محمد خورشید نادرؔ
محمد خورشید نادرؔ کا تعلق کامٹی سے تھا۔ انھوں نے ماہنامہ شگوفہ میں کئی مضامین تحریر کئے جن میں مردم گزیدہ۔ معیارِ انتخاب اور والدین قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی تحریروں میں حسِ مزاح کے علاوہ ان کے مطالعے، مشاہدے اور غور و فکر کے شواہد ملتے ہیں۔
خورشید نادر نے فنِ ظرافت سے متعلق بھی ایک طویل مضمون تحریر کیا تھا جو ماہنامہ شگوفہ میں بالاقساط شائع ہوا تھا۔ ان کا ایک اور دلچسپ مضمون معیارِ انتخاب شگوفہ میں شائع ہو چکا ہے۔
والدین
محمد خورشید نادرؔ
اللہ تبارک و تعالیٰ کا کرم و احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو والدین جیسی نعمت عطا فرمائی۔ یہ نعمت عظمیٰ مفت اور عام ہے۔ زاہد و عابد اور خاطی و عاصی کی کوئی تخصیص نہیں، حتیٰ کہ منکر و ملحد اور زندیق و مرتد کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔ لطف یہ کہ یہ نعمت بلا طلب ملی ہے اور جو غالبؔ نے کہا ہے ؎
بے طلب دیں تو مزہ اس میں سِوا ملتا ہے
تو اس کا اطلاق والدین پر بھی ہوتا ہے کیونکہ بچوں کو والدین بے طلب ہی ملتے ہیں۔ نہ بچوں کا مزاج گدایانہ ہوتا ہے نہ ان میں خوئے سوال ہوتی ہے۔
یہ والدین بچوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے ایام طفلی کا سہارا، پرورش، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار اُن کے جملہ اخراجات کے کفیل اور شرارتوں کے معاملے میں ان کے وکیل ہوتے ہیں۔ والدین یہ فرائض اعزازی طور پر انجام دینے کے لیے مامور مِن اللہ ہیں۔ انھیں نہ ستائش کی تمنا ہوتی ہے اور نہ صلہ کی پرواہ۔ وہ اس بات کے لیے مجبور ہیں کہ حتی المقدور اپنے فرائضِ منصبی انجام دے کر عِند اللہ ماجور ہوں۔
بعض والدین عجیب الوضع ہوتے ہیں۔ بعض غریب القطع، بعض شاخِ بے ثمر کی طرح ہوتے، بعض کثیر العیال اور قلیل الغذا۔ کچھ قِران السعدین کے نمونے ہوتے ہیں، کچھ اجتماع ضدّین کے، بعض میں موزونیت پائی جاتی ہے بعض میں شتر گربگی۔ بسا اوقات ماں ٹینی ہوتی ہے باپ کلنگ اور بچے رنگ رنگ۔ بعض عجیب الخلقت مجموعوں کو دیکھ کر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ان کی جلد سازی میں یقیناً دستِ قدرت کا دخل ہے۔ لیکن قدرت ایسے ماڈل تفریح طبع کے لیے نہیں، دیدۂ عبرت نگاہ کے معائنہ کے لیے فراہم کرتی ہے، بقیہ معاملات میں خود حضرتِ انسان کی کاوش و انتخاب کا دخل ہوتا ہے۔ بعض مضحکہ خیز جوڑے شرارت یا دانستہ چشم پوشی کے باعث بھی وجود میں آتے ہیں۔ ایک درد مند بیوی نے اپنے شوہر سے کہا،
’’آپ کا دوست جس لڑکی سے شادی کرنے والا ہے وہ انتہائی بد سلیقہ، زبان دراز اور مردافگن قسم کی ہے۔ آپ اسے اس شادی سے بعض رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟‘‘ شوہر نے گردن جھٹک کر کہا، ’’میں اسے ہرگز منع نہیں کروں گا، میں جب تم سے شادی کرنے والا تھا تو کیا اس نے مجھے حقائق سے آگاہ کیا تھا؟‘‘
مگر بعض معاملات میں فریقین جملہ معاملات بالا بالا ہی طے کر لیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ایک صاحب اپنے خانگی حالات سے سخت نالاں، بیزار اور دلبرداشتہ تھے کسی نے سبب دریافت کیا تو کہا،
’’اپنی ناعاقبت اندیشی اور جلد بازی کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ شادی اپنی پسند سے کی تھی۔ ہوا یہ کہ جب اس سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو میں بولتا رہا اور وہ سر جھکائے خاموشی سے سنتی رہی۔ بعد میں ملاقات ہوئی تو وہ مسلسل بولتی رہی اور مجھے بولنے اور مزید دریافت حال کا موقع ہی نہ ملا۔ وقتِ نکاح قاضی صاحب بولتے رہے اور ہم دونوں سنتے رہے، لیکن اب یہ حال ہے کہ ہم دونوں بولتے ہیں، بچے روتے ہیں، محلے والے سنتے ہیں اور رشتے دار ہنستے ہیں۔‘‘
