(Last Updated On: )
واپسی کا سفر سب کے لیے کچھ اداس رہا تھا۔وہ سب لنڈن میں بیتے لمحوں میں گم تھے لیکن اب سحرش آپی کی شادی کی بھی تیاریاں مکمل کرنا تھیں۔ عائشہ کے گھر پہنچ کر سب میں ایک کھل بھل مچ چکی تھی وقت کم اور کام بے حد زیادہ کچھ کیٹرنگ کی انتظامیہ کے ساتھ مصروف تھے تو کچھ ڈیکوریشن اور دیگر کاموں کو دیکھ رہے تھے۔ عرشمان سب کے ڈرسز کولیکٹ کرنے ٹیلر کے پاس چکر لگاتا پھر رہا تھا کیونکہ ڈریسز میں کچھ مسئکہ ہوگیا تھا عائشہ کا ڈریس حنا کے سائز کا جبکہ ماہین کا ڈریس حور کے شرارے جتنا سب اپنے سر تھام کر بیٹھی تھیں اور عرشمان اور ریحان کی مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی ان کی شکلیں دیکھ کر۔ ماہین ان کے ہاتھوں یوں اپنا مذاق دیکھ کر انکے سر پر آگئیں “بہت بتیسیاں نکل رہی ہیں نا آپ دونوں کی یہ لیں اب یہ سب ڈریسز پکریں اور انہیں ٹیلر سے صحیح کروائے بغیر واپس مت لوٹیے گا”ان تینوں نے اپنے ڈریسز سے لدے ہینگر انہیں تھمائے اور خود وہاں سے نکل گئیں ۔اور وہ دونوں ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔
مہندی کا فنکشن سٹارٹ ہونے کو تھا اور وہ ڈریسز انہیں تھما کر باقی کی ارینجمنٹس دیکھنے کے لیے باہر لان میں آگئے۔ سب تو باہر آچکی تھی بس ایک وہی اب تک نظر نہیں آئ تھی وہ اسے تلاشتا ہوا اندر آیا وہ الجھن میں شکار کانوں میں ائیرنگ ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی جو ڈلنے میں نہیں آرہا تھا۔ سلور کام دار شرٹ کے ساتھ ٹی پنک شرارہ پہنے جس پر سنہری سٹونز کا کام ہوا تھا بہت حسین نظر آرہی تھی۔وہ ائیرنگ کانوں میں پھسانے کی کوشش کر رہی تھی جس میں سنہری بال جنہیں کرلز ڈال رکھے تھے اس کی طرف مڑی تو اس نے ائیرنگ اسکے ہاتھ سے لیتے ہوئے اسکی سنہری زلف کو ایک سائیڈ پر کیا اور بہت احتیاط سے ائیرنگ اس کے کان میں ڈال کر بند کیا۔ راہداری میں لگے شیشے کےی طرف اسکا رخ موڑا آئینے میں ان دونوں کا عکس دیکھ کر وہ ان دونوں پر رشک کرنے لگا۔”پرفیکٹ؟”اسنے مسکراتے ہوئے اسکے قریب ہوتے ہوئے پوچھا تو وہ اسکے قریب سے ہٹ کر باہر کی طرف نکل گئ۔ “یہ لڑکی مجھے اپنا دیوانہ کرکے رہے گی”وہ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے مسکرایا۔
وہ باہر لان میں فنکشن انجوائے کرنے لگی۔ سب سے ملاقات کے بعد وہ لان کے اک تاریک کونے میں آئ جہاں کسی پر اسکی نگاہ نہیں پر رہی تھی۔وہیں ایک کرسی پر بیٹھ وہ اپنی نم آنکھیں خشک کرنے لگی اس کی سماعت میں وہ آواز گونجنے لگی”آخر لوٹ کر تو تمہیں مجھ تک ہی آنا ہے ورنہ انجام سے تو تم واقف ہی ہو اسی لیے کسی بھول میں مت رہنا اپنے مقررہ وقت پر تمہیں لوٹنا ہی ہوگا”اور وہ با آواز بلند کہکا۔ “نہیں میں خودغرض نہ بن سکتی مجھے عرشمان کو سب بتانا ہی ہوگا اگر زندگی کی اس بساط پر شے مات ہی میرا مقدر ہے تو یہی سہی دیکھتے ہیں اس بار مجھ سے کتنا خراج وصول کرتی ہی میری قسمت “وہ وہاں سے اٹھ کر پھر سے محفل میں سب کے ساتھ مسکرانے لگی۔مگر زندگی بعض اوقات آپ سے آپ کے لہو کے برابر خراج وصول کرنے کو چلی آئ تو کیا حشر کرتی ہے اسکا احساس ابھی حور جہانگیر کو نہیں تھا مگر زندگی کا یہ بدترین رنگ بھی بہت جلد اس پر آشکار ہونے جارہا تھا۔۔
