ضلع جہلم کے ایک چھوٹے سے گاؤں نور پور کے قبرستان میں ایک قبر کھودی جارہی تھی۔ کھدائی کے بعد اسے پکا کرکے عارضی طور پر اوپر سے بند کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس قبر کا مکین ابھی حیات تھا اور اپنی نگرانی میں اپنی آخری آرام گاہ تیار کروا رہا تھا۔ قبر جب پوری طرح تیار ہوگئی تو اس کے سرہانے ادریک کا درخت لگایا گیا۔ پائینتی کی طرف پھولوں کے کچھ پودے اگائے گئے جو چند ہفتوں ہی میں بڑھ کر رنگین گلوں کے پیرہن میں لپٹے نظر آنے لگے۔
یہ قبر سرمدعلی نے اپنے لیے بنوائی تھی۔سرمد علی روز خود ان پھولوں کو پانی دیتے ، ان کی گوڈی کرتے اور گھنٹوں کھڑے ہو کر اپنے آخری ٹھکانے کو دیکھتے اور پھر سفید شلوار قمیض پر پوٹھوہاری رومال اوڑھے آہستہ آہستہ کھیتوں کی منڈیروں پر قدم جماتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل پڑتے ۔ ایسا لگتا تھا کہ سرمد علی کو اپنی اگلی منزل کی طرف روانگی کا شدت سے انتظار ہے۔ گھر کے راستے ادریک کا گھنی چھاؤں والا درخت تھا۔ اس درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر سر مد علی بیٹھ جاتے ۔آنکھیں بند کرتے تو خیالوں ہی خیالوں میں ماضی کی کتاب کے کئی رنگین صفحات ان کے سامنے کھل جاتے۔
ماضی کے ایسے ہی ایک منظر میں سرمد علی کے ایک ہاتھ میں بلوریں جام تھا۔ جس میں سرخ مشروب بھرا ہواتھا۔ دوسرے ہاتھ میں سلگتا ہوا کیوبا کا بیش قیمت سگار تھا۔ وہ اپنی ائیرکنڈیشنڈ سٹڈی کے دبیز سرخ قالین پر انتہائی قیمتی گاؤن پہنے بیقراری سے ٹہل رہے تھے۔ کبھی جام ہونٹوں سے لگاتے ، ایک چسکی لیتے اور کبھی سگار کے لمبے کش سے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے۔ جب دونوں میں سکون نہ ملتا تو جام اور سگار رکھ کر بک شیلف سے شکسپیئر کے ڈرامے کی کوئی کتاب اٹھا کر اس کی جادو اثر تحریر میں ڈوبنے کی کوشش کرتے۔ لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں کتاب میز پر پٹخ کو دوبارہ ٹہلنا شروع کردیتے۔ جام اور سگار پھر ان کے ہاتھ میں آجاتا۔ایئرکنڈیشنڈ کمرے کے آرام دہ حرارت والے ماحول میں سگار کی ہلکی سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار گیر بک شیلف اُردو اور انگریزی کے ادبی فن پاروں سے مزین تھے۔ دیواروں پر مشہور و معروف فنکاروں کی بنی بیش قیمت پینٹنگز سرمد علی کے عمدہ ذوق اور دولت کی فراوانی کی گواہی دے رہی تھیں۔
سرمد علی کو سٹڈی کے ماحول، سکاچ، سگار اور مطالعے میں سکون نہ ملا تو وہ اس کمرے سے باہر نکل آئے ان کا لِونگ روم نہایت کشادہ اور انتہائی قیمتی فرنیچر سے مرصع تھا۔ بڑا سا ٹی وی ، ڈی وی ڈی ، سی ڈی پلیئر ،بے شمار سی ڈیز اور تفریح کی ہر وہ چیز وہاں موجود تھی جو مارکیٹ میں دستیاب تھی۔ سرمد علی اس کمرے میں رک کر ٹی وی پر مختلف چینلز آزماتے رہے۔ جب کوئی پسند نہیں آیا تو اپنے پسندیدہ فنکاروں پر مشتمل مزاحیہ کھیل کی سی ڈی لگا کر غم غلط کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن آج انہیں اس میں بھی وہ لطف نہیں آیا جو ہمیشہ آتا تھا۔ اس سے قبل یہ کھیل دیکھ کر وہ دن بھر کی تکان اور سارے مسائل وقتی طور پر بھول جاتے تھے۔ آج کھیل بھی جاری تھا فنکار بھی وہی تھے لیکن سرمد علی کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔ ڈی وی ڈی بند کرکے وہ اس تین منزلہ اور چھ بیڈ رومز پر مشتمل محل نما گھر کے مختلف کمروں میں گھومتے ر ہے۔ تمام کمرے قیمتی فرنیچر سے مرصع تھے لیکن ان میں کوئی انسان موجود نہیں تھا۔ سیڑھیوں پر قیمتی ایرانی قالین بچھا تھا۔ کمروں کے سامنے بالکونیوں میں بھی کرسیاں اور میز رکھے تھے۔ غرضیکہ گھر تمام جدید آسائشوں سے آراستہ اور انتہائی آرام دہ تھا۔ اتنے بڑے گھر اور اس میں موجود اتنی زیادہ سہولتوں سے مستفید ہونے والا صرف ایک فرد تھا اور وہ تھے سرمد علی۔
لیکن آج سرمد علی کو اس بڑے گھر ، اتنے کمروں ، اتنی سہولتوں اور اتنی خاموشی سے آرام پہنچنے کی بجائے بے کلی ، بے چینی اور بے سکونی حاصل ہورہی تھی۔ اس صاف ستھرے گھر، خوبصورت بیک یارڈ ، رنگ برنگے پھولوں والے پودوں، لائبریری، لونگ روم اور بیڈ روم، کہیں بھی ان کے دل کا خلفشار کم نہیں ہورہا تھا۔ انہیں اس گھر میں یا شاید اپنے اندر کوئی بہت بڑی کمی محسوس ہورہی تھی۔ اس تمام ماحول میں ایک خلا سادکھائی دے رہا تھا ۔ یہ
سب کچھ سکون کے بجائے بے سکونی کا باعث بن رہاتھا۔ ایساپہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ یہ تو ان کے خوابوں کی جنت تھی ان کے ا ن خوابوں کی تعبیر تھی جو وہ بچپن سے دیکھتے آئے تھے۔
کچھ عرصے سے وہ خود کو اپنے گھر کے مکین کے بجائے کسی سرائے کا مہمان محسوس کررہے تھے۔ یہ سب کچھ جو انہوں نے اپنی پسند ، اپنی چاہت اور بڑے شوق سے بنوایا تھا سب ہیچ سامحسوس ہورہا تھا۔ انہیں آج اپنی گزشتہ زندگی بھی بے کار اور فضول لگ رہی تھی۔ ساری زندگی کی تگ و دو اور ساری کامیابیاں وقت کا زیاں ا ور عمر کی بربادی محسوس ہورہی تھیں۔ اعلیٰ تعلیم ، فرفر انگریزی بولنے کی استعداد، کاروباری کامیابیاں ، دھن ،دولت اور اولاد کیا کچھ حاصل نہیں کیا تھا انہوں نے ۔ ایک وقت تھا جب سرمد علی کو یہ سب کامیابیاں اورکامرانیاں اپنے قابلِ فخر کارنامے محسوس ہوتے تھے۔ لیکن آج انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سب خام خیالی تھی۔
پاکستان کے ایک متوسط بلکہ غریب گھر میں آنکھ کھولنے والے سرمد علی نے گاؤں کے ٹاٹ کے سکول سے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا تھا اور پھر اپنی صلاحیت ، محنت اور لگن سے آسٹریلیا کی ایک بڑی یونیورسٹی کی ڈگری کے حصول تک پہنچے ۔ سرمد علی نے اس پر اکتفا نہیں کیا ۔ سڈنی آمد کے بعد ٹیکسی ڈرائیونگ سے آغاز کرنے والے سرمد علی نے اس شہر نگاراں میں ایک بڑے اور کامیاب بزنس مین تک اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھا۔ وہ سرمد علی جو گاؤں کے سکول سے میٹرک کے بعد کراچی پہنچا تو اسے اُردو بولنا بھی مشکل نظر آتا تھا ، آج انگریزی بولتا تھا تو انگریز بھی اس کے آگے پانی بھرتے نظر آتے تھے۔ وہ سرمد علی طالب علمی کے دور میں جس کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ہوتی تھی ،آج اسے اپنے بینک بیلنس، جائیداد اور کاروباری اثاثوں کا حساب رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ روپے کی ریل پیل ، سوسائٹی میں اعلیٰ مقام ، پسند کی شادی اور اولاد غرضیکہ وہ سب کچھ سرمد علی نے حاصل کرلیا تھا جو کسی بھی شخص کا خواب ہوسکتا ہے۔
