(مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)
وقارؔ خلیل
(وقارؔ خلیل کا انتقال…ایک اُردو المیہ)
۲ نومبر ۱۹۹۸ء اردو دنیا کے لیے ایک نقصان دہ دن ثابت ہوا۔ ایک اردو سپاہی راہی ملک عدم ہوا۔ وقارؔ خلیل کے رحلت پانے کی خبر کویت میں مقیم ممتاز اردو دوست جناب احتشام الدین صاحب نے مجھے فون پر دی کہ روزنامہ ’’منصف‘‘ میں یہ اطلاع شائع ہوئی ہے (اور واقعی منصف نے سب سے زیادہ مناسب انداز سے یہ خبر ہم تک پہنچائی) وقارؔ خلیل کے انتقال سے اُردو کا جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ ہے میرا تو اکتیس برسوں سے ساتھ ساتھ چلنے والا ایک بزرگ پردۂ اجل میں جا چھپا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میرے احباب جانتے ہیں کہ جب بھی میں حیدرآباد میں رہا اتوار کا دن عموماً ایوانِ اُردو میں وقارؔ صاحب کے ہم راہ رہا۔ وہاں کتابیں تو کم دیکھیں، ان کے ساتھ ادبی گپ شپ زیادہ کی۔ وہیں حیدرآباد بلکہ دکن کے معروف اور مستند ادیبوں سے ملاقات بھی ہوئی۔ جہاں اُن میں مغنی تبسم، طیب انصاری، اکبر الدین صدیقی، منظور احمد، صلاح الدین نیر جیسے سینئر ادیب ملے وہیں ہم عصروں میں رحمن جامیؔ، رؤف خیرؔ، قطب سرشارؔ، غیاث متینؔ، اسحٰق ملک، شمیم نصرتی، محمد علی اثرؔ، مومن خاں شوقؔ اور ایسے ہی کئی اہم ناموں سے بھی ملاقات ہوئی۔ کبھی کبھی کلام بھی پڑھے اور سنے گئے، کبھی کبھی رواروی کی شناسائی بھی ہوئی۔ ۱۹۸۱ء سے میں زیادہ تر ہندوستان سے باہر رہا اور ہر اتوار کو اس موقع سے محرومی محسوس کرتا رہا ہوں۔ اب جب کہ وقارؔ صاحب نہیں رہے تو میں نہیں جانتا کہ اب حیدرآباد میں اتوار کس طرح گزرے گا۔
وقارؔ صاحب سے میری ملاقات ۱۹۶۷ء میں ہوئی جب کہ ’’سب رس‘‘ کا غالب نمبر شائع ہونے والا تھا۔ وقارؔ صاحب نے میری غزل ’’پائے نئے نکات پرانی کتاب میں‘‘ کو پسند فرمایا اور اس رسالہ میں شائع کرنے کے لیے یہ غزل اکبر الدین صدیقی صاحب کو دی۔ اس ملاقات میں وقار صاحب نے مجھ سے میری بیاض مانگ کر دیکھی، چونک پڑے اور کہنے لگے کہ اتنا اچھا معیاری کلام ہے آپ اسے رسائل میں کیوں نہیں بھیجتے۔ اشاعت بھی تحریر کی طرح اہم ہے اور اس طرح اُن کی خواہش پر میں اُردو رسائل کی دنیا میں داخل ہوا۔
اس سے پہلے حیدرآباد کے اخبارات یا اکے دُکے رسائل میں میرا کلام آیا تھا۔ یہاں پر یہ بھی وضاحت کر دوں کہ وقارؔ صاحب نے کبھی میرے کلام پر تصحیح وغیرہ نہیں کی، نہ ہی رائے دی۔ وہ میرے ایک معزز ادب دوست رفیق تھے۔
وقارؔ صاحب دبستانِ زورؔ کے پروردہ ادیب تھے، زبان بیان اور تحریر کے ان اسرار سے واقف تھے جو کسی ادیب کو دوسرے ادیبوں سے ممیز کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب ان کا اپنا منتخب شدہ تھا۔ وقار صاحب کو حیدرآباد کے صاحب طرز شاعر خورشید احمد جامیؔ کی شاگردی کا فیض بھی حاصل رہا۔ وقار صاحب زود گو بھی تھے اور بیش فکر بھی۔ انھوں نے ایسی نئی شاعری کی کہ جو انتخابوں میں بھی شریک رہی اور ہند و پاک کے تقریباً تمام اہم ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوئی۔ ان کی قومی شاعری سرکاری رسائل، ریڈیو اور بر موقع تقریبات میں پڑھی اور سنی گئی۔ ان کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظمیں اور نثر پیام تعلیم سے لے کر مقامی رسائل تک سب میں مقام پاتی رہیں۔ اس کے علاوہ مقصدی نظمیں، نعت و منقبت، مضامین و تبصرے اور بہت کچھ اُنھوں نے اپنے نام سے اور کبھی ابن نامی کے قلمی نام سے شائع کروائیں۔ اس کے علاوہ کئی رسائل، اخبارات اور ہفتہ وار جرائد کی ترتیب و تزئین میں اہم کردار ادا کیا۔ گھر آنگن، مزاج کی نظمیں، بصری علامتوں کے اژدہام والی غزلیں بھی لکھیں لیکن ان کے فن پر داخلی فکر کا عنصر اور ترقی پسند تحریک سے ہم آہنگی ہمیشہ اہم رہے۔