رات مہندی کے فنکشن سے لے کر اب تک وہ اسکا گریز باخوبی محسوس کر چکا تھا اور اب تک خاموش اس لیے تھا کہ وہ خود وضاحت دے کہ وہ کیوں اس سے کترا رہی تھی۔ مگر حور تو جیسے چپ سادھ بیٹھی تھی۔سب آہستہ آہستہ بارات کے فنکشن کے لیے روانہ ہونے لگے۔ وہ عرشمان نے نظریں چرانے کی بھر پور کوشش کر رہی مگر وہ اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتا اسکے چہرے کے اتار چڑھاو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا تمام فنکشن وہ اس سے دور بھاگتی رہی اور اس کی یہ لاتعلقی اب اسے سخت تکلیف دے رہی تھی۔حور کو وہاں گھٹن محسوس ہونے لگی تو وہ فنکشن چھوڑ کر واپس آگئ۔وہ گھر میں داخل ہو کر زینے چڑھنے ہی لگی تھی کہ کسی نے اسکی کلائ کو مضبوطی سے تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ کھنچتی چلی گئ اور عرشمان اسے اپنے روم میں لے آیا۔اور اسے اپنے مقابل کھڑا کیا اقر اسے نرمی سے کندھوں سے پکر کر اسکی نیلی آنکھوں کو بہت غور سے دیکھنے لگا۔ تھوڑی سے اسکا چہرا اوپر کرتے ہوئے بولا”حور کچھ ہوا ہے کیا؟”اس نے نرمی سے پوچھا تو وہ آنسو پیتی رخ موڑ گئ اور کندھے سے اسکے ہاتھ جھٹک دیے۔
باہر کھڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے بولی”نہیں کچھ بھی نہیں”اس کا یہ دھیمی آواز اب عرشمان کو مزید ڈسٹرب کرنے لگی “تو پھر کیوں راہ فرار اختیار کر رہی ہو۔۔بولو حور کیوں میری بے پناہ چاہت سے دور بھاگ رہی ہو”اس نے اسے اپنی طرف موڑا اسکا ضبط جواب دے گیا تو وہ چلانے لگی”حور۔۔۔حور۔۔۔حور!!!!کون ہے یہ حور میرا نام کریسٹین جوسیف ہے میرے ڈیڈ کریسچین ہیں اور میں بھی نہیں مانتی میں تمہارے خدا کو اور نہ کسی اور کو۔۔ یہ سب کہاں تھے جب میں اس آتش فشاں میں تڑپ رہی تھی چلا رہی تھی اپنی ماں کی زندگی کی بھیگ مانگ رہی تھی اس وقت کوئ میرے ساتھ نہ تھا سوائے اس سرد ہوا کے جو مجھ سے ٹکرا کر گزر جاتی نہیں کرسکتی تم سے شادی میں کیونکہ میں نون مسلم ہوں اور میری منگنی ہو چکی ہے۔۔”وہ اب سر جھکائے بول رہی تھی آخر یہ کڑوا سچ اس نے اسکے کانوں میں انڈیل ہی دیا تھا یہ جانے بنا کہ سامنے کھڑے شخص کر کیا وحشت طاری ہو رہی ہے۔ غصے کی شدت کے باعث اسکی آنکھیں سرخ ہونے لگیں تھی۔ وہ قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا اور اسے سختی سے بازو سے پکڑ کر زمین پر دھکیل دیا ابھی وہ درد کی شدت سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ زمین پر گرتے ہوئے پاس پڑی شیشے کی کارنر اس کے سر سے ٹکرائ اور بوند بوند خون اسکے سر سے بہنے لگا”تم جیسی لڑکیاں کسی کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کب کھیلتی ہیں مگر تم تو میرے ایمان سے بھی کھیلنے چلی تھی کاش تم یہ حقیقت مجھے پہلے ہی بتا دیتی تاکہ میں خود کو تم جیسی لڑکی سے دور رکھتا تم اسی قابل تھی کہ میں تمہارے ساتھ یہ سلوک کرتا۔۔تم لڑکی نکل جاو میرے گھر سے گیٹ لاسٹ فرام ہیئر میں تمہاری صورت تک دیکھنا نہیں چاہتا تم اس لائق ہی نہیں کہ میں تمہیں معاف کر سکوں”اور کہہ کر وہ مزید وہاں رکا نہیں اگر رکتا تو کچھ کر بیٹھتا اس نے اسکے دل کا خون کیا تھا یہ وہ کیسے بھلاتا۔آج اسکی زندگی کی اک اور بدصورت اسے دھتکارتے ہوئے بیت چکی تھی بہت خاموشی سے مگر روح میں اترتا شور باہر کی سفاک دنیا کہاں سن پاتی ہے۔
*******
طےخانے کا در کھلا تو وہ تینوں نفوس اندر داخل ہوئے اور چلتے ہوئے اسکے قریب آئے”تو پھر کیا سوچا تم نے”جوسیف نے اس سے پوچھا”میں ہار مانتی ہوں مجھے ہیاں سے رہائ چاہیے میری سانسیں خود میں سمو رہی ہے یہ ویرانی”اسنے بہتے آنسووں میں کہا”تو وہ ڈاکیومنٹس ہمارے حوالے کردو”وہ اپنی فتح پر محظوظ ہونے لگے “میں صرف آدھی پراپرٹی آپکے نام کروں گی اور اسکے بدکے مجھے آزادی چاہیے”کریسٹی نے نڈھال ہوتے ہوئے کہا”ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں لیکن تمہیں بھی ہماری شرائط کو تسلیم کرنا ہوگا تمہیں انس سے انگیجمنٹ کرنی ہوگی اور دو سال بعد شادی تاکہ تمام پراپرٹی ہمارے قبضے میں رہے اور دو سال بعد تمہیں لوٹنا ہوگا ورنہ ہم تمہارے کسی بھی جان سے عزیز رشتے کو ختم کرنے میں سیکینڈ سے زائد وقت نہیں لیں گے اور یہ اس بات کا کانٹریکٹ اگر تم نے اسے توڑا تو اسکی ذمہ دار خود ہوگی ہماری پہنچ کا اندازہ تو ہے تمہیں”وجاہت نے آخری الفاظ بہت شاطرانہ انداز میں ادا کیے۔ اس نے خاموشی سے سامنے موجود پیپرز کی طرف نگاہ دوڑائ اور پھر اپنے باپ کی آنکھوں میں کچھ تلاشنے لگی شاید رحم مگر اسے وہاں حقارت کے سوا کچھ نصیب نہ ہوا۔ اسنے پین اٹھا کر خاموشی سے پیپرز پر سائن کر دیے۔ وہ تینوں اب پیپرز دیکھتے ہوئے مسکرانے لگے۔
******
رات کا جانے کون سا پہر تھا جب وہ لڑکھڑاتے ہوئے کوٹیج میں داخل ہوئ اندر سناٹا ہی سناٹا تھا۔ تمام در و دیوار سیاہی میں ڈوبے تھے جیسے کوئلے کی بچی کچی راکھ ہو نہ استعمال کے قابل نہ پھینکنے کے لائق۔ وہ دیوانگی کی حالت میں اک اک دیوار کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھو کر دیکھتی سیاحی اب اس کے سرخ وسپید ہاتھوں کو بھی کالا کرنے لگی۔ ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وہ راہداری سے چلتی ہوئ لیونگ روم میں داخل ہوئ۔ آگ کی لہریں وہ تین سائے جو کہکے لگا رہے تھے۔
