فیروزہ بیگم طبیعت کی خرابی کے باوجود خوشی خوشی بالائی کے لڈو بنانے میں مصروف تھیں۔ وہ بہت خوش تھیں ان کی چہیتی بیٹی امریکا سے آ رہی تھی۔ اسے بچپن سے بالائی کے لڈو بہت پسند تھے، وہ بھی اپنی ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے۔ بچپن میں اگر کوئی اس کی پلیٹ میں سے لڈو اٹھا کر کھا لیتا تو وہ رو رو کر سارا گھر سر پر اٹھا لیتی تھی جب تک فیروزہ بیگم ایک اور لڈو اس کی پلیٹ میں نہ رکھ دیتیں وہ چپ نہ ہوتی۔ سحر بچی سے بڑی ہوئی، لیکن بالائی کے لڈو کا شوق کم نہ ہوا۔ امتحان کے زما نے میں جب وہ پڑھتے پڑھتے تھک جاتی تو لڈو کھاتی پانی پیتی اور دوبارہ لکھنے پڑھنے میں مصروف ہو جاتی۔ پکنک وغیرہ پر کہیں جاتی تو دوسر ی چیزوں کے ساتھ بالائی کے لڈو بھی ضرور لے کر جاتی۔ فیروزہ بیگم سحر کی باتوںاور حرکتوں کی یاد میں سرشار ضروری اور غیر ضروری کاموں میں وقت کاٹتی رہیں۔ خوشی اور محبت ان کے پورے وجود سے چھلک رہی تھی۔
ایک طویل جدائی کے بعد ماں بیٹی کی ملاقات ہوئی۔ جیسے دو پہاڑی ندیاں ایک دوسرے میں مدغم ہوگئی ہوں۔
کھانے کی میز پر سب بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ مریم (بہو) ایک پلیٹ میں لڈو لے کر آ ئی اور میز پر رکھتے ہوئے بولی، ’’آپی! دیکھیے امی نے آپ کے لیے کیا بنا یا ہے؟‘‘
’’اوہ لڈو! یہ تو مجھے بہت پسند ہیں، مگر امی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، ان کو بنانے میں تو بہت محنت لگتی ہے۔ آپ نے کیوں بنائے۔‘‘ جواب میں فیروزہ بیگم مسکرا دیں۔
’’ارے بیٹا تم نے تو اتنا سا چکھا ہے۔ تم تو ایک وقت میں تین چار کھا لیتی تھیں۔‘‘ فیروزہ بیگم نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’بس امی! ابھی اتنا ہی کافی ہے۔ میں بعد میں کھالوں گی۔‘‘
سحر جتنے دن رہی، ماں کے کہنے پرتھوڑا بہت لڈو لے کر چکھ لیتی تھی۔
سحر کی امریکا واپس جانے کی تیاری تھی۔ فیروزہ بیگم نے ایک سیلڈ پیک ڈبا سحر کو دیتے ہوئے کہا، ’’بیٹا! اس ڈبے کو میں نے سیلڈ پیک کروا لیا ہے تاکہ تم اسے لے جاسکو۔ اس میں بالائی کے لڈو ہیں۔ تم نے یہاں تو کھائے نہیں، یہ لڈو اپنے گھر جا کر کھا لینا۔‘‘
’’جی امی! میں گھر جا کر ضرور کھائوں گی۔ یہاں پر تو آپ لوگ اتنا کھلا دیتے ہیں کہ کچھ اور کھانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔‘‘
سحر اپنی پیکنگ کر رہی تھی، وہ اٹھی اس نے ڈبا فیروزہ بیگم کے ہاتھ سے لے کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور اپنی ماں سے لپٹ گئی اور بولی، ’’امی! آپ کتنی اچھی ہیں۔ آپ جیسی محبت کوئی نہیں کر سکتا۔ فرطِ جذبات سے دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔‘‘
تھوڑی دیر تک ماں بیٹی لپٹی رہیں پھر فیروزہ بیگم نے بیٹی کو پیار سے الگ کیا، اس کے آنسو پونچھے پیشانی پر پیار کیا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں۔
سحر کے جا نے کے بعد فیروزہ بیگم کمرے کی صفائی کروانے گئیں جہاں سحر، اس کا شوہر اور اس کی بیٹی آسیہ ٹھہرے تھے۔
نوکرانی نے صفائی کے دوران ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ہوا وہ ڈبا دیکھا جس میں فیروزہ بیگم نے با لا ئی کے لڈو سیل پیک کر وائے تھے۔
اس نے فیروزہ بیگم کے ہاتھ میں ڈبا دیتے ہوئے کہا،
’’بیگم صاحبہ! سحر بی بی یہ ڈبا لے جانا تو بھول ہی گئیں۔‘‘
فیروزہ بیگم نوکرانی کے ہاتھ سے ڈبہ لے کرتھوڑی دیر تک اسے دیکھتی رہیں پھر ’’وہ بھولی نہیں البتہ وقت بدل گیا ہے۔‘‘ فیروزہ بیگم کے ہو نٹ کپکپا ئے۔