرا میں پھول کیسے کھلتے ہیں
ہجر کی شامیں وصل کے اجالوں میں کیسے طلوع ہوتیں ہیں
کوئی انس سفیر کے دل سے پوچھتا
جس کی چاہ ابتدا سے ہو ….اور وہ انتہا میں مل جائے
پورے کا پورا…..صرف اور صرف اسکا
بھلا اس سے بڑھ کر آج روئے زمین پہ خوش نصیب تھا کوئی…؟؟؟؟
چلتی باد صبا نے جھوم کے اس اچھی لڑکے کے جھولے پہ آج یونہی کاسنی پھولوں کی بیل کے پھول نہیں بکھیرے تھے
بلکہ آج میں ان وصل کی خوشی تھی
ملن کی مستی تھی
انس سفیر آج اس محاذ پہ سرخرو ٹہرا تھا …..
اور مہرماہ سیال…..جس نے مہر ماہ سیال سے مہر ماہ انس کا سفیر شاید تین سیکنڈ سے بھی کم کے عرصے میں کیا تھا
ایک پل کیلئے تو اسے لگا کہ دل کے اندر جو شور اٹھا ہے آج اسے خاموش کردے گا
مگر مہر ماہ اب سوچ چکی تھی
ٹھان چکی تھی
کہ اسے اب خوش رہنا ہے …..یہ زندگی اسکی بھی اتنی ہی تھی
مگر یہ سب اتنا بھی آسان نہ تھا
میر برفت سپاٹ سے تاثرات کے ساتھ وہاں بیٹھے تھے اس میڈیا کا خوف نہ ہوتا تو وہ کب کا انس سفیر سے نمٹ لیتے مگر انس سفیر کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں تھا ….وہ جانتا تھا کہ انکی کمزوری کیا ہے
خاندانی نجابت اور شرافت ….اور بے داغ شملے
اور چاہے بھلے سے دل میں کتنے ہی داغ کیوں نہ ہوں…..
” بھئی سنا تو تھا….فوجی فاسٹ ہوتے ہیں مگر اتنے ہوں گے یہ آج پہلی بار دیکھا ہے….*
ثمر نے انس س
کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا
"ثمر صاحب…..دیکھنے میں اور سننے میں بہت فرق ہوتا ہے….”
انس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا
انس کے وجیہہ چہرے پہ پھیلتی خوشی کی بے پایاں کرنوں نے جیسے تاروں سے بڑھ کر اسے کردیا تھا
کرنجی آنکھوں میں جلتی محبت کی قندیلیں جگنوؤں کی طرح جگمگا رہی تھیں
کون کہتا ہے محبت صرف عورت کا روپ نکھارتی ہے
یہ تو آدم کو بھی سنوارتی ہے
اسے بھی اپنا مان دیتی ہے جو اسکا مان رکھتے ہیں
اور انس سفیر ان میں سے ایک تھا…..!!!!!
"بھئی انکی تیزی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ محترم کو اچانک ہی جانا پڑ رہا ہے ایک کورس کیلئے تو انہوں نے سوچا اپنی کمٹمنڈ کرکے جاؤں پوری …یہ نکاح تو طے تھا مگر دیکھیں وقت کا چکر انس کو جانا پڑ رہا ہے اور بھابھی جی اسپتال پہنچ گئیں…..لیکن لیکن یہ بھی تو دیکھیں ایک فوجی کی مستقل قدمی اسپتال کو ہی شادی کا وینیو بنا دیا مبارک ہو دوست…..مبارک ہو….”
انس کا دوست عمار بولا
مہرماہ سر جھکا کے مسکرائی تھی
انس نے نہ جانے انہیں کیا پٹی پڑھائی تھی…..یہاں نکاح ہونے کی
” اوہ تو…..تم پوری پلاننگ کرکے یہاں تشریف لائے ہو….نکاح تو کراچکے ہو ….مگر رخصتی کیسے کراؤگے….میں بھی دیکھتا ہوں….اسی میڈیا کے سامنے تمہیں پابند کرتا ہوں…جس کے آگے تم نے مجھے روکا…..”
میر برفت نے تنفر سے سوچا تھا
اس پل انہیں مہرماہ کے چہرے پہ جگمگاتی خوشی نظر نہیں آئی تھی وہ مہرماہ کو خوش بھی اپنی مرضی سے دیکھنا چاہتے تھے
کیسی حاکمیت پسند محبت تھی انکی….
انا جتاتی ہوئی
_____________________________________
” ثمر بات سنو…..”
میر جاذب نے پکارا
” جی تایا ابو….”
ثمر مودب ہوا
” ہالار….کچھ ہی دیر میں آنے والا ہوگا…اور پھر اچھا خاصا تماشہ لگ جائے گا….انس جس طریقے سے بات سنبھالی ہے اسکی ساری محنت پہ پانی پھر جائے گا….”
میر جاذب فکر مندی سے بولے تھے
” ہوں….بات تو فکر کی ہے….آپ ریلیکس رہیں میں کچھ کرتا ہوں.,..”
ثمر سوچتے ہوئے بولا
” کچھ بھی کرو….مگر ہالار یہاں نہیں آنا چاہئیے کسی طرح اسے روکو….”