ایک اور صاحب سے شادی کے بعد کے حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے پوری روداد حیات صرف ایک مصرع میں ادا کر دی یعنی فرمایا؎
خام بدُم، پختہ شدم، سوختم
ایک نوگرفتار نے جو ابھی تک زیر دام پھڑک رہے تھے، اپنے قلبی تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا،
’’مجھے اس بات کا کوئی غم نہیں کہ بیوی بد صورت ملی اور دو بچے ساتھ لائی، قلق اس بات کا ہے کہ جہیز برائے نام ملا۔‘‘
پھر ایک دلدوز آہ کے بعد کہا۔
مجھے غرقاب ہونے کا نہیں اس بات کا غم ہے
جہاں کشتی میری ڈوبی وہاں پانی بہت کم تھا
ہمارے ایک واقف کا رکی ازدواجی زندگی بڑی پُر سکون اور قابلِ رشک ہے۔ ہمہ وقت مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے اس کامیابی کا راز دریافت کیا گیا تو مسکراتے ہوئے کہا،
’’ابتداءً میں بھی بڑا افسردہ، ملول اور پریشان خاطر رہا کرتا تھا۔ دن تو کسی صورت گزر جاتا مگر شام ہی سے چراغ مفلس کی طرح بجھا بجھا سا رہتا کیونکہ گھر کے تصور ہی سے روح فنا ہوتی تھی۔ آخر اپنے پیر و مرشد سے رجوع کیا ان کی نگاہ التفات نے گویا گھر کے در و دیوا رہی بدل دیئے۔ یہ آں جناب کے ملفوظات سے ہے کہ اپنی منکوحہ کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے یہ بات جتاتے رہنا چاہیے کہ بیک وقت چار بیویاں رکھنا شرعاً جائز ہے۔ مَیں نے اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہوں، چنانچہ اب اللہ کا بڑا کرم ہے۔‘‘
ایسے والدین اب خال خال نظر آتے ہیں جو ہم پلہ اور ہر لحاظ سے متوازن ہوں، ورنہ مشاہدہ شاہد ہے کہ عموماً ایک فریق دوسرے پر حاوی و غالب ہوتا ہے، اپنی کارکردگی کے باعث نہیں بلکہ قوت گویائی کے بل بوتے پر۔ یہ شریکِ حیات شریکِ غالب کا درجہ رکھتا ہے، اور قدرت نے اس کی تخلیق میں نہ جانے کیا ترکیب رکھی ہے کہ اگرچہ وہ قینچی کی طرح چلتی ہے مگر تمام عمر اس کی دھار کُند نہیں ہوتی بلکہ یوماً فیوماً تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ غالبؔ نے غالباً ذاتی تجربے کی بنا پر کہا ہے ؎
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
غالبِ خستہ پر ہی منحصر نہیں، علّامہ اقبال جیسے شمشیر بکف مَرد مومن نے بھی دہائی دی ہے ؎
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
علّامہ موصوف ’’ذوالقرنین‘‘ تھے نہ جانے کیا گزرتی ہو گی۔ گمان غالب ہے کہ انھوں نے اپنے مرشد روحانی مولانا رومؒ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ’’سِرّ بیگماں‘‘ کو ’’حدیثِ دیگراں‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔
ایسے خانگی ماحول میں جہاں ایک فریق کو اتنی بالا دستی اور تفوّق حاصل ہو کہ فریقِ ثانی ہمیشہ سکڑا، سہما اور دم بخودر ہے، اسے نہ اذن لب کشائی ہو نہ مجال دم زدن تو ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے باعث بڑے پیچیدہ نفسیاتی اثرات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ شادی کے بعد ایک شوہر مرضِ خود کلامی میں مبتلا ہو کر بوقت شب بحالتِ خواب بآواز بلند بڑبڑانے لگے۔ شادی سے قبل یہ عارضہ نہ تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ نے انھیں ایک نفسیاتی معالج کو دکھایا تو اس نے پوری رام کہانی سننے کے بعد ان کی بیگم کو تخلیہ میں طلب کر کے کہا،
’’آپ کے شوہر کو کوئی بیماری نہیں ہے آپ صرف اتنا کیجیے کہ انھیں بھی دن میں بولنے کا موقع دیجیے۔‘‘
