(Last Updated On: )
مریم اب اپنے سالانہ امتحانات سے بھی فارغ ہو چکی تھی اور اب دو ماہ کی مزید تعطیلات کے بعد کالج جانے کا وقت تھا
جبکہ تیسرے مہینے میں اسکا اور عادل کا نکاح طے پا گیا تھا۔۔۔۔
اس بیچ عادل بھی گھر کے چکر لگاتا رھا کہ دیکھ سکے مریم نے اس رشتے کو قبولیت کا درجہ دیا ہے یا نہی
لیکن مریم کے رویے سے صاف ظاہر تھا کہ فلحال نہ ہی سمجھئے
****** “””””””” ******** “”””””” *****
السلام علیکم کیسی ہیں امی؟امی سو کر اٹھیںں تو مریم کو جاگتا ہوا پا کر حیران ہویئں
جو کہ مہینوں سے صبح جلد جاگنا بھول چکی تھی
بڑا تعجب ہوا ہے۔۔۔۔کہیں میرے کان مجھے دھوکا تو نہیں دے رہے؟
اپنے کانوں کو چھوتے ہوئے کہنے لگیں
کان تو میرے ٹھیک ہی ہیں۔۔۔۔۔پھر شائد آنکھوں کو کوئی مسئلہ ہوا ہے
اب کی بار انکھوں کو مسلتے ہوئے بولیں
ارے امی سب کچھ ٹھیک ہے، آخر میں بھی مسلمان ہوں۔۔۔۔۔سلام کرنا فرض ہے میرا
اور بھلا فرض کی ادئگی پر کیسی حیرانی؟
مریم نے بھی جواباً سوال کر ڈالا
“چلو، وعلیکم السلام، انشااللہ ، آمین۔۔۔۔، خدا حافظ”
بے تکا سا جواب دیئے جانے لگیں تو مریم نے روک کر مطلب پوچھنا چاھا
“یہ کیا فرما دیا امی؟ تشریح تو کرتی جایئں”
اب کی دفعہ جواب کچھ یوں ملا
“چلو اسلیئے کہ کام چل جائے گا
وعلیکم السلام تمہارے سلام کے جواب میں
انشااللہ اس لیئے کہ اب یہ معمول تمہارا ایسے ہی رہے
اور آمین اپنے انشااللہ والی دعا کی پختگی کے لیئے”
بات مکمل کی اور اسے اپنی باتوں کے حصار میں چھوڑ کر چلی گیئں
ایک منٹ اور بارہ سیکنڈ گزرے تو حوش آیا کہ طریقہ کام کر ریا ہے۔۔۔۔۔۔بھاگی بھاگی گئی کمرے میں اور فون ملا دیا
“السلام عیکم کیسے ہو؟” اسے اب یاد رہتا تھا شروعات کیسے کرنی ہے
والسلام۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں اور امید ہے کہ تم بھی ٹھیک ہو گی اب
اس شخص نے جواب دیا
“جی میں بھی ٹھیک ہوں ، کیا اب میں آگے کی تفصیل بتاوں؟”
“یہ ہوئی نہ بات۔۔۔۔۔جی اب بتاو کیا ہوا؟”
اس نے یوں شاباش دی جیسے کوئی استاد خوش ہو کر اپنے شاگرد کو دیتا ہے۔۔۔۔۔جب وہ اسکی کارکردگی سے بہت خوش ہوتا ہے
“جی ہوا کچھ یوں کہ اس نئی ترکیب نے کام دکھا دیا ہے۔۔۔۔۔امی کی انکھیں اور منہ دونوں ہی کھلے رہ گئے ہیں اور غصہ تو مجھے بالکل نظر نہی آیا”
مریم نے اسے اپنے پلان کی کامیابی کی تفصیل بتائی
“مجھے امید تھی تم کر لو گی۔۔۔۔اب دوسری بات سنو، وقت ظہر ہوا جاتا ہے۔۔۔۔میں تمہیں بیس منٹ دیتا ہوں
ٹھیک بیس منٹ کے بعد مجھے تمہاری طرف سے کال ملنی چایئے۔۔۔۔نماز پندرہ منٹ میں پوری جاتی ہے