میر جاذب بہت پریشان تھے
اپنی اولاد سے وہ بہت اچھے سے واقف تھے
” آج تو آپ لوہے کی بھی دیوار بنا لیں تب بھی وہ آئے گا…..مگر اسے روکنا ہے کیسے ….یہ سوال ہے…..”
کرمنالوجی کا ماہر یہی سوچ رہا تھا
اس نے ایک عرصہ جرائم پہ ریسرچ کی تھی بڑی تعداد مجرم کی اس وجہ سے ہوتی تھی کہ وہ اپنی انا اور تسکین کیلئے خون کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے
وہ میر ہالار کو مجرم بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا
حالانکہ وہ مجرم تھا
کسی کے دل کو توڑنے کا
اور دل توڑنے سے بڑی سزا آخر کیا ہوسکتی ہے….کہ اس شخص کو نامراد ہی رہنے دیا جائے
” ہیلو….ہاں ہالار…. کہاں ہو…”
ثمر نے پوچھا
” بس آرہا ہوں…..راستے میں ہوں….کیوں…”
ہالار نے کہا
” اصل میں ایک ایمرجنسی ہوگئی ہے….”
ثمر نے پریشانی سے کہا
” کیا….کہیں مہرماہ نے تو کوئی سیچوئشن کریٹ نہیں کر ڈالی….”
ہالار نے پوچھا
” نہیں …”
” پھر…”
” وہ دادا…”
ثمر نے بات ادھوری چھوڑی
” کیا ہوا دادا کو….”
ہالار نے پریشانی سے پوچھا
” ہالار….تم سیدھا سٹی ہاسپٹل آؤ…..دادا کو وہیں ریفر کیا گیا ہے….انکی طبیعت اچانک سے ہی سیریس ہوگئی ہے…بی کوئیک…”
ثمر نے فراٹے سے جھوٹ گھڑا تھا
” واٹ…..” ہالار نے جھٹکے سے گاڑی روکی تھی
” مگر کیسے….”
” پتہ نہیں….بٹ کم سون….”
ثمر نے زور دیتے ہوئے کہا
” لیکن مولوی صاحب میرے ساتھ ہیں….”
ہالار نے کہا
” اچھا ہالار میاں سہرا باندھنے کی پڑی ہے اور یہاں جو دادا کا حال ہے….”
ثمر نے طنز کیا
” ارے نہیں…..اچھا میں آرہا ہوں…بٹ کچھ ٹائم لگے گا بالکل آؤٹ آف ٹاؤن ہوں…..”
ہالار نے کہا
” نو پرابلم…..بس آجاؤ….”
کہہ کے ثمر نے فون ڈسکنکٹ کردیا تھا
اصل پرابلم تو اسکے بعد شروع ہونی تھی
____________________________________
” یہ ہالار اب تک کیوں نہیں آیا…..”
میر برفت نے پوچھا
” وہ….ٹریفک بہت جام ہے اسے وقت لگے گا.. ویسے اب اسکے آنے کا فائدہ بھی کیا….”
ثمر بڑبڑایا
” تم لوگوں سے تو میں نمٹ لوں گا….پہلے اس فوجی کو ذرا پوچھوں….”
میر برفت بڑبڑائے
ثمر شانے اچکا کے رہ گئے تھے
” دادا جی کافی وقت ہوگیا ہے اب ہم چلتے ہیں….اب کل ملیں گے…”
انس نے انہیں براہ راست مخاطب کیا تھا
"ارے ارے….اتنی بیتابی….کیا ہوگیا ہے….”
ثمر شرارت سے بولا
” اصل میں ہمیں نکلنا ہے صبح جلدی….مہرماہ کو آرام کی ضرورت ہے….آپ سب کے آنے کا شکریہ ولیمہ ہمارے آنے کے بعد ہوگا….اس میں بھی آپ سب لوگ شامل ہوں گے….”
انس نے عندیہ دیا
میر برفت چونک کے رہ گئے تھے….یہ لڑکا بہت پھرتی دکھا رہا تھا
” ابھی تو انہوں نے سوچا تھا کہ وہ مہرماہ کو رخصتی کے نام پر روک لیں گے اور پھر سفیر یوسف کے خاندان کو مزہ چکھائیں گے…..” لیکن یہ لڑکا…”
میر برفت کڑھ کے رہ گئے
” جاؤ بیٹا ضرور…..اللّه خوش رکھے دونوں کو…” میر جاذب نے دعا دی تھی دل سے
ثمر نے ہاتھ سر پہ رکھ کے اسے رخصت کیا تھا بھائی کی طرح
” تم سے تو میں اچھی طرح ملوں گا….” میر برفت کے لہجے میں شعلوں کی سی لپک تھی
"تو سفیر یوسف کے خاندان سے وہ ایک بار پھر ہارے تھے….”
” آؤ اچھی لڑکی….اب ساتھ چلتے ہیں..”
انس نے دھیرے سے سرگوشی کی تھی
مہرماہ کی کیسری رنگت پل میں قندھاری انار ہوئی تھی
انس اور وہ….کبھی یوں ….اس نے سوچا بھی نہ تھا ….اور اکثر زخموں کی دوا اس در سے ملتی ہے جہاں نہ سوچ جاتی ہے نا نظر پڑتی ہے
_____________________________________
” پاپا….ابھی آپ جاتے ساتھ ہی اماں کو مت بتائیے گا…” .
