وقار چلا گیا تو انجلینا بے صبرے پن کی حد کرتے ہوئے دروازے پر کھڑے کھڑے ہی مریم سے پوچھنے لگی ۔۔
مام یہ کیوں جائیگا ہمارے ساتھ اسلامک سنٹر؟
کیونکہ وہ بھی مسلمان ہے یہ کہتے ہوئے مریم کی مسکراہٹ گہری ہوئ تھی۔۔
تو۔۔
تو کیا تم ہی چاہتی تھی نا کہ وہ مسلمان ہو؟
وہ تو اس لئے بولا تھا تا کہ مسلمان ہوتا تو پاکستانی ہوتا اوراس کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے آپ کو خوشی ہوتی نا۔۔
اچھا تو پھر میری خوشی کے لئے ہی وہ ہمارے ساتھ آ رہا ہے کل۔۔
ویسے تو اب تمہاری بھی اس سے دوستی ہو گئ ہے۔۔یہ کہتے ہوئے مریم نے انجلینا کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا تھا اور انجلینا اپنی نظریں چرا گئیں تھی مبادا مریم اسکی آنکھیں نہ پڑھ لے۔۔
اب وہ دونوں چلتی چلتی اپنے بیڈ روم تک آ گئیں تھیں۔۔
انجلینا نے سونے کے لئے بیڈ پر لیٹ کر اپنی آنکھیں بند کی تو اس کے سامنے وقار کا چہرہ نمودار ہو گیا۔۔
وہ اسے پوچھ رہی تھی کہ کیا چاہئیے۔۔
اور وہ اس پر اپنا آپ یہ کہتے ہوئے کھول رہا تھا۔۔
تم۔۔
تم۔۔۔
اور پھر اگلے منظر میں وہ اپنی آنکھوں میں بے پناہ محبت لئے اسے اپنے دل کی داستان سنا رہا تھا۔۔
سنو۔۔!!!!!!!!!
زبان تو نہیں کہہ سکتی۔۔۔
تمہیں احساس تو ہو گا۔۔۔۔۔۔
میری آنکھوں کو پڑھ لینا۔۔۔
بس۔۔
مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔
اس نے گھبرا کر اپنی آنکھیں کھول دی تھی۔۔
اسے شروع سے ہی مشرقی مرد بہت attract کرتے تھے مگر وقار اس کے حواسوں پر کیوں ایسے سوار ہو رہا تھا۔۔
نہیں۔۔
نہیں۔۔
وہ نامحرم ہے۔۔
نا محرم۔۔۔
مجھے یوں اس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے میرا اسلام مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔۔
اور بے شک ایمان والے اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار اپنے اپارٹمنٹ پنہچا تو لاونج میں داخل ہوتے ہی اسے اوپن کچن میں علی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا وقار کو نظر آیا۔۔
اور وہ مسکراتا ہوا وہاں چلا آیا تھا۔۔
علی بنا اسکی طرف دیکھے بریانی کھانے میں منہمک تھا۔۔
وقار اب ایک چئیر کھینچ کر اسکے بالکل سامنے بیٹھ گیا تھا۔۔
اور علی نے اسے دیکھتے ہی ناک چڑھایا تھا۔۔
اور وقار اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔
اچھاsorry نا یار دیکھ تیرے لئے بریانی بنائ ہے اور اگر کہتا ہے تو کان بھی پکڑ لیتا ہوں۔۔
دیکھ تو حالانکہ میری بیوی نہیں پھر بھی میں بیوی کی طرح تیرے نخرے اتھاتا ہوں۔۔
اور علی نے وقار کی اس بات پر قہقہ لگایا تھا۔۔
چل اب بکواس بند کر اور اپنے جس مجنوں نامے کو سنانے کے لئے بیتاب ہو رہا ہے وہ سنا۔۔
اور وقار نے الف سے لے کر یے تک اسے اپنی ساری کتھا من و عن سنا دی تھی۔۔
اور آخر میں علی نے صرف ایک یہی بات کی تھی یعنی تو صبح پھر یونیورسٹی نہیں جائیگا۔۔۔
اور وقار نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔ یعنی تجھے میری اس پوری کہانی میں سے صرف ایک یہی بات سمجھ آئ ہے اور علی نے لاپرواہی سے اپنے شانے اچکائے تھے۔۔
وقار علی کی یہ حرکت دیکھتے ہی اسے مارنے کے لئے اٹھا تھا اور علی اس کے اٹھنے سے پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگلے دن وہ پورے نو بجے انجلینا اور مریم کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا بیل دے رہا تھا۔۔
اور تقریبن تیسری بیل پر ہی انجلینا نے دروازہ کھول دیا تھا۔۔
وہ آج پھر اپنے سر پر اسکارف لپیٹے ریڈ کلر کا لانگ کوٹ پہنے ہوئے تھی۔۔
آج بھی اسکے جسم کا ہر زاویہ اس کے قدرے موٹے لانگ کوٹ میں چھپا ہوا تھا۔۔
اسکی سبز موٹی آنکھیں آج پھر اپنے آب و تاب سے چمک رہی تھیں۔ ۔
اسکی سیتواں ناک اسکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔۔
اور اسکا رنگ چاند کی مانند دمک رہا تھا۔۔
وہ آج پھر اسے دیکھتے ہی اپنے ہوش سے بیگانہ ہوتا جا رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ اپنے مکمل ہوش و حواس کھو بیٹھتا۔۔
