وہ بری طرح دروازہ پیٹ رہی تھی، مگر گھر کے اندر موجود امسہ کے کانوں پر جوں بھی نا رینگی،
وہ لاؤنج میں صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھی تھیں، انکا دماغ بلکل سن ہوچکا تھا، جبکہ گھر کے دروازے پر کھڑی ازلفہ دروازہ پیٹ پیٹ کر تھک چکی تھی جب اسے خیال آیا کہ گھر کی ایک چابی اسکے پاس بھی ہے، اسنے خود کو کوستے ہوئے بیگ سے فوراً چابی نکالی اور دروازہ کھولنے لگی۔۔۔۔
اندر آتے ہی اس کی نظر امسہ پر پڑی۔۔
ممّا آپ گھر پر کب آئیں؟؟
آپ کو پتہ ہے یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟؟
وہاں سب آپکے بارے میں بکواس کر کررہے ہیں ممّا۔۔۔۔
میں یہ سب برداشت نہیں کرسکی اسی لیے میں گھر آگئ۔۔
وہ ایک ساتھ بنا سانس لیے بولے ہی جا رہی تھی مگر امسہ اسکے سامنے بلکل سن بیٹھی تھیں۔۔
ممّا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہی ہیں؟؟
میں نے جاب سے استعفیٰ دے دیا ہے۔۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری مگر انکے منہ سے نکلتے جملوں نے ازلفہ کے وجود کو ساکت کردیا وہ پلک جھپکائے بغیر انکو دیکھتی رہ گئی۔۔
ممّا۔۔ اسنے آہستگی سے اپنے ہونٹ ہلائے ۔۔
آپ فکر نہیں کریں ممّا، میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دوں گی ہم دونوں کوئ اور جاب کرلیں گے سب ٹھیک ہوجائے گا ممّا۔۔
وہ انکے برابر میں بیٹھی انکے کندھے سے لگ کر کہہ رہی تھی۔۔
نہیں ازلفہ تم جاب نہیں کروگی تم اپنی تعلیم مکمل کروگی میں کچھ نہ کچھ کرلونگی۔۔ انہوں نے کہا۔۔
لیکن ممّا میں اب یونیورسٹی نہیں جاسکتی آپکو معلوم ہے نہ وہاں سب آپکے بارے میں کس قسم کی باتیں کررہے ہیں۔۔
اسنے احتجاج کرنا چاہا۔۔
کوئ کچھ بھی کہے ہمیں کسی کے کہنے سے اپنی زندگی نہیں بدلنی ہے، لوگوں کو تو موقع چاہیے عورت کو بدنام کرنے کا عورت ہمارے معاشرے میں صرف فتوعات یا تقریروں کا حصّہ بنائی جاتی ہے اور جب اس سے بھی دل نہیں بھرتا تو لوگ گلی محلّوں میں اسکی چرچا کرکے جی بہلالیتے ہیں۔۔
مگر ہم اپنے معاشرے میں موجود ایسے لوگوں کی باتوں سے ڈر کر ہمت نہیں ہار سکتے۔۔
وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بول رہی تھیں۔۔
جب تمھارے پاپا نے بھری جوانی میں مجھے طلاق کا تمغہ دیا تھا تب میں تمھاری پرورش کے لیے اس چار دیواری سے باہر نکلی تھی نوکری کی تلاش میں تاکہ میں تمھیں اچھا مستقبل دے سکوں۔۔
جانتی ہو لوگوں نے مجھ پر کیسے کیسے طنز کیے تھے۔۔۔
کہ میں خوبصورت جوان عورت بدکرادر ہوں کیونکہ میں نوکری کرتی ہوں، اگر اس وقت میں نے یہ سب برداشت نہیں کیا ہوتا تو آج تمھیں اتنی آسائشیں نہیں ملتیں۔۔
یہاں لوگ کسی عورت کو حلال طریقے سے روزی کماتے دیکھ نہیں سکتے مگر حرام کام کرنے والی کے بستر پر نوٹ بڑی خوشی سے رکھ کر جاتے ہیں۔۔
