ایک ایک پل جیسے ایک ایک صدی کی طرح سے گزر رہا تھا شہریار لب بھینچے سنجیدگی سے گاڑی چلا رہا تھا اور وہ کمزور نازک سی لڑکی نظریں جھکائے ڈری سہمی ہوئی سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی شہریار کے غصہ سے پناہ مانگنے کی دعا میں مصروف تھی دل کی دھڑکن تو گویا پورے وجود میں دھڑکتی ہوئی سنائی دے رہی تھی ۔۔
” اللہ جی پلیز میری مدد فرما !!! یہ مجھ پر گھر جا کر کوئی پابندی نہیں لگائیں !! یا اللہ ان کے دل میں رحم ڈال کہیں یہ مجھے واپس نہیں بھیج دیں ۔۔۔”
شہریار گاڑی انتہائی تیز رفتاری سے چلا رہا تھا اور اس کے حواس بھی جیسے گاڑی کی رفتار کے ساتھ جواب دیتے چلے جا رہے تھے اس وقت سر پر بس شہریار کا خوف سوار تھا
تھوڑی دیر بعد گاڑی گھر کے باہر پارکنگ میں رک چکی تھی
” اترو ۔۔۔۔” وہ سرد لہجے میں بولا
اپنی سوچوں میں گم سویرا نے اس کی آواز پر چونک کر سر اٹھایا
شہریار نے کوفت سے اس کی سرخ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو دیکھا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کو بازو سے پکڑ کر باہر نکالا اور اپنے ساتھ لئیے آگے بڑھا وہ بے جان قدموں سے اس کے ساتھ اپنے آپ کو گھسیٹ رہی تھی
گھر کے اندر لیونگ روم میں آکر اس نے سویرا کا بازو چھوڑا اور خود کچن میں جا کر فرج سے پانی کی بوتل نکال کر منھ سے لگا لی ۔یہ ایک طرح سے اس کا اپنا اشتعال کنٹرول کرنے کی کوشش تھی ۔تھوڑی دیر کچن میں کھڑے رہنے کے بعد وہ چلتا ہوا صوفے پر سر جھکائے بیٹھی ہوئی سویرا کے پاس آیا ۔۔۔
” کس کی اجازت سے تم نے گھر سے باہر قدم نکالا ؟؟ بولو کس کی اجازت سے وہ گھٹیا ویٹرس کی جاب جوائن کی ؟؟ ” وہ سرد لہجے میں اس پر نظریں جمائے پوچھ رہا تھا
” سویرا مجھے جواب چاہئیے ؟؟؟ ”
” میں ایک روشن خیال آدمی ہوں مانا کے بہت لبرل بھی ہوں لیکن ابھی اتنا بھی آزاد خیال نہیں ہوا ہوں کہ اپنے گھر کی عزت کو غیر مردوں کی آنکھوں کی تسکین بننے کیلئے چھوڑ دوں ۔۔۔” وہ اس کا چہرہ پکڑ کر اونچا کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر غرایا
” سویرا مجھے جواب چاہئیے ؟؟ ” اس نے ایک جھٹکے سے اس کا چہرہ اپنی گرفت سے آزاد کیا
” آپ !!آپ نے خود کہا تھا کہ کہ اپنا کیرئیر بناؤ جان چھوڑو ۔۔۔” وہ اپنی سسکیاں دباتے ہوئے بولی
” کیرئیر بنانے کو کہا تھا ویٹرس بننے کو نہیں ۔۔۔سنو لڑکی اس وقت میں تمہارا سر پرست ہوں اور تمہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ میں خود کرونگا اب اٹھو اپنے کمرے میں جاؤ اور اپنا حلیہ درست کرو ۔۔۔۔” وہ اس کے ہالف سلیو سے چمکتے دودھیا بازوؤں سے نظریں ہٹاتے ہوئے بولا
” آپ پلیز مجھے کسی ہاسٹل بھجوا دیں مجھے یہاں نہیں رہنا پلیز ۔۔۔” وہ کھڑی ہو کر سسکتے ہوئے بولی
اس کا نازک سراپا شرٹ اور جینز میں بہت نمایاں ہو رہا تھا ریشمی سلکی بال پونی میں قید کمر پر لہرا رہے تھے وہ جو ہمیشہ سے اس کے سامنے خود کو سلیقے سے دوپٹے میں لپیٹے سامنے آئی تھی آج اپنے وجود کی دلکشی سے اسے مسحور کر رہی تھی اس نے بڑی مشکل سے اس کے دلکش سراپے سے نظریں چرائیں
” تم کہیں نہیں جا رہی ہو ، میں تمہیں من مانی کرنے کے لئیے آزاد نہیں چھوڑ سکتا ۔۔” وہ اپنا سخت لہجہ بنا کر بولا
سویرا نفی میں سر ہلاتی ہوئی پیچھے ہٹی آنکھوں سے آنسو تواتر بہے چلے جا رہے تھے شہریار نے تیزی سے اس کی کلائی اپنی گرفت میں لی سویرا کے آنسو اسے اچھے نہیں لگ رہے تھے اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نے نرمی سے سویرا کو اپنی گرفت میں لیا
” مجھے مت ماریں پلیز ابھی چھوڑ دیں میں وعدہ اب کبھی بھی جاب نہیں کرونگی ۔۔” وہ خوف سے آنکھیں میچ گئی
شہریار نے بغور اس کے چہرے پر چھائے ہوئے خوف کو دیکھا اسے ایک لمحے کو افسوس سا ہوا وہ دھیرے سے اس کے چہرے پر جھکا
” اہم ممم ۔۔
*********
عروہ صبح سے ہی بہت مصروف تھی اپنے سارے کام جلدی جلدی نبٹا کر وہ شہریار کے گھر روانہ ہوئی ۔۔
گھر کی چابی کافی عرصے سے اس کے پاس تھی وہ بڑے ہی خوشگوار موڈ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی لاؤنچ میں شہریار سویرا کے انتہائی قریب کھڑا ہوا تھا عروہ کی رگیں تن گئی اس سے پہلے وہ کچھ کہتی سویرا کی ڈری سہمی ہوئی آواز گونجی
” مجھے مت ماریں پلیز ابھی چھوڑ دیں میں وعدہ اب کبھی بھی جاب نہیں کرونگی ۔”
شہری سویرا کو مار رہا ہے ؟؟ وہ حیرت زدہ سی ہوگئی مگر پتا نہیں کیوں دل میں ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی
” اہم ممم ۔۔۔” وہ قریب جا کر کھنکھاری
شہریار جو جذبات میں آکر غلطی کرنے جا رہا تھا عروہ کے کھنکھارنے کی آواز سن کر تیزی سے ہوش میں آیا اور سویرا کو اپنی گرفت سے نرمی سے آزاد کیا
سویرا اس کی گرفت سے نکلتے ہی بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں جا کر قید ہو گئی
شہریار حیرت سے سویرا کی کمر پر لہراتے بالوں کو دیکھ رہا تھا اسے تو آج سے پہلے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سویرا کے بال اتنے خوبصورت ہیں ۔۔۔
” یہ کیا ہو رہا تھا ؟؟ ” عروہ نے شہریار کی محویت توڑی
وہ گہری سانس لیتے ہوئے پلٹا سامنے ہی عروہ سلیولیس آسمانی کلر کی میکسی میں بجلیاں گرا رہی تھی آج پہلی بار اسے عروہ کے وجود سے کوفت سی محسوس ہوئی ۔۔
” شہریار تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تمہارے پیرنٹس نے تمہارے ساتھ بالکل بھی اچھا نہیں کیا ہر انسان کی اپنی پسند اپنی چوائس ہوتی ہے اور انہوں نے تمہارے جیسے ایگزیکٹو بندے کے سر پر یہ دبو میٹرک پاس لڑکی ڈال دی ہے ۔۔۔” عروہ نے ماحول کا اثر کم کرنا چاہا
” عروہ پلیز مجھے اس ٹاپک پر بات نہیں کرنی تم کہو کیسے آنا ہوا ؟؟ ” وہ بیزاری سے بولا
” شیری ڈیڈ نے ہماری انگیجمنٹ کیلیئے ہوٹل بک کروا لیا ہے فرائیڈے ایوننگ شام سات بجے کا ٹائم پے انویٹیشن کارڈز کل تک آجائیں گے تم اپنی گیسٹ لسٹ بتاؤ !! ” وہ کھنکتے ہوئے لہجے میں بولی
” ہاؤ ڈیر ہو !! عروہ تم مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا اسٹیپ کیسے لے سکتی ہو ۔۔۔۔” شہریار کے سر پر بم سا پھٹا