انجلینا اپنے مخصوص British accent میں انگلش میں اس سے مخاطب تھی۔۔
آپ اس وقت یہاں؟؟
جی وہ۔۔
اس سے پہلے کہ ابھی وہ کچھ بول پاتا مریم بھی وہاں آگئ تھی۔۔
وقار تم آ گئے آو اندر آجاو۔۔
اور انجلینا نے سوالیہ نظروں سے مریم کی طرف دیکھا تھا۔۔
میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ اسلامک سنٹر جانا ہے۔۔
اور اب مریم وقار کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے شاپنگ بیگز کی طرف متوجہ ہوئ تھی۔۔
جو وقار نے مریم کی طرف بڑھائے تھے کیونکہ اس ڈر تھا کہ انجلینا لینے سے انکار نا کر دے۔۔
یہ سب کیا ہے؟مریم نے وقار سے پوچھا تھا۔۔
وہ یہbreakfast کا کچھ سامان ہے۔۔وقار نے ہچکچاتے ہوئے مریم کو بتایا تھا۔۔
اوہ بیٹا اس سب کی کیا ضرورت تھی۔۔
میں آپ کا ہم وطن ہوں اور ہم مذہب بھی اس ناطے اتنا تو میں کر ہی سکتا ہوں آپ کے لئے یہ کہتے ہوئے وہ مسکرایا تھا اور مریم نے ہاتھ سے اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے اسے کہا تھا آو ہم لاونج میں بیٹھتے ہیں اور شاپنگ بیگز انجلینا کے ہاتھ میں تھما دئیے تھے۔۔
اور پھر وہ تینوں breakfast کرنے کے بعد اسلامک سنٹر جانے کے لیے تیار تھے روڈ پر آتے ہی وقار نے ایک ٹیکسی کو روکا تھا اور پھر وہ تینوں اس میں سوار ہو گئے تھے۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ اسلامک سںٹر پنہچ گئے تھے۔۔
وقار ان کے آگے آگے چل رہا تھا اور مریم اور انجلینا اسے follow کر رہی تھیں۔۔
وقار اسلامک سنٹر میں اینٹر ہوتے ہی ایک سفید داڑھی والے بزرگ کی جانب بڑھا تھا اور پھر کچھ دیر بعد وہ انجلینا اور مریم کو بھی اپنے ساتھ اس بزرگ کے پاس لے آیا تھا۔۔
اب وہ بزرگ انجلینا سے انگلش میں مخاطب تھا۔۔
تو بیٹی تم اسلام قبول کرنا چاہتی ہو؟
جی۔۔
کیا تم اپنی مرضی سے بنا کسی دباو کے اسلام قبول کرنا چاہتی ہو؟
جی۔۔
تو پھر چلو میرے ساتھ ساتھ کلمہ توحید پڑھو۔۔
اس سے پہلے کہ وہ انجلینا کو کلمہ پڑھاتا۔۔
انجلینا بولی تھی۔۔
مجھے کلمہ آتا ہے اور پھر اس نے کلمہ توحید سب کے سامنے پڑھا تھا۔۔
لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ ¤
اور یہ سنتے ہی وہ بزرگ بولے تھے سبحان اللہ ۔۔سبحان اللہ ۔۔
مگر بیٹی کیا تم اس کا مطلب بھی جانتی ہو جو ابھی تم نے کہا۔۔
جی ہاں بالکل۔۔
اب وہاں بیٹھے سبھی لوگ اسکی طرف متوجہ تھے۔۔
لا الہ الاللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئ الہ نہیں جو خالق و مالک کہلائے جانے کا مستحق ہو۔۔عالم الغیب،حاضر ناظر مختارکل سمجھا جائے۔۔نفع و نقصان جس کی مٹھی میں ہو۔۔حاجت روائ مشکل کشائ فریاد رسی جس کی صفت ہو۔۔اٹھتے بیٹھتے جس کو پکارا جائے جس سے غائبانہ خوف کھایا جائے ، امیدیں وابستہ کی جائیں۔۔جس پر توکل کیا جائے۔۔واسطہ اور وسیلہ کے بغیر جس سے دعائیں مانگی جائیں۔۔جس کے حضور رکوع و سجدہ ہو۔۔جس کے نام کی نذرو نیاز کی جائے۔۔قانون سازی جس کا حق ہو۔۔سب جس کے بندے اور محتاج ہوں۔۔کسی کو اس پر زور یا زبردستی کا یارا نہ ہو۔۔
محمدرسول اللہ کے معنی یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بشر اور اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں۔۔ان کے قول و عمل کے سامنے کسی کا قول و عمل ہر گز قابل قبول نہ ہوگا۔۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل کی ہی تعبیر معتبر ٹھہرے گی جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے ثابت ہے قیامت تک سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر شعبہ میں سند آخر ہے اور ہر قسم کی بدعت قابل رد۔۔
اور بے شک اس کلمہ توحید پر کامل ایمان لانے والا بندہ انجام کار جنت کی بادشاہی میں پنہچ کر رہے گا انشااللہ اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والا دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل و رسوا رہے گا۔۔
وہ خاموش ہوئ تو سب پر چھایا ہوا سکوت ٹوٹا۔۔
