ولیمہ میں سارے جہانگیر کے بزنس کے ورکر آئے ہوئے تھے سحرش تو ٹیبل پر اگئی تھی جبکہ جہانگیر اپنے کولیگز کے ساتھ مصروف ہوگیا تھا وہاں اکر سحرش کو بوریت محسوس ہورہی تھی جبھی ادھر ادھر نظریں دوڑاتی ہوئی ایک منظر پر ٹک گئیں۔۔۔ جہانگیر کسی لڑکی کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور وہ لڑکی کبھی اسکا ہاتھ پکڑتی تو کبھی ڈھٹائی سے کندھے پر ہاتھ رکھتی ۔۔ اس منطر نے سحرش کے دل میں ہلچل سی مچادی اور اسے نہیں پتا کب اس نے کھانا کھایا اور کب گھر آئی بس وہ ایک منظر اس کے ذہن میں نقش ہوگیا تھا ۔۔۔
کمرہ میں اکر اس نے بے دردی سے پہنے ہوئے گجروں کو نوچ کر اتارا تھا جہانگیر اس کے بلکل پیچھے اکر کھڑا ہوگیا تھا اور اسکو دونوں ہاتھوں سے تھام کے اسکا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔۔
“دور رہو مجھ سے گھٹیا آدمی”
سحرش نے اسکے ہاتھوں کو زور سے جھٹکا ۔۔ اور بیڈ پر جا کر ٹک گئ۔۔۔۔
اب اپنی چوڑیوں کو اتار اتار کر بیڈ پر پھیلا رہی تھی جہانگیر پہلے تو حیران ہوا اسکے انداز پر پھر استہزائیہ انداز میں گویا ہوا۔۔۔
کیا ہوا ان چوڑیوں کو کیوں سزا دے رہی ہو؟؟؟
سحرش نے اسکی طرف سے رخ پھیر لیا ۔۔۔۔
جہانگیر نے اسے دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا اور واش روم میں گھس گیا جیسے کہہ رہا ہو اسکا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔
پیچھے سحرش کڑھتی رہی۔۔۔۔۔۔
پھپھو کیا آپ مجھے معاف نہیں کریں گی ؟؟؟
نگین نے اسکی جانب سے رخ پھیر لیا۔۔۔۔۔
جہانگیر ان کے قدموں میں اکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
“آپ کو پتا ہے پھپھو جب میں نے آبا، اور بابا کو لحد میں اتارا تھا جب مجھ پر کیا قیامت گزری تھی ۔۔۔ جب سے مجھے یاسر سے شدید نفرت ہو گئی تھی اس نے اپکی جیتی جاگتی زندگی برباد کردی ۔۔۔ کچے ذہن میں جو نفرت پنپ رہی تھی تو اسکا انجام بھی تو نکلنا تھا نہ لیکن ۔۔۔۔لیکن پھپھو میں نے سحرش کو اپنی عزت بنایا ہے۔۔۔ میری دشمنی اس سے نہیں اس کے باپ سے ہے ۔۔۔
اور میں اسے مرتے دم تک معاف نہیں کروں گا ۔۔۔”
جہانگیر کی انکھوں سے انسو بہہ رہے تھے وہ سر جھکائے نگیںن کے بلکل قریب بیٹھا بچوں کی طرح رورہا تھا ۔۔۔۔۔۔
انسو تو نگین کے بھی بہہ رہے تھے اج اس سیلاب کا دونوں کی انکھوں سے گزر جانا ہی بہتر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہاں لے جارہی ہو ؟؟؟؟
جہانگیر نے ملازمہ کو ناشتہ کے لوازمات سے بھری ٹرے اٹھائے اپنے روم کی جانب جاتا دیکھا تو پوچھ لیا۔۔۔۔
“وہ صاحب جی ،بی بی جی ، صبح ناشتے پہ نہیں آئیں تھیں تو میں یہ ان کیلئے لے جا رہی ہوں۔”
“ہمممم۔۔۔۔ لاو یہ مجھے دو اور تم جاو ”
جہانگیر نے ملازمہ سے ٹرے لی اور کمرہ کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔
سحرش اڑے ترچھے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جہانگیر کو ٹرے لئے اندر اتے دیکھ کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئ اور کندھوں پر ڈوپٹہ پھیلایا ۔۔ بالوں کو سمیٹ کر جوڑے کی شکل دی۔۔ جہانگیر صوفہ پر بیٹھ کر اسے فرصت سے تک رہا تھا جیسے اس کے سوا کوئی کام ہی نہ ہو۔۔۔۔
“یہ ابھی تک گیا نہیں کیا؟؟ ”
سحرش نے ٹیڑی نگاہ کرکے جہانگیر کو دیکھا اور بڑبڑانےلگی۔۔۔۔۔۔۔
تم اج ناشتہ کیلئے نیچے کیوں نہیں آئیں؟؟؟
“مرضی میری آپ کو بتانے کی پابند نہیں ہوں۔۔۔”
جہانگیر کو اسکے ٹراخ سے جواب دینے پر غصہ تو بہت آیا لیکن برداشت کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔
“منہ دھو کر آو اور ناشتہ کرو ! جاو۔۔۔۔۔۔”
جہانگیر نے سنجیدہ آواز میں کہا تو سحرش چوں چراں کئے بغیر باتھ روم میں گھس گئ۔۔۔۔۔۔
“ریڈی ہوجاو آج ہم اوٹنگ پر جائیں گے اور شوپنگ بھی کریں گے ۔۔۔۔۔”
ناشتے سے فراغت کے بعد جہانگیر نے اگے کا پلین سحرش کے گوش گوار کیا ۔۔۔۔
سحرش سالوں پہلے اس لمحے میں چلی گئ تھی۔ جب یہ لفظ یاسر نے بھی اس سے کہے تھے۔۔ انکھوں کے گوشے نم ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ جب وہ کتنا خوش ہوئی تھی اور اب اسے کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔۔۔۔
جہانگیر جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے قریب اکر بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ پکڑ کر رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔۔
کیا ہوا ؟؟؟
سحرش نے اسکے ہاتھ جھٹک دیئے اور کھڑکی پر جاکر کھڑی ہوگئ۔۔۔۔
“مجھے نہیں جانا کہیں بھی ۔۔”
سحرش نے بھررائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔۔
“آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے میں جتنا “تمہاری بدتمیزی برداشت کررہا ہوں اتنی ہی سر پہ چڑ رہی ہو ؟؟؟؟ میں اب اور برداشت نہیں کروں گا سن لو تم ۔۔۔۔ ”
جہانگیر کی اب برداشت ختم ہوگئ تھی وہ جتنا اس سے نرمی سے بات کرتا وہ اتنا ہی ہتہ سے اکھڑ جاتی ۔۔۔۔۔۔
“تو کس نے کہا ہے برداشت کرو ؟؟؟ خود ہی پیچھے پڑے رہتے ہو جان عذاب میں آگئ ہے میری ۔۔۔۔”
یہاں پر جہانگیر کی برداشت ختم ہوگئ تھی جہانگیر نے زوردار ٹھپڑ اسکے گال پر رسید کیا جس سے وہ لڑکھڑا گئ لیکن پھر سنبھل گئ تھی۔۔۔۔۔
“یہ تمھاری زبان جو قینچی کی طرح چلتی ہے نہ اس کو کنٹرول کرو ورنہ مجھے کاٹنی بھی آتی ہے ۔۔”
جہانگیر کی رنگیں تن گئیں تھیں غصہ سے چہرہ سرخ ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔
سحرش گال پر ہاتھ رکھے اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
ہاں تم مردوں کو اور آتا ہی کیا۔ ہے سوائے عورتوں کو مارنے کے علاوہ ۔۔۔۔۔
“بھاڑ میں جاو میری بلا سے ”
جہانگیر کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کمرہ سے نکل گیا اور وہ اپنی قسمت پر انسو بہاتی رہی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