باب سوم : حصہ چہارم
وجودیت کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء
دوسرے نظریہ ہائے فکر کی طرح وجودیت اپنا ایک سائنسی نظام رکھتی ہے، جو تہذیبی روایتوں کو ان کی مخصوص حالتوں میں ایک خاص شکل دیتی اور پھر اس خاص شکل کے ذریعے اپنا مدعابیان کرتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وجودیت ہرقسم کے تحریری، منطقی اور سائنسی فلسفے کی نفی کرتی ہے اورعقل کی مطلقیت سے انحراف اختیارکرتی ہے تاہم اس کا منشایہ ہے کہ فلسفے کوفرد کی زندگی، تجربے اور اس تاریخی صورتحال سے مربوط ہوناچاہیے جس میں فرد خودکوپاتا ہے کیونکہ یہ ظن و تخمین کا علم نہیں بلکہ ایک طرزِ حیات ہے۔ سب کچھ وجود میں مضمر ہے۔ وجود اعلان کرتا ہے کہ وہ معروضی دنیا کے بجائے صرف اپنے تجربے کو حقیقی جانتا ہے۔ اس کے نزدیک ذات ہی حقیقی ہے۔ وہ اپنی بے مثال انفرادیت پراصرار کرتے ہوئے فطرت اور طبعی دنیا کی عمومی خصوصیات کے مقابلے میں اپنے وجود کو اساسی حیثیت دیتا ہے۔
’’وجودیت کا مرکزی تصور یہ ہے کہ آدمی وہی کچھ بنتا ہے جو وہ بننا چاہے۔ خدا یامعاشرے کی طرف سے بطور جبراس پر کوئی تقدیر مسلط نہیں کی گئی۔ آدمی کے پاس اختیار ہے اور ساتھ ہی ذمہ داری کا وہ احساس جو اختیار کا عطاکردہ ہے۔ اگر وہ اپنے لیے کوئی راہِ عمل چُنتا ہے یا باہرکی طاقتوں کے سامنے سر جھکاکرمجہول انداز میں جیے جانے پرراضی ہے تو قابلِ حقارت ہے۔‘‘(1)
انسان ہمیشہ اسی الجھن میں گھِرا رہتا ہے کہ وہ کون ہے؟ اسے اس دنیا میں کون لایا ہے؟ اس کا خالق اس کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے؟ اسے اس دنیا میں لانے سے پہلے اس سے مشورہ کیوں نہیں کیاگیا؟ اسے اگرموت ہی سے ہمکنار ہونا ہے تو پھرزندگی کا جواز کیا ہے؟ اس کے ذاتی فیصلوں کی حیثیت کیا ہے؟ اس کامقصد کیا ہے؟ انسان اور فطرت کی مشترک اقدارکیا ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات سے اُلجھتا ہوا انسان اپنے مرکز کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی اعلیٰ صداقت کا تعین اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنی حیاتیاتی قدریں متعین نہیں کرتا۔
انسانی وجود کے معنی اور اہمیت کی بنیادی دریافت وجودیت کاجوہر ہے جس کا سلسلہ آزادیٔ فکرونظر کی نظریاتی کوششوں سے جوڑا جاسکتا ہے۔ اسی لیے اس کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے:
“It applies to a vision of the condition and existence of man, his place and function in the world and his
relationship, or lack of one with God.” (2)
یورپ کی فکری تاریخ میں فلسفۂ وجودیت کو امتیازی مقام جنگِ عظیم اوّل کے بعد حاصل ہوا۔ عقل پرستی کے شدیدرجحان اورسائنس پربے پناہ اعتماد نے روایتی فکر کی ایک خاص درجہ بندی کررکھی تھی جس میں انسان کے بجائے اشیاء کی ضرورت پر زوردیاجارہاتھا۔ چنانچہ صنعتی معاشرے کی عدم شخصیتی کو جنم دینے والی قوتوں کے خلاف ایک فکری بغاوت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ وجودیوں نے اندازہ کیا کہ فرد کو ان عناصر سے محفوظ رکھنا ضروری ہے جو اس کی آزادی سلْب کررہے ہیں۔ مروجہ نظام فرد کی انفرادیت کے لیے شدید نقصان دہ ہے جو فرد کوایک کل پرزے کے طورپر استعمال کررہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں تنہائی اور بیگانگی کاعمل دخل بڑھ رہا ہے۔ انسان مذہب سے بیگانہ ہوگیا ہے۔ اس کے چاروں طرف تاریکی ہے۔ اخلاقیات زوال پذیر ہے۔ چنانچہ اس صورتحال کے خلاف ردِّعمل شروع ہوا۔ وجودیت کے پیروکاروں نے فردِواحد او راس کے گوناگوں مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایااور یوں عوامی سطح پراس فلسفے کو قبولیت کادرجہ عطاہوا۔ وجودیوں نے اپنے افکارکولوگوں تک پہنچانے کے لیے فلسفیانہ مباحث سے زیادہ شاعری، فکشن، تنقید، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرویوز جیسے وسیلوں سے کام لیا۔ چنانچہ یہ فلسفہ جلد ہی ایک تحریک کی صورت اختیارکرگیا۔ بلکہ فیشن کے طورپر وجودی کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ نیو انسائیکلوپیڈیا برٹینکامیں لکھا ہے:
’’ مختلف اور مخالف اطراف میں ترقی کے بعدوجودیت نے اپنی فلسفیانہ اساس بنالی اور عوامی تہذیب کو اپنی طرزِفکر کے ہتھیاروں اور تکنیکی ہتھکنڈوں سے ایسی بہت سی اصطلاحات کے معنی سمجھائے ہیں جو ابھی تک واضح نہیں تھیں۔ مثال کے طورپر تشکیک، موقع، حالت، انتخاب، آزادی اورمنصوبہ وغیرہ جیسی اصطلاحات وجودیت کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں۔‘‘(3)