حیدرآباد میں کچھ برس پہلے جو نام نہاد ادیب ’’Ghost Writing‘‘ یعنی ’’پس پردہ قلم کاری‘‘ کے سہارے منزہ شہود پر آئے، اُن کے لیے وقارؔ صاحب نے بھی مصحفیت کی۔ ان میں چند نام مجھے بھی معلوم ہیں جو ان شأ اللہ ہمیشہ پوشیدہ رکھوں گا کہ وقارؔ صاحب کی یہی خواہش تھی۔
شاعرانہ تعلی، لب و لہجہ کی تلخی، چکنے اور ملائم الفاظ کا استعمال، صوتیاتی آہنگ کے تجربات یہ سب کہیں نہ کہیں ان کی شاعری میں جلوہ گر ملیں گے۔ معاشی اور سماجی تجربات کی تلخیوں نے جب اُن کے دل کو زخمی کیا تو کہہ اُٹھے:
دروغ مصلحت آمیز کی یہ بستی ہے
یہاں زبان ہی کھولو نہ لب کشادہ کرو
اور
اُردو تحفظات کے خانوں میں بٹ گئی
دانشورانِ اُردو زبان سب مزے میں ہیں
اُن کی اس تلخ نوائی کا بنیادی سبب اُن کی اُردو اور اہلِ دکن سے بے انتہا محبت تھی:
بوجھو پہلیوں پر پہیلی کہ سر کھپاؤ
اُردو کا مسئلہ ہے معما بنا ہوا!!
…
’’جاگتے بھی رہو
سوچتے بھی رہو
دکن کا اُفق ملگجا ہو نہ پائے
کہ شیرازہ ملک و ملت نہ بکھرے‘‘
…
وقارؔ صاحب نے کئی ادیبوں اور شاعروں کی وفیات بھی لکھیں اور یاد پر قطعات بھی کہے۔ وہ محل اور موقع پر اظہار سے نہ کترائے، آج وہ نہ رہے اُن کی وفات پر تحریریں آ رہی ہیں۔ اُمید کہ لوگ حق وفا ادا کریں گے۔
وقار صاحب کو اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور نواسیوں پوتوں سے بے حد پیار تھا وہ ایک مکمل سماجی انسان تھے۔ سماج کے نشو و نما اور ارتقا کے لیے دعاگو بھی تھے، متفکر بھی جب سے ہندتوا کا سانپ ہندستان کے خزانے پر کنڈلی مار کر آ بیٹھا ہے، وہ انسان کی فطرت میں شر پسندی کی بو محسوس کرنے لگے تھے۔
’’اور پھر یوں ہوا
رقص ابلیس کرتا رہا
دھرم کے نام پر وہ ہوا شہر میں
آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا
سلسلہ روز و شب سے گزرنے لگا‘‘ (شہر جلتا رہا)
…
’’تم اپنے جلتے کواڑ دیکھو
تمام منظر بدل چکے ہیں
سلامتی خوف بن گئی ہے
وہ ایک شمع وفا
جو، محراب آرزو میں کھلی تھی روشن
وہ بجھ چکی ہے‘‘(کالی نظم)
…
وقارؔ صاحب نے دکنی زبان میں بھی شاعری کے سنجیدہ تجربے کیے جو کافی حد تک کامیاب اور دلکش ہیں ان کی زندگی اور شاعری کے بارے میں لکھنے کو کافی تفصیل درکار ہے اور فی الوقت جو کچھ میں نے کہا ہے وہ اشارتاً ان کی ادبی اہمیت کی ایک جھلک ہے۔
وقارؔ صاحب ایک بہت اچھے آدمی تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے (آمین) اور ان کے لواحقین و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
وقارؔ صاحب کی غزلوں کے یہ شعر اُن کی یاد دلاتے رہیں گے:
پڑھتے ہیں لوگ ہجر کے لمحات میں کتاب
ہم بھی اچھالتے ہیں خرابات میں کتاب
…
سب ریت کی دیوار کا لیتے ہیں سہارا
کیا لوگ ہیں، کیا ریت ہے، کیا رسم فغاں ہے
…
دفتر سے فائلوں کی شکن کا مجاریہ
لوٹا ہے نصف رات سے پہلے تھکا ہوا
…
سخن رنگ مہکے وقارؔ خلیل
قطب شہ کی دکنی میں پیاراد سے
…
عاشقاں ہو تو روز دید کرو
خوب خوشیاں مناؤ عید کرو
٭٭٭