جن گھروں میں ایسا ماحول ہو کہ ایک فریق نان اسٹاپ لیکچر دیئے جائے اور دوسرا کان دبائے سنتا رہے تو اس گھر کے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ایک ماں نے اپنی بچی کو ڈانٹتے ہوئے کہا تم کتنی فضول بکواس کرتی ہو اور مسلسل شور مچا رہی ہو، اپنے بھائی کو دیکھو وہ کتنی خاموشی سے کھیل رہا ہے۔‘‘
بچی نے کہا، ’’اس کی خاموشی کا سبب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ ہم پاپا۔ ممی۔ گیم کھیل رہے ہیں۔ مَیں ممی کا رول ادا کر رہی ہوں اور یہ پاپا کا۔ پاپا رات گئے گھر آئے ہیں اور میں انھیں آپ کے لہجے میں ڈانٹ رہی ہوں، اس لیے اسے تو خاموش رہنا ہی ہے۔‘‘
حالات کے مارے ہوئے بعض شوہر خود اپنے گھروں میں بے بسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان مجبوروں پر ناحق خود مختاری کی تہمت لگائی جاتی ہے، کیونکہ ویٹو پاور(حقِ تنسیخ)ان کی بیگمات کو حاصل ہوتا ہے وہ جو چاہتی ہیں کرتی ہیں اور یہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک وکیل صاحب ہی بے حد ذہین و طباع اور بے حد شریف و سنجیدہ۔ عدالت میں اپنی قانونی موشگافیوں کے باعث فریقِ مخالف کا ناطقہ بند کرنے اور منصف کو اپنے قانونی استدلال اور زور خطابت سے ہمنوا بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر جب گھر پہنچتے ہیں تو ان کے طُرّہ پر پیچ و خم کا سارا پیچ و خم نکل جاتا ہے کیونکہ بیوی سخت جاہل، مغرور، منہ زور اور بے لگام ہے۔ تو انھیں نبض کائنات ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وکیل صاحب صلح پسند اور عافیت جُو انسان ہیں، جانتے ہیں کہ ایک خاموشی سو بلا کو ٹالتی ہے۔ اس لیے وہ بیوی کی کسی بات کی تردید کرنے سے عمداً گریز کرتے ہیں۔ ایک دن ان کے صاحبزادے نے کسی معاملے میں ان سے مداخلت کی اپیل کی تو بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا،
’’میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا، یہ میرے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ ہائی کورٹ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر کے خود اپنا فیصلہ صادر کرے، بلکہ اس پر رائے زنی اور تبصرہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں کہ یہ توہینِ عدالت کے مترادف ہو گا۔‘‘
شوہر عموماً بیویوں کی بے التفاتی اور بے رخی کے شاکی ہوتے ہیں مگر یہ محض غلط فہمی ہے بیوی کے لیے اس کا شوہر مجازی خدا ہوتا ہے مگر اسے شوہر کی خوشنودی کے علاوہ اور چیزوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہ خیر خواہی کے علاوہ کفایت شعاری پر بھی نظر رکھتی ہے۔ ایک محترمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس پہنچیں اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! دانت میں سخت تکلیف ہے، مگر ہمیں ایک جگہ جلد از جلد پہنچنا ہے۔ یونہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔ اس لیے سوئی وغیرہ کی ضرورت نہیں آپ یونہی دانت نکال دیجئے۔‘‘
ڈاکٹر نے انھیں کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو انھوں نے شوہر کو کرسی کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب! دانت میرا نہیں ان کا نکلوانا ہے۔‘‘
