(Last Updated On: )
واقعات حکومت
قدیم عربوں کے ہاں کوئی خاص تقویم رائج نہ تھی ان میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ وہ کسی مشہور واقعے سے اس سال کو منسوب کر دیتے تھے جس میں وہ پیش آتا جسطرح رسول اکرم کی پیدائش کے سال یعنی 571 عیسوی میں یمن کے حاکم ابرہہ نے خانہ کعبہ مسمار کرنے کے لیے مکہ پر چڑھائی کی اس کی فوج میں ہاتھی تھے جو عربوں کے لیے عجوبہ تھا اس لیے اس سال کو عام الفیل(ہاتھی کا سال) کہنے لگے قران پاک میں سورہ فیل بھی اسی واقعے سے متعلق ہے اسی طرح 620 عیسوی میں جب حضور کے چچا ابو طالب اور حضور کی اہلیہ حضرت خدیجہ انتقال کر گئے تو اس مناسبت سے اس سال کو عام الحزن(غم کا سال) کہا گیا
حسن اتفاق سے ایک ایسی دستاویز دستیاب ہوئی جس میں اسی اصول پر تمام بادشاہوں کے عہد حکومت کے واقعات کی فہرست دی گئی ہے اس میں حموربی کی 43 سالہ حکومت کے ہر سال کسی خاص واقعے سے منسوب ہے اس دستاویز کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا لیکن جو دستیاب ہوا وہ بھی کچھ کم نہیں تھا
1 جس سال حموربی بادشاہ بنا
2 جس سال اسین اور اریخ فتح ہوئے
3 جس سال شال دیوی کی مورتی تیار ہوئی
اسطرح حموربی کے عہد حکومت کا ہر سال کسی مشہور واقعے سے منسوب ہے
افسوس کہ متن کے نامکمل ہونے کے باعث اس عظیم الشان بادشاہ کے بہت سے واقعات کے بارے میں پورے علم سے محروم رہ گئے لیکن جو کچھ ملا اس سے صاف ظاہر ہیکہ اس نے اپنی حکومت کا زیادہ زمانہ مذہبی اور رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف کیا اور بدامنی اور جنگوں میں بہت کم وقت ضائع ہوا
فتوحات
حموربی کے دادا ابیل سن کی حکومت کے اواخر (2089 قبل مسیح ) میں مغربی عیلام کے تخت پر بادشاہ قدر معبوق تخت نشین تھا اس نے اس سال جنوبی بابل کی ساحلی ریاست لارسہ پر حملہ کیا اور فتح کے بعد اپنے بیٹے وردسن کو گدی پر بٹھایا وردسن بارہ سال تک حکمران رہا اس دوران اس نے ار ، حلابو ، اریدو اور لاغاش کے مشہور شہر فتح کرکے انھیں اپنی سلطنت کا حصہ بنایا اور یوں وہ تقریبا” سارے جنوبی حصے کا حکمران بن گیا
اسکی وفات کے بعد اسکا چھوٹا بھائی رم سن برسر اقتدار ایا اور اکسٹھ برس تک حکمران رہا اس نے سلطنت کو مزید وسعت دی اور شمال میں نفر کا اہم شہر فتح کر کے خود کو سومر اور اکد کا بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اس نے جنوب کی اخری طاقتور ریاست اسین کو شکست دی اور وہ سومر اور وسط بابل کا بلا شرکت غیر حکمران بن گیا
یہ وہ زمانہ تھا جب ابیل سن کی وفات کے بعد حموربی کا باپ سن مبلت حکمران تھا اسوقت تک علامیوں نے اسین فتح نہیں کیا تھا حموربی کے باپ کو توقع تھی کہ عیلامی اسین سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائینگے اسلیے اس نے ان دونوں کی لڑائی میں کوئی حصہ نہیں لیا حالانکہ دانشمندی کا تقاضا تھا کہ وہ اسین کے ساتھ ملکر عیلامیوں کا مقابلہ کرتا اور اس بیرونی دشمن کا خاتمہ کرتا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور بلاخر جب عیلامیوں نے اسین فتح کیا تو اب یہ ممکن نہیں تھا کہ عیلامیوں کی بابل سے مڈبھیڑ نہ ہو دو طاقتور پڑوسیوں کا زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے صلح صفائی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا خاص طور پر جب سن مبلت کا جنوب کی انھی شہری ریاستوں پر دعوی’ تھا جو عیلامیوں کے قبضے میں تھیں
