ایک اصولی چیز آپ سمجھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالَم کو ایجاد کیا، پیدا کیا اور کوئی موجود ایسا نہیں ہے جو وحدت سے خالی ہو حقیقی وحدت ازل سے ابد تک موجود تھی، تو کسی واحد کو بنانا مقصود نہیں ہونے کا وہ حاصل کی تحصیل ہو گی۔ مصنوعی وحدت کی ضرورت کیا ہے؟ جب حقیقی وحدت موجود ہے اللہ تبارک تعالیٰ وحدتِ حقیقی ہے۔ اب کسی واحد کو وہ پیدا کرے تو اس کا پیدا کرنا بے معنی ہے اس لئے کہ حقیقی واحد موجود ہے، نقلی اور مصنوعی واحد کے پیدا کرنے کا فائدہ کیا؟ اس لئے مقصودِ کائنات وحدات نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو مفرد چیزیں بنائی ہیں وہ مقصود نہیں ہیں۔ یہاں بھی صناعوں کے ہاں دیکھیئے کاریگر جو بڑے ہیں ان کے ہاں بھی جو مفردات ہوا کرتے ہیں وہ مقصود نہیں ہوا کرتے بلکہ ان کے مرکب مقصود ہوا کرتے ہیں۔ معمار ہیں، اینٹ، پتھر، روڑا مفرد شکل میں ہر وقت ہر جگہ موجود ہوا کرتے ہیں وہ مقصود نہیں ہوا کرتے، ان کو جو مہیا کیا جاتا ہے ان سے کوئی مرکب بنایا جاتا ہے۔ مثلاً عمارت بنائی جاتی ہے دواؤں میں دو جو مفردات ہوتے ہیں وہ مقصود نہیں ہوتے بلکہ ان کے مرکبات معجون مقصود ہوتے ہیں۔ موٹر ہے اس کے چھوٹے چھوٹے سے پُرزے اسی لئے مہیا کئے جائیں گے کہ آخر میں موٹر بنانا ہے۔ گویا صنعت سے مقصد ترکیب ہے، مرکب ہے۔ مفردات جو ہوا کرتے ہیں وہ مقصود بالغرض ہوتے ہیں مرکبات کے لئے ان کو پیدا کیا جاتا ہے یا مرکب کے لئے مہیا کیا جاتا ہے خود وہ مقصود نہیں ہوا کرتے۔ ہر چیز میں آپ دیکھ لیں گے سالن مقصود ہے اس کے جو مفردات ہیں گوشت، گھی وغیرہ وہ در حقیقت سالن کے ذریعہ ہیں وہ مقصود نہیں ہیں، اگر وہ مقصود ہوتے تو پکانے کی مشقت نہ کی جاتی۔
خّلاقِ عالَم نے سب سے پہلے ملائکہ کو پیدا کیا۔ وہ مفرد تھے وہ مرکب نہیں تھے جس طرح اور انسان وغیرہ، اگر ملائکہ مقصود ہوتے تو صنعت کا کام وہیں ختم ہو جاتا۔ معمار کا مقصد مکان بنانا ہے جب بلڈنگ بن گئی تب اجزاء کی ضرورت نہیں رہتی، کسی شئے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر مقصدِ تخلیق ملائکہ ہوتے تو جونہی ملائکہ کو پیدا کیا تھا اس کا کام ختم ہو جاتا اور تخلیق عالَم وہیں بند ہو جاتی لیکن تخلیق جا رہی رہی، اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کا پیدا کرنا مقصود نہیں تھا۔ سمجھو بڑی بات ہے، غور کرو۔ افلاک اور ملائکہ اور جنتے بھی مفردات ہیں یہ مقصود نہیں ہیں کُل کائنات میں سے کوئی مفرد مقصود صنعت نہیں ہے، صانع کا مقصد یہ مفردات نہیں ہیں بلکہ مرکبات ہیں۔
اب عناصرِ اربعہ یہ بھی مفرد ہیں یہ بھی مقصود نہیں ہیں بلکہ ان سے جو مرکب ہیں جمادات کو مفردات کے مقابلے میں ضرور یہ مقصود ہیں، لیکن یہ کسی اور مرکب کے اجزاء ہیں یعنی نباتات کے آگے چل کر یہ بھی مقصود نہ رہے۔ کیونکہ در حقیقت نباتات حیوانات کے اجزاء ہیں مگر آگے یہ بھی مقصود نہ رہے۔ حیوانات نباتات کے مقابل میں بیشک مقصود ہیں لیکن در حقیقت یہ انسان کے اجزاء ہیں یہ انسان میں خرچ ہو رہے ہیں۔ تو جو شئے دوسرے میں خرچ ہو رہی ہے وہ شئے مقصود نہیں بلکہ وہ شئے مقصود ہے کہ جس میں وہ شئے صَرف ہو رہی ہے۔ اس اصول کو سمجھ گئے؟ جو شئے کسی دوسری شئے میں خرچ ہو رہی ہے وہ شئے مقصود نہیں ہے بلکہ جس میں خرچ ہو رہی ہے وہ مقصود ہے۔ تو اشیاء برابر صَرف ہوتے ہوتے انسان آ گیا۔ انسان کسی چیز میں خرچ نہیں ہو رہا کسی میں کام نہیں آ رہا کُل اشیاء اسی میں صَرف ہو رہی ہیں یہ تجربہ آپ کو عقل سے ہو رہا ہے۔
وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ
(سورت الجاثیہ 45 آیت 13) ’کائنات سماوی اور کائناتِ ارضی سب تمہارے واسطے مسخر ہوئیں۔‘
وَخَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیعًا
(سورت البقرۃ 2 آیت 29) ’اور تمہارے لئے تمام روئے زمین کی چیزوں کو پیدا کر دیا۔‘ کُل اشیاء تمہارے لئے ہیں تم ان میں سے کسی شئے کے لئے نہیں ہو۔ اس کائنات کی سب چیزیں تمہارے لئے ہیں تم کسی شئے کے لئے نہیں ہو، اس کائنات سے باہر کسی اور کے لئے ہو تم خالقِ کائنات کے لئے ہو۔ کُل اشیاء انسان کے لئے بنیں، انسان خالقِ انسان کے لئے بنا۔ جتنے بھی انواعِ موجودات ہیں وہ کُل کی کُل نوعِ انسان میں خرچ ہو رہی ہیں۔ بالواسطہ یا بلا واسطہ سو سو واسطے سے۔ وَ لٰکِنَّ لَا یعْلَمُوْنَ ’کچھ ایسے وسائل ہیں جن کو تم نہیں جانتے۔‘ ایسے ذرائع بھی ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ انسان کے کس کام آئے گی؟ لیکن یہ ہے کہ ضرور کسی نہ کسی توسط سے جا کر کام آئے۔ کُل مخلوقات انسان کے کام کے لئے بنیں ہیں انسان کسی کے کام کے لئے نہیں بنا: اِلَّا لِیعْبُدُوْنِ (سورت الذاریات 51 آیت 56) ’سوائے اپنے رب یعنی خالق کے کام کے لئے۔‘
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...