خون کی آبشار میں ڈوبا نقاہت زدا وجود جس کے چہرے پر جلنے کے لاتعداد نشانات تھے جن سے خون رس رہا تھا وہ تمام مناظر اسے آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح دوڑنے لگے۔لیونگ روم میں داخل ہو کر کچھ قدم چلنے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئ پانچ سال پہلے اسکی مومی یہاں کسی بے جان وجود کی مانند پڑیں تھی اور وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر پائ تھی آج پانچ سال بعد وہ خود یہاں بےجان پری تھی
وہ زمین کی اس جگہ پر اپنے ہاتھ پھیرنے لگی جہاں وہ پانچ سال قبل موت کی آغوش میں جا پہنچی تھی وہ اک دم سے ہسٹیراک ہونے لگی “مومی آپ مجھے چھوڑ کر کیوں چلی گئیں آخر کیوں دیکھیں آپکی کریسٹی کس حال میں پہنچ چکی ہے کتنا ٹوٹ چکی ہے کتنا بکھر چکی ہے۔۔۔کاش کے آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلتی تو آج میں یوں خالی دامن نہ ہوتی وہ شخص جسے میں نے آپ کی جدائ کے بعد ٹوٹ کر چاہا تھا وہ بھی مجھے سر راہ و سر بازار دھتکار کر چلا گیا آخر میرا قصور ہی کیا تھا میں تو بےگناہ تھی مگر مومی۔۔اپ۔۔آپ تو اس خدا سے رو رو کر التجا کرتی تھی پھر کیوں نہ اس نے آپ کی فریاد سنی میں نے بھی تو اس رات اس سے کتنی منت سماجت کی تھی کہ وہ آپ کے عوض میری جان لے لے یہ مجھے میری مومی لوٹا دے مگر اس نے میری نہ سنی وہ مجھ ان سب کو چھین لیتا ہے جن سے میں محبت کرتی ہوں پہلے اس نے آپ کو مجھ سے دوور کیا اور اب عرشمان کو۔۔کیا اسے مجھ سے صرف اتنی ہی چاہ تھی کہ اس رب کے لیے مجھے چھوڑ گیا۔۔میں اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مر رہی ہوں مومی میرا روم روم خالی ہوتا جارہا ہے”وہ بلند سسکیوں سے چیخ رہی تھی التجا کر رہی تھی اپنی بے بسی کا بیان دے رہی تھی مگر اس ویران کوٹیج میں سننے والا کون تھا لیکن ایک سامع تو تھا جو ساتھ آسمانوں کے اوپر اسکی داستان غم بہت خاموشی سے سن رہا تھا۔وہی جو انسان کی روح میں رچا بسا ہے۔وہی ذات جسکے کن کہنے سے تمام کائنات اس کے حکم کی منتظر ہو جاتی ہے۔
مکمل چاند کی روشنی جو مرمرا کے سمندر کو چاندنی میں بھگو رہی تھی اور ماہتاب کی وہ کشش جو مرمرا کی لہروں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ وہ بلند اور پست ہوتی لہریں بھی اسکی غم آشنا بنے سمندر میں اک جل تھل مچا رہیں تھی
عائشہ نے اسے بارات کے فنکشن کے بعد نہیں دیکھا تھا۔ اور مصروفیات بھی اتنی زیادہ تھیں کہ وہ کسی سے اس کے متعلق پوچھ بھی نہ سکی عرشمان سے اسنے ذکر کیا تو اسنے لاتعلقی کا اظہار کر دیا کچھ تو تھا اسکے لہجے میں اک بیگانگی سی تھی مگر عائشہ کو اس وقت حور سے زیادہ کسی کی پروا نہ تھی اپارٹمنٹ لوکڈ تھا اسکا یونی سے بھی وہ خارج کر دی گئ تھی کوئ نمبر بھی نہ تھا کہ وہ اس سے رابطہ کرتی۔
