اور اس دن میں اپنے آپ سے ملا۔ سڑک پر اکیلا لڑ کھڑا تا ہوا۔ ۔ چہرے پر آنسوؤں کے دھبّے۔ ۔ میلایو نی فارم۔ ۔ اور تب تک میں اپنی کار سے ٹکرا کر گر چکا تھا۔
کچھ دیر تک میں اپنے آپ کو کار کی پچھلی سیٹ پر اوندھا لیٹا سسکیاں لیتے دیکھا کیا۔ ۔ ۔ اور تب میرا جینے کو جی چاہنے لگا۔ ۔ ۔
آئیے میں آپ کو شروع سے بتا تا ہوں۔
تیز نیلی چنگھا ڑتی ہوئی آواز سماعت کو دہکا رہی تھی۔ میں بستہ زمین پر وہیں زینہ کے پاس پھینک کر، پیر لٹکا کر بیٹھ گیا۔ گھنٹی بجانے کی ہمّت نہیں ہو رہی تھی۔ گھر کے اندر چیخ پکار اور بر تن پھینکنے کا سلسلہ جاری تھا۔ زور کی بھوک لگ رہی تھی، نیند بھی آ رہی تھی مگر گھر جانے کی ہمّت نہیں تھی۔ یہ روز کا معمول تھا۔ سر جھکا کر نیچے کے زینے کی طرف نظر ڈالی تو دیکھا، وہ چہرہ اوپر کئے کھڑی تھی، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔ گول نرم چہرہ دو چھوٹی چھوٹی پونیاں بنائے صاف شفّاف گلابی فراک پہنے ہوئے۔ ۔ شاید ابھی نہا کے آئی تھی۔ اس نے اپنا ننھا سا ہاتھ اٹھا کر مجھے بلا یا۔ مگر میں نے جھنجھلا کر نظریں پھیر لیں۔ نیند سے پلکیں بھاری ہو رہی تھی اس لیے دیوار سے ٹک گیا تھا۔
چند لمحوں بعد اس کا نرم سا ہاتھ اپنے کاندھے پر محسوس ہوا۔
“چلو آؤ میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ” اس نے میرا بستہ اپنے کاندھے پر ٹانگ رکھّا تھا میں آہستہ قدموں سے غنودگی کے عالم میں اس کے پیچھے چلنے لگا۔
صاف ستھرا چھوٹا سا فلیٹ،محبتّوں کی خوشبو سے معمور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اپنے میلے کچیلے کپڑوں سے بڑی کوفت ہوئی۔
“تم منھ ہاتھ دھولو۔ ۔ میں کھا نا لگا تی ہوں ” اس کی امّی نے میرے بکھرے بال اپنی انگلیوں سے سنوارتے ہوئے کہا۔ میں کھا نا کھا کر وہیں فرش پر سو گیا۔ وہ وہیں پر اسکول کا کام کرتی رہی۔
شام کو گھر میں داخل ہوا تو سب بے فکری سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئے۔ بھیّا نے کمپیو ٹر سے نظر اُٹھا کر ذرا کی ذرا مجھے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
ماں نے جھا ڑن لینے کے لئے اسٹور کا دروازہ کھولا اور پھر زور سے بند کیا۔
میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے اور بھیّا کے مشترکہ کمرے میں آیا جوتے اتار کر ایک طرف رکھّے۔ نہانے کے لئے باتھ روم میں گھس گیا۔
شاور کی ننھی ننھی بوندیں جسم کی گرد تھکن اور ذہن کی جھنجھلا ہٹ صاف کر تی رہیں۔
اور چند لمحوں کے لئے وہ شام میری اپنی ہو گئی۔ ۔ ۔
مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ میرے گھر کا ماحول ایسا کیوں تھا ؟ماں کسی بوتیک میں کام کرتی تھی پا پا کا ا پنا بزنس تھا، گھر بھی اپنا تھا۔ وہ دونوں بھائی ٹھیک ٹھاک پڑھ بھی رہے تھے۔ بظاہر کوئی کمی نہیں نظر آتی تھی۔ میرا کچّا ذہن یہ سو چنے سے قاصر تھا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ کیا تھی۔ ۔ ۔ ۔ میں چاہتا تھا میرا گھر بھی ارم کے گھر جیسا ہو جائے، صاف ستھرا موتی کی طرح چمکتا دمکتا۔ جہاں اس کی امّی روز تازے پھول سجاتی تھیں اور ہمیشہ مسکرا کر ویل کم کرتی تھیں۔ اس کے گھر پر کھانے بھی بہت معمولی ہوتے، کبھی کبھی سلائس جیم کے ساتھ ایک کیلا۔ ۔ ۔ ۔ مگر خوشی خوشی کھا کر تسکین ملتی تھی۔ ارم کی امّی کبھی مجھے اپنے ہاتھ سے بھی کھا نا کھلا دیتی تھیں، سادے سے دال چاول۔ ۔ وہیں بغیر کارپٹ کے فرش پر پنکھے کے نیچے سکون کی نیندسو جاتا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا، سفید اور گلابی فرش۔ ایک نرم سی مہک۔ ۔ ۔