” پرابلم کیا ہے شیری ؟؟ تم نے کہا شادی ایک سال بعد میں مان گئی ، تم نے اپنی سو کالڈ وائف کو اپنے گھر میں رکھ لیا میں کچھ نہیں بولی لیکن کچھ تو اپنی بات پر قائم رہو !! تم خود کو مین آف ورڈ کہتے ہو جنٹلمین مانتے ہو تو ثابت کروں اور مجھ سے رشتہ جوڑو ویسے بھی ہم ابھی صرف منگنی ہی تو کررہے ہیں جس پر تم کچھ دن پہلے راضی تھے اب میں ڈیڈی کو کیسے منع کروں ؟؟ بولو ۔۔۔” عروہ نے اسے اس کے الفاظ یاد دلائے
“عروہ پلیز میں ابھی اس سب کے لیے مینٹلی تیار نہیں ہو ۔۔۔۔”
” کیوں شیری ؟؟ تم نے تو مجھے زبان دی تھی !! کیسے مرد ہو تم اپنی زبان سے اپنے قول سے مکر رہے ہو ۔۔۔۔” عروہ نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا
” ہمم اٹس اوکے ٹھیک ہے میری گیسٹ لسٹ کوئی نہیں ہے تم بھی بس اپنے قریبی دوست احباب کو انوائیٹ کرنا میں ابھی کوئی بڑا تماشہ نہیں ہیں چاہتا ہوں ۔۔” وہ بیزاری سے بولا
” تھینکس ڈارلنگ !! ” وہ اس کی بیزاری کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے گال چومتے ہوئے بولی
” عروہ پلیز !! مجھے یہ سب پسند نہیں ہے ۔۔۔” وہ اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے بولا
“اچھا سنو منگنی کا ڈریس تم دلاؤ گئے ؟؟ یا اس کیلیئے بھی ڈیڈی سے پیسے مانگوں ؟؟ ” عروہ اس کا رویہ نظر انداز کرتے ہوئے بولی
” تم میرا کریڈٹ کارڈ رکھ لو جو دل چاہے خرید لینا ۔۔ ” وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولا
” شیری اب میں اتنی بھی گئی گزری نہیں ہوں کہ تم مجھے یہ کارڈ تھما کر جان چھڑا رہے ہو ۔۔۔” وہ آنکھوں میں آنسو بھر لائی
” او گاڈ ؤومین !! آخر تم چاہتی کیا ہو ؟؟ ” وہ ٹھیک ٹھاک تپا
” میں کل شام آفس آرہی ہوں وہاں سے تم مجھے بوتیک لے کر جاؤ گے اور اپنی پسند کا ڈریس دلاؤ گئے اینڈ دیٹس فائنل ۔۔۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئی
*******************
سویرا اپنے کمرے میں آکر کچھ دیر تک رونے کا شغل پورا کرتی رہی پھر اسے یاد آیا اس کا بیگ تو کیفے میں ہی رہ گیا تھا اس کا اسٹوڈنٹ کارڈ ،اے ٹی ایم کارڈ ، بس پاس سب اس بیگ نما پرس میں تھا وہ جلدی سے آنسو پوچھتے ہوئے اٹھی اور پینٹ کی جیب سے سیل فون نکال کر اینا کا نمبر ملانے لگی وہی اب اس کا بیگ لا سکتی تھی کئی بیلز کے بعد بھی اینا نے فون نہیں اٹھایا تو اس نے مایوس ہو کر لائن کاٹ دی اس کے اندر یہ خوف بھی تھا کہ اگر بیگ چوری ہوگیا یا کھو گیا تو وہ اس دیار غیر میں کس سے مدد مانگے گی ۔۔۔
” اینا شاید بریڈلی کے ساتھ ہو ۔۔۔” اس سوچ کے آتے ہی اس نے تیزی سے بریڈلی کا نمبر ملایا
مگر وہی بیلز جا رہی تھیں مایوس ہو کر اس نے فون سنگھار میز پر رکھا اور کیبنٹ سے قمیض شلوار نکال کر واش روم چلی گئی
عروہ کے جانے کے بعد شہریار اپنے کمرے میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ شاہ بی بی کی کال آنے لگی
” کیسی ہیں شاہ بی بی ۔۔۔۔” سلام دعا کے بعد اس نے ا۔ کی خیریت دریافت کی
” سب ٹھیک ہ شاہو بس تم میری سویرا سے بات کروا دو ۔۔۔” وہ پیار سے بولیں
” خیریت شاہ بی بی ۔۔۔۔”
“کیوں پتر !! بنا خیریت میں اپنی بچی سے بات نہیں کرسکتی ؟؟ ۔۔۔” انہوں نے شاہو کو ٹوکا
” آپ جب چاہیں بات کر سکتی ہیں ہولڈ کریں میں اسے بلاتا ہوں ۔۔”
” سن شاہو !! تمہارے ماں باپ اور پھپو دس دن بعد لندن کیلیئے روانہ ہو رہے ہیں سویرا سے کہو کچھ منگوانا ہے تو لسٹ بنا لے ۔۔۔۔” وہ شفقت سے بولیں
” شاہ بی بی آپ خود بول دیں بلکہ ایسا کریں آپ کی کال لمبی ہو رہی ہے آپ رکھیں میں ملاتا ہوں ۔۔۔” وہ فون کاٹ کر سویرا کے کمرے کی جانب بڑھا
شاہ بی بی سے سویرا کوئی اپنے اسکول اور جاں کی بات نا کرے یہ سمجھانا بہت ضروری تھا وہ فون ہاتھ میں پکڑے اپنے کمرے سے نکل کر سویرا کے کمرے کی جانب بڑھا ، دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا وہ اس کے کمرے میں داخل ہوا
سامنے ہی سویرا شاید ابھی شاور لیکر نکلی تھی دھلا دھلا سا سراپا کمر سے نیچے جاتے گھنے لمبے بھیگے ہوئے بال دوپٹے سے بے نیاز وہ سنگھار میز پر جھکی بالوں کا برش اٹھا رہی تھی
” سنو لڑکی !!” اس نے اسے مخاطب کیا
سویرا جو بڑے آرام سے اپنے گیلے بالوں کو سلجھانے کا کام شروع کررہی تھی شہریار کی آواز سن کر چونک کر سیدھی ہوئی اور اسے یوں اپنی سمت دیکھتے ہوئے پا کر سٹپٹا کر بیڈ پر رکھے دوپٹے کو اوڑھنے کے لئیے بڑھی تیزی سے دوپٹہ اٹھا کر سر پر ڈالا
شہریار جو بڑے آرام سے دروازے سے ٹیک لگائے سویرا کی بوکھلاہٹ کو دیکھ رہا تھا اچانک سے فون کی بیل سن کر چونک گیا ۔۔۔
بیل کی آواز ڈریسنگ ٹیبل پر سے آرہی تھی وہ دو قدم بڑھا اور حیرت سے میز پر بجتے فون کو اٹھایا
“بریڈلی کالنگ ۔۔۔” کے الفاظ جگمگا رہے تھے ساتھ میں ایک ہینڈسم سے لڑکے کی تصویر بلنک کررہی تھی اس نے بغور دیکھا
” یہ تو وہی مال والا لڑکا ہے ۔۔۔” اس کی رگیں تن گئی
سویرا شہریار کو فون اٹھاتے دیکھ کر ساکت سی رہ گئی
” کون ہے یہ ؟؟؟ ” وہ فون کی اسکرین سویرا کو دکھاتے ہوئے پوچھ رہا تھا
” یہ یہ وہ اینا کا فرینڈ ہے۔۔۔۔” سویرا اٹکتے ہوئے بولی اس کی پیشانی پسینے سے تر بتر ہوگئی تھی ان کے خاندان میں بھلا کہاں لڑکی لڑکے کی دوستی کا رواج تھا
” اینا کا دوست ؟ تو تمہیں کیوں کال کررہا ہے ۔۔۔” وہ سرد لہجے میں بولا
اس سے پہلے سویرا کوئی جواب دیتی فون پھر بجنے لگا ۔۔۔
” بریڈلی کالنگ ۔۔۔۔۔” شہریار نے سویرا کو گھورتے ہوئے فون کو زور سے دیوار پر مارا وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گر گیا
سویرا لرز کر رہ گئی اسے شہریار سے خوف محسوس ہو رہا تھا آنسو تھے کہ بنا بلائے آنکھوں میں امنڈتے چلے آرہے تھے
” مم میں سچ کہہ رہی ہوں یہ اینا کا دوست ہے آپ اینا سے پوچھ لیں ۔۔۔” وہ اٹکتے ہوئے بول رہی تھی
” تمہارے پاس فون کہاں سے آیا ۔۔۔۔” اس نے سوال کیا
” ڈیم اٹ سویرا !!! میں کیا پوچھ رہا ہوں ؟؟ جواب دو ۔۔۔۔” وہ غرایا
” ااااینا ۔۔۔” وہ سسکی
” اینا نے فون دلایا تھا ۔۔۔۔” وہ روتے ہوئے بولی
” او گاڈ ! تم رو کیوں رہی ہو ؟؟ ہر بات کا جواب تم آنسو میں کیوں دیتی ہوں مجھے تو لگتا ہے تمہیں اپنے ساتھ یہاں لاکر میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے ۔۔۔” وہ ٹھیک ٹھاک تپا تھا
” میرا فون !!! ” وہ بے بسی سے روتے ہوئے زمین پر گرے فون کو دیکھ رہی تھی
شہریار تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا اور اپنے کمرے میں آکر اس نے سویرا کیلیئے منگوایا ہوا فون اٹھایا اور واپس اس کے کمرے میں آیا جو اب زمین پر پڑا فون اٹھا کر اسے جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