سحرش آپی کی شادی کو اب ایک ماہ گزر چکا تھا اور مصطفئ صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ الگ گھر میں شفٹ ہو چکے تھے ریحان نے انکا بزنس جوائن کر لیا لیا۔ارسلان اور سحرش آوٹ آف کنٹری سیٹل ہوچکے کیونکہ ارسلان کو وہاں کی یونیورسٹی میں سکولرشپ کی آفر آئ تھی۔ عرشمان نے نیوی جوائن کر لی تھی اور وہ چھے ماہ سے پہلے گھر وزٹ کے لیے نہیں آسکتا تھا۔ ایگزیمز سب کے اچھے ہو چکے اور عائشہ اور سمن نے ماسٹرز میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ ریحان اور عائشہ کی انگیجمنٹ چھے ماہ بعد کی تاریخ پر طے کر دی گئ تھی کہ عرشمان بھی اپنی وکیشنز میں انکی انگیجمنٹ اٹینڈ کر سکے۔
زندگی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ وقت پوری رفتار سے اپنا سفر کاٹ رہا تھا۔ خزاں رسیدہ شجر سے اب پتے جدا ہو کر فرش پر بکھر رہے تھے۔ کچھ زخم بھر چکے تھے اور کچھ کو مدغوم ہونے کے لیے مزید وقت درکار تھا۔ عائشہ کو دوبارہ عرشمان سے حور کے متعلق کچھ دریافت کرنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ اور ماہین اب آرٹ اینڈ کرافٹ اکیڈمی میں اپنی صلاحیت کا بھر پور استعمال کر رہی تھی۔کچھ لوگ زندگی کے دائرے سے کب خارج ہو جاتے ہیں معلوم کرنا دو بھر ہو جاتا ہے اب ان کی بہتی زندگی کے مدار سے بھی وہ نکلتی جا رہی تھی البتہ عائشہ اور سمن کے لیے وہ اب بھی بہت اہم تھی۔
******
وقت کی سوئیاں اب جانے کس دھارے میں دوڑ رہیں تھی کے نہ دن کا پتا چلتا نہ رات کی سیاہی کا ادراک ہوتا تو صرف اک شہ کا کہ وہ روز بروز خود کو ختم کرتی جا رہی تھی اب اسے کسی کی پروا نہ تھی مگر افسوس کہ اس کسی میں بھی کو مخلوق موجود نہ تھی جسے اسکے گریز کرنے کا کچھ اثر ہوتا۔ زندگی جیسے کسی سٹوپ پر منجمد ہوچکی تھی نہ آگے کا رستہ معلوم تھا نہ پیچھے پلٹنے کا حوصلہ کیونکہ وہ تو اپنے سب مہرے استعمال کر چکی تھی۔
رات دیر تک نائٹ کلبز میں شراب کے نشے میں دھت رہتی اور شام تک اس کا اثر زائل کرنے کو اس پر غنودگی طاری رہتی اور وہ ہوٹل کے بستر پر بے سدھ پری رہتی۔ تاریکیاں پھر اسکے مقدر میں لکھ دی گئیں تھیں ویرانیوں نے پھر اسکی صورت پر ڈیرہ جما لیا تھا۔
سیاہی اب مزید خود میں سناٹے سمونے لگی جانے کتنا وقت ہو چکا تھا جب وہ وائن کی ایک بوتل ہاتھ میں پکڑے ڈگماتے قدموں سمیت چلتی ہوئ Off Pera Night Club سے باہر آئ اور چلتے ہوئے با مشکل کار تک پہنچی اور دروازہ ان لوک کرتے ہوئے اندر بیٹھی اور شیشے کی وہ بوتل ساتھ موجود سیٹ پر رکھ دی اور جھکتے ہوئے میوزک آن کیا کوئ بریٹش سنگر اپنی خوبصورت آواز میں انگلش سونگ گا رہا تھا اسکے lyrics کریسٹین کے دل کی کیفیات سے آشنہ تھے شاید
You watch me bleed until I cann’t breathe…
I’m shaking falling onto my knees
And now that I’m without your kisses…
I’ll be needing stiches…
I’m triping over myself…
I’m aching begging you to come help…
And now that I’m without your kisses..
I’ll be needing stiches…
کار اب بھی تیز رفتار سے سڑک پر روانہ تھی۔ بیتے حسین پل اسکی آنکھوں کے سامنے کسی جھاگ کی طرح دھندھلاہٹ پیدا کر رہے تھے۔آنکھوں کے نم گوشے خشک کر کر کے اب وہ اکتا چکی تھی اسی لیے اس سیلاب کو اسنے اپنے زرد پرتے چہرے پر بہنے دیا۔ کانوں میں اب بھی وہ مدھر آواز بازگشت کر رہی تھی۔ وہ ڈرائیو کرتے ہوئے ہوٹل سے بہت آگے نکل آئ تھی۔ اس سنسان علاقے میں ڈرائیو کرتے وہ بہت آگے آ چکی تھی کہ اچانک اس کی کار ہلکا سا جھٹکا کھا کر بند ہو گئ تھی۔
وہ حوش و حواس سے بیگانہ کار کو دوبارہ سٹارٹ کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ آخر تنگ آکر وہ کار سے اتری اور اسے لاک کرتے ہوئے شیشے کی وہ بوٹل اپنے ساتھ اٹھائے چلنے لگی۔اس تاریک گوشے میں وہ اپنے حواس بامشکل قائم رکھتے ہوئے کہاں جا پہنچی تھی اسے معلوم ہی نہ تھا تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے جہاں چھوٹے مگر صاف ستھرے مکان تعمیر تھے استنبول کے اس پوش ایریا سے بلکل برعکس منظر پیش کر رہا تھا جہاں وہ رہتی آئ تھی۔اس تنگ گلی کے موڑ پر اسے بہت دلکش سی آواز اپنی سماعتوں کو چھوتی ہوئ محسوس ہوئ وہ اس گھر کی کھڑکی کے قریب گئ جس پر کرٹنز ڈلے تھے مگر آواز اب بھی باہر تک آ رہی تھی۔
“اور وہی ذات ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں محبت کا بیج بویا اور اس کے قلب کو نور سے نچھاور کیا اور اسے تباہی کے دہانے سے بچایا اور اسے اسکی عزیز ترین شے سے آزمایا”
کوئ لڑکی اندر قرآن کی آیات پڑھ کر اسکا مفہوم شائد کسی کو سمجھا رہی تھی۔اسکی آواز میں کچھ تو تھا کہ کریسٹین کے بڑھتے قدم وہیں منجمد ہوگئے تھے۔اچانک وہ ہوش کھونے لگی اور ہاتھ میں پکڑی شیشے کی بوتل زمین بوس ہوگئ۔ کانچ کے ٹوٹنے کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائ تھی اور وہ غنودگی کے عالم میں آگے بڑھتی کچھ بکھڑی شیشیاں اس کے مخمریں پاوں کی جلد میں چبھی تھی اور وہ کراہتی ہوئ زمین پر گر گئ۔شاید اندر سے کسی نے اس شیشے کے ٹوٹنے کی آواز سنی تھی اور وہ بھاگتی ہوئ کھڑکی سے اسے زمین پر گرے دیکھ کر باہر آئ
اپنے حواس کھونے سے پہلے اس لڑکی کے آخری الفاظ اس کے
کانوں سے اب بھی ٹکرا رہی تھی”وہی ہے جو انسان کو اسکی عزیز ترین شے سے آزماتا ہے”وہ غنودگی میں جانے سے قبل یہ الفاظ زیر لب بربراتے ہوئے بےحوش ہوگئ۔
لڑکی نے آگے بڑھ کر اسے تھاما اور بامشکل اسے سہارا دیتے ہوئے اندر لائ اور اسے اک کمرے میں لے جاکر آرام سے بید پر لیٹایا اور ڈاکٹر کو فون کرنے کے لیے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے۔ جب وہ دوبارہ اندر آئ تو اسکے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی تھا جو ترک میں اسے کچھ کہتے ہوئے کریسٹین کا معائنہ کرنے لگا اور پھر کچھ میڈیسنز اسکے حوالے کرکے اسے کریسٹین کی کنڈیشن بتانے لگا” پیشنٹ کو بہت تیز بخار ہے میں آپ کو کچھ بلڈ ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں جن کی ریپورٹس آپ کو صبح تک ملیں گی مزید یہ کہ جو میڈیسنز میں نے آپ کو دی ہیں انہیں باقاعدگی سے دیجیے گا میں چلتا ہوں”