مغربی مفکروں میں ہیگل(1770-1831) نے وجودیت اور اشتراکیت کے حوالے سے بہت سے دوسرے افکار اور اپنے بعد آنے والے مفکروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہیگل نے تاریخ کے تناظرمیں جدلیاتی عوامل کی تشریح کرتے ہوئے حقیقت کو مجموعی طورپر اس کے جوہر اور اس کے وجود کے ساتھ باہم مربوط کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ’’جوہر لازماًظہورپذیرہوتا ہے۔ یہ اپنے آپ کووجود میں ڈھالتا ہے۔ وجودجوہر کی موجودگی ہے اور اس لیے وجود کو اصل عناصر کی موجودگی کہاجاسکتا ہے۔ جوہرہی وجود ہے۔ اسے اس کے وجود سے ممیز نہیں کیاجاسکتا۔‘‘(4)
بعدازاں ہیگل کے اس خیال کو اس کے ناقدوں نے شاہ بلوط کو گملے میں لگانے کی کوشش قراردیا۔(5)
وجود کی تحریک کو اسی لیے ہیگل مخالف تحریک بھی کہاجاتا ہے جس کے سرخیل کرکے گار (Kierkegaard)،کارل مارکس (Carl Marx) ، فیورباخ (Feurbach) اور شیلنگ(Schelling) تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ تحریک انیسویں صدی کے آخرمیں پروان چڑھی۔ ان سب نے ہیگل (Hegel) کے قومیت کے نظریے کو رد کیا۔ مارکس نے فرد کو اس صورت میں آزادقراردیا اگر وہ اپنے آپ کو موجودگی کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ ایک زندہ و موجود شخص اور ایک سوچنے والے انسان کی طرح سوچنا ان کے خیالات کا محور تھا۔ سپین کے ایک وجودی مفکر اورٹیگا وائی گیسے (Ortega Y. Gasset) نے فرد کو وہی کچھ قرار دیا جو اس کے ساتھ ہوا ہو یا جو کچھ اس نے کیا ہو۔ اس کے خیال میں انسان اپنے ماضی کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے اس لیے جو کچھ بھی وہ ہے وہ اس کی تاریخ ہے اور تاریخ بھی فردہی سے ہے۔(6)
کافمین نے وجودیت کو فلسفے سے بالاتر روایتی طرزِ فکر کے خلاف ایک دوسر ے سے مختلف بہت سے انحرافی افکار کے لیبل کے طورپر سمجھنے کی کوشش کی۔
وجودیت کی جامع تعریف اسی لیے مشکل ہے کہ اس میں مختلف نقطہ ہائے نظرکی فراوانی ہے۔ اس وجہ سے سارترکو کہناپڑاتھا کہ جوکوئی بھی وجودیت کا لفظ استعمال کرتا ہے وہ اس کے معانی کی وضاحت کرتے ہوئے الجھ جائے گا اوراب اس لفظ کے کوئی معنی نہیں رہے۔(7)
وجودیت انسان کو محض ایک شے سمجھنے کے خلاف بغاوت تھی۔ اسی لیے یہ مشین اورمادیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور فرد سے متعلق مختلف تنظیموں کی سرگرمیوں پرمعترض تھی۔ اس طرح وجودیت نے انسان کے تصور کو واضح کرنے کی بجائے اوربھی مبہم کردیاتھا اور انسانی صورت ِحال تضادات اور پریشانیوں سے عبارت ہوچلی تھی جس پر محض غوروفکر سے قابوپانا آسان نہیں تھا کیونکہ فرد خوداپنے آپ سے نبردآزماہوگیا تھا۔ سارتر کے نزدیک وجودیت ایک فلسفہ یا دبستانِ فکر ہے جس کی بنیاد وجود کی مکمل تہی مغزی، کائنات کی تمام تخلیق کی نفی اور یوں تمام اخلاق کی نفی کا نظریہ ہے۔(8)
وجودیت کی تعریف میں مزیداضافہ کرتے ہوئے اس نے تمام انسانی اعمال کو شکست کے اصول کے تابع کیااور اس لیے انھیں ایک جیسا یا ایک دوسرے کے مساوی قراردیا۔ انسان قوتِ ارادی اور صلاحیت کے بل بوتے پر اپنی منزل پاسکتا ہے جس سے کوئی فرد اپنی موجودگی کا پتادتیا ہے لیکن وجودیت کا یہ اصول منزل کے پہلے سے تعین پر یقین نہیں رکھتا۔
وجودیت انسان کے فطری تخیل کی رفعت کا ادراک نہیں رکھتی اور صرف اور صرف اس کی تباہی اور بربادی کی داستان سناتی ہے۔ سارتر کا کھیل Marts Sam Sepulture اسی لیے فرانسیسیوں کے اس گروہ کی ذہنی اور جسمانی اذیتوں کو بیان کرتا ہے جو مزاحمتی تحریک کے دوران فرانس کے غداروں کے ہتھے چڑھ گیاتھا۔
وجودیوں کے خیال میںانسان کسی خاص تجربے سے گزرتے ہوئے ہی اپنی زندگی کے کچھ اہم فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ سوچنا اور منتخب کرنا ہی وہ عمل ہے جس سے وجودیوں کے رویے کی وضاحت ہوتی ہے۔ تجربہ صرف محسو س کرنے اور اپنی انفرادیت کی نمائش کے لیے ان کے کام آتا ہے۔ تجربہ انسان کی اصل فطرت کو ظاہرکرتا ہے۔ تجربہ ہی دراصل انسان کو وہ لمحے فراہم کرتا ہے جس میں وہ صحیح معنوں میں موجود ہوتا ہے۔(9)
وجود پر جوہرکی ترجیح، دہشت، براایمان اور آزادی، دوسرا پن اور زاویۂ نظر، استدلال کو بے چینی کا کمزوردفاع سمجھنا اور لایعنیت وجودیت کے نمایاں عناصر میں شمار ہوتے ہیں اورا نہیں وجود ی ادیبوں کی تحریروں میں تلاش کیاجاسکتا ہے۔ یہ رجحانات ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور ایک دوسرے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ دنیا،کائنات اور زندگی سے بے اعتنائی زندگی کے تجربات ہی سے پھوٹتی ہے اور کوئی فطری شاعر ایسے تجربات سے گزر کر ہی ایسا شعر کہہ سکتا ہے ؎
مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے
نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی
(10)
بے اعتنائی یا لاتعلقی کسی بحران ہی سے جنم لیتی ہے۔ لاتعلقی کے بحران نے خود ہی مختلف داخلی وارداتوں کو جنم دیا ہے جنھیں عرفِ عام میں وجودی اصطلاحات کہا جاتا ہے۔ ان وجودی اصطلاحات میں دہشت، بوریت، مایوسی، عدمیت، موت، وابستگی، شرم، امکان، اضطراب، لغویت، آزادی، ذمہ داری،ضمیرفروشی، ضمیرِ بد، نفی و انکار، واقعیت، جرم، ابہام، کراہت، بیگانگی، برہنگی، خودکلامی، خوف، غیرمعقولیت، ارادہ، التباس، نیستی، ہستی برائے ذاتِ خود، ہستی برائے دیگراں، خارجی انکار، داخلی انکار، محرک، وجودی مطالعاتی طریق کار، مظہریت،صورتحال، قدر جیسے الفاظ کثرتِ استعمال سے علامات اور اصطلاحات کی صورت اختیارکرگئے ہیں۔ وجودی انسانی کیفیات کو نفسیاتی نہیں سمجھتے کیونکہ نفسیاتی کیفیات کا سائنسی تجربہ کیاجاسکتا ہے لیکن وجودی کیفیتوں کا سائنسی مشاہدہ ممکن نہیں۔ مثال کے طورپر دہشت کو خوف سے ممیز کیاجاسکتا ہے کیونکہ خوف کا سبب خارجی ہے جبکہ دہشت کی علّت کشائی ممکن نہیں کیونکہ وہ کسی خارجی شے سے مماثل نہیں۔ اسی طرح انسانی فیصلے کا لمحہ فرد میں کرب، دہشت، اضطراب، انکار، تشویش اور غصہ پیداکرتا ہے لیکن اس کی تحلیلِ نفسی نہیں ہوسکتی۔ مایوسی کا صحیح مفہوم کائنات کی بے ثباتی اور فریب کا پردہ چاک کرنا ہے جو انسانی وجود سے ممکن نہیں۔ تاہم دہشت اور مایوسی انسانی فکر کے داخلی دائرے کو مضبوط کرتے ہوئے اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں ایما ن اور ایقان کا دریچہ وا ہوتا ہے۔ انسان اپنی مکمل بے بسی کے ہاتھوں شکستہ ہوکرنادیدہ قوتوں کے سامنے سرِتسلیم خم کرتا ہے اور خود سے بے نیاز اور بیگانہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کراہت اور شرم بھی وجودی حقیقتیں نہیں۔ دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرد موجود ہے اور کائنات کی تمام ترلغویت اوربدمزگی کے باوجود اس سے چھٹکاراممکن نہیں۔
انسانی سچائیوں اور انسانی برائیوں کے ٹکرائو سے ابہام پیداہوتا ہے۔ چونکہ ہستیٔ موجود کو زندگی کے آخری لمحے تک موت کا سامنا ہے۔ اس لیے فرد کو چاہیے کہ وہ اس امکانی موت کے تصور سے بچنے کے بجائے اس سے ہم آہنگی پیداکرے اور اپنے ضمیرِ خوش کے بل بوتے پر اپنی ذات کو استحکام عطاکرے۔
انسان فطرتاًآزاد ہے۔ آزادی کی مدد سے وہ اپنے آپ کو استحکام بخش سکتا ہے۔ اگروہ خوشی سے اپنی موت کا انتخاب کرکے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرلے تو وہ قصۂ آدم کی شرمندگی سے روحانی نجات پاسکتا ہے۔ تاہم آزادی ایک کربناک اور ہولناک تجربہ ہے کیونکہ ’’ہاں‘‘کہنے اور’’نہ‘‘ کہنے کی آزادی انسان کو ایک ایسے فلسفۂ اخلاق کے تابع کردیتی ہے جو وجود کی ذاتی قوتِ فیصلہ کے استحکام کا مظہر ہے۔
وجودیت کاسب سے اہم پہلو یہی تصورِ حریت ہے جو اس روایتی اندازِ فکر کے خلاف ایک شدیدردعمل ہے جس نے انسان کو مادیت، تجربیت اور مذہبیت کے جال میں پھنسا کراس کی آزادی سلب کرلی ہے اور جیتاجاگتا انسان محض ایک شے بن کر رہ گیا ہے۔ آزادی کے تصور کی یہ سلبیت انسان کے اندر بیگانگی، مغائرت اور اجنبیت کے اثرات پیداکرتی ہے۔ ہیگل اپنی کتاب Phenomenology of Mindمیں ا س تصورِ بیگانگی کو ’’شعورِ افسردہ‘‘ کہتا ہے۔ جرمن فلسفی فیورباخ اس اصطلاح کو کچھ مقامات پر بیگانگیٔ مذہب اور مارکس بیگانگیٔ محنت کا نام دیتا ہے۔ اجنبیت اور بیگانگی کی وجودی کیفیات شدیدکربناکی کا احساس لیے ہوئے ہیں۔ جس طرح بیگانگیٔ مذہب میں انسان اپنی ذات کے بہترین اوصاف مذہبی اداروں کی شکل میں منجمد کرکے خود بیگانگی کا شکارہوجاتا ہے اسی طرح سرمایہ انسان کی ذات پرمسلط ہوکر افلاس کی اس صورتِ حال کو جنم دیتا ہے جولاتعلقی اور اجنبیت کے انجماد کی مثال بن جاتی ہے۔ وجود کی حقیقت ان دونوں سے بڑی ہے۔ وہ ہستی و نیستی کے تجربے سے دوچارہوکر داخلی صورتِ حال میں جاگزیں ہوتا ہے اور اس بھری کائنات میں اس کی حیثیت لامکانی کی سی ہوجاتی ہے۔ اگروہ چاہے تو امکانی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مغائرتِ ذات کی نفی کرسکتا ہے یا وہ معاشرے کا تجربہ کرسکتا ہے۔ بہرحال یہ اس کا انتخابی عمل اور اس کی وابستگی ہے کہ وہ اپنے لیے کس صورتِ حال کا انتخاب کرتا ہے۔بقول سارتر:
’’انسان کا مقدر یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی انتخاب کرکے نیستی کے خلاکوپُرکرتارہے، چاہے یہ انتخاب کتنا ہی عارضی کیوں نہ ہو۔‘‘(11)
درج بالا معروضات کی روشنی میں وجودیت کی مقبولیت کے اسباب تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جرمنی میں وجودیت ہیگل اور اس کے پیروکاروں کے انتہاپسندانہ تعقل کا ردِّعمل بن کر نمودار ہوئی۔ وجودیت عدم معقولیت اورناشائستگی کا ایک ایسا فلسفہ ہے جس نے انسان کو اس کی فطرت، اس کے تصورات، اس کی بنیادی آزادی، اس کے جذبات، اس کا انتخاب اور اس کی داخلی دنیا اسے واپس لوٹادی۔ انسان کو اس کے اعمال اور اس کے نتائج کا آقاقراردیا اور یوں وجودیت انسانی اعتبار کا ایک ایسا فلسفہ بن گئی جس کا دروازہ صرف فرد کی دستک سے کھلتا ہے۔ مزاحمتی سطح پر وجودیت نے جہاں بندۂ بیگانہ کو جینے کاحوصلہ دیا، وہاں نفسیاتی سطح پر وہ ایک المیاتی ردِّعمل سے بھی دوچار ہوئی۔ انسان اس کائنات میںبے آسرا اور بے وجود رہنے والے تجربے کے شدید(Acute) معانی کی بازیافت کا خواہش مند تھا لیکن اس لغویت کا جواب ہمیشہ پردۂ غیب ہی میں مضمر رہا۔
مغربی تمدن نے سائنسی تکنیک اور ایجادات کو متعارف کرایا۔ لمحہ بہ لمحہ نت نئی چیزیں تیارکرتی ہوئی صنعت، روشن خیالی اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کافروغ وغیرہ اوررجائیت بھی انسانی تنہائی اور افسردگی کا ازالہ نہ کرسکی۔ وجودیت نے دنیاکوایک ماتم کدہ قراردیا جہاں مشین کی بلندبانگ آواز میں انسانی احساس کی تمام صدائیں دب کررہ گئی ہوں اور انسان ایک لایعنی زندگی بسرکرنے پر مجبورہو۔ جبریل مارسل کے ڈرامے کی ہیروئن کرسٹائن کہتی ہے:
’’کیا کبھی کبھار تمہیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم زندگی بسرکررہے ہیں(اگر ہم اسے زندگی بسرکرناکہہ سکیں تو)ایک شکستہ دنیا میں؟ جو ایک وقت بتانے والی گھڑی کی طرح ٹوٹی ہوئی ہے۔ جس کے سپرنگ کب کا کام چھوڑ گئے۔ اگر تم اس گھڑی کو اپنے کان کے ساتھ لگائو تو سوائے خاموشی کے تمھیں کچھ سنائی نہیں دے گا۔ انسانوں کی یہ دنیا، شایدکبھی ا س کے پاس دل ہو لیکن مجھے کہنے دو کہ اس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘(12)
وجودیت کے ہی مایوس، تنہااور اُداس سائے وین گاف کی تصویروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ عدمیت اور بے حیثیتی کے یہی تجربات دوستوفسکی، گارسیا مارکیزاور کافکا کی تحریروں میں دکھائی دیتے ہیں۔سارتر اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
“Thus the passion of man is the reverse of that a Christ, for man loses himself as man in order that God may be born. But the idea of God is contradictory and we lose ourselves in vain. Man is a useless passion”. (13)
چنانچہ وجودیت کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ وہ انسانی زندگی کی مجبوری سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی فرد کی بے معنی زندگی میں ذاتی آزادی، ذاتی اعتماد اور ذاتی امنگ کا وہ دیا روشن کرتی ہے جو کائناتی ظلمت میں بہت سی تبدیلی کا ضامن نہ سہی لیکن روشنی کا ستارہ بن کر اپنا اثبات چاہتا ہے۔
سارترکے بقول’’انسان ایک طرح کے خالی پن یا کیچڑمیں پھنساہوا ہے۔ اسے اختیارحاصل ہے کہ وہ اسی کیچڑمیں پڑارہے اور ایسی نیم بیدارحالت میں جس میں خود اسے اپنے ہونے کا کوئی احساس نہ ہو، انفعالی اورمجہول زندگی گزاردے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس داخلی، مجہول صورت سے نکل آئے اور جان جائے کہ وہ کون ہے اور اس کی کیا حالت ہے۔ اس ادراک کے نتیجے میں جو ایک طرح کے مابعدالطبیعیاتی اور اخلاقی کرب سے دوچار ہوجائے گا تب اسے خبرہوگی کہ وہ جس دبدھے میں پڑا ہوا ہے وہ کتنا مہمل ہے۔ اس پریاسیت غالب آنے لگی گی تاہم اس ادراک سے اس کی ذات میں جو توانائی پیداہوگی اس کے بل بوتے پر وہ خودکوکیچڑ سے چھڑالے گا۔ اسے خبرہوگی کہ وہ وجودرکھتا ہے اوراپنی مرضی سے کوئی راہِ عمل چن کرزندگی اورکائنات کوجو پہلے لغویت سے معمور معلوم ہوتی تھی، معنی دے سکتا ہے۔ اگر وہ خود کوباعمل سیاسی اور سماجی زندگی گزارنے کا پابندبناسکے تو یہ اس کے اختیار کی جہت ہوگی۔‘‘(14)
وجودیت کی اقسام
-1 الحادی وجودیت