سرمد علی نے بھی دوسروں کی طرح یہی خواب دیکھا تھا۔ لیکن ان میں اور دوسرے لوگوں میں فرق یہ تھا کہ سرمد علی نے صرف خواب دیکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ انہوں نے رات دیکھی نہ دن۔ حصولِ تعلیم میں لگے تو کسی اور چیز کا ہوش تک نہ رہا۔ نہ دوست احباب ، نہ تفریح اور نہ ہی کوئی اور مصروفیات ان کے آڑے آسکی۔
اور جب آسٹریلیا جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سوچا تو اپنے محدود وسائل اور کمیِ زر کو راستے کی دیوار نہیں بننے دیا۔ یہ کمی انہوں نے دوران تعلیم انتہائی محنت سے اور راتوں کو جاگ جاگ کر کام کرکے پوری کی۔ گھر والوں نے تو میٹرک کے بعد ہی ان کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیا تھا ۔باقی کی اپنی مدد سرمد علی نے خود کی۔ کراچی یونیورسٹی سے اکاؤنٹنگ کی ڈگری حاصل کی اور پھر سڈنی یونیورسٹی میں داخلہ ملا تو سڈنی چلے آئے۔ یونیورسٹی کے داخلے اور سفر کے اخراجات سرمد علی نے کیسے پورے کیے یہ بھی ان کی جانفشانی ، ذہانت اور انتھک کوششوں کی ایک الگ کہانی ہے۔
سڈنی آنے کے بعد ان کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم اور اس کے لئے درکار محنت اور وقت تو ایک مسئلہ تھا ہی، لیکن اس سے بڑا مسئلہ ہر چھ ماہ بعد سات ہزار ڈالر کی فیس کا بندوبست کرنا تھا۔ گھر والوں سے سرمد علی کو ایک پیسے کی بھی مدد ملنے کی توقع نہ تھی کیونکہ وہ گھر کے حالات سے بخوبی آگاہ تھے۔
سرمد علی نے یہ فیسیں اس طرح پوری کیں کہ وہ دن میں یونیورسٹی جاتے تھے اور رات کو ٹیکسی چلاتے تھے۔ کس وقت سوتے تھے کیسے اور کہاں کھاتے تھے، انہیں اس بات کا ہوش نہ تھا۔ تین سال کا یہ ڈگری کورس مکمل ہوا تو سرمد علی کو آسٹریلیا کی شہریت بھی آسانی سے مل گئی۔ اس میں بھی ان کی منصوبہ بندی اور محنت شامل تھی۔
یہاں سے سرمد علی کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ کامیابیوں اور خوابوں کی تعبیر پانے کے سفر کا آغاز تھا۔ آسٹریلیا کی شہریت ملتے ہی سرمد علی نے ہمیشہ کے لیے ملازمت نہ کرنے کا عہد کیا۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا فرنچرائز بزنس شروع کیا اور آہستہ آہستہ اسے آگے بڑھانا شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں اس فرنچرائز کی انہوں نے کئی شاخیں خرید لیں۔ سرمد علی جس کام میں ہاتھ ڈالتے اسے کامیابی کی منزل تک پہنچا کر دم لیتے۔ اس فرنچرائز بزنس میں سرمد علی کو اتنی کامیابی حاصل ہوئی کہ کمپنی نے انہیں پارٹنر شپ کی آفر کی۔ سرمد علی نے یہ آفر قبول کرلی کہ آگے سے آگے بڑھنا سرمد علی کا نصب العین بن چکا تھا۔
