میں دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا
صبح آٹھ بجے ناشتہ کر کے باہر نکلے تو ہمارا سامان بس میں رکھاجا چکا تھا ۔فشر بس کے پاس کھڑا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ بقیہ گروپ کے برعکس وہ ہشاش بشاش نظر آرہا تھا کیونکہ اس نے نیند پوری کی ہوئی تھی۔ گروپ کے باقی سیاح اونگھتے محسوس ہو رہے تھے۔ آج ہمارا یورپ کا مشترکہ سفر اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ دو ہفتوں پر محیط اس لمبے سفر سے اکثر سیاح اکتا سے گئے تھے۔ مسلسل سفر کی وجہ سے سب پرتھکن غالب آ چکی تھی۔ سب سے زیادہ مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب بادلِ نخواستہ صبح سویرے اٹھ کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہونا پڑتا تھا۔ اگر ہمار ابس چلتا تو دس گیارہ بجے سے پہلے ہرگز نہ روانہ ہوتے لیکن ٹریفالگر کا اپنا ٹائم ٹیبل تھا۔ مولی اور فشر کو اس ٹائم ٹیبل پر عمل کرنا پڑتا تھا۔ گروپ میں سفر کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں اس کا یہ نقصان ہے کہ گروپ کے ٹائم ٹیبل اور روٹ سے ہٹ کر اپنی صوابدید پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ایک شہر میں دو یا زیادہ دن قیام ہو تو درمیانی دنوں میں ہمیں آزادانہ تفریح اور سیر و سیاحت کا موقع دیا جا تا تھا۔ جس دن ایک شہر سے دوسرے شہر روانگی ہو اس دن صبح کے آٹھ بجے روانہ ہونا پڑتا تھا جو ہمیں بہت گراں گزرتا تھا۔
اس دن ایمسٹرڈم سے لندن واپسی کے لئے بھی ہم آٹھ بجے کوچ میں سوار ہوئے۔چند منٹوں بعد ہماری کوچ ایمسٹرڈم کی مصروف سڑکوں پر دوڑ ی چلی جا رہی تھی ۔ صبح کا مصروف وقت تھا۔ لو گ کام کاج پر جا رہے تھے۔ اس لئے سڑک، فٹ پاتھ اور دریا سبھی مصروف تھے۔ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ سائیکلوں کا جیسے سیلاب رواں دواں تھا۔ دو نوںجانب رنگ برنگی سائیکلوں پر مرد اور عورتیں آتے جاتے نظر آرہے تھے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں گرمیوں کے اس موسم میں رنگ برنگی نیکریں اور ٹی شرٹیں پہنے ہنستے بولتے سائیکلوں پر سکولوں اور کالجوں میں جارہے تھے۔ نہروں میں کشتیاں بھی حسبِ معمول مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے میں مصروف تھیں ۔ سڑک پر ٹریفک کا خاصا دبائو تھا۔اس کے باوجود ہارن بجانے کا شور یا ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کا مظاہرہ کہیں نظر نہیں آتا تھا۔
ٹریفک کے قانون کی پابندی تو خیر پورے یورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا میں اسی طرح ہوتی ہے۔ سڑکیں چاہے کتنی ہی مصروف ہوں، سگنل توڑنے، اوو ر سپیڈنگ کرنے، ہارن بجانے یا دوسرے ڈرائیوروں سے تلخ و ترش مکالموں کے تبادلے کا مظاہرہ یہاں آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا ۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ ان قواعد کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔ اگر ان کو موقع ملے تو وہ ہرگز نہیں ہچکچاتے ۔ ان ملکوں میں قوانین پر عملدرآمد کرانے والے ادارے اس طر یقے سے کام کرتے ہیں کہ قانون توڑنے والے ان کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتے ۔ غلط پارکنگ ہو یا اوورسپیڈنگ، لاپرواہ ڈرائیونگ یا ٹریفک سگنل کو توڑنا ،یہ سب ناقابلِ معافی جرم ہیں۔ پولیس بلا تخصیص ان لوگوں کو پکڑتی ہے۔ جرمانے کے ساتھ ساتھ سنگین غلطی کی صورت میںلائسنس ہی منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ان ممالک میں جہاں ہر شخص آسانی سے گاڑی خرید اور رکھ سکتا ہے، ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لہذا لوگ قانون سے ڈرتے اور اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ جس سے معاشرہ بحیثیت مجموعی سہل، منظم اور رواں دواں زندگی گزراتا ہے۔
ایمسٹرڈم سے لندن واپسی کا ہمارا روٹ مختلف تھا۔ جاتے ہوئے ہم فرانس ، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی سے ہو کر ہالینڈ پہنچے تھے۔ جبکہ واپسی کا راستہ مختصر تھا ۔اس دفعہ ہم ایمسٹرڈم سے بلجئیم کے راستے فرانس کے ساحلی شہر Calais پہنچنے والے تھے۔ جہاں سیہمیںبحری جہاز کے ذریعے انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ کے ساحل پر اُترنا تھا۔ آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہم ایمسٹرڈم کی شہری حدود سے نکل کر دیہی علاقے میں محوِ سفر تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ایمسٹرڈم سڈنی یا ملبورن کی طرح وسیع و عریض شہر نہیں ہے۔ سڈنی شہر کے مرکز سے نکل کر میٹروپولیٹن حدود پار کر نے کے لئے کسی بھی سمت میںایک گھنٹے سے کم کا سفر نہیں ہے۔ اگر مصروف اوقات کار ہوں تو کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایمسٹرڈم شہر زیادہ پھیلا ہوا نہیں ہے۔
ایمسٹرڈم شہر تو ایک طرف، پورا ہالینڈ ہم نے صرف دو گھنٹے میں پار کر لیا اور بلجیم کی حدود میں داخل ہو گئے۔ ہالینڈ اور بلجیم کے بارڈر پر کوئی عملہ نظر نہیں آیا اور نہ ہماری کوچ وہاں رُکی۔ صرف مولی کے بتانے پر ہمیں علم ہو ا کہ یہاں سے بلجیم شروع ہو گیا ہے۔ بلجیم کے جس علاقے سے ہم گزر رہے تھے وہ جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ کے برعکس میدانی تھا۔ اس میں پہاڑ یا سطح مرتفع کم ہی نظر آئی۔ دور دور تک سرسبز و شاداب کھیت پھیلیہوئے تھے۔ جس میں کہیں کہیں کسان کام کر رہے تھے ۔ ایمسٹرڈم کے باہر ڈچ علاقے میں اور یہاں بلجیم میں جگہ جگہ پن چکیاں نظر آئیں۔ جن کے پنکھے ہوا میں ہلکے ہلکے چل رہے تھے۔ گرمیوں کے اس موسم میں کھیتوں میںٹیولپ کے پھولوں کے بہار آئی ہوئی تھی۔ حدِ نظر تک ٹیولپ کے یہ پھول قطار در قطار سراٹھائے جیسے ہمیں خدا حافظ کہہ رہے تھے۔
بلجیم کے اس میدانی علاقے میں نہروں اور نالیوں کا جال سا بچھا ہوا ہے۔ یہ پانی فصلوں کی جان ہے۔ ان کھیتوں میں اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی اتنی مقدار پیدا ہوتی ہے کہ و ہ نہ صرف بلجیم کی اپنی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہے۔ مولی نے بتایا کہ نہروں اور نالیوں کا یہ پانی صرف گرمیوں میں ہی کھیتوں تک پہنچ پاتا ہے۔ کیونکہ سردیوں میں یہ جم کر برف بن جاتا ہے ۔ میں سوچ رہاتھا کہ پاکستان کو قدرت نے ایسا موسم عطا کیا ہے کہ سردیوں گرمیوں میں پانی کی روانی متاثر نہیں ہوتی لیکن ہمارے دریاوٗں کا پانی بغیر استعمال کے یا تو بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے یا کچی نہروں اور کچے نالوں میں جذب ہو کرضائع ہوجاتا ہے۔ ہمارے کھیتوں اور باغوں تک بہت کم پہنچ پاتا ہے۔ اگر ایسا موسم ان یورپی اقوام کو ملے تو ان کے کھیتوں کی پیداوار جو پہلے ہی بے شمار ہے، مزید کئی گنا بڑھ جائے۔
قدرت نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن ان کے استعمال کا دراومدار ہمارے اوپر ہے۔ قدرت نے ہمیں دریا، پہاڑ، سونا اگلنے والی زمین، زمین کی تہوں میں چھپے معدنیات کے خزانے، ساحل، سمندر ،جنگلات ، پہاڑوں سے پگھلنے والی برف کا پانی ، جفاکش اور محنتی لوگ، زرخیز ذہن والے سائنسدان، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے جانباز سپاہی، بے شمار افرادی قوت، مقامی خام مال ،بین الاقوامی تجارت کے لئے بہترین محل وقوع، ہزاروں ایکڑ پر پھیلے زرخیز میدان، ندی نالے، صحرا، چاروں موسم اور نہ جانے کن کن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ان نعمتوں سے استفادہ کرنا اور انہیں مناسب انداز میں استعمال کرنا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اس کا ہر فرد خوشحال ہو سکتا ہے۔
ہالینڈ کے دارلخلافہ ایمسٹرڈم سے روانہ ہوئے تو خلافِ معمول جولی میرے برابر والی سیٹ پر نہیں بیٹھی۔ ہمارے پیچھے والی سیٹ پر ڈاکٹر رمیش کے دونوں بیٹے بیٹھتے آرہے تھے۔ ان کی عمریں بالترتیب دس اور سات سال تھیں۔ دونوں بہت شرارتی تھے۔سارے سفر میں دونوںشرارتوں اور خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے۔ کبھی کبھار میں اور جولی بھی ان کے ساتھ شغل کرنے لگتے۔ وہ بلا جھجک ہمارے ساتھ شرارتیں کرتے ، ہنستے اور اپنی عمر کے مطابق ہر چھوٹی بڑی بات سے لطف اندوز ہوتے ۔ آج ان میں سے چھوٹا لڑکا میرے ساتھ بیٹھا تھا اور جولی اس کے بڑے بھائی کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔وہ خلافِ معمول کچھ خاموش خاموش سی تھی۔ سیٹ تبدیل کرنا ایسی بات نہیں تھی جو زیادہ قابل توجہ ہولیکن آج جولی کا رویہ کچھ سر د سا تھا۔حالانکہ صرف ایک دن پہلے میں نے اُسے سمجھایا تھاتو ایسا لگا تھا کہ اُسے سمجھ آ گئی ہے۔ اُسے میرا مولی کے ساتھ ملنا جلنا زیادہ نہیں بھایا تھا ۔ کل کی گفتگو کے بعد میرے خیال میں وہ مسئلہ ختم ہو گیا تھا۔ مگر آج جولی کا بدلا ہوا موڈ کہہ رہا تھا کہ ابھی تک مطلع مکمل صاف نہیں ہوا ہے۔ کسی بھی وقت گھن گرج شروع ہو سکتی ہے۔ اب بھی اس کے دل میں کوئی پھانس باقی تھی۔
میں نہیں چاہتا تھا کہ اس خوشگوار سفر کا اختتام کسی کی دلآزاری کے ساتھ ہو۔ بلجیم کی سرحد سے تھوڑا ساپہلے ہماری کوچ ایک کیفے کے سامنے رُکی۔ سیاح حسبِ معمول اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ کوئی ٹوائلٹ کی طرف چلا گیا ۔کو ئی کیفے سے کافی اور اسنیکس لے کر باہر رکھی کرسیوں پر جا بیٹھا۔ کچھ اِدھر اُدھر چہل قدمی کر کے ٹانگیں سیدھی کرنے لگے۔ میں کیفے سے کافی کے دو کپ لے آیا ۔ ایک میز پر کافی رکھی۔ جولی واش رُوم سے نکلی تومیرے اشارے پر وہیں چلی آئی۔ میں نے اس کے آگے کافی کا کپ رکھا تو بولی’’ اس کی کیا ضرورت تھی، مجھے اس کی طلب نہیں تھی‘‘
میں نے کہا’’ تم نے مولی کی بات نہیں سنی تھی۔ اس نے کہا ہے کہ ہالینڈ کے سکے یہیں خرچ کر لیں، بعد میں ان کے استعمال کا موقع نہیں ملے گا۔ میرے پاس جو سکے بچے تھے، ان کی کافی لے آیا۔ تم نے آج منہ کیوں پھلایا ہوا ہے۔ اب کیا ہوا ہے ؟ ‘‘
’’ایسی تو کوئی بات نہیں‘‘
میں نے کہا’’ باتھ روم میں لگے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے۔اِس پر تمھاری ناراضگی کا اشتہار لگا ہوا ہے۔ اب کس بات پر ناراض ہو؟‘‘
جولی نے کہا’’ مجھے ناراض ہونے کا کیا حق ہے۔ میں کس رشتے سے اپنی ناراضگی ظاہر کر سکتی ہوں‘‘
’’جولی!ایسی بات نہیں کر و۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں۔ ہم نے اکھٹے بہت اچھا وقت گزارا ہے۔ اب جدا ہونے کے وقت ان خوشگوار لمحوں پر تلخیوں کا سایہ تو نہ ڈا لو۔ ہمیں ہنستے کھیلتے رخصت ہونا چاہیے اور اچھی یادوں کو ساتھ لے کر جانا چاہیے‘‘
جولی کا سر جھکا ہوا تھا ۔اس نے سر اٹھایا تو اس کی خوبصورت آنکھوں میں موتی سے جھلملا رہے تھے ۔ ہمارے ارد گرد ہمارے ساتھی سیاح بکھرے ہوئے تھے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ان میں سے کوئی جولی کے آنسو دیکھے۔ اس لئے جولی سے کہا ’’جولی ! اپنے آپ کو سنھالو۔ بتائو تو سہی اب کیا ہوا ہے؟ ‘‘
’’ تم تو جیسے جانتے ہی نہیں کہ کیا ہو ا ہے !تم کہہ رہے ہو کہ ہم اچھے دوست ہیں لیکن سفر کی اس آخری رات تمھارے کمرے میں کون تھا‘‘
’’ اوہ! ‘‘میں نے جولی کی ناراضگی کی وجہ جانتے ہوئے کہا’’ جولی ! اس مسئلے پر کل تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں تو تم سمجھ گئی تھیں۔ ہم دوست ہیں لیکن ہمارے درمیان ایسا کوئی معاہدہ، کوئی وعدہ اور کوئی ایسا قانونی اور اخلاقی بندھن نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم دونوں میں سے کسی پر کوئی پابندی ہو۔ اس دوستی کے باوجود ہم عارضی ساتھی تھے اور آج الگ ہو جائیں گے۔ ایسے میں اس طرح کی پابندی لگانا یا خواہ مخواہ ناراضگی کا اظہار کرنا مناسب نہیں ہے۔ آخر تمھیں یہ بات سمجھ میں کیوںنہیں آتی‘‘
’’ میں تو سمجھتی ہوں لیکن تم مجھے نہیں سمجھے۔مجھے بھی معلوم ہے آج ہم الگ ہو جائیں گے۔ میں تو آسٹریلیا واپس جانے کے لئے بھی تیار ہوں لیکن تم نے مجھے ایک دفعہ بھی ایسا نہیں کہا۔ تمھارے دل پر اس جدائی کا ذرہ بھی ا ثر نہیں ہے۔ میں اس بات پر حیران ہوں‘‘
’’ جولی! تم بہت جذباتی ہو رہی ہو اور یہی تمھاری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ زندگی کے مسائل اتنے جذباتی انداز میں اور جلد بازی میں حل نہیں ہوتے۔ تم میرے بارے میں کیا اور کتنا جانتی ہو۔ سفر میں اس طرح کے فیصلے کرلینا اور ان کے لئے جذباتی ہوجانا غلط ہے۔ تمھیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘
’’تم صحیح کہہ رہے ہو ۔میں جذباتی ہوں لیکن یہ میرا مزاج ہے۔ میں اسے کیسے بدلوں۔ بہرحال تمھیں میرے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اچھا چلو! بس میں بیٹھتے ہیں،باقی باتیں وہی ہوں گے یا پھر فیری میں بیٹھ کر تسلی سے بات کر سکیں گے‘‘
اس دفعہ جولی سیدھی میرے ساتھ آکر بیٹھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس پر نیند غالب آنے لگی اور وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر سو گئی۔ جولی کا نرم و نازک جسم سوتے میں بھی ہلکے ہلکے کانپ رہا تھا اور گھنی پلکوں کے نیچے نمی سی چمک رہی تھی۔ وہ کبھی سو جاتی، کبھی اُٹھ جاتی اور کبھی ویسے ہی آنکھیں بند کر کے سر میرے کاندھے پر رکھ دیتی۔
پھر وضع احتیاط سے دُھندلا گئی نظر
پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
میں نے بھی اس خاموشی کو غنیمت جانا اور زیادہ بات کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ البتہ مولی جب بھی میرے پاس سے گزرتی،ا س کی سانسوں میں پھنکار سی محسوس ہوتی ۔ لیکن مولی کو اپنے جذبات پر کنڑول تھا ۔اس سے مجھے کسی نادانی کی توقع نہیں تھی۔ ویسے بھی گائیڈ کی حیثیت سے وہ کسی غلط حرکت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اپنے جذبات ظاہرکرنا اس کے لئے مناسب نہیں تھا۔ تا ہم اس کے چہرے پر ناگواری کی تحریر صاف پڑھی جا سکتی تھی۔