وقار احمد اب تک کسی سکتے میں تھا۔۔تو گویا وہ لڑکی ایک بار پھر سے اسے حیران کرنے میں کامیاب رہی تھی۔۔
اور مریم مسکراتی ہوئ اس دل موہ لینے والی صورت کی مالک لڑکی کو دیکھ رہی تھیں وہ بالکل بھی حیران نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں انجلینا ایک سخت جستجو کے بعد اس مقام تک پنہچی تھی۔۔
اب وہ بزرگ پھر سے انجلینا سے مخاطب تھے۔۔
بیٹی آج تم سے مل کر مجھے سورہ الشوری کی آیت نمبر تیرہ کا ایک حصہ یاد آگیا۔۔
اس کا ترجمہ یہ ہے۔۔
“جن کو اللہ اپنی طرف چن لے جن کو اللہ اپنی طرف کھینچ لے”
کیا خوبصورت بات ہے نا اللہ خود چن کر کسی کو اپنے لئے خاص کر دے اس کو اپنی طرف لے آئے۔۔
اللہ اکبر ۔۔
اللہ اکبر ۔۔
اب وہ انجلینا کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پیار دے رہے تھے۔۔
بیٹی اب تمہارا کوئ اسلامی نام بھی رکھنا ہو گا۔۔
بتاو کیا نام رکھا جائے۔۔
اور انجلینا نے مریم کی طرف دیکھا۔۔
اس سے پہلے کے کوئ کچھ بول پاتا وقار کی آواز ابھری تھی۔۔
مہرماہ۔۔
اور چونک کر سب نے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
اور وقار مریم سے اب اردو میں مخاطب ہوا تھا پلیز آپ انجلینا کا نام مہرماہ رکھ دیں پلیز۔۔
مہرماہ۔۔سورج سی روشن اور چاند جیسی خوبصورت۔۔یہ کہتے کوئے وقار نے التجائیہ نظروں سے مریم کی جانب دیکھا تھا اور مریم نے اپنے سر کو ہاں میں جنبش دی تھی۔۔
یوں انجلینا کرسٹوفر نے مہرماہ بننے تک کا سفر تہہ کیا تھا۔۔
لیکن ابھی اس سفر کا اختتام نہیں ہوا تھا کیونکہ ابھی وقار کی مہر بننا تو باقی تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر ٹی وی لاونج میں صوفے پر اپنی آنکھیں موندے ٹیک لگائے بیٹھی تھی اس کے قریبی صوفے پر شہناز براجمان تھی مہر کی یہ عادت تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کو اپنے سے نیچے نہیں بیٹھنے دیتی تھی۔۔
اور اب تک شہناز کو تو وہ پتا نہیں کیا کیا کچھ دے چکی تھی اور ہر وفعہ شہناز اسکی اس فراغ دلی پر حیران رہ جاتی تھی۔۔۔
صابرہ نے مہر کو آ کر اطلاع دی تھی کہ بی بی آج پھر وہی ہجڑہ آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔
یہ سنتے ہی مہر نے اپنی آنکھیں کھول دی تھی۔۔
تو پھر جاو نا صابرہ بی اسے اندر لے آو۔۔
اور صابرہ بی آج کسی احتجاج کے بغیر اسے اپنے ساتھ ٹی وی لاونج تک لے آئ تھی۔۔
کیونکہ جب صابرہ نے وقار کو صائمہ ہجڑے کے متعلق بتایا تھا اس کے ٹھیک دو دن بعد ہی وقار نے اس ہجڑے کے متعلق تمام information نکلوا لی تھی اور صابرہ کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ اب اس ہجڑے کو گھر میں آنے سے نا روکے وہ ایک انتہائ غریب اور شریف ہجڑہ ہے اس سے ان کے گھر کو کوئ خطرہ نہیں۔۔
اب وہ ہجڑہ پھر سے اپنے مخصوص انداز میں مہر کو سلام کیا تھا۔۔
سلام باجی صائمہ آئ جے۔۔
اور مہر نے مسکراتے ہوئے قدرے نرمی سے اسکے سلام کا جواب دیا تھا۔۔
اور اب مہر اسے بیٹھنے کے لئے کہہ رہی تھی۔۔
وہ آج پھر زمین پر ہی براجمان ہونے والا تھا اس سے پہلے کہ وہ بیٹھ پاتا۔۔مہر بول پڑی تھی صائمہ ادھر اوپر بیٹھو نا۔۔
اور وہ قدرے گھبراتا ہوا اوپر صوفے پر بیٹھ گیا تھا وہ اپنے اردگرد بھی دیکھ رہا تھا مبادا صابرہ پھر اسے آ کر کوسنے نا لگے۔۔۔
مہر نے نوٹ کیا تھا کہ آج وہ پہلے دن سے کہیں زیادہ چپ چپ اور اداس لگ رہا تھا۔۔
مہر نے پاس بیٹھی شہناز سے کہا تھا جاو صابرہ بی سے کہو کہ صائمہ کے لئے کچھ کھانے کو بھجوائے۔۔
شہناز جب وہاں سے چلی گئ تو مہر صائمہ سے مخاطب ہوئ۔۔
کیسے ہو صائمہ ٹھیک ہو نا؟
ہاں باجی اللہ تجھے سلامت رکھے۔۔
تم آج کچھ اداس لگ رہے ہو کیا ہوا ہے؟
باجی میری ماں مر گئ ہے۔۔
کیا اوہ کب؟
دس دن ہو گئے باجی میں بد نصیب تو اپنی ماں کا آخری دیدار بھی نا کر سکا اگر جاتا تو سب کو پتا چل جاتا نا کہ ایک ہجڑہ بھی اسکی اولاد ہے۔۔
یہ سنتے ہی مہر کی آنکھیں نم ہونے لگی اور اس نے صائمہ کے قریب ہو کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔
صائمہ تمہیں اللہ تمہارے اس صبر کا اجر ضرور دے گا۔۔
یہ دنیا تو فانی ہے تم ان دنیا والوں کے لئے کیوں اداس ہوتی ہو تم اپنے اللہ سے عشق کرو۔۔اس سے لو لگا لو۔۔
تمہاری سب تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔۔
اب وہ بہت غور سے مہر کی باتیں سن رہا تھا۔۔
وہ اسے اب کلام پاک کی آیات کا ترجمہ سنا رہی تھی اور اسکے اندر سکون ہی سکون اتر رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار آج گھر پر ہی تھا اور گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی آج فاطمہ کا نکاح ہو رہا تھا علی کے ساتھ مہر کے پوچھنے پر فاطمہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ کسی میں بھی intrested نہیں ہے اور وہ دونوں اور اسکی امی مل کر اسکے لئے جسکا بھی انتخاب کریں گی وہ اسے قبول ہو گیا۔۔
یوں سب کی باہمی رضا مندی سے فاطمہ کا نکاح وقار کے قریبی دوست علی سے ہو رہا تھا۔۔
فاطمہ چاہتی تھی کہ اسکی رخصتی دھوم دھام سے مہر کی ڈلیوری کے بعد ہو جبکہ علی کے گھر والے چاہتے تھے کہ علی کے لندن جانے سے پہلے علی کا نکاح کر دیا جائے ۔۔
علی اپنی تعلیم مکل کرنے کے بعد لندن میں ہی جاب کے سلسلے میں مقیم ہو گیا تھا۔۔
اسی لئے آج وقار کے گھر پر منگنی اور نکاح کی ایک پروقار تقریب رکھی گئ تھی مگر اس میں صرف فیملی کے لوگ ہی تھے باہر سے کسی کو مدعو نا کیا گیا تھا۔۔
وقار نے آج فاطمہ کی زد پر اپنی شادی کے دن والی شیروانی پہنی تھی جس میں وہ واقعی کسی پریوں کی کہانی کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔
مہر نے بھی وقار کے ساتھ کلر میچنگ کی نسبت سے بلیک میکسی پہن رکھی تھی جس پر سلور کام کیا گیا تھا وہ اپنے روم پر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا میک اپ کر رہی تھی جب وقار کمرے میں داخل ہوا اور اس نے مہر کی کمر کے گرد پیچھے سے اپنے بازو حائل کر کے اسے اپنی طرف موڑ لیا۔۔
وقار یہ کیا بات ہے آپ خود تو تیار ہو گیے ہیں اور اب مججے تنگ کرنے آگئے ہیں؟
افففف کیا تمہیں بھی میک اپ کی ضرورت ہے مہر؟
کیوں کیا میرا میک اپ کرنے کو دل نہیں کرتا؟
خیر ویسے میرا میک اپ تقریبن پورا ہو ہی گیا ہے۔۔
بس مجھے اب جوتے پہننے ہیں۔۔
کہاں ہیں بتاو میں نکال لاتا ہوں۔۔
میں نے شہناز سے نکلوا لئے تھے وقار ادھر بیڈ کے قریب ہی پڑے ہیں۔۔
چلو آو پھر یہ کہتے ہوئے وقار مہر کا ہاتھ تھامے اسے بیڈ تک لے آیا تھا۔۔
اب وہ مہر کو بیڈ پر بٹھا رہا تھا اور پھر وہ گھٹنوں کے بل بیڈ کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھا تھا اور مہر کا پاوں پکڑ کر اسے سینڈل پہنانے لگا تھا کہ مہر نے اپنا پاوں پیچھے کھینچ لیا۔۔
وقار یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟
تمہیں سینڈل پہنا رہا ہوں۔۔
نہیں میں خود پہن لوں گی۔۔
مہر تم اس حالت میں کیسے نیچے جھکو گی۔۔
ضد نہیں کرو ورنہ میں ماروں گا چلو پاوں ادھر کرو اور مہر کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی وقار نے اسے سینڈل پہنا دئیے تھے۔۔
اور پھر مہر نے سکارف سے نقاب کر کے ایک چادر اپنے گرد لپیٹ لی تھی اور وقار اسکا ہاتھ تھامے اسے مین ہال میں لے آیا تھا جہاں سب مہمان جمع تھے۔۔
اور یوں فاطمہ اور علی کا نکاح انجام پایا تھا۔۔
وقار نے ایک منٹ کے لئے بھی مہر کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا وہ یوں ہی اسکا ہاتھ تھامے اسکے سنگ سنگ رہا تھا۔۔اسکا بس نا چل رہا تھا کہ وہ مہر کو گود میں اٹھا لیتا اور اس کا پاوں زمین پر لگنے نا دیتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار نے اب اکثر ہی مہرماہ اور مریم کے پاس آنا شروع کر دیا تھا۔۔
اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ مہرماہ اور مریم کو اپنے گھر ڈنر پر انوائٹ کرنا چاہتا تھا۔۔
اور مریم نے اسکی یہ دعوت قبول کر لی تھی۔۔
علی بھی مہرماہ کو دیکھنے کے لئے بہت excited تھا۔۔