” یہ لو !! یہ فون میں نے تمہارے لئیے منگوایا تھا وہ ڈبے سے ایک جدید موڈل کا مہنگا ترین فون نکالتے ہوئے بولا
” میں اس میں پاکستان کے نمبر اور اپنا نمبر فیڈ کررہا ہوں اس کے علاوہ مجھے اس میں کوئی اور کال یا نمبر نظر نہیں آئے ۔۔۔” وہ نمبر سیو کرتے ہوئے بولا
” پر وہ اینا ؟؟؟ ” سویرا ہچکچائی
” اسے ایڈ کر سکتی ہوں مزید کچھ نہیں ۔۔”وہ فون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا
سویرا نے فون نا چاہتے ہوئے بھی تھام لیا ورنہ اس جلاد سے کوئی امید نہیں تھی کہ اسے پھر سے اپنے عتاب کا نشانہ بنانا شروع کر دیتا
شہریار جاتے جاتے پلٹا ۔۔۔
” سنو لڑکی !! گھر کی عزت گھر میں ہی اچھی لگتی ہے آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے میری یا چاچو کی عزت پر کوئی حرف آئے ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا
” اگر میرے بابا سائیں زندہ ہوتے تو میں کبھی بھی کسی کیلیئے مسئلہ نہیں بنتی ۔۔۔” وہ ڈبڈبائے ہوئے لہجہ میں دھیمے سے بولی
شہریار نے ایک گہری نظر اس کے روئے روئے سوگوار سے حسن پر ڈالی اور چپ چاپ دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا اس کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں رقص کررہی تھیں ۔۔
**********************
کب سے اس کے فون پر میسنجر کال آرہی تھی وہ جان کر فون نہیں اٹھا رہی تھی ارادہ اینڈریو کے آتش شوق کو مزید بھڑکانے کا تھا کافی کالز کے بعد اس نے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے میسنجر پر کال ملائی جو پہلی ہی بیل پر پک کر لی گئی
” ہیلو سویرا !! کدھر ہو بےبی !! تین دن سے دیوانہ بنا پھر رہا ہوں اور ایک تم ہو کال تک نہیں پک کرہی تھی آج تو میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر شام تک تم سے بات نہیں ہوئی تو میں تمہارے گھر آجاؤں گا ۔۔۔” اینڈریو نے بیتابی سے کہا
” نہیں نہیں پلیز آپ میرے گھر مت آئیگا آپ نے وعدہ کیا تھا ۔۔۔” وہ دھیمے لہجے میں سویرا کے انداز میں بات کررہی تھی
اینڈریو اسے اپنی بیتابیوں کا بتا رہا تھا اور وہ بڑے آرام سے اسے مزید بڑھاوا دے رہی تھی
“سنو تین دن سے تمہیں نہیں دیکھا یونیورسٹی کیا بند ہوئی میں تو دیدار یار سے بھی گیا ۔۔۔” اینڈریو نے سرد آہ بھری
” کیا کرینگے مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔” عروہ نے مزے سے کہا
” تم نے پابندیاں ہی اتنی لگائی ہوئی ہے کہ بس دور سے دیکھو بات نہ کرو اور اس دن تم کتنی اجنبی بن رہی تھی وہ تو شکر ہے تم نے اس پوری رات فون پر مجھے کمپنی دی ورنہ میں نے تو تمہیں کڈنیپ کر لینا تھا ۔۔۔” اینڈریو سنجیدہ ہوا
” اچھا سنئیے !! ٹھیک پانچ دن بعد شہریار منگنی کررہے ہیں میں پتہ بتا رہی ہوں آپ ادھر ہی آجائیں میرے گیسٹ بن کر میں آپ کی ساری تشنگی مٹا دونگی بھرپور کمپنی دونگی ۔۔۔” وہ شرمیلے انداز میں بولی
_________
عروہ میں بچپن سے یہ خاص عادت تھی کہ جو چیز اسے اچھی لگے وہ بس اس کی تھی۔ اس کیلیے چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔ اپنے اسٹینڈرڈ سے کم پر وہ کبھی راضی نہیں ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عادت اس میں پختہ ہوتی چلی گئی تھی۔ وہ سب سے مختلف اور منفرد تھی۔ خوبصورتی اس کا پلس پوائنٹ تھا۔
جب یونیورسٹی کے پہلے ہی سال اس کی نظر شہریار پر پڑی۔ وہ مغرور, ہینڈسم اور سمارٹ سا جوان جس کی آنکھوں سے غرور جھلکتا تھا۔ جو اس وقت ماڈلنگ کر کے نام بنا رہا تھا۔ اس کا مقصد پیسہ کما کر اپنا بزنس ایمپائر کھڑا کرنا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے قریب ہوتی چلی گئی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا شہریار کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اپنی فرم اسٹیبلش کرچکا تھا۔ ماڈلنگ کی وجہ سے میڈیا اس کا دیوانہ تھا تو لڑکیاں اس کی توجہ کیلیئے تڑپتی تھیں۔ ہاں وہ سب سے الگ سب سے منفرد تھا۔ وہ چھا جانا جانتا تھا اور عروہ نے طے کرلیا تھا کہ اسے شہریار کی زندگی میں آنا ہے مسز شہریار بننا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ لیکن اس کے خوابوں کو جھٹکا اس وقت لگا جب سویرا نامی حسین بلا نے شہریار کے گھر میں قدم رکھا۔ وہ دیسی دبو سی لڑکی جسے فیشن تک کی سینس نہیں تھی۔ بھلا وہ کہاں شہریار کے قابل تھی۔ اس میں تھا ہی کیا سوائے اچھی شکل کے، شہریار کی نظروں سے اسے دور کرنا ضروری تھا۔ لیکن جب شہریار نے اسے یہ بتایا کہ وہ اس کی منکوحہ ہے تو اسے زور دار جھٹکا لگا وہ ہل کر رہ گئی۔۔
وہ شخص جسے اس نے چاہا، جسے دیکھ کر اس کا دل دھڑکتا تھا۔ وہ کیسے اس سویرا کا ہوسکتا تھا۔ لیکن حسن سے بڑی کوئی دلیل نہیں!! سویرا کی کم عمری, اس کا حسن کہیں شہریار کو اپنی طرف متوجہ نا کر لے یہ خوف اس کی رگ رگ میں بیٹھ گیا تھا۔
وہ دوپہر ہوتے ہی تیار ہو کر شہریار کے گھر پہنچ چکی تھی گھر کی چابی تو اس کے پاس ہی تھی وہ مین دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ شہریار تو یقیناً آفس میں تھا۔ وہ چلتی ہوئی اندازے سے سویرا کے کمرے کی جانب آئی۔ دروازے پر ناک کرنے کے لیے ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دروازہ کھلتا چلا گیا۔ وہ اندر داخل ہوئی سامنے ہی سویرا گلابی رنگ کے قمیض شلوار میں ملبوس اپنے لمبے بالوں کی چوٹی کو دائیں جانب ڈالیں بڑے انہماک سے لیپ ٹاپ پر اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی۔ اس کا سرخ و سپید چہرہ گلابی رنگ میں دمک رہا تھا۔ قدرتی گلابی ہونٹ عروہ نے انتہائی حسد سے اسے دیکھا۔
” اے لڑکی! ” عروہ نے اسے پکارا۔
سویرا عروہ کی آواز سن کر چونک گئی۔ تیزی سے سر اٹھایا تو سامنے ہی ٹخنوں سے خاصی اونچی کیپری پینٹ، سلیولیس سبز رنگ کی ٹاپ پہنے جو اس کی آنکھوں سے میچ کررہی تھی۔ اس پر سنہرے, شانوں پر بکھرے گھنگھریالے بالوں کے لچھے۔ وہ چلتی پھرتی قیامت اس کے سامنے کھڑی تھی۔
” اسلام علیکم آپ! وہ تو گھر پر نہیں ہیں۔ ” سویرا کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
” وہ؟ وہ کون؟؟” عروہ الجھی۔
” اوہ یو مین شہریار! او گاڈ!! تم کسی سو سال پرانے زمانے کی مخلوق ہو کیا؟ افف سو ٹیپیکل دیسی۔ ” وہ نخوت سے بولی۔