ایک دفعہ پھر ہماری کوچ ایک جگہ رکی ۔ یہ بلجیم کا دیہی علاقہ تھا جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ایک خوبصورت کیفے میں سیاحوں نے کھانا یا کافی وغیرہ لی اور اپنے اپنے انداز میں اس وقفے کا استعمال کرنے لگے۔ میںجان کے پاس چلا آیا۔ جی ہاں وہی جان جس نے اپنی زندگی میں پانچ سو اکیس عورتوں سے تعلقات قائم کر کے ریکارڈ قائم کیا ہوا تھا۔ وہ اورنج جوس اور سینڈوچ سے پیٹ پوجا کر رہا تھا۔ میں نے کہا ’’ جان ! تمھارے اوپر میرا کچھ قرض باقی ہے۔آج آخری دن اسے لوٹائو گے نہیں؟‘‘
کہنے لگا’’ مجھے معلوم ہے ۔ بلکہ میں حیران تھا کہ پرتجسّس طبیعت کے باوجود اس سوال کا جواب تم نے پہلے کیوں نہیں مانگا۔ویسے اس جواب سے تمھارا کوئی بھلا نہیں ہوگا ۔ بلکہ تمھارے اس سفر کا مزہ کرکرا ہو سکتا ہے‘‘
’’ جان میں جانتا ہوں کہ زندگی صرف ہنستے پھولوں کا نام نہیں ، اس میں جا بجا کانٹے بھی ہیں۔ میری فکر نہیں کرو ۔ ہاں البتہ تمھیں اگر کوئی پرابلم نہ ہو تو آج میرے سوال کا جواب دے دو‘‘
’’ پھر پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ میں پوچھنایہ چاہتا ہوں کہ بظاہر تمھیں وہ سب کچھ حاصل ہے جس کی خواہش ایک انسان کر سکتا ہے۔ تمھارے پاس عقل، تعلیم ، سمارٹ جسم، روپیہ، دولت ، اچھی جاب، اچھا گھر سبھی کچھ ہے۔ اب تم دنیا کی سیر پر بھی نکلے ہوئے ہو۔ان سب کے باوجود مجھے علم ہے کہ تم خوش نہیں ہو ۔کیا مجھے اس کی وجہ بتا سکتے ہو۔لگے ہاتھوں یہ بھی بتادو کہ تم شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
’’ طارق تم نے وہ سوا ل کیا ہے جس سے میں رات دن بچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اسی بات کی وجہ سے میں اکثر سو بھی نہیں سکتا۔ پوری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔ میں سولی پر لٹکنے والے اس قیدی کی طرح ہوںجسے اپنی موت کا دن اور وقت پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کی زندگی برف کے گولے کی طرح پگھل رہی ہوتی ہے۔ اسے علم ہوتا ہے کہ فلاں دن یہ برف پگھل کر پانی بن کر بہہ جائے گی اور اس کا وجود اس دنیا سے اس طرح مٹ جائے گا کہ اس کا کوئی نام لینے والا بھی باقی نہیں رہے گا۔اسے اپنے سارے خواب ،مستقبل کی ساری سوچیں اور امیدیں بکھرتی نظر آ رہی ہوتی ہیں۔یہ احساس اسے تڑپاتا رہتا ہے کہ وہ اس رنگ و بو سے بھری دنیا سے منہ موڑ کر منوں مٹی تلے دفن ہو نے جا رہا ہے۔اندھیری قبر کا منظر بار بار اُس کی آنکھوں کے سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ خوبصورت دنیا اوراس کی ساری رونقیں چند دنوں میں اس سے چھن جانی ہیں۔یہ احساس اتنا زہریلا ، اتنا کڑوا اور اتنا کریہہ الصورت ہے کہ اسے سوچ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میری حالت موت کے اس قیدی سے بھی زیادہ بد تر ہے۔ کیونکہ ان قیدیوں نے تو کوئی جرم کیا ہوتا ہے جس کی انہیں سزا ملی ہوتی ہے۔لیکن مجھے بغیر کسی جرم کے سزا ئے موت مل رہی ہے۔ اس کا وقت طے کر کے مجھے بتا دیا گیا ہے تاکہ میں رات دن اس سولی پر لٹکتا رہوں۔ ڈاکٹروں نے بتا دیا ہے کہ مجھے بلڈ کینسر ہے۔ میں دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہاں میرے پاس بہت پیسہ ہے، بہت دولت ہے، خوبصورت جسم ہے،اچھی نوکری ہے، اچھا گھر ہے، اچھی گاڑی ہے اور بیش قیمت لباس ہیں۔ لیکن ان سب کا کیا فائدہ؟ جب کل یہ سب کچھ چھوڑ کر مجھے چلے جانا ہے۔ میرا تو کوئی آگے پیچھے بھی نہیں۔ کوئی ایسا بھی نہیں جو میری قبر پر دو پھول چڑھا سکے۔ کوئی ایسا نہیں جو میری موت پر دو آنسو بہا سکے۔ میں نے اپنی تدفین کے لئے ایک فیو نرل کمپنی ( معاوضہ لے کر تجہیز وتکفین کا بندوبست کرنے والا ادارہ)کو پیشگی فیس ادا کر دی ہے۔ وہ میری لاش تو دفنا دیں گے ۔ اس کے بعد اس قبر پر کبھی کوئی نہیں جائے گا۔ میری ساری دولت یہیں رہ جائے گی اور یہ خوبصورت جسم اگلے دو سال میں کیڑوں کی نذر ہو جائے گا ‘‘
جان کی داستانِ الم سن کر میں کافی دیر تک سکتے کی سی کیفیت میں رہا ۔ میرے پاس کہنے کے لئے کچھ تھا بھی نہیں۔ اب بھی صرف یہی کہوں گا کہ ہنستے چہر وں کو دیکھ کر ہمیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو نا چائیے۔اس لئے کہ ہر ہنسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی آہ بھی چھپیہوتی ہے۔
ہر دل میں ہیں حسرتوں کے مدفن بنے ہوئے
ہر شخص آپ اپنی اُمیدوں کی لاش ہے
کچھ کھا یا نہ پیا ،آدھا مال گنوایا
ہالینڈ ، بلجیم اور پھر فرانس کی سرزمین پر ہماری کوچ دوڑتی جا رہی تھی۔ قدرتی حسن کے نظارے ہر طرفبکھرے ہوئے تھے۔ زمین حدِ نگاہ تک سبزے کی چادر میں لپٹی تھی۔ اکثر مقامات پر سبزے کی اس چادر پر رنگ برنگے پھولوں کے زیور سجے دکھائی دے جاتے تھے۔ یورپ کے یہ مر غزار سبزے اور رنگین پھولوں سے دلہن کی طرح سجے ، انتہائی صاف شفاف اور دیدہ زیب نظاروں سے عبارت ہیں۔ ان علاقوں کو قدرت نے دل کھول کر نوازاہے۔ یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ سبزہ، درخت، پھل ، پھول، پہاڑ ، دریا، وافر بارشیں اور زمیں کی تہوں میں چھپی معدنیات۔میں نے کچھ عرصہ گلف میں بھی گزارا ہے۔جب ہم ایک طرف یورپ کے ان رنگین نظاروں کے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف عرب کے ان سوکھے صحرائوں کا خیال آتا ہے تو پھراقبالؔ کے اس شعر کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
جب ہم فرانس کے ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے تو راستے میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔ہلکی پھوار والی یہ بارش ان لہلہاتے کھیتوں کو چومتی اور رنگین گلوں کے گلے لگتی دکھائی دیتی تھی۔ کبھی تو یہ ایسے برسنا شروع ہو جاتی کہ دور دور تک آسمان بادلوں سے ڈھکا نظر آتا۔ تھوڑی ہی دیر میں نہ صرف بارش رک جاتی بلکہ آسمان کی نیلی چادر صاف نظر آنے لگتی۔ Callis پہنچنے تک یہ آنکھ مچولی جاری رہی۔ٹریفک کا دبائو زیادہ نہیں تھا۔ فشر مخصوص رفتار سے کوچ کو بھگاتا چلا جارہا تھا۔ اس دوران مولی کبھی تو اردگرد کے علاقوں کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت پر لیکچر دینے لگ جاتی۔ جب تھک جاتی تو ہلکے سروں والی موسیقی لگا دیتی ۔ کبھی کبھی لطیفوں والی کیسٹ لگا کر سیاحوں کو ہنسانے کی کوشش کرتی۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر سیاح گزشتہ رات بہت کم سو سکے تھے۔ اس کے باوجود ایک آدھ کو چھوڑ کر سبھی اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آپس میں خوش گپیاں کر رہے تھے۔ فون نمبراور خط و کتابت کیلئے پتوں کے تبادلے ہو رہے تھے۔
گویا سفر میں پروان چڑھنے والی دوستیوں کو دوام دینے کی کوششیںکی جارہی تھیں۔ میں نے بھی کچھ دوستوںکے فون نمبرز اور ایڈریس لئے اور کچھ کو اپنا فون نمبر دیا۔ ان چند دنوں میں ہم ایک برا دری کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ما سوائے چند ایک سیاحوں کے جو شروع سے لے کر آخر تک جدا جدا سے رہے۔ جسٹن اور جوزی بلا شبہ ہمارے گروپ کا سب سے ہر دلعزیز جوڑا تھا ۔انہوں نے سڈنی کے تمام ساتھیوں کو اگلے اتواربلیک ٹاوٗن میں واقع اپنی رہائش گا ہ میں مدعو کر لیا۔ میں نے شکرئیے کے ساتھ ان سے معذرت کر لی کیونکہ میرا پروگرام ایک ہفتہ پاکستان میں رکنے کا تھا ۔تا ہم میں نے ان سے وعدہ کیا کہ سڈنی پہنچنیکے بعد ان سے رابطہ کروں گا ۔ جسٹن اور جوزی سے تادمِ تحریر میرا رابطہ ہے۔ فون پر اکثر گپ شپ ہوتی رہتی ہے۔ وہ اب بھی ویسے ہی خوش اخلاق ، ملنسار اور خوش باش ہیں۔ ان کے پاس بیٹھ کر کوئی شخص بور نہیں ہو سکتا ۔ ان میاں بیوی کو میں نے کبھی سنجیدہ نہیں دیکھا۔ ہر حال میںخوش رہنے والے اور ہر کام کے مثبت پہلو پر نظر رکھنے والے ایسے لوگ کم ہی ملیں گے۔
ہم آٹھ بجے صبح ایمسٹرڈم سے روانہ ہوئے تھے۔ ہالینڈ، بلجیم اور پھر فرانس کے علاقوں سے گزر کر دوپہر پونے ایک بجے ہمCalais پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم اپنی دیو ہیکل کوچ سمیت فیری میں سوار ہوئے اور ایک بج کر پچیس منٹ تک انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ کے علاقے ڈوورDover) (میں جا اُترے۔ اس طرح صرف چار پانچ گھنٹوں میں ہم چار ملکوں میں سے گزرے۔ یورپ کے یہ ممالک ایک دوسرے سے اتنے قریب واقع ہیںکہ یقین نہیں ہوتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کی زبان تک نہیں سمجھ سکتے۔ ان کی تہذیب و تمدن، زبان، لباس، خوراک اور ٹریفک کے قواعد سب مختلف ہیں۔
فرانس سے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ہمارے پاسپورٹ باقاعدگی سے چیک ہوئے۔ دوسرے کنارے پر برطانوی امیگریشن نے ان پاسپورٹوں کو دوبارہ اور بہت زیادہ باریک بینی سے چیک کیا۔ ویزے کی مہر لگائی اور برطانیہ میں داخلے کی اجازت دے دی ۔مولی نے بتایا ’’ برطانوی امیگریشن اس معاملے میں کافی سخت واقع ہوئی ہے ۔ اگر کسی سیاح کے سفری کاغذات درست نہ ہوں تو اسے برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ بلکہ اسے اسی جہاز سے واپس کر دیا جاتا ہے اور اس کے سفر کا خرچ حکومت فرانس کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے حکومتِ فرانس ان کاغذات کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرتی ہے اور پھر مسافروں کو جہاز میں سوار ہونے دیتی ہے۔ فرانس اور برطانیہ کے درمیان اس چینل کے دونوں کناروں سے ہر آدھے گھنٹے بعد ایک فیری روانہ ہوتی ہے۔ یہ فیری بھی کیا بلا ہوتی ہے۔ بے شمار کاریں، بڑی بڑی بسیں، ٹرک اور بے شمار لوگ اس میں یوں سماجاتے ہیں جیسے کہانیوں والے اژدہے کے پیٹ میں پورے پورے شہر سما جاتے تھے۔ فیری پر بھی ایک شہر آبادہوتا ہے۔
فیری کے اندر اپنی کوچ سے ا ُتر کر ہم نے وہ فلور نمبر نوٹ کیا جہاں ہماری کوچ پارک تھی تا کہ واپسی میں اسے آسانی سے ڈھونڈ سکیں۔ اس کے بعد سیاح جہاز پر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ جہاز پر مختلف کیفے ، ریستوران، بار، ڈسکو، منی چینجرز، جوا ء خانے، سوئمنگ پول اور تفریح کی ساری سہولیات میسر تھیں۔ مسافر کسی کیبن یا ہال کے اندر بیٹھ کر کھانے پینے سے لطف اندو ز ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو ڈیک پر بیٹھ کر خورد و نوش کے ساتھ سمندر کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ جولی میرے ساتھ تھی۔ میں منی چینجرزMoney Changers) (میں گیا۔ انہیں فرانس ، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کی بچی ہوئی کرنسی دی اور کہا ’’ اسے برطانوی کرنسی میں تبدیل کر دیں‘‘
یورپ کے سفر میں ان دنوں کرنسی تبدیل کرنے کی فیس کی مد میں اچھی خاصی رقم ضائع ہوجاتی تھی۔ اگر ایک سو برطانوی پونڈ کو یکے بعد دیگریچار پانچ ملکوں میں جا کر مقامی کرنسی میں تبدیل کراتے رہیں تو بالآخر آپ کے ہاتھ میں پچاس پونڈ ہی بچیں گے۔ گویا کچھ کھا یا نہ پیا آدھا مال گنوا یا۔ اس طرح بار بار تبدیلی کے عمل سے گزر کر آپ کی رقم آدھی ر ہ جاتی ہے۔ بقیہ رقم کرنسی تبدیل کرنے والوں کے کمیشن کی شکل میں ان کی جیبوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔اب ان ملکوں نے مشترکہ کرنسی یعنی یورو رائج کر دی ہے جس سے یقیناً سیاحوں کو بہت فائدہ ہوتا ہوگا۔ کرنسی تبدیل کرنے کے بعد ہم ایک کیفے میں گئے۔ کھانا خریدا اور ڈیک پر آکر نرم نرم دھوپ کے مزے لینے لگے ۔
جولی اب کافی سنبھل چکی تھی۔ تاہم تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مستقبل کا خیال سوالیہ نشان کی طرح اس کے سامنے آ کرکھڑا ہو جاتا تھا۔ کئیمرتبہ اس نے مجھ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اسے برطانیہ میں رہنا چاہیے یا آسٹریلیا واپس چلے جانا چاہیے۔ میں نے کسی سوال کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا اور فیصلہ اس کی صوابدید چھوڑدیا۔میں حیران ہوتاتھا اس نرم و نازک لڑکی پر ، جو اتنی جذباتی اور قوت فیصلہ سے اتنی عاری تھی۔اب تک کی بیس پچیس سالہ زندگی میں کتنے ہی تلخ تجربوں سے گزر چکی تھی۔ لیکن ابھی بھی اس نے کچھ زیادہ نہیں سیکھا تھا۔ جذباتی اتنی تھی کہ بلا سوچے سمجھے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میںجا بسی ۔ اب برطانیہ میں ا س کے لئے کچھ نہیں بچا تھالیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیاکرے۔ والدین اور عزیز و اقارب کے ہوتے ہوئے بے سہارا تھی۔ جوان اور انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود اب تک کسی اچھے ساتھی سے محروم تھی۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود اچھی ملازمت سے محروم تھی۔ گویا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ محروم اور تنہا تھی ۔ پاکستانی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو بے سہارا تھی۔
آج آخری دن بھی کبھی تو اُداسی اس کے چہرے پر ڈیرہ ڈال لیتی اور کبھی ایسے محسوس ہوتا کہ اسے کوئی غم نہیں ،کوئی پرواہ نہیں۔ وہ ہنستی تو ہنستی چلی جاتی۔ لوگوں کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتی ۔ اس کے قہقے لوگوں کو ہماری طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھوں میں موتی سے چمکتے دکھائی دینے لگتے۔ یکایک وہ اُٹھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی ’’میرے ساتھ آوٗ‘‘
جوا ء خانے میں جا کر اس نے پوکر مشین میں دس پونڈ کا نوٹ ڈالا۔ ایک ایک پونڈ کی شرط کا بٹن دبانے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دس پونڈ مشین کی نذر ہوگئے۔ اس نے کمر سے بندھے اپنے بٹوے سے مزید رقم نکالنا چاہی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہنے لگی’’ مجھے کھیلنے دو ۔یہ رقم میں نے چھٹیوں کے لئے مختص کی ہوئی تھی۔ اسے میں واپس نہیں لے جانا چاہتی‘‘
میں نے کہا’’ یہاں سے تو چلو، لندن جا کر جہاں دل چاہے خرچ کردینا‘‘