اور آج سارا کھانا وقار خود اپنے ہاتھوں سے بنا رہا تھا۔۔
جیسے ہی ڈور بیل بجی وقار اور علی دونوں ہی ڈور اوپن کرنے کے لیے گئے تھے۔۔
اور وہاں مہرماہ اور مریم کھڑی تھیں۔۔
اب وقار علی سے مہرماہ اور مریم کا تعارف کروا رہا تھا۔۔
اور جب علی نے مہرماہ کو دیکھا وہ تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔
وہ واقعی اس قدر خوبصورت تھی کہ اسے کوئ بھی دیکھ کر اسکی محبت میں گرفتار ہو سکتا تھا۔۔
اور جب وقار نے علی کو یوں ٹکٹکی باندھے مہر کو دیکھا تو اس نے علی کو ایک ٹہوکا دیا اور علی وقار کے سامنے خجل سا ہو گیا۔۔
اب وہ انہیں اندر کچن میں ہی لے آیا تھا اور وہ سب وہاں پر پڑے ڈائننگ ٹیبل کی chairs پر براجمان ہو گئے تھے۔۔
اب وہ باتیں کر رہے تھے۔۔
وقار نے مریم سے کہا آئیں میں آپ کو اپنا اپارٹمنٹ دکھاتا ہوں اور مریم نے اپنی کمر درد کا بہانہ بنا کر یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کے وہ مہرماہ کو دکھا دے۔۔
اور علی نے یہ بہانہ بنایا کے وہ یہی بیٹھ کر مریم آنٹی کو کمپنی دیتا ہے۔۔
اصل میں مریم اور علی دونوں ہی ان دونوں کے جذبات سے واقف تھے اور وہ ان دونوں کو اکیلے میں اپنے دل کی بات کرنے کا موقعہ دینا چاہتے تھے۔۔
کیونکہ اب مہرماہ نے روڈ آرٹسٹ کے طور پر اپنا کام مریم کی بیماری کی وجہ سے ختم کر دیا تھا۔۔
اب وقار مہرماہ کو اپنا اپارٹمنٹ دکھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رہا تھا اب وہ اسے اپنے کمرے کی بالکونی مین لے آیا تھا۔۔
اور مہرماہ وقار کو بتا رہی تھی کے اسے بالکونی میں رات کے وقت کھڑے ہونا پسند ہے۔۔
اور اب وہ دونوں کچھ دیر کے لئے یہاں کھڑے ہو گئے تھے۔۔
مہرماہ میں تمہیں کچھ سنانا چاہتا ہوں۔۔
کیا۔۔
پوئٹری۔۔میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تم سے ملتا ہوں تو میرے زہن میں یہ نظم آجاتی ہے مگر آج میں تمہیں سنانا چاہتا ہوں۔۔
سناو نا پھر۔۔
Your lips,
your eyes,
your soul,
Are like a work of art,
The most creative thing of all
Is your beautiful heart.
If you were a painting.
No colours could express
The beauty deep inside you,
A rainbow, nothing less.
If you were a sculpture
The clay could hardly make
Your figure of an angel
Without one mistake
If you were a euphony
No choir could really sing
All the beautiful music
Your eyes could possibly bring
So here I am
an artist
With inspiration beyond belief
But to capture such rare beauty, I’d have to be a theif.
مہرماہ مبہوت سی کھڑی اسکا لفظ لفظ سن رہی تھی آج پہلی بار وہ کھلے الفاظ میں اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر رہا تھا۔۔ورنہ اب تک وہ یہ سب اردو میں ہی کہتا ہوا آیا تھا وہ انجان سمجھتا تھا کے اسے اردو نہیں آتی۔۔
وہ آج اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر کے اسے حیران کرنا چاہتا تھا۔۔
مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ آج ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح مہرماہ اسے حیران کرنے والی ہے۔۔
اب مہرماہ کی آواز نے سکوت توڑا تھا۔۔
اچھا تو in short اسکا کیا مطلب ہوا؟
کیا مجھے ابھی بھی کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے؟وقار نے براہ راست مہرماہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔۔
کیا اچھا نہیں ہو گا کہ آپ اب صاف الفاظ میں بات کریں۔۔
مہرماہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ ۔
اچھا پھر۔۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں مہرماہ تمہیں شاید میری یہ بات بہت عجیب لگے مگر مجھے بلکل بھیidea نہیں ہے کہ یہ سب باتیں لڑکے کیسے کہہ لیتے ہیں۔۔
مگر میں تم سے واقعی میں بہت محبت کرتا ہوں میں جب تک تمہیں دیکھ نا لوں مجھے سکون نہیں ملتا۔۔
بس میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا پلیز یہ مت بولنا کے تم۔۔