انس نے باپ سے کہا
"مگر کیوں….” سفیر صاحب حیران ہوئے
” ابھی گھر میں خالہ ہیں….آپ انکے سامنے بتائیں گے تو وہ اماں کو بھی خواہ مخواہ بدگمان کریں گی….آپ اکیلے میں انہیں سب تفصیل سے بتادیجئیے گا….”
انس نے وجہ بتائی
” یو آر رائٹ مائی سن….”
سفیر صاحب فخریہ بولے تھے انس کی دوراندیش طبیعت پہ انہیں ہمیشہ فخر رہا تھا
” ماموں….آپ سب میری وجہ سے مشکل میں پڑ گئے…..”
مہرماہ بولی
” ارے نہیں….مہرماہ….ایسے نہیں کہو….تم ہماری ذمہ داری ہو….یہ ہمارا فرض ہے….”
انس نے محبت پاش لہجے میں کہا تھا
ان آنکھوں میں کیا تھا
مان بھری محبت تھی
عزت تھی
جو مہرماہ کو ہمیشہ چاہئیے تھے
____________________________________
” واٹ…آر یو سیریس….یہاں اس نام کا کوئی پیشنٹ نہیں…. ” ہالار نے کنفرم کیا
” یس سر….ہمارے ریکارڈ میں اس نام کا پیشنٹ آج کی تاریخ میں کوئی نہیں ہے ”
رسیپشنسٹ رسان سے بولی تھی
” اوکے…. تھینکس….” ہالار کہہ کے پیچھے ہوا تھا
” یہ کیا سین ہے….آخر مسئلہ کیا ہے….کہیں ثمر نے تو….”
کچھ سوچ کے اس نے ثمر کا نمبر ملایا جو رسپانڈ نہیں کررہا تھا
پھر میر جاذب کا نمبر ملایا تھا
” بابا….”
” ہاں ہالار….. ”
” یہ کیا مسئلہ ہے….ثمر نے کہا تھا…”
” ہالار جہاں بھی ہو فورا گھر آؤ…..ہری اپ پھر بات کرتے ہیں…..”
میر جاذب اسکی بات کاٹ کے بولے تھے
"پر بابا….”
ہالار بولا
” فورا….”
میر جاذب رابطہ ختم کرچکے تھے
"کیا تماشہ ہے یہ…..”
ہالار کا دماغ گھوما تھا
____________________________________
” مہرماہ…..تم….” عالیہ حیرانی سے بولیں تھیں
” جی ….”
مہرماہ نے کہا
” مہرماہ کی اسپتال سے چھٹی ہوگئی تھی تو میں اسے لے آیا ہوں…..” سفیر صاحب اندر آتے ہوئے بولے تھے
” اچھا….کتنے دن کیلئے آئی ہو مہرماہ….”
صبوحی بیگم نے پوچھا
مہرماہ انہیں دیکھ کے رہ گئی تھی
” وہ تو اب یہاں ہمیشہ کیلئے آگئی تھی…..کبھی نہ جانے کیلئے ”
” یہ گھر مہرماہ کا بھی ہے….اور یہ یہیں رہیں گی…..”
انس کچھ ناگواری سے بولا تھا
صبوحی نے عالیہ کو اشارہ کیا جیسے کہہ رہی ہوں” دیکھو….اپنے بیٹے کے انداز….”
” نیہا…..اسے اندر لے جاؤ…تھکی ہوئی ہے آرام کی ضرورت ہے اسے…. ”
عالیہ بہن کو نظر انداز کرتے ہوئے بولیں تھیں
"اچھا….ہمارے کمرے میں تو اب ماوی ہے….اور آنٹی گیسٹ روم میں….اوپر والے کمرے میں لے جاؤں…..”
نیہا نے پوچھا
” ارے جوان جہان لڑکی اوپر کمرے میں….”
صبوحی بیگم نے جھٹ کہا
انس کا کمرہ بھی تو اوپر تھا
” ارے میں وہاں چلی جاتیں ہوں….”
انکا کچھ اور بس نہ چلا تو کہنے لگیں
” اچھا…..خالہ اور پھر آپکے جوڑوں کے درد کا کیا ہوگا….جس کی تان آپ نے ہفتے بھر سے اٹھا رکھی ہے….”
نیہا نے یاد دلایا
” نیہا….مہرماہ کو ابھی اوپر لے جاؤ….صبح پھر دیکھتے ہیں….”
انس نے نیہا کو مزید بحث سے روکتے ہوئے کہا تھا
"صبح تک پاپا بات کر ہی لیں گے….”
انس نے سوچا
"مہرماہ اب اسکی تھی….یہ اطمینان اور قرار اسے تھا…..”