’’ میں لندن نہیں جانا چاہتی، اگلے جہاز میں بیٹھ کر واپس فرانس چلی جاوٗں گی ۔میں پیرس میں رہنا چاہتی ہوں‘‘
’’ اچھا جہاں تمھار ا دل چاہتاہے، جا کر رہنا۔ یہاں سے تو چلو، ہمارا جہاز کنارے پر لگ رہا ہے۔ ہمیں نیچے اپنی کوچ کی طرف چلنا چاہیے‘‘
جولی پر الکحل بہت جلد ا ثر کرتی تھی۔ حالانکہ اس نے صرف دو ڈرِنک لئے تھے۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اسے اپنے اوپر بالکل کنڑول نہیں ہے۔ خدا خدا کر کے میں اسے کوچ میں واپس لے کر آیا۔جہاز سے نکلنے کے بعد سامنے ہی چیک پوسٹ پر برطانوی امیگریشن کا عملہ پاسپورٹوں کے بال کی کھا ل اتار رہا تھا۔ ہمیں کوچ سے اُتر کر امیگریشن کے اس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ پورے یورپ میں یہ واحد جگہ تھی جہاں اس طرح قطار میں کھڑے ہو کر ہم نے اپنے پاسپورٹ چیک کروائے اور امیگریشن افسروں کے سوالوں کے جواب دیئے ۔ نہ جانے برطانوی امیگریشن کو کیا خطرہ ہے کہ وہ سیاحوں کو اس طرح شک و شبے کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مسز مارگریٹ نے کہا’’ چور کو ہر شخص چور نظر آتا ہے‘‘
وہ اس طرح قطار میں کھڑے ہو کر ویزہ لگوانے اور امیگریشن آفیسر کے سوالوں سے برہم تھی۔ دوسرے سیاح بھی کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔ بہرحال خدا خدا کر کے ہم اس مرحلے سے نکلے اور ہماری کوچ برطانیہ کی سرزمینپر دوڑنے لگی۔ایک مرتبہ پھر ہماری کوچ سڑک کے بائیں سمت آ گئی تھی۔
اُس کی پلکوں پر اَشکوں کے قطرے ڈھلک آئے
برطانیہ کا یہ حصہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ سڑک کے ہر دو جانب سبزے کی چادر اوڑھے زرعی فارم نویدِ بہار دے رہے تھے۔ برطانوی کسان مرد اور عورتیں کھیتوں میں کام کرتے نظر آرہے تھے۔ گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں کھلے سرسبز میدانوں میں گھاس چر رہے تھے۔ خوب پلے ہوئے یہ جانور بغیر نگرانی کے کھلے فارموں میں آزادی سے گھوم رہیتھے۔
میں سوچ رہاتھا کہ انسانوں کی طرح یورپ میں پیدا ہونے والے مویشی بھی پاکستان جیسے غریب ملک کے مویشیوں سے کتنی مختلف قسمت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر جانور لاغر اور مریل سے دکھائی دیتے ہیں۔ بیلوں سے ہل چلانے کا کام لیا جاتاہے۔ جس میں چابک یا سوٹی کا دل کھول کر استعمال کیا جاتا ہے۔ تانگے میں جتے گھوڑے پر جو گزر رہی ہوتی ہے اس سے سب واقف ہیں۔بے چارے کو ٹوٹی پھوٹی اور کچی سڑکوں پر صبح سے شام تک اپنی استطاعت سے زیادہ وزن کھینچنا پڑتا ہے ۔ ذرا سست پڑتا ہے تو کوچوان کا چابک اس کی کھال اُدھیڑدیتا ہے۔ شام کو تھکا ہارا اپنے تھان پر پہنچتا ہے تو اسے صرف اتنی خوراک ملتی ہے جس سے اس کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکتا ہے۔ اگلی صبح منہ اندھیرے پھر وہ ٹانگے کو کھینچتا ہوا مالک کی روزی تلاش کرنے سڑکوں پر نکل پڑتا ہے۔ گدھے پر جس طرح اور جتنا وزن لادا جاتا ہے اور صبح سے شام تک ڈنڈوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے و ہ ہر کسی کے علم میں ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں گھومنے والے گدھے ، گائیں اور دوسرے جانور بچوں کا نشانہِ ستم بنتے اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ لوگ گلی کے آوارہ کتوں کو مار کر خوش ہوتے ہیں۔
پا کستان میں مویشی کسانوں کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کسانوں کی روزی کا ذریعہ ہیں، ان کا اثاثہ ہیں لیکن ان مویشیوں کے لئے نہ تو مناسب اور وافر چارہ مہیا کیا جاتا ہے۔ نہ انہیں چرنے کے لئے کھلی اور گھاس سے بھری سرسبز چراہ گاہیں میسر ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان جانوروں کے لئے ہمارے اندر رحم کاجذبہ نہیں ہے۔ اگر غلطی سے ایک مویشی دوسرے کے کھیت میں گھس جائے تو اس کھیت کا مالک مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتا ہے۔ اگر یہ کسان دوسرے کسان کا دشمن ہو تو پھر تو اس مویشی کی شامت ہی آجاتی ہے۔ بیماری کی صور ت میں علاج معالجے اور پیش بندی کے طور پر کسی دوا دارو کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ اس طرح یہ مویشی جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار کر سکتے ہیں،ہماری غفلت ،لاپرواہی اور بد سلوکی کی وجہ سے وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو برطانیہ جیسے ترقی یا فتہ ملک میں کرتے ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والا گوشت پوری دنیا میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ وہ اس سے کثیر زر ِمبادلہ حاصل کرتے ہیں جو کسانو ں اور دیگر عوام کے لئے خوشحالی کا باعث بنتا ہے ۔
پاکستان میں ہم اگر وسائل کی کمی کی وجہ سے اتنے جانور پا ل نہیں سکتے تو کم از کم جو جانور یا مویشی ہمارے پاس ہیں ان کی مناسب دیکھ بھال تو کر سکتے ہیں۔ ان پر خواہ مخواہ کا ظلم تو روا نہ رکھیں۔ صلہِ رحمی کا اصول تو اسلام نے دیا ہے۔ کیا عملی زندگی میں ہم اس اصول کی پیروی کرتے ہیں؟
یورپ کی سیاحت کا احوال بیان کرتے کرتے میں پاکستان پہنچ گیا۔ اور یورپ اور پاکستان کی لائیو اسٹاک کا مختصر موازنہ آپ کی خدمت میں پیش کر ڈالا۔ دراصل سیاحت یا کسی قسم کا تجربہ اسی وقت کام آتا ہے جب اس سے کوئی سبق سیکھا جائے۔ اس تجربے سے اپنا یا دوسروں کا کوئی بھلا ہو ۔ اگر صرف گھومنا مقصود ہو تو اسکے لئے پاکستان کے سرکاری افسر،سفارت کار اور سیاست دان کافی ہیں۔ وہ پاکستان کے خزانے سے یہ کہہ کر رقم حاصل کرتے ہیں کہ بیرون ملک سے تجربہ حاصل کر کے آئیں گے جو پاکستان کے کام آئے گا۔ جس قسم کے تجربے وہ یہاں آکرکرتے ہیں اس سے ہر شریف آدمی کو اللہ محفوظ رکھے۔ میں نے سڈنی میں سرکاری ا فسروں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو ایسے تجربے کرتے کئی بار دیکھا ہے۔ وہ واقعات لکھنا شروع کر دئیے تو اصل موضوع سے ہٹ جاوٗں گا۔
ڈوور کے ساحلی علاقے سے نکل کر ہماری کوچ برطانیہ کے اس خوبصورت دیہی علاقے میں سے فراٹے بھرتی جارہی تھی۔ سیاح سفر کے ان آخر ی لمحات میں بیک وقت خوش اور اداس تھے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ دو ہفتے کے لمبے اور تھکا دینے والے سفر کا آج خاتمہ ہو رہا تھا۔ آج وہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ جہاں ان کے چاہنے والے ان کے منتظر تھے۔ اُداسی اس بات کی تھی کہ ان دو ہفتوں میں ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔ تمام گروپ ایک خاندان کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اتنے دن اکھٹے رہ کر ہمارے درمیان اُنس ااور یگانگت پیدا ہو گئی تھی۔ اورآج ہمیشہ کے لئے ہم ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے۔ آئندہ ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہ امر سب کے لئے اداسی کا سبب تھا۔
مولی ایک عرصے سے گائیڈ کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ وہ مسافروں اور سیاحوں کی نفسیات اور جذبات سے بخوبی آشنا تھی ۔ ان لمحات میں وہ یہی باتیں کر رہی تھی۔ گروپ میں سیاحت کی خوبیاں اور خامیاں بیان کر رہی تھی ۔ ایک خوبی جو اس نے بیان کی وہ مجھ جیسے اکیلے سیاح کے لئے تھی ۔ وہ کہہ رہی تھی’’ گروپ میں سیاحت کے بہت سارے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے اس میں آدمی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا چاہے وہ گھر سے اکیلا ہی کیوں نہ آیا ہو۔ ایک گروپ میں سفر کرنے والے مختلف مزاج کے مالک، مختلف ممالک کے باشندے ، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف دلچسپیوں کے حامل ہونے کے باوجود چند دنوں میں ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاحت میں اکھٹے گزارنے کے لئے بہت سا وقت میسر ہوتا ہے ۔سیاح کسی دباوٗ یا ذہنی پریشانی سے آزاد ہو کر نئی دنیا کو دریافت کرنے نکلتا ہے۔ اس وقت اس کا مزاج اور ا س کی طبیعیت خوشگوار ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت جلد ان کی آپس میں دوستیاں ہو جاتی ہیں۔ سیاح اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے بچھڑ جانا ہے۔ اس وقت یہ دوستی اور محبت دل کا بوجھ بن جاتی ہے اور عرصے تک یادوں کا نشتر دل میں چبھن پیدا کرتا رہتا ہے۔ اس وقت آپ لوگوں کی بھی یہ کیفیت ہے۔ ایک دوسرے کی عادت ہو چکی ہے اور ایک دوسرے سے بچھڑنا مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن یہ دنیا کا دستو ر ہے۔ زندگی ملنے اور بچھڑنے ہی کا تو نام ہے۔ زمانے کی اس ریت کویاد رکھنا چاہیے اور اسے زندہ دلی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ جس طرح آپ لوگ اتنے دن تک اکھٹے ہنستے اور بولتے رہے ،آج رخصت ہوتے وقت بھی اسی انداز میں ہنسی خوشی رخصت ہوں۔ تا کہ جب بھی ایک دوسرے کو یاد کریں تو ہنستا ہوا چہرہ یاد رکھیں نہ کہ آنسووٗں بھرا چہرہ۔ ویسے اس معاملے میں جانجی اور مشی خوش قسمت ہیں‘‘ مولی نے مسکراتے ہوئے کہا’’ سارے سفر میں انہیں کسی دوسرے سیاح کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا اور نہ ہی انہیں کسی اور سے دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ زبان سے لاعلمی کا یہ فائدہ پہلی دفعہ سامنے آیا‘‘
جانحی اور مشی جو اس وقت بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے اپنے نام پر چونکے ،مسکر ا کر مولی اور دوسرے سیاحوں کو دیکھا اور پھر اسی پوز میں چلے گئے۔ میرے خیال میں چوبیس میںتئیس گھنٹے وہ اسی کام میں صرف کرتے تھے۔ جگہ ، مقام ، سفر، ہوٹل ، بس،گرمی، سردی، ماحول کچھ بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ ایسے لگتا تھا و ہ اسی کام کے لئے بنے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد صرف پیار کرنا ہے۔ ان کی جنت ان کے پیار میں تھی۔بقول شاعر
یہ ُدنیا ان کے لئے پیار کی جنت ہے
نظر جب کسی کی مہربان معلوم ہوتی ہے
ایمسڑڈم سے لندن میں داخل ہونے تک ہمارا سفر روانی اور تیزی سے جاری رہا ۔ مگر لندن میں داخل ہوتے ہی اس روانی میں خلل پڑنا شروع ہو گیا۔ اس کی وجہ لندن کی بے تحاشا ٹریفک تھی۔ لندن کی سڑکوں پر ٹریفک کا ایک سیلاب سا حسبِ معمول جاری تھا۔ اس ٹریفک میں مجھے کبھی کمی نظر نہیں آئی۔اہلِ لندن کو اگر کہیں جلدی پہنچنا ہو تو نہ جانے کیا کرتے ہوں گے ۔ وہاں کی ٹریفک تو ہرگزاس قابل نہیں ہے کہ انسان جلد بازی کا مظاہرہ کر سکے۔ وہاں صبر اور سکون کے ساتھ ڈرائیونگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ سڑکیں زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ جتنی وہاں کی ٹریفک ہے، سڑکیں اس کے مقابلے میں انتہائیتنگ نظر آتی ہیں۔
لندن کی اس مصروف ٹریفک میں فشر کوچ کو آہستہ آہستہ آگے بڑھا رہا تھا۔ ساڑھے چار بجے ہم لندن میں داخل ہوئے تھے۔ وکٹوریہ اسٹیشن کے پاس پہنچتے پہنچتے چھ بج گئے۔ گویا جتنی دیر میں ہم بلجیم کرا س کر کے دسری طرف فرانس میں جا نکلے اتنی دیر لندن میں داخل ہونے کے بعد وکٹوریہ اسٹیشن تکپہنچنے میں لگ گئی۔
ہمارے کچھ ساتھی وکٹوریہ سے پہلے اُتر گئے ۔ زیادہ تر نے اس یادگار مگر طویل اور تھکا دینے والے سفر کا ختتام وکٹوریہ اسٹیشن پر کیا ۔میں بھی ان میں شامل تھا۔ کوچ سے ا ُتر کر سیاحوں نے پہلے سے لفافوں میں رکھی ٹپ کی رقم فشر اور مولی کے حوالے کی۔ سیاح گرمجوشی سے ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ایسے لگ رہا تھا کہ قریبی عزیزوں سے جدا ہو رہے ہوں۔ میں نے مسز الزبتھ اور دوسرے کئی سیاحوں کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے۔ سبھی ساتھی ایک دوسرے سے بچھڑ کر رنجیدہ تھے۔ ایک دوسرے سے آخری بار مل کر سب اپنی اپنی منزلوں کی طرف چل پڑے ۔ میں نے بھی اپنے سوٹ کیس سنبھالے اور ٹرین اسٹیشن کی عمارت کی طرف جانے لگا۔ جولی نے میرے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا’’ تم لندن میں کہاں قیام کرو گے؟‘‘
’’ ایک دوست کے ہاں ‘‘میں نے مختصر جواب دیا
’’کب تک یہاں رُکو گے‘‘ اس کی آنکھوں میں پتا نہیں کیا کچھ سمٹ آیا
’’میں کل ہی پاکستان روانہ ہو جائوں گا ‘‘میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔
یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے
’’ ہماری ملاقات کا کوئی امکان ہے؟ ‘‘جولی نے آہستگی سے کہا
’’ مشکل ہے جولی! میں کل ہی یہاں سے چلا جائوںگا ۔یہ سفر میرے لئے یادگار رہے گا۔ خصوصاً اپنے ہم سفروں کو میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ اس پورے سفر میں میرا سب سے زیادہ وقت تمھارے ساتھ گزرا۔اگرنادانستگی میں، میں نے تمھارا دل دکھایا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ میں صرف اس سفر کو ہنسی خوشی گزارنا چاہتا تھا۔ اس لئے سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہتا تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ سب کسی کی دل آزاری کا سبب بن جائے گا۔ جولی !تم بہت اچھی لڑکی ہو۔ ایک اچھی دوست کی حیثیت سے میں تمھیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ میں تمھارے جذبات کو سمجھتا ہوں اور ان کی قدر بھی کرتا ہوں۔ لیکن ہم سب مسافر ہیں۔ آج ہم نے بچھڑ کر اپنے اپنے ملکوں میںچلے جانا ہے ۔ میر ی دِلی دعا ہے کہ خدا تمھیں زندگی میں ہر وہ خوشی دے جس کی تمنا تمھارے دل میں موجود ہے۔ امید ہے کہ تم میری بات سمجھ گئی ہوگی اور ہم اچھے دوستوں کی طرح جدا ہوں گے۔ ایک دوسرے کے لئے دل پر کوئی بوجھ لے کر نہیں جائیں گے‘‘