انکے الفاظ بلکل سچ تھے وہ کڑوا سچ اگل رہی تھیں جو سچ دنیا کہ ہر انسان کے سامنے ہے مگر وہ اس سچ کو قبول کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔۔
ازلفہ کے چہرے پر خاموشی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔۔
ٹھیک ہے ممّا میں جاؤنگی، میں سب کا سامنا کروں گی میں مظلوم اور کمزور نہیں بنونگی۔۔
اس کو اپنے وجود میں ایک طوفان اْٹھتا ہوا محسوس ہوا ہمت اور خوداعتمادی کا طوفان۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی ہمت بن چکی تھیں۔۔
اچانک امسہ کے موبائل پر رِنگ ہوئ اسکرین پر نیو نمبر چمک رہا تھا۔۔
امسہ نے کال رسیو کرتے ہی ہیلو بولا۔۔
کیسا لگا میرا سرپرائز مس امسہ۔۔ یہ چہکتی ہوئی آواز زلان ملک کی تھی جس کو پہچانتے ہی انکا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔
تم نے سرپرائز نہیں دیا بلکہ اپنی اوقات بتائ ہے ہمیں۔۔
امسہ نے سخت لہجے میں کہا تو اسنے ایک قہقہہ لگایا۔۔
لگتا ہے آپکو میرا سرپرائز کچھ خاص پسند نہیں آیا۔۔ اسنے کہا۔۔
تمھیں کیا لگتا ہے یہ سب کرکہ تم ہمیں ڈراؤگے اور ہم ڈر کر تمھارے قدموں میں گر جائیں گے۔۔
امسہ بھڑکنے لگیں۔۔
نہیں نہیں مس امسہ میں آپکو اپنے قدموں میں گرنے کی زحمت نہیں دونگا وہ بہت نرمی سے بات کر رہا تھا۔۔۔
بلکہ میں خود آپکو گھسیٹتے ہوئے اپنے قدموں میں گراؤنگا۔۔ اچانک اسکا لہجا بدل گیا۔۔
کیا مطلب ہے تمھارا؟؟ امسہ کو خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی سنائی دی۔۔
وقت ہر بات کا مطلب بہت اچھی طرح سمجھا دیتا ہے یہ بات آپ نے ہی کہی تھی نہ مجھے؟؟
تو انتظار کریں وقت کا۔۔
اسکی باتوں میں چھپی ہوئ دھمکی نے امسہ کا دل دہلادیا دوسری طرف سے لائن کٹ چکی تھی لیکن امسہ کے کانوں میں اب تک زلان کے الفاظ گونج رہے تھے وہ فکر اور گھبراہٹ کے عالم میں ہونٹ چبا رہی تھیں۔۔
کیا بکواس کی ہے ممّا اس نے؟؟۔۔ ازلفہ انکو جھنجھوڑ کر پوچھ رہی تھی۔۔
دھمکی دی ہے، ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا ہے وہ ہمارے۔۔
انہوں نے کہا، جس پر ازلفہ کچھ نہ بولی۔۔
ایک بار پھر اس گھر کی در و دیواروں میں ماتم کی دراریں پڑ گئیں۔۔۔۔
_____________________________________
کہاں تھے تم؟؟ شاہ زیب ملک نے اس سے پوچھا جو اپنے کمرے کی گیلری میں کھڑا باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔۔
سورج کی کرنوں سے اسکا چہرہ جگمگا رہا تھا جبکہ وہ شاہ زیب ملک کے سوال کو بری طرح اگنور کرچکا تھا۔۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے زلان کہاں تھے تم اور گھر کب آئے؟؟
اس بار انکی آواز میں کچھ زور تھا جس نے زلان کو انکی طرف متوجہ کرہی لیا۔۔
کسی کو برباد کرنے کا سامان جمع کرنے گیا تھا۔۔
اسنے عام سے لہجے میں جواب دیا۔۔