الحادی وجودیت سے آج کے معاشرے میں وجودیت کی ایک قسم کے طورپرباربار سابقہ پڑتا ہے۔ موحدانہ وجودیت سے الحادیت اس طرح مختلف ہے کہ یہ خدا کے وجود اور اس کے بھیجے ہوئے پیغامبروں کاانکار کرتی ہے جو ہمیں اس نوع کی تلقین پرمامور کیے جاتے ہیں کہ ہم زندگی کس طرح گزاریں۔ الحادی وجودیت اس نظریے کو مستردکرتی ہے کہ دنیااور زندگی کسی قسم کی تخلیقیت کی پیداوار ہے یا تخلیقیت سے عبارت ہے اور انسان کو اپنی زندگی کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایمانی حرارت درکار ہوتی ہے۔ اس نوع کی وجودیت پرایمان کو ایک برا عقیدہ سمجھاجاتا ہے۔
-2 الٰہیاتی وجودیت
الٰہیاتی یاموحدانہ وجودیت نقطۂ نظر کے اعتبار سے زیادہ ترمسیحی وجودیت سمجھی جاتی ہے لیکن یہودی وجودیت بھی ہوسکتی ہے اور شایدمسلم وجودیت بھی۔ الحادی وجودیت اورموحدانہ وجودیت میں تفریق خدا کے وجود کے اثبات اور اسے خالقِ کل کاماننایانہ ماننا ہے۔ موحدانہ وجودیت کے علمبرداراس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدانے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ ہم زندگی بسرکرنے کا قرینہ متعین کرسکیں اور ہر شخص انفرادی طورپراپنے اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
-3 لا وجودیت یافنائیت
اگرچہ لا وجودیت، وجودیت نہیں اور وجودیت لا وجودیت نہیں ہے تاہم دونوں نظریوں کو باہم غلط ملط کر دیاجاتا ہے۔ ایک طرح کی لاوجودی وجودیت بہرحال موجود ہوتی ہے لیکن وہ بھی خالص لاوجودیت کی اساسی خصوصیات کی حامل نہیں ہوتی۔ ان دونوں نظریات کے درمیان تفریق اس لیے بھی مشکل ہوجاتی ہے کہ نطشے ان دونوں فلسفوں کے حوالے سے معروف ہے۔ وجودی لاوجودیوں اور کٹڑلاوجودیوں میں تھوڑا بہت امتیاز اس لیے ہے کہ لاوجودی کسی بھی معنی پرہرگز یقین نہیں رکھتے جبکہ وجودی لاوجودی اس پرمحض زندگی کے کسی نہ کسی طرح کے معنی کے حوالے سے یقین رکھتے ہیں۔ باقاعدہ فنائیت یالا وجودیت بھی بالواسطہ طورپر یہ بات مانتی ہے اوروجودی لاوجودی بھی مکمل وجودیت کے اس مسلک کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے دونوں کے درمیان امتیاز کی لکیربہت کمزور ہے۔ اگر دوسرے وجودی لوگوں کی زندگیوں کے کسی ایسے معانی پراتفاق بھی کرلیں جومعانی وہ خود انھیں دیتے ہیں تو بھی وجودی لاوجودی ایسے معانی کو خودفریبی قراردیتے ہیں۔ اس طرح وجودی لاوجودی دوسرے وجودیوں کے مقابلے میں زیادہ قنوطی ٹھہرتے ہیں لیکن نتائج یوں ایک سے نہیں ہوتے کہ ان میں سے بعض خودکشی کو سب سے بہتر عمل قراردیتے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگرزندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا تو آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ اس خیال کو ایک نوع کی لذت پسندی بھی کہاجاسکتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جوفنائیت کو کسی مستندمفکرکی فکرکالازمی حصہ سمجھتے ہیں اور اسی فکر سے دہشت جنم لیتی ہے جو اقدار کی پہچان کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور حسرتوں کے ساتھ ساتھ ان کے حصول کی تمنا بہرصورت دلوں میں جگائے رکھتی ہے۔
اوپربیان کیاگیا ہے کہ وجودیت کے علمبرداروں کے یہاںفرد کی داخلیت کے موضوع پر اشتراک کے باوجود کچھ اختلافات موجود ہیں۔ وجودیوں کا ایک گروہ خدا، اشیاء اور انسانی مکاشفات سے دلچسپی رکھتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ انسانی وجود کو کلیت کا درجہ دیتا ہے۔ تیسرا گروہ انسانی وجود اوردنیا کے شعوری روابط میں دلچسپی ظاہرکرتا ہے۔ تاہم تمام وجودی فلاسفہ کے نزدیک امورِ کائنات کا حل سائنس کے اختیار میں نہیں کیونکہ سائنسی طریقۂ تحقیق صداقت کی تلاش سے عاری ہے۔ عقل حقیقتِ مطلق کا ادراک نہیں کرسکتی اس لیے عقلی تقسیم انسانوں کو بے حیثیت بنادیتی ہے۔ انسانی وجود ایک مستقل عمل ہے۔ اس مستقل عمل کو وجودی شعورقراردیتے ہیں۔ وہ انسان کی کامل آزادی کے تصورپرروشنی ڈالتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کاوجودمعدوم جوہرسے تشکیل پذیرہوا ہے۔ وجودی موت کو برحق سمجھتے ہیں اور اسے اپنے فلسفے کا بنیادی جوہرقراردیتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ انسان اپنے ماحول سے اثرات قبول کرتا ہے اسے ماضی، حال اورمستقبل کی گردشی حالتوں سے چھٹکارانہیں۔ انسانی وجود وقت کے اسی سمندر میں اُبھرتا، ڈوبتااور سنبھلتا رہتا ہے۔ اس کے شعور کی ڈوری کسی غیرمرئی طاقت سے بندھی ہے چاہے اس کا نام خدارکھ دیاجائے یا خلا، اسے وجود کی اتھاہ قراردیاجائے یا دنیاوی مظاہر کی کہانی۔ یہ عدم کا طویل راستہ ہے جس پر چلتے چلتے انسان غمگین، مضطرب، افسردہ اور بیگانہ ہوگیا ہے۔ لاتعلقی کا یہی بحران وجودیت کی اصل بنیاد ہے۔(15)