اس کی امّی آہستہ آہستہ اپنا کام کرتیں کہ وہ جاگ نہ جائے۔
نیند بھر کے اٹھتا تو تر و تازہ ہوتا۔ ارم کے ساتھ بیٹھ کر اولٹین کا گلاس ختم کر کے کالونی کے بچّوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے نہ جانے کب شام اتر آتی۔ اپنے گھر جانے کا خوف اس کے دل میں زرد سیّال بن کر دوڑنے لگتا۔
اس دن پھر کھانے کی میز پر ڈیڈی چیخ کر ماں کو ڈانٹتے رہے اور کئی بار ماں چلّا چلّا کر اپنا غصّہ اتارتی رہی۔ میرے گلے میں کھا نا اٹک رہا تھا، بھیّا میری طرف ہی دیکھ رہے تھے انھوں نے پنیر کا پیالہ میری جانب سرکا یا۔
“یہ لو تمہیں تو بہت پسند ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ ؟’
بے دلی سے بڑھا ہوا ہاتھ راستے میں ہی رہ گیا، ڈیڈی نے پیالہ لے لیا اور کھینچ کر زمین پر دے مارا۔
“نہ نمک کا پتہ اور نہ مصالے کا۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتّے کا راتب بنا کر رکھّا ہے میرے اور میرے بچّوں کے سامنے۔ ۔ ۔ ۔ جاہل عورت کم از کم ایک وقت کا کھا نا تو پیٹ بھر کھلا دیا کر۔ ۔ ۔ ”
ہم حیران فرش پر بکھرے سرخ سالن اور پنیر کے براؤن ٹکڑوں کو تک رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ بھوک چمک اٹھی تھی مگر اب کھانے کی میز پر کیا تھا وہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اٹھ کر تھکے قدموں سے اپنے کمرے میں آ گیا۔ ۔ مٹّھی میں آدھی روٹی دبی ہوئی تھی۔ اس کو منھ میں ڈال کر جلدی جلدی نگلنے لگا، آنسو بہہ رہے تھے سسکیاں حلق میں ٹوٹ رہی تھیں۔ ۔ ۔ بھوک کی شدّت سے نڈھال نہ جانے کب سو گیا۔
صبح بھی کھانے کے لئے بھی ماں نے کچھ نہیں پکا یا، اپنے گنیباکس سے کچھ روپیے نکال کر اسکول کے لئے باہر آ گیا۔ ۔
سڑک پر ٹھیلے سے ایک سینڈوچ لیا اور وہیں جلدی جلدی کھا لیا۔ سڑک کے کنارے بنے ہوئے ہینڈ پمپ سے پانی پی کر کچھ سکون ہوا۔ کپڑوں پر نگاہ کی۔ ۔ ۔ یونی فارم بہت میلا اور دھبّے دار تھا۔
اسکول جانے کی ہمّت نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ دل میں اک دھواں سا اٹھ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہاں جاؤں ؟
کا لونی کے پیچھے چوکیدار کے کواٹر میں اس کی بیوی کپڑے الگنی پر ڈال رہی تھی، مجھے دیکھ کر مسکرائی تو میں آ گئے بڑھ آیااور برامدے میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
“کا ہوا بٹوا ؟؟ اسکول سے بھاگ آئے ہو کا ؟؟؟ ”
میں کچھ بول نہیں سکا بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
وہ میرے لئے اندر سے ایک لسّی کا گلاس لے آئی۔ میں گلاس تھام کر جلدی جلدی لسّی پینے لگا۔ ۔ ۔ اور وہیں پلنگ پر لیٹ گیا۔ وہ حیران تھی پھر ایک چادر لے کر آ گئی
“رک جاؤ بھیّا۔ ۔ ۔ تنی چادر بچھائے دئی۔ ۔ ۔ ”