ادھر عیلامی حکمران رم سن مسلسل فتوحات کے باعث حوصلے بلند ہو گئے تھے جب ایک دفع فتح کا خون کسی کے منہ لگ جائے پھر اسکے لیے قناعت کر کے چین سے بیٹھنا محال ہو جاتا ہے اس کے علاوہ رم سن بخوبی جانتا تھا کہ جب تک بابل اور سن مبلت کا کانٹا اسکی راہ میں موجود ہے وہ نہ تو اطمینان سے جنوب میں حکمرانی کر سکتا ہے اور نہ شمال کی طرف پیش قدمی کر سکتا ہے
آخر کار اس نے سن مبلت کی حکومت کے اخری سال بابل پر چڑھائی کر دی بہت گھمسان کا رن پڑا لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا رم سن کو خالی ہاتھ جانا پڑا لیکن اسکے چند برس تک بابل کی حکومت عیلام کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے قابل نہیں رہی
اسی سال 2068 قبل مسیح میں سن مبلت کا انتقال ہوا اور حموربی تخت نشین ہوا ممکن ہے اس تبدیلی کا بھی اثر ہوا ہو لیکن ایسا لگتا ہیکہ بابل کی حکومت میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ حملہ اوروں کا تعاقب کر سکتی یا انتقام لینے کے لیے لارسہ یا عیلام پر حملہ کرتی اسلیے مجبورا”. خاموشی اختیار کرنا پڑی اور اگر تورات کی کتاب پیدائش پر اعتبار کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے کچھ عرصے تک حموربی عیلامیوں کے حلیف کی حثیت سے لڑائیوں میں حصہ لیتا رہا
بابل میں عیلامی حملے اثرات دو سال تک رہے سارے ملک میں بدامنی اور بے چینی کا راج تھا
دوسرے سال جلوس کا نام ” جس سال حموربی نے انصاف قائم کیا” اس طرف اشارہ کرتا ہیکہ حموربی نے کوشش کر کے ملک میں نئے سرے سے امن و امان قائم کیا اور لوگ پھر اطمینان سے کاروبار زندگی چلانے لگے
ملک کو دوبارہ امن وامان کی راہ پر ڈالنے کے بعد اپنی حکومت کے ساتویں سال حموربی نے اسین فتح کیا یہ شہر سومر کے انتہائی جنوب میں سمندر کے کنارے تھا حموربی کے باپ سن مبلت کے آخری سال میں عیلامیوں نے رم سن کی قیادت میں جب مغرب کی طرف پیش قدمی کی تو پہلے انھوں نے اسین ہی فتح کیا تھا
جب حموربی نے اپنی طاقت بڑھا لی اور اسے عیلامیوں کی طرف سے کسی قسم کا خطرہ نہ رہا تو اس نے ہاتھ پاوں نکالنے شروع کیے اور اسین کے بعد اس نے اسی سال اریخ پر بھی قبضہ جمالیا اسکے بعد انیس برس تک ہر طرف امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ رہا اس دوران حموربی برابر اپنی طاقت بڑھاتا رہا
اس نے مختلف مقامات پر مندر تعمیر کیے ان میں مورتیاں نصب کیں پرانے مندروں کی مرمت کی اور وہاں نئے بت چڑھائے شہروں کی فصیلوں کو مستحکم کیا نہریں کھدوایں اور اس طرح کھیتی باڑی کے کام میں لوگوں کو سہولت مہیا کر کے ملک کی خوشحالی میں اضافہ کیا
جب اس نے دیکھا کہ کوئی قریبی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو اس نے اپنی حکومت کے تیسویں سال گردو نواح کی ریاستوں کا رخ کیا سب سے پہلے عیلام سے اس نے پرانا حساب چکانے کی ٹھانی اور اس دیرینہ دشمن پر دھاوا بول دیا عیلام پر ابھی رم سن ہی حکمران تھا لیکن بہت بوڑھا ہو چکا تھا اب کے میدان بابلیوں کے ہاتھ رہا اور عیلامیوں کو شکست ہوئی رم سن گرفتار ہوا اور باج گزاری کا اقرار کر کے جان چھوڑائی
اس فتح کے حموربی کے حوصلے بڑھا دیے اگلے برس اس نے خاص امبتل یعنی مغربی عیلام سے ٹکر لی اور اسے نیچا دکھایا اس سے اگلے برس من کیتو پر اسکی تلوار لہرائی اس کے چند برس بعد خاموشی رہی
اپنی حکومت کے آخری سال وہ پھر باہر نکلتا ہے اور اس بار انتہائی شمال میں اسیریا فتح کر کے ملک کی تاریخ میں پہلی بار بابل اور اسیریا یعنی شمال اور جنوب کے علاقے ایک حکمران کے زیر نگیں لاتا ہے