_____________________________________
"کیا….” ہالار کا دماغ بھک سے اڑا تھا
پہلے تو وہ میر برفت کو دیکھ کے چونکا اور پھر انہی کے منہ سے وہ سارا قصہ سن رہا تھا
” آپ….آپ ان سے کہہ دیتے کہ آپکو معلوم بھی نہیں کہ انکا نکاح ہے….الٹا انہی پہ الزام آتا کہ آپ سے رشتہ داری کا شوق ہے….میڈیا آپکو ہی پروٹکٹ کرتا….”
ہالار جھلائے ہوئے لہجے میں بولا تھا
” میری سمجھ تو کچھ کام نہیں کررہی تھی…تم کدھر رہ گئے تھے بھلا….”
میر برفت نے پوچھا
تو میر ہالار کو ثمر کی یاد آئی
” اس مہرماہ سے تو میں بعد میں نمٹتا ہوں….پہلے جا کے میں میر ثمر کی خبر لوں…. ”
میر ہالار اسکے کمرے کی طرف بڑھا تھا
” تم آستین کے سانپ…..تمہیں تو میں آج نہیں چھوڑوں گا….”
ہالار آپے سے باہر ہوتے ہوئے بولا تھا
” کیا مسئلہ ہے….کیوں ایسے ری ایکٹ کررہے ہو….”
ثمر بولا
” میری منگیتر کا نکاح کسے اور سے کرادیا….اور مجھ سے کہ رہے ہو میں کیا کر رہا ہوں….میرا مسئلہ کیا ہے….” ہالار دھاڑا
” پہلی بات تو یہ….کہ وہ تمہاری منگیتر نہیں تھی….اور دوسری بات اس کا نکاح انس سفیر سے ہوچکا ہے…..”
ثمر نے جتایا
” مہرماہ کو اسکا حساب دینا ہوگا…. لیکن چھوڑوں گا میں بھی نہیں تمہیں”
ہالار اسکی طرف لپکا
” بس ہالار ….بہت ہوگیا….ہاں کس بات کی سزا دو گے تم اس معصوم کو ….سترہ برس سے تم اسے سزا ہی تو دے رہے ہو
اپنی آواز کے سحر کے ٹوٹ جانا کا بہت دکھ ہورہا ہے….ہاں
بہت تکلیف ہورہی ہے…کہ مہرماہ تمہیں چھوڑ چکی
مگر تم تو پتھر تھے جان کیسے پڑگئی تم میں ….لگتا ہے داسی کے جانے سے دیوتا انسان بن گئے
ہوں….میر ہالار تم ہو کیا….ایک خودغرض انسان جسے بس اپنے آپ سے محبت ہے اور اپنی پروا جو صرف اپنی خوشی اور اپنی برتری کا سوچتا ہے …..
میر ہالار…. میں تو حیران ہوں….سترہ برس کیسے اس پاگل لڑکی نے تمہارے پیچھے سب بھلا دیا….
پہلے اپنے گریبان میں جھانکو…..میں نے تم سے کہا تھا نا ایک بار ….کہ اپنے محدود دائرے اور ذات کے خول میں ایک دن اپنا سب سے قیمتی کچھ کھو دو گے. ….تم نے محبت کھو دی….اور جسے محبت ٹھکرا دے وہ کسی در کا نہیں رہتا ….میر ہالار تم بھی کہیں کے نہیں رہے…”
میر ثمر کے جملوں نے میر ہالار کے اندر جیسے جہنم دہکا دیا تھا
میرے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے….کہاں ہیں مجھ سے محبت کرنے والے
میر ہالار کو سب خالی خالی لگنے لگا تھا اک پل ….یوں جیسے اب زندہ رہنے کی کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو
” کیا میں مرجاؤں….”
یہ مایوسی کی کونسی انتہا تھی
وہ وجود شدید اذیت میں تھا….اس کے اندر جیسے کسی نے شعلے دہکا دئیے تھے
” مجھ سے محبت کے دعویدار مجھے بیچ راہ میں چھوڑ گئے…..”
ہالار نے سوچا ….
کیا واقعی مہرماہ کو اس سے محبت تھی ؟؟؟؟؟
یا
میر ثمر ٹھیک کہتا تھا …..سترہ برس سے طاری اسکی آواز کا سحر آج ٹوٹ گیا تھا
پجارن جا چکی تھی
دیوتا انسان بن چکا تھا
اور انسان کی فطرت میں کینہ بھی ہے
اور
حسد بھی
جو ابن آدم کو تباہ کر ڈالتا ہے
” نہیں…..مہرماہ سیال….میں اتنی آسانی سے تمہیں یہ سترہ سال نہیں بخشوں گا….تم کتنی آسانی سے سب چھوڑ گئیں مگر میں نہیں چھوڑوں گا…..تمہیں اسکی سزا ملے گی مہرماہ….اس بیوفائی کی سزا…..”
میر ہالار نے کٹھور پن سے سوچا تھا
ہم نے بھی جھیل لی آخر
رات!!!!!!
مات کی
پی لیا جام
زہر کا!!!!!