” سنو! میرے پاس وقت نہیں, چلو ہمیں شاپنگ پر جانا ہے۔ ” وہ تیزی سے بولی۔
” شاپنگ! ” سویرا نے حیرت سے دہرایا۔
” اتنا حیران کیوں ہو رہی ہو؟ کیا زندگی میں کبھی شاپنگ نہیں کی؟ ” عروہ نے طنزیہ انداز اپنایا۔
” وہ انہوں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔ ” سویرا اس کے ساتھ ہرگز نہیں جانا چاہتی تھی۔
” دیکھو ایک تم ہی تو میری واحد سسرالی رشتہ دار ہو۔ اب جمعہ کو میری اور شیری کی منگنی ہے تو شیری نے کہا تمہیں بھی اس خوشی میں شاپنگ کروا دیتے ہیں۔ ورنہ تم کچھ الٹے سیدھے اپنے جیسے کپڑے پہن کر فنکشن میں آئی تو شیری کی کتنی سبکی ہو گی۔ اب جلدی کرو شیری کو ویٹ کرنا پسند نہیں ہے۔ ” وہ اس کے فق پڑتے چہرے کو دیکھ کر مسکائی۔
” جی ٹھیک ہے۔ ” سویرا پژمردگی سے اٹھی۔
” آپ لیونگ روم میں بیٹھیں میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ ” وہ دھیمے سے بولی۔
” تیار ہونے سے تمہاری قسمت تو نہیں بدل جائیگی۔ اب نکلو مجھے دیر ہو رہی ہے۔ ” عروہ تیز ہوئی۔
سویرا نے اپنا دوپٹہ کھول کر سر پر ڈالا اور پیروں میں نازک سی نگ والی کولہا پوری چپل پہن کر کھڑی ہو گئی۔
عروہ نے حسد سے اس کے گلابی پیروں کو دیکھا۔ جو اس معمولی سی چپل میں بھی جگمگا رہے تھے۔
” چلو ” وہ روڈلی بولتے ہوئے اسے لیکر باہر نکل گئی۔
وہ عروہ کو لیکر آفس پہنچ چکی تھی۔
” تم ادھر گاڑی میں ہی بیٹھ کر ویٹ کرو۔ میں شیری کو لیکر آتی ہوں۔ ” وہ حکمیہ لہجے میں اسے کہتی ہوئی آفس کی بلند و بالا بلڈنگ میں داخل ہو گئی۔اوپر فلور پر پہنچ کر وہ سیدھی شہریار کے آفس کی جانب بڑھی۔
” میم سر اندر میٹنگ میں مصروف ہیں۔ ” اینا نے اسے روکا۔
عروہ نے اپنا فون نکالا اور شہریار کو فون ملایا۔ جسے پہلی ہی بیل پر کاٹ دیا گیا۔ وہ غصہ سے بل کھا کر رہ گئی۔ آدھے گھنٹے بعد شہریار کے آفس کا دروازہ کھلا۔ گرے سوٹ میں ملبوس شاندار سا شہریار باہر نکلا۔ اس کے ساتھ دو انگریز اور بھی تھے۔ جو اس سے بہت مرعوب نظر آرہے تھے۔ وہ ان سے ہاتھ ملا کر گڈ بائے کہہ کر آفس میں واپس جا رہا تھا۔ جب عروہ نے خفگی سے اسے پکارا۔
” شیری! ”
” تم! تم ادھر کیا کررہی ہو؟ “وہ ابرو اچکا کر پوچھ رہا تھا۔
” تم نے میرا فون کیوں نہیں اٹھایا؟ ” عروہ نے سوال کیا۔
” عروہ تمہیں اچھی طرح پتا ہے۔ میں کام کے وقت فون کالز نہیں لیتا۔ ” وہ جواب دیتے ہوئے آفس کی طرف بڑھا۔
” ہمیں شاپنگ پر جانا تھا۔ ” وہ اس کے ساتھ قدم سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے آفس میں داخل ہوئی۔
” ابھی میں بزی ہوں۔ ” وہ فائل کھولتے ہوئے بولا۔
” شیور نو پرابلم! مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ میں ادھر ہی تمہارا ویٹ کر لیتی ہوں۔ ” وہ آرام سے میز پر رکھا میگزین اٹھا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ شہریار نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی اور اپنی فائل میں مصروف ہوگیا۔ عروہ بہت مزے سے بیٹھی ہوئی میگزین کے ورق پلٹ رہی تھی۔ آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ جب شہریار کا فون بجا اس نے فائل سے سر اٹھا کر اپنے فون پر نظر ڈالی اور حیرانگی سے نمبر دیکھتے ہوئے فوراً فون اٹھا لیا۔
*****
عروہ کو اندر گئے ہو بہت دیر ہو چکی تھی وہ گاڑی کا آٹومیٹک لاک لگا کر گئی تھی۔ شیشے تک لاک تھے۔ اب سویرا کا اس بند گاڑی میں حبس کی وجہ سے دم گھٹنے لگا تھا۔ اس نے شیشہ نیچے کرنے کی کوشش کی پر شاید اس میں بھی لاک لگا ہوا تھا۔ پھر اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی پر وہ اسے بھی کھولنے میں ناکام رہی۔ اب باہر تیز بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور گاڑی کا حبس اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ پریشان ہو کر اس نے پرس میں سے اپنا فون نکالا اور کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے شہریار کا نمبر ڈائل کیا۔پہلی ہی بیل پر شہریار اس کا فون اٹھا چکا تھا۔
” ہیلو! تم ٹھیک تو ہو؟ ” شہریار نے پریشانی سے پوچھا۔ ورنہ سویرا اور اسے فون کرے۔ یہ ناممکنات میں سے ہی تھا۔
” آپ کب آئیں گے؟ ” سویرا کی اس کی آواز سن کر ڈھارس بندھی۔
” کیوں؟ تمہیں کوئی کام ہے کیا؟؟ ” وہ الجھ گیا۔
” بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب تو بارش بھی بہت تیز ہو رہی ہے۔ مجھے اکیلے گاڑی میں ڈر لگ رہا ہے۔ ” وہ نم لہجے میں بولی۔
” تم ہو کدھر؟ ” شہریار پریشان ہو گیا۔
” میں آپ کے آفس کے باہر گاڑی میں ہوں۔ ”
” اسٹوپڈ لڑکی تم ادھر کیا کررہی ہو؟ ” وہ ٹھیک ٹھاک تپا۔
” وہ وہ۔۔۔ ”
” انف وہ وہ, تم وہی رکو میں آرہا ہوں۔ ” وہ ڈانٹتے ہوئے بولا اور فون بند کرکے کھڑا ہو گیا۔
” کیا ہوا شیری؟ کس کا فون تھا؟ جو تم نے کام کے دوران اپنے اصول توڑتے ہوئے رسیو کیا۔ ” عروہ نے میگزین واپس رکھ کر بڑی معصومیت سے پوچھا۔
“کچھ نہیں یار پتہ نہیں وہ سویرا ادھر کیسے آگئی ہے۔ ” وہ اپنا کوٹ اٹھاتے ہوئے بولا۔
” اوہ گاڈ! میں تو بھول ہی گئی۔ سویرا کو میں ساتھ لائی تھی۔ سوچا منگنی کی شاپنگ کرینگے تو اس بیچاری کو بھی کچھ دلا دینگے۔ ”
” عروہ مجھے یقین نہیں آرہا تم ایسا کرسکتی ہو؟ تم نے اس کو گھنٹے بھر سے اکیلی پارکنگ میں بٹھایا ہوا ہے۔ ہاؤ کڈ یو ڈو دس؟ ” وہ شاکڈ ہوا۔
” اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں تو تمہیں لینے آئی تھی۔ تم نے مجھے ویٹ کرنے کو بولا اور میں سویرا کو پتا نہیں کیسے بھول گئی۔ ” وہ سادگی کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولی۔ شہریار تیز تیز قدموں سے سب اسٹاف کے سلام کا سر ہلاتے ہوئے جواب دیتا ہوا باہر آیا۔ اسے دیکھ کر جلدی سے باوردی دربان نے دروازہ کھولا۔ وہ اب باہر نکل کر چاروں جانب دیکھ رہا تھا۔
” عروہ تم نے گاڑی کدھر پارک کی ہے؟ ” اس نے ساتھ کھڑی عروہ سے پوچھا۔
” وہ ادھر ۔ ” عروہ نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
شہریار گاڑی کی جانب بڑھا۔
” شیری بہت تیز بارش ہو رہی ہے بھیگ جاؤ گے۔ ” عروہ نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا۔
” اٹس اوکے تم گاڑی ان لاک کرو۔ میں اسے لیکر آتا ہوں۔ ” وہ دو ٹوک لہجے میں بولتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔عروہ نے منھ بناتے ہوئے پرس سے ریموٹ نکالا اور وہی کھڑے کھڑے گاڑی ان لاک کی۔