صبح چار بجے تک وہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرتی رہی مگر بخار دم نہیں توڑ رہا تھا۔ سو وہ کچھ آیات پڑھ کر اس پے پھونکنے لگی۔وہ نیم غنودگی میں بھی اس کے صبیح چہرے کی دھندھولاہٹ کو محسوس کر سکتی تھی جو اس پر جھکے نرمی سے اسکی زلفوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے زیر لب کچھ پڑھ کر دہرا رہی تھی۔وہ اسکے باعث ساری رات نہیں سو پائ تھی اور اب سورج کی کرنیں آسمان پر چھائے بادلوں کو گھیرے ہوئے تھی جس کی روشنی استنبول کو اجاگر کر رہی تھی۔وہ اسکے لیے سوپ تیار کرنے اور اپنے لیے کافی بنانے کچن میں آگئ “جانے کون ہے کہاں سے بیلونگ کرتی ہے کیوں اسے بے سہارا سڑکوں پر چل رہی تھی”
وہ ذہن میں اٹکتی الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کر رہی تھی جب ڈور بیل بجی۔اسنے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو پوسٹمین کچھ پیکڈ پیپرز اسے تھمائے اس کے دستخط لینے لگا۔ وہ دروازہ بند کرکے اندر داخل ہوئ اور برامدہ عبور کرتے ہوئے پیکٹ کھولنے لگی جس میں اسکی ریورٹس تھی۔ وہ ان پر تنقیدی نگاہ ڈالنے لگی جس میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ کریسٹین کے بلڈ میں الکوہل کا لیول بہت ہائے تھا۔جو اب اسکے دماغ کو مدہوشی عادت لگا چکا تھا۔ مزید یہ کہ جس طرح وہ سموکنگ کر رہی تھی اس وجہ سے اسکے لنگز کچھ درجہ متاثر ہوئے تھے۔”آخر ایسی کیا مشکل پیش آگئ تھی اس معصوم سی لڑکی کو کہ وہ خود کو روز بروز تباہی کے دہانے پر لے جا رہیں تھی”
وہ متفکر سی ریپورٹس ایک طرف رکھتے ہوئے سوپ کا ٹرے اٹھائے اسکے کمرے میں داخل ہوئ اور بیڈ کے قریب بیٹھتے ہوئے اسے اٹھانے لگی۔ وہ اپنی آنکھیں موندتی ہوئ خود کو ہوش میں لانے کی ناکام کوشش کرنے لگی اور اپنے ذہن پر زور ڈالنے لگی کہ آخر وہ کہاں اور وہاں کیسے پہنچی کچھ کچھ اسکے ذہن میں آشکار ہو رہا تھا وہ اس لڑکی کو بہت غور سے دیکھنے لگی اسے کل رات کے واقعات یاد آنے لگے اس لڑکی کا اسکے سرہانے بیٹھ کر نم پٹیاں کرنا۔ اس پر کچھ پڑھ کر پھونکنا اس کے اندر غصے کا لاوا برپا ہونے لگا۔وہ لڑکی اب مسکراتے ہوئے ٹرے اسکے سامنے رکھنے لگی۔
اس نے بہت تنقیدی نگاہوں سے پہلے اس لڑکی کو دیکھا اور پھر ٹرے میں موجود سوپ کے باول کو۔اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور ایک جھٹکے سے باول کو زمین پر پھینکا۔لڑکی فق چہرے سے اسے دیکھنے لگی”تم۔۔تم سمجھتی کیا ہو خود کو ہوتی کون ہو تم جو اس طرح میرے لیے کچھ بنا کر لاو۔۔۔۔تم۔۔تم۔۔۔سب مسلمان ایک سے ہوتے ہو ڈبل کروس ظاہر کچھ ہوتا ہے تم لوگوں کا اور باطل کچھ۔۔نفرت ہے مجھے تم سب سے۔۔گیٹ آوٹ۔۔۔اینڈ جسٹ گیٹ لاسٹ فرام ہئیر”وہ حلق کے بل چلائ تو وہ لڑکی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئ۔پیچھے کمرے کی سنسان درودیوار کو دیکھتے ہوئے وہ کشن میں منہ چھپائے آنسو بہانے لگی شاید اس کے پاس آنسووں کا ذخیرہ بہت تھا جو صرف اسی کے لیے نصب تھا۔وہ لڑکی دوبارہ اس کمرے میں داخل نہ ہوئ حتہ کہ دوپہر اب شام میں ڈھلنے لگی
********