بس مجھے انکار مت کرنا۔۔
اور یک دم وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا تھا۔۔اور اس نے اپنے ہاتھ اسکے آگے جوڑ دئیے تھے۔۔
پلیز مہرماہ۔۔
ایسا کہتے ہوئے اس نے ااپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا تھا وہ اب بھی اپنے دو زانوں پر بیٹھا ہوا تھا۔۔
وقار۔۔مہرماہ نے اسے آواز دی تھی۔۔
اور اب وقار اپنا سر اٹھا کر مہرماہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
کیا آپ مجھ سے نکاح کریں گے؟
مہرماہ نے یہ بات وقار سے اردو میں کہی تھی اور وہ یہ بات سن کر وہ اپنی پلکیں جھپکنا بھول گیا تھا۔۔
کیا۔۔کیا کہا۔۔وقار نے اٹکتے اٹکتے اس سے پوچھا تھا۔۔
میں نے پوچھا کیا آپ مجھ سے نکاح کریں گے؟
ہاں۔۔
اور وقار کی اس ہاں پر بالکونی کے سامنے خوبصورت آتشبازی کا مظاہرہ ہوا تھا جسے دیکھ کر مہرماہ کی آنکھیں خوشی سے پھیل گئ تھیں۔۔
اور اب وقار بھی اٹھ کر اسکے ساتھ آ کھڑا ہوا تھا۔۔
تو آپ نے یہ آتش بازی اپنی ہی ہاں کے لئے کروای ہے؟
اور وقار کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کے وہ کیا کرے کیونکہ اس نے تو علی سے کہا تھا کے وہ اسکے کمرے میں آنے کے ٹھیک 20 منٹ بعد آتشبازی کروائے کیونکہ اسکا خیال تھا وہ تب تک مہرماہ سے اپنے دل کی بات کہہ دیگا اور جب مہرماہ اسکے جواب میں ہاں کہے گی تو ٹھیک اسی وقت آتشبازی ہو گی۔۔
مگر مہرماہ نے اسکا سارا پلین اسی پر الٹا ڈال دیا تھا۔۔
گویا اس لڑکی نے وقار احمد کو حیران کرنے کا ٹھیکا اٹھا رکھا تھا۔۔
تو تمہیں اردو آتی ہے؟
ہاں مجھے اردو آتی ہے۔۔
مگر مریم آنٹی نے تو کہا تھا کے انہوں نے تمھیں اردو نہیں سکھائ۔۔
میں نے انہیں منع کر دیا تھا بتانے سے۔۔
کیوں۔۔
کیونکہ مجھے پتا تھا کہ تم تب تک اپنی زبان میں سچ بولو گے جب تک تمہیں یہ یقین ہوگا کے مجھے اردو نہیں آتی۔۔
تو پھر اب کیوں بتایا۔۔
کیونکہ اب تمہارے پاس ایسا کچھ نہیں بچا جو تمہیں اس زبان میں مجھ سے کہنا پڑے جو مجھے نا آتی ہو۔۔
کیوں ایسا ہی ہے نا؟
ہاں۔۔
تو پھر اب چلیں مام اور علی ہمارا wait کر رہے ہوں گے؟
رکو مہرماہ۔۔
کیوں ابھی کچھ کہنا باقی ہے کیا؟
ہاں اور وقار نے اپنی پاکٹ میں سے ایک بلیک مخملی ڈبیا نکال کر اسکی جانب بڑھائ تھی۔۔
مہرماہ نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
اور جواب میں وقار نے شانے اچکائے تھے کہ خودی دیکھ لو۔۔
اور مہرماہ نے اسکے ہاتھ سے وہ ڈبیا پکڑ لی تھی اور اب وہ اسے کھول رہی تھی۔۔
اس کے اندر ایک نگ والی ڈایمنڈ رنگ اپنی پوری آب و تاب سے جگمگا رہی تھی۔۔
جسے دیکھ کر مہرماہ مسکرائ تھی۔۔
تو مسٹر وقار آپ کو یہ تو نہیں پتا کہ لڑکے محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں مگر یہ پتا تھا کہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے رنگ بھی دی جاتی ہے۔۔
اور وقار نے ہنستے ہوئے اپنا سر جھکا دیا تھا۔۔
اس لمحے مہرماہ کو اس پر بے تحاشہ پیار آیا تھا۔۔
بہت خوبصورت رنگ ہے۔۔
اور اب وقار یہ جواب سنتے ہی مہرماہ کے قدرے قریب ہوا تھا اور اسنے اسکا ہاتھ تھام کر رنگ پہنانے کے لئے اجازت چاہی تھی.. ?May I
اس پل مہرماہ کا دل چاہا تھا کہ وہ اپنا ہاتھ وقار کے ہاتھ میں تھام کر اسکے سینے سے لگ جائے۔۔اور شاید وہ ایسا کر بھی لیتی۔۔
لیکن پھر یک دم اسکے دماغ میں ایک بات بجلی کی طرح کوندی تھی۔۔
نا محرم۔۔
نا محرم۔۔
اور جب نا محرم مرد اور عورت اکیلے ہوتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔۔
اور اے ایمان والوں اپنی حدوں کو جان لو۔۔
تو وہ یہاں کیا کر رہی تھی۔۔
تو اسے اپنے نفس کو ہرانا تھا تو یہ اسکا پہلا امتحان تھا اسکی پہلی آزمائش۔۔
اسے سورہ العنکبوت کی آیت نمبر دو یاد آئ تھی۔۔
“کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انھیں آزمایا نہیں جائے گا۔۔”
اس سے پہلے کہ وقار اسکے مزید قریب آتا وہ ایک جھٹکے سے دور ہٹی تھی نہیںDont touch me..