مگر تم فِلوقت سست ہو اس لیئے تمہیں ۲۰ منٹ دیئے
خدا حافظ”
فون کے دوسری طرف بیٹھے شخص نے اسے نئے مشن پر جانے کا حکم دیا تھا اور ایک بار پھر لائن disconnect ہو گئی تھی
مریم کو آج بھی اس بات پر بہت غصہ آیا مگر نہ ہہی وہ اس بندے پر اپنا غصہ نکال سکتی تھی اور نہ ہی اس جانے پہچانے انجان شخص سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی
وجہ شائد یہی تھی کہ اسکی نصیحتوں پر عمل کرتے کرتے اب وہ چیزوں کو واپس جگہ پر لا رہی تھی
******* “””””””” ******** “”””””” ****
اب شام کے وقت یشفہ کے گھر جانے کا وقت ہوتا تو امی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسے روک دیتیں
ان کے نزدیک مریم کے رویے میں بہتری اسکا یشفہ کے گھر نہ جانے کا باعث تھی
پر وہ کیا جانیں کہ ریل تو کسی اور ہی پٹڑی پر سوار ہے
بابا جانی ، بھائی اور امی سبھی مریم کی بہتر پرفارمنس پر خوش تھے
یونیورسٹی میں داخلے کا وقت بھی آیا اور با آسانی ایک اچھے ادارے میں اسے ڈاکٹری پڑھنے کا موقع مل گیا
****** “””””””” ******* “””””””” ******
وقت یونہی گزرتا رہا۔۔۔اس انجان شخص سے بات چیت کے دوران کب مریم اسے چاہنے لگی
اسے اندازہ نہ ہو سکا
اور اب یہ حال تھا کہ اس سے بات کیئے بغیر اسکے گلے سے نوالہ نہ گزرتا تھا
اس شخص کو معلوم ہوا تو کہنے لگا
“زندگی کو ایلک بار پھر سے اپنے لیئے مشکل نہ بناو۔۔۔۔بنا چہرے کہ محبت ہو جانا اتنا بھی آسان نہیں ہے، خوشیاں خود چل کر جو آتی ہوں وہی اچھی ہیں
تم انکے پاس چل کر جاو گی تو تمہیں کھا جایئں گی”
“مینے تمہیں اپنے بارے میں سب بتایا، ہر گزرتے وقت کی اچھی بری ہر داستان سنائی اپنی ہر پریشانی سے لے کر خوش ہونے تک کا سفر تمہارے ساتھ طے کیا مینے۔۔۔۔تو پھر اب کیوں یوں مجھ سے نظر پھیر رہے ہو؟”
مریم نے اس کے انکاریہ جواب پر بے بس سی تفتیش کرنا چاھی
“جانتی ہو نا مجھ سے سوال کرنے کا نتیجہ؟ہاں میں تمہارے دکھ سے لے کر تمہارے سچ تک تمہیں سدھارتا آیا، ہاں تمنے مجھ پر اندھا اعتماد کیا
ہاں مینے تمہیں اور تمنے مجھے وقت دیا۔۔۔۔کچھ میں نے تم سے سیکھا اور کچھ تمہیں سکھایا پر ہر رشتہ محبت کی چادر اوڑھ لے ایسا کسی کتاب میں درج نہیں۔۔۔۔۔مزید سوالات کا جواب دینا میں ضروری نہی سمجھتا”
یہ شائد پہلی بار تھا کہ اس بندے نے اتنی تفصیل سے کوئی بات کہی ہو
ورنہ وہ اور کسی کو صفائی دے؟۔۔۔۔۔۔ہاہا ایسا ممکن ہی نہیں
ٹھیک ہے ۔۔۔۔پر کیا میں اس مقام پر آکر تمہارے بارے میں کچھ جاننے کا حق نہی رکھتی؟میں نہیں پوچھوں گی میری محبت سے انکار ہے یا اقرار،