شہریار نے گاڑی کے پاس پہنچ کر شیشے پر ناک کیا اور دروازہ کھولا۔ وہ بارش کے پانی میں بری طرح بھیگ چکا تھا۔ سویرا نے شہریار کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔
“چلو اترو۔ ” شہریار نے اسے گھورا۔
وہ جیسے ہی گاڑی سے اتری بارش کی تیز بوچھاڑ اس پر پڑی۔ شہریار نے ایک نظر اس کے نازک کپکپاتے وجود کو دیکھا پھر اپنا کوٹ اتار کر اسے دیا۔
” میں اس کا کیا کروں؟ ” سویرا نے کوٹ تھامتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
” محترمہ اس کوٹ کو چھاتا بنا کر سر پر لو۔ میں نہیں چاہتا تم بارش میں بھیگ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ ” سویرا نے سر پر کوٹ تانا اور تیز تیز قدموں سے شہریار کے ہم قدم ہوئی۔
____________
وہ گاڑی کا آٹومیٹک لاک ریموٹ سے کھول کر شیڈ کے نیچے کھڑی شہریار کو گاڑی کی سمت جاتا دیکھ رہی تھی وہ جان کر سویرا کو ساتھ لائی تھی تاکہ اسے جتا سکے کہ شہریار صرف اور صرف اس کا ہے ۔ شہریار کے جاتے ہی اس نے اپنا فون نکالا اس کی سیٹنگ پرائیوٹ پر سیٹ کر کے نمبر ملانے لگی ۔۔۔
” ڈیلی نیوز ۔۔۔۔” آپریٹر کی آواز گونجی
” مجھے آپ کو انفو دینی تھی کہ ٹھیک دو گھنٹے بعد مشہور بزنس مین اور ماڈل شہریار آج ساؤتھ ویلز میں اپنی ہونے والی فیانسی کے ساتھ منگنی کی شاپنگ کرنے آرہے ہیں ۔۔۔” اس نے آواز بنا کر اطلاع دیتے ہی فون بند کردیا سامنے سے ہی شہریار آتا ہوا نظر آرہا تھا اس کے پیچھے پیچھے سویرا اس کا کوٹ دونوں ہاتھوں سے چھجے کی طرح سر پر اٹھائے چلی آرہی تھی وہ ان کے قریب آتے ہی سویرا کی سمت بڑھی
” سوری سویرا ڈئیر !! مجھے شیری نے بٹھا لیا تھا میں بھول ہی گئی تھی کہ تم میرے ساتھ ہو ویری سوری ۔۔۔۔” وہ پشیمانی سے بولی
” اٹس اوکے کوئی بات نہیں ۔۔۔” سویرا نے سادگی سے جواب دیکر شہریار کا کوٹ جھاڑ کر اس کی جانب بڑھایا
” پکڑی رہو ۔۔۔” اس نے سویرا سے کہا
جو اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اس کے کوٹ کو اپنے بازو پر لٹکا چکی تھی
” او گاڈ !! شیری تم تو پورے بھیگ گئے ہو ؟؟ اب ہم شاپنگ کیسے کرینگے ؟؟ ” عروہ نے بھیگے ہوئے شہریار کو دیکھا
” کم آن عروہ !! یہ کوئی بگ ڈیل نہیں ہے لیٹس گو ۔۔۔۔” وہ اپنی ٹائی ڈھیلی کر لے آستینیں اوپر کرتا ہوا بولا
بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے اپنی ٹائی اتار کر سویرا کو تھما دی
چوڑی پیشانی پر گیلے بکھرے بال فولڈ کی ہوئی آستینیں ، وہ اٹھائیس سال کا ایک خوبرو مرد تھا جو اپنے حددرجہ پر اعتماد انداز سے چھایا ہوا سا محسوس ہوتا تھا ۔ سویرا نے ٹائی پکڑتے ہوئے اپنے دل کی ایک بیٹ مس ہوتی ہوئی محسوس کی ۔۔۔
” نہیں یہ میرے لئیے نہیں ہیں ۔۔۔۔” اس نے سر جھٹکا
” چلو اب ۔۔۔”
شہریار سامنے کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھا عروہ بڑی شان سے فرنٹ ڈور کھول کر اندر بیٹھ گئی شہریار نے ایک سرسری سی نظر سے سویرا کو دیکھا جو سر جھکائے اس کا کوٹ ٹائی ہاتھوں میں لئیے پیچھے بیٹھ گئی تھی وہ سر جھٹکتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر کے ہیٹر آن کرنے لگا
” شیری ہیٹر کیوں چلا رہے اتنی بھی سردی نہیں ہے ہیٹ سے میرا میک اپ خراب ہو جائیگا ۔۔۔” عروہ نے اسے ٹوکا
” کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔” وہ ہیٹر آن کرکے بلائنڈز کا رخ پیچھے سیٹ کی طرف کرتے ہوئے بولا
ساؤتھ کے سب سے بڑے مشہور مال کی پارکنگ میں شہریار نے گاڑی پارک کی ۔۔۔عروہ نے مرر میں دیکھ کر اپنی لپ اسٹک فریش کی بالوں میں برش پھیرا اور نیچے اتر کر شہریار کا بازو تھام کر کھڑی ہو گئی
” چلیں ڈارلنگ !! افف میں کتنی خوش ہوں ہم اپنی منگنی کی شاپنگ کرینگے ۔۔۔” اس کا چہرہ دمک رہا تھا
” کم سویرا !! شیری ہماری منگنی کی خوشی میں تمہیں بھی شاپنگ کروائیگا آخر اس کی کزن ہو تم میری واحد سسرالی رشتے دار ۔۔۔” اس نے گاڑی میں بیٹھی سویرا کو پکارا سویرا نے ایک نظر سن گلاسز لگائے بیزار کھڑے شہریار پر ڈالی اور خاموشی سے نیچے اتر کر ان کے پیچھے چلتی ہوئی مال میں داخل ہو گئی عروہ سب سے پہلے ایک مشہور انڈین بوتیک میں داخل ہوئی ۔۔۔
سیلز گرل عروہ کو ایک سے بڑھ کر ایک ڈریس دکھا رہی تھی تبھی وہ گردن گھما کر سویرا سے مخاطب ہوئی
“سویرا تم بھی کوئی ڈھنگ کا ڈریس سلیکٹ کر لو پارٹی کے لئیے ۔۔۔” سویرا نفی میں سر ہلاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹ گئی تقریباً پچاس کے قریب میکسی ، لہنگے ، شرارے دیکھنے کے بعد عروہ نے اپنے لئیے لہنگا چولی کا ڈریس سلیکٹ کیا
” شیری یہ دیکھو !! ویسے تو مجھے یہ دیسی ٹائپ ڈریسنگ پسند نہیں آتی ہے لیکن دلہن !!! تو میں نے سوچا ہے کہ پاکستانی لک ہونی چاہیئے ۔۔۔۔” وہ اسے اپنا سلیکٹ کیا ہوا ڈریس دکھاتی ہوئی بولی
” ہمم ٹھیک ہے ۔۔۔۔” وہ آرام سے ادھر ادھر نظریں دوڑا رہا تھا
” سنو ؟؟؟ تم نے میڈیا کو انوائیٹ کیا ہے نا ؟؟ ” عروہ نے سنجیدگی سے پوچھا
” تمہیں مجھ سے رشتہ جوڑنے میں انٹرسٹ ہے یا میڈیا میں ؟؟؟”وہ روکھے لہجے میں بولا
” دونوں میں !!! شیری میں چاہتی ہوں پوری دنیا کو پتہ چل جائے کہ تم میرے ہو بس میرے ۔۔۔۔” وہ آنکھیں میچ کے بولی
” لیٹس گو عروہ مجھے اور بھی کام ہیں ۔۔۔” وہ اکھٹر انداز میں بولا
” پر تمہاری بیوی اوپس سوری سوری کزن !! نے تو کچھ لیا ہی نہیں اب اگر وہ ایسے ہی اٹھ کر پارٹی میں آگئی تو تمہاری کتنی سبکی ہوگی کہ تمہاری رشتے دار اور اتنی غریب مسکین ۔۔۔” عروہ نے ہمدرد جتائی
” ایکسکیوز می !! ” شہریار نے سامنے کھڑی سیلز گرل کو پکارا
” یس سر !! ” وہ سیلز گرل پاس آکر پروفیشنل انداز میں مسکراتے ہوئے بولی
” مجھے ایک پارٹی ڈریس چاہئیے ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” کس ٹائپ سائز اور کلر کا ؟؟ ” سیلز گرل نے سوال کیا
” وہ سامنے کھڑی محترمہ کے سائز کا اور بس جو بھی ڈریس ہو وہ مکمل ہو مطلب نو سلیو لیس ٹائپ کلر آپ اپنی چوائس سے سلیکٹ کریں اور دوپٹہ بڑا ہونا چاہئے ۔۔۔” اس نے ہدایات دیں
سیلز گرل نے شیشے سے باہر دیکھتی دنیا بھر سے بیزار کھڑی سویرا کو دیکھا
