امی میں سحرش کی گھر جا رہی ھوں اسکے ابو کافی بیمار ہیںں وہ بہت سیریس کنڈیشن میں ہے نوال نے بڑی چادر او ڑ تے ماں سے اجازت چاہی
ہا ں بیٹا چلی جاؤ میں بھی کل گئی تھی بھائی صاھب کی حالت بہت خراب تمہارے جانے سے سحرش کا دل بھی خوش ہو جاۓ گا بہت پر شان تھی
بیچاری نوال ک امی نے اجازت دیتے کہا
نوال اور سحرش کو گاؤں اے کافی دن ہو چکے تھے سحرش کی بابا کی صحت ٹھیک نہیں نوال انکا پتہ لینے نہیں جا سکی انکے گھر کال پے انکی خیرٹیٹ خیریت پتہ کر لیتی تھی آج جب اسنے کل کی تو سحرش اسے بہت پرشان لگی بہت پوچھنے پے بھی کچھ نہیں بتایا یہ کھ کی کال بند کر دی کی ادھر ائی تو خود جان جاؤگی نوال فور ًا امی سی اجازت لے کے اسکے گھر کے لیے نکل پڑی
آج آپ ہمارے گھر کا راستہ کیسے بھول گئی سحرش نے اسے اتے دیکھ کے کہا یار جب سے ہوسٹل سے ائی ھوں گھر تھی ہی کب پہلے ماموں کےپاس رہنے گئی پھر پھوپھو کے ھاں چلی گئی تو کیسے آتی نوال نے سحرش کی طرف دیکھتے کہا سحرش تمیں کیا ہوا بہت کمزور لگ رہی ہو
بیٹا تم آ گئی ہو سمجو اسے میری تو بات کا جواب دینا گوارہ نہیں کرتی سحرش کی امی نے نوال کو دیکھ کے کہا
کیا ہوا انٹی سب ٹھیک ہے ہے نہ کونسی بات نہیں مان رہی آپکی یہ بتنے مجھے نوال نے ان سے پوچھا بیٹا تمھ پتہ تو ہے تمہارے انکل بیمار رہتے انکی سانسوں کا کیا بھروسہ کب ساتھ چھوڑ دیں اس سے پہلے ہم اسکے فرض سے سبکودش ہونا چاہتے تم نے سحرش کی خالہ کا بیٹا خالد دیکھا ہو گا اسکی پہلی بیوی سے ولا د نہیں میری بہن سحرش کے لیے سوالی بن کے ائی کوئی اور وقت ہوتا تو میں نہ مانتی لیکن ہم پے وقت ہی ایسا آ گیا کے ہم سب کچھ تمہارے انکل کی بیماری پے خرچ کر چکے ہم اسے جہیز کیا دیں گے اور میری بہن نے جہیز کے لیے منع بھی کر دیا اسکو مناؤ کے یہ ہا ں کر دے اسنے خالد سے بہت بد تمیزی بھی کی لیکن وہ ہر حال میں اس سے نکا ح کرے گا وہ یہ بھی کھ گیا کے اگر اسنے ھاں نہ ک تو وہ زبردستی نکا ح کر لے گا بیٹا ہم نے اس کے ابو کی بیماری کی وجہ سے اس سے ادھار لیا تھا وہ اسکی واپسی کا بھی کھ رھا تم اسکو مناؤ اگر یہ مان گئی تو ہماری پرشانیہ ختم ہو جانے گی
وہ اسے سحرش کو سمجھنے کا کھ کے اٹھ گئی سحرش نوال کے گلے لگ کے رو دی سحرش چپ ہو جاؤ تم نے اس بارے میں سعد سے بات کی کیا
نہیں یار میں آگر انے کہوں گی وہ میری بات کا یقین کیوں کرے گے کیا لگتی ھوں انکی ویسے بھی انکے بابا کے لہجے میں میرے لیے جتنی حقارت تھی میری ہمت نہیں کے انسے دوبارہ رابطہ کروں سحرش نے روتے کہا میں کچھ کرتی ھوں نوال نے کچھ سوچتے کہا
سعد بیٹا رحیم صاھب کی بیٹی سے ملے ہو کسی لگی آپکو وہ ریاض صاھب نے بڑے لاڈ سے بیٹے سے پوچھا
ٹھیک ہی ہے سعد نے بے دلی سے جواب دیا
تم کدھر اور تو انٹرسٹڈ نہیں نہ بتا دو مجھے کوئی یشو نہیں لیکن اپنے سٹیٹس کا خیال ضرور رکھنا ریاض صاھب آج خوشگوار موڈ میں تھے تبی سعد نے سحرش کے بار ے میں بتانے کا فصلہ کیا
بابا مجھے سحرش پسند
سعد کا اتنا ہی کہنا تھا کے ریاض صاھب بھڑک اٹھے اس مڈل کلاس لڑکی کے بار ے میں تم کیوں سوچ رہے یہ خناس تمہاری ما ں نے تمہارے ذھن میں بھرا ہو گا لیکن میں کبھی بھی اسے اپنی بہو نہیں بناؤں گا لوگ کیا کہنے گے کے سیٹھ ریاض کے بیٹے نے پر ایمر ی اسکول ٹیچر سے شادی کر لی بیٹا وہ صرف تمہاری دولت کی وجہ سے تم سے پیار کرتی ایسی لڑ کیاں صرف پیسے کی ہوتی اس نے تمھ صرف تمہارے بینک بلنس کی وجہ سے تمہیں پھا سیا ہے
بابا اسے تو میری فیلنگذ کا پتہ تک نہیں تھا اور نہ وہ میرے پیسے سے مطلب رکھتی اور لوگوں نے نہیں میں نے زندگی گزرنی سعد نے دبا دبا احتجاج کیا کان کھل کے سن لو میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں اور میں بزنس کے سسلے سی دبئی جا رھا میرے آنے تک یہ کیڑ ا اپنے د ما غ سے نکل دینا وہ وارن کرتے نکل گے سعد نے ماں کی طرف دیکھا جو دونو ں ما ں بیٹے کی تکرار خاموشی سے سن رہی تھی انے ریاض صاھب کی چھوٹی سوچ پے افسوس ھو رھا تھا
سعد بیٹا میں تمہارے ساتھ ھوں میں تمہیں پرشان نہیں دیکھ سکتی
فوزیہ بیگم نے پیار سے ہاتھ اسکے بالوں میں پھرتے ہوے کہا سعد کا سیل ویبرئٹ پے تھا جس پے کافی ٹائم سے مسلسل کالز ا رہی تھی سعد نے سکرین دیکھی تو نوال 30 مس کالز تھی وہ پرشان ہوا کے نوال کیوں با ر با ر کالز کر رہی خیر ھو وہ اسے کال بیک کرنے ہی لگا تھا کے اسکی کال آ گئی کوئی مر جاۓ آپ تب بھی کال ریسو نہ کرنا اور بعد میں افسوس کرتے رہنا کاش میں کچھ کر سکتا بعد میں صرف پچھتاوا ہی ره جاتا سعد نے یس کا بٹن پریس کیا ہی تھا کے نوال شروع ھو گئی
نوال خیر ہے نہ کیوں ایسی باتیں کر رہی سب ٹھیک تو ہے نہ سعد اسکی باتیں سن کے پرشان ھو گیا سعد بھائی کچھ بھی ٹھیک نہیں پھر اسنے سحرش کی بیماری سی لے کے اسکو شادی کے لیے فورس کرنے تک ساری بات بتا دی
او ما ئی گاڈ اتنا سب کچھ ھو گیا تم مجھے اب بتا رہی سعد نے الٹا اسے دانتا
اتنے ٹائم سے آپکو بتنے کی کوشش ہی تو کر رہی آپ کال ریسو کرتے تو نہ
نوال امی سے بات کرو سعد نے فوزیہ بیگم کو موبائل دیا جو پاس بیٹھی ساری بات سن چکی تھی
نوال بیٹا ہم آ رہے ہیںں ہمارے پونچھنے تک ساری بات سنبھلے رکھنا
سعد بیٹا تم کار نکالو میں آتی ھوں انہو ں نے کال بند کر کے سعد سے کہا اور اپنے روم کی طرف چل دی
بتا ئیں بیٹی آپکو سعد والد ریاض حسین کے ساتھ نکا ح قبول ہے سحرش نے آ ہستگی سے گردن جھکا کر ہا ں کر دی تھی اور سائن کروا کے نکا ح اور رضا باہر چلے گے
آج سے یہ میری بیٹی ھو گئی فوزیہ بیگم نے سحرش کو گلے لگا تے ہوے کہا سحرش ابھی تک قسمت کے کھیل سے حیران تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے سعد ایسے اپنے باپ کی مخلفت کر کے اسے آپنا سکتا سحرش کی امی اسکے گلے لگ کے رو دی پلیز انٹی اسے مت رولا دیجیے گا ابھی تو پیکس بھی بنانی نوالنے انے چپ کرواتے کہا پیاری لنگ رہی ھو اب تو تم میری بھابھی بن گئی زہرا نے پیار سے کہا سحرش وائٹ ڈریس میں کافی پیاری لگ رہی تھی فوزیہ بیگم اسکے لیے نکا ح کا جوڑا لائی تھی اور سحرش کے نہ نہ کرتے نوال نے اسے اچھا خاصا تیار کر دیا تھا وہ سبین نوال زہرا تینوں مختلف پوز بنوا کے پیکس لے رہی تھی
ہادی اور زہرا کل ہی ہنی مون سے اے تھے فوزیہ بیگم میں دونوں کو بولا کے ساری بات بتائی اور ساتھ چلنے کا کہا زہرا نے سبین کو بھی اسکے گھر سے لے لیا تھا فوزیہ بیگم آتی بار سویٹس اور فروٹس کی ٹوکرینا ں لانا نہیں بھولی تھی سحرش کے لی جوڑے کے ساتھ گولڈ کا نازک سا سیٹ لے کے ائی تھی اور خوبصورت کنگن بھی انہوں نے آ کے مشکل سے سحرش کے پیرنٹس کو منایا تھا انے مکمل یقین دلآ یا کے وہ انکی بیٹی کو خوش رکھنے گی سحرش کے والدین خدا کا شکر کرتے نہیں تھک رہے تھے
او تم لوگ با ہر نکلو اب دو منٹ سعد بھائی کو بھی انکے پاس آنے دو نوال نے زہرا سبین کو نکلنے کا کہا اور سعد کو انکے نکلتے لے ائی بس 5منٹ ہیںں سعد بھائی کہتی چل دی
اب خوش ھو نہ میرے ہوتے کبھی پرشان مت ہونا آج سے تمہاری ساری پرشانیا ں میری سعد نے سحرش کو با زو ں کے حصار میں لیتے کہا اسکی سانسوں کی تپش سحرش اپنے چہرے پے محسوس کر رہی تھی وہ اسکی قربت میں بہت نروس ھو رہی تھی دل تو کر رھا آج ہی تمہیں رخصت کروا کے لے جاؤں سعد نے اسکے ہونٹوں پے ہونٹ رکھتے کہا تبی دروزہ بجنے لگا وہ پیچھے ہٹ گیا
ٹائم ختم نوال کہتی روم میں ائی
فوزیہ بہن میں چاہتی سحرش کی آج ہی رخصتی کر دوں میری مجبوری سمجیں سحرش کی امی نے فوزیہ بیگم کی منت کی
فوزیہ بیگم سوچ میں پڑ گئی ابھی تو ریاض صاھب کو بھی ماننا تھا
اگر انے ایسے سعد کے نکا ح کے بارے میں پتہ چلا تو وہ آسمان سر پر اٹھا لینے گے دونوں ماں بیٹے کی خیر نہیں تھی پھر
وہ چاہتی تھی کے دھوم دھم سے سحرش کو رخصت کروا کے لے جانے
لیکن وہ سحرش کے والدین کی مجبوری بھی جا نتی تھی
سعد سے بات کرنے کا فیصلہ کر کے اٹھ گئی
………………..
یہ ہیںں ثر یا انٹی سر رضا کی امی
اور ثر یا انٹی یہ زہرا اور سبین میری دوستیں اور رضا بھائی کی سٹوڈنٹ بھی
نوال نے انکااپس میں تعارف کروایا
ثر یا انٹی نے انکو پیار کیا
کچھ دیر وہ ثر یا انٹی کے پاس بیٹھی رھی پھر دونوں اٹھ کے سحرش کی پاس چل دی
کسی لگی آپکو دونوں نوال نے ثر یا انٹی کو اکیلے دیکھ کے پوچھا
اچھی ہیںں انہوں نے سادہ سے لہجے میں کہا
صرف اچھی آپکو انسے مل کے اچھا نہیں لگا کیا
نوال نے تیو ری چڑھائی
بہت اچھی ہیںں دونوں اب خوش انہوں نے اسے پچکا را
سبین کو دیکھ کے آپکو کچھ محسوس نہیں ہوا کے کاش میری بیٹی ہوتی یا میں اپنی بیٹی بنا لوں اسکو نوال انسے تفشیش شروع کر دی
ہاہاہا میں تمہاری بات سمجھ گئی ھوں کیا کہنا چاہتی ھو
میں تمہارے منہ سے سننا چاہتی تھی تو ایسا کار رہی تھی ورنہ جیس انداز سے تم نے اسکا تعارف کروایا میں سمجھ گئی تھی
کے یہ کوئی اسپیشل ہے میں اسکی آنکھوں میں اپنے بیٹے کہ عکس پہچان چکی ھوں بہت پسند ائی مجھے معصوم سی ہے
انہو ں نے ہستے ہوے کہا
اپنی عمر دیکھیں اور اپنے کام یہ سٹار پلس کے ڈرامے کام دیکھا کرنے انہی کہ اثر ھو رھا آپ پے بھلا ایسے کوئی تنگ کرتا بچوں کو
نوال نے انہے گھورتے کہا
تم جیسوں سے بات نکلو ا نے کے لیے ایسے طریقے اپنانے پڑتے انہوں نے اسے گلے لگتے کہا
ویسے میرے رضا کے ساتھ بہت جچے گی
وا وا مطلب آپ ظلم سما ج کا رول نہیں ادا کرنی والی بہت اچھی بات میں رضا بھائی کو بتا کے آتی
کہتی بھا گ گئی
دل کو یقین نہیں تھا
میری جان تم مل جاؤ گی مجھے
اب یقین کر لنے یہ اب آپکی ھو چکی زہرا نے کہا
اب تو ساری زندگی یہ اور میں
اور درجن بچے
زہرا نے لقمہ دیا
ہاہاہا ویسے بات بہت توٹھیک کی سعد نے سحرش کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے کہا
پلیز سعد بھائی سامنے دیکھ کے ڈرائیو کرنے اپنی نہیں تو میری پروا کر لیں میں ہادی کو بھری جوانی میں اکیلا چھوڑ کے نہیں جانا چاہتی زہرا نے معصومیت سے کہا
ہاہاہا میری بہن ڈائیلوگ کم جھاڑ کر سعد کہتا سڑک کی جانب مو توجہ ھو گیا
…………………
فوزیہ بیگم نے سعد سے رخصتی والی بات کی تو وہ بھی پرشان ھو گیا
لیکن رضا اور ہادی نے وقت کی نزکت کو سمھجتے مشورہ دیا کے وہ ابھی رخصتی کروا لے جانے
ہادی نے ساتھ یہ بھی کہا کے ابھی سحرش کو گھر نہیں لے جانا اسکے فلیٹ پے ہی رکھے جب تک انکل کو مانا نہیں لیا جاتا
سعد اور فوزیہ بیگم کو یہ بات بہت منا سب لگی اور وہ رخصتی کے لیے مان گے
تو کیسا لگ رہا مسز سعد بن کے
سعد نے سحرش کی ٹھو ڑ ی کو اوپر کرتے ہوے کہا
پلیز کچھ تو بولو میں اکیلا باتیں کرتا اچھا لگوں گا کیا
سعد نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
سحرش شرم کے مارے گولال ھو رھی تھی
بہت اچھا وہ سعد کی بار بار فورس کرنے پر اتنا ہی بولی
ہادی لوگ انے سعد کے ہی فلیٹ پے چھوڑ کی جا چکے تھے
بہت شاندار فلیٹ تھا
جہا ں زندگی کی ساری سولیہات موثر تھی
سب کچھ اتنی جلدی ہوآ کی منہ
دکھائی کا کوئی گفٹ نہیں لے سکا سعد نے کہا
کوئی بات نہیں سحرش نے اہستہ سے کہا
بیگم صاحبہ آج سونے کا اپکا اردہ کوئی نہیں ساری رات ایسے جاگتے گزرنی کیا
ویسے اگر آپکی سوچ رات بھر جاگنے کی تو مجھے کوئی اعترض نہیں
سعد نے شرارتی آواز میں کہا
سحرش اٹھ کے چینج کرنے جانے لگی تھی سعد نے
ہاتھ پکڑ کے روک لیا
مجھے ابھی جی بھر کے دیکھ تو لینے دو اسے اپنی مضبوط پنا وں میں لیتے کہا
سحرش نے گھبرا کے اٹھنا چاہ لیکن سعد نے اسکی کوشش نا کام بنا دی
اسے ایسے اپنی بہت کی مٹھی پھو ار میں بھگوا کے
سحرش کو خود پے رشک ہونے لگا
بہت ظلم ھو کبھی بیچارے مسکین شوہر کا خیال نہیں کرتی ھو
کبھی میرے بارے میں بھی سوچ لیا کرو ہادی نے زہرا سے کہا جو سونے کی تیاری میں تھی
ہادی آپکے علا وہ کس کا خیال کرتی اور پلیز سونے دیں مجھے بہت تھک گئی ھوں
زہرا نے ہونے کند ھو ں سے ہادی کا ہاتھ ہٹا تے ہوے کہا وہ ہادی کی خیال رکھنے والی بات اچھے سے سمجھ گئی تھی
وہ لوگ ابھی ہی سعد لوگوں چھوڑ کے اے تھے وہ بہت تھکی ہوئی تھی لیکن ہادی کی فر میش نے اسے تپا دیا تھا
دوسروں کو تو درجن بچوں کا مشورہ دے رہی تھی اور خود اک کے لے بھی تیار نہیں ہادی نے اسکے قریب آ کے کہا
آپ سے باتوں میں کوئی نہیں جیت سکتا کوئی نہ کوئی دلیل لے ہی اتے
زہرا نے ہتیار ڈالتے کہا کیوں کے اسے پتہ تھا ہادی سے جان چھوڑؤنا بہت مشکل ہے