“نہیں رہنے دو ” چادر اس کے ہاتھ سے لے کر سرہانے رکھ لی اور گہری نیندسو گیا۔ ۔ ۔ جانے کب تک سوتا رہا ۔
اٹھا تو شام ہو رہی تھی۔ چوکیدار کرسی پر بیٹھا حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
بستہ اٹھا کر بغیر کچھ کہے میں گھر کی جانب چل پڑا۔
زینہ پر وہ پریشان کھڑی تھی۔
“تم کہاں تھے دن بھر ؟؟؟
اس کے لہجہ میں فکر بول رہی تھی۔
” کچھ تو بولو۔ ۔ اسکول کیوں نہیں آئے۔ ۔ ۔ ؟”
میں نے سر اٹھا کر زخمی نظروں سے اسے دیکھا۔ ۔ ۔
“تھوڑی دیر کے لئے تمہارے گھر آ جاؤں ؟؟”
اس نے آگے بڑھ کر تپتا ہوا ہاتھ تھام لیا اور اپنے گھر لے آئی۔
وہاں اس کے پاس بیٹھ کر میں اپنے طریقے سے اپنے دُکھ سنا تا رہا۔ ۔ ۔ وہ اس کا چہرہ اپنے تولیہ سے صاف کر کے آئسکریم نکال لائی۔ ۔ پھر اپنی تصویروں بھری کتا بیں دکھا تی رہی اور اس نے ایک ڈائری کھول کر ایک ننھا سا تتلی کا پر دکھا یا۔ ۔ ۔ کئی رنگوں سے سجا وہ پر۔ ۔ بیحد خوبصورت تھا۔ نظروں میں پسندیدگی دیکھ کر اس نے ایک گلابی لفافے میں وہ پر رکھ کر میری طرف بڑھا دیا۔
“یہ تمہارے لئے ہے۔ ۔ ۔ اب مت رونا۔ ۔ ۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔ ۔ ۔ ”
اور وہ پر میری زندگی کا قیمتی اثاثہ بن گیا۔
تعلیمی مدارج طے کرتا رہا۔ ہوسٹل بھی رہا اور عزیزوں کے ساتھ بھی مگر وہ پرمیرے ساتھ ساتھ رہا۔ زندگی کئی برس آ گئے بڑھ آئی۔ دہلی میں ایک اچھّا فلیٹ لے کر میں واپس اپنوں سے ملنے بھی گیا، سوچا تھا اس گلابی پرَ کی طرح اپنی زندگی بھی گلابی ہو جائے گی مگر۔ ۔ ۔ وہاں بھی قسمت سے ہار گیا۔
میں نے جھک کر بالکونی میں رکھّے اپنے پیار سے لگائے ہوئے پھولوں کو دیکھا، گہرے ہرے کنارے پیلے پڑ گئے تھے۔ ۔ ۔ گرد و غبار سے پودے نڈھال اور بے رونق ہو چکے تھے۔ میں تڑپ اٹھا۔ ۔ ۔ پانی کا پائپ لے کر سارے پودوں کو شفّاف کرنے میں جٹ گیا۔ ۔ ۔ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اسگُل داؤدی کے پودے کو لے کرمیں زارو قطار رو رہا تھا۔ ۔
“سوری دوست۔ ۔ ۔ ویری سوری۔ ۔ ۔ میں بہت خود غرض ہو گیا تم کو بھول گیا تھا۔ ۔ ۔ اپنے غموں میں ایسا جکڑ گیا کہ تمہارا احساس بھی نہ کر سکا۔ ۔ ۔ میرے دوستو۔ ۔ ۔ ایک ایک پودے سے معافیاں مانگ رہا تھا کوئی مجھے دیکھتا تو پاگل ہی سمجھتا۔
مگرمیں جانتا تھا کہ میں پاگل نہیں ہوں۔ یہ پھول پودے یہ بے زبان ہمیشہ میری اُداسی دور کرتے رہے اور اب میں ان کو بھول کیسے گیا ؟
اس کا غم ساری دنیا پر محیط کیوں ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔
ارم کی شادی ہو گئی تھی بس یہ خبر برداشت کرنا میرے لئے سخت مشکل بن گئی تھی۔ سارے خواب ایک چھناکے سے ٹوٹ کر ادھر اُدھر بکھر گئے تھے۔ ۔ ۔
کمرے میں آ کر میز پر رکھّی ڈائیری کھولی تو ہتھیلی پر ننھا سا گلابی پر کپکپا نے لگا۔ ۔
آنسو بے آواز گرتے رہے۔ ۔ ۔ تھوڑی دیریوں ہی کمرے میں بے مقصد گھومتا رہا۔ ۔ شام کمرے کے باہر ٹہل رہی تھی۔ کھڑکی بند کر کے پردے گرا تے ہی اے سی کی ٹھنڈک اثر انداز ہونے لگی اور میں بے خبر سو گیا۔ ۔ ۔
خوابوں میں ارم کا گھر، اس کے گھر کا سکون اور اس کی ماں کی شفقت مجھے بہلاتے رہے۔