جولی نے میری باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ بس اُس کی پلکوں پر دو موتی ڈھلک آئے۔ اس نے انہیں صاف کیا۔ کافی دیر تک خاموش کھڑی زمین کو گھورتی رہی اور پھر آہستہ سے گویا ہوئی ’’تمھیں معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس لئے کہ تمھار ا کوئی قصور نہیںہے۔تم بالکل ٹھیک کہتے ہو کہ ہم صرف چند دنوں کے عارضی ہمسفر تھے۔ مجھے شروع سے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے تھا کہ چند دنوںکے بعد ہم نے بچھڑ جانا ہے۔ بہر حال میں نے خود کو سمجھا لیا ہے۔ مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ دورانِ سفر میں نے تمھیں اپنی حرکتوں سے کئی بار پریشان کیا ہے۔ امید ہے ایک نادان لڑکی کی ان حرکتوں کا تم نے برا نہیں منایا ہوگا‘‘
’’ہرگز نہیں ! جولی! اب مجھے اجازت دو ۔میر ا دوست انتظار کر رہا ہوگا؟ ‘‘
جولی کو خدا حافظ کہہ کر میں اپنی ٹرین میں بیٹھا تو ایسے لگا کہ میرے دِل پر بھاری پتھر بندھا ہو۔گھنی پلکوں پر رکھے دو موتی پھیلتے پھیلتے سمندر بن گئے تھے۔اس سمندر کی لہریں مجھے بھی بھگو رہی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت اچھی ، بہت خوبصورت اور بہت نرم و نازک سی لڑکی تھی لیکن زندگی نے اب تک اسے وہ خوشیاں نہیں دی تھیں جس کی وہ مستحق تھی ۔ ملکوں ملک بھٹک کر بھی اس نے سکون نہیں پایا تھا۔ محبت کی تلاش میں کئی در کھٹکٹائے لیکن اس کی من چاہی محبت اُسے نہیں ملی۔ وفا اور محبت کی تلاش میں در سے بدر اور دیس سے بدیس کیہوگئی تھی لیکن اب تک تہی دامن تھی۔
میری دُعا ہے کہ خدا اُسے خوشیاں اور سکون دے۔
پہاڑ نے کروٹ بد لی تو وہ صاحب کہیں غائب ہو گئے
وکٹوریہ اسٹیشن سے میں نے ٹیوب پکڑی اوربیز واٹر (Bays Water)کے اسٹیشن پر جا اُترا ۔ وہاں سے میرا ہوٹل صرف دس منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ سامان کی وجہ سے ٹیکسی لینا پڑی۔ ایک بار پھر اسی ہوٹل میں جا پہنچاجہاں پہلے ٹھہرا تھا ۔ اس بار میرا کمرہ انڈر گراوٗنڈ کی بجائے فرسٹ فلور پر تھا۔ ایک رات کی بات تھی۔ کل تیسرے پہر میں نے اس ہوٹل بلکہ اس شہر کو خیر باد کہہ دینا تھا۔ کمرے میں سامان رکھنے کے بعد میں نے لباس تبدیل کیا او ر تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے بستر پر دراز ہو گیا۔ پچھلی رات کی شب بیداری اور پورے دن کے سفر کی تکان کی بدولت تھوڑی ہی دیر میں نیند مجھ پر غالب آتی چلی گئی۔
دروازہ کھٹکٹانے کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو شام کے نو بجے تھے۔ میں نے نیند میں بوجھل آنکھیں لئے دروازہ کھولا تو سامنے علی کھڑا تھا۔ علی کو میری واپسی کے پروگرام کا علم تھا۔لیکن مجھے اس کے پروگرام کا پتا نہیں تھااس لئے اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ مجھے لے کر باہر جانا چاہتا تھا۔ میں نے گرم پانی سے شاور لیا تو سفر کی تکان اور نیند کا احساس کافی کم ہو گیا۔ علی کے ہاتھ کی بنی کافی کے گھونٹ لئے تو جسم کو مزید تقویت ملی اور میں تازہ دم ہو کر علی کے ساتھ باہر نکل آیا۔
اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔ لیکن اسے رات کہنا شاید صحیح نہیں تھاکیونکہ سورج ابھی تک زمین پر ضیاء پاشی کر رہا تھا۔ ایک وقت تھا کہ انگریزوں کی سلطنت پر سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ اب وہ سلطنت سمٹ کر برطانیہ تک محدود ہو گئی ہے لیکن سورج اب بھی وہاں اٹھارہ گھنٹے چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گویا چوبیس گھنٹے نہیں تو اٹھارہ گھنٹے اب بھی سورج اس سلطنت سے غروب نہیں ہوتا۔ باقی کے چند گھنٹے انگریز شمسی توانائی سے حاصل کردہ مصنوعی روشنی سے گزارا کر لیتے ہیں۔ اس طرح ماضی کی سطوت اور شان و شوکت کو مصنوعی سائنسی ایجادات سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔
رات کے دس بجے بھی لندن کی سڑکوں پر رش کم نہیں ہوا تھا۔ علی کی کا ر اس رش میں کبھی درمیانی رفتار اور کبھی سست روی سے چل رہی تھی۔ سورج اب لندن کی بلند و بالا عمارتوں کے پیچھے مختصر وقفے کے لئے چھپ گیا تھا۔ لیکن اُس کی شفق رنگ سرخی آسمان پر کافی دیر تک باقی رہی۔ لندن کے مرکزی علاقے ٹریفالگر اسکوائر کی جانب بڑھتے ہوئے گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس اور سڑک کے کنارے لگے کھمبوں پر لگی ٹیوب لائٹس روشن ہو گئی تھیں۔ دکانوں ، ریستورانوں، کلبوں اور شاپنگ سینٹرز کی رنگ برنگی روشنیاں شب کی آمد کا اعلان کر رہی تھیں۔ ریستورانوں اور کافی شاپس کے آگے سجی کرسیوں پر جوڑے بیٹھے کافی کیپیالیوں سے کم او رایک دوسرے کی آنکھوں سے زیادہ پی رہے تھے ۔دن بھر کے تھکے ہارے لوگ ریستورانوں ، کافی شاپوں اور کلبوں میںاپنی تھکاوٹ دور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ جودن میں آرام اور رات کو کام کرتے ہیں ،ان تھکے ہارے لوگوں کی تھکاوٹ دُور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یورپ ، آسٹریلیا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ کام کے اوقات میں پوری تندہی، سنجیدگی اور محنت سے کام کرتے ہیں۔ دفتر میں کام کرنے والا ہو یا ریستوران میں ویٹر ،بس ڈرائیور یا ڈلیوری ڈرائیور، کلرک یا کلینر ، ڈاکٹر ہو یا اکائونٹنٹ،غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ کام کے وقت میں انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہیں ۔اس وقت وہ ہنسی مذاق ،فضول باتوں، بلاضرورت کھانے پینے ،فون پر گپ شپ اور کاہلیسے مکمل پرہیز کر تے ہیں۔ اس وقت ان لوگوں کا مقصد کام ، کام اور صرف کام ہوتا ہے۔ ہر شخص جلدی میں نظر آتا ہے۔ گاہکوں اور کسٹمر سے خوش اخلاقی سے بات کرتا ہے۔مجال ہے کہ کام کے علاوہ کوئی فالتو بات کرلیں۔ایسے لگتا ہے کہ یہ لوگ روبوٹ بن جاتے ہیں۔ صبح کام پر نکلتے ہیں تو ان پر سنجیدگی طاری ہو جاتی ہے۔ ٹرین میں سفر کر رہے ہوں تو ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت خاموش رہتا ہے۔ اخبار پڑھتے ہیں، کتاب پڑھتے ہیں، کانوں سے ہیڈ فون لگا کر میوزک سنتے ہیں یا اونگھتے رہتے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ چالیس پچاس ا فراد کی موجودگی میں پوری بوگی میں باتوں کی کہیں سے آواز آئے۔ پوری بوگی میں ایسے سناٹا ہوتا ہے کہ پن بھی نیچے گرے تو اس کی آواز صاف سنائی دے۔ ایک ہی ٹرین میں روزانہ اکھٹے سفر کرنے والے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے ۔ لگتا ہے لوگوں میں ایک خاموش معاہدہ ہے کہ خاموشی کی اس چادر کو قائم رکھنا ہے۔ جو سونا چاہتے ہیں وہ آرام سے سو جاتے ہیں۔ جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ بغیر کسی خلل اندازی کے پڑھتے رہتے ہیں۔
اپنے اپنے اسٹیشنوں پر ا ُتر کر ہر شخص اتنی تیزی سے چلنے لگتا ہے جیسے کوئی اس کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اس تیز رفتاری میں خواتین بھی مردوں سے کم نہیں ہیں۔ اونچی ایڑھی والے سینڈل اور تنگ اسکرٹ کے باوجود وہ ٹک ٹک کر تی اتنی تیزی سے چلتی ہیں کہ سڈنی آمد کے شروع کے دنوں میں انہیں دیکھ کر میںحیران ہو جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کو اس تیز رفتاری کا مظاہر ہ کر تے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہی لوگ جو پورا دن اپنے چہرے پر سنجیدگی کا دبیز نقاب چڑھا کر رکھتے ہیں شام ہوتے ہی یہ نقاب اتار کر دور پھینک دیتے ہیں۔ جو دن میں جتنا زیادہ کام کرتا ہے، شام کو اتنی ہی زیادہ بیئر پینے کا خود کو حقدار سمجھتا ہے۔ اس وقت ہر کوئی کھل کر باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ وہ ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، موسیقی کی لے پر ناچتے ہیں۔ بلیرڈ اور پوکر کھیلتے ہیں۔ کھیلوں کے دلچسپ مقابلے دیکھتے ہیں ۔یہ سب کچھ کرتے وقت ان کے ہاتھ میں جھاگ اُڑاتی ٹھنڈی بیئر کا گلاس ضرور رہتا ہے۔ شام کے ان اوقات میں کسی بھی چہرے پر سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی شخص منہ بسورے نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ اس وقت یہ لوگ سنجیدہ گفتگو سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔ ان کی گفتگو کا موضوع کچھ بھی ہو اس میں ہنسی مذاق ضرور شامل ہوتاہے۔ کچھ لوگ جو دن میں انتہائی سنجیدہ نظر آتے ہیں انہیں شام کے ان اوقات میں دیکھو تو یقین نہیں آتا ۔
لندن کی اس سنہری شام علی کی کار میں سفر کرتے اور مسرت نذیر کا گانا سنتے میں ہر جانب لوگوں کو زندگی کی خوشیاں سمیٹتے دیکھ رہا تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈسکو کلبوں اور نا ئٹ کلبوں کی جانب گامزن تھے تو دوسرے جوڑے کلبوں اور ریستورانوں میں دن کی تھکاوٹ دور کر رہے تھے۔ سڑک کے کنارے کئی جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ اور کئی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنی شام کو رنگین بنانے میں مصروف نظر آئے۔ فٹ پاتھ کے کسی بھی حصے اور بعض اوقات سڑک کے درمیان بھی انہیں ایک دوسرے پر پیار آجائے تو وہ جگہ اور مقام دیکھے بغیر اس پیار کا اظہار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اس کا مظاہرہ اس قت لندن کی سڑکوں، فٹ پاتھوں، ٹیکسیوں اور پارکوں میں جابجا نظر آیا۔ گویا ا ہلِ لندن اس وقت جانجی اور مشی بنے ہوئے تھے ۔
ہم ایک پاکستانی ریستوران (جس کا نام غالباً لاہوری ریسٹورنٹ تھا )میں پہنچے تو دیکھا کہ ہال مہمانوں سے بھرا ہوا ہے ۔بلکہ ہال سے باہر بھی کچھ پاکستانی خواتین و حضرات کھڑے گپ شپ میں مصروف تھے۔ اندر ایک بھی میز خالی نہیں تھی۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ریستوران اس پوری شام کے لئے کسی تقریب کے لئے بک ہے۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے معذرت کی اور بتایا کہ آج کی شام سیٹ ملنا مشکل ہے۔ تاہم اگر کھانا گھر لے جانا چاہیں تو ہم حاضرہیں۔ علی کسی دوسرے ریستوران میں جانا چاہتا تھا لیکن میں نے کہا ’’کوئی حرج نہیں! کھانا یہیں سے خرید لیتے ہیں، باہر کسی مناسب جگہ پر بیٹھ کر کھالیںگے‘‘
بریانی ، کباب اور نان وغیرہ خرید کر ہم وہاں سے نکل آئے۔ ڈرائیو کرتے ہوئے ہم ویسٹ منسٹر ایبے ، ٹریفالگر اسکوائر سے ہوتے ہوئے لندن برج کے پاس جا کر رُکے۔ ایک مناسب جگہ ڈھونڈ کر ہم نے گاڑی پارک کی۔ کھانا لے کر دریائے ٹیمز کے کنارے لگے بنچوں میں سے ایک پر جا بیٹھے۔
وہاں اس وقت بہت اچھا منظر تھا۔ سڑک اور پل پر گاڑیاں رواں تھیں تو دریا کے اندر خوبصورت کشتیاں ادھر ادھر آ جارہی تھیں۔ دریا کے دونوں سمت اتنی روشنیاں تھیں کہ دریا کا پانی چمکتا دکھائی دیتا تھا۔ہمارے علاوہ دوسرے کئی لوگ بھی دریا کے کنارے موجود تھے۔ ان میں سے زیادہ تر جوڑے تھے جو اس خوبصورت اور رُومان پرور ماحول میں دل کی بات زبان، ہاتھوں ، بانہوں اور ہونٹوں کے ذریعے بیان کر رہے تھے۔ دریا کے کنارے سبز گھاس پر لیٹے کئی جوڑے گھر اور باہر کا فرق بھولے ہوئے تھے۔ ایسا ہی ایک جوڑا ہماری بنچ کے سامنے پانی کے کنارے موجود تھا۔ وہ پہلے کھڑے ہو کر جسم سے جسم چپکائے اور ہونٹوں میں ہونٹ پیوست کئے اس شام کو ا مر کرنے میں مصروف تھے۔ جب تھک گئے تو بیٹھ گئے ۔کیونکہ پتلے اور دراز قدمرد کے مقابلے میں لڑکی پستہ قد اور کافی جسیم تھی۔ اس کے جسم کا ہر حصہ معمول سے زیادہ ضخیم نظر آتا تھا مگر چھاتیاں تو جیسے چھوٹی چھوٹی پہاڑ یو ں کی طرح تھیں۔ طویل قامت مرد ان کی وجہ سے کچھ فاصلہ رکھنے پر مجبور تھا۔اس کا حل انہوں نے اس طرح نکالا کہ وہ جسیم لڑکی گھاس پر دراز ہو گئی ۔ وہ مرد اس پہاڑ کو نرم بستر سمجھ کر اس پر محوِ استراحت ہو گیا۔ لیکن اس پہاڑ نے جب کروٹ بد لی تو مرد کہیں غائب ہو گیا۔دُور سے ہمیں وہ بالکل نظر نہیں آ رہا تھے۔ تاہم اُس کی گھٹی گھٹی آواز یں کہیں سے برآمد ہو رہی تھی۔
کچھ دیر کے بعد جب پہاڑ نے کروٹ بدلی تو وہ صاحب گھاس پر اِس طرح پڑے دکھائی دئیے جیسے ٹرک کے نیچے آنے والی لاش ۔ کچھ دیر تک تو ایسے محسوس ہوا کہ ان کا نظامِ تنفس منقطع ہو چکا ہے۔ پہاڑ جیسی اس لڑکی کے چہرے پر بھی تشویش کے آثارنظر آئے۔ وہ ہولے ہولے اپنے بوائے فرینڈ کا چہرہ تھپکتی رہی۔ جب اس کا ا ثر نہیں ہوا تو اس نے پاس رکھے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور مرد کے چہرے پر انڈیل دی۔ مردنے اپنی آنکھیں کھولیں، اپنی گرل فرینڈ کی طرف دیکھا اور گھبر اکر اٹھ کھڑا ہوا۔ یکایک وہ تیز قدموں سے ایک سمت چل پڑا۔ لڑکی نے بیگ اٹھایا اور رچرڈ رچرڈ کہتی اس کے پیچھے لپکی۔ لیکن رچرڈ صاحب اب رُکنے والے نہیں لگتے تھے۔ تھوڑی دیر میں یہ عجیب الخلقت جوڑا ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا او رہم لاہوری ریسٹورنٹ کی بریانی سے انصاف کرنے لگے۔
کھانا کھا کر کافی دیر تک ہم وہیں موجود رہے۔ دراصل وہاں اس وقت خوب رونق تھی ۔موسم صاف ، ہوا میں خوشگوار سی خنکی اور دریائے ٹیمز میں میں روشنیوں کی چمک ماحول کو رومان پرو ر بنائے ہوئے تھی ۔ لندن والوں کو ایسے دن اور راتیں کم ہی نصیب ہوتی ہیں جب بارش اور سردی نہ ہو۔ جب ایسے لمحات انہیں میسر آجائیں تو اسے خوب انجوائے کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں اگرچہ موسم اس کے برعکس یعنی اکثر خوشگوار رہتا ہے۔ سا ل کے زیادہ تر دنوں میں دھوپ جلوہ افروز رہتی ہے۔ پھر بھی اکثر آسٹریلین مرد اور عورتیں اچھے موسم میں افسوس کرتے ہیں کہ اتنا اچھا موسم ہے اور ہمیں کام پر جانا پڑ رہا ہے ۔ گویا جس دن موسم اچھا ہو اس دن چھٹی ہونی چاہیے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں لوگ کبھی کبھی برسنے والے بارش کے پہلے قطرے کو دیکھ کر دفتر جانے کا ارادہ بدل دیتے ہیں اور بیگم کو پکوڑوں کی فرمائش کر کے ٹی وی کے سامنے براجمان ہو جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ صرف افسوس کرتے رہ جاتے ہیں او رہم لوگ بلا تردد اپنی خواہش پر عمل کرتے ہوئے چھٹی کر لیتے ہیں۔ اگر چھٹی نہ بھی کریں تو ایسے موسم میں وہاں دفتروں میں بھی کام برائے نا م ہی ہوتا ہے ۔چائے اور پکوڑے وہاں بھی منگوائے جاسکتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھ کرکام کے بجائے موسم کا مزہ لیا جاتا ہے۔ میں نے خود ایک سرکاری دفتر میں کام کے اوقات میں مینگو پارٹی اٹینڈ کی۔ عین اس وقت جب اندر پورا دفتر چونسے آموں سے اور خوش گپیوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا دفتر کے باہرکام سے آئے ہوئے لوگ بے قراری سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا وہ پورا دن شاید انتظار میں ہی گزر ا ہو کیونکہ اندر کسی پارٹی کے بھیجے ہوئے آموں کی بہت سی پیٹیاں رکھی تھیں۔