بیوی خواہ کسی کی ہو، اِسرافِ بیجا کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ہاں! اس کے زیورات اور ملبوسات کی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم کی بات دوسری ہے۔ بقیہ معاملات میں وہ فضول خرچی برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر بفرض محال فضول خرچی ناگزیر ہو تب بھی وہ اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک صاحب چین اسموکر(Chain Smoker) تھے یعنی مسلسل سگریٹ پیتے تھے۔ بیوی نے لاکھ جتن کئے کہ یہ عادتِ بد چھوٹ جائے اور یہ غیر ضروری خرچ کم ہو جائے مگر شوہر عادت سے مجبور تھے۔ لیکن وہ بنت حوّا ہی نہیں جو کھلّی سے تیل نکالنے کا ہنر نہ جانتی ہو۔ چنانچہ اس نیک بخت کو وہ تدبیر سوجھی جو کسی مرد کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ اس نے شوہر کے ہاتھ میں چھوٹا سا ڈبہ تھما دیا اور کہا،
’’آپ سگریٹ کی راکھ اس میں جمع کیجیے اور اس میں نمک خوردنی ملا کر منجن کی طرح استعمال کیجیے اور بازار سے منجن کی خریداری بند کر دیجئے۔‘‘
مرد فطرتاً لا ابالی اور لا پرواہ ہے۔ وہ معمولی اور غیر اہم چیزوں کو نظرانداز کر دیتا ہے مگر بیوی جزئیات پر بھی گہری نظر رکھتی ہے۔ ایک ماں نے اپنے بچے سے کہا،
’’دیکھو! آج سامنے کی دوکان سے کوئی سودا سلف خرید کر مت لانا۔‘‘
بچے نے حیرانی سے پوچھا ’’کیوں‘‘؟
ماں نے کہا، ’’وہ دوکاندار آج ہمارے گھر سے تمہارے دادا کا ترازو اور بانٹ لے کر گیا ہے۔‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد ہر معاملے میں غبی ہوتا ہے۔ بعض خاص معاملات میں تو اتنا زیرک اور دانا ہوتا ہے کہ عورت بھی عش عش کرتے غش کھا جاتی ہے۔ دو سہیلیاں عرصے کے بعد دوبارہ ملیں۔ وہ عورت جو خود کو ہوشیار سمجھتی تھی اپنی سہیلی کے شانہ پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دوسری سہیلی نے جو اس کی شادی کے پس منظر سے بخوبی واقف تھی، حیرانی سے اس گریہ و زاری کا سبب دریافت کیا تو اس نے سسکیوں کے درمیان کہا،
’’میں دھوکہ کھا گئی اور خود اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئی۔ میرا شوہر مجھ سے زیادہ شاطر نکلا۔‘‘
سہیلی نے دریافت کیا، ’’کیوں! کیا وہ دولت مند نہیں ہے؟ اس کی دولت حاصل کرنے کے لیے ہی تو تم نے اس سے شادی کی تھی۔‘‘
پہلی سہیلی نے کہا، ’’دولت مند تو ہے، مگر شادی کے وقت اس نے جو عمر بتائی تھی اس سے بیس سال کم عمر کا نکلا۔‘‘
تجربہ شاہد ہے کہ عموماً دھوکہ وہی کھاتے ہیں جو خود کو ہوشیار اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ ایک محترمہ نے شادی کے بعد اپنے شوہر سے شکایت کی،
’’آپ مجھے شادی سے پہلے بہت تحائف دیا کرتے تھے طلب کرنے پر بھی اور بے طلب بھی۔ مگر آج شادی کو تین سال ہو گئے۔ دو بچوں کی پیدائش کے بعد ہم میاں بیوی کی سرحد عبور کر کے والدین بن گئے مگر آپ نے پھُوٹی کوڑی کا بھی تحفہ نہ دیا یا۔‘‘
شوہر نے کہا، ’’کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ جال میں مچھلی پھنس جانے کے بعد کوئی شکاری اسے چارہ کھلاتا ہے؟ تم خود کو بہت ہوشیار اور مجھے عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پورا سمجھتی تھیں مگر اب کیا خیال ہے‘‘!
شوہر سے فرمائش کرنا بیوی کا حق سہی مگر اپنی تن پوشی کے لیے شوہر کی کھال کھینچنا بھی دانش مندی نہیں۔ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تحفے کے طور پر ایک کوٹ پیش کیا جس میں کسی برفانی جانور کی نرم و نازک بالوں سے بھری کھال کی پیوند کاری کی گئی تھی۔ بیوی پہلے تو بہت خوش ہوئی مگر پھر دفعتہً اداس ہو گئی۔ شوہر نے ڈوبتے دل سے پوچھا:
’’کیوں! کوٹ پسند نہیں آیا؟‘‘
بیوی نے کہا، ’’کوٹ تو بہت خوبصورت اور قیمتی ہے مگر میں اس کے بارے میں سوچ رہی ہوں جس کی کھال اس کوٹ کے لیے کھینچی گئی ہے۔‘‘
شوہر نے گلو گیر آواز میں کہا، ’’ہمدردی کے لیے شکریہ‘‘!