” واؤ ویری پریٹی !! یہ تو خود اتنی پنک پنک سی ہیں ان پر پنک کلر بہت سوٹ کریگا ۔۔۔” وہ شہریار سے کہتی اندر چلی گئی تھوڑی دیر بعد شہریار عروہ اور سویرا کے ملبوسات کی پیمنٹ کررہا تھا وہاں سے فارغ ہونے کے بعد عروہ نے جیولر شاپ پر چلنے کا کہا شہریار سویرا کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے عروہ کے ساتھ Tiffany کی مشہور زمانہ جیولری شاپ میں داخل ہوا
” سویرا ڈارلنگ تم پلیز یہ بیگز پکڑ کر ادھر باہر ہی رکو !! اس حلیہ میں تم اندر جاؤ گی تو اچھا نہیں۔ لگے گا پوری ملازمہ لگ رہی ہو ۔۔۔” وہ شہریار کے ہاتھ سے بیگ لے کر سویرا کو پکڑاتے ہوئے اسے وہی رکنے کا حکم دیتی ہوئی آگے چلتے شہریار کے ساتھ ہمقدم ہوئی
*********************
اندر عروہ شہریار کے ساتھ انگوٹھی پسند کررہی تھی اور شاپ کے باہر بینچ پر بیٹھی سویرا خاموشی سے بجھے دل کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی تھی اپنی کم مائیگی ، اپنی یتیمی ، اپنی بے بسی کا احساس حد سے سوا تھا اپنے ہی سر کے سائیں کو دوسری عورت کیلئے شاپنگ کرتے دیکھنا اتنا آسان نہیں تھا وہ کوئی کٹھ پتلی نہیں تھی پر اس کو سب نے کٹھ پتلی ہی سمجھ لیا تھا اس کی اپنی ایک زندگی تھی جس کے فیصلے ہمیشہ سے دوسرے لوگ کرتے رہے تھے ۔وہ اپنی سوچوں میں گم ان دونوں کا انتظار کررہی تھی جب مال میں اچانک سے ایک شور سا مچ گیا تھا دو تین ٹی وی اینکرز کیمرہ مین کے ساتھ جیولری شاپ کے باہر اکھڑے ہوئے تھے کافی لوگ بھی دلچسپی سے کھڑے ہو گئے تھے ایک مجمع سا لگ گیا تھا سویرا بھی دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔
کچھ دیر بعد شہریار عروہ کے ساتھ باہر نکلا تو سارے کیمرہ مین اس کی طرف لپکے
“مسٹر شہریار سنا ہے آپ منگنی کررہے ہیں ۔۔۔۔”
” مسٹر شہریار آپ کی فیانسی کیا کرتی ہیں ۔۔۔”
” آپ دونوں کب ملے ۔۔۔۔”
” کیوٹ کپل “
” لو برڈز”
دھڑا دھڑ تصاویر کھنچ رہی تھیں سوالات ہو رہے تھے عروہ بہت آرام سے اسٹائل کے ساتھ شہریار کے بازوؤں میں بازو ڈالے تصاویر کھنچوا رہی تھی شہریار نے کسی بھی سوال کا جواب دئیے بغیر عروہ کا ہاتھ تھاما اور بھیڑ کو چیرتا ہوا باہر نکلتا چلا گیا تیزی سے چلتے ہوئے اپنی گاڑی تک پہنچا وہ دونوں تیزی سے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گئے ۔۔۔لمبا چکر کاٹ کر میڈیا والوں سے جان چھڑوا کر وہ دوبارہ مال کی پارکنگ میں آیا اور اپنا فون نکالا ۔۔۔
******************
سویرا فق چہرے کے ساتھ عروہ کو شہریار کے انتہائی نزدیک ہو کر تصاویر بنواتے ہوئے دیکھ رہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے شہریار عروہ کا ہاتھ تھامے اسے دیکھے بنا وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔” یہ تو ہونا ہی تھا آپ بھلا مجھے کیوں دیکھیں گئے ؟؟ یہ زندگی اس کے رنگ سب آپ کے لئیے ہیں آپ جن کے پاس سب کچھ ہے عزت ، دولت ، معاشرے میں ایک اونچا مقام اور ۔۔۔۔” اس نے اپنی آنکھوں سے چھلکتے آنسوؤں کو بے دردی سے اپنی ہتھیلیوں سے رگڑا
” میں جانتی ہوں آپ کی زندگی کی ترجیحات میں ، میں کہیں نہیں ہوں لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں میرا دل ڈوب رہا ہے میں میں کیا کروں ۔۔۔۔” وہ اکیلی بینچ پر بیٹھی سسک رہی تھی نا جانے کتنا ٹائم ہوا تھا کہ اس کا فون بجا
” کیا مال میں زندگی بسر کرنے کا ارادہ ہے ؟؟ ” شہریار کی تپی تپی آواز گونجی
” وہ میں اکیلی ۔۔۔۔۔”
” اکیلی نہیں ہو تم !! رائیٹ سائڈ کے دروازے سے باہر نکلو اور بیک سائیڈ کی پارکنگ میں آؤ میں ویٹ کررہا ہوں ۔۔۔”وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے فون بند کر گیا تھا
سویرا نے کھڑے ہو کر شاپنگ بیگ اٹھائے اور شہریار کے بتائے راستے پر چلتی ہوئی باہر نکلی ہی تھی جب ایک انڈین لڑکا اس اکیلا دیکھ کر اس کے پاس آیا
” تم پاکستانی ہو ؟؟ ویسے تم پاکستانی لڑکیاں بہت زیادہ ہی خوبصورت ہوتی ہو ۔۔۔”
” لاؤ یہ بیگ میں پکڑ لیتا ہوں دیکھو تمہارے نازک ہاتھ سرخ ہو رہے ہیں ۔۔” اس نے سویرا کی جانب ہاتھ بڑھایا
سویرا ایک چیخ مار کر پیچھے ہوئی شاپنگ بیگ اس کے ہاتھ سے گر گئے تھے
” سوئیٹ ہارٹ ڈرو نہیں !!! ” وہ خباثت سے مسکراتے ہوئے اس کے قریب ہوا اس سے پہلے وہ سویرا کو ہاتھ لگا پاتا کسی نے پیچھے سے پکڑ کر اسے کھینچا اور ایک زور دار مکا اس کے چہرے پر مارا
**********************
” کیا کررہے ہوں شیری وہ پاپارازی آجائیں گے نکلو ادھر سے ۔۔۔۔۔” عروہ نے گاڑی کو واپس مال میں رکتے دیکھ کر اسے ٹوکا
” میں اسے اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔۔۔” وہ روڈ لہجے میں بولتا ہوا سویرا کو فون ملا رہا تھا
” کیا مال میں ہی زندگی بسر کرنے کا ارادہ ہے؟؟ ۔۔” فون کے ملتے ہی وہ غصہ سے بولا اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ اسے باہر آنے کی ہدایت کرتے ہوئے مین ڈور پر نظریں جمائے بیٹھ گیا چند منٹ بعد اسے پریشان گھبرائی ہوئی سی سویرا آتی نظر آئی کوئی دیسی لڑکا اس کو چھیڑ رہا تھا شہریار کو اپنی رگوں میں ابال سا اٹھتا محسوس ہوا وہ گاڑی سے اترا اور تیزی سے اس کی جانب بڑھا اس سے پہلے وہ لڑکا سویرا کو چھوتا اس نے پیچھے سے اس کا کالر پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور ایک زور دار پنچ اس کے منھ پر مارا ۔۔۔وہ اسے بری طرح پیٹ رہا تھا لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے تھے ۔عروہ بھی پریشان ہو کر گاڑی سے اتر آئی تھی
” شیری چھوڑو اسے پولیس کیس بن جائیگا ۔۔۔” عروہ نے اس کا بازو پکڑا
” ہاؤ ڈیر یو !! تم نے اسے چھونے کی کوشش کیسے کی ۔۔۔۔” شہریار عروہ کی گرفت سے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا کر اسے پر دوبارہ پل پڑا کچھ ہی منٹ میں پولیس کا سائرن بجنے لگا اور ایک پولیس کار پاس آکر رکی
پولیس نے آکر اس لڑکے کو شہریار کی گرفت سے چھڑوایا شہریار نے اپنا بزنس کارڈ نکال کر پولیس آفیسر کی طرف بڑھایا اور ایک کونے پر لے جا کر بات کرنے لگا ۔۔
” عروہ تم سویرا کو لیکر نکلو میں پولیس اسٹیشن سے ہو کر آتا ہوں ۔۔” وہ عروہ کے پاس آکر سویرا کو دیکھتے ہوئے بولا
” آپ کدھر جارہے ہیں ؟؟ کیا آپ کو پولیس پکڑ رہی ہے ؟؟” سویرا نےڈرے سہمے لہجہ میں اس سے سوال کیا
شہریار نے ایک لمحہ کو ٹھٹک کر سویرا کی شدت گریہ سے سرخ آنکھوں میں دیکھا بھیگی لمبی گھنیری پلکوں میں چھپی سرخ آنکھیں !! چہرے پر اس کیلئے فکرمندی ۔۔۔۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے پاس آیا ۔۔۔