دور رہو۔۔
اور وقار اپنی جگہ حیران سا کھڑا اس دھوپ چھاوں سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں میں اب نمی اتر آئ تھی۔۔
کیا ہوا مہرماہ۔۔
وقار تم ایک نا محرم ہو میرے لئے اور میرا دین ایک نا محرم مرد و عورت پر کچھ حدیں لگاتا ہے۔۔
اور میری حد زنا سے شروع نہیں ہوتی میری حد تو یہی سے شروع ہوتی ہے۔۔
وقار احمد آج کے بعد نکاح سے پہلے کبھی مجھے یوں تنہائ میں مت لانا۔۔
کیونکہ جب بھی ایک نا محرم مرد و عورت تنہا ہوں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔۔
تم جانتے ہو کیا۔۔
بعض لوگ سچائ کا پیغام مان تو لیتے ہیں مگر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائ ہوئ راہ پر نہیں چلتے۔۔
کبھی چل بھی پڑتے ہیں تو چند قدم چل کر پھر بیٹھ جاتے ہیں۔۔
کبھی نماز پڑھتے ہیں، کبھی نہیں پڑھتے۔۔
کبھی روزہ رکھتے ہیں ، کبھی نہیں رکھتے۔۔
کبھی سچ بولتے ہیں ، کبھی جھوٹ بولتے ہیں۔۔
مسلمان ہونے کا دعوا بھی کرتے ہیں اور دھوکا بھی دیتے ہیں۔۔
منافقت بھی کرتے ہیں ، سود بھی لیتے ہیں ، رشوت بھی لیتے ہیں اور عدالت کے کٹہرے میں جھوٹی گواہی بھی دیتے ہیں۔۔
یہ نفاق اور تذبذب کی وہ حالت ہے جو آج مسلمانوں کا سب سے بڑا روگ ہے۔۔
مگر سوال یہ ہے وقار کے اگر مجھے بھی یہی سب کرنا تھا تو پھر میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
نہیں وقار نہیں میں ایسی مسلمان نہیں بننا چاہتی۔۔
اور مجھے امید ہے تم میری بات کو سمجھتے ہوئے بہت جلد اپنے گھر والوں سے ہمارے نکاح کے لئے بات کرو گے۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ اپنی نم آنکھوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ وقار کو حیران پریشان سا چھوڑ کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہوئے وہاں سے مریم اور علی کے پاس چلی آئ تھی۔۔
وہ تو اپنے نفس کی جنگ جیت کر اپنا امتحان پورا کر کے اپنے رب کی آزمائش پر پوری اتر کر چلی گئ تھی۔۔
مگر وقار اس نے کیا کیا تھا تو کیا وہ بھی ویسا ہی مسلمان تھا جن کی طرف ابھی کچھ دیر پہلے وہ اشارہ کر کے گئ تھی۔۔
مہرماہ کے آتے ہی مریم اور علی اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔
مہرماہ وقار کہاں ہے۔۔مریم نے پوچھا تھا۔۔
وہ۔۔
آتا ہی ہو گا۔۔مہرماہ نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔۔
اور پھر انہیں وقار بھی اسی جانب آتا نظر آیا تھا اسے دیکھتے ہی مہرماہ نے اپنی نظریں چرا لی تھی۔۔
مگر وہ بالکل اسکے سامنے chair پر بیٹھ گیا تھا
مہرماہ تم یہ وہی چھوڑ آئ تھی۔۔وقار نے وہی رنگ جو کچھ دیر پہلے وہ اسے پہنانا چاہ رہا تھا اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
اور مہرماہ نے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
جس کے جواب میں وقار نے اسے کہا تھا پہن لو نا۔۔
اور مہرماہ نے مسکراتے ہوئے دائننگ ٹیبل پر رکھی وہ رنگ اپنے دودھیا ہاتھ کی ایک انگلی میں پہن لی تھی۔۔
اور اسکے پہنتے ہی مریم اور علی نے تالیاں بجانی شروع کر دی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار نے آج اس ارادے سے اماں جان کو کال کی تھی کہ وہ ان سے مہرماہ کے متعلق بات کریگا۔۔
مگر عارفہ بیگم اسکے منہ سے لڑکی کا لفظ سنتے ہی آگ بگولہ ہو گئ تھی۔۔
وقار اس کے آگے ایک لفظ بھی مت بولنا میں نے تمہیں لندن پڑھنے کے لئے جانے کی اجازت دی تھی یہودنوں اور عیسائیوں سے عشق لڑانے کے لئے نہیں۔۔
مگر اماں جان۔۔
بس وقار اگر مگر کچھ نہیں تمہاری شادی وہاں ہو گی جہاں میں چاہوں گی اور تمہارے لئے میں لڑکی پسند کر چکی ہوں اور ایک بات یاد رکھنا میں نے تمہاری ہر ضد مانی ہے مگر یہ نہیں۔۔
اور اگر تم نے کچھ بھی ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی تو تم۔۔
تم۔۔
میرا مرا وا منہ دیکھو گے آخر میں انہوں نے وہی روایتی تڑی لگا کر فون بند کر دیا تھا۔۔
فون بند کرتے ہی انہوں نے نائلہ کو بلا کر وقار سے بات کرنے پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی تھی کہ اب انکی شادی ہونے والی ہے کیونکہ انہیں ڈر تھا کے وقار نائلہ سے کوئ ایسی بات نا کر دے۔۔