صبح روز سے زیادہ روشن تھی۔ ہلکا اُجالا پھیل رہا تھا تب ہی وہ اٹھ کر باہر نکل آیا سر سبز پودے خوشی سے جھوم رہے تھے، فضا میں خنکی باقی تھی۔ ۔ گُل داؤدی کے پتّے گہرے ہرے ہو گئے تھے اور اُن پتّوں سے ننھی سی گلابی کلی شر ما کر جھانک رہی تھی۔
میری ساری کلفت دور ہونے لگی۔ ۔ ۔ ۔ سارا دُکھسارا غصّہ ساری کوفت ایک ایک کر کے رخصت ہوئے۔ ۔ ۔ میں مسکراتا ہوا گھٹنوں کے بل وہیں بیٹھ گیا۔
“تھینکسیار۔ ۔ ۔ ۔ ” میں نے پیار سے ان پتّوں پر ہاتھ پھیرا۔ ۔ سامنے کی بالکونی میں دیکھا تو بھیا جی ایکسرسائیز کرتے نظر آئے۔ ۔ مجھے دیکھتے ہی مسکرائے اور خوشدلی سے بولے۔
“ہیلو جی۔ ۔ ۔ کہاں رہے اتنے دن ؟ بڑے دنوں بعد شکل دکھا ئی ہے۔ ۔ ” انھیں کیا پتہ کہ میں اس کمرے میں رہ کر بھی یہاں نہیں تھا۔ ۔ ۔
“بس ایسے ہی جناب۔ ۔ ۔ آؤں گا، ملوں گا کسی دن۔ ۔ ۔ ایک کام بھی تھا آپ سے۔ ۔ ”
“ہاں جی بولو۔ ۔ ۔ آپ جیسے پڑوسیوں کے لئے تو جان بھی حاضر ہے۔ ۔ حکم کرو۔ ۔ ”
“ارے نہیں صاحب۔ ۔ ۔ اپنی جان ہی نہیں سنبھلتی۔ ۔ ۔ “میں ہنس پڑا۔
“اب کہیں جاؤں گا تو میرے پو دوں کی دیکھ بھال آپ کے سپرد۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی بالکونی میں رکھ دوں گا۔ ۔ ۔ اگر آپ کو بُرا نہ لگے۔ ”
“تُسی فکر ہی نہ کرو۔ ۔ یہ تو اپنے بچّوں جیسے ہیں۔ ۔ اور آپ کے تو ہمارے گھر مہمان ہوئے نا۔ ۔ ۔ ۔ ہماری تو بالکونی سج جائے گی جی۔ ۔ ۔ ” انھوں نے حسب عادت زور دار قہقہہ لگا یا۔
میرے دل کا بوجھ اتر گیا۔
ان بے کراں خیالات کے سمندر میں تیرتے ہوئے مجھے یہ اندازہ بھی نہ ہوا کہ میرے ہاتھ اسٹیرنگ پر بہک رہے ہیں۔ اچانک ایک جھٹکے سے میں نے گاڑی روک دی سڑک پر لوگ جمع ہونے لگے تھے۔ میں گھبرا کر نیچے اتر آیا۔ ۔ ۔ ایک بچہ اگلے پہئیے کے پاس اوندھا پڑا ہوا تھا۔ ۔ ایک خوف ناک خیال نے مجھ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس بچّے کو سیدھا کیا، اس کو کچھ خاص چوٹ نہیں آئی تھی وہ شاید خوف سے گر گیا تھا۔ ۔ ۔ اسے سہارا دے کر گاڑی کے اندر بیٹھا نے تک میں نہیں سمجھ سکا کہ میں کیا کروں گا۔ ۔ ۔ ۔
بچّے کے گھٹنے پر دوا لگا کرمیں نے اسے پانی پلایا۔
“کہاں جاؤ گے میں چھوڑ دیتا ہوں ”
وہ سہمی نظروں سے مجھے تکنے لگا۔ ۔ ۔ پھر دھیرے سے بو لا۔ ۔ ۔ “کہیں۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ کوئی گھر نہیں ہے میرا۔ ۔ ۔ کہاں جاؤں گا۔ ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں ”
میرے سامنے میرا بچپن پوریجزئیات کے ساتھ سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ ۔ ۔
بچّے نے بتا یا اس کے ماں باپ حاد ثے کا شکار ہو گئے۔ ۔ چا چا نے گھر پر قبضہ کر کے اسے نکال باہر کیا۔ ۔ ۔
وہ دھکّے کھاتا ہوا بھوکا پیا سا نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہا۔ ۔ ۔ اور اب۔ ۔ ۔
اب میری باری تھی۔ ۔ مجھے محسوس ہوا میں ایک بار پھر اس درد کے سمندر کو پار کرنے نکلا ہوں۔ ۔ ۔ ۔
میں نے اپنا محبّت بھرا ہاتھ بچّے کے سر پر رکھ دیا اور اب ہم دونوں گہرے دوستوں کی طرح زندگی سے نپٹنے کے لئے تیّار تھے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...