٭تعارف اور پس منظر
یہ نظم علامّہ اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ اسے مرثیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکل میںاس کے گیارہ بند اور ۸۹ اشعار تھے۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامّہ نے نظم کے متعدد اشعار حذف کر دیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا۔ بندوں کی ترتیب بھی بدل دی۔ موجود شکل میں نظم کل تیرہ بندوں کے چھیاسی اشعار پر مشتمل ہے۔
پروفیسر حمید احمد خاں اور پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے اشارہ کیا ہے کہ یہ نظم لکھتے وقت اقبال کے تحت الشعور میں انگریزی شاعر ولیم کوپر کی نظم on the Receipt of My Mother’s Picture out of Norfolkضرور ہوگی۔ کیونکہ ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے بعض حصے کوپر کی نظم کی یاد دلاتے ہیں۔
علامّہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ علامّہ کے والد شیخ نور محمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، والدۂ علامّہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے مجتنب رہتیں کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعدشیخ صاحب نے ملازمت ترک کر دی۔
گھر میں انھیں ’’ بے جی ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل ان پڑ ھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حسن سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطور امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میں اگر کوئی جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو ’’بے جی‘‘ کو سب لوگ منصف ٹھہراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کر دیتیں۔ بے جی غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتیں۔ بعض غریب عورتوں کی خفیہ مدد کرتیں ۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے برادری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔
اقبال کو اپنی والدہ سے غیر معمولی انس اوربے حد لگاؤ تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیر نظر مرثیے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیرت واپسی کے لیے دعا گو رہتیں اور انھیں اقبال کے خط کا ہمیشہ انتظار رہتا۔
ان کا انتقال ۷۸سال کی عمر میں ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ قبر،امام صاحب کے مقبرے کے پاس واقع ہے۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا جس کے چند شعر یہ ہیں:
مادرِ مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں
چشم تر ہے آنسوؤں سے ، قلب ہے اندوہ گیں
اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے
سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے
واقعی مخدومۂ ملت تھیں وہ نیکو صفات
رحلتِ مخدومہ سے پیداہے تاریخ وفات
۱۳۳۳ ہجری
فارسی میں اکبر کا ایک اور قطعہ ٔ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔
والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیّر پیدا کر دیا ہے ۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑ ھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظارہے۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجود ہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں ، کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں‘‘۔ ( صحیفہ: اقبال نمبراول،۱۹۷۳ئ، ص ۱۳۲)
شیخ نور محمد کو بھی اپنی رفیقہ ٔ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقع پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی… اقبالؔ نے زیر مطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑ ھا کرتے تھے۔
فکری جائزہ
نظم (یا مرثیے) کااصل موضوع والدہ ماجدہ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار ہے ۔ اس اظہا ر کے دو پہلو ہیں:
۱۔ فلسفۂ حیات و ممات اور جبر و قدر
۲۔ والدہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردّ ِ عمل
پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے۔ پروفیسر سید وقار عظیم کے خیال میں اردو میں اقبال کی شائد یہ واحد نظم ہے جس میں وہ پڑ ھنے والے کو فکر اور جذبہ دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں‘‘۔ ( اقبال: شاعر و فلسفی، ص ۳۲۲)
٭فلسفۂ جبر و قدر:
موت کے تصو ّر سے اور خاص طورپر اُس وقت ،جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اچک کر لے گئی ہو، قلب ِحسّاس پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا نقش ابھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ چنانچہ نظم کا آغاز ہی فلسفۂ جبر وقدر سے ہوتا ہے:
ذرہ ذرہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے
پہلے بند میں بتایا گیاہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گل اور بلبل غرض دنیا کی ہر شے فطرت کے جابرانہ قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔
پروفیسر اسلوب احمد انصاری کا خیال ہے کہ یہ ’’دل دوز مرثیہ‘‘ علامّہ اقبال نے جبریت یا لزوم(determinism)کی کیفیت میں کہا ہے۔ یہاں اقبال کے لیے پوری کائنات اور اس کے اندر محصور زندگی ’’ زندانی ِ تقدیر‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ پہلے بند میں لفظ ’’ مجبور‘‘ یا ’’ مجبوری‘‘ پانچ بار استعمال کیا گیا ہے۔ اپنی ماں کی وفات کے ردّ ِ عمل میں وہ غم و اندوہ کی شدید کیفیت سے دو چار ہوئے اور سمجھنے لگے کہ انسانی کی آزادی اور قو ّت ارادی محض ایک فریب ہے‘‘۔ ( اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں: ص ۵۴)
٭انسانی ذہن پر فلسفۂ جبر کا ردّ ِ عمل:
تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کا فطری ردّ ِ عمل ہے۔ مگر ( دوسر ے بند میں ) اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبر و قدر مشیتِ ایزدی ہے اس لیے گریہ و زاری اور ماتم مناسب ہے۔ آلامِ انسانی کے اس راز کو پالینے کے بعد ، کہ رقص عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظام کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے ، میں زندگی میں انسان کے بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی ردّ ِ عمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریۂ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہاں (دوسرے بند کے آخر ی شعر میں ) اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر بھی صابروشاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر اس کی قو ّتِ برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے ، ساری حکمتیں اور محکم ضوابط دکھی دل کے ردّ ِ عمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور والدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی کچھ بیت رہی ہے۔ خود اقبال ہی کے بقول:
دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است
ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است
٭گریہ وزاری کا مثبت پہلو:
گریہ و زاری کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے زندگی کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ روح کی آلودگی اور داخلی بے قرار ی ختم ہونے سے قلب کو ایک گونہ طمانیت اور استحکام نصیب ہوتا ہے اور انسان ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ زمانے کی سختیوں سے نبرد آزماہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ نفسیات دان بھی یہ کہتے ہیں کہ رونے سے انسان کا تزکیۂ نفس (Katharsis)ہو جاتا ہے۔ اقبال نے اسے ایک مصرعے میں پیش کیا ہے:
موجِ دودِ آہ سے روشن ہے آئینہ مرا
٭والدہ اور بچے کا باہمی تعلق:
والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوؤں نے دل کے بوجھ کو ہلکا کر دیا ہے۔ سارا میل کچیل آنسوؤں میں تحلیل ہو کر آنکھوں کے راستے خارج ہوگیا ہے۔ اب وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا اور معصوم بچے کی مانند محسوس کرتا ہے۔ شفیق والدہ کی یاد، شاعر کو ماضی کے دریچوں میں لے گئی ہے۔ جب وہ چھوٹا ساتھا توماں اس ننھی سی جان کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی اور دودھ پلاتی تھی۔ اب وہ ایک نئی اور مختلف دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے جو علم و ادب اور شعروسخن کی دنیا ہے اور ایک عالم اس کی شاعری پر سر دھنتا ہے۔ ماضی اور حال کی ان کیفیات میں اس زبردست تضاد کے باوجود ، اقبالؔ کے خیال میں ایک عمر رسید ہ بزرگ یا عالم و فاضل شخص بھی جب اپنی والدہ کا تصو ّر کرتا ہے تواس کی حیثیت ایک طفل سادہ کی رہ جاتی ہے جو صحبت ِ مادر کے فردوس میں بے تکلف خندہ زن ہوتا ہے۔ ( یہ مضمون تیسرے بند کے تیسرے شعر کے آخر تک بیان ہوا ہے۔)
والدہ اور بھائی سے وابستہ یادیں:
والدہ کو یاد کرتے ہوئے گزرے ہوئے زمانے سے متعلق حالات و واقعات کا یادآنا ، سلسلۂ خیال کا حصہ ہے۔ اقبال ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے دور کو یاد کرتے ہیں جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں امام بی بی مرحومہ ، اقبال کی سلامتی کے لیے فکر مندر ہتیں، راتوںکو اٹھ اٹھ کر ان کی بخیریت واپسی کے لیے دعائیں مانگتیں اور انھیں ہمیشہ اقبال کے خط کا انتظار رہتا۔ یہاں اقبال اپنی والدہ کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ میری تعلیم و تربیت، میری عظیم والدہ کے ہاتھوں ہوئی ، جن کی مثالی زندگی ہمارے لیے ایک سبق تھی۔ مگر افسوس کہ جب مجھے والدہ کی خدمت کا موقع ملا تو وہ دنیا سے رخصت ہو گئیں، البتہ بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے ایک حد تک والدہ کی خدمت کی اور اب والدہ کی وفات پر وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ نے اپنے پیار ، شفقت اورخدمت کے ذریعے اپنی محبت کا جوبیج ہمارے دلوں میں بویا تھا، غم کا پانی ملنے پر اب وہ ایک پو دے کی صورت اختیار کر گیا ہے اور الفت کا تناور درخت بنتا جارہا ہے۔
٭فلسفۂ حیات و ممات:
والدہ سے وابستہ پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ (چھٹے بند سے) سلسلۂ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طر ف مڑ جاتا ہے ۔ مرثیے کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفۂ جبر و قدر پر اظہارِ خیال کیا تھا، مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں دنیا میں جبر و مشیت کا پھندا اس قدر شدید ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر ( بجلیاں، زلزلے، آلام و مصائب، قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی وہ اپنا کام کرجاتے ہیں۔ بے چارہ انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے نہ مجالِ شکوہ اور نہ طاقت ِ گفتار، غرض زندگی گلا گھونٹ دینے والے طوق کے سوا کچھ نہیں ۔
لیکن تصو یر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہر حال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں، زندگی اور موت کی کشمکش سے ہی قائم ہیں، چنانچہ بند نمبر ۷ میں اقبال اسی دوسرے رخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبر و قدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے، موت مستقلاً زندگی پر غالب نہیں آ سکتی کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں ، غالب بنا یا ہے۔ انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہر بین نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیند کرکے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے:
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر ( میرؔ)
آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپایداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں فطرت ایک بااختیار خلّاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے بناو اور بگاڑ پر پوری قدر ت حاصل ہے۔
فطرت کو خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے ، اس لیے وہ اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہو سکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیات ِنو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہو تی ہے۔
اوپر شاعر نے موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دیا ہے، اب اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعہ آگے بڑ ھاتے ہیں ، نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے جو تہِ خاک دبا پڑا ہے ۔ ظاہر ی طور پر وہ مردہ حالت میں ہے مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہتر شکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔
اس مردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ مستور ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ فلسفۂ حیات و ممات سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام تک چلتا ہے۔
٭عظمت انسان:
اس کے درمیان ( نویں بند میں ) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک دمک اور طوالت ِ عمر کے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے کے اندر اپنا مقررہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر،اس کی نگاہ کہیں زیادہ دور رس اور وسیع اور اس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ نظامِ کائنات میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے ، جیسے نظامِ شمسی میں سورج کا مرتبہ، اس لیے موت انسان کو فنا نہیں کر سکتی۔
٭غم و اندوہ کا ردّ ِ عمل:
گیارھویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج و غم کے ردّ ِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ فرقت کے لیے وقت مرہمِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے مگر اقبال کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کاذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہو اور مصیبت بھی نا گہاں ہو تو صبر و ضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس کی آنکھیں خون کا سرشک آباد بن جاتی ہیں۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے ( اور یہ وہی پہلو ہے جس کی طر ف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا تھا ) کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ تسکین کا دوسرا پہلو یہ ہے جس طرح ہر رات کی سحر ہوتی ہے ( اور صبح کے وقت طائرانِ سرمست کی نوا نیند کی ماتی دنیا کو عروسِ زندگی سے ہم کنار کردیتی ہے ) اسی طرح موت کے وقفۂ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہو کر اٹھ کھڑا ہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اوراس طرح وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا… ( یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے۔)
٭والدہ کے لیے دعا:
نظم خاتمے کے قریب ہے، سلسلۂ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑ جاتا ہے ۔ ابتدا میں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری ، اضطراب او ر بے چینی کا اظہار کیا، وہ والدہ سے محبت رکھنے والے ایک مغموم و متأسف بچے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہار تھا۔ لیکن فلسفۂ حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد، شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ ایک پختہ کار مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے دردو غم کو اپنی ذات میں اسی طرح سمو لیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے:
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
یوں کہنا چاہئے کہ اقبال نے غم کا ترفّع ( sublimation) حاصل کر لیا ہے ۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے بھی متأسف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ بلکہ حقیقی اور ابدی زندگی تو وہی ہے۔ آخری تین اشعار دعائیہ ہیں۔ اقبال دعا گو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدۂ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھی جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے ، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نور سے معمور ہو اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’’ سبزۂ نورُستہ ‘‘ (تروتازہ اور نیا اگا ہوا سبزہ )خداکی رحمت کی علامت ہے۔
فنّی تجزیہ
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں:
فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلُنْ
٭لہجے کا تنوع:
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اور دھیما لہجہ رکھتا ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی ، قدرت کی جبریت اور زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِرفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں در د و کرب اور حسرت و حرماں نصیبی کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اتار چڑ ھاو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات آشکارا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت ِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
یاد سے تیری، دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمورہے
آسماں تیر ی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد ، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔
مرثیے میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبر و اختیار اور حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجاے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں ، اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں ، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرم جوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً :
شعلہ یہ کم تر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا؟
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا؟
______
موت ، تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
______
سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے
اس لہجے میں ایک طرح کی حرکت اور زندگی کی حرارت ملتی ہے۔
٭سوز و گداز:
زیر ِمطالعہ مرثیہ اپنے تأثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے ۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار ’’اتنے پر تاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غالباً یہ مرثیہ شعر و ادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کرسکے۔‘‘ (مطالبِ بانگِ درا: ص۲۷۹) اس انفرادیت اور اثر انگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیر متاثر رہنا ممکن نہیں۔ علامّہ اقبال نے اس کی ایک نقل اپنے والد محترم شیخ نور محمد کو بھیجی تھی۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سوز وگداز سے ان پر گریہ طاری ہو جاتا اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوز و گداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر ایک جذباتی موضوع تھا۔ ایک ایسے موضوع پر شعر کہتے ہوئے، جس کا انسان کے جذبات سے گہرا تعلق ہو، سوز وگداز کا پیداہونا ایک فطری امر ہے۔
٭فارسیّت:
یہ مرثیہ بھی اقبال کی ان نظموں میں سے ہے جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔ بحیثیت ِ مجموعی پوری نظم پر ایک نظر دوڑانے سے یہی احساس ہوتا ہے۔ مصرعوں کی تراش اور تراکیب کی بناوٹ بھی اسی پر شاہد ہے۔ بعض مصرعے ایک آدھ حرف یا لفظوں کے سوا فارسی میں ہیں:
پردۂ مجبوری و بیچارگی تدبیر ہے
______
علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے
______
خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار
______
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
٭حسن ِ بیان کے چند پہلو:
فنی اعتبار سے یہ مرثیہ حسن بیا ن کا ایسا خوب صورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شاید ہی ملے گی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’ فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں لیکن ان میں ایک بھی توجّہ پر بار نہ ہو‘‘۔ زیر مطالعہ نظم میں زبان و بیان اور صنائع بدائع کے وسائل غیر شعوری طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ حسن بیان کے چندپہلو ملاحظہ ہوں:
الف: تشبیہات:
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
______
تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ
ب: صنعتِ گری:
۱: صنعتِ مراعاۃ النظیر:
آسماں مجبور ہے ، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں
______
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں
۲۔ صنعتِ طباق ایجابی : (دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبارسے ایک دوسرے کی ضد ہوں) :
علم کی سنجیدہ گفتاری ، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
۳۔ صنعتِ تجنیس مضارع: ( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صر ف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو۔)
جانتا ہو ں آہ! میں آلامِ انسانی کا راز
ہے نواے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز
۴۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ،پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے):
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
۵۔ صنعتِ ایہام تضاد:
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
ج:نئی اور خوب صورت تراکیب : دخترانِ مادرِ ایام۔ ماتم خانہ برنا و پیر۔ مایہ دار اشکِ عنابی ۔ طوقِ گلو افشار ۔ تجدیدِ مذاقِ زندگی ۔ سبزۂ نورُستہ۔
د ۔ قافیوں کی تکر ار اور نغمگی :
دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں ، گریاں نہیں
______
خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار
ہ ۔ محاکات:
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت ِ مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم
______
مرثیے کا اختتام دعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبر و قدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں کے سرشک آباد سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ بقول پروفیسر سیّد وقار عظیم یہاں :’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے۔ جس کی بدولت اقبال کو اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے۔ اور دوسری شخصیت اس مجبور و مغموم انسان کی ہے جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھو ل جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے‘‘۔ ( اقبال، شاعر اور فلسفی: ص ۱۶۳؟ ۱۶۴)
آخر میں والدہ ٔ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے اقبال دست بدعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ غالباُ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جدا ہونے والی کسی عزیز ہستی کے بارے میں، پسماندگان کی دعا اور خواہش اس سے مختلف نہیں ہو تی ۔ یہاں اقبال کا طرز فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