اہم وجودی ادباء
وجودیت کے نمایاں علمبرداروں میں اینے ڈیکارٹ(1596-1650) ، پاسکل (1623-1662)، کانٹ(1724-1804) ، ہیگل(1770-1831) ، کِرکے گار (1813-1855)، نطشے(1844-1900) ، بیوبر(1878-1965) ، جیسپرز (1883-1969)، مارٹن ہائیڈیگر(1889-1976) ، جبرئیل مارسل(1889-1973) ، سیمون ڈی بوار(1908-1986) ، کامیو(1913-1960) اور کولن ولسن(1931) شامل ہیں۔
سورین کرکے گار(Soren Kierkegaard) کو فکری سطح پر وجودیت کی تحریک کا بانی قراردیاجاتا ہے۔ وجودیت کے ابتدائی افکار اس کی کتابوں Fear and Trembling (1843)اور (1848) Sickness onto Death سے اخذکیے گئے ہیں۔ ان کتابوں میں کرکے گار نے اپنے اس خیال کی باربار توضیح اورتشریح کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو اپنی پریشانیوں سے نجات کے لیے خداسے رجوع کرناچاہیے۔ اس کے ذریعے انسان ذہنی سکون ور روحانی آرام پاسکتا ہے۔ انسان کو اپنے وجود کا ادراک اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ یہی بات حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کرکے گار سے پہلے اس اندازمیں کہہ چکے تھے کہ ’’جس نے اپنے رب کو پہچانا، اس نے اپنے آپ کو پہچانا۔‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کا یہ قول اسلام کے صوفیانہ افکارکی بنیاد بنا۔ کرکے گار البتہ اس باب میں عیسائی روحانیت سے متاثر ہوا ہوگا۔ اگرچہ اس نے شروع شروع میں عیسائیت سے منحرف ہوکرہیگل کے فلسفے میں وجود کی صداقت تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔(16)
کرکے گار نے بھی خدااور انسان کے باہمی رشتے کے بارے میں لگ بھگ یہی کہاتھا کہ نسب سے پہلے تو فرد’’اپنی ہی ذات سے گہرا رشتہ استوار کرتا ہے اور اسے اپنے آپ سے نیز اپنی تقدیر سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے، دوسرے یہ شخص خود کو ایک مستقل حالت میں محسوس کرتا ہے اور اس کے سامنے کوئی نہ کوئی تکمیل طلب کام ہمیشہ ہوتا ہے،تیسرے یہ شخص ایک انتہائی جذباتی خیال کی زد میں ہوتا ہے۔‘‘(17)
نطشے(Neitzsche) قدیم یونانی دیوتائوں میں سے ڈائیونس(Dionys) کی جبلی قوتوںکے حوالے سے فوق البشر کانظریہ پیش کرتا ہے اور اپالو(Appolo) کو منطق اور عقل کے ساتھ ساتھ سکون و آرام کی علامت کے طورپر پیش کرتا ہے۔ انھی علامتوں کی تفسیر کرتے ہوئے وہ عوامی اخلاقیات میں محکومیت اور حاکمیت کے حوالے سے تفریق پیداکرتا ہے، غلامی لوگوں میں ہمدردی، پیاراور عجز تو پیداکرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یا اس کے زیراثران میں خوئے غلامی کو اس قدر راسخ کردیتی ہے کہ ان کی زندگی اپنی مرضی سے بسرکرنے کی خواہش سے خالی ہوجاتی ہے جوفرد کے اپنے وجود سے اثبات کی بجائے اس کی نفی کی مریضانہ حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ دوسری طرف حاکمیت حکمرانوں کے افکار و اعمال میں جلال، تمکنت، شکوہ یہاں تک کہ غرور اور تکبرکے منفی اوصاف پیداکردیتی ہے لیکن ایسا فرد ہی زمین کا بوجھ اپنے کاندھوں پراٹھانے کا اہل ہوتا ہے جو اپنی ذات کے اسرار سے واقف ہوتا ہے۔ تحرک، فعالیت اور عزم اس کی شخصیت کے نمایاں جوہرہوتے ہیں۔ نطشے تو وجود کی اہمیت منوانے میں خداکی موت کے اعلان کی حدتک جاپہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس کی وجودیت الحادکاشکارہوگئی اور اس نے فوق البشر کی انتہاکردی جب اس نے دنیا میں قدرکامعیار قوتِ محض کو گردانناشروع کردیا۔ اس کے خیال میں بشرفوقیت کے اس ارفع مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت متحرک رہتا ہے یا اسے متحرک رہناچاہیے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی انفرادیت اور بے انتہا طاقت کے ادراک اور اس کے حصول کے ساتھ ساتھ استعمال کا جذبہ اس کے رگ و پے میں بجلی کی طرح دوڑتا رہے۔ کرکے گاراورنطشے میں یہی فرق ہے کہ کرے گار وجود کے حوالے سے خدا کی معرفت کا متمنی تھا جبکہ نطشے نے خداکی ذات کی نفی میں فرد کے وجودکااثبات تلاش کیااور عدمیت کا شکارہوگیا۔(18)