ہم نے بھی
یہ رات آج سے پہلے اتنی کالی گو کبھی نہ لگی تھی
کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے انسان کا مشاہدہ اسکے اندر کے جذبات اور کیفیات سے مشروط ہوتا ہے
تو یہی میر ہالار کے ساتھ ہوا تھا
کتنے برس ایک دیوتا کی طرح اس کی تپسیا میں کسی نے اپنے سترہ برس راکھ کیے تھے
اور
اب اس داسی کے جانے سے جیسے دل کے اندر کچھ ہلچل ہوئی تھی
دیوتا ٹوٹ گیا تھا
انسان بن گیا تھا
ٹھکرائے جانے کی کیفیت کیسی ہوتی ہے
میر ہالار کو اب معلوم ہوا تھا ….
ایک عرصہ وہ بے خبر رہا تھا اسے معلوم ہی نہ تھا کہ کتنا درد ہوتا ہے
کسی کو نظر انداذ کرنے پہ دل دکھانے میں
مہرماہ کو وہ اب میسر ہورہا تھا
مگر
میر ہالار تمہاری چاہت کا موسم گزر چکا تھا
اور
بے موسم بارش صرف تکلیف اور بے سکونی دیتیں ہیں
سکھ نہیں…..!!!!!!
” لیکن جو آگ میرے اندر لگی ہے اس کا میں کیا کروں…..کچھ اس کے شعلے وہاں تک بھی پہنچے نا جہاں سے یہ لاوا اٹھا ہے……”
میر ہالار اسی جگہ بیٹھا تھا جہاں مہرماہ بیٹھا کرتی تھی
چپ چاپ
وہ بھی چپ تھا بالکل مہر بہ لب
"مہرماہ…..ایسے کیسے جانے دوں میں تمہیں ….زندگی میں پہلی بار اس محبت کو محسوس کرنا چاہا تھا جس کی ایک عرصہ بات کی تھی….”
میر ہالار کے اندر نا امیدی اور تنفر کی تاریکی اس کالی رات سے ذیادہ سیاہ اور بھیانک تھی
” کہاں جارہے ہو …..میر ہالار….”
گاڑی کی چابیاں اٹھاتے وہ رک کے پلٹا تھا
پکارنے والا کوئی اور نہیں اس کا باپ تھا
” کچھ حساب کتاب باقی ہیں بابا….وہ کرنے ہیں….”
میر ہالار سر جھٹکتے ہوئے بولا
” کیسے حساب کتاب….”
انہوں نے پوچھا
"آپ واقف ہیں…..مہرماہ اس طرح نہیں کرسکتی بابا….میرے اندر ایک جہنم دہک رہا ہے …..مجھے جانا ہے…”
ہالار عجیب سی کیفیت میں بولا تھا
” اور اس جہنم میں تم مہرماہ کو جھونکنا چاہتے ہو….ہو نا میر سیال کے بھتیجے…آخر اسی پہ جاؤ گے….”
میر جاذب طنزیہ بولے تھے
” مجھے سیال چچا سے مت ملائیں …پاپا پلیز…”
ہالار جھٹکے سے مڑ کے بولا تھا
” کیوں نہ ملاؤں جب کہ تم وہی سب کررہے ہو جو اس نے کیا….کیا قصور تھا سمعیہ کا جب دل چاہا سر پہ بٹھا لیا اور جب جی چاہا پاتال کی گہرائیوں میں اتار دیا….تم بھی تو وہی کچھ کررہے ہو….”
میر جاذب نے اسے آئینہ دکھایا
” میں…..میں کررہا ہوں….آپکی بھتیجی نے کیے تھے مجھ سے محبت کے دعوے میں نے نہیں….”
ہالار تنفر بھرے لہجے میں بولا تھا
” اچھا….کیا مہرماہ نے تم سے خود کہا …تم نے کبھی اسکے منہ سے سنا…”
میر جاذب نے پوچھا
"نہیں….مجھے نیہا نے بتایا تھا…”
ہالار نے بتایا
” واہ….اور کل کو وہی نیہا آکے یہی بولتی کہ وہ تم سے نفرت کرتی ہے کہ تم اسے چھوڑ دو ….تو کیا تم چھوڑ دیتے….میر ہالار عقل کہاں چھوڑ آئے ہو…”
میر جاذب نے تاسف سے کہا تھا
” بابا آپکو اپنی بھتیجی ہی معصوم لگے گی مگر سچ تو یہی ہے کہ آپکی بھتیجی مجھے آج سے نہیں سترہ برس سے جانتی ہے…..”
ہالار نے کہا تھا
” ہالار….تم واقعی میر سیال کا پرتو ہو…..اس کی طرح صرف ایک زاویہ سے چیزیں دیکھنے کے عادی…..”
میر جاذب بولے تھے
” آپ آخر مجھے ان سے کیوں بار بار ملا رہے ہیں….”
ہالار جھلا کے بولا تھا
” کیوں کہ محبت اس نے بھی کی تھی اور تمہاری طرح محبت وہ بھی نہ نبھا سکا ….”
” میں ….میں نے کب محبت کا دعوی کیا…” ہالار حیرانگی سے بولا تھا
” اولاد ہو تم میری ….جانتا ہوں میں تمہیں….کبھی ان آنکھوں کو غور سے دیکھو جو صاف کہتیں ہیں کہ وہ کسی کو دیکھنا چاہتی ہیں……..”
میر جاذب اسے بغور دیکھتے ہوئے بولے تھے
” بابا….آپ….”
