باب اول
اس باب میں ودربھ کی خواتین قلم کاروں کی طنزیہ و مزاحیہ نگارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
شفیقہ فرحت
اردو کی مشہور مزاح نگار شفیقہ فرحت کی پیدائش ۲۶؍ اگست ۱۹۳۱ کو ناگپور میں ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ بھوپال میں گزارا جہاں وہ حمیدیہ کالج میں لکچرر تھیں اسی لیے اس شہر کے ساتھ ان کا نام جڑا رہا۔ شہر ناگپور میں ان کی ادبی خدمات میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وہ ناگپور سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ’’ماہنامہ چاند‘‘ سے وابستہ تھیں۔ یہ رسالہ جنوری ۱۹۵۲ میں جاری ہوا تھا۔ فیض انصاری اور شفیقہ فرحت اس کے مدیر تھے بعد میں شفیقہ فرحت نے اس رسالے سے علاحدگی اختیار کر کے اپنا ذاتی رسالہ ’’کرنیں‘‘ ۱۹۵۴ میں ناگپور ہی سے جاری کیا تھا جو ڈیڑھ برس تک نکلتا رہا۔
اردو کے قلم کاروں میں بہت کم خواتین نے طنز و مزاح کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ شفیقہ فرحت ان میں ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب اور حسِ مزاح سے اس شعبے میں اپنی شناخت قائم کی۔ ان کے مزاحیہ مضامین کے مجموعے ’’گول مال‘‘، ’’رانگ نمبر‘‘ ’’ٹیڑھا قلم‘‘ اور ’’لو آج ہم بھی‘‘، اردو کے ظریفانہ ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ ۲؍ فروری ۲۰۰۸ کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
بعد سبک دوشی
شفیقہ فرحت
لوگ جب ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں یعنی ریٹائر ہو جاتے ہیں تو خواہ صدر جمہوریہ کے عہدے سے ہوں یا چپراسی کے تو انھیں فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ پنشن اور مختلف فنڈس کے ساتھ ایک ’’چین‘‘ کی بنسی ملتی ہے، جسے وہ بجاتے رہتے ہیں۔ اب اس ’’چین‘‘ کی بنسی والی کہاوت سے یہ راز نہیں کھلتا کہ بنسی ملک چین سے برآمد کی جاتی ہے یا بذات خود چین نامی کسی دھات یا لکڑی کی ہوتی ہے یا سیدھی سادی عام قسم کی بانسری کو چین سے بیٹھ کر چین اور اطمینان کے تال کے سروں میں بجایا جاتا ہے۔ اس کے بجانے کی ٹریننگ لی جاتی ہے یا رٹائر ہونے کے ساتھ ہی الہامی طور پر اس فن پر عبور حاصل ہوتا ہے۔
خیر بانسری کی تفصیلات پر پھر کبھی غور کر لیں گے اور بات بن گئی تو ایک نیشنل سطح کی کانفرنس منعقد کر لیں گے اور بقیہ عمر دوسرے قسم کی چین کی بنسی اور اونچے سروں میں بجائیں گے۔
فی الحال تو صرف چین اطمینان سے واسطہ اور تعلق رکھیں۔
ہاں تو رٹائر منٹ کے بعد ساری مصروفیات ایک دم ختم کرنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں تو جلد باز قسم کے لوگ کوئی نہ کوئی ملازمت تلاش کر کے اپنے گلے میں اپنے ہی ہاتھوں پھندا ڈال لیتے ہیں (بعضوں کو ہم نے اس پھندے کو کھینچتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔۔ ۔۔!)صاحبِ علم و ادب کاغذ قلم سنبھال کر یاد داشتیں لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ملازمت کے تجربات بیان کرتے ہیں جو ساری دنیا میں تہلکہ اور ہنگامہ مچا دیتے ہیں۔
ملازمت ہماری نہایت غیر اہم تھی، لہٰذا تجربات بھی بے رنگ، بے روح، لیکن رٹائر منٹ کے بعد جو نئے پہلو سامنے آرہے ہیں اور جو نئے نئے گوشے کھل رہے ہیں اور جس شدت سے مصروفیات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ پڑھنے والوں کو بھی ہم اپنی رٹائر منٹ والی دنیا میں شامل کر لیں، کہ ایک نہ ایک دن تو آپ کو بھی رٹائر ہونا ہی ہے۔ ویسے اگر آپ اس لکھے کو پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ رٹائر ہو چکے ہیں۔ آج تک دنیا میں کام دھندے سے لگے آدمی کے پاس اخبار کی سرخی تک دیکھنے کا وقت نہیں اپنی اس ضرورت کو چلتے پھرتے دیگر مصروفیات و مشغولیات کے ساتھ ٹی وی یا ریڈیو کے ذریعے پوری کر لیتا ہے۔
ہمارے ایک ہمدرد نے ذرا جھجھکتے جھجھکتے ہم سے پوچھا۔۔ ۔۔ ’ آج کل آپ کیا کر رہی ہیں؟‘ ہم نے جواب دیا۔۔ ۔۔ ’’کوئی خاص کام نہیں۔۔ ۔۔ ‘
انھوں نے لہجے میں کچھ اور ہمدردی گھول کے کہا۔۔ ۔ ’’پھر تو وقت مشکل سے کٹتا ہو گا۔‘‘
’’ارے نہیں۔۔ ۔ ہم تو پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہو گئے ہیں۔ کاٹنے کے لیے وقت ڈھونڈے ڈھونڈے نہیں ملتا۔‘‘
اس کو وہ ہماری ادا اور عادت سمجھ کے خاموش ہو گئے۔ لیکن خود اپنی عادت سے مجبور ہو کر دوسرا سوال داغ دیا۔
’’گذر بسر بھی ذرا تنگی سے ہوتی ہو گی۔‘‘
’’تو بہ کیجئے۔ تنخواہ سے زیادہ ٹھاٹھ ہیں۔۔ ۔‘‘
ہم نے ان کی ساری مایوسی پر پانی پھیر دیا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ جی۔ پی۔ ایف وغیرہ انٹریسٹ اچھا خاصہ مل جاتا ہو گا۔۔ ۔‘‘ انھوں نے اپنے حسابوں سے ہماری آمدنی کا حساب لگانا شروع کیا۔
’’حضور کیسا جی۔ پی۔ ایف اور کہاں کا سود۔ وہ تو ابھی ملا ہی نہیں‘‘
’’پھر۔۔؟‘‘ ان کی حیرت بے حساب اور بے اندازہ بڑھنے لگی۔
ہم نے سوچا انھیں زیادہ پریشان کرنا مناسب نہیں ہے۔ ویسے ہی دل کے مریض ہیں۔ (محاورتاً نہیں حقیقتاً) اوپن ہارٹ سر جری ہونے والی ہے۔ کچھ ہو ہوا گیا تو دیگر لا تعداد الزامات کی طرح یہ الزام بھی ہمارے سر آئے گا۔ لہٰذا معمے کا حل معمے کے ساتھ منسلک کر دینا چاہئے۔
چہک کے ہم نے کہا۔۔ ۔۔ تنگی ونگی کیسی۔ سلامت رہیں یہ کانفرنس اور ورک شاپس۔۔‘‘ سیدھے سادے آدمی ہیں سمجھنے کے بجائے اور الجھ گئے۔
’ کیا کوئی آل انڈیا کانفرنس اینڈ ورک شاپ ڈپارٹمنٹ کھل گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘
’’کس منسٹری کے تحت۔۔؟‘‘
یہاں صاحب جب کھیل کود گلی ڈنڈا، کشتی، دنگا ناچ رنگ، یاترا پد یاترا ہر چیز کے شعبے قائم کیے جا چکے ہیں تو پھر کانفرنس کا شعبہ کیوں نہیں۔ خیر ابھی نہ سہی پھر کبھی۔ بیسویں صدی میں نہ سہی اکیسویں صدی میں یہ شعبہ ضرور قائم ہو گا۔ وزیر کابینہ کے درجے کے ساتھ۔
ہم نے ان ہمدرد صحت صاحب کو اطمینان دلا دیا کہ فی الحال ایسا کوئی شعبہ قائم نہیں ہوا ہے۔
آپ اس میں کسی پوسٹ کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ بھاگ نہ کیجئے۔
تو حضور آپ سب کی اطلاع کے بھی عرض ہے کہ موسمِ بہار تو سال میں ایک بار آتا ہے اور اب تو اس کے لیے بھی حالات سازگار نہیں۔ مگر کانفرنس اور ورک شاپ موسمِ خزاں کی طرح سال بھر چلتی رہتی ہیں۔ آج تعلیمی کانفرنس ہے تو کل کتابیں پڑھاؤ اور بستہ بڑھاؤ ورک شاپ تو پر سوں بستہ اتارو اور کتابیں پھینک سیمینار۔ کسی دن درخت اگاؤ پر بات چیت ہے تو کسی دن جنگل بچاؤ۔ شیر پالو۔ گیدڑ بڑھاؤ کی مہم کے تحت جنگل میں منگل منایا جا رہا ہے۔ کہیں بیگم بھاؤ بتا رہی ہیں تو کہیں سدبھاؤ کے لاڈ دلار ہو رہے ہیں۔ کہیں اہلِ نظر کی فکر و نظر پر فلسفیانہ گفتگو ہو رہی ہے۔ تو کہیں نا بیناؤں کے مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ (علمی و ادبی کانفرنسوں کا تو فی الحال ذکر ہی نہیں۔ )
غرض یہ کہ ہزار جلوے ہیں اور منوں ٹنوں حلوے مع منڈوں کے۔ بس نظر اٹھائیے، ہاتھ بڑھائیے اور عقل چلائیے۔ پھر تو راوی کو چین کے علاوہ اور قسمت میں لکھنے کے لیے کوئی اور لفظ ملے گا ہی نہیں، کہ بھارت ورش میں سونے کی چڑیاں اب بھی ہیں اور سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں بھی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ چڑیا ہر کسی کے پنجرے میں اور مرغیاں ہر ڈربے میں قید نہیں ہو سکتیں۔ مگر گنگا تو ہر ایک کے لیے بہتی ہے۔ ہم تو ہاتھ دھو ہی رہے ہیں۔ آپ بھی دھوئیے جب تک اس کا پانی اس قابل رہے۔۔ ۔۔!
اتنا کہنا بھی ہمارے ہمدرد کے لیے کافی نہیں تھا، کہ اشاروں کنایوں کی عمر سے وہ آگے نکل گئے تھے لہٰذا ہم نے پرچۂ امتحان کی طرح مزید تشریح کی۔
’’’جناب اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہر شعبے میں بڑی بڑی کانفرنسیں اور لمبی لمبی ورک شاپس ہوتی ہیں۔ رقم خطیر بھی اس خانہ حقیر میں رقم کی جاتی ہے۔ جس میں سے کچھ خرچ بھی کی جاتی ہے، اور کانفرنس ہال میں رونق، ہنگامے، شور و غل، آوازوں اور کبھی ختم نہ ہونے والی اور کسی نتیجے پر نہ پہنچنے والی بحث مباحثوں کے لیے چاہئے آبادی کہ ایسے موقعوں پر ’ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔۔
(افسوس کہ کسی زمانے میں سر اٹھتے، جھکتے اور گنے جاتے تھے، قلم کرنے کے لیے)
تو ایسی لا تعداد کانفرنسوں کے بے گنتی دعوت نامے موصول ہوتے ہیں۔ سروس والوں کو چھٹی نہیں ملتی اور سیاست والوں کو فرصت۔ تو خط بھیج کر زبانی اقرار کروا لیا جاتا اور نیم چڑھے ہوئے یا قسمت کے ستاروں کی بلندی کا ایک سبب اور بھی ہے۔ حالات جدیدہ کے تحت عورتیں رونقِ محفل نہیں بلکہ ضرورتِ مجلس بن گئی ہیں۔ ہم ادیب بھی کہلاتے ہیں، دانشور بھی سمجھے جاتے ہیں، اور الپ سنکھیک بھی تھری ان ون۔ مت سہل ہمیں جانو، والا معاملہ ہے۔ اکثر سواری کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ کنوینشن الاؤنس ملتا ہے۔ پھر چائے ناشتہ، کھانا۔
اب تو دنوں دن ہمارے ہاں کھانا نہیں پکتا۔ چولہا جلتا ہے تو صرف صبح اور رات کی ہنڈی کے لیے (رات کی مڈ ٹی کی تشریح پھر کبھی) یا کبھی کبھار ہونے والی دعوتوں کے لیے یہ ہمارا بے حد پرانا یعنی کرانک مرض ہے۔ ویسے ایک آدھ بے تکلف اور
بے ضرورت کو تو ہم وہیں کانفرنس میں مدعو کر لیتے ہیں کہ
’’بھئی آج لنچ ہمارے ساتھ فلاں فلاں بلڈنگ یا فلاں فلاں ہوٹل میں لینا۔ ہم بھی خوش۔
اکثر ہم ذوق ساتھیوں سے انھیں انواع و اقسام کی کانفرنسوں میں ملاقات ہو جاتی ہے اور گفتگو بھی۔ کانفرنس کے اصل موضوع کی خبر تو سوائے کانفرنس کرنے والوں کے کسی کو نہیں پھر بتائیے پیسے ہمارے خرچ ہوں تو کس مد میں۔ پہلے اگلی تنخواہ کا انتظار تیسری چوتھی تاریخ سے شروع ہو جاتا تھا۔ اب مہینوں پنشن نکالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
ہم نے ان کی بصیرت اور بصارت کے لیے کچھ نئے باب اور کھولے۔ ’ دیکھئے جس کاغذ پر ہم مضمون لکھ رہے ہیں وہ بھی کسی کانفرنس کے تفصیلی پروگرام کا اتنا اچھا۔ اتنا دبیز، اتنا چکنا ریشم کہ قلم خود بخود دوڑنے لگے۔ (دماغ کی بات ہم نہیں کر رہے کہ وہ تو کم یاب و نایاب ہے۔۔ ۔‘‘
اسی ایک کے سہارے کتنوں کو تیرتے پار لگتے ہم نے دیکھا ہے۔
اگر آپ اپنے آپ پر ایک ظلم اور کر لیں تو دو ایک کانفرنسوں کی جھلکیاں پیش کی جائیں۔ جس کانفرنس میں ہم بنیادی طور پر مدعو تھے وہ اس دن شہر کی سب سے اہم کانفرنس تھی جس کا افتتاح ہمارے وزیرِ اعلیٰ کے نازک ہاتھوں سے ہونے والا تھا۔ وزیر اعلیٰ کو گاہے گاہے اپنے رخِ تاریک کا دیدار کر وا دینا، ان کا سلام لینا، ان سے ہمکلام ہونا، یہ نئی صدی کے باب ہیں۔ سو ہم بھی پہنچے۔ وہاں سے قیمتی قلم فائل وغیرہ وغیرہ چائے اور وائے سے فارغ ہو کر ہم ان صاحبہ کی تلاش میں نکلے جو ہماری گلی سے گزر نے والی تھی۔ ابھی ان تک پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ پھر گرفتار کر لیے گئے۔ پیچھے سے آواز۔
’’ارے آپ۔۔ آئیے۔ آئیے۔۔ ۔۔‘‘
’’ہم تو جانے کے لیے آرہے ہیں۔‘‘
’’جانے کے لیے تو سبھی آتے ہیں۔ لیکن ابھی آپ کیسے جا سکتی ہیں چلئے ہال نمبر دو میں بنیادی تعلیم والی کانفرنس ہے، اس میں شرکت کیجئے۔‘‘
پھر وہی نمبر دو۔۔ ۔۔
بڑی بے تعلقی سے ہم نے ان کی پیشکش ٹھکرانی چاہی۔۔ ۔۔
’’دیکھئے اول تو تعلیم۔ پھر بنیادی۔ اس سے ہمارا کیا تعلق؟‘‘
’’ہم سے تو ہے۔‘‘ انھوں نے گھسا پٹا ٹوٹا ٹاٹا رشتہ جوڑا۔ وہ ہماری کسی شاگرد کی دوست تھیں۔ اور پکڑ دھکڑ کر ہمیں ہال میں لے گئیں۔ اور حکم دیا۔ ’’دیکھئے آپ بولئے گا ضرور۔ یعنی بحث میں حصہ لیجئے۔‘‘
’’بھئی کیسی بحث، ہم بھڑبھڑائے۔‘‘
’’وہ تو آپ کو خود ہی سمجھ میں آ جائے گا۔‘‘ اور غائب۔ غالباً گرفتاری مہم کے سلسلے میں۔
خیر پانچ سات منٹ میں اس شاک سے Recover ہو کر ہم بحث میں جوش خروش سے حصہ لینے اور اسے آگے بڑھانے بلکہ اسے الجھانے کے قابل ہو گئے۔ ہماری آواز ہال میں دبکے بیٹھے دوسرے گروپ تک پہنچی۔ ایک صاحب نے وہیں سے ہاتھ ہلا کر ہمیں دل بدلنے اور فلور کراس کرنے کا مشورہ دیا جسے ہم نے اپنی نا سمجھی کی بنا پر رد کر دیا۔ تب وہ اٹھ کر آئے۔
’’آپ ہمارے گروپ میں آ جایئے۔‘‘
’’دیکھئے ہمیں ان لوگوں نے پکڑا ہے۔‘‘ وفاداری کا کچھ تھوڑا سا جذبہ اب بھی کبھی کبھی کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے۔
’’تو اب ہم پکڑ رہے ہیں۔‘‘
قصہ مختصر ہم نے اس میں بھی زبانی شرکت کی۔ دونوں طرف سے بستے کاغذ قلم اور ’’زاد راہ‘‘ کے لفافے بٹورے اور انھیں کی گاڑی میں شان سے واپس آ گئے۔ اب ہمارے پاس اتنے بیگ، پورٹ فولیو۔ فائل کور وغیرہ اکٹھے ہو چکے ہیں کہ ہم ان کا Clearance Sale کرنے والے ہیں۔ یا پھر ’’بھوپال میں کانفرنس اور سیمینار‘‘ کے عنوان سے آرٹ گیلری لگائیں گے۔ اور دولت کے ساتھ شہرت بھی بٹوریں گے۔
ہمارے ہمدرد کہ جن کے اب ہم ہمدرد بن چکے تھے ہمارے طول طویل داستان پہ کان دھر نے کے بجائے بھاگے۔ ہم سمجھے ہمارا حشر سیاسی نیتاؤں کا سو ہو رہا ہے۔ ہم نے پوچھا ’’آپ کہاں اور کیوں بھاگ رہے ہیں۔‘‘ کہنے لگے۔۔ ۔ استعفیٰ دینے۔۔ ۔۔! کہ ہم بھی کانفرنسوں کے سہارے عیش کریں گے۔۔ ۔‘‘
(ٹیڑھا قلم۔ ۲۰۰۳)
ڈاکٹر بانو سرتاج
ڈاکٹر بانو سرتاج بحیثیت افسانہ نگار اور ادب اطفال کے شعبے میں اپنی خدمات کے لیے مشہور ہیں۔ انھیں ادبِ اطفال کے سلسلے میں ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
۱۷؍ جولائی ۱۹۴۵ کو پانڈھر کوڑا، ضلع ایوت محل میں پیدا ہوئیں۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد جنتا کالج آف ایجوکیشن کی پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور چند برس پہلے سبک دوش ہوئیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ان کی چند تحریروں کے ہندی تراجم بھی شایع ہوئے ہیں۔
بانو سرتاج کے مزاحیہ مضامین میں روزمرہ زندگی کے واقعات ظریفانہ رنگ میں اپنا الگ تاثر پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال بانو سرتاج کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی مزاحیہ تحریروں میں بھی ایک علمی شان ہے۔ ان تحریروں میں تفکر و تبسم شیر و شکر کا رول ادا کرتے ہیں۔ ’’
خطرے کا الارم‘‘ اور ’’تیرا ممنون ہوں‘‘ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ ان کے کئی مزاحیہ مضامین ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
تیرا ممنون ہوں
ڈاکٹر بانو سرتاج
گزشتہ دنوں ہمارے پاس پی۔ ایچ۔ ڈی کا ایک مقالہ جانچ کے لیے آیا۔ مختلف جامعات سے مقالات ہمارے پاس آتے ہی رہتے ہیں لیکن ان پر فوری طور پر اظہار رائے کر کے رپورٹ روانہ کرنا ہمارے معمولات میں داخل نہیں۔ اس لیے کہ ہم ایسا کریں تو مصروف ممتحن اور اہم شخصیت کیوں کر کہلائیں۔؟
چنانچہ ہم خاصہ وقت رپورٹ بھیجنے میں گزار دیتے ہیں۔ یہاں ہمارے ضبط کا اور ارباب جامعہ کے صبر کا امتحان بھی مقصود ہوتا ہے۔ رپورٹ کی فوری روانگی اس ممتحن کے ذریعے عمل میں آتی ہے جنھیں یہ زرین موقع پہلی مرتبہ ملا ہوتا ہے یا جنھیں اس نوع کی ذمہ داریاں ہمیشہ نہیں، کبھی کبھار غلطی سے میسّر آ جاتی ہیں۔
قابل ممتحن وہ ہوتا ہے جو نہایت مصروف رہتا ہے۔ مصروف نہ بھی ہو تو تاثر یہی دیتا ہے۔ اس طرح وہ اعلیٰ درجہ کا ادا کار یا منافق ہوتا ہے۔ یہ دکھاوا، یا تاثر اور عرف عام میں یہ ناٹک اس کی فطرت ثانیہ کا جزو اول ہوتا ہے۔
وائے ناکامی کہ احساس زیاں جاتا رہا
ہم بھی کچھ ایسے ہی مصروف ممتحنوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کے خواہاں تھے۔ اس لیے مقالہ کی وصول یابی کے فوراً بعد ہی ادھر رجوع ہونے اور پڑھ کر رائے قائم کرنے کی غلطی کا ارتکاب کم از کم ہماری ذات سے متوقع و ممکن نہ تھا۔ پہلے مہینے میں ہم مقالہ کا کوَر کھولتے۔ دوسرے مہینے میں مقالہ کی جلد کی خوبصورتی، مضبوطی اور پائداری کا جائزہ لیتے۔ تیسرے ماہ میں نفس مضمون پر نگاہ غلط انداز ڈالتے۔ چوتھے ماہ میں مقالے کی جانچ کرتے۔ پانچویں ماہ میں رپورٹ تیار کرتے۔ تب تک یونیورسٹی سے یاد دہانی کے دو چار خطوط آ جاتے مگر وہ ممتحن ہی کیا جو خطوط پر دھیان دے کہ یہ بھی پروفیسرانہ شان کے منافی ہے۔ تار وار آئے تو کوئی بات بھی ہے۔ تار کا انتظار کرتے۔ تار ملنے پر ہی رپورٹ روانہ کرتے۔ مگر ان دنوں ہم بے اداس تھے۔ بیگم میکے سے لوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ اس لیے مقالہ کے آتے ہی ہم نے اسے کھول لیا کہ کچھ تو ہو جس سے دل بہلا یا جائے۔ تو نہیں ہے۔ کوئی تدبیر تو ہے۔ دوسرے ممتحن سب سے پہلے مقالے کا خلاصہ پڑھتے ہیں بلکہ صرف خلاصہ ہی پڑھتے ہیں۔ ہم اظہار تشکر و ممنونیت کے اظہار کے لیے مختص صفحے کا مطالعہ کرنا اپنا اولین فرض گردانتے ہیں کہ ہم ایسے اہلِ نظر ان ہی صفحات سے مقالہ کے وزن و وقعت کا اندازہ کیا کرتے ہیں۔
در اصل ہم چاہتے ہیں کہ خوشگوار موڈ میں مقالے کی جانچ کریں کہ مبادا ہمارے مزاج کا کسی پر برا اثر پڑ جائے۔ اکثر مقالات کے مخصوص صفحات اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ ان کی شگفتگی، مقالہ نگار کا بیڑا پار لگانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مقالہ نگار اپنے سرپرست و رہنما(تحقیق کی نا پسندیدہ لیکن مرغوب اصطلاح میں اس نوع کی مخلوق کے لیے گائیڈ کا لفظ مقبول ہے۔)سے شروع کر کے، اپنے خاندان کے جملہ افراد کو لے کر ہر اس شخص کے تئیں اظہار ممنونیت کرتا چلتا ہے جس سے تحقیق کے دوران اس کا رائی برابر بھلا ہوا ہو۔ گائیڈ کی نگاہ کرم(دستخط)کے بغیر مقالہ یونیورسٹی میں قابلِ قبول نہیں ہوتا اس لیے اس کے نام نامی سے ممنونیت کا اظہار ضرور ہی ہوتا ہے۔ چیلنج اور اختلافِ رائے کا خدشہ نہیں ہوتا کہ کہ تحقیقی مقالے پڑھنے کی چیز نہیں ہوتے۔ چنانچہ پڑھے بھی نہیں جاتے اس لیے گائیڈ کو بلا تامل جید عالم، باصلاحیت رہنما اور فراخ دل شخصیت کے خطابات عطا کیے جاتے ہیں۔ بعد ازاں روئے سخن گائیڈ کی شریک حیات کی طرف ہوتا ہے۔ کئی تعریفی کلمات ان کے نذر کرنے کے بعد کالج کے پرنسپل اور اگر نجی ادارہ ہے تو ادارہ کے صدر معتمد اراکین وغیرہ ہم کو مکھن لگایا جاتا ہے۔ ادب کی جس فیکلٹی میں تحقیق کی ہے۔ اس کے دو چار ڈاکٹروں اور پروفیسروں کا ذکر مقالہ کا وزن بڑھاتا ہے۔ خود کی شریک حیات کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ گھر میں چاہے جوتیوں میں دال بٹتی ہو مگر اظہارِ تشکر پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہر دو کی قربانیوں کی وجہ ہی سے تحقیق کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ خواتین زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ حسد کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں محبّت کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ سب کا حساب صاف رکھتی ہیں۔ خاتون مقالہ نگار مجازی خدا کے ساتھ اپنے جگر گو شوں کا بھی شکریہ ادا کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں حال کے ساتھ مستقبل پر بھی نظر رکھتی ہے۔ ایک مثالی اظہارِ تشکر Acknowledgement کے ذریعے ہمیں اس خاتون مقالہ نگار کے حال اور مستقبل کے ساتھ ماضی کی شاندار تاریخ کا بھی تعارف حاصل ہوا تھا۔ اس نے کچھ یوں لکھا تھا۔ میں شکر گزار ہوں اپنے خلد نشین نانا جان (سابق ایم۔ ایل۔ اے) کی، جن کے حوصلہ دلانے پر میں نے تحقیق کا کام ہاتھ میں لیا۔ ہائی کورٹ جج چچا اور ایڈوکیٹ ماموں جان کی جنھوں نے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی۔ پرنسپل خالہ کی جنھوں نے لائبریری کی سہولیات بہم پہنچائیں۔۔ ۔۔ ڈاکٹر بھائی جان کی جنھوں نے تحقیق کے دوران میری صحت کا خیال رکھا۔ اکاؤنٹس آفیسر شوہر اور انجینئرنگ میں پڑھ رہے دونوں بیٹوں کی جنھوں نے حساب میں میری مدد کی۔ اظہارِ تشکر سات صفحات پر محیط تھا جس میں آگے چل کر بھائی بھتیجوں، نند، بھاوجوں اور پڑوسنوں کے ساتھ ہو سٹل کی میٹرن کا بھی شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ عادت کے مطابق اس مقالہ کا بھی وہ صفحہ ہم نے سب سے پہلے پڑھا جسے ابھی ہم اپنا من بھاتا کہہ چکے ہیں اور فریفتہ ہو گئے انداز تحریر اور جدت بیانی پر، آپ بھی پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔ لکھا تھا۔
اظہارِ ممنونیت نہایت فرسودہ فضول لیکن نا گزیر رسم ہے۔ اس سے عہد بر آ ہونا مقالہ نگار کے لیے تقریباً لازم ہے۔ تحقیقی کام مکمل کر کے کسی بھی مشکور نہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے دنیا کے پیدا ہونے کو خالص اپنا کارنامہ گرداننا۔ یا خدا کے وجود سے انکار کرنا۔ ہر چند دنیا ایسے ملحدوں سے خالی نہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم از خود پیدا ہوئی مخلوق ہیں۔ سمجھتے رہیں میری بلا سے۔ مگر تحقیق کے میدان میں اس طرح کا خیال بھی گناہ ہے۔ تحقیق کی کتابوں میں لکھا ہے کہ (کسی عالم کا فرمودہ ہے؟ کون سی قابلِ ذکر تصنیف سے مرقوم ماخوذ ہے اس وقت ہمیں یاد نہیں۔ ویسے اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟ محض اظہار تشکر ہے اور برحق ہے کہ اظہارِ تشکر اور ممنونیت کے الفاظ میں تحقیق کا عنصر اور رد و توثیق کا خوف شامل نہیں ہوتا۔) اگر گائیڈ سے تمھارے تعلقات خوشگوار ہیں تو اظہارِ ممنونیت کرو اور اگر تعلقات خوشگوار نہیں ہیں تو ضرور بالضرور اظہار ممنونیت کرو یعنی مکھن لگا نے کا زرین موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔ مگر ایسا کیوں کروں؟ میں نے مکمل ساڑھے پانچ برس تک اپنے گائیڈ کی خوشامد کی ہے۔ جب بھی ان کے گھر گیا۔ آنند بھنڈار کے رس گُلّے ضرور لیتا گیا۔ ان کے بیٹے کی شادی میں صدر دروازے پر کھڑا ہو کر بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ کی تابندہ تصویر بن مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ان کے منجھلے بیٹے کے یہاں بیٹی کی پیدائش پر چاندی کی پازیب تحفتاً پیش کیں۔ ان کی شریک حیات کو بلڈ پریشر کی جانچ کروانے تین مرتبہ اسپتال لے گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں اپنے کالج کے لکچرر اور اسٹاف ممبران کا جھوٹ موٹ بھی شکریہ ادا کرنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ لوگ میرے منہ پر بھلے ہی میری حوصلہ افزائی کرتے ہو۔ پشت پر مبینہ طور پر بیان بازی میں مشغول پائے گئے کہ دیکھتے ہیں۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کیسے کرتا ہے؟ یا۔ دیکھ لی پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے والوں کی صورت!
جن افراد نے میرے تحقیقی کام میں کسی بھی طرح میری مدد کی، ان سب کی کوئی نہ کوئی غرض میرے اس کام سے وابستہ تھی۔ بے غرض خدمت کا اب زمانہ کہاں؟ کلجگ نہیں کر جگ ہے یہ۔ یاں دن کو لے اور رات کودے۔
کرجگ نہیں کل جگ ہے یہ۔ ست یگ نہیں کل یگ ہے یہ اس لیے ان سب کا شکریہ ادا کرنے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔ مثال کے طور پر، میری نصف بہتر نے ساڑھے پانچ برس تک جو ذہنی سکون مجھے بہم پہنچایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کو ڈاکٹر شوہر ملے تھے۔ وہ شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گئی تھی۔ میں اسے احساسِ کمتری سے چھٹکارا دلانے جا رہا ہوں، اس کے لیے اسے میرا ممنون ہونا چاہیے نہ کہ مجھے اس کا۔
مختلف جامعات کی جن لائبریریوں میں جا کر میں نے مطالعہ کیا وہاں کے لائبریرین حضرات کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی شک نہیں۔ لائبریرین کا تقرر اسی لیے ہوتا ہے کہ وہ مطالعہ کے لیے کتب فراہم کرے۔ کتب فراہم کرتا ہے تو کوئی احسان نہیں کرتا۔
ٹائپسٹ نے مانا کہ مقالہ بہت اچھا ٹائپ کیا ہے مگر ایسا کرنا اس کے پیشے کے لیے ضروری ہے۔ خراب ٹائپ کرے گا تو اس کے پاس جائے گا کون؟ پھر اس نے تمام رقم پیشگی وصول کی تھی۔ دوم مقالہ کی ٹائپنگ شروع ہونے سے پہلے ہم میں ایک معاہدہ ہوا تھا کہ اگر کسی صفحہ کی ٹائپنگ سے میں مطمئن نہ ہوا تو اسے وہ دو بارہ ٹائپ کرنا ہو گا اور اگر میں خوش ہوا تو فی صفحہ پچیس پیسہ اسے انعام دوں گا۔ اس ہوشیار شخص نے مجھے کسی بھی صفحہ کی ٹائپنگ سے غیر مطمئن نہ ہونے دے کر اپنی محنت تو بچائی ہی پچھتّر روپیے انعام کے بھی وصول کر لیے۔ تحقیق کے میرے موضوع کے ان ماہرین اور اساتذہ حضرات کا میں قطعی شکریہ ادا کرنا نہیں چاہتا جنھوں نے میرے سوالنامے کا رسپانس تو دیا مگر اس وقت جب میرا مقالہ ٹائپنگ کے لیے جا چکا تھا۔
البتہ میں ممنون ہوں۔
سوالنامہ کو رسپانس نہ دینے والوں کا جنھوں نے سوالنامے کو ردّی میں فروخت کیا ہو، بچّوں کو ناؤ بنا کر دی ہو چولہے میں جلایا ہویا چاہے جو کیا ہو مگر بذاتِ خود یا بچوں سے اُلٹے سیدھے نشان لگوا کر مجھے نہیں بھیجا۔ (واپسی کے لیے رکھے گئے لفافے کو دو روپے دس پیسے کے ڈاک ٹکٹوں کے ساتھ اپنے پاس رکھ کر وہ زندگی بھر کے لیے میرے مقروض ہیں۔)اپنے گائیڈ کے گھر پر نہ ملنے کے اسباب کا جنھوں نے مجھ میں قوت برداشت کو فروغ دیا۔ غصّہ ضبط کرنے اور ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرنے کی صلاحیت بڑھائی۔ میری خود داری کی جو ہر جگہ میرے آڑ آتی تھی، نفی کرنے میں میری مدد کی۔
اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا جس نے میرے شہر سے گائیڈ کے شہر تک جانے کے لئے پانچ سو پچاس چکّروں میں سے پانچ سو مرتبہ اپنی ڈائریکٹ خدمات سے مجھے مستفیض کیا۔
ریلوے کے محکمے کا، جس نے پانچ سو پچاس چکّروں میں سے پچاس مرتبہ چھوٹ جانے پر اپنی ریلوں میں سفر کرنے کا موقع مجھے عطا کیا۔
اس سبزی والے کا جس کی دوکان پر کھڑا ہو کر میں گائیڈ کے گھر لوٹنے کا انتظام کیا کرتا تھا۔ جہاں مجھے سبزیوں اور ان کے داموں کی اتنی پہچان ہو گئی تھی کہ برا وقت پڑنے پر میں اس علم سے مکمل فیض اُٹھا سکتا ہوں یعنی سبزی بیچ کر بھی گزارا کر سکتا ہوں۔
اس بھورے کتّے کا، جس نے گائیڈ کے گھر سے ناکام لوٹتے دیکھ کر کبھی میرا مذاق نہیں اُڑایا بلکہ دف دف کر کے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
اس رکشہ والے کا، جو مجھے اسٹینڈ پر بس سے اترتے دیکھ دوڑا دوڑا آتا تھا نہ صرف گائیڈ کے کوچے میں پہنچاتا تھا بلکہ (منجدھار میں نہ چھوڑ کر) میرا انتظار کرتا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ گائیڈ گھر پر ملیں گے نہیں اور مجھے فوری اپنے شہر واپس جانا ہو گا۔
اس مجذوب کا، جو مجھے گائیڈ کے گھر کے قریب چوک میں دیکھتے ہی ہاتھوں سے چڑیا اُڑ جانے کا اشارہ کیا کرتا تھا۔ جدید علامتی نظموں کے مفہوم کی طرح اس کا ما فی الضمیر بھی مجھے بہت دنوں بعد سمجھا اور جب سمجھا تو چوک ہی سے واپس لوٹ جانے لگا۔
قریبی شہر کی اس آرگنائزیشن کا، جس نے عین ان ہی دنوں اپنی گولڈن جوبلی منائی اور میرے گائیڈ کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا۔ جب میرے گائیڈ نے ایمرجنسی کال کر کے مجھے طلب کیا تھا۔ میرے پہنچنے پر ساری کہہ کر مہمان خصوصی بن کر چلے گئے تھے۔ میں نے لوٹ کر کالج جوائن کر لیا تھا اور میری ایک ہفتہ کی رخصت ایل۔ بی۔ ڈبلیو ہونے سے بچ گئی تھی۔
گائیڈ کی دھرم پتنی کا، جو نہایت شفقت سے پیش آتی تھیں۔ اپنے پتی دیو کی گھر میں عدم موجودگی کی اطلاع دے کر ایک ہاتھ سے پانی کا گلاس ضرور پیش کر دیتی تھیں۔ گھر کی بڑی تھیں، مگر کبھی نہ بتاتی تھیں کہ ان کے پتی دیو کا محل وقوع کیا ہو سکتا ہے؟
ڈاک تار کے محکمے کا، جنھوں نے حسابیات والا حصّہ گیارہ مرتبہ کرنے کی مشق کے نتیجے میں پیدا شدہ آدھے سر کے درد سے مجھے نجات دلائی۔
ڈاکٹر جنھوں نے تحقیق کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران میرا بلڈ پریشر نارمل رکھا۔
ڈاکٹر ج کا جنھوں نے میرا نروس بریک ڈاؤن ہونے سے بچایا۔ (میں نے گائیڈ کے انتقال پر ملال کی جھوٹی خبر کہیں سے سن لی تھی۔)
ڈاکٹر ’’د‘‘ کا جنھوں نے میڈیکل سرٹیفیکیٹ دے دے کر مجھے چھٹی دلائی۔
نیز سرٹیفیکیٹ میں نئی نئی بیماریوں کے حوالے دے کر اپنے سرٹیفکیٹ کو اعتبار بخشا اور میرے علم میں اضافہ کیا۔
اس اظہار تشکر کو پڑھ کر تین باتیں ہم پر واضح ہوئیں۔ اوّل تو یہ کہ مقالہ نگار اور اس کے گائیڈ ریاست کے دو مختلف اور دور دراز مقامات کے رہنے والے ہیں۔ دوّم یہ کہ تمام دوسرے گائیڈوں کی طرح اس گائیڈ نے بھی اسکالر کو ناکوں چنے چبوائے اور سوّم یہ کہ مقالہ نگار تحقیق سے کم، چکّروں سے زیادہ عاجز آیا۔ (ذیلی نتائج چاہے آپ جتنے اخذ کر لیں۔)
ہم نے مقالہ کی جانچ کر کے رپورٹ تیار کی اور مقالہ نگار کو زبانی امتحان کے لیے طلب کر لیا۔ وہ فوراً پہنچا۔ تیس بتیس برس کا خو برو جوان تھا۔ ہم نے کہا۔ ہم تم سے صرف دو سوال پوچھ رہے ہیں۔ اگر تشفی بخش جواب دے سکے تو ابھی رزلٹ دے دیں گے۔ پہلا سوال اس معیار اور انداز کے اظہار تشکر کے ساتھ تم نے گائیڈ سے دستخط حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کیسے کی؟ دوسرے کیا تم ادب میں دلچسپی رکھتے ہو؟
اس نے چونک کر ہمیں دیکھا۔ سر جھکا لیا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔ سر! میں بے حد عاجز آ گیا تھا۔ میرا پرموشن کا چانس چلا گیا۔
ہم نے اسے روک کر کہا۔ وہ سب ہم سمجھ گئے ہیں تم ہمارے سوالات کے جواب دو ہم نے رپورٹ تیار کر رکھی ہے۔ تم اگر اطمینان بخش جواب دیتے ہو تو ہم ابھی اسی وقت رپورٹ روانہ کر دیں گے۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر کہا۔ گائیڈ کو میں نے جو کاپی دی اس میں روایتی ڈھنگ سے لکھا ہوا اظہارِ تشکر تھا۔ بقیہ چار کاپیوں پر دستخط کر دیے۔ دوسرے سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ میں فلاں فلاں کے نام سے طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھتا ہوں۔
گُڈ! ہم نے خوش ہو کر کہا۔ ہمارا اندازہ صحیح نکلا۔ یہ لو۔ دیکھو۔ او۔ کے رپورٹ۔ اسے ہم ابھی روانہ کر رہے ہیں۔ وہ خوشی خوشی چلا گیا۔
اب ہم نے طے کر لیا ہے کہ کبھی کسی طنز و مزاح نگار کو اپنی سر پر ستی میں تحقیق کی اجازت نہیں دیں گے۔ جو طلباء فی الحال ہماری سر پر ستی میں کام کر رہے ہیں وہ دستخط کے لیے مقالے ہمارے پاس لائیں گے تو خواہ اصل مقالہ اور نفس مضمون نہ پڑھ سکیں لیکن مقالہ کاپی کا اظہار تشکر ضرور بالضرور اور غور سے پڑھیں گے اور پھر دستخط کریں گے۔ تجربے سے آدمی کو کچھ تو سیکھنا چاہیے۔
٭٭٭
ثریا صولت حسین
ثریا صولت حسین کو علاقۂ برار کی مشہور شخصیت ادیب اور مورخ سید امجد حسین کی پوت بہو ہونے اور حضرت امیر مینائی کی پر نواسی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے شوہر قاضی سید صولت حسین سیشن جج تھے اور بحیثیت نعت گو شاعر ادبی حلقوں میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ قاضی صاحب اپنے آخری ایام میں ممبئی میں سکونت اختیا ر کر چکے تھے، وہیں ان کا انتقال ہوا۔
ثریا صولت حسین کی پیدائش ناگپور میں ہوئی، ان کے بچپن ہی میں ان کے والد حیدر آباد منتقل ہو گئے تھے۔ ثریا صولت حسین نے ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا تھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’مدو جزر‘‘ ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا تھا جس میں ۱۸؍ افسانے اور پانچ مزاحیہ مضامین اور خاکے ہیں جن کے عنوانات درج ذیل ہیں۔ نیند پری، یور آنر، اندھے عقیدے، رنگِ بہار اور ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے۔ ان کے متعلق ڈاکٹر منشا الرحمٰن نے لکھا ہے۔ ’’مقامِ مسرت ہے کہ آپ اصلاحی قسم کے افسانے اور کہانیاں بھی لکھتی ہیں اور دلچسپ و دلپذیر انشائیے بھی تحریر فرماتی ہیں۔ مشق شعر گوئی کا یہ عالم ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو محفل میں خواتین کی شعری نشست کے لیے شاعرات کی تلاش ہوئی تو سب سے پہلے ہماری نظر اسی ثریا پر پڑی۔‘‘
یور آنر
ثریا صولت حسین
خیر سے ہمارے یور آنر یعنی ہمارے شوہر بہت نیک صفت اور ہمہ اقسام خوبیوں کے مالک ہیں لیکن جب ان کی فطرت میں حلول کی ہوئی کسی زاہدِ خشک کی روح ان پر غالب آ جاتی ہے تو ہم ان سے اور وہ ہم سے بیزاری کا اظہار کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہماری بذلہ سنجی اور شاعرانہ اندازِ گفتگو ان کے منصفانہ مزاج پر گراں گزرتی ہے کیونکہ اکثر ہم نے محسوس کیا ہے جیسے وہ ہم سے ہمارے ہر جملے پر سوال کر رہے ہوں کہ
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے۔
یور آنر کا قول ہے کہ اچھی اور کامیاب شریکِ حیات وہی ہے جو خود کو سیاں جی کے رنگ میں رنگ لے۔ جو کھلائے وہ کھائے، جو پہنائے وہ پہنے اور جو بلوانا چاہے ویسا ہی بولے، وغیرہ وغیرہ لیکن ہمیں ان کے ان تمام نظریات پر سخت اعتراض ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہر شخص کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، اسے بر قرار رکھتے ہوئے بھی مل جل کر ایک ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ جس طرح قوسِ قزح کے سات رنگ جدا جدا ہوتے ہوئے بھی صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ لیکن بھئی! یور آنر کو تو جیسے قائل ہونے کی عادت ہی نہیں۔ وہ بڑے بڑے تگڑے وکیلوں کو بھی بعض اوقات شکست دیتے ہیں تو بھلا ہم، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
ابتدا میں ہم دونوں کے مزاج کا یہ اختلاف ہم دونوں کے درمیان اچھی خاصی مہابھارت کا سبب بن جاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ہم لوگ سرد جنگ کے عادی ہوتے گئے۔ اس کے علاوہ ایں جانب نے ’’جی حضوری‘‘ کے کچھ ایسے گر سیکھ لیے جس سے ہماری انا پر کوئی آنچ بھی نہیں آتی۔ اور ہم اپنے یور آنر سے سعادت مندی کی داد بھی وصول کرتے رہتے ہیں۔ ویسے ہمیں ان کی بھولی صورت پر ہمیشہ ترس آتا رہا ہے۔ میکے سے رخصت کے وقت جو اقوالِ زرین ہمارے گوش گذار کئے گئے تھے، بارہا ان کی بازگشت ہمیں اپنے اندر سنائی دیتی رہی ہے۔ مثلاً یہ کہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے (نعوذ باللہ)، شوہر کی مرضی اللہ کی مرضی ہوتی ہے۔ چلئے اگر ہم ان تمام باتوں کے دل سے معترف ہو بھی جائیں تو اس کا اظہار ہم یور آنر سے تو نہیں کر سکتے نا!
آخر ہماری خود داری بھی کوئی شے ہے۔ عورت کے قدموں تلے بھی تو جنت کی نشاندہی کی گئی ہے، پھر عورت کو ادنیٰ اور مرد کو اعلیٰ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ منطق ہمارے لئے بعید از قیاس ہے۔ ہم تو مرد کو صرف بہ لحاظ جسمانی قوت مقابلتاً دس نمبر زیادہ دینے کے قائل ہیں ؛ ورنہ مرد اور عورت ہر لحاظ سے مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ عورت کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنے جذبات، احساسات اور اپنی پسندو ناپسند کی تنِ تنہا مالک بنے۔ تو بھلا ہم کیوں اتنی آسانی سے اپنا چولا بدل لیتے ہیں۔ ہمارا مزاج، ہماری عادتیں اور ہمارا اندازِ گفتگو ہمارے میکے کی دین ہے، یہ ہمارے میکے کی
یادگاریں ہیں۔ انھیں ترک کر دینا گویا میکے سے قطع تعلق کر لینا ہے۔ نہیں صاحب! یہ ہمیں کسی قیمت پر بھی منظور نہ تھا۔ دوسری طرف یہ کب منظور تھا کہ ہم اپنے مجازی خدا کے معیار پر پورے نہ اتریں، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
کافی عرصے تک ہم اس نسخۂ کیمیا کی جستجو میں رہے جو ہمیں بظاہر اپنے مجازی خدا کی حکم کی بندی بنا دے اور ادھر ہماری خودی اور انا کو بھی ٹھیس نہ لگے۔ ایک دن اچانک ہمارے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا اور ہم نے ایک ترکیب سوچ لی۔ یعنی ہم نے ایکٹنگ کرنے کی ٹھان لی۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں ہم پڑھائی سے زیادہ ڈراموں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ تو بیجا پور کی چاند بی بی کے کردار میں ہم نے گویا روح پھونک دی تھی۔ اس وقت ہماری اداکاری کو بہت سراہا گیا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی ہمارے رگ و پے میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں۔ آخر ہمارے میکے کا ہنر ہمارے کام آنے والا تھا۔ جب ہم نے ایکٹنگ کا مصمم ارادہ کر لیا تو سب سے پہلے ہم نے یور آنر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت دھیان سے سننا شروع کیا۔ ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ اور ہر ادا کو اپنے ذہن کے کیمرے میں بند کیا، پھر تنہائی میں ان کے دہنِ مبارک سے نکلے ہوئے تمام الفاظ دہرائے۔ فرصت کے لمحات میں انڈین پینل کوڈ اور مسلم پرسنل لا کی ورق گر دانی کی۔ اس طرح مختصر عرصے میں ہم ما شا اللہ حسبِ ضرورت ترقی کر گئے۔ قانونی نکات اور اصطلاحوں کے اچھے خاصے ذخیرے کو ہم نے کسی ڈرامے کا ایک پارٹ سمجھ کر زبانی یاد کر لیا اور پھر ہم دلہن وہی جو پیا من بھائے کی طرح یور آنر سے اپنی قابلیت کا لوہا منوانے لگے۔ وہ بے چارے ہماری سعادت مندی اور قابلیت پر داد دے دے کر تھک جاتے لیکن ہم خود کو اپنی کامیاب ایکٹنگ پر داد دیتے ہوئے کبھی نہیں تھکتے۔ غرض کہ ہماری زندگی کی گاڑی ایک ہموار راستے پر چل پڑی۔
وہ جیسے ہی کورٹ سے گھر آتے تو ہم کھڑے ہو کر پھر جھک کر ان کا استقبال کرتے اور فوراً ان کی پسندیدہ قانونی زبان میں ان سے گفتگو کرنے لگتے۔ ’’بھئی! آج تو چائے کے ساتھ پورا انصاف کیا جائے گا۔‘‘ یور آنر نے کورٹ سے آ کر تھکے ہوئے لہجے میں فرمایا۔
’’لیکن جناب اس طرح تو آپ رات کے کھانے کے ساتھ نا انصافی کریں گے۔‘‘ ہم نے دخل اندازی کی گستاخی کی۔
’’ہم کچھ سمجھ نہیں پائے! پلیز Proceed! انھوں نے سوالیہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا۔
’’یور آنر! بات در اصل یہ ہے کہ آج ہم وہی مرغی پکا رہے ہیں جو پچھلے دو ماہ سے آپ کے ڈربے میں قید با مشقت کی سزا بھگت رہی تھی۔ روز رات کو پڑوس کا کالا بلّا کسی جلاد کی طرح اس کے سر پر سوار رہتا تھا کہ کب وہ باہر نکلے اور وہ اس کی گردن دبوچے، لہٰذا ہم نے سوچا، اس سے پہلے کہ وہ اس غریب اس کے خوف سے تل تل کر کے مر جائے کیوں نہ ہم اسے ذبح کروا کر اس کشمکش سے ہمیشہ کے لئے آزاد کر دیں۔‘‘ ہم وضاحت کرنے لگے تو انھوں نے ہم کو گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ ہم نے سہمے انداز میں ان سے پوچھا، ’’کیوں جناب! کیا قانون میں مرغی کو بھی سزائے موت دینے کے لیے کوئی خاص Procedure ہے؟ ہماری بات سن کر وہ خلافِ معمول بلند آواز میں ہنس پڑے اور تحسین آمیز نگاہوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بڑے دل آویز انداز میں بولے، ’’بھئی بیگم! تم ہو بڑی جلاد‘‘ ۔
’’توبہ کیجئے! اگر ہم جلاد ہوتے تو اس وقت دفعہ ۳۰۲ والے کسی مجرم کی گردن ناپ رہے ہوتے یا تختۂ دار کے آس پاس منڈلا رہے ہوتے۔‘‘ ہم نے نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی بات کا جواب دیا۔
’’پلیز بیگم! No argument‘‘ جائیے جا کر چائے لائیے۔‘‘
’’تو باقی کل کے لیے adjourn کر دیا جائے نا؟‘‘ ہم نے بلند آواز میں ان سے پوچھا اور باورچی خانے میں جا پہنچے۔
ایک دن ہم نے محسوس کیا کہ باورچی خانے سے پسی ہوئی مرچ اور ہلدی اکثر کم ہو جاتی ہے۔ ہمیں اپنی ملازمہ پر شک تھا۔ جب یہ تماشا ہمارے آگے شب و روز ہونے لگا تو ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک ہی گیا اور ہم اس ملازمہ پر بری طرح برس پڑے۔ ہمارے یور آنر نے یہ سب سنا تو ہمیں بلا کر کہنے لگے۔ ’’بیگم! آپ کو ملازموں سے اس طرح نہیں پیش آنا چاہئے، آپ کے پاس کیا پروف ہے کہ مرچ اس ملازمہ ہی نے چرائی ہے؟‘‘
’’ڈبے میں سے مرچ غائب ہے کیا یہ ثبوت کم ہے؟‘‘ ہم نے بپھر کر کہا لیکن پھر کچھ سوچ کر سنبھل بھی گئے۔
’’ڈبے میں مرچ نہیں ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، ہو سکتا ہے آپ بھول گئی ہوں یا مرچ آپ ہی کے ہاتھوں خرچ ہو گئی ہو یا پھر کسی اور نے نکال لی ہو۔‘‘ انھوں نے argumentشروع کر دئے۔ ’’ہمیں پورا یقین ہے یہ اسی ملازمہ کی کارستانی ہے۔ چپراسی وغیرہ تو باورچی خانے میں کم ہی جاتے ہیں۔‘‘ ہم نے انھیں قائل کرنا چاہا۔
’ ’ نہیں بیگم! یہاں اس ملازمہ کو یقیناً benefit of doubt ملنا چاہئے۔‘‘ انھوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور ہم مصلحتاً چپ ہو گئے کیونکہ ظاہر ہے ہمیں اپنی ایکٹنگ کو کامیاب بنانا تھا۔
اسی طرح ایک دن شام کی ڈاک سے ہمیں ہمارا محبوب پرچہ ملا تو ہم
بے حد اشتیاق سے اس کے مطالعے میں غرق ہو گئے۔ اتنے میں ہمارے یور آنر کورٹ سے آ گئے اور آتے ہی وہ پرچہ ہمارے ہاتھ سے اچک لیا اور فرمایا ’’واہ بیگم! ہم تھکے ہارے کورٹ سے آئے ہیں اور آپ یہ الّم غلّم پڑھ رہی ہیں۔‘‘
’’تو کیا حکم ہے حضور!‘‘ ہم نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا اور پھر ایکٹنگ شروع کر دی۔ ’’چائے لائیے! پھر ہم آپ کو اس عجیب و غریب کیس کے بارے میں بتاتے ہیں جو آج ہمارے کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ بیگم! کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کہ کوئی ماں اپنی ہی بیٹی کو زہر دے کر مار ڈالے اور خود داماد سے شادی کر لے۔‘‘ یور آنر نے چائے کا بھی انتظار نہیں کیا اور شروع ہو گئے۔
’’جی ہاں، ضرور ہو سکتا ہے بشرط یہ کہ بیٹی سوتیلی ہو‘‘۔ ہمارا جواز سن کر ان کی آنکھوں میں نئی چمک پیدا ہو گئی اور اس سے پہلے کہ وہ اس کیس پر مزید روشنی ڈالیں ہم چائے کے بہانے وہاں سے اٹھ گئے۔ چائے کے بعد وہ اخبار بینی میں مصروف ہو گئے اور ہم گھریلو بکھیڑوں میں الجھ گئے۔ لیکن رہ رہ کر ہم کو اپنے محبوب پرچے کا خیال آتا رہا اور ہم خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ رات کو سونے سے پہلے پورا پرچہ پڑھ کر ہی سوئیں گے۔ چنانچہ رات کو جب ہم اپنی تمام گھریلو ذمہ داریوں کو نمٹا کر بستر پر آئے تو وہ پھر آ دھمکے اور فرمایا۔ ’’بیگم! آپ پھر بور کرنے لگیں۔‘‘ انھوں نے وہ پر چہ ہم سے چھین لیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کے پاس بیٹھ کر کورٹ میں ہونے والی دن بھر کی کاروائی سنیں۔‘‘ مرتے کیا نہ کرتے گیارہ بجے رات تک ہم ہوں ہاں کی ایکٹنگ کر کے ان کو سنتے رہے۔ پھر جب ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا تو ہم نے دوسرے کمرے کی راہ لی اور نصف شب تک اپنے محبوب پرچے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ صبح جیسے ہی چھے بجے کا الارم ہوا تو یور آنر نے اٹھ کر نماز کا ارادہ فرمایا اور ہمیں آوازیں دے کر جگانے لگے۔ بے خوابی کی وجہ سے ہمارا سر بھاری ہو رہا تھا اور آنکھیں جل رہی تھیں۔ لہٰذا بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ’’طبیعت بہت خراب ہے، چکر آ رہا ہے۔‘‘ ہم نے نہایت مریل سے آواز نکالی۔ یہ سنتے ہی وہ سب کچھ بھول کر ہمارے پاس آ بیٹھے۔
’’کیا بات ہے جان عزیز!‘‘ انھوں نے اپنا دستِ مبارک ہماری پیشانی پر رکھ دیا اور ہم نے دیکھا کہ ان کے رخِ انور پر سخت تردد کے آثار نمایاں تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سخت اختلاف رائے کے باوجود ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے بھر پور محبت و خلوص کے جذبات موجزن رہتے ہیں۔
’’بیگم! یوں کرتے ہیں ہم آج سی ایل لے لیتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ آپ نے کافی عرصے سے اپنا بلڈ پریشر بھی چیک نہیں کروایا۔‘‘ یور آنر نے بے حد خلوص سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن ان کا یہ مشورہ بم کی طرح ہمارے سر پر پھٹا۔ ہماری بیماری اور ہمارے چکر سب رفو چکر ہو گئے۔ ہم فوراً اٹھ کر باتھ روم کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اپنے روزانہ کے معمولات میں مصروف ہو جائیں۔ ہمیں ڈر تھا کہ اگر انھوں نے سی ایل لے لی تو پھر دن بھر ہمیں قانون کی سولی پر لٹکنا پڑے گا۔ گڑے مردے اکھاڑے جائیں گے اور ان تمام مقدمات پر از سرِ نو روشنی ڈالی جائے گی جن کے فیصلے ہمارے یور آنر نے کئے تھے۔ ہم نے سیدھا باورچی خانے کا رخ کیا اور وہاں دو گھنٹے آرام سے گزارے لیکن اس دوران ہم نے انھیں کئی بار آ آ کر باورچی خانے کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھا۔ وہ بیچارے ملازمہ کی موجودگی کی وجہ سے باورچی خانے میں آ کر ہماری خیریت دریافت کرنے یا پھر کسی نئے کیس کا ذکر چھیڑنے میں تکلف کر رہے تھے ضروری چھٹیوں کو تو ٹالا نہیں جا سکتا لیکن رخصت اتفاقی وغیرہ سے ہم ان کو حتی الامکان گریزاں رکھتے تھے۔ البتہ اگر کبھی خدا نخواستہ ہمارے یور آنر کا مزاج گرامی ناساز ہو جائے تو اپنی ساری ایکٹنگ کو بالائے طاق رکھ کر ہم صدق دل سے ان کی تیمار داری میں جٹ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت کے لیے دعا بھی کرتے جاتے ہیں اور گڑ گڑ ا کر اپنے یور آنر سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ’’بس، آپ اچھے ہو جائیے اور اس کے عوض چاہے ہمیں اپنی مکمل کیس ہسٹری سنا ڈالئے۔‘‘
ویسے ہمارے حال پر فضلِ ذوالجلال ہے کہ ہمارے یور آنر شاذ و نادر ہی علیل ہوتے ہیں ورنہ شاید ہماری کل زندگی ان کی کیس ہسٹری کی سماعت میں ہی صرف ہو جاتی۔
(مدو جزر۔ ۱۹۸۶)