مارٹن ہائیڈیگر(Martin Heidgger) انسان کی ہستی یا وجود کوDesein کہتا ہے۔ اس کا مثالی فرد کسی روحانیت یامابعدالطبیعیات کو خاطرمیں نہیں لاتا۔ اگرچہ وہ دنیامیں اپنی مرضی سے نہیں آتامگر اسے ہر وقت یہی فکررہتی ہے کہ اسے کسی بھی لمحے مرجانا ہے لیکن اس کا یہی احساس اسے دوسرے جانداروں پر فوقیت دیتا ہے۔ یعنی ہائیڈیگر انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا قائل ہے۔ تاہم اس کا سفر لاشے سے لاشے کی جانب ہے۔ اس سفر میں اس کی فکر مندیاں اور طرح طرح کے خوف اس کے اندر امکانات کے در وا کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بقا کی جدوجہد پراپنے آپ کو مجبورپاتا ہے۔ اس طرح روزمرہ معمولات میں اندیشے اور واہمے اس کے قریب نہیں آتے۔ ایسی حالت میں انسان کا وجودانبوہ سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت بھی حاصل کرسکتا ہے اور زمانے کی لگامیں تھام سکتا ہے مگر یہ کیفیت بھی دائمی نہیں ہوتی اور اپنے آپ کو ایک بارپھر لاشیئت کے مقابل پاتا ہے۔
وجودہائیڈیگر کے نزدیک ایک حقیقت ہی نہیں سوال بھی ہے۔اس کے اندر بے پناہ جبلی و تخلیقی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ جس کی مددسے یہ دنیاکوآباد اور بربادکرسکتا ہے۔(19)
کارل جیسپرز(Carl Jaspers) کے افکار کا لبِ لباب یہ ہے کہ وجود (Existence) معروضی ہستی(Dasien) کی ایسی صورت ہے جو ہرلحظہ تکمیل پذیرہے۔ معروضی ہستی آپ اپنی تخلیق پرقادر ہے۔ وجود کی آزادی ماورائیت کی دین ہے۔ ماورائیت اور وجود لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر دونوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وجود کی حقیقت کا ثبوت بہم پہنچانا ناممکن نہیں اگرچہ یہ فنانہیں ہوتا اورنہ ہی اسے کسی ا ور وجود سے تبدیل کیاجاسکتا ہے۔
ان افکار سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ جیسپرز نے کرکے گارد، نطشے اور ہائیڈیگر کے افکار میں توازن پیدا کرنے کی سعی کی ہے اور انھیں عقل کی کسوٹی پر بھی پرکھا ہے۔ عقل و خرد کو کام میں لاتے ہوئے وہ فلسفے اور سائنس کی حدود پربھی بحث کرتا ہے۔ سائنس تجربات پرانحصارکرتی ہے اور ان سے اپنے نتائج اخذ کرتی ہے۔ اس لیے مطلقیت اور کاملیت اس کی دسترس سے باہررہ جاتے ہیں۔ ہستی کی ماورائیت اسے مطلقیت اور ہمہ گیریت کے قابل بناتی ہے چنانچہ ہستی یا وجود کلیت اورمطلقیت کے ادراک کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے امکانات کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنی حدود سے بھی باہرنکل سکتا ہے۔
جبریل مارسل(Gabriel Marcel) عیسائی وجودیت کا نمایاں ترین وجودی مفکر ہے۔اس کا شمار فرانسیسی زبان کے اہم ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔اس نے سارترکے نکتہ نظر پرقابلِ لحاظ تجزیاتی تحریریں لکھی ہیں۔ اس نے اپنی کتابExistence et existentialisme (1925)میں پہلی بار فرانسیسی ادب میں وجودیت (Existentialism) کی اصطلاح متعارف کروائی۔ وہ فرد کے وجود کو اہمیت دیتا ہے لیکن اس کے خیال میں فردکائنات میں موجود ضرور ہے لیکن اس کا وجود ہستی کے طور پر ہے البتہ معروضیت اور موضوعیت کا امتیاز فرد کی اپنی سوچ کی پیداوار ہے۔اس سوچ یافکر کے دومراحل یاقسمیں ہیں۔ پہلی فکر طے شدہ طبعی حقائق کی روشنی میں وجود کو طبعیات، کیمیا، نفسیات اور فعلیات کے حوالے سے تجزیہ کرتی ہے۔ یہ فکر کی ناقص سطح ہے۔ اس مرحلے پر فکرِانسانی وجود کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یہ پوست یا گودے تک صرف چھلکے یا خول سامنے رکھ کر پہنچنے کی کوشش ہے۔ دوسرے پہلو سے مطالعہ وجود کی گہرائی کو منعکس کرتا ہے۔ یہ طریقہ یا مشق کسی وجود کے اسرارمنکشف کرتی ہے جس سے وجود کے اندر’’میں‘‘کااحساس پیداہوتا ہے۔ اپنی تمام ترصعودی اور نزولی کیفیات کو سمیٹتے ہوئے کسی وجود کو مارسل کے نزدیک ادراک ہوتا ہے کہ”I am What I am” جو حقیقتِ مطلق کی تخلیق شدہ کائنات کے ایک اور طرح مقابل ہے، اس طرح نہیں جیسے وہ اپنے جسم اور اپنی زندگی کے مقابل ہے۔ لیکن ایسا ’’میں‘‘حقیقتِ مطلق پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔(20)
بعض فرانسیسی ناول نگاروں مثال کے طورپر جین کیرول(Jean Cayrol) اور لوس استنگ (Lue Estang)پرجبریل مارسل کے افکار نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
بہت سے ایسے وجودی بھی ہیں جنہیں عام طورپر مفکروں میں شمارنہیں کیاجاتا لیکن انھوں نے اپنی ادبی تحریروں سے وجودیت کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ ان لکھنے والوں میں چیکوسلوویکیہ سے تعلق رکھنے والا فرانزکافکااور روسی ناول نگار دوستؤ فسکی زیادہ نمایاں ہیں۔ کافکااکثرایسے کردارتخلیق کرتاتھا جو ماورائے حقیقت ہوتے اور جومایوسی اور لایعنیت سے نبردآزما رہتے۔ فرانزکافکا کے مشہور اور نمائندہ ناول The Metamorphosis اور The Trial اسی رجحان کے عکاس ہیں۔