ان دونوں کو برباد کرتے کرتے تم خود برباد ہوجاؤگے۔۔
شاہ زیب ملک نے اسے گھورا جس پر وہ طنزیہ مسکرایہ۔۔
کبھی کبھی مجھے شک ہوتا ہے ڈیڈ کہ میں آپکا سگا خون ہوں یا آپ ان دونوں کے کچھ لگتے ہیں۔۔
اسنے شک کی نگاہ سے انہیں دیکھا۔۔
بکواس بند کرو اپنی زلان بھولو مت اپنے باپ سے بات کررہے ہو تم۔۔
وہ بدک گئے۔۔
صاحب۔۔۔ صاحب۔۔۔ انکا خاص ملازم بھاگتا ہوا انکے پاس آدھمکا۔۔
کیا ہوا؟؟ شاہ زیب ملک نے پوچھا۔۔
صاحب۔۔ وہ۔۔۔ وہ گھر کے باہر میڈیا والے آگئے ہیں اور بہت ہنگاما کررہے ہیں۔۔
وہ ہانپتا کانپتا بتا رہا تھا جس پر شاہ زیب ملک نے اپنے سامنے کھڑے زلان کو سامنے سے ہٹایا اور گیلری سے باہر جھانکنے لگے۔۔
واٹ ربش۔۔۔ انہوں نے اپنا ہاتھ زور سے دیوار پر مارا۔۔
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔۔
چلو نیچے۔۔ وہ ملازم کے ہمراہ وہاں سے نکلنے لگے، جبکہ زلان وہیں کھڑے کھڑے باہر ہونے والے تماشے کا نظارہ کر رہا تھا۔۔۔
شاہ زیب ملک تیز تیز قدموں سے لان کا سفر تہ کرتے ہوئے بنگلے کے دروازے تک پہنچے ملازم نے یہ وسیع دروازہ کھولا وہ میڈیا کے سامنے جانے پر مجبور ہوچکے تھے۔۔
شاہ زیب ملک آپ میڈیا کو یہ بتائیں کیا یہ سچ ہے کہ اس شہر کی مشہور یونیورسٹی کی لیڈی پروفیسر کے ساتھ آپ کے بیٹے کے ناجائز تعلقات ہیں۔۔۔!
انکے سامنے جاتے ہی ان پر سوالوں کی برسات شروع ہوچکی تھی۔۔
جی ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ آپکے بیٹے کا انکے گھر آنا جانا ہے۔۔۔!
آپ میڈیا کو بتائیں کہ کیا یہ سچ ہے یا آپ لوگ اس لیڈی پروفیسر کو دھمکا رہے ہیں۔۔۔!
ایک کہ بعد ایک چینل والے ان سے مختلف سوالات کر رہے تھے۔۔
دیکھئیے ایسا کچھ نہیں ہے میرے بیٹے کے کسی کے ساتھ کوئی تعلقات نہیں ہیں۔۔
یہ کسی نے ہمیں بدنام کرنے کہ لیے افواہ پھیلائی ہوئی ہے۔۔
وہ اس طوفان کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
لیکن آپکے خلاف یہ سازش کون کرسکتا ہے کیا آپکو کسی پر شک ہے؟؟
دیکھیں آپ لوگ تو جانتے ہی ہیں اچھے آدمی کو کوئی بھی آگے بڑھنے نہیں دیتا ہے، اسی لیے مجھ سے حسد کرنے والوں نے میرے اور میرے بیٹے کو بدنام کرنے کے لیے یہ سازش کی ہے تاکہ عوام ہم سے بدگمان ہوجائے اور میں الیکشن ہار جاؤں۔۔۔
مگر میں اپنے دشمنوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شاہ زیب ملک نے ہارنا نہیں سیکھا ہے وہ ضرور جیتے گا۔۔۔
وہ اپنے آپکو بچانے کہ لیے ہر طرح کا ہتکنڈا اپنا رہے تھے انکے جی بھر کے جھوٹ بولنے کہ بعد انکے پاس کھڑے کارکنوں نے نعرے لگانے شروع کردیے۔۔۔
_____________________________________
ڈور بیل کی آواز کے آتے ہی ازلفہ نے دروازہ کھولا، لیکن سامنے کھڑے اس طوفان کو دیکھتے ہی اسکی روح تک کی چینخیں نکل گئیں ان دونوں بے گناہوں کو گناہگار بنا کر رسوا کرنے کے لیے میڈیا بھی انکے گھر آپہنچی تھی۔۔