بعض بیویوں کو شکایت ہوتی ہے کہ انھیں موزوں شوہر نہ مل سکے بالکل یہی شکایت ان کے شوہروں کو بھی ہوتی ہے۔ والدین کا درجہ حاصل کرنے کے بعد یہ احساس اور شدید ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد گلو خلاصی نا ممکن تو نہیں مگر دشوار ضرور ہو جاتی ہے۔ ایک خاتون کو اپنی خوش فہمی پر سخت ندامت اور پشیمانی ہوئی۔ شادی کے کئی سال بعد جب ان کی خوش فہمی دور ہوئی اور انھیں اپنے شوہر کے ناکارہ اور نا اہل ہونے کا یقین ہو گیا تو انھوں نے اپنے شوہر سے بڑے تاسف سے کہا،
’’شادی سے قبل آپ کہا کرتے تھے کہ میں کسی لائق نہیں۔ مگر میں نے اسے آپ کی خاکساری پر محمول کیا مگر اب معلوم ہوا کہ آپ سچ کہہ رہے تھے۔‘‘ شوہر نے کہا، ’’تم مجھ پر فریب دہی کا الزام عائد نہیں کر سکتیں۔ میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ میں کسی لائق نہیں۔‘‘
لیکن اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ غلطی صرف ایک فریق سے ہوتی ہے۔ دوسرا فریق اس سے بھی بڑی غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ ایک شخص نے اپنے نئے پڑوسی سے کہا،
’’وہ کالی کلوٹی، بھدی، موٹی اور بدصورت عورت جو ابھی آپ کے گھر میں داخل ہوئی کون ہے‘‘؟
’’وہ میری بیوی ہے‘‘ ۔
’’آپ کی بیوی ہے! معاف کیجئے، مجھ سے بڑی غلطی ہوئی، میں سمجھا……‘‘
اس شخص نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا، ’’نہیں بھائی! غلطی تو در اصل مجھ سے ہوئی ہے‘‘ ۔
اسی لیے شریکِ حیات کے انتخاب میں تعجیل مناسب نہیں۔ ’’پہلے تولو پھر بولو۔‘‘ اسی موقع کے لیے کہا گیا ہے۔ یعنی کامل غور و فکر اور تفتیش و تفخص کے بعد ہی کہنا چاہیے کہ ’’جی ہاں! قبول کیا میں نے‘‘ ورنہ تیر از کمان جستہ باز نیا ید۔ اس ضمن میں کسی فریب خوردہ کا قول ہے کہ شادی بوقت صبح کرنا اولیٰ ہے کیونکہ اتنا وقت بہر حال باقی رہتا ہے کہ انتخاب پر نظر ثانی کر کے غلطی کا کیا ازالہ کیا جا سکے یا اس کا کفارہ ادا کرنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔ اس کے برعکس شام میں شادی کرنے میں یہ یہ قباحت ہے کہ اس کے بعد غور و فکر تو درکنار پچھتانے کا بھی وقت نہیں رہتا۔
اسی لیے کہا گیا ہے جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ بے شک! بعض بزرگان سابقہ نے یہ بھی کہا ہے کہ نیک کام میں دیر نہ کرنی چاہیے مگر یہ مشورہ انھوں نے غالباً صاحبِ اولاد ہونے کے سلسلے میں دیا ہے شادی کے معاملے میں صبر و تحمل ہی مناسب ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سجدۂ شکر کے بعد سجدۂ سہو ادا کرنا پڑے۔
انگریز بھی اس معاملے میں محتاط تھے۔ ایک انگریز بزرگ کا قول ہے کہ ’’Look before you leap‘‘یعنی کودنے سے پیشتر یہ دیکھ لو کہ زمین ہموار ہے یا نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جلد بازی میں کسی کنوئیں یا کھائی میں جا پڑو۔
بہرحال غور و فکر اور احتیاط لازمی و مقدم ہے۔ شادی سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی بالخصوص خانگی معاملات میں ورنہ عجلت ندامت و پشیمانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ایک صاحب رات گئے گھر پہنچے۔ بھوک کی شدت سے آنتیں قل ہو اللہ کا ورد کر رہی تھیں، دیکھا کہ بیگم خورد و کلاں کے نرغے میں اس طرح بیٹھی ہیں جیسے مرغی اپنے چوزوں کے درمیان۔ معلوم ہوا کہ کھانا تیار نہیں۔ جل بھُن کر خود کباب ہو گئے۔ بیگم سے استفسار کیا تو وہ بولیں،