ہالار نے کچھ کہنا چاہا
” میں جانتا ہوں تمہیں بھی مہرماہ سیال سے محبت ہوگئی ہے
…….مگر اب بہت دیر ہوچکی ہے….تم نے اپنا وقت خود کھویا ہے….”
میر جاذب نے افسوس سے کہا تھا
ہالار اس انکشاف کے بعد ڈھے سا گیا تھا
مہرماہ سیال کی محبت نے کب اس کے دل میں چپکے سے اپنی جڑیں مضبوط کیں تھیں وہ جان ہی نہ سکا….شاید اسی دن جب اسے اس پاگل دیوانی کی چاہت معلوم ہوئی تھی
مگر اب وقت بدل چکا تھا
ادراک کا موسم اس پہ بڑی دیر سے اترا تھا
اور وصل کا موسم اب گزر چکا تھا
اب تو بس ایک ہی موسم تھا اور وہ تھا ہجر کا موسم
* تمہیں کتنا کہا تھا ….ہالار….مہرماہ تمہارے لئے بہترین انتخاب ہے میں نے ابا نے سب نے…..لیکن تم کبھی سیریس ہی نہیں ہوئے….یہیں سے دیکھو بیٹا کہ وہ تمہارے نصیب میں ہی نہیں تھی ”
” اور جب….تم نے اسے اپنانا چاہا….تو صرف احسان جتاتے ہوئے….حالانکہ رشتے احسان پہ نہیں مان اور خلوص سے بنتے ہیں …”
میر جاذب نے سو باتوں کی ایک بات کی تھی
ہالار شکست خوردہ سا کھڑا تھا
” ہاں ….میں نے مہرماہ سے محبت کی ….لیکن میری انا سے میری محبت کا قد بہت چھوٹا نکلا میری انا جیت گئی…..اس نے مجھے جتلایا کہ جب مہرماہ کو مجھ سے محبت ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے اپنی محبت دے کے اسے اپنانے کی …..میسر تو وہ مجھے بھی ویسے ہی تھی….”
ہالار نے باپ کے سامنے اپنا دل کھولا تھا
” لیکن تم نے انتخاب کس کا کیا….نیہا کا…”
میر جاذب نے شاید پوچھا تھا
” نیہا….اچھی لڑکی ہے بابا….مجھے وہ اچھی لگی….اپنے آئیڈیل کے قریب….لیکن رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا کہ وہ دب کے رہنے والی نہیں…اسے سمجھوتے کی عادت نہیں…میں اگر اس سے محبت لا دعویدار تھا تو اس بات کو وہ اعزاز کی طرح وصول کرتی تھی ناکہ عام عورتوں کی طرح شکر گزاری سے……”
ہالار نے تجزیہ کیا
” اور یہاں بھی تمہاری اس انا نے تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑا…….جن سے محبت کی جاتی ہے نا ہالار انہیں اعزاز کی طرح ہی محبت دی جاتی ہے…..”
” مجھے نیہا سے محبت نہیں تھی…..بس وقتی پسندیدگی تھی….دل تو چپکے سے مہرماہ کی سلطنت بن گیا تھا…..”
ہالار نے تھک کے کہا تھا
” ضروری نہیں ہر سلطنت کو حکمران بھی روبرو میسر ہو….تاریخ شاہد ہے کہ ایسی بہت سی سلطنت تھیں جن پہ سات سمندر پار سے حکومت کی گئی…..”
میر جاذب نے گرہ کھولی تھی
” جن سے محبت کی جاتی ہے انہیں محبت اعزاز کی طرح دی جاتی ہے…..”
ہالار کا دل اس میں ہی اٹک کے رہ گیا تھا
” بابا….”
"ہاں….ہالار میں جانتا ہوں…یہ آسان نہیں ہوگا….مگر یہی تو تمہارا امتحان ہے…اور امتحان آسان نہیں ہوتے ….”
میر جاذب اسے سوچوں میں گھرا چھوڑ کے کھڑے ہوچکے تھے
_____________________________________
"عالیہ….”
سفیر صاحب نے پکارا
” جی…..خیریت….انس ہے یا چلا گیا….”
عالیہ نے پوچھا
” انس یہیں ہیں….اور مجھے اسکے بارے میں تم سے بات کرنی ہے….تم مہرماہ کے بارے میں اب کیا سوچتی ہو….”
سفیر صاحب نے پوچھا
” اب سے کیا مراد ہے آپکی….” .عالیہ حیرانگی سے بولیں تھیں
” مطلب تم اچھی طرح جانتی ہو….”
سفیر صاحب بولے تو وہ چونک گئیں
اتنے عرصے کا ساتھ تھا وہ تو انکی ابرو کی ایک جنبش سے ہی ان کا انداز جان جاتیں تھیں اب بھی سمجھ گئیں
” مجھے نہیں معلوم سفیر کہ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں….مگر مہرماہ ہمیشہ مجھے نیہا کی طرح عزیز رہی ہے….ایک بیٹی کی طرح ..”
عالیہ نے کہا
” اگر میں یہ کہوں اسے اپنی بیٹی ہی بنا لو….ہمیشہ کیلئے…”
سفیر صاحب نے کہا
” سفیر….کھل کے کہیں….بات کیا ہے
..” عالیہ کچھ کچھ تو سمجھ رہیں تھیں
بہن کی باتیں بھی انکے دماغ میں تھیں
” میں انس اور مہرماہ کی بات کررہا ہوں…..انکی شادی …”
سفیر صاحب بولے
” اوہ….مجھے تو کبھی اس بات پہ کوئی اعتراض نہیں رہا ….اب جب کہ انس کی خوشی بھی اس میں ہے…..” .عالیہ رسان سے بولیں
” تم کھلے دل سے کہہ رہی ہو….” .سفیر صاحب کچھ بے یقین سے تھے
” مجھے لگتا ہے…..آپ ایسا اس لئے سوچ رہے ہیں کہ میں آپا کی باتوں میں آکے….مہرماہ کیلئے دل تنگ کروں گی….نہیں…میں مہرماہ کو اچھے سے جانتیں ہوں سفیر وہ ایسی نہیں ہے …”
عالیہ بیگم بولیں
” تمہیں ایک بات بتانی تھی….”
سفیر صاحب بولے ….اصل کہانی تو اب بتانی تھی
” کہئیے….” .
” آج میں اور انس….اسپتال گئے تھے…”
” ہاں تو….”
” وہاں….مہرماہ اور انس کا نکاح کرادیا میں نے….”
سفیر صاحب نے اچانک سے جیسے دھماکہ کیا
اندر بیٹھیں عالیہ بھلے سے اسکی ذد میں نہ آئیں ہوں مگر باہر سے کمرے میں عالیہ کی دوائی لاتی ماوی ضرور اس دھماکے کی ذد میں آئی تھی
” انس….اور مہرماہ کا نکاح….”
ماوی کے سوال کو عالیہ نے زبان دی تھی
جواب میں سفیر صاحب نے انہیں پوری صورت حال بتادی تھی
” انس…..تم سے اسی کی اجازت مانگ رہا تھا….صبوحی کے سامنے وہ کھل کے نہ کہہ پایا….”
سفیر صاحب نے وجہ بتائی تھی
” مجھے انس پہ بھروسا ہے….اس نے یقینا اچھا کام کیا…”
” تم ناراض تو نہیں ہو نا….” .سفیر صاحب نے پوچھا
” نہیں….میں تو مہرماہ کے ددھیال کا سوچ رہی ہوں کیسے سنگ دل لوگ ہیں…ہماری بچی کو اسپتال پہنچادیا…..اور پھر زبردستی نکاح بھی کرارہے تھے اچھا ہوا کہ نیہا کا رشتہ خود ہی ٹوٹ گیا…..”
عالیہ نے شکر ادا کیا
توبہ….کیسے ضدی لوگ تھے ….اپنی خوشی میں خوش اور بھلے اس خوشی کیلئے کتنے ہی دل کیوں نہ ٹوٹیں
” میں مہرماہ کے پاس جاتی ہوں….”
عالیہ بیگم بولیں
” ارے نہیں….صبح مل لینا….ابھی تو وہ آرام کررہی ہوگی…”
” ہاں کہتے تو آپ ٹھیک ہیں….اب مہرماہ نے جانا کہاں ہے….سچ سفیر مجھے تو بہت خوشی ہورہی ہے کہ مہرماہ اب ہمارے پاس رہے گی…”
عالیہ بیگم نے بتایا
” اچھا….ورنہ مجھے تو لگتا تھا کہ آپ اپنی بہن کی باتوں میں آکے بدل نہ جائیں. ….”
سفیر صاحب نے اپنا خدشہ بتایا
” حد ہے…..آپا کو تو عادت ہے اور میری اپنی سوچ ہے اور آنکھیں بھی میں اچھے سے جانتیں ہوں سب….یوں دوسروں کی باتوں میں آکے میں کیوں اپنا گھر خراب کروں….اتنا بھی نہیں جانتے مجھے”
عالیہ نے شکوہ کیا
” میں تو ایک جرنل بات کررہا تھا بیگم…..بس..” سفیر صاحب نے صفائی دی تھی
اور عالیہ کی بات سو فیصد درست تھی وہ جانتے تھے
اور اگر یہ بات سب آزما لیں تو نہ جانے کتنے گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں
_____________________________________
” یہ میں کرنے جارہا تھا…..کیا میں ایک اور میر سیال بن جاتا….” ہالار نے میر جاذب کے دکھائے ہوئے آئینے میں اپنا تجزیہ کیا تھا
” ہر محبت کے نصیب میں وصل کی بارش نہیں ہوتی…..اصل میں اسے اسکی ضرورت ہی نہیں ہوتی…محبت تو خودرو پودے کی مانند اگتی چلی جاتی ہے….اور میں اس محبت کو انا کے پردے میں چھپا رہا تھا…..حالانکہ لاکھ جانتاتھا…محبت ہر پردے سے باہر نکل ہی آتی ہے…..میں محبت کو اسکا اصل رنگ لوٹاؤں گا….اور محبت تو اداس ہی اچھی لگتی ہے نا…ایک زمانے میں یہی میر ہالار نے کہا تھا…”
” آپ مہرماہ کو واپس لے آئیں…..بابا اسی شان کے ساتھ ہم اسے رخصت کریں گے جو بیٹیوں کاحق ہوتا ہے….”
ہالار کی بھوری آنکھوں میں ضبط کی سرخی اب سمندر بننے لگی تھی
کتاب پڑھتے باپ کو اس نے مخاطب کیا تھا حالانکہ آسان نہیں ہوتا دل مارنا
اور اس کیلئے تو بالکل بھی نہیں جس نے کبھی اپنے دل کو روکا ہو .اس پہ جبر کیا ہو
مگر محبت سب سکھا دیتی ہے
اور محبت قربانی مانگتی ہے
اور جو قربانی نہ دے سکے اسے محبت کا دعوی نہیں کرنا چاہئیے
اور میر ہالار قربانی دینا چاہتاتھا
محبت کی
انا کی
بے جا خودسری کی
وہ قربانی سے انکار کر کے انکار محبت نہیں کرنا چاہتا تھا
میر ہالار کیلئے محبت اب ہجر کا موسم ٹھری تھی…..
اور
بالاخر تیس برس کے اس مرد کو بھی محبت ہوہی گئی تھی
_____________________________________
” ماوی….. کیا ہوا ہے کیو رو رہی ہو…”
صبوحی نے اسے روتے دیکھ کے پوچھا تھا جس کی آنکھیں رو رو کے سرخ ہوچکیں تھیں
” کچھ .. نہیں….اماں ویسے ہی….”
ماوی نے کہا .
” ارے اب بتا بھی چکو مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے…”
” اماں….مہرماہ اب یہیں رہے گی…”
” ارے ایسے ہی رہے گی….تم دیکھنا میں عالیہ کو کیسے بھڑکاتی ہوں….دو دن میں چلتا کرے گی اسے…. ”
صبوحی نے ناز سے کہا تھا
” اماں میں بتا رہی ہوں آپ کو پوچھ نہیں رہی…..” .
ماوی چڑ کے بولی تھی
” ہیں کیا اسے پرمٹ مل گیا ہے یہاں رہنے کا….”
صبوحی بیگم حیران ہوئیں
” پرمٹ ہی سمجھیں…..نکاح کردیا ہے خالو نے انکا…..” ماوی نے چیخ کے کہا تھا
” توبہ کر لڑکی کیا بک رہی ہے….”
صبوحی بیگم کے دل کو دھکا لگا تھا
” ٹھیک کہہ رہی ہوں اماں….”
ماوی رودی
” تجھے کس نے بتایا… ”
صبوحی بیگم نے تفتیش کی
” میں نے خالو اور خالہ کی باتیں سنیں تھیں….”
” عالیہ کو بتائے بغیر….ہوا ہے نا یہ نکاح…. میں عالیہ کو ایسی پٹی پڑھاؤں گی کہ کیا یاد کرے گی مہرماہ بی بی ….اس گھر کی بہو تو ہی بنے گی لکھ لے ….”
صبوحی بیگم کو اپنی صلاحیتوں پہ کچھ ذیادہ ہی بھروسا تھا
” اماں….خالہ کو کوئی اعتراض نہیں وہ تو الٹا خوش ہورہیں تھیں…..”
” ارے بھاڑ میں جائے اسکی خوشی….مجھے تو اپنی بچی کی خوشی چاہئیے….”
صبوحی بیگم تنفر سے بولیں
_____________________________________
” زندگی….بہت خوبصورت ہے….اور بھی خوبصورت لگتی ہے…..جب وہ ہمارے ساتھ ہو جسے ہم چاہیں…..”
انس نے مہرماہ سے کہا تھا
جو آج نجانے کتنے دنوں بعد کاسنی بیل کی چھاؤں میں جھولے پہ بیٹھی تھی
” آپ ….سوئے نہیں… ”
مہرماہ نے پوچھا
” جاگ تو تم بھی رہی ہو…..” انس نے کہا
"نیند نہیں آرہی تھی….”
مہرماہ دھیرے سے بولی
” میری نیند اڑا کے اب تمہیں بھی نیند نہیں آرہی …..”
انس شرارت سے بولا
” میں نے اپکی نیند کیسے اڑائی بھلا….”
مہرماہ حیران ہوئی
” کیا تم بے خبر ہو… ”
انس نے اسے گہری نگاہ سے دیکھا
” میں پہلے بے خبر تھی لیکن اب نہیں. …”
مہرماہ نے اقرار کیا
"اچھی لڑکی… میں نے کہتا تھا اچھے دن آئیں گے…….”
انس اسکے ساتھ ہی جھولے پہ بیٹھ گیا تھا
ہوا کچھ مستی میں آئی تھی اور ڈھیر سارے پھول ان دونوں پہ نچھاور کر کے انہیں شہر محبت میں خوش آمدید کہا تھا
"ہاں…..انس اچھے دن اب آہی آگئے ہیں…..”
مہرماہ نے گہری سانس لے کے پھولوں کی مہک اندر اتاری تھی
صفر کی توہین پر ایک دو باتیں
اگر دو بالکل مختلف الخیال افراد یہ قسم کھا کر کسی چائے خانے میں گفتگو کرنے بیٹھیں کہ ہم اختلافی...