” پولیس مجھے نہیں پکڑ رہی ، میں اس باسٹرڈ کو اندر کروا کر آتا ہوں تم عروہ کے ساتھ گھر جاؤ ۔۔۔”
عروہ نے آگے بڑھ کر سویرا کو چلنے کا اشارہ کیا اور جلدی سے پاس سے گزرتی ٹیکسی روکی کہ اس کی اپنی گاڑی شہریار کے آفس میں کھڑی تھی
****************
ٹیکسی شہریار کے آفس کے باہر رک چکی تھی بل پے کر کے عروہ اتری سویرا نے بھی اس کی تقلید کی ۔۔عروہ نے گاڑی میں بیٹھ کر سویرا کو ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔
” سنو سویرا !! ” عروہ نے ڈرائیو کرتے کرتے اسے مخاطب کیا
” آج تم نے دیکھ لیا ہوگا کہ شہریار میرے ساتھ کتنا سیریس ہے !! میرا ساتھ اسے شہرت کی مزید بلندیوں تک پہنچائے گا ۔لیکن تم !!! تم اس کیلیئے ایک وبال ہو بہت بڑا وبال آج تمہاری وجہ سے وہ تھانے گیا ہے ؟؟ تمہارا ساتھ سوائے بدنامی کے اور کچھ نہیں ۔۔بہتر ہے اس کی زندگی سے نکل جاؤ ۔۔۔”
سویرا شاک سے عروہ کو دیکھ رہی تھی
” آپ کو غلط فہمی ہو رہی ہے !! میں ان کی زندگی میں کہیں بھی نہیں ہوں ۔۔۔” اس نے ٹہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا
” او رئیلی !! تو پھر اس کے گھر میں کیا کررہی ہو ؟؟ جب سے آئی ہو شہریار پر ایک سے بڑھ کر ایک مصیبت آرہی ہے آج تو حد ہی ہو گئی ہے وہ صرف تمہاری وجہ سے تھانے تک پہنچ گیا ہے ۔۔۔” عروہ استہزائیہ انداز میں بولی
عروہ نے چپ چاپ سر جھکائے آنسو پیتی ہوئی سویرا کو دیکھا ۔۔
” بہتر ہے تم اپنا منحوس وجود لےکر شیری کی زندگی سے خود نکل جاؤ !! کچھ تو سیلف رسپیکٹ دکھاؤ ؟؟ وہ تم سے نفرت کرتا ہے نکل جاؤ اس کی زندگی سے ۔۔۔” عروہ نے سفاکی سے کہا
سویرا کو شہریار کے گھر اتار کر وہ تیزی سے گاڑی بھگا کر لے گئی اپنے گھر پہنچ کر اس نے خود کو فریش کیا اور سیل فون لیکر بیٹھ گئی
” شیری کہاں ہو تم ؟؟ میرا ڈریس شاید وہی مال میں رہ گیا ہے ” عروہ نے فون کے اٹھتے ہی سوال کیا
” بس ابھی پولیس اسٹیشن سے نکلا ہوں ، ڈریس میرے پاس ہے ، تم بتاؤ سویرا کدھر ہے ؟؟ ” اس نے سنجیدگی سے پوچھا
” تمہیں اس کی کچھ زیادہ ہی فکر نہیں ہو رہی ؟؟ ” عروہ ٹھیک ٹھاک تپ گئی
” عروہ وہ ابھی بچی ہے !! تمہارا اس کا کیا مقابلہ ؟؟ ” شہریار نے اسے سمجھایا
” شہری فار گاڈ سیک وہ اتنی بھی بچی نہیں ہے شاید تم نے اسے کبھی غور سے نہیں دیکھا ۔۔۔” عروہ اسے بچی کہنے پر جل بھن گئی اور فون بند کردیا ۔۔۔
اب وہ نیٹ سرفنگ کررہی تھی
پھر انٹرنیٹ سے آج مال میں اپنی اور شہریار کی خبریں دیکھ کر پاکستان کے اخبارات کو سینڈ کرنے لگی ۔۔۔
” اب دیکھنا تمہارے ماں باپ بھی مجھے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائینگے ۔۔۔” وہ کمپیوٹر اسکرین دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
ان دونوں کے جانے کے بعد شہریار نے تاسف سے زمین پر پڑے شاپنگ بیگز کو دیکھا انہیں اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھا اور آفیسر کے ساتھ پولیس اسٹیشن روانہ ہو گیا ۔
اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لاکر وہ پولیس اسٹیشن سے اس آدمی کو اندر کروا کر باہر نکلا ابھی گاڑی میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ عروہ کی کال آگئی اس سے فارغ ہو کر اب وہ گھر کی طرف جا رہا تھا گھر پہنچ کر اس نے بیک سیٹ سے سویرا کے ڈریس کا بیگ اٹھایا اور اندر داخل ہوا تو اس کی سیدھی نگاہ کچن کی جانب اٹھیں لیکن سویرا ادھر نہیں تھی پورا لاؤنچ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہ اندر بڑھا سویرا کے دروازے پر پہنچ کر اس کے قدم رک سے گئے ایک لمحے کو اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیگ کو دیکھا پھر کچھ سوچتے ہوئے سویرا کے دروازے کی ناب گھمائی پر دروازہ اندر سے لاک تھا ۔
” یہ لڑکی !! ” وہ زچ ہوا
اس کی پیشانی پر بل سے پڑ گئے اور اس نے دروازے کو ناک کیا ۔۔
سویرا جو گھر میں آنے کے بعد دروازہ لاک کر کے اپنی کم مائیگی پر ، شہریار کے پولیس اسٹیشن میں ہونے پر اور اس پر عروہ کے الفاظ سوچ سوچ کر رونے کا شغل پورا کررہی تھی دروازے پر دستک کی آواز سن کر چونک گئی دستک کی بڑھتی ہوئی آواز سن کر اس نے جلدی سے اپنے دوپٹے سے چہرا صاف کیا اور اٹھ کر دروازہ کھولا
” دروازہ کیوں لاک کیا ؟؟ ” شہریار نے دروازہ کھلتے ہی سوال کیا
” جی وہ بس ایسے ہی ۔۔۔۔” سویرا کنفیوز ہو گئی پھر اس نے ہمت کرکے اپنی جھکی نظریں اٹھائیں
” آپ ٹھیک تو ہیں نا ؟؟ پولیس نے آپ کے ساتھ کوئی بدتمیزی تو نہیں کی ۔۔۔۔” وہ فکرمندی سے پوچھ رہی تھی
” وہ اتنی بھی بچی نہیں ہے !!! ” اس کے کانوں میں عروہ کی آواز گونجی اس نے بغور سویرا کا جائزہ لیا جس کی سرخ آنکھیں شدت گریہ کی چغلی کھا رہی تھیں گھنی چوٹی سے بال نکل کر اس کے چہرے کو مزید خوبصورت بنا رہے تھے چہرے پر اس کیلیئے فکر تھی پریشانی تھی ۔۔
” سنو لڑکی !! میرے لئیے چائے بنا دو ۔۔۔۔” وہ اپنی توجہ اس پر سے ہٹاتے ہوئے بیگ فرش پر رکھتے ہوئے باہر نکل گیا
اس کے باہر جاتے ہی سویرا نے ڈر کے مارے روکا ہوا سانس لیا اور کچن میں آگئی کیتلی میں چائے کا پانی رکھا پتی ڈالی اور ابلنے کا انتظار کرنے لگی آج اس کی ذہنی اذیت حد سے سوا تھی پہلے شہریار عروہ کو شاپنگ کرتے دیکھنا ، تصاویر کا بننا ، شہریار کا اسے مال میں اکیلے چھوڑ کر چلے جانا پھر اس غنڈے کا تنگ کرنا ۔۔۔۔۔
اس کی ذہنی رو بار بار بھٹک رہی تھی عروہ کی باتیں دل و دماغ میں ہلچل مچا رہی تھیں چائے کا پانی ابل ابل کر خشک ہو چکا تھا
***********************
شہریار جلنے کی بو سونگھ کر کچن میں آیا جہاں سویرا ساکت کھڑی نا جانے کن خیالات میں گم تھی
” یہ چائے بن رہی ہے یا پائے گلائے جارہے ہیں ۔۔۔” شہریار نے چولہا بند کرتے ہوئے اسے گھورا
سویرا اس کی آواز سن کر ہوش میں آئی
” جی بس وہ ب گئی آپ بیٹھیں میں ابھی لاتی ہوں ۔۔۔۔” وہ منمنائی اور تیزی سے دودھ پانی سب ڈال کر چولہا جلایا
” تم سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا پتا نہیں کن سوچوں میں گم رہتی ہوں ۔۔۔” وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
سویرا کا ڈرا سہما روپ اسے مزید غصہ دلا رہا تھا وہ پلٹ کر کچن سے نکلنے ہی لگا تھا کہ سویرا نے اسے آواز دی
” یہ آپ کی چائے۔۔۔۔۔”