لندن برج سے چلے تو علی کی کار لندن کی روشن شاہراہوں پر تیزی سے دوڑنے لگی کیونکہ ٹریفک کا زور قدرے کم ہو گیا تھا ۔ علی مجھے بتائے بغیر ایک ایسے کلب میں لے گیاجہاں صرف ایشیائی لڑکے اور لڑکیاں جاتے تھے۔ اس کا نام بھی ایشین کلب تھا۔ برطانیہ میں ایشین سے مراد پاکستانی اور بھارتی ہوتے ہیں۔ جبکہ آسٹریلیا میںایشین اکثر چینی نسل کے لوگوں کو کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا میں کسی بھی ایشین ملک کے اتنے افراد نہیں رہتے جتنے چینی نسل کے ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی یہاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ انتہائی اقلیت میں ہونے کی وجہ سے نہ تو وہ انتخابات میں کوئی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور نہ بحیثیت مجموعی اس معاشرے میں ان کا کوئی بڑا رول ہے۔ لیکن آسٹریلیا میں بسنے والے ان پاکستانی اور بھارتی باشندوں کی یہ خاص بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ ، محنتی اور پر امن شہری ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ،اپنے خاندانوں کی دیکھ بھال کر تے ہیں اور آسٹریلیا کی ترقی میں ایک خاموش مگر مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس ایشین کلب میں پاکستان اور ہندوستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کافی تعداد میں موجود تھے۔ زیادہ تر سکھ تھے۔ گانے بھی پنجابی تھے۔ تیز موسیقی کی لے پر لڑکیاں اور لڑکے زور و شور سے ناچ رہے تھے۔ ڈانسنگ فلور پر بارہ تیرہ جوڑے جلتی بجھتی روشنیوں میں بانہوں میں بانہیں ڈالے محوِ رقص تھے۔ بقیہ لوگ مختلف میزوں پر بیٹھے اس انتہائی پر شور ماحول میں باتوں سے’’ لطف اندوز ہونے‘‘ کی ناکام کوشش میں مصروف تھے۔ ناکام اس لئے کہ موسیقی کاشور اتنا تھا کہ اس میں کان پھٹتے محسوس ہوتے تھے۔ ایسے بھیانک شور میں ایک دوسرے کی بات سننا عملاً نا ممکن تھا ۔ وہ ہونٹوں کی جنبش پر ہی سنے اور سمجھے بغیر قہقہے لگا رہے تھے۔ ہم تھوڑی دیر بیٹھے۔ کوک کا ایک ایک گلاس پینے اور سر میں درد لے کروہاں سے اٹھ آئے۔ باہر نکلنے کے بعد بھی وہ بھیانک شور دماغ میں گونجتا محسوس ہو رہا تھا۔
میں کئی دنوں سے پوری نیند نہیں لے سکا تھا اس لئے نیند سے میری آنکھیں بوجھل او ر جسم سست ہو رہا تھا۔ میں نے علی سے واپس ہوٹل چلنے کے لئے کہا۔ علی نے اپنی کار کا رخ بیز واٹر( Bays Water) کی طرف موڑدیا۔ آدھے گھنٹے میں ہم ہوٹل کے سامنے موجود تھے۔ اس وقت دوبجے تھے۔ میں نے علی سے کہا’’ اندر چلو! کافی پی کر جانا‘‘
علی میرے گلے لگ گیا’’ یار! اب جانے کب ملاقات ہو گی۔ میرا دل یہاں سے جانے کو نہیں چاہ رہا لیکن کیا کروں صبح کام پر بھی جانا ہے۔ میرا کام بھی ایسا ہے کہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرنا پڑتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’علی ! تم نے میرے لئے جو کچھ کیا ، اس کے لئے شکریہ ۔۔۔‘‘
’’ یار ! شرمندہ تو نہ کرو ۔مجھے شرم آرہی ہے کہ میرا بچپن کا دوست اتنی دور سے آیا ہے اورمیں اسے اپنے گھر بھی نہیں لے کر جاسکا‘‘
’’ علی! خواہ مخواہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان حالات میں تم نے میرا جتنا خیال رکھامیں اس کے لئے مشکور ہوں‘‘
علی بہت جذباتی انداز میں ملا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اس کی محبت اور اس کے دکھوں کی غمازی کر رہے تھے۔ اپنے گھر میں شہزادوں کی طرح لاڈ پیار سے پلنے والا علی اس وقت بالکل مختلف حالات سے نبرد آزما تھا۔ میں اس کے حالات اور اس کے دل پر گزرنے والے واقعات سے آشنا تھا، اس لئے میں بھی آبدیدہ ہو گیا۔ ہوٹل کے دروازے پر کھڑے کھڑے ہماری زبانیں کم اور آنکھیں زیادہ بول رہی تھیں۔ انہی آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ علی کا ر میں بیٹھا۔اس کی کار رات کے سناٹے میں آگے بڑھتی چلی گئی ۔میں وہیں کھڑا کا ر کے پیچھے جلنے والی سرخ روشنیوں کو بڑے سے چھوٹااور پھر غائب ہوتا دیکھتا رہا۔ اس وقت گلی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی اور کار یا کوئی شخص چلتا نظر نہیں آرہا تھا۔ پوری گلی میں سناٹا اور گھمبیر خاموشی تھی۔ صرف کھمبوں پر روشن بلب اس یخ بستہ اور تاریک ماحول میں گھورتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس سناٹے ، نیم تاریکی اور سردی میں میں تنہا فٹ پاتھ پر کھڑا تنہائیوں اور اپنوں سے دور یوں کے درد کو اپنے دل پر بوجھ کی طرح محسوس کر رہا تھا۔
یہ تنہائیاں ، یہ دوریاں اور پردیس کے یہ دکھ ہمارے شب و روز کے ساتھی ہیں، ہمارا زادِ سفر ہیں اور اب جسم کا جزوِ لاینفک بن چکے ہیں۔ ہم چاہیں بھی تو ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔کیونکہ اب ہمارا گھر نہ یہاں ہے نہ وہاں۔ ہم نہ اُن کے ہیں اور نہ اِن کے۔ بلکہ ہم کسی کے بھی نہیں۔شاید اپنے بھی نہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ہمارے بس میں اگر اپنے فیصلے ہوتے
تو ہم کبھی کے گھروں کو لوٹ گئے ہوتے
ٹیکسی کھمبے کے سا تھ بغلگیر ہوگئی
صبح دس بجے جاگا تومیں بالکل ترو تازہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت دنوں کے بعد الارم لگائے بغیر سویا تھا۔ آج میں لندن سے واپس کراچی جارہا تھا۔ فلائٹ رات نو بجے تھی اس لئے پورا دن میرے پاس تھا۔ ناشتے کے بعد میں نے چیک آئوٹ کیا ۔کیونکہ ہوٹل کے قواعد کے مطابق بارہ بجے تک کمرہ خالی کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ اگلی رات کا بھی کرایہ دینا پڑ جاتا۔ چیک آئوٹ کے بعد میں نے اپنا سامان وہیں ہوٹل میں بطور امانت رکھوایا اور باہر آ کر بیز واٹر ( Bays water) اسٹیشن کی طرف چل پڑا ۔ ہوٹل سے نکلتے وقت دھوپ چمک رہی تھی۔ صرف پانچ منٹ کے بعد جب میں اسٹیشن کے پاس تھا تو دھوپ کی بجائے بادل چھا گئے بلکہ باقاعدہ بارش شروع ہو گئی۔ بیز واٹر سے میں نے ویسٹ منسٹر ا بیے (West Minister Abey) کا ٹکٹ لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں اس مصروف اور سیاحوں کے لئے پر کشش علاقے میں جا پہنچا۔ بارش اب بھی جاری تھی ۔ جب کہ میرے پاس چھتری موجود نہیں تھی۔ میں صرف ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا جو تھوڑی دیر میں قدرے بھیگ گئی۔ اسی حالت میں چلتا ہوا دریائے ٹیمز کے کنارے واقع ملینیم ویل ) (Millenium Wheel کے پاس جا پہنچا۔
وہاں حسبِ معمول لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ بارش کبھی رکتی اور کبھی شروع ہو تی۔ وہیں سامنے ایک شاپ میں چھتریاں اور رین کوٹ فروخت ہو رہے تھے۔ میں بھی قطار میں کھڑا ہو گیا اور گرم پکوڑوں کی طرح بکنے والی چھتریوں میں سے ایک خرید کر باہر نکلا تو بارش غائب اور دھوپ حاضر ہو چکی تھی ۔ چھتریاں اور رین کوٹ خریدنے والے سبھی سیاح تھے۔ مقامی لوگوں کے پاس پہلے سے چھتریاں موجود ہوتی ہیں۔ کیونکہ اہلیانِ لندن کے بیگ میں اور کچھ ہو نہ ہو ایک عدد چھتری ضرور رہتی ہے۔
میں سامنے ہی موجود کمیونٹی ہال میں چلا گیا۔ یہاں بے شمار ویڈیو گیمز ، Amusement Games ،کمپیوٹرائزڈ فٹ بال ، بیس بال، موٹر سائیکلنگ اور دوسری بے شمار گیمیں تھیں۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق ہر مشین میں سکے ڈالنے پڑتے تھے جو تھوڑی دیر چل کر مزید رقم کے انتظارمیں بند ہو جاتی تھیں۔ نچلی منزل صرف اٹھارہ سال سے زائد عمر کے افراد کے لئے تھی۔ وہاں شراب کا بار اور ایسی ہی بہت سی مشینیں وہاں بھی لگی تھیں۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور اندر سیاح ان مشینوں اور شراب پر پونڈ پر پونڈ لٹا رہے تھے۔ دو اسمگلر ٹائپ انگریز ایک پوکر مشین میں بیس بیس پونڈ کے نوٹ مسلسل ڈال اور ہار رہے تھے۔ مشین پہلے کریڈٹ نگل لیتی تو وہ ہمت ہارے بغیر مزید رقم مشین کے منہ میں ڈال دیتے ۔ میرے کھڑے کھڑے انہوں نے سیکڑوں پونڈ اس مشین کی نذر کر دیئے۔ وہ جیتنے کی امیدمیں بٹن دباتے لیکن مشین ان کی انگلی کی ہر جنبش پر ایک پونڈ نگل لیتی۔ فرسٹریشن ، پریشانی او غصہ ان کے چہرے پر نمایاں تھا۔ وہ مشین کو مکے اور لاتیں مارتے ، گالیاں بکتے، مزید نوٹ ڈالتے ، بئیر کے گھونٹ بھرتے،سگریٹ کے کش لگاتے اور ہارتے چلے جاتے۔ لگتا تھا کہ وہ آج اپنی تمام جمع پونجی اس مشین کی نذر کرکے جائیں گے۔ یا پھر اگلی پچھلی ساری رقم جیت کر لوٹیں گے۔
باہر نکلا تو خلاف ِ توقع دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ پانچ پونڈ یعنی تین سو بیس روپوں میں خریدی وہ چھتری کھولنے کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ یہ چھتری بند حالت میں ہی کراچی پہنچی۔ وہاں ایک دوست کو یہ کہہ کر تحفتاََ دی کہ یہ خصوصی طور پر اسی کے لئے خریدی تھی۔ اس و قت دھوپ اس طر ح چمک رہی تھی جیسے بارش نام کی کوئی چیز اس علاقے میں کبھی دیکھی ہی نہ گئی ہو۔ لندن میں موسم کی یہ آنکھ مچولی حیرت انگیزہے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ والا موسم ہے۔ وہاںسال کا زیادہ حصہ بارشوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ سورج اکثر بادلوں کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔ کبھی کبھار جب یہ جلوہ گر ہو تا ہے تو اس دن لندن والوں کی عید ہو جاتی ہے۔ اس وقت ان کا دل چاہتا ہے کہ دفتروں اور گھروں سے بھاگ پڑیں اور اس نایاب شے (دھوپ) سے مستفید ہوں۔ ایسے وقت میں دفتر میں بیٹھنا لوگوں کو زہر لگتا ہے۔ اپنے ہاں کی عام اور لندن والوں کے لئے خاص اور نایاب شے سے لطف اندو ز ہونے کے لئے میں وہیں پارلیمنٹ اسکوائر کے سامنے دریائے ٹیمز کے کنارے ایک بنچ پر بیٹھ کر ’’ہمہ یاراں دوزخ ‘‘کا مطالعہ کرنے لگا ۔ یہ کتاب میں نے بہت پہلے پڑھ رکھی تھی۔ اس دفعہ پاکستان سے آتے ہوئے میں اِسے خرید لایا۔ سفر کے دوران جب بھی وقت ملتا میں اس کتاب کا مطالعہ کرتا ۔انتہائی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ موضوع کو صدیق سالک مرحوم کے طرز تحریر نے انتہائی دلچسپ بنا دیا تھا۔ دریائے ٹیمز کے کنارے بارش کے فوراً بعد والی سنہری دھوپ میں بیٹھ کر کتاب نے بہت لطف دیا ۔اس سفر میں دو کتابیں میرے زیرِ مطالعہ رہیں ۔ایک ہمہ یاراں دوزخ اور ایک حافظ محمد ادریس کی’’ دریچہِِ زنداں‘‘۔ اتفاق سے یہ دونوں کتابیں قصہِ اسیری تھیں۔ ایک سیاسی اسیری کی داستان اور ایک دشمنوں کی قید کا قصہ۔ دونوں کتابوں میں میرے لئے دلچسبی کا بہت ساساماں موجود تھا۔ کیونکہ ان میں واقعات کی دلچسبی کے ساتھ ساتھ شوخیِ تحریر، سلاست ، روانی اور خوبصورت جملوں کی چاشنی موجود ہے۔ ہمہ یاراں دوزخ تو ایک گراں قدر ادبی اور تاریخی شہ پارہ ہے۔
میں وہاں سے اٹھا اور چمکتی ہوئی دھوپ میں ٹریفالگر اسکوائر کی طرف چل پڑا۔ ٹریفالگر اسکوائر میں سیاحوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ یہ جیسے سیاحوں کے لئے مرکزی مقام تھا۔ دنیا بھر کے سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ادھر اُدھر گھومتے دکھائی دے رہے تھے ۔ زیادہ تر فو ٹو گرافی اس چو راہے پر مو جود بے شمارکبوتروں کے ساتھ ہو رہی تھی ۔یہ کبوتر سیا حوں اور کیمروں کی چکا چوند روشنی کے عا دی تھے۔ وہ تمام چکا چوند اور رش سے بے نیا ز دا نہ چگتے رہتے۔ اُڑ کر سیا حوں کے کندھوں اور با زوؤں پر آ بیٹھتے۔جیسے ان سے مطا لبہ کر رہے ہوں کہ ہما رے لئے دانے کیوں نہیں لائے۔ اس کے جوا ب میں اکثر سیاح وہا ں پر مو جو د دانے بیچنے والے سے دا نے خریدتے اور ان کبوتروںکی نذر کر تے۔ وہا ں بڑی تعداد میںپیشہ ور فو ٹو گرا فر بھی مو جو د تھے ۔ وہ پل بھر میں فو ٹو بنا کر سیا حوں کے حوا لے کر دیتے تھے۔ تاہم ان کے فو ٹو بہت گراں تھے۔ان فوٹو گرافروں کے علا وہ بہت سے پینٹرز ایزل پر کینوس جما ئے اور ہا تھوں میں رنگوں کے برش لئے سیا حوں کی پورٹریٹ بنا نے کے لئے تیا ر بیٹھے تھے ۔کچھ لوگ ان سے اپنی پورٹریٹ بنوا رہے تھے۔ زیا دہ تر سیاح ان سے معذرت کر لیتے تھے۔ سیا حوں کی بہتبڑی تعداد روزا نہ وہاںآتی ہے۔ ان کی وجہ سے ان فوٹو گرافروں اور فنکاروں کا کا روز گار خوب چلتا رہتاہے۔
سیا حت یو رپی مما لک کی ایک بہت بڑی صنعت اور آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔صرف ہو ٹلنگ کو ہی لے لیجیے صرف لندن میںہو ٹلوں کی تعداد بلا مبا لغہ ہزا روں کی تعداد میں ہو گی۔ ہر گلی ہر محلّے میںچھوٹے بڑے بے شمار ہوٹل ،موٹیل اور کاروان پا رک واقع ہیں جو اکثر بھرے رہتے ہیں۔ حا لا نکہ لندن میں ہو ٹلوں کا کرایہ ہو ش رُبا ہے۔ لیکن پھر بھی کمرے خالی کم ہی ملتے ہیں ۔ہو ٹلنگ کے علا وہ سیا حوں سے ٹرانسپورٹ،ریسٹورنٹ،تفریحی مقا مات، میوزیم اور تا ریخی مقا مات بھی بے شمار و بے حسا ب کما تے ہیں ۔لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے دنیا بھر کے لا کھوں سیا ح روزا نہ آتے جا تے ہیں، جو بر طا نیہ کے علاوہ یورپ کے دو سرے مما لک میں پھیل جا تے ہیں۔ جب وہ یو رپ کی سیر کر کے وا پس جا رہے ہو تے ہیں تو ایک ایک سیا ح بلا مبا لغہ ہزا روں پو نڈ یو رپ کی معیشت کی نذر کر چکا ہو تا ہے۔ دوسرے ذرائع آمدنی کے علا وہ یو رپی ممالک کا یہ بہت بڑا ذریعہ آمدنی ہے ۔کا ش پا کستا ن بھی سیا حوں کے لئے اتنا ہی پُر کشش ملک بن جا ئے۔