باہر سے اندر داخل ہونے والے اس شور کو سنتے ہی امسہ بھی وہاں پہنچی۔۔
مس امسہ ذولفقار آپکے اور شاہ زیب ملک کے بیٹے زلان ملک کے درمیان تعلقات بننے کا سلسلہ کب سے جاری ہے؟؟
کیا آپکا دوسری شادی کرنے کا خیال ہے؟؟
ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے، آپکے اور زلان ملک کے درمیان محبت کے تعلقات کافی عرصے قبل جنم لے چکے تھے۔۔۔
میڈیا کہ مرچ مصالحہ لگے سوالات سے انکا زندہ درگور ہونے کا جی چاہ رہا تھا۔۔۔
ایک کہ بعد ایک شخص سوالات نہیں بلکہ بڑے بڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ان کے سر پر مار رہا تھا۔۔
جواب دیں امسہ زولفقار کیا آپکے ساتھ کوئ زبردستی کی جارہی ہے یا آپ اپنی خوشی سے اس شادی پر رضامند ہیں؟؟
انکا دماغ پھٹ رہا تھا۔۔
ہمیں آپ لوگوں کے کسی سوال کا کوئ جواب نہیں دینا ہے چلیں جائیں آپ لوگ یہاں سے۔۔
ازلفہ نے اپنا غصہ ان پر اتار کر دروازہ ٹھک کر کے بند کردیا مگر امسہ یہ سب برداشت نہ کرسکی اور دھڑام سے زمین پر چکرا کر گر گئیں۔۔
وہ ملازم کی مدد سے انکو اٹھا کر کمرے میں لے آئ جہاں طویل عرصے سے خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔
_____________________________________
وہ ایک بار پھر کھلے آسمان کے نیچے اسی سوئیمنگ پول کے کنارے کھڑا ہوا تھا جس کو وہ ایک دفعہ آتش کدہ بنا چکا تھا۔۔
آج بھی اس پول میں زلان ملک کی حیوانیت کے اثرات موجود تھے۔۔
اسکے گھر کی سب سے خوبصورت جگہ یہی تھی اسی لیے اسکو یہاں آنا بہت اچھا لگا تھا۔۔۔
آسمان پر ٹمٹماتے ستارے پول کے پانی میں موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔۔۔
یہ رہا تمھارا پاسپورٹ اور ویزہ۔۔ شاہ زیب ملک نے پاسپورٹ اسکے منہ پر دے مارا۔۔۔
میں نے تمھاری ٹکٹ کروالی ہے زلان تم کل صبح کی فلائٹ سے کنیڈا جا رہے ہو۔۔۔
وہ پاسپورٹ کو ہاتھ میں لیے گھور رہا تھا۔۔
میں تمھارا سامان پیک کروارہا ہوں۔۔ انہوں نے اسکے چہرے پر آنکھیں گڑا کر کہا۔۔
اور وہاں سے چلے گئے لیکن وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے پاسپورٹ کو اپنی مٹّھی میں مڑوڑ رہا تھا۔۔
_____________________________________
بیگم صاحبہ میں کھانا لگادوں؟؟ انکے کمرے میں ادب سے کھڑی ملازمہ نے پوچھا۔۔
نہیں ابھی نہیں تمھارے صاحب آجائیں پھر کھانا لگادینا۔۔
صوفیا نے چینل بدلتے ہوئے کہا وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔۔
ملازمہ جاچکی تھی چینل بدلتے وقت وہ ایک نیوز چینل پر رکیں جس پر امسہ اور ازلفہ کی میڈیا سے گفتگو کی خبریں نشر کی جارہی تھیں۔۔
انکی آنکھیں حیرت سے پھٹ چکی تھیں اور دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔
یہ سب کب ہوا؟؟ انہوں نے خودکلامی کی۔۔
شاید یہ سب اس وقت ہوا ہوگا جب میں گھر پر نہیں تھی۔۔
انہوں نے خود کو اپنے ہی سوال کا جواب دیا وہ حیرت سے ٹی وی اسکرین پر نظریں گڑائ بیٹھی تھیں۔۔
ہمہ وقت دیگر غلط فہمیوں نے انکے زہن کو جکڑلیا تھا وہ گہری سوچ میں ڈوب چکی تھیں۔۔
_____________________________________
اب کیسی طبیعت ہے آپ کی ممّا؟؟ اسنے نیم غنودگی کے عالم میں بیڈ پر لیٹی امسہ سے پوچھا۔۔
اسکا ہاتھ امسہ کے ہاتھوں میں تھا۔۔
ٹھیک ہوں بیٹا۔۔
امسہ نے آہستگی سے کہا۔۔۔
میں آپکے لیے سوپ منگواتی ہوں۔۔
وہ اٹھنے لگی تھی کہ امسہ نے روک لیا۔۔
نہیں بیٹا میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔
بی بی جی ازلفہ بی بی کہ سسرال والے آئے ہیں۔۔
ملازم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا جس پر ان دونوں کی سانسیں اٹک گئیں۔۔
ان کے زہنوں تک مسٹر اور مسسز اشرف کے خیالات رسائی پاچکے تھے۔۔
وہ سمجھ چکی تھیں وہ دونوں کیوں آئے ہیں آخر اب ایک ایک کر کہ ہر شخص اپنا دامن ان دونوں سے چھڑائے گا اس خوف سے کہ کہیں ان دونوں کے وجود کی ناپاکی ہمارے دامن داغدار نہ کردے۔۔
مسٹر اور مسسز اشرف لاؤنج میں بیٹھے تھے اپنے اندر کا غصہ ان دونوں ماں بیٹی کو چار باتیں مزید سنا کر اتارنا چاہتے تھے۔۔
وہ دونوں اس دنیا میں بلکل تنہا تھیں کوئ اللّہ کے بعد انکا تھا بھی تو بس زمان سکندر۔۔
وہی ایک مرد تھا جو انکو اس مصیبت سے نکال سکتا تھا مگر آج یہ آخری سہارہ بھی ان کا دامن چھوڑنے والا تھا۔۔
اسلام وعلیکم۔۔۔۔!
امسہ اور ازلفہ نے لاؤنج میں آتے ہی ان دونوں کو سلام کیا جسکا جواب مسسز اشرف نے منہ بگاڑ کر دیا۔۔
کیسے ہیں آپ لوگ۔۔؟؟
امسہ انکے چہرے کے تعاثرات بھانپ چکی تھیں پھر بھی پوچھ لیا۔۔
ہم یہاں آپ لوگوں کو اپنا حال احوال سنانے نہیں آئے ہیں۔۔ مسسز اشرف بولیں۔۔
دیکھیے امسہ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔۔ مسٹر اشرف بولے۔۔
جس پر ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔
ہم آپ لوگوں سے مزید کوئ رشتہ نہیں رکھ سکتے۔۔
ہماری سوسائٹی میں بہت عزت ہے، اور آپ لوگوں سے رشتہ رکھنے کی صورت میں ہماری عزت کی دھجیاں اڑھ سکتی ہیں۔۔
مسٹر اشرف کی باتیں ان دونوں کے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست ہورہی تھیں۔۔
زمان کے واپس آتے ہی ہم ازلفہ کو طلاق کے پیپرز بھجوا دیں گے۔۔
مسسز اشرف نے نظریں چراتے ہوئے کہا جس پر امسہ نے آنکھیں مینچ لیں جبکہ ازلفہ کا صبر جواب دےگیا اسکا حسین و جمیل چہرہ آنسوؤں سے تر ہوتا چلا گیا۔۔
درد کا غبار آنکھوں سے نکل کر اسکا دامن بھگونے لگا وہ دل ہی دل میں اپنے رب کو یاد کرنے لگی، شکوہ کرنے لگی، وجہ ڈھونڈنے لگی جس وجہ سے یہ غم کے پہاڑ اس پر ٹوٹ رہے تھے۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...