وہ پلٹا !! سویرا چائے کا مگ تھامے کھڑی تھی وہ گلابی گلابی سی روئی روئی سی لڑکی اسے اچھی لگ رہی تھی اس کا دل چاہا وہ اس کی بھیگی بھیگی پلکوں کو چھو کر دیکھے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ اس کے قریب ہوا
” یہ چائے کا کیا کروں ؟؟ ” وہ سہم کر پیچھے ہوئی
” میرے سر پر ڈال دو ۔۔۔۔” وہ پیچھے ہٹتے ہوئے غرایا
” جی !!! ” سویرا نے حیرت سے اسے دیکھا
” تم !!! ” شہریار نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی
“جاؤ جا کر اپنا کام کرو ۔۔۔۔”
” جی بہتر ۔۔۔۔” سویرا مگ ہاتھوں میں لئیے کچن سے نکلنے لگی
” سنو لڑکی !! ۔۔۔۔”
” جی !!! ” وہ رکی
” اسٹوپڈ یہ چائے تو دیتی جاؤ ۔۔۔” وہ بری طرح تپا تھا
سویرا نے اپنے ہاتھ میں تھامے مگ کو گڑبڑا کر دیکھا اور جلدی سے اس کے پاس آکر مگ اسے تھمایا ہی تھا کہ شہریار نے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا
____________
شہریار نے چائے کا مگ ایک ہاتھ سے تھامتے ہوئے دوسرے سے سویرا کی کلائی پر گرفت کرتے ہوئے اسے روکا ۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے سویرا نے اپنا چہرہ جھکا رکھا تھا لیکن اس کے چہرے پر پھیلی آنسوؤں کی لکیریں ناک کی سرخی آنکھوں کا گلابی پن صاف بتا رہا تھا کہ وہ روتی رہی ہے وہ چند لمحے بغور اس کے روئے روئے چہرے کو دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس لی ۔۔۔
” میں نے کہا تھا نا کہ تم اکیلی نہیں ہو ؟؟ پھر تم کیوں روئیں ؟؟ ” وہ سوال پوچھ رہا تھا
” تمہارا سب سے بڑا پرابلم پتا ہے کیا ہے ؟؟ ” اس نے خاموش ساکت کھڑی سویرا کی کلائی کو ہلکے سے جھٹکا دیا
” تم خود ترسی کی بیماری میں مبتلا ہو !! ہر وقت خود کو مظلوم سمجھتی ہو خود پر ترس کھا کھا کر تم نے اپنا بیڑا غرق کرلیا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں !! کچھ سمجھی یا میں یہ سمجھو کہ تم سمجھنا ہی نہیں چاہتی ؟؟ ”
سویرا نے حیرت سے اسے دیکھا اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہنا کہا چاہ رہا ہے
” جاؤ جاکر منھ ہاتھ دھو کر آؤ ۔۔” وہ اس کی کلائی اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے بولا
سویرا چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئی شہریار نے ایک گہرا سانس خارج کرتے ہوئے فون اٹھایا اور ہوم ڈیلیوری سے پزا آرڈر کیا
آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا ڈیلوری بوائے پزا ڈیلور کرکے جاچکا تھا اور سویرا اب تک منھ دھو کر باہر نہیں آئی تھی ۔۔۔
یہ لڑکی بھی !! صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتی ہے ۔۔۔۔۔” وہ بڑبڑایا اور پیزا ٹیبل پر رکھ کر اس کے کمرے کی جانب بڑھا۔
سامنے ہی میز کے آگے تولیہ ہاتھ میں لئیے وہ گم سم سی کھڑی ہوئی تھی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
” سنو لڑکی !! ” اس نے پکارا تو وہ چونک کر سیدھی ہوئی
” تم اتنی عجیب سی کیوں ہو ؟؟ ” وہ اس کے پاس آیا
” ہر وقت کن سوچوں میں گم رہتی ہو ؟؟ کہ اپنے ارد گرد سے بھی لاعلم ہو جاتی ہو ؟؟ “اس نے سویرا کے دھلے ہوئے چہرے کو بغور دیکھا
” پتا نہیں !! ” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی شہریار کا بدلہ ہوا رویہ اسے عجیب سا لگ رہا تھا
” چلو ڈنر کر لو ۔۔۔” اس نے بلایا
” سوری میں نے تو کھانا پکایا ہی نہیں !! بس آدھا گھنٹہ دیجئیے ابھی پکاتی ہوں ۔۔ “وہ تیزی سے باہر کچن کیلیئے نکلنے لگی
” میں پزا منگوا چکا ہوں ۔۔۔۔” اس نے باہر جاتی سویرا کو ٹوکا
” مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔” وہ جھجکتے ہوئے بولی
” یہ ڈنر ٹائم ہے تمہیں بھوک ہے یا نہیں آئی ڈونٹ کئیر فورا ٹیبل پر آؤ ۔۔۔” وہ حکم دیتے ہوئے باہر نکل گیا
حکم حاکم مرگ مفاجات !! وہ باہر میز پر آئی کرسی گھسیٹ کر بیٹھی ہی تھی کہ شہریار نے پیزا کا سلائس پلیٹ میں رکھ کر اس کے آگے بڑھایا ۔۔
” تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے ؟؟ ” شہریار نے سوال کیا
” جی !! ” سویرا نے حیرت سے اسے دیکھا وہ کہاں اس سے کچھ پوچھتا تھا
وہ سویرا کا ” جی ” سن کر ٹھیک ٹھاک بدمزا ہوا
” تم ہر وقت اتنی ڈری سہمی ہوئی کیوں رہتی ہوں ؟؟ ہم کزن بھی تو ہیں اگر کوئی پریشانی ہے تو تم مجھ سے شئیر کر سکتی ہو ۔۔۔”
” نہیں میرا کوئی نہیں ہے !! اگر ہوتا تو آج ۔۔۔۔۔” وہ چپ ہو گئی
” تو آج کیا ؟؟؟” شہریار نے بھنویں اچکائیں
” کچھ نہیں !!!” سویرا نے بے دلی سے پلیٹ کھسکاتے ہوئے کہا
” سنو لڑکی !! کیا تمہیں کچھ بھی اچھا یا برا نہیں لگتا ؟؟ اچھا چلو اپنے بارے میں مجھے کچھ بتاؤ ۔۔۔”
” آپ ۔۔۔” سویرا نے حیرانگی سے اسے دیکھا کو اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا اور آج اس سے اس کے بارے میں پوچھ رہا تھا
“آپ میرے بارے میں کیا جانا چاہتے ہیں ؟؟ اور کیوں ” سویرا نے پوچھا
” کیونکہ تم مجھے اچھی لگنے لگی ہو ۔۔۔” وہ آرام سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
سویرا کی پلکیں لرز کر رہ گئی اس نے نظریں چرائیں ہی تھی کہ شہریار نے اس کے چہرے کے آگے چٹکی بجائی
” کیا ہوا ؟؟ کچھ بولتی کیوں نہیں ہو ؟؟ ” وہ اس کے چہرے کو اوپر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کررہا تھا
” مم میں آج اس حال میں صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہوں آپ کی وجہ سے سب میرے لئیے غیر بن چکے ہیں آپ کا نام میرے لئیے ایک تہمت بن چکا ہے ، آپ نے مجھے قبول نا کرکے حویلی چھوڑ کر مجھ پر منحوس کا لیبل لگا دیا تھا !! میں منحوس ہوں ۔۔۔۔سنا آپ نے ۔۔۔” اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی
شہریار پرسوچ نظروں سے اسے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا سویرا کو لیکر وہ اپنے جذبات سمجھ نہیں پا رہا تھا جو بھی تھا وہ لڑکی دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہی تھی اس نے اپنا مائنڈ بنا لیا تھا وہ اپنے اور سویرا کے رشتے کو ایک ، بس ایک چانس دیکر دیکھنا چاہتا تھا شاید عمر کے فرق کو لیکر ، ذہنی مطابقت کو لے کر جو وہ پریشان تھا وہ صرف اس کے مفروضات ثابت ہوں ۔۔۔چند لمحوں کے بعد وہ فیصلہ کر کے اٹھا اس کا رخ سویرا کے کمرے کی طرف تھا
*******************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...