ٹریفالگر اسکوائر اور اُس کے نوا ح میں گھو منے کے بعد میں نے وہیں ایک میکڈا نلڈ سے لنچ کیا۔ پھر ٹرین میں بیٹھ کر اپنے ہو ٹل کے نزدیک واقع دوسرے اسٹیشن کوئینز وے (Queensway)جا ا ُ ترا۔اس وقت دوپہر کے تین بجے تھے۔ ہو ٹل کے بجائے میں قریب ہی وا قعہائیڈ پا رک کی طرف چلا گیا ۔ دراصل اس آخری دن گھومنے پھرنے کے لئے میں نے کو ئی با قا عدہ پرو گرام ترتیب نہیں دیا تھا۔ بلکہ سفرِ یورپ کی تکان دور کرنے کے لئے آرا م کر نے کا پروگرام تھا ۔لیکن میں اس دن بھی ہو ٹل میں نہ ٹھہر سکا اور بے قرار رُوح کی طرح لندن کی کو چہ نوردی کرتا رہا۔تا ہم میرا دھیان شا م کو روا نہ ہو نے وا لی اپنی پرواز کی طرف تھا ۔اس سے پہلے صرف وقت گزا رنا تھا، جو اب بہت کم رہ گیا تھا۔اگلے دو گھنٹے میں نے کبھی پا رک میں ٹہلتے اور کبھی نرم گھا س پر لیٹ کر گزارے ۔میلوں تک پھیلے اس پا رک میں ہر چہا ر جا نب سبزہ ہی سبزہ ،پو دے، درخت اور بے شمار رنگ برنگے پھول کھلے ہو ئے تھے۔بے شمار لوگ وہا ں ٹہلتے اور نرم گھا س پر لیٹے اور بیٹھے نظر آرہے تھے۔ بہت سا رے جو ڑے پا رک کے خوشگوار ماحول میں اپنے رُومان کو پروان چڑھا نے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں جس درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اس کے سا منے ایک نو جوان لڑکااور لڑکی سکول کے یونیفا رم میں غیر نصا بی سر گرمیوں میں مصروف تھے۔ ظا ہر ہے اس عمر میں انہیں خوابگاہ کی سہولت میّسر نہیں ہو گی ۔لہذا وہ سب کچھ اس پا رک میںکرنے کی کوشش کر رہے تھے جو عمو ماًصرف خوابگاہوں میں ہو تا ہے۔ لڑکے کے ہا تھ اور ہو نٹ مسلسل مصروفِ عمل تھے۔ لڑکی بھی اس سے پوراتعاون کر رہی تھی ۔انکے یو نیفارم کے کوٹ،قمیصیں اور بستے اِدھر اُدھر بکھرے ہو ئے تھے اور وہ دونوں قبل از وقت جوا نی کا سبق سیکھنے اور سمجھنے کی کو ششوں میں مصروف تھے ۔
آسٹریلین،یورپی اورامریکن کلچر میںایسے منا ظر عا م ہیں۔عا م لوگ انکی طرف توجہ کم ہی دیتے ہیں لیکن کنکھیوں سے ہر کوئی دیکھتا ہے۔ پھر صرفِ نظر کر کے گزر جا تا ہے۔اس کے بر عکس ایشیائیوں خصوصاً پاکستانیوں کے لئے ایسے منا ظر انتہائی دلچسپی کے حامل ہو تے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ بھی ان کے عا دی ہو جا تے ہیں اور انہیں یہ سب کچھ عا م سا لگنے لگتا ہے۔شروع شروع میں ان منا ظر کو دیکھنے سے انہیں جس ہیجا ن انگیزی اور گرمیِ جذبات کا احسا س ہو تا ہے آہستہ آہستہ وہکم ہو تا جا تا ہے۔ پھر بھی پا کستان کے کلچر اور پا بند ما حول سے نکل کر یہ سب کچھ ان کے لئے بہت مختلف ہو تا ہے۔سڈنی میں ایک پا کستا نی ڈرائیور نے رات کو ٹیکسی چلا تے ہو ئے ٹیکسی کو ایک کھمبے میں دے ما را۔خوش قسمتی سے ڈرائیور اور پچھلی سیٹ پر مو جود جو ڑا صحیح و سلامت رہا۔ بعد میںپو چھنے پر اس ٹیکسی ڈرائیور نے بتا یا کے میری ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر موجود جو ڑا ایسی حرکات کا مرتکب ہو رہا تھا کہ با وجود کوشش کے میرا دھیان سا منے کے بجا ئے بیک ویو مرّر کی طرف زیا دہ ہو گیا۔ مجھے اس وقت ہو ش آیا جب ٹیکسی کھمبے کے سا تھ جا کر بغلگیر ہوگئی۔میرے خیال میں چا لا ن میرانہیں اس جو ڑے کا ہو نا چا ہیئے تھا جو ٹیکسی کی سیٹ کو اپنے بیڈروم کا بستر سمجھ کر ایسے مصروف ہو گئے تھے جیسے میں انسا ن نہیں بلکہ روبوٹ ہوں۔ آخر میرے بھی تو جذبات ہیں۔
اگلے دو گھنٹے میں نے اس پارک میں بیٹھتے،لیٹتے اور گھومتے گزارے۔اس پارک کے ایک سرے پر کنسنگٹن پیلس اور کنسنگٹن پارک واقع ہے۔ان کی سیر میں پہلے ہی کر چکا تھا۔ہائیڈ پارک میںصرف پارک ہی نہیں کیفے،فلاور شا پ،ٹینس کورٹ،بڑے بڑے مجسّمے اور میوزیم بھی ہیں۔اس پارک میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جو دنیا بھر میں آزا دی ِتقریر کے لئے مشہور ہے۔جہاں کوئی بھی شخص کسی بھی مو ضوع پر تقریر کر سکتا ہے۔ اسے نہ کوئی روکنے والا ہو تا ہے نہ کوئی ٹوکنے والا۔اِسے کہتے ہیں ما در پدر آزا دی۔
ہیتھرو ائر پورٹ، کھانالاہور ریلوے اسٹیشن والا
پانچ بجے میں ہو ٹل واپس آیا۔ ریسیپشن پر جوصا حب براجمان تھے ان سے سفرِیورپ پر روانگی سے پہلے بھی میری ملا قات ہو چکی تھی۔ انکا نا م نوید تھااور پا کستا ن کے صوبہ سرحد سے ان کا تعلق تھا۔ نوید کے بڑے بھائی صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر تھے ۔نوید بر طا نیہ میں پڑھنے کے لئے آیا تھا۔ وہ اس ہو ٹل میں جزوقتی ملازمت کر تاتھا۔میں ہو ٹل کا کمرہ خا لی کر چکا تھالیکن میرا سا مان بطورِ امانت وہیں رکھا ہوا تھا ۔ائیرپورٹ روانہ ہو نے سے پہلے میں شا ور کرنا چا ہتا تھا جس کے لئے نوید نے میر ے لئے ایک کمرہ کھول دیا۔نہا نے اور لبا س تبدیل کر نے کے بعدمیں ہو ٹل کے لاؤنج میں آگیا جہاں نوید نے میرے لئے کا فی بنائی۔ہم دو نوں کا فی پیتے رہے اور پا کستا ن کی با تیں کر تے رہے۔نوید کو وطنکی یاد بہت ستاتی تھی۔اسے برطانیہ زیادہ راس نہیں آیا تھا۔
نوید نے فون کر کے میرے لئے ٹیکسی بُک کرا دی تھی ۔چھ بجے ٹیکسی ڈرائیور ہو ٹل کے اندر چلا آیا ۔ نوید نے اُسے بتایا’’ یہ تمھا رے پیسنجر ہیں اور یہ ا ن کا سا مان ہے۔ انہیں پیڈنگٹن اسٹیشن پر لے کر جا نا ہے‘‘
ڈرائیور نے سا مان اٹھایا اور نوید نے گلے لگ کر مجھے رخصت کیا۔نوید کے مشورے پر میں نے ہیتھرو کے بجا ئے پیڈنگٹن اسٹیشن تک کے لئے ٹیکسی بُک کرائی تھی۔ نوید نے بتا یا ’’ پیڈنگٹن سے آپ کو آسا نی سے ایئرپورٹ کے لئے ٹرین مل جائے گی جو بہت سستی پڑے گی۔ ورنہ ہیتھرو تک کا ٹیکسی کا کرایہ سا ٹھ پو نڈ سے کم نہیں ہے ۔جبکہ پیڈنگٹن تک کی یہ ٹیکسی صرف دس پو نڈ میں بُکہے‘‘
ٹیکسی ڈرائیور کے سا تھ باہر نکلا تو میں نے ٹیکسی کی تلا ش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑا ئی لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آئی ۔ٹیکسی ڈرائیور نے ہو ٹل کے سا منے کھڑی ایک پرائیویٹ کا ر کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے کہا ’’یہی ٹیکسی ہے‘‘
لندن میں ٹیکسی عجیب الخلقت قسم کی کا رہو تی ہے جس کا رنگ سیاہ اور اونٹ کے کوہا ن کی طرح درمیا ن سے اٹھی ہو تی ہے۔ ان مینڈک نما ٹیکسیوں کے علا وہ لندن میں عا م کا ریں بھی ٹیکسی کے طور پر چلتی ہیں۔ ان کو بھی با قاعدہ لائسینس ملا ہو تا ہے۔فرق صرف اتنا ہو تا ہے کہ یہ عا م کا ر وا لی ٹیکسیاں صرف فون بکنگ والے مسا فروں کو لا تی اور لے جا تی ہیں۔ وہ سڑک پر کھڑے مسا فروں کو نہیں اٹھا سکتیں۔جبکہ باقاعدہ ٹیکسیاں دو نوں طریقے سے حا صل کی جا سکتی ہیں اور ہر قسم کے مسافر کو اٹھانے کی اہل ہیں ۔آدھے گھنٹے میں ہم پیڈنگٹن اسٹیشنپہنچ گئے۔ وہا ں سے ائیر پورٹ ایکسپریس پکڑی اور ہیتھرو ائیر پورٹ جا اُترا۔
یہ ائیر پورٹ بھی پورے شہر جیسا ہے۔ بہت ہی بڑا،بہت ہی مصروف اور پھیلا ہوا ہے۔ میں دنیا کے بہت سا رے ائیر پورٹوں میں گیا لیکن اتنا بڑا ائیر پورٹ پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا۔مطلوبہ گیٹ تک جانے کے لئے سا ما ن سمیت کبھی پیدل اور کبھی ایسکا لیٹر ٹریک پرکا فی لمبا سفر کر نا پڑا۔ ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا ٹرمینل طے کر تا ہوا با لآخر میں مطلو بہ گیٹ میں جا کر دا خل ہو ا ۔ا ئیر پورٹ پر ہر طرف گہما گہمی تھی۔ دنیا بھر کے لو گ یہاں دیکھے جا سکتے تھے۔ مختلف لبا س ،مختلف عمروں اور مختلف جنسوں وا لے بے شما ر لوگ اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔یہ ائیر پورٹ کیاہے ایک بین الاقوامی شہر ہے۔ جہا ں پر ہر کلچر،ہر تہذیب،ہر لبا س،ہر رنگ اور ہرنسل کے لو گ دکھائی دیتے ہیں۔ نہ صرف لو گ دکھائی دیتے ہیںبلکہ مختلف تہذیب کے ا فراد کے لئے مختلف قسم کے ریستوران اور دکا نیں بھی مو جو د ہیں۔
پی آئی اے کے کا ؤنٹر پر مسا فروں کی طویل قطا رچیکنگ کے انتظا ر میں کھڑی تھی۔ یہ لاؤنج پورے کا پورا پا کستا نیوں سے بھرا نظر آرہا تھا۔ ہر طرف پا کستا نی چہرے ،شلوار قمیص میں ملبوس پا کستا نی خوا تین اور اُردو اور پنجا بی زبا نوں کی بازگشت سنا ئی دے رہی تھی۔یہاں پا کستا نیوں کے علا وہ بہت کم لو گ نظر آرہے تھے۔بورڈنگ کا رڈ لینے کے بعد ویٹنگ لاؤنج میں گیا تو وہاں رنگا رنگ ڈیو ٹی فری دُکا نیں اور قسم قسم کے کھانوں وا لے ریستوران اور کھا نوں سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خو شبوئیں اپنی جا نب کھینچ رہی تھیں۔انہی ریستورا نوں میں ایک پا کستا نی ریستوران نظر آیا تو میں وہا ں چلا گیا۔ یہ ٹیک اوے( Take Away) کی طرح کا ریسٹورنٹ تھا۔وہا ں سے بریانی کی پلیٹ خرید کر ایک خا لی سیٹ پر بیٹھ کر کھا نے اور اِدھر اُدھر کے نظا روں سے لطف اندوز ہو نے لگا ۔لیکن لطف صرف مئو خر الذکر نے ہی دیاکیو نکہ کھا نا لاہو ر کے ریلوے اسٹیشن کے کھا نوں سے مختلف نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس ریسٹورنٹ والے پہلے کسی پا کستا نی ریلوے اسٹیشن پر یہ کا رو بارکرتے رہے ہوں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہا ں یہ کھا نا پا نچ دس روپوں میں بیچتے ہوں گے اور یہاںہیتھرو میں دس پو نڈ کا۔ظا ہر ہے اُنکی ترقی تو ہو گئی لیکن ان کے کھا نوں نے ترقی نہیں کی اور ان کا معیار ریلوے اسٹیشن سے آگے نہ بڑھ سکا۔
پینا ہو تو پئیں، نہیں تو نہ سہی
کھا نے کے بعد میں ڈیوٹی فری شا پ میں چلا گیا ۔وہا ں سے اپنے دستی سا ما ن میں ایک بیگ کامزید اضا فہ کر کے با ہرنکلا تو دیکھا کہ ہما رے جہا ز کے مسا فر جہا ز پر سوار ہو نے کے لئے گیٹ سے نکل رہے تھے۔ اس وقت نو بج رہے تھے اور ہما رے جہا ز نے سا ڑھے نو بجے اُڑنا تھا۔ (کم از کم ہما ری ٹکٹ پریہی وقت درج تھا) ۔میں بھی دوسرے مسا فروں کے ہمراہ جہا ز میں سوار ہو گیا۔یہ جہا ز سا ڑھے نو بجے کے بجا ئے سا ڑھے گیا رہ بجے وہا ں سے روا نہ ہوا ۔یہ دو گھنٹے انتہا ئی بوریت میں گزرے۔جہا ز کے انجن بندہو نے کی وجہ سے ایر کنڈیشنر بھی بند تھے۔ اس سے جہا ز کے اندرخا صی گرمی ، حبس اورآکسیجن کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ گر می سے گھبرا کر بچّے رو رہے تھے۔لوگ اخباروں کو دستی پنکھابنا کر جھل رہے تھے ۔با ر بار گھڑیاں دیکھتے،اِدھر ُادھرجا تے پی آئی اے کے عملے کی طرف رحم طلب نظروںسے دیکھتے ،آنکھیں بند کر کے سو نے کی کوشش کر تے اور کبھی کھڑکی سے با ہر روتے بسورتے مو سم کو دیکھ کروقت گزارنے کی کو شش کر رہے تھے۔میں نے پا س سے گزرتے ہو ئے پی آئی اے کے عملے کے ایک صا حب سے کہا ,,کیوں صاحب !کیا با ت ہے یہ جہا ز کیوں نہیں اُڑ رہا ،،
بولے’’ مو سم کی خرا بی کی وجہ سے تھوڑی سی تا خیر ہو گئی ہے۔ بس تھو ڑی دیرمیں چلنے وا لے ہیں‘‘
میں نے کہا’’ موسم تو اب بھی ویسا ہی ہے۔ اب کیسے اُڑیں گے ؟ویسے ہما رے سا منے دوسری ائیر لا ئنوں کے بے شما ر جہا ز ائیر پورٹ سے اُڑ رہے ہیں ۔آخران پر مو سم کا اثر کیوں نہیں ہو رہا؟کیا پی آئی اے کے جہا ز ان کے مقا بلے میں اتنے نا زک ہیں کہ اس معمولی با رش میں اُڑنے کے قا بل نہیں ہیں؟اگر ایسا تھا تو ہمیں جلدی جلدی جہا ز کے اندر لا دنے اور اس گر می میں بٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں لا ؤنج میں کم از کم یہ حشر تو نہیں تھا ‘‘
ان صا حب نے کو ئی جوا ب نہیں دیا یا ان کے پا س کو ئی جوا ب تھا ہی نہیں۔ دوسرے لو گ بھی ایسے ہی سوا ل کر رہے تھے۔ انہوں نے عا فیت اسی میں جا نی کہ کا ک پٹ میں جا کر چھپ جا ئیں۔ خدا خدا کر کے ساڑھے نو کی بجا ئے سا ڑھے گیا رہ بجے یعنی دو گھنٹے کے بعد جہا ز کے انجن بیدا ر ہو ئے،رن وے پر تھو ڑی سی بھا گ دوڑ کے بعد اس نے پر پھیلائے اور اُوپرسے اوپر اٹھتا ہوا آسما ن کی وسعتوں میں محوِ پرواز ہو گیا۔ مسا فروں نے سکون کی سا نس لی ۔سب سے زیا دہ اس با ت پر کہ گر می سے ان کی جا ن چھو ٹی تھی ۔ میری سیٹ جہا ز کے پچھلے حصّے یعنی کچن کے پا س تھی۔ اس سیٹ میں کچھ خرا بی تھی۔ اس کی پشُت پیچھے کی جانب نہیں کھُل رہی تھی۔ میں نے ایک فضا ئی میز با ن سے اس کی شکا یت کی ۔اس نے بھی کو شش کی لیکن نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔میرے آگے والی سیٹ پر بیٹھے صاحب نے اپنی سیٹ کی پشُت پیچھے کر لی تھی۔ اس سے میں مزید پھنس کر رہ گیا۔ اپنے جسم اور قد کے لحا ظ سے وہ جگہ میر ے لیے نا کا فی تھی۔ میرے گھٹنے سامنے وا لی سیٹ کے سا تھ پھنس کر رہ گئے تھے۔ وہ ائیر ہو سٹس’’ کچھ کر نے‘‘ کا وعدہ کر کے چلی گئی۔ اس کا وعدہ بھی پا نچویں دن وا لا وعدہ ثا بت ہوا کیو نکہ اگلے ایک گھنٹے تک اس کی شکل ہی دکھا ئی نہیں دی۔ اس دوران تک میرے گھٹنے درد کر نے لگے تھے۔میں نے ایک دوسرے مرد سٹیورڈ سے شکایت کی تو اس نے ایک نو جوا ن لڑ کے سے میری سیٹ تبدیل کر دی۔ اس نو جوا ن نے رضا کا را نہ طور پر اس تبدیلی پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا جس سے میرے گھٹنوں کو کچھ سکون ملا۔
سنگا پور اور بنکا ک سے میں نے اکثر پی آئی اے پر سفر کیا تھا ۔ان روٹوں پر پی آئی اے کے جہا ز اکثرخا لی ہوتے ہیں ۔بہت سا ری سیٹیں خا لی پڑی ہو تی ہیں۔ اس کے مقا بلے میں لندن سے چلنے وا لی اس فلائٹ میں کو ئی سیٹ خا لی نہیں تھی۔ اس وجہ سے جہا ز میں خوب گہما گہمی ،با توں کا شور اور بچوں کے رو نے کی آوا زیں سنا ئی دے رہی تھیں ۔میں چو نکہ سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ وہا ں جہا ز کا میز با ن عملہ بھی مو جود تھا اور مسا فروں کو مشروبا ت سرو کر نے کے لئے ٹرا لیاں لے کر آگے جا رہا تھا ۔ایک صا حب نے دوسرے سے کہا ,,کو ن سی ڈرنک لے کر جا ؤں؟ سپرا ئٹ اور کو ک یا دوسری ڈرنکس بھی،،
دوسرے نے کہا ,, صرف سپرا ئٹ لے جا ؤ،پینا ہو تو پئیں، نہیں تو نہ سہی،،
ائیر ہو سٹس ڈرنک لے کر چلی تو میرے سا منے وا لی سیٹ کے در میا ن میں بیٹھے ہو ئے صاحب نے ان سے کچھ کہنا چا ہالیکن اس نے سُنی ان سُنی کر دی۔میں نے اس سے کہا ,,وہ صا حب آپ سے کچھ کہنا چا ہ رہے ہیں،،
ان صا حبہ نے پہلے تو مجھے گھور کر دیکھا اور پھر اُس سے بھی درُشت اندا ز میں ان صا حب کی طرف دیکھا لیکن زبان سے کچھ کہناشا یا نِ ِشا ن نہیں سمجھا۔ ان صا حب نے کہا ,, میری ٹا نگوں میں تکلیف ہے۔ برا ہ مہربانی مجھے ایک کمبل دے دیں،،
ائیر ہو سٹس صا حبہ نے اسُی دُرشت روّیے کے سا تھ جوا ب دیا،،آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں ڈرنک سرو کر رہی ہو ں۔ آپ لو گ ابھی جہا ز پر بیٹھتے نہیں کہ مسئلے شروع ہو جا تے ہیں۔ اگر سر دی لگ رہی ہے تو گرم کپڑے پہن کر چلنا چا ہیے تھا،،
ادھیڑ عمر کے ان صا حب نے کہا ,,دیکھئے مو سم کی منا سبت سے میں نے منا سب کپڑے پہن رکھے ہیں۔ لیکن ایک جگہ سا کن بیٹھنے اور ائیر کنڈیشنز کی ٹھنڈک کی وجہ سے یہ تکلیف شروع ہو ئی ہے۔ میں نے ایک کمبل ہی مانگا ہے۔آپ نا را ض کیوں ہو رہی ہیں؟،،
,, نا را ض نہ ہو ں تو کیا کروں۔ آپ لو گ پی آئی اے کے جہا ز پر بیٹھتے ہیں تو یہ سا رے نخرے ہو تے ہیں۔اگر کسی اور ائیر لائن میں بیٹھیں تو یہ سب کچھ نہیں ہو تا،،
وہ صا حب قدرے غصّے میں بو لے ,,یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ کیا یہی رویہ آپ کو مسا فروں کے سا تھ رکھنا چا ہیے؟ آپ کی سروس تو اچھی نہیں ہے اس کے ساتھ مسا فروں کے سا تھ آپ کا رویہ اس سے بھی خراب ہے۔جتنی دیر کھڑی ہو کر آپ بحث کر رہی ہیں اتنی دیر میں آپ کمبل لا کر دے بھی سکتی تھیں۔ پتا نہیں کس نے آپ لو گو ں کو تربیت دی ہے۔ بین الاقوا می فلا ئٹوں پر ایسے بد تمیز عملے کو رکھ کر ملک کو بد نا م کیا جا رہا ہے۔ آپ نے کمبل نہیں دینا نہ دیں۔ جائیں میری جا ن چھو ڑیں ،،
اتنی دیر میں دوسرے مرد اسٹیورڈ نے ایک کمبل لا کر ان صا حب کو دے دیا ۔بحث کر نے والی ائیر ہو سٹس زور سے’’ اونہہ‘‘ کر کے ٹرا لی دھکیلتی ہوئی چلی گئی ۔
تھو ڑ ی ہی دیر میں جہا ز کی رو شنیاں گُل کردی گئیں اور مسا فرسو نے کی کو شش میں مصروف ہو گئے۔ میرے پاس تکیہ نہیں تھا ۔میں نے اسی مرد اسٹیورڈ سے کہا ’’ برائے مہر با نی مجھے ایک تکیہ دے دیں‘‘
وہ صا حب گئے اور تھو ڑی دیر میں آکر کہا ,,سوری تکیے ختم ہو گئے ہیں ،،
نا چا ر تکیے کے بغیر ہی میں سونے کی کو شش کرنے لگا ۔جہا ز کی تنگ سیٹوں اور سیٹوں کے درمیان تنگ جگہ کی وجہ سے سو نا ہمیشہ میرے لئے مشکل ہو تا ہے۔ اوپر سے تکیہ نہ ہو نے کی وجہ سے گردن بھی درد کر نے لگی۔
اس طرح کچھ سو تے،کچھ جا گتے،کچھ گر دن اور گھٹنوں کو سہلا تے یہ چھ گھنٹے گزر گئے اور ہم بر طا نیہ کے وقت کے مطا بق صبح سا ڑھے پا نچ بجے اور دبئی کے وقت کے مطا بق سا ڑھے آٹھ بجے دبئی ائیر پو رٹ پر جا اُترے۔دبئی میں ہما رے جہا ز نے ایک گھنٹے کے لئے رُکنا تھا ۔ہمیں بتا یا گیا کہ اگر ہم چا ہیں تو آدھے گھنٹے کے لئے با ہر لاؤنج میں جا سکتے ہیں ۔دبئی ائیر پورٹ خا صا بڑا ،مصروف اور انتہائی صا ف ستھرا ہے۔پوری عما رت اور عما رت کے اندر ہرچیزنئی نئی اور جدید تکنیک کی حا مل ہے۔ مثلاً ائیر پو رٹ پر واقع با تھ رومز میں میں نے پہلی دفعہ ایسی ٹو نٹیاں دیکھیںجن کے قریب ہا تھ لے کر جا ؤ تو ٹو نٹی سے پا نی آنا شروع ہو جا تا ہے۔ ہا تھ ُدور کرو تو پا نی بند ہو جا تا ہے۔بعد میں ایک صا حب نے بتا یا کہ ایسی ٹیکنا لوجی انتہائی گراں ہو نے کی وجہ سے یو رپ اور امریکہ میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہے۔ لیکن ہما رے شیخ بھا ئیوں نے ا پنی سا دہ لو حی کی وجہ سے یورپین کمپنیوں سے انتہائی مہنگے دا موں خریدی ہے۔ اس کی مر مّت اور دیکھ بھا ل پر جتنا سر مایہ خرچ ہو تا ہے کو ئی بھی سمجھ دار ملک اسے استعمال کر نے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔لیکن شیخ صاحبان بز نس کی ان با ریکیوں سے با لا تر ہیں۔ جب تک تیل کی آمدنی ہے دنیا لو ٹنے پر اور وہ لٹُنے پر تیا ر رہتے ہیں ۔جب تک ان کو سمجھ آئے گی اس وقت تک چڑیا ں کھیت چُگ چکی ہو ں گی۔
دبئی سے کرا چی تک کا سفر دو گھنٹوں میں گزر گیا اور میں تین ہفتے کے بعد پھر ارضِ وطن کی خوشبوکو جسم وجان میں سمیٹنے کراچی کے بین الاقوامی ہوا ئی اڈّے پر ا ترا۔
شا م ہو تے ہی کراچی انگڑائی لے کر اُٹھتا ہے
دن کی روشنی میںکراچی اُوپر سے کچھ پھیکا پھیکا سا لگا ۔خصوصاً جب آپ دنیا کے بڑے بڑے اور تر قی یا فتہ شہروں کی بڑی بڑی عما رتوں کو دیکھ کر آئے ہوں تو کرا چی کے مکا نات چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ رات کے وقت کرا چی فضا سے بہت حسین دکھائی دیتا ہے۔ اِس کی رنگا رنگ روشنیاں اس کے عرو س البلاد ہونے کاثبوت دیتی ہیں۔ یہ سب دور سے دیکھنے کی باتیں تھی۔ کراچی کا سحر اس کے اندر جا کر محسوس ہوتا ہے۔ ائیر پورٹ سے با ہر نکلا تو اس کی رونق ،اپنے لوگ ، اپنی زبان اور سب سے بڑھ کر اپنی مّٹی کی خو شبو جیسے جا دُو سا کر نے لگی اور مجھے ایسا لگاکہ آغوش ِما در میں پہنچ گیا ہو ں۔
کرا چی میرا اپنا شہر ہے ۔میرا جنم پنجا ب کا ہے لیکن میری پرورش کراچی نے کی ہے۔میں نے زندگی کے بہت اہم سا ل کرا چی میں گذارے ہیں ۔وہیں تعلیم حا صل کی ۔کرا چی نے مجھے جسما نی اور ذہنی طور پرپروان چڑھایا ہے۔کرا چی سے مجھے محبت ہے۔اس غریب پرور،روز گا ر فراہم کرنے والے ، ہر زبان ، ہر نسل اور ہر رنگ کے لوگوںکو اپنی مہر با ن آغوش میںسمیٹ لینے وا لے شہر کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔یہاں کے دن سوتے اور را تیں جا گتی ہیں۔ جب شا م ہو تی ہے تو کرا چی جیسے انگڑائی لے کر اُٹھتا ہے۔ اس کی روشنیاں جا گ اٹھتی ہیں۔ دکا نیں سج جا تی ہیں۔ گا ہکوں کا تا نتا بندھ جا تا ہے۔ رنگا رنگ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو با زا روں میں پھیل جا تی ہے۔لوگ سج اور سنور کر با زا روں میں نکلتے ہیں ۔خواتین،بچے اور بڑے ہر عمر کے لوگ اپنی اپنی دلچسپی کے مطا بق دکا نوں اور ریستورانوں سے استفا دہ کرتے ہیں ۔ قسم قسم کی گا ڑیا ں کرا چی کی سڑکوں پر ایسے قبضہ کر لیتی ہیں کہ کوئی جگہ خا لی دکھا ئی نہیں دیتی۔با زا روں،سڑکوں،گلیوں،ہو ٹلوں،دکا نوں اور گا ڑیوں میں لوگ ہی لوگ دکھا ئی دے رہے ہوتے ہیں ۔
کرا چی کے زندہ دل لوگ اس وقت مستی اور سر خوشی کے عا لم میں ہو تے ہیں۔ہر چہرے پر مسکرا ہٹ،ہر دل جوا ن اور ہر طرف نغمہ ِمسرت گو نج رہا ہو تا ہے۔کیما ڑی سے نیو کرا چی اورما ڑی پور سے لا نڈھی تک انسان ہی انسا ن دکھا ئی دیتے ہیں۔ کراچی انسانوں کا ایک ٹھا ٹھیں ما رتا سمندر بن جا تا ہے ۔کرا چی کے علا وہ دنیا کے کسی بھی کو نے میں چلے جا ئیں آپ کو یہ رو نق نہیں ملے گی۔بہت ہی دکھ ہو تا ہے جب کرا چی کی ان رونقوں کو نظر لگ جا تی ہے۔دشمنوں اور دہشت گردوں نے کرا چی کو اتنے گھاؤ لگائے ہیں کہ اسکا کو ئی نہ کوئی زخم ہر وقت رِستا رہتا ہے۔ ایک زخم مندمل ہو نا شروع ہو تا تو اس کے دشمن اسے ایک نیا زخم دے دیتے ہیں ۔میری دُعا ہے کہ کرا چی کے یہ سا رے زخم دُھل جا ئیں۔ اس دُھلے ہو ئے چہرے کے سا تھ اس بلادالعروس کی رو نقیں قا بلِ دید ہو جا ئیں گی۔ اس کا حُسن ہر دیکھنے وا لی آنکھ کو خیرہ کر دے گااور اس کے زندہ دل با سیوں کو امن اور چین کی زندگی نصیب ہو گی۔
کرا چی میں ایک ہفتہ جیسے پلک جھپکتے میں گزر گیا ۔رشتہ دا روں،دوستوں اور ہموطنوں میں وقت گزرنے کا احسا س کب ہو تا ہے ۔اپنے لو گ، اپنا ما حول،اپنا لبا س،اپنے کھا نے اور اپنوں کی بے پنا ہ محبت ۔یہ سب ہم جیسے غریب الوطن لو گو ں کے لئے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ جو ہمارے اندر نئی رُوح پھونک کرہمیں تازہ دم کر دیتی ہیں ۔ اِن نعمتوں کی لذت مدتوں تک ہمارے ساتھ رہتی ہے اور ہمیں وطن کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ یہ نعمتیں ہمیں کہیں اور نہیں مل سکتیں۔ پیرس جیسے شہرہ آفا ق شہر میں گھنٹوں گھوم کر بھی اپنی مر ضی کا کھا نا نہیں ملتا ۔لندن ہو یا ایمسٹرڈم،میونخ ہو یا سڈنی، کرا چی کی طرح با نہیں کھو ل کر استقبا ل کر نے وا لا کوئی شہر نہیں ہے ۔
ایک ہفتے بعد بوریا بستر با ندھ کرپھر کرا چی ائیر پورٹ جاپہنچا۔اس دفعہ میر ی منزل سڈنی تھی جہا ں میرا گھر ہے۔کرا چی ائیر پورٹ پر بہت سے عزیز واقارب اور دوست احبا ب رخُصت کر نے آئے ۔سب اپنے اپنے دا من میں پیا ر اور خلوص کی خوشبو سمیٹے ہو ئے تھے۔ لیکن میں رخصتی کے ان لمحات میں اپنے وطن کی فضا ؤں اورہوا ؤں کواپنے اندر سمیٹنے کی کو ششوں میں مصروف تھا۔ہر جا نب اپنے ہم وطنوں کو الوداعی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔دل نہیں چا ہ رہا تھا کہ کو چہِ جا نا ں سے دور ہو جا ؤں۔ مگر ہم بے وطنوں کے پاؤں کے نیچے زمین کھسکتی رہتی ہے۔ آہستہ آہستہ ہما رے پاؤں اس مّٹی سے الگ ہو تے جا تے ہیں۔ دل وہیں رہ جا تا ہے اور جسم اجنبی منزلوں کی جا نب روانہ ہو جاتاہے۔
کراچی ائیر پورٹ پر ہما رے سا تھ پا کستا ن کی ہا کی ٹیم بھی مو جو د تھی ۔میرے سا تھیوں میں سے کوئی پا کستا ن کے شہر ہ ِآفا ق فاروڈ کا مرا ن اشرف سے جا کر ملا تو معلوم ہوا کہ ہا کی ٹیم کی منزل بھی آسٹریلیا ہے۔ تا ہم وہ براہِ راست مغربی آسٹریلیا کے دارالحکومت پرتھ جا رہے تھے۔جہا ں تین میچ کھیلنے کے بعد وہ وا پس سڈنی آ نے والے تھے۔ پاکستان کی ہاکی ٹیم نے اولمپک سے پہلے ایک ما ہ سڈنی میں رہنا تھا تاکہ اولمپک سٹیڈیم میں پریکٹس کر سکیں۔صرف ایک ماہ بعد سڈنی میں 2000کی اولمپک گیمز ہو نے وا لی تھیں ۔ہما ری ہا کی ٹیم کا دورہ اسی سلسلے میں تھا۔ائیر پورٹ کے اندر حسبِ معمول گہما گہمی تھی۔ لیکن میں صرف چند دن قبل ہیتھرو ائیر پورٹ دیکھ کر آیا تھا ۔اس کے مقا بلے میں کرا چی ائیر پورٹ کسی گا ؤں کا ائیر پورٹ لگتا تھا ۔ پھر بھی یہ با ت قا بلِ ستا ئش ہے کہ اس میں جدید ائیر پورٹ کی بیشتر سہولتیں مو جود ہیں۔ یہ اسلام آباد ائیر پورٹ کی طرح نہیں ہے جہاں آج کل کے دور میں بھی جہا ز سے ٹر منیل تک مسا فروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بس میںسفر کر نا پڑ تا ہے۔اس کے مقا بلے میں کرا چی میں جدید ایسکا لیٹر سسٹم مو جود ہے جو اسے بین الاقوامی ائیر پورٹ ظا ہر کر تا ہے۔
میں نے اپنا سا ما ن چیکنگ کے لئے وزن کر نے وا لی مشین پر رکھا تو معلوم ہو ا کہ میرا سا ما ن مقررہ وزن سے قدرے زیا دہ ہے ۔میں نے رحم طلب نظروں سے متعلقہ صا حب کی طرف دیکھا ۔لیکن میر ی نظروں کا ان پر کو ئی اثر نہیں ہوا ۔کہنے لگے’’ آپ کے پا س سا ما ن زیا دہ ہے۔ اسے کم کر لیں یاپھر اس کا اضافی کرا یہ ادا کر نا پڑے گا،،
میں نے جب کرا ئے کی شرح در یا فت کی تو معلوم ہوا کہ یہ آٹھ سو روپے فی کلو ہے ۔گو یا جو تے کے ایک جو ڑے کا کرا یہ آٹھ سو روپے بنتا تھا۔ ممتا ز مفتی کی کتا ب ,,علی پور کا ایلی،،دو ہزار روپے میں آسٹریلیا لے جائی جا سکتی تھی ۔میرے دوست اشرف شاد کا نا ول ,, بے وطن،،بھی سو لہ سو روپے سے کم میں نہیں پہنچتا تھا۔ملتا ن کا سو ہن حلوہ جو دو سو روپے کلوکے حسا ب سے خریدا گیا تھاآسٹریلیا پہنچتے پہنچتے ہزار روپے کلو پڑ تا تھا ۔میں نے کرا چی کے ایک مشہورٹیلر سے چا ر سوٹ بنوا ئے تھے۔ سب سے زیا دہ وزن انہی کا تھا۔ ان میں سے کو ئی سوٹ پانچ کلو سے کم نہیں تھا۔اگرچہ اس بہترین کا ریگر نے صرف دو ہزا ر میں ایک سو ٹ سی دیا تھا۔ لیکن پی آئی اے کا کرا یہ دینے کے بعد اس سو ٹ کی سلائی میں چا ر ہزا ر کا اضا فہ ہو جا تا تھا۔اس طرح بہت سی اشیاء ایسی تھیں کی پا کستا ن میں آسٹریلیا کی نسبت سستی سمجھ کر خریدی گئی تھیں۔ لیکن کرایہ ادا کرنے کے بعد ان کی قیمت آسٹر یلیا کی قیمت سے زیا دہ ہی ہو جا تی تھی۔ اضافی کرایہ دے کرانہیں آسٹریلیا لے جا نے کا کو ئی فا ئدہ نہیں تھا۔لہذا میں نے جما جما یا اور خوبصورتی سے تہہ کیا ہوا سوٹ کیس دوبارہ کھو لا ۔کچھ کم ضروری اشیاء الگ کیں۔ کچھ اپنے ہینڈ بیگ میں منتقل کیں اور با قی با ہر جا کر بھا ئی کو دے آیا۔اس کے بعد کاؤنٹرکے عملے سے کہا ,, اب چیک کریں۔ اب بھی آپ کا جہا ز اسے اٹھا نے کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟‘‘
وہ صا حب مسکرا کر کہنے لگے ,, اب بھی تھوڑا زیا دہ ہے لیکن میں اسے چھوڑ رہا ہوں۔ ویسے ہما را جہا ز تو پہلے بھی اسے اُٹھا نے کا متحمل ہو سکتا تھا بشرطیکہ آپ کی جیب اس کی متحمل ہو سکتی،،
ان صاحب کی بات مجھے اچھی لگی۔ میں نے کہا,, صا حب!اس جیب کا حا ل نہ ہی پو چھیں تو بہتر ہے۔ بہت دنوں سے اس کی آمد بند اور رفت جا ری ہے اور اب تو یہ صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ ویسے میں بہت عر صے بعدپی آئی اے کے ایسے سٹاف سے ملا ہوں جو کسٹمر سے مُسکرا کر با ت کر تا ہے۔ آپ تو ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ میر ی طرف سے آپ کو مبا رک ہو،،
ان صا حب کی با چھیں مزید کُھل گئیں,, لگتا ہے آپ پی آئی اے سے زیا دہ خوش نہیں ہیں یا آپ کسی نا خوشگوار تجربے سے دو چا رہو ئے ہیں ،،
,,اپنی پسند کی شا پنگ کو اس طرح یہاں چھوڑنے کو آپ زیا دہ خوشگوار تجربہ تو نہیں کہہ سکتے۔ ویسے میں تجربے ہی جمع کر نے نکلا ہوں ۔ہو سکتا ہے کسی دن آپ کی نظر سے بھی گذریں،،
ان صا حب نے نہ سمجھنے والے اندازمیں گر دن ہلا ئی، میرا بورڈنگ کا رڈ ،ٹکٹ اور پا سپورٹ میرے حوا لے کیا ۔میں نے دروا زے کے با ہر کھڑے عزیز واقارب کی طرف الوداعی ہا تھ لہرایا اور دوسرے مر حلوں سے گزرتا ہوا ڈیپارچرلاؤنج میں جا پہنچا۔ابھی فلائٹ میں کچھ وقت با قی تھا۔ اس لئے میں پبلک فو ن سے چند لوکل کالز کر نے چلا گیا۔پی سی او پر مو جود صا حب نے کہا’’ لو کل کا ل دس رو پے کی ہے جس کا دورانیہ تین منٹ ہے یا پھر آپ سو روپے کا کا رڈ خرید سکتے ہیں جس سے اپنی مرضی سے جتنی چا ہیں کا ل کر سکتے ہیں‘‘
میں نے سو روپے دے کر کا رڈخرید لیا۔ پہلی کال کراچی میں ہی کی ۔چند منٹ با ت ہو ئی۔ اس کے بعد میں نے دوسرا نمبر ملا یا تو معلوم ہو ا کہ کریڈٹ ختم ہو گئے ہیں۔میں نے ان صاحب سے کہا ’’ بھا ئی یہ سو روپے کا کا رڈ تو ایک ہی کا ل سے ختم ہو گیا ہے۔ اس میں کیا واقعی سو روپے کا کریڈٹ تھا؟‘‘
,,جی ہا ں !اس پر لکھا دیکھ لیں،یہ سو روپے کا کارڈہے،،
,,وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہو ں اس پر سو روپے لکھا ہوا ہے۔ لیکن ایک لو کل کا ل کے بعد یہ ختم کیسے ہو گیا،،
ان صا حب نے رکھا ئی سے کہا ,,مجھے کیا معلوم !آپ اس کمپنی کو فو ن کر کے شکا یت کریںکہ ان کے کا رڈ میں پو رے کریڈٹ کیو ں نہیں ہیں ،،
میں نے کہا’’ آپ چا ہتے ہیں کہ ان کو فو ن کر نے لئے آپ سے مز ید سو رو پے کا کا رڈ لوں اور شکا یت کر نے پر یہ کمپنی کیا مجھے کریڈٹ لوٹا دے گی ۔کا رڈ آپ بیچ رہے ہیں۔آپ کو معلو م ہو نا چا ہیے کہ اس میں کریڈٹ کیوں کم ہیں‘‘
ان صا حب نے سُنی ان سُنی کر دی اور دوسرے کسٹمر کے سا تھ مصروف ہو گئے ۔ میں وا پس اپنی سیٹ پر آبیٹھا ۔اس سے پہلے دورانِ قیا م کرا چی بھی میں نے دو دفعہ پا نچ پا نچ سو روپے کے کا رڈ خریدے تھے۔ایک دفعہ اسلام آبا د فو ن کیا تقریباً ڈیڑھ سو روپے کے کر یڈٹ خرچ ہو ئے۔ جب یہ کا رڈدوبا رہ استعمال کر نا چا ہا تو اس میں کچھ با قی نہیں بچا تھا ۔دوسری دفعہ لا ہو ر فو ن کیا۔ اس کا ل پر بھی اندازاََ سو روپے خرچ ہو ئے ہوں گے لیکن دوسری دفعہ کال کرنے پر معلوم ہو ا کہ کارڈخالی ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ فراڈ وہ کیسے کر تے ہیں ۔کا ل ختم ہو نے پر بقیہ کریڈٹ بتا ئے جا تے ہیں۔ لیکن دوسری دفعہ کا ل کرو تو اس وقت تک یہ کریڈٹ کا رڈ سے ایسے دُھل چکے ہو تے ہیں جیسے وا شنگ مشین سے نکلنے وا لے کپڑوں سے میل۔
آہستہ مِس آہستہ!وہ پہلے کافی پئے گا
کراچی سے سنگا پور آنے والی پی آئی اے کی یہ فلائٹ حسبِ معمول آدھی سے زیا دہ خا لی تھی ۔جہا ز کے پچھلے حصّے میں میری سیٹ پا کستا نی ہا کی ٹیم کے گو ل کیپر کپتا ن احمد عا لم کے ساتھ تھی۔ کا مرا ن اشرف جو احمد عا لم کا دوست بھی ہے ہما رے سا تھ ہی بیٹھا ہو ا تھا۔سیٹیں خا لی ہو نے کی وجہ سے دوسرے کھلا ڑی ادِھر ادُھر آجا رہے تھے۔اس ٹیم کے سا تھ سا بق اولمپین اور چیمپین فا رورڈ صلاح الدین بحیثیت کو چ اور بریگیڈئیرمحمد اصغر بحیثیت منیجرجا رہے تھے۔ کو چ اور منیجر آگے کہیں فرسٹ کلاس میں بیٹھے تھے جبکہ کھلا ڑی اکا نومی کلا س میں سفر کر رہے تھے۔صلاح الدین دورا نِ سفر کئی دفعہ اٹھ کر کھلاڑیوں کے پا س آئے۔ ان سے گپ شپ کی اور واپس اپنی سیٹ پر چلے گئے۔ تا ہم منیجر کو میں نے سنگا پور تک ایک دفعہ بھی کھلا ڑیوں سے ملتے نہیں دیکھا۔میں اس ٹیم کے کھلا ڑیوں سے زیا دہ تر کو نہیں جا نتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیا میں رہتے ہو ئے ہمیں ہا کی میچ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔تا ہم اصلاح الدین صا حب کے دور کی تما م ٹیم کو جا نتا تھا۔جو اس وقت دنیا کی بہترین ٹیم بھی تھی اور اس میں بڑے بڑے سٹار کھلا ڑی مو جو د تھے۔ میں انہیں کھیلتے بارہا دیکھ چکا تھا۔
احمد عا لم نے دوسرے تما م کھلا ڑیوں کے با رے میں مختصراََ مجھے بتا یا۔ اس سفر میں اور بعد کی ملاقاتوں میںایک با ت جو میں نے ان قو می ہیروز میں نو ٹ کی، وہ ان کی طبیعت کی سا دگی تھی۔تقریباًتما م ہی کھلا ڑی انتہا ئی سادہ طبیعت اور سادہ مزاج کے ما لک نظر آئے ۔ان میں سے کسی میں بھی ہیروپن کی نخوت اور بنا وٹ نہیں تھی۔وہ نہ صرف کھل کر با تیں کر رہے تھے بلکہ انتہائی سا دہ سوال پو چھ رہے تھے ۔ اس دفعہ وہ آسٹریلیا قدرے لمبے عر صے کے لئے جا رہے تھے۔ ان میں سے کئی کھلا ڑی پہلی مر تبہ وہاں جا رہے تھے۔ اس لئے وہ مجھ سے آسٹریلیاکے با رے میں عمومی اور سڈنی کے با رے میں خصو صی طور پر مختلف باتیں پوچھ رہے تھے۔ان سٹار کھلا ڑیوں کے سوال کسی کلب،ریسٹورنٹ،شا پنگ سینٹرز،تفریحی اور قا بلِ دید مقا م کے با رے میں نہیں تھے۔ بلکہ وہ مجھ سے یہ پو چھ رہے تھے کہ وہا ں حلال کھا نا ملتا ہے کہ نہیں؟ہمارے ہو ٹل کے قریب کوئی مسجد ہے کہ نہیں ؟پا کستا ن فو ن کر نا ہو تو کتنی رقم لگتی ہے؟مو سم کیسا ہے؟ہو ٹل میںنما ز پڑھنے کی جگہ ہو تی ہے کہ نہیں؟شلوا ر قمیص پہن سکتے ہیںیا نہیں؟روز مرّہ استعمال کی عام اشیاء میں حرا م شے تو شا مل نہیںہو تی؟اگر ایسا ہے تو ہم ان چیزوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
اس طرح کے سوال ہما رے یہ ہیرو پو چھ رہے تھے۔میں نے نو ٹ کیا کہ پا کستا ن کے قو می کھیل ہا کی کے ان ہیروز میں سے زیا دہ تر متوسط گھروں سے آئے ہیں۔ان میں سے زیادہ ترمذہبی جذبا ت و خیالات کے حا مل ہیں۔ وہ شہرت اور دولت کے بھوکے نہیں ہیں بلکہ صرف اپنے کھیل پر تو جہ دیتے ہیں ۔منیجر اور کو چ ان کم عمر کھلا ڑیوں کے سا تھ با پ اور بڑے بھا ئی کی طرح سلوک کرتے ہیںاور کھلا ڑی ہر چھو ٹی بڑی با ت کے لئے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ جہا ں منیجر اور کو چ لے جا ئیں ،جا تے ہیں ورنہ خود سے کہیں نہیں جا تے۔اس کا اندا زہ مجھے بعد میںبھی ہوا۔جب سڈنی میں قیا م کے دوران کا فی دنوں کے بعد ایک کھلا ڑی نے مجھ سے پو چھا ,,طا رق بھا ئی!یہاں ہما رے ہو ٹل کے قریب کو ئی دُکا ن ہے، میں نے شیو کے لئے کچھ چیزیں خریدنی ہیں،،
اس وقت تک میں کئی دفعہ ہو ٹل جا کر ان کھلا ڑیوں سے مل چکا تھااور وہ بھی میرے گھر آچکے تھے۔نا ر تھ رائڈکا سٹیمفورڈ ہو ٹل( Stamford,North Ryde) یو ں تو سڈ نی کے مر کزی شہری علا قے سے قدرے دور نیم صنعتی اور نیم رہا ئشی علاقے میں واقع ہے لیکن اس سے صرف پا نچ سا ت منٹ کی مسا فت پر ایک بہت بڑا شا پنگ سینٹر مو جو د ہے۔ہا کی ٹیم ایک ہفتے سے وہا ں مقیم تھی اور روزا نہ ہو م بش اولمپک سٹیڈیمebush Olympic Park) (Hom جا کر پریکٹس کر تی تھی۔لیکن یہ کھلا ڑی شہر تو در کنار اپنے ہو ٹل سے ملُحقہ شا پنگ سینٹر سے بھی لا علم تھے۔اس سے ہما رے قومی ہیروز کی سا دگی کا اندازہ ہو تا ہے ۔تا ہم یہ کھلاڑی جب میدا ن میںاُترتے ہیں تو پو رے جو بن پر نظر آتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے بڑ ے بڑے ملکوں کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے سا منے سینہ تان کر کھڑے ہو تے ہیں۔ اس وقت نہ انہیں کو ئی احسا سِ کمتری ہو تاہے اور نہ ان کی چا ل ڈھال میں کوئی کمزوری دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ اُن میں چیتے کی سی پُھرتی اور شیر کی سی دلیری نظر آتی ہے۔
میری دُعا ہے کہ پا کستا ن کی ہا کی ٹیم ما ضی کی طرح پھر سے کامیابیوں کی معراج پر پہنچے ۔ دنیا کی کوئی بھی ٹیم ان کے مقا بلے میں نہ ٹھہر سکے۔اور وہ فتح و کامرانی حاصل کر کے دنیا کے ہر میدان میںپاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سر بلند کریں۔
یو ں تو جہا ز کا پوراعملہ کھلا ڑیوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہا تھا (شا ئد اس کی وجہ یہ تھی کہ انکے سا تھ کچھ پریس رپورٹر بھی تھے) لیکن ایک گداز بدن ائیر ہو سٹس احمد عا لم پر خصوصی مہر با ن ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ خاتون ان کھلاڑیوں کی نسبت کہیں زیا دہ ماڈرن اور فرینک تھی۔اپنا کام کر نے کے بجائے وہ با رباراحمد عا لم کے پاس آجا تی اور خواہ مخواہ فری ہو نے کی کوشش کر تی۔ان کے پاس آکر بیٹھ جاتی،ہنسی مذاقکر تی،کبھی ڈرنک لے کر آتی اور کبھی’ اخبارِ جہاں‘ اٹھالاتی۔ احمد عا لم کو ان صا حبہ کی جسارتیںکچھ زیا دہ پسند نہیں آرہی تھیں۔ وہ واضح طور پر مضطرب دکھا ئی دے رہے تھے۔ ائیر ہو سٹس کے لطیفوں اور ہنسی مذاق پر صرف سر ہلا نے پر اکتفا کر رہے تھے ۔ناگوا ری ان کے چہرے سے عیاں تھی لیکن وہ مروّت اوراخلاق کی وجہ سے اُسے اس بے تکلّفی سے نہیں روک رہے تھے ۔تا ہم ان کے روّیے سے ان کی بے آرا می صا ف ظاہر ہو رہی تھی۔ پی آئی اے کے یو نیفارم میں پھنسی اور میک اپ سے لتھڑی اس دوشیزہ کو احمد عا لم کی نا گوا ری کا احساس نہیں تھا بلکہ اپنی دھن میں مگن تھی۔
اچا نک اُس کا روئے سخُن میری طرف ہو گیا ۔میرے ہاتھ میں اس وقت کر نل محمد خان کی کتا ب’ بزمِ آرائیاں‘ تھی۔اُس نے احمد عا لم کی جا ن پر رحم کر تے ہوئے مجھے مخاطب کر لیا اور کہنے لگی,,یہ آپ کو ن سی کتاب پڑھ رہے ہیں ؟ہمیں بھی سنائیں اس میں کیا لکھا ہے،،
مجھے موقع مل گیا,, میں پو ری کتا ب کے با رے میں تو نہیں بتا سکتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ کیونکہ اس میں مختلف نوعیت کئی مضا مین ہیں۔تا ہم ایک لطیفہ اس میں درج ہے۔ آپ چا ہیں تو وہ سنا سکتا ہوں،،
وہ بڑے نا ز سے سر ہلاتے اور لپ اسٹک سے بھرے ہو نٹوں پر زبا ن سہلا تے ہو ئے بو لی ,,اوہ جی ضرور سناؤ!ہمیں بھی توپتہ چلے کہ آپ کس با ت پرمسکرا رہے ہیں،،
میں نے کہا ,,لیکن آپ شا ئد یہ لطیفہ سُن کر نہ مسکرائیں،،
,,وہ کیو ںجی !اگر اچھا لطیفہ ہے تو ہم ضرور مسکرائیں گے،،
,, وہ اس لیے کہ یہ لطیفہ ائیر ہو سٹس کے متعلق ہے،،
,,پھر تو میں ضرور سنوں گی۔ آخر یہ ہما رے متعلق ہی تو ہے،،
تو پھر سنیئے,, ایک بین الاقوامی پرواز کے دوران ائیر ہو سٹس ہو ائی جہا ز میں مسا فروں میں مشروبات وغیرہ تقسیم کر رہی تھی کہ لاؤڈاسپیکر پر کا ک پٹ سے کیپٹن کی آوا ز گو نجی,,خوا تین و حضرات!ہم تیس ہزار کی فٹ کی بلندی پر پروازکر رہے ہیں۔ اس وقت دو بج رہے ہیں۔ انشاء اــللہ سوا تین بجے ہم قاہراہ کے ہوا ئی اڈّے پر ا ُتریں گے۔ امید ہے آپ کا سفر خوشگوار گزررہا ہو گا،،یہاں پہنچ کر کیپٹن لاؤڈاسپیکر بند کر نا بھول گیا اور اپنے نائب پائلٹ سے با تیں کر نے لگا جو جہا ز کے کیبن میں مسا فروں کو سنائی دینے لگیں,,پیٹر!آؤ اب تم ذرا ہوا ئی جہا ز چلاؤ۔میں ایک پیالی کا فی پیوں گا ۔پھر ائیر ہوسٹس آتی ہے تواُسے ذراپیا ر کروں گا اور پھر کچھ دیر آرام کروں گا۔۔۔۔،، جب ائیر ہوسٹس نے با قی مسا فروں سمیت کیپٹن کی با تیں سُنیںتو کیپٹن کو بتا نے کے لئے کہ لا ؤڈاسپیکر بند نہیں ،کا ک پٹ کی طرف لپکی۔ مگر تیزی میں ایک بو ڑھے مسا فر سے ٹکرا کر لڑکھڑا سی گئی۔بو ڑھے مسا فر نے ائیر ہو سٹس کا با زو تھا م کر کہا ,,آہستہ مِس آہستہ!وہ پہلے کا فی پئے گا،،
میں جب یہ لطیفہ کتا ب سے پڑھ کر سنُا رہا تھاتو ائیر ہوسٹس کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدل رہا تھا۔ لطیفہ ختم ہو تے ہی ائیر ہوسٹس تیزی سے اُٹھ کرپیچھے چل دی۔ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھاجہا ں کامران اشرف اور احمد عا لم مسکرا رہے تھے۔ احمد عا لم نے مسکرا کر تشکر بھری نظروں سے میر ی طرف دیکھا اور اخبا ر پڑھنے لگے ۔اس کے بعد سنگا پور تک وہ ائیر ہوسٹس ہمارے قریب نہیں پھٹکی ۔ جہاز کا عملہ کھلاڑیوں کے سا تھ سا تھ میری بھی آؤ بھگت کر رہا تھا۔ کھلا ڑی تو قومی ہیرو تھے اور میں خوش قسمتی سے ان کے درمیا ن بیٹھا تھا۔ اس لئے وہ مجھے بھی برا بر چا ئے پا نی کا پو چھ رہے تھے ۔میں نے مسکرا کر احمد عا لم سے کہا ,,بھئی!میر ی جتنی خاطر مدارت اس فلائٹ میں ہو ئی ہے ،پہلے کبھی نہیں ہو ئی۔ یہ سب آپ لو گو ں کی وجہ سے ہے۔آئندہ کہیں سفر کر نا ہو تو آپ کو سا تھ نہ لے لیا کروں،،
احمد عا لم نے مسکرا کر کہا ,,کیوں نہیں !ٹکٹ کا بندوبست آپ کر دیا کریں۔ ویزے وغیرہ کا ہمیں ویسے بھی کو ئی مسئلہ نہیں۔ ہم آپ کے سا تھ جا نے کے لئے تیا ر ہیں ،،
سنگا پورتک کا سفرقو می ہیروز کے سا تھ اس طرح ہنستے مسکرا تے گزرا۔سنگا پور سے آگے ہم الگ الگ فلائٹوں پرسفر کر رہے تھے ۔ہا کی ٹیم نے پرتھ کے لئے فلائٹ لینی تھی۔ سڈنی کے لئے میری فلائٹ الگ تھی۔سنگا پور سے سڈنی تک کا سفرمیں نے زیادہ ترسو کرگزارا ۔کیو نکہ اب نہ میرے ساتھ احمد عا لم اور کا مران اشرف تھے جن سے گپ شپ ہوتی،نہ پا کستا نی ائیر ہو سٹس، جس سے اسٹرانگ چا ئے کی فر مائش کرتا۔سڈنی کی اس فلائٹ میں زیا دہ تر گورے سفر کر رہے تھے۔کچھ میکے اور کچھ سسرال سے آ اور جارہے تھے ۔جس سے بھی پو چھو کہ’’ کہاں گئے تھے‘‘ جوا ب ملتاہے ’’یو کے‘‘ اس کے سا تھ یورپ کے کچھ اور ملک بھی دیکھے ہیں ۔
آسٹریلیا اور بر طا نیہ کا جوچو لی دا من کا سا تھ ہے، وہ ان آنے جا نے والوں سے ظاہر ہو تا ہے۔وہ الگ با ت ہے کہ جب ایشز( Ashes) کھیل رہے ہو تے ہیں تودو نوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے اس طرح خلا ف ہو جا تے ہیں کہ ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے ۔ایشز( Ashes)ختم ہو تے ہی حالات معمول پر آجا تے ہیں۔ایشز( Ashes) دو نو ں ملکوں کے لئے انا کا مسئلہ بن جا تا ہے۔ اس کا اثر نچلے طبقے سے لے کر وزیراعظم تک ہو تا ہے۔ دو سا ل پہلے آسٹریلیا ایشز( Ashes) ہا ر گیا تو وزیراعظم جا ن ہارورڈ نے کہا ,,یوں تو ہما ری حکو مت کے لئے یہ سا ل ہر لحاظ سے کامیاب گزرالیکن ہمیں ایک بڑی نا کا می کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور وہ تھی ایشز( Ashes) کی ہار۔اس لحاظ سے یہسا ل ہمارے لئے اچھا نہیں تھا،،
کانٹس کی یہ فلائٹ آسما ن کی وسعتوں کو چیرتی، براعظم ایشیا سے نکل کر براعظم آسٹریلیا کی فضاؤں میں سفر کرتی ، اس عظیم جزیرے کے سب سے بڑے شہر سڈنی کے اُوپر جا پہنچی۔ سڈنی ہر لحاظ سے ایک خوبصورت شہر ہے۔ لیکن رات کے وقت اُوپر سے اس کا روشنیوں بھرا چہرہ مجھے ہر دفعہ مسحور کر دیتا ہے۔ سڑکوں پر ترتیب وار روشنیاں ،روشن عمارتیں اور سڑک پر ما چس کی ڈبیوں کی طرح حرکت کرتی کاریں اور شہر کے بیچوں بیچ سمندر کے نظارے،سمندر میں چلنے والے روشن جہا ز ،شہرہ آفاق ہار بر برج اور آسمان سے باتیں کر تا ہواسنٹر پوائنٹ ٹاور، سڈنی کے ماتھے کے ایسے جھو مر ہیں کہ بے ذوق سے بے ذوق آدمی بھی ان نظاروں کو دیکھ کر مبہوت رہ جائے۔
میں بھی کھڑکی سے جھا نک کر ان دلفریب نظاروں کو نظر سے دل میں سمیٹ رہا تھا اور دل تھا کہ ایک بار پھر کوئے جاناں کو سامنے دیکھ کر مچل رہا تھا۔ دل و دماغ کی اسی کیفیت کے دوران جہازکے پہیوںنے زمین کو چُھوا۔ اور میں لمبے سفر کے بعد گھر کے خواب میں کھو گیا جو اب زیا دہ دُور نہیں تھا۔
ختم شد
طارق محمود مرزا
Email : [email protected]
Phone : 61- 0411854981