یوں اپنے تئیں انہوں نے یہ بات ختم کر دی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وقار نے یہ ساری بات من و عن مریم کو سنا دی تھی۔۔
وہ یہ بات اس وقت مریم سے کرنے آیا تھا جب مہرماہ اپنے سکول گئ ہوئ تھی۔۔
اور اس بات کو سن کر مریم نے وقار پر ایسا انکشاف کیا تھا جسے سن کر وہ ششدر رہ گیا تھا۔۔
وقار میری کڈنی میں کینسر ہے اور میرے پاس زیادہ وقت نہیں بچا میں چاہتی ہوں کہ تم میرے مرنے سے پہلے مہرماہ سے نکاح کر لو تاکہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہوں تو اسکے پاس کوئ ایسا مضبوط رشتہ ہو جس کے کندھے پر سر رکھ کے وہ اپنے آبسو بہا سکے جس کے سینے میں چھپ کر رونے سے اسے سکون ملے میں جانتی ہوں وقار تم اسے سنمبھال لو گے پلیز اس سے نکاح کر لو۔۔
لیکن آپ نے اتنی بڑی بات مہرماہ سے کیوں چھپائ؟
میں اسے دکھ دینا نہیں چاہتی وقار۔۔
تو جب اسے یہ سب پتا چلے گا کیا تب وہ بہت خوش ہو گی؟
یہ سب اسے میرے مرنے کے بعد پتا چلے گا اور وہ سمجھ جائے گی۔۔
تو کیا وہ یہ بات اب نہیں سمجھ سکتی؟
میں نے کب کہا کہ وہ اب سمجھ نہیں سکتی یا سنبھل نہیں سکتی۔۔
مگر میں اسے دکھی نہیں دے سکتی۔۔
آپ کو کچھ نہیں ہو گا ہم کل ہی کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔۔
وقار اب کچھ نہیں ہو سکتا یہ زہر میرے پورے جسم میں پھیل چکا ہے۔۔
یہ سنتے ہی وقار کی آنکھوں میں نمی تیرنی لگے گی۔۔
ٹھیک ہے آپ جب کہیں گی میں مہرماہ سے نکاح کر لوں گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلہ مرحلہ مہرماہ کو سمجھانے کا تھا۔۔
مام آپ آخر کیوں اتنی جلدی میرا اور وقار کا نکاح کروانا چاہتی ہیں آپ کو پتا بھی ہے میرے گریجویشن کے(باہر کے ممالک میں گریجویشن تک کی پڑھائ سکول میں ہی ہوتی ہے )ایگزامز ہو رہے ہیں ۔۔
اور وقار کا بھی تو ایم۔بی۔اے کا لاسٹ سمسٹر چل رہا ہے ویسے بھی اسکی اماں جان بھی تو نہیں مانیں نا ابھی میں ایسے کیسے اس سے نکاح کر لوں اس سے۔۔
اب مریم نے مہرماہ کو اپنے قریب بٹھا لیا تھا۔۔
مہرماہ تمہیں مجھ پر بھروسہ ہے نا؟
مام آپ کو پتا ہے نا میں دل سے آپ کو ماں مانتی ہوں ۔۔
تو پھر میری بات مانو۔۔وقار سے نکاح کر لو۔۔
ٹھیک ہے بس جو آپکا دل چاہے وہ کر دیں۔۔
اور مریم نے اسکی اس ہاں پر سکھ کا سانس لیا تھا۔۔
یوں وقار اور مہرماہ کا نکاح اسی اسلامک سنٹر میں ہوا تھا جہاں مہرماہ نے اسلام قبول کیا تھا۔۔
وقار کو تو جیسے ہر خوشی مل گئی تھی بھلا اس نے کب سوچا تھا کے ایک دن یوں مہرماہ اسکی ہو جائے گی۔۔
اور یوں وہ وقار کی مہر بن گئ تھی۔۔
وقار کے لاسٹ سمسٹر کے پیپرز چل رہے تھے جبکہ مہرماہ کے پیپرز ختم ہو چکے تھے۔۔
اور ان دونوں کے نکاح کو ابھی صرف دس دن ہی گزرے تھے جب اچانک مریم کی طبعیت شدید خراب ہو گئ۔۔
مہرماہ نے روتے ہوئے وقار کو کال کی تو وہ فورن وہان پنہچ گیا تب تک ایمبولینس آ چکی تھی وقار اور مہرماہ دونوں ہی اسکے ساتھ ایمبولنس میں بیٹھے تھے۔۔
اور علی بھی direct ہاسپٹل پنہچ گیا تھا۔۔
مہرماہ ہاسپٹل میں رکھی گئ chairs پر وقار کے ساتھ سہمی سہمی سی بیٹھی تھی جب ڈاکٹر ایمرجینسی روم سے باہر آئ۔۔
we are really sorry but she is no more..
اور مہرماہ کی آنکھوں میں کب سے رکے آنسو اپنے تمام بندھ توڑ کر سیلاب کی مانند اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔۔
وقار نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا تھا۔۔
ایسا۔۔
ایسا کیسے ہو گیا وقار۔۔
وہ۔۔
وہ۔۔
مام۔۔
وہ تو بالکل ٹھیک تھیں نا۔۔
صبر کرو مہرماہ صبر۔۔
یہ کہتے ہوئے وقار نے اسے بھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔۔
وہ اسکے دکھ کا اندازہ کر سکتا تھا۔۔
اسکا مریم کے سوا اس دنیا میں سگے ماں باپ اور بہنوں کی موجودگی میں بھی کوئ نا تھا۔۔
اور مہرماہ نے زیر لب وقار کا کہا گیا لفظ دہرایا تھا۔۔
صبر ۔۔
تو اس بار اس نے میری ازمائش کے لئے صبر کو چنا ہے۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...