پر کچھ بنیادی باتیں جو میں نے تم پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے کبھی نہ پوچھیں،کیا اجازت دو گے کہ پوچھ لوں؟
مریم نے کہا
“اجازت ہے ،مگر میں پھر کہوں گا
زبان میری، عقل میری ، جواب میرا۔۔۔گویا اکثریت میری، لہذا میرا حق بنتا ہے کہ میں جس سوال کا جواب دینا بہتر سمجھوں صرف اسی کا جواب تمہیں دوں “
اس نے گویا اجازت دیتے ہوئے کہا
“میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم کون ہو؟کیا نام ہے تمہارا؟کہاں سے ہو اور کیا کرتے ہو؟
تم کیسے دکھتے ہو؟”
مریم کے لہجے میں بھی اب ٹھہراو آتا جا رہا تھا۔۔
صحیح کہتے ہیں صحبت بلا کا اثر رکھتی ہے
“عشق زادہ ہوں ، خضر نام ہے میرا،اس دنیا سے ہوں
اور محبت بانٹتا ہوں۔۔۔۔۔میں بشر جیسا دکھتا ہوں “
ایسا جواب سن کر کوئی کیسے نہ مسکرا دے؟
“خضر۔۔۔۔۔یہ نام ہے تمہارا؟
اس کا مطلب کیا ہے؟”
مریم نے پھر بے تابی کے عالم میں پوچھا
“رہنما ہوں میں “
اسنے مختصر جواب دیا
“میرے رہنما ، مکرے چارہ گر
مجھے یوں نہ خود سے جدا تو کر
میرےحوش سارے سنبھال جا
میری ساری رنگت نکھار جا
مجھے تھام لے تو اس طرح
میری حسرتیں سنوار جا”
کیا خوب طریقہ تھا مریم کا بھی اظہار وفا کا
ایک محدود سی شاعری اسکی سماعتوں میں پیش کی تو اش اش کیے بغیرنہ رہ سکا
پھر کہنے لگا
“وقت کے دھارے بہنے دو۔۔۔
کچھ مجھکو بھی کہنے دو
میں رہ نہ سکوں گا سنگ تیرے
مجھے جدا ہی خود سے رہنے دو”
شاعری کا جواب شاعری سے ہی ملا تو بول اٹھی
“خضر۔۔۔۔۔وہ کیا ہے جس پر تمہیں عبور نہیں ؟”
کہنے لگا
“جاو ڈھونڈ لاو، کوئی ایسا کام۔
مجھے جس پر عبور نہ ہو۔۔۔۔یہ قدرت خدا کی قدرت ہے
میں بشر ہوں لیکن غیر بشر سا۔۔”
“تو کہو میں کیوں نہ تم سے عشق کروں ؟
منفرس کوئی چیز میرے ہاتھ میں ہو۔۔۔اور میں اسے یونہی جانے دوں؟
نہ مجھکو حوس کسی چہرے کی ،نہ ہی مجھ کو حوس پیسے کی۔۔۔۔۔میں روح سے تم کو چاہتی ہوں
پھر کیوں نہ مجھکو سمجھے تم؟”
مریم نے شکوہ کیا
“ہونے والے کچھ واقعات محض صرف سبق لاتے ہیں
وہ اس لیئے نہی ہوتے کہ زندگی میں ٹھہر جایئں۔۔۔ کچھ قصے گزر جانے کیلئے ہوتے ہیں
خدا کی رسی تھامے رکھو، نماز نہ چھوڑو اور بحث بازی مت کرو
گھر والے ہی اپنے ہیں۔۔۔۔تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو ، میں اسکا پاس بھی رکھتا ہوں
کوئی ایسا لمحہ یاد ہے فائدہ کوئی تم سے چاھا ہو؟
ممکن تو نہی کہ یہ ممکن لو، مگر پھر بھی اگر یاد آئے تو کہ دینا”
********* “””””””””” ***** “”””” ******”