’’کھانا کون تیار کرتا، آپ نے ملازمہ کو فون پر گالیاں دیں وہ اسی وقت ملازمت چھوڑ کر چلی گئی،‘‘
’’ارے! فون پر ملازمہ تھی، میں سمجھا تم ہو‘‘۔
خانگی معاملات میں اس نوعیت کے واقعات کا ظہور پذیر ہونا معمولات میں سے ہے لیکن اگر محترمہ امور خانہ داری سے واقف ہوتیں تو ایسی ناگوار صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔ اسی لیے ماہرین فرائض نسواں کا کہنا ہے کہ امور خانہ داری سے مکمل واقفیت زیورات اور ملبوسات سے زیادہ اہم ہے ورنہ تعلقات میں کشیدگی اور پیچیدگی پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ ایک شوہر اپنی کاروباری مصروفیات سے خستہ اور بھوک سے نڈھال، افتاں و خیزاں گھر پہنچے۔ مگر پہلا لقمہ منہ میں رکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ قہر آلود نظروں سے بیوی کو گھورا اور لقمہ کو بمشکل نگلنے کے بعد پوچھا: —- ’’یہ کھانا تم نے تیار کیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘ بیوی نے لہک کر کہا۔ ’’اس کی ترکیب میری ایک سہیلی نے بتائی تھی، کیوں؟ کیسا لگا؟‘‘
’’وہ میں بعد میں بتاؤں گا، پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ شادی کے بعد تمہاری اس سہیلی کا کیا حشر ہوا؟‘‘
بیوی نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا، ’’اس کے شوہر نے اس کی قدر نہ کی، آج کل میکے میں ہے۔‘‘
شوہر نے اس طرح سر ہلایا گویا سہیلی کا انجام اس کی توقع کے عین مطابق ہوا ہو۔ یوں بھی ایسی بیوی کا میکے ہی میں رہنا اچھا ہے جو اتنا خراب کھانا تیار کرے کہ شوہر تو کجا گھر کا کتا بھی پڑوس میں جا کر کھائے۔
مرد فطرتاً برد بار واقع ہوا ہے، طیش میں اسی وقت آتا ہے جب پیمانۂ صبر لبریز ہو جائے۔ اس میں خدانخواستہ وقوف و شعور کی کمی نہیں مگر تحمل اور درگزر اس کی فطرت ہے، مگر بدقسمتی سے اس کے اس طرز عمل کو عورت کی چشم ظاہر بین حماقت سے تعبیر کرتی ہے، خود کو اس سے زیادہ چالاک سمجھتی ہے اور پھر اسے اس چالاکی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک فیشن ایبل، روشن خیال اور آزاد رو محترمہ اچانک بیمار ہوئیں، بسترِ علالت بسترِ مرگ بن گیا۔ جب دم واپسیں برسرِ راہ ہوا تو آخری دو ہچکیوں کے درمیان کہا،
’’میں نے آپ سے بارہا بے وفائی کی ہے، مگر آپ کو اس کا علم نہ ہوا، مجھے معاف………‘‘
’’مجھے اس کا علم ہو گیا تھا‘‘ شوہر نے بڑے سکون سے کہا۔ ’’لیکن تمہیں اس کا علم نہ ہو سکا کہ تمہیں زہر کس نے دیا ہے۔‘‘
یہ سن کر ان محترمہ کی آنکھیں خوف و حیرت سے پھیل گئیں اور تدفین تک اسی حالت میں رہیں۔ جو بیوی خود کو چالاک اور شوہر کو احمق سمجھے گی وہ اسی طرح غچہ کھائے گی۔
دوسروں کو بیوقوف سمجھنا غالباً عورتوں کی فطرت ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی ہم جنسوں کو بھی بے وقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایک تقریب میں چند مستورات یکجا تھیں۔ ان میں سے ایک محترمہ زیادہ تیز و طرار تھیں۔ انھوں نے لوازماتِ حسن استعمال کرنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا تھا اور اپنے بدن کو دلّی شہر کا مینا بازار بنا رکھا تھا۔ وہ محترمہ اپنی عمر اتنی کم بتا رہی تھی کہ آخر وہ عورتیں بھی چڑھ گئیں جنھوں نے خود اپنی عمریں دس دس سال کم بتائی تھیں۔ ان محترمہ کی بغل میں ان کی بیٹی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس سے برداشت نہ ہو سکا تو اس نے کہا:
’’امی اب اتنی ننھی بھی نہ بنیں۔ اپنی اور میری عمر میں کم از کم نو مہینے کا تو فرق رکھیئے۔‘‘
اپنی عمر کم بتلانا غالباً مستورات کا نفسیاتی مرض ہے اور شاید ان میں وراثتاً پایا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر سے کہا،
’’یہ اپنی نئی پڑوسن مجھ سے بہت جلتی ہے۔ خود تو نوخیز بنتی ہے مگر میری عمر تیس سال بتاتی ہے۔‘‘
’’وہ بے وقوف ہے۔‘‘ شوہر نے کہا ’’اس نے تمہاری عمر کا اندازہ غلط لگایا ہے۔‘‘
بیوی نے خوش ہو کر کہا، ’’اچھا میری عمر کے متعلق آپ کا کیا انداز ہے؟‘‘
’’کم از کم چالیس سال‘‘ شوہر نے پورے یقین سے کہا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ وبا صرف عورتوں میں پھیلی ہوئی ہے مردوں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے دروغ بر گردن راوی۔۔ ۔۔ جوشؔ، فراقؔ اور مجازؔ ایک رات کہیں ہم پیالہ تھے جب کئی دَور چل چکے تو جوشؔ نے کہا:
’’ماشاء اللہ، ابھی جوان ہیں، ہماری عمر پچیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔‘‘
فراقؔ نے پوپلے منہ سے کہا، ’’ظاہری شباہت سے قطع نظر میں بھی اٹھارہ بیس سال سے زیادہ عمر کا نہیں ہوں۔‘‘
مجازؔ نے معصومیت سے کہا، ’’اس حساب سے مَیں تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔‘‘
بچے والدین کو مربوط رکھنے کے لیے سنہری زنجیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو ان کے درمیان ایک تکلیف دہ خلاء محسوس ہوتا ہے۔ یہ خلاء اگرچہ مصنوعی طور پر پُر بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اوریجنل اولاد کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ مضبوط، پائیدار اور قابلِ اعتماد ثابت ہوتے ہیں۔ فریقین میں سے کوئی رسیاں تڑانے کی کوشش کرے تو یہ زنجیر پا ثابت ہوتے ہیں۔ بعض بچے فطرتاً شوخ و شنگ اور شریر ہوتے ہیں، اتنے شریر، چالاک اور ایسے بہانہ ساز کہ والدین دانتوں تلے انگلی دبا کر رہ جاتے ہیں۔ ایک شریر بچہ اسکول سے کافی تاخیر سے گھر واپس ہوا۔ ماں نے تاخیر کا سبب دریافت کیا تو کہا،
’’راستے میں اتنی کیچڑ اور پھسلن تھی کہ میں ایک قدم آگے رکھتا تو دو قدم پیچھے سرک جاتا تھا۔‘‘
ماں نے بڑی حیرت سے کہا، ’’اس صورت میں تو تمھیں گھر پہنچنے کے بجائے اسکول سے بھی آگے نکل جانا چاہیے تھا۔‘‘
’’میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں۔‘‘ بچے نے مسکرا کر کہا ’’میں نے اپنا رخ بدل لیا تھا۔ اپنا منہ اسکول کی طرف کر لیا تھا اور پشت گھر کی طرف۔‘‘
یہ نئی نئی شرارتوں کے موجد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شریر بچہ خلافِ معمول خاموش اور سنجیدہ نظر آئے تو اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں کہ وہ شرارت سے تائب ہو چکا ہے۔ بلکہ یہ در اصل اس بات کی علامت ہے کہ وہ کوئی خطرناک شرارت کر چکا ہے اور اب سنجیدگی سے والدین کے رد عمل کا منتظر ہے۔
بعض بچے اتنے نڈر اور بے باک ہوتے ہیں کہ والدین تو کجا دوسروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ایک بچہ اپنے گدھے کی رسی تھامے چل رہا تھا۔ جب وہ ایک کیمپ کے قریب سے گزرا تو اپنے گدھے کی گردن کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور جلد جلد چلنے لگا۔ ایک فوجی یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے خوش دلی سے مسکرا کر کہا:
’’تم نے اپنے گدھے کو اتنی مضبوطی سے کیوں تھام رکھا ہے؟ کیا اس سے برادرانہ محبت ہے؟‘‘
’’نہیں! مَیں نے اسے اس لیے تھام رکھا ہے کہ کہیں یہ گدھا بھی فوج میں نہ بھرتی ہو جائے۔‘‘
فوجی نے بگڑ کر کہا، ’’ہمیں تمہارے مریل گدھے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے کیمپ میں ایک سے بڑھ کر ایک گدھے موجود ہیں۔‘‘
عورتوں کے متعلق یہ غلط فہمی عام ہو گئی ہے کہ وہ ناقص العقل ہوتی ہیں، یہ ہوائی نہ جانے کس دشمنِ زن نے اڑائی ہے۔ ہم نے ایک واقفِ اسرارِ نسواں سے اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی استدعا کی تو اس نے بعض ٹھوس دلائل پیش کرنے کے بعد اِتمامِ حجت کے لیے ذیل کا واقعہ سنایا،
’’ایک شخص کو محسوس ہوا کہ اس کا دماغ کثرت کار اور ہجومِ افکار کے باعث ناکارہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ ایک اسٹور میں داخل ہوا جہاں انسانی اعضاء فروخت کیے جاتے تھے۔ سیلز مین نے اسے دو بھیجے پیش کیے ایک مرد کا تھا اور دوسرا عورت کا۔ اس شخص کو یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ مرد کے بھیجے کی قیمت ناقابلِ یقین حد تک کم تھی اور عورت کے بھیجے کی قیمت حدِ قیاس سے سِوا۔ اس نے سیلز مین سے پوچھا،
’’عورت کے دماغ کی قیمت اتنی زیادہ کیوں ہے؟ کیا عورت مرد سے زیادہ عقلمند ہوتی ہے؟‘‘
’’جی نہیں‘‘ سیلز مین نے مسکرا کر کہا۔ ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ آدمی کا دماغ استعمال شدہ ہے جبکہ عورت کا دماغ سرے سے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ اس لیے ابھی تک اصلی حالت میں موجود ہے۔‘‘
مگر ہمارے مطالعے میں جو واقعہ آیا، وہ اس سے مختلف ہے۔
ایک والد صاحب اپنے بچے کی انگلی تھا مے برٹش میوزیم میں داخل ہوئے۔ ایک شوکیس میں دو کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں، ایک چھوٹی دوسری بڑی۔ بچے نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو والد بزرگوار نے تختی پر درج شدہ عبارت کو پڑھنے کی کوشش کی مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ بچے نے وضاحت کے لیے اصرار کیا تو اپنی صوابدید کے مطابق فرمایا، ’’یہ دونوں کھوپڑیاں شیکسپیئر کی ہیں چھوٹی کھوپڑی اس وقت حاصل کی گئی تھی جب وہ بچہ تھا اور بڑی اس وقت جب اس کا انتقال ہوا۔‘‘
یہ وضاحت اس طبقے کے فرد کی ہے جو کامل العقل ہونے کا مدعی ہے خواتین و حضرات سے متعلق ایک اور متنازعہ فیہ مسئلہ یادداشت سے متعلق ہے۔ ماہرینِ امراضِ نسواں کی تحقیق کے مطابق مرض نسیان طبقۂ نسواں میں شاذ ہی پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مردوں میں عام ہے اور شادی کے بعد مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے۔ خواتین اپنے ذاتی تجربے کی بنا پراس تحقیق کی نہایت شدّ و مد سے تائید و تصدیق کرتی ہیں اور اس معاملے میں وہ حق بجانب ہیں۔
ایک میاں بیوی شاپنگ کے بعد گھر لوٹے تو شوہر نے کہا،
’’تم مجھے بھلکڑ کہتی ہو مگر دیکھو! تم اپنی چھتری دوکان پر چھوڑ آئی تھیں، اور مَیں نہ صرف یہ کہ اپنی چھتری لے آیا ہوں بلکہ تمھاری چھوڑی ہوئی چھتری بھی ساتھ لیتا آیا ہوں۔‘‘
بیوی نے پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، ’’آپ نے یہ کیا غضب کیا! ہم تو خالی ہاتھ شاپنگ کے لیے نکلے تھے۔ وہ دیکھئے ہماری چھتریاں تو گھر پر ہی موجود ہیں۔‘‘
ہمیں افسوس ہے کہ بہت سے سخن ہائے گفتنی بخوف طوالت نا گفتہ رہ گئے۔
(ماہنامہ شگوفہ ۱۹۸۶)