دوستؤفسکی کے ناولNotes from Underground ایک ایسے انسان کی طویل کہانی ہے جو معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کے قابل نہیں ہوتا اور اپنی ان عادتوں کی وجہ سے اپنے آپ سے ناخوش رہتا ہے جو عادتیں وہ اختیار کرتا ہے۔
دوستؤفسکی بھی مسیحی وجودیت کا بڑاپرچارک تھا۔ اس کے دوسرے ناولCrime and Punishmentکی کہانی لادین وجودیت کے مقابلے میں مسیحی وجودیت کی عکاس ہے جس کا مرکزی کردار راسکونی کوف وجودی بحران سے گزرتے ہوئے دنیا کودوستؤفسکی کے اسی زاویے سے دیکھتا ہے۔
ژاں پال سارتر غالباًسب سے زیادہ جاناپہچانا وجودی ہے۔ وہ ان چندادیبوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے آپ کو وجودی کہلواناپسند کیا۔ سارتر وجودیت سے متعلق اپنے فلسفے کو استوارکرتے ہوئے ہسرل(Husserl) اورجرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر کے افکار سے متاثرہوا تھا۔ سارتر کی Being and Nothingness کو وجودیت کے بارے میں سب سے اہم تصنیف خیال کیاجاتا ہے۔ سارتر اپنے خیالات اور افکار کو مختلف الجہات اصناف اور فنون کے ذریعے فروغ دینے پرقادرتھا۔ اس کے فلسفیانہ مضامین، خطبے، ناول اور ڈرامے اس کی تخلیقی اورذہنی اپج کے آئینہ دار ہیں۔No Exit اورNausea اس کی نمائندہ تحریریں ہیں۔1960 ء میں اس نے اپنی تصنیفCritique of Dialectical Reason میں مارکسیت کو وجودیت سے ہم آہنگ کرنے کی فکرانگیزکوشش بھی کی تھی۔ آزادی اور ذمہ داری کا احساس اس کی تحریروں کے نمایاں موضوعات تھے۔(21)
سارتر خدا کے وجود سے بظاہر انکار کرتا تھا لیکن وہ معروف معانی میں دہریانہیں تھا۔ وہ براہِ راست خدا کی ہستی کے انکار کی بجائے یہ کہا کرتا تھا کہ خدا کے وجود کو مان بھی لیا جائے تو اس سے انسان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس کی دہریت منفی نہیں لگتی تھی کیونکہ اس میں اثبات کا پہلو بھی تھا۔وہ انسان پر زور دیتا تھا کی اسے اپنا کردار، اپنی ہستی کا ادراک اور اپنی رائے مکمل آزادی کے ساتھ متعین کرنی چاہیے۔(22)
البیر کامیو(Albert Comus) ایک زمانے تک سارترکادوست تھا۔ دوریاں پیداہونے تک وہ وجودی موضوعات پر The Rebel ،The Stranger اورSummer in Algeirsجیسی تحریروں سے وجودی ادب کو مالامال کرچکاتھا۔ کامیو بھی بہت سے دوسرے ادیبوں کی طرح وجودیت کے لیبل کے بغیر اپنی تصنیفات کو لایعنیت کا سامناکرنے والے انسانوں سے متعلق سمجھتاتھا۔ The Myth of Sisyphus میں کامیو نے ایک یونانی اسطور کی مثال سے وجودکی بے مصرفیت کو واضح کیاتھا۔ اسطورکے مطابق سسی فس ہدایت کے حصول میں ناکام رہاکیونکہ جونہی وہ ایک چٹان کو گھسیٹتا ہوا پہاڑکی چوٹی تک پہنچتا تو چٹان لڑھک کر پہاڑ سے نیچے آجاتی۔ کامیوسمجھتا ہے کہ وجودبے کار سی شے ہے لیکن سسی فس بالآخراپنی کوشش کے معانی اور مقصد سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے اور اپنی کوشش جاری رکھتا ہے۔(23) کامیو شاید دل سے سمجھتا تھا کہ ’’انسانی زندگی مہمل ہے۔‘‘ مہمل (Absured) سے اس کی مراد یہ نہ تھی کہ ’’ہم زندگی سے متعلق استدلال نہیں کر سکتے اور نہ علت اور معلول کے درمیان استدلالی روابط کا کھوج لگا سکتے ہیں۔‘‘ اس کے نزدیک یہ لفظ آدمی کی خواہشات اور کائنات کے سکوت کے مابین تضاد کو واضح کرتا ہے۔
کامیو کے علاوہ آینسکو(Ionesco) ،سیمو ئیل بیکٹ(Samuel Becket) ،ژاں ژینے (Jean Genet) ، ارابل(Arrabel) ،پنٹر(Pinter) اور ایلبی(Albee) کے ڈرامے بھی لایعنیت یالغویت ہی کا تاثرپیداکرتے ہیں۔
سائمن ڈی بوار(Simon De Bouvoir) ایک اور اہم وجودی ہے جس نے اپنی عمرکاایک حصہ سارتر کی معیت میں بسرکیا۔ اس نے تانیثیت اور وجودی اخلاقیات پرThe Second Seaاور The Ethics of Ambiguity جیسی تحریریں چھوڑی ہیں۔ سائمن ڈی بوار،سارتر کے زیرِسایہ رہنے کے باعث وجودیت کے حوالے سے بہت نمایاں نہ ہوسکا۔ اس نے ایسے دور میں تانیثیت کا علم بلندکیا جب اس کاکوئی ذکر بھی نہیں کرتاتھا۔ اس وجہ سے وہ کامیو کی طرح اپنے دوسرے دوستوں کے مقابلے میں تنہائی کا شکار بھی ہوگیاتھا۔(24)
فرازفینن کو بھی وجودی کہاجاتا ہے۔ جس نے افتادگانِ خاک جیسی شہرہ ٔآفاق کتاب تصنیف کی۔ اسے جمالیاتی وجودی بھی کہاجاتا ہے۔
اقبال اور وجودیت
اقبال کے مذہبی اور فکری سلسلے ایک طرف نطشے اور برگساں کے افکار سے ملے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ رومی، غزالی اور امام ابن تیمیہؒ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ مشرق و مغرب کی فکری آویزش اقبال کے تصوراتی انسان اور معