رات کو ارسا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئی ۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ اور انگلیاں پرجوش انداز میں حرکت کررہی تھیں ۔ پنک شرٹ سفید ٹراوزر میں ملبوس اس لڑکی کو دیکھنے چاند بھی کھڑکی سے جھانک رہا تھا ۔ اور لیپ ٹاپ پر لکھے ان لفظوں کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
جانتے ہو عشق کیا ہے ؟ کسے کہتے ہیں عشق ؟
کہتے ہیں لفظ عشق میں بہت طاقت ہے ۔ لوگوں کی نظر میں عشق وہ ہے جو کسی ڈرامے یا ناول کے ہیرو ہیروئن کو ٹکروں کے بعد ہوتا ہے ۔ بہت ہی عجیب سوچ ہے نا ۔لیکن میں بتاوں عشق کیا ہے؟ کیا ہے لفظ عشق میں ؟
عشق وہ راز ہے جو کبھی نہ کھل سکا ۔اس راز کو افشاں کرنے کے لیئے لوگ اپنی جانوں کی بازی لگا بیٹھے ۔لیکن یہ راز نہیں کھلا ۔ کیونکہ ہماری نظر میں راز تب کھلتے ہیں جب کوئی اس راز کو تلاش کرنے کے بعد اسے لکھ کر بتادے تو پھر عشق کا راز کیسے کھلتا ؟ کیونکہ عشق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔عشق کو لکھا یا پڑھا نہیں جاسکتا اسے محسوس کیا جاتا ہے ۔ جو عشق کے راز کی تلاش میں نکلے انہیں یہ راز مل گیا ۔ لیکن وہ کسی کو بتا نہیں سکے ۔ کیونکہ عشق کے راز کو خود تلاش کرنا ہوتا ہے ۔
عشق وہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول ﷺ سے کیا ۔ غار میں مکڑی سے جالا بنوا کر جان بچائی ۔ اسے عشق ہی تو کہتے ہیں ۔
جنون عشق سے تو خدا بھی نہ بچ سکا اقبال
تعریف حسن یار میں سارا قرآن لکھ دیا ۔۔
عشق وہ ہے جو اللہ تعالی اپنے بندوں سے کرتا ہے ۔ اللہ تعالی نے کہا میں ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہوں ۔ میں القہار ہوں لیکن میں الغفار بھی ہوں ۔ اور وہ اپنے بندوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ میرے بندے ایک نہ ایک دن میری طرف لوٹ آئیں گے ۔
عشق وہ ہے جو آپ ﷺ نے اپنی امت سے کیا ۔ عزرائیل سے پوچھا ۔ میری امت کو مرتے ہوئے تکلیف ہوگی ؟ ہاں کے جواب پر رو پڑے ۔اپنی امت کے لیئے جہنم کا ایک حصہ تیار دیکھ کر غش کھا کر گر پڑے اور کئی دن تک روتے رہے ۔ دوسری قوموں پر آئے ہوئے عذاب کا سن کر دعا کی کہ اے اللہ میری قوم پر عذاب نہ بھیجنا ۔ یہ ہے عشق ۔
لیکن لوگوں نے لفظ عشق کا مفہوم سمجھنے کے بجائے اس کا مطلب ہی بدل دیا ۔ اپنی تھوڑی سی پسندیدگی کو عشق کا نام دے دیا ۔
نہ مل سکا کسی کو رازعشق تو
میری دنیا کے لوگوں نے مفہوم عشق بدل دیا
ورنہ کہتے ہیں عشق ایک سیلاب کی طرح ہے ۔ جو سب بہا لے جاتا ہے ۔یہ پھٹنے والا آتش فشاں ہے ۔ عشق یہ ہے کہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہو اور ہم کہیں اللہ تعالی راستہ بنائیں گے ۔ لوگ اسے یقین کہتے ہیں میں اسے عشق کہتی ہوں ۔ کیونکہ عشق یقین ماننگتا ہے ۔ یقین عشق کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اور یقین سننے سے حاصل ہوتا ہے ۔ یعنی سنو اور یقین کرو ۔ اللہ سے عشق تلاوت قرآن سے ہوتا ہے ۔ ہم اللہ کی باتیں سنیں گے سننے سے یقین پیدا ہوگا ۔ اور پھر ہمیں رب سے عشق محسوس ہوگا ۔ ہمارے سینے میں دھڑکتا دل گواہی دیتا ہے عشق کی ۔۔۔۔۔
تیز تیز حرکت کرتی انگلیاں تھمی تھیں ۔ اسے اپنے گال پر کچھ محسوس ہوا تھا ۔ سامنے کا منظر دھندلا ہوچکا تھا ۔ اس نے آہستہ سے اپنے گال پر ہاتھ رکھا تو اس کی لمبی انگلوں پر پانی لگا تھا ۔ وہ حیران ہوئی ۔ بیڈ سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑے ہوکر اس نے اپنے آنسو صاف کیئے ۔ یہ کوئی رونے کی بات نہیں تھی لیکن شاید اس نے ان لفظوں کو محسوس کیا تھا ۔ اس نے گہری سانس لی ۔ اور بیڈ کی طرف جاکر لیپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ۔ اور سونے کے لیئے لیٹ گئی ۔
————— ———
وقت اپنی روانی سے چلتا رہا
میں تنہا تھا تنہا ہی چلتا رہا
کبھی ہنستا تھا اپنے مقدر پر میں
کبھی اندر ہی اندر میں جلتا رہا ۔۔
رات کا اندھیرا غائب ہوچکا تھا ۔آسمان پر ہلکی ہلکی نیلی روشنی چھارہی تھی ۔ جو کہ سلاخوں کے پیچھے روشندان سے جھانکتی ہوئی سیدھا فرش سے ٹکرا رہی تھی ۔ ٹھنڈے فرش پر پاوں رکھے دیوار سے ٹیک لگائے اکڑوں بیٹھا وہ زالان حیدر تھا ۔ اگر کوئی اسے دیکھ لیتا تو پہچاننے سے انکار کر دیتا ۔ سفید شرٹ پر خون کے دھبے اب جگہ جگہ نظر آرہے تھے ۔ سوجے ہوئے ہونٹ آنکھ کے قریب زخم لیئے ، سردی کی شدت سے سفید رنگت سرخ ہورہی تھی ۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں درد بیان کر رہی تھیں ۔ لوہے کی ان سلاخوں کو دیکھتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔ لوہے کا دروازہ کھلنے پر اور کسی آدمی کے بولنے کی آواز پر اس نے دروازے کی جانب دیکھا ۔
چلو تم سے کوئی ملنے آیا ہے ۔ ایک پولیس کانسٹیبل نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔
وہ آہستہ سے اٹھا اور اپنے قدم باہر کی جانب بڑھادیئے ۔ پولیس کانسٹیبل اسے ایک کمرے میں لے گیا اور ٹیبل کے پاس بٹھادیا ۔ تھوڑی دیر بعد قدموں کی آواز آئی اور کوئی اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔
کیسے ہو ؟ آنے والے نے پوچھا ۔
زالان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ ہادی تھا اس کا دوست اس کا بھائی اس کا سب کچھ ۔ زالان نے کچھ لمحے اسے دیکھا اور پھر سر جھکا دیا ۔
زالان جواب دینے کی بجائے سر جھکائے ہونٹ کاٹنے لگا ۔ خود پر ضبط کرنے کی وجہ سے اس کی سفید رنگت سرخ ہورہی تھی ۔ اور مردوں کے پاس جب کوئی اپنا آجائے اور وہ اسے سنانا چاہیں اپنا درد ، وہ اذیت جس سے وہ گزر رہے ہوں لیکن وہ سنا نہ سکیں اس ڈر سے کہ اپنی کہانی سناتے ہوئے وہ رو نہ پڑیں ۔ یہ لمحے بہت مشکل ہوتے ہیں ۔اور زالان انہیں لمحوں سے گزر رہا تھا ۔۔۔
کیا میں اس سب کا مستحق تھا ہادی ؟ میں نے اپنی پوری زندگی اپنے انتقام اور انٹیلیجینس کے لیئے وقف کردی اور اب جب میں اپنا انتقام لینے جارہا تھا حسیب کمانڈر نے مجھے اس مشن پر بھیج دیا جس میں مجھے جیل کی اذیتیں جھیلنی ہیں ۔ ہادی میں نے منع تو نہیں کیا تھا نا کمانڈر کو اس مشن سے ، بس میں اپنا انتقام لے لیتا پھر وہ مجھے جیل بھیج دیتے اس مشن کے لیئے ۔ وہ کر سکتے تھے نا اس طرح ۔ زالان نے آنکھیں اٹھا کر ہادی کو دیکھا ۔
ہادی نے گہری سانس لی
دیکھو زالان ! تمہیں مضبوط ہونا ہوگا ۔ حسیب کمانڈر کو لگا کہ اس سے تمہارا مشن آسان ہوگا ایک ملزم بن کر تم آسانی سے کورٹ جاسکتے ہو ۔ اور رہی بات اسکندر کی تو وہ زندہ ہماری زیادہ مدد کر سکتا ہے اس کی مدد سے اسمگلنگ کے دوسرے گینگس کو پکڑا جاسکتا ہے ۔ زالان دیکھو جو ہوگیا سو ہوگیا اب اپنےمشن پر دھیان دھو ۔ ٹھیک ہے ۔ ہادی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
اب بتاو کیسے ہو ۔ ہادی نے پھر اپنا سوال دہرایا ۔
میرے کیس کی جج کا نام کیا ہے ۔ زالان نے ہادی کے سوال کو نظر انداز کیا ۔
ہادی نے گہری سانس لی وہ جانتا تھا وہ سو دفعہ بھی پوچھ لے کہ وہ کیسا ہے زالان اسے جواب نہیں دے گا ۔
ارسا ۔۔ ارسا ہاشم ۔ زالان نے حیرت سے سر اٹھا کر دیکھا ۔
( زالان اگر آپکو زندگی میں کبھی اپنی شناخت بدلنے کا موقع ملے تو آپ اپنا نام کیا رکھیں گے ؟ اس کے کانوں میں آواز گونجی
اگر مجھے اپنا نام بدلنے کا موقع ملا تب بھی میں اپنا نام زالان ہی رکھوں گا ۔ زالان نے جواب دیا
اچھاااااا ۔۔۔۔لیکن اگر مجھے اپنا نام بدلنے کا موقع ملا تو میں اپنا نام ارسا رکھوں گی ۔ ارسا کتنا اچھا نام ہے نا )
ایک کام کرو گے ہادی ؟ زالان نے اپنی سوچوں کو جھٹکتے ہوئی کہا
مجھے میری کیس جج کے بارے میں معلومات چاہیئے ۔ جو کہ تم مجھے لا کر دو گے ۔ اس نے ہادی کے جواب دینے کا انتظار کیئے بغیر کہا ۔ اور ہادی اسے گھور کر رہ گیا
ٹھیک ہے لا دونگا لیکن تم کیا کرو گے ارسا ہاشم کے بارے میں جان کر ؟ ہادی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
مجھے لگا تھا کہ میرا کیس شروع ہونے میں ہی دو تین مہینے لگ جائیں گے ۔ لیکن مجھے صرف دو دن کے بعد مطلب صبح کی تاریخ دی گئی ہے ۔ مطلب صاف ہے کہ سیشن جج ارسا ہاشم بھی اس ٹیم کا حصہ ہے ۔ i am impressed . اس نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔
ہاں وہ تو تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے i am impressed۔ ہادی نے اس کی نقل اتارتے ہوئے کہا ۔
ہادی میں نے جو کام دیا ہے وہ کرو۔ زالان نے دھیمے لہجے میں کہا
سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ دفع ہو جاؤ ۔ ہادی کے کہنے پر زالان نے اسے گھور کر دیکھا
جارہا ہوں ۔ ہادی نے سر جھٹک کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا
اور سنو اپنا حلیہ درست کر لینا ۔ کہیں آپ جناب کی جج آپ کو دیکھ کر ڈر ہی نہ جائے ۔ ہادی نے مسکراتے ہوئی کہا
ہادی تم پٹو گے میرے ہاتھوں سے ۔ زالان نے غصے سے کہا
اچھا بھئی جارہا ہوں ۔ ہادی نے ہنستے ہوئے کہا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا
حضرت کہتے ہیں کہ ان کے منہ سے کوئی بات نکلے اور میں ان کا خادم بن کر حاضر ہوجاوں ۔ یہ میرا دوست ہے کہ دشمن ۔ سڑا ہوا ککڑ نہ ہو تو ۔ ہادی نے اونچی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے کہا
جبکہ پیچھے زالان کی کرسی خالی ہوچکی تھی ۔۔
آہ ۔۔۔۔ اللہ جی میں بھی آپ کا ہی بندہ ہوں ۔ لوہے کے دروازے سے ٹکرانے پر ہادی نے سر پکڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ نکلتے سورج نے مسکرا کر یہ منظر دیکھا ۔۔۔۔۔۔
———— ———
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت یارب جس پر تقریر بھی فدا ہو
کون ہو تم ؟
مسافر ہوں ۔
کہاں سے آئی ہو کہاں جانا ہے ؟
جہاں سے آئی ہوں وہیں جانا ہے ۔
کیا چاہتی ہو ؟
عشق ۔
ظالم ہے !
سہ لوں گی ۔
فنا کر دے گا !
فنا ہوجاوں گی ۔
کون ہے وہ جس کے لیئے سب کرنے کے لیئے تیار ہو ؟
وہ جو میری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے ، وہ جو مالک ہے زمین و آسمان کا مالک ہے ، جس کے قبضے میں میری جان ہے ، جو رب ہے میرا اور تمہارا ۔
اللہ سے عشق کیسے کرو گی ؟
کر لوں گی ۔
نہ کر پائی تو ؟
تو ۔۔۔۔ اسے اپنا عاشق بنا لوں گی ۔
مشکل ہے !
ناممکن تو نہیں ہے نا ۔
اسے اپنا عاشق کیسے بناو گی ؟
۔۔۔۔۔اس کے بندوں سے عشق کر کے
اور ایک دم تیز روشنی پھوٹی تھی اس کی آنکھیں چندھیا گئیں تھیں ۔
Allah love those who love human beings ۔۔
اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی تھی ۔ وہ گڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ کمرے میں صرف لیمپ کی روشنی جل رہی تھی ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو سائیڈ ٹیبل پر جگ میں پانی پڑا تھا ۔ اس نے پانی گلاس میں ڈالا اور غٹاغٹ پی گئی ۔ پھر بیڈ سے اٹھ کر واشروم کی جانب بڑھی ۔ منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی ۔ وہ جانتی تھی اب اسے نیند نہیں آئے گی جبکہ ایک وقت ہوتا تھا کہ سب کہتے تھے ارسا کا بس چلے تو اب سوئے اور قیامت والے دن اٹھے ۔ اس نے مسکراتے ہوئے سوچا اور کمرے کی لائٹ آن کی ۔ دائیں طرف دیوار پر لگے کبڈ کو کھولا وہاں سے کچھ پینٹنگ کلرز نکالے اور سٹڈی ٹیبل پر بیٹھ گئی ۔ کالے دل والے شوپیس کی سائیڈ پر ایک اور پینٹننگ کا اضافہ ہونے جارہا تھا ۔
———– ———-
ہو جو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی وہ یہیں سہی
آسمان پر نیلی روشنی پھیل رہی تھی ۔ جنوری کے مہینے میں ہوا میں نمی بڑھ جاتی تھی ۔ کالی سڑکوں پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے ۔ آس پاس کھڑے درختوں کے پتوں پر بھی شبنم کے قطرے چمک رہے تھے ۔ کمرے کی بالکنی میں کھڑی قدرت کے حسین مناظر کی دیوانی اس لڑکی نے اس منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا تھا ۔ جب سورج نکل آیا تو کچھ پولیس کانسٹیبل زالان کو جیل سے باہر لائے اور سڑک پر کھڑی پولیس موبائل میں بٹھادیا ۔ کورٹ پہنچ کر انہوں نے زالان کو موبائل سے اتارا اور اندر کی طرف بڑھ گئے ۔کورٹ روم کے باہر پہنچ کر زالان کو ہتھکڑیوں سے آزاد کیا اور اندر سے آواز آنے پر زالان کو اندر لے جاکر اسے کٹہرے میں کھڑا کردیا ۔ آنکھ کے قریب زخم اور بگڑ گیا تھا شاید اسے دوبارہ مارا گیا تھا ۔ البتہ اس کا حلیہ پہلے سے بہتر تھا ۔ گرین شرٹ پر خاکی پینٹ اور خاکی جاگرز پہنے ، نظریں جھکی تھیں اور چہرے پر چھائی سنجیدگی کو ارسا نے اسے غور سے دیکھا ۔
Your owner I am representing the accused person and i am filing vakalat nama on behalf of the accused zalan haider
زالان کے وکیل کی آواز گونجی ۔
وکالت نامہ ریلیز کریں ۔ ارسا کے کہنے پر اس کی طرف وکالت نامہ بڑھایا گیا جس پر اس نے سائن کیئے ۔
زالان حیدر میں بحیثیت ایک جج آپ سے پوچھتی ہوں کہ 16 تاریخ کو رات کے :12 35 بجے قریبی گاوں کی داخلی راستے پر آپ کو قتل کرتے ہوئے عین موقع پر گرفتار کیا گیا ۔ کیا آپ اعتراف جرم کرتے ہیں ؟ ارسا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
زالان نےجھکے ہوئے سر کو اٹھایا اور ارسا کی جانب دیکھا ۔ وہ وہ الفاظ کہنے جارہا تھا جن سے اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونا تھا ۔اس کا دل چیختے ہوئے کہ رہا تھا کہ وہ ہاں کہ دے وہ قبول کرلے اس جرم کو جو اس نے نہیں کیا ۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھی ارسا ہاشم خود کو ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی ۔ مقابل کے ایک لفظی جواب پر وہ اس کی زندگی اور موت کا فرمان جاری کرنی والی تھی ۔ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس وقت وہ کسی کی زندگی اور موت کا ذریعہ بننے جارہی تھی ۔ تجسس کے اس لمحے کو زالان کی خاموشی مزید بڑھارہی تھی ۔
کیا وہ ہاں کہنے والا تھا ؟ ہوا نے قسمت سے پوچھا تھا ۔ لیکن قسمت نے ہوا کو خاموش کروادیا ۔ وہ خود یہ منظر دیکھنا چاہتی تھی جہاں زالان زندگی یا موت کو چننے جارہا تھا
————— ———
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...