اس دوران سرمد علی نے پاکستان جاکر شادی کرلی۔ زرینہ خاتون انہیں شروع سے پسند تھیں۔ اپنی پسند کو حاصل کر کے سرمد علی انتہائی خوش تھے۔ ان کی بیوی زرینہ خاتون بہت اچھی شریک حیات ثابت ہوئیں اور گھر سے سرمد علی کو کبھی کوئی مسئلہ درپیش نہ آیا۔ زرینہ خاتون تعلیم یافتہ تھیں۔ وہ بھی سرمد علی کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگیں۔ اس طرح سرمد علی کو مزید آسانی حاصل ہوگئی اور وہ حصول زر کے مشن میں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے۔
انہوں نے کاروبار تو خریدا ہی تھا اس کے ساتھ ہی انہوں نے سڈنی کے ایک پوش علاقے موسمن میں جگہ خرید کر بہت بڑا، بہت خوبصورت اور بہت آرام دہ گھر بنوایا۔ جدید ماڈل کی دو گاڑیاں خریدیں اور گھر کے اندر انہوں نے ہر وہ سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی جس کا عام آدمی صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔ چھ بیڈ روم، وسیع و عریض لِونگ روم، ڈرائنگ روم، سٹڈی روم، سوئمنگ پول ، ڈبل گیراج اور رنگا رنگ پھولوں سے لدا خوبصورت باغیچہ سبھی کچھ تو تھا اس گھر میں۔
موسمن سڈنی بلکہ آسٹریلیا کا مہنگا ترین سبرب ( علاقہ)ہے۔ صرف متمول طبقے کے افراد ہی یہاں رہنا افورڈ کرسکتے ہیں۔ روایتی طور پریہ مقامی آسٹریلین گوروں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ ایشیائی اور دوسری رنگوں والے یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرمد علی نے دانستہ یہاں گھر بنوایا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو ان کے پاس بے انداز دولت تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ پاکستانیوں اور دوسرے ایشیائیوں سے دور دور رہنا پسند کرتے تھے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا اور میل ملاقات صرف گوروں کے ساتھ تھا۔ پاکستانیوں میں شاید ہی کوئی ان کا قریبی دوست ہو۔ کسی پاکستانی تقریب میں بوجہ مجبوری جانا پڑ بھی جائے تو لوگوں سے گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی ان سے اُردو میں بات کرے تو اس کا جواب انگریزی میں دیتے۔ مختصر بات کرتے اور پھر دوسری طرف دھیان دینے لگ جاتے۔
ہاں گوروں کے ساتھ ہوتے تو ہاتھ میں بیئر کا گلاس لے کر خوب چہکتے۔ انہی کی طرح ہنسی مذاق کرتے اور انہی کی طرح پارٹیوں میں انجوائے کرتے۔ سرمد علی کے اس رویے کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی سے ان کا رابطہ برائے نام رہ گیا تھا۔وہ چاہتے بھی یہی تھے۔ اپنے لوگوں سے دور، اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ گھر میں انہوں نے باقاعدہ بار بنوا رکھا تھا جہاں ہر شام کو بیوی بچوں کے سامنے بیٹھ کر کبھی اکیلے اور کبھی کسی آسٹریلین دوست کے ساتھ اسکاچ اور وہسکی کی چسکیاں لیتے۔ ان کی بیوی اور خصوصاً دونوں لڑکے بھی اسی رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ وہ صرف انگریزی سمجھ سکتے تھے کہ باہر اور گھر میں دونوں جگہ یہی زبان سنتے تھے۔ سرمد علی بچوں سے رواں انگریزی میں باتیں کرکے اور آسٹریلین طور طریقے اپنا کر فخر محسوس کرتے۔
وہ اپنے ماضی، اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی زبان سبھی سے پیچھا چھڑا کر اس سوسائٹی کا ایسا قابل فخر رکن بننا چاہتے تھے جو مقامی لوگوں سے الگ نہ نظر آئے۔جو مکمل طور پر ان کے رنگ میں رنگا ہو۔ وہ خود کو اور بچوں کو ہر احساس کمتری سے دور رکھ کر قابل فخر آسٹریلین شہری ثابت کرنا چاہتے تھے۔ اس میں بھی سرمد علی نے کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی۔ کسی حد تک اس لیے کہ بے شک مقامی آسٹریلین انہیں اپنی پارٹیوں میں مدعو کرتے تھے لیکن ان کے ساتھ بے تکلفی اور مساویانہ طرز سلوک روا نہیں رکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے سرمد علی کو غصہ آتا تھا وہ اندر ہی اندر کڑھتے تھے اور سوچتے تھے کہ کیا فرق ہے مقامی لوگوں میں اور مجھ میں ۔ میں بھی انہی کی طرح انگریزی بولتا ہوں۔ وہی لباس پہنتا ہوں۔ وہی مشروبات نوش جان کرتا ہوں جو ان لوگوں کو مرغوب ہیں۔ ان سب کے باوجودیہ لوگ مجھ سے کھچے کھچے کیوں رہتے ہیں۔
کبھی کبھار جب اکیلے ہوتے تو سرمد علی اپنے بچپن ، لڑکپن اور اوائل جوانی کے اس دور کو یاد کرتے جب ان کے پاس یہ سب کچھ نہیں تھا۔ وہ تہی دست اور تہی دامن تھے۔ لیکن ایک چیز کی اس وقت بھی کمی نہیں تھی اور یہ چیز تھی اپنوں، عزیزوں اور دوستوں کا بے لوث پیار۔ اس پیار، اعتماد اور سہارے نے سرمد علی کو سر اٹھا کر جینا سکھایا تھا۔ جینے کی امنگ اور کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ غم، پریشانی ، صدمے اور ناکامی کے دکھ کو برداشت کرنے کی طاقت دی تھی۔ انہی اپنوں اور انہی دوستوں کے پیار کے سہارے ، ان کے تعاون اور مدد سے سرمد علی نے زندگی کی مشکل منزلیں سر کی تھیں۔ لیکن بد قسمتی سے جب ایک خواب کی تکمیل ہوئی تو یہ سب سہارے اس وقت تک ان سے چھن چکے تھے۔ ایک دولت ملی تو کئی قیمتیں چیزیں کھو گئیں۔ جوانی اور دولت کے وقتی نشے نے سرمد علی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے اور سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ سب کچھ بھلا کر آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے۔
لیکن آج پینتیس برس کے بعد سرمد علی کووہ سب لوگ، اپنے عزیز و اقارب، اپنے دوست احباب اور اپنے محلے اور گاؤں کے بھولے بھالے لوگ ، ان
کی باتیں اور ان کا پیار سب کچھ اچانک نہ صرف یاد آنے لگا بلکہ ان کے دل و دماغ میں ایک طوفان سا اٹھانے لگا۔ سرمد علی اپنے ان لوگوں، ان کے بے لوث پیار اور اپنی حاصل کردہ ان کامیابیوں کا موازنہ کرنے لگے۔ان کامیابیوں کا حاصل انہیں کیا ملا تھا۔ ان کے دامن میں اس وقت کیا تھا؟ اتنے برسوں میں انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ آج سرمد علی نے گزرے ہوئے پچپن سالوں کا بے رحمی اور سفاکی سے تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ساری زندگی ایک سراب کے پیچھے دوڑنے میں صرف کردی۔ اس دوڑ میں انہوں نے ایک بھولے بھالے، پیار کرنے والے اور دوسروں کا دکھ درد بانٹنے والے سرمد علی کو بھی کہیں کھو دیا تھا۔ اپنی شخصیت کے کھونے کا جو صدمہ سرمد علی نے آج محسوس کیا، اس نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آج انہیں ایسے لگا
کہ ان جیسا قلاش اور تہی دامن شخص دنیا میں نہیں ہوگا۔ پہلی مرتبہ انہیں احساس ہوا کہ وہ کتنے اکیلے ، کتنے دکھی اور کتنے خالی خالی تھے۔
سرمد علی کی بے تحاشا دولت اور آسٹریلین سے زیادہ پکا آسٹریلین بننے کی کوششوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دونوں بیٹے جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہی انہیں چھوڑ کر ایسے گئے کہ پلٹ کر خبر تک نہ لی۔ سرمد علی جو ساری کوششوں کے باوجود ابھی تک اندر سے پاکستانی ہی تھے اس صدمے کو بظاہر ہنسی خوشی برداشت کرگئے لیکن ان کے دل کا کوئی حصہ خالی ہوچکا تھا۔ بیٹوں کے جانے کے بعد زرینہ خاتون نے ان کا بہت ساتھ دیا۔اگرچہ وہ بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی تھیں لیکن سرمد علی کا بھرم انہوں نے قائم رکھا۔ آخری سانس تک میکہ تو درکنار بیٹوں کے لیے بھی اپنی تڑپ اور دکھ کو چھپائے رکھا اور سرمد علی کا ساتھ دیتی رہیں۔ حتیٰ کہ زندگی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ اپنوں سے جدائی ، دوری ، تنہائی، بیٹوں کی بے وفائی اور غیروں کی ستم آزمائی کے دکھوں سے نجات پاکر لڈکمب (Lidcombe)کے شہر خموشاں میں جا بسیں۔
سرمد علی اتنے بڑے گھر بلکہ بھرے شہر میں تنہا رہ گئے۔ دولت کمانے کی خواہش کب کی دم توڑ چکی تھی۔ زندگی کا کوئی نصب العین باقی نہیں تھا۔ دولت کا کوئی مصرف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اتنی دولت کے باوجود ان کا کوئی اپنا ان کے قریب نہیں تھا۔کوئی دوست ایسا نہیں تھا جس سے اپنے دل کی بات کرسکیں۔ محل جیسے گھر میں کوئی دوسرا فرد نہیں تھا۔ موسیقی ، کتابیں، موویز اور باغبانی کسی میں بھی ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ کبھی کبھی زرینہ بیگم کی قبر پر چلے جاتے، اس کے سرہانے کھڑے ہو کر باتیں کرکے دل کا کچھ غبار ہلکا کرتے اور پھر گھر لوٹ آتے جو اس قبرستان سے کم خاموش نہ تھا۔ گھر آتے تو قبرستان اور گھر میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ خاموشی، یہ تنہائی اندر ہی اندر ستاتی رہتی، تڑپاتی رہتی۔ سب سے زیادہ انہیں اپنی زندگی کے بہت سے سنہرے سالوں کا احساس زیاں اور اپنی شخصیت کے گم ہونے کا دکھ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دکھ کی یہ چادر ان پر چھاتی چلی گئی۔
چند ماہ پہلے کی ایک شام تھی جب گاؤں کے مویشی گھنٹیوں کی صداؤں کے ساتھ کھیتوں سے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے نور پور کے باسیوں نے دیکھا کہ بوڑھا سرمد علی پینتیس سال بعد پردیس سے گاؤں لوٹ آیا ہے۔ نوجوان انہیں نہیں پہچانتے تھے لیکن جانتے ضرور تھے۔ کیونکہ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ اسے بھی جو گاؤں چھوڑ دیتا ہے اور اسے بھی جو کہیں اور جابستا ہے۔ گاؤں کے لوگ اپنے باسیوں کو کبھی نہیں بھولتے۔نہ صرف بھولتے نہیں بلکہ بھولے ہوؤں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ نور پور والوں نے بھی روایت کے مطابق اپنے بیٹے کو اپنی نرم بانہوں میں سمیٹ لیا۔
سرمد علی نے اپنے آبائی مکان کو جو وقت کی گردش سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا تھا، نئے سرے سے بنوایا۔ لیکن اس دو کمرے کے چھوٹے سے مکان میں انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ مکان اگرچہ نیا بن گیا تھا لیکن اس کے کمرے، برآمدہ، کچن اور صحن بالکل ویسے ہی تھے جو سرمد علی کے بچپن کے دور میں تھے۔ بالکل سادہ ، چھوٹا سے اور جدید سہولتوں سے عاری گھر۔ اس گھر میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی نہیں تھا۔ تاہم اچھی ادبی، تاریخی، سماجی اور دینی کتابوں سے ایک الماری سجی تھی۔ اس گھر میں کوئی قالین تھانہ آرام دہ بیڈ ،بلکہ بان کی چارپائیاں تھیں۔ صوفے کی بجائے لکڑی کی چار کرسیاں تھیں۔ فریج کی بجائے کورا گھڑا تھا اور اس پر مٹی کاپیالہ دھرا تھا۔ تاہم جدید دور کی ایک سہولت ضرور تھی اور وہ تھی بجلی کے قمقموں کی روشنی ۔
سرمد علی نے گھر سے ملحق اپنے کھیت میں کچھ سبزیاں اگائی ہوئی تھیں۔ یہ سرمد علی کا مشغلہ بھی تھا اور یہی سبزیاں سرمد علی کی خوراک بھی تھیں۔ کیونکہ گوشت کھانا انہوں نے کب کا چھوڑ دیا تھا۔ سر مد علی کو اس حالت میں دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو تھری پیس سوٹ کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا تھا۔ جس کے گھر میں دنیا کی قیمتی شرابوں کا بار تھا۔ جس کے گھر کا فرنیچر لاکھوں ڈالر اور گاڑیاں اور بزنس کئی ملین ڈالر کے تھے۔ جس کی دولت کا کوئی
شمار نہیں تھا۔جو اُردو اور پنجابی بولنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ آج وہی سرمد علی تہہ بند اور کرتے میں ملبوس کھیتوں میں اگی گاجروں اور مولیوں کی گوڈی کرتے نظر آتے تھے۔ وہ کچے صحن میں چھڑکاؤ کرکے اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے۔ مٹی کی ہانڈی میں اپنے ہاتھ سے سبزی پکاتے اور گھڑے کا پانی پی کر کھلے صحن میں رکھی بان کی چارپائی پر پاؤں پسار کر بے فکری کی نیند سو تے تھے۔ یہ نیند انہیں سڈنی کے محل نما گھر کی ایئرکنڈیشنڈ خواب گاہ میں دو دو سلیپنگ پلز کھانے کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی تھی۔
سرمد علی کی واپسی کی یوں تو کئی وجوہات تھیں۔ ان میں سے ایک اور فوری وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹروں نے انہیں آخری اسٹیج کا کینسر تشخیص کیا تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان کی زندگی اب چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ سال دو سال کی ہی بچی ہے۔ سرمد علی جو ساری زندگی صرف آگے سے آگے
بڑھنے کے عادی رہے تھے اتنی بڑی واپسی کے لیے یکلخت تیار نہیں ہورہے تھے۔ لیکن اب انہوں نے دنیا کی اس سب سے بڑی حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا تھا اور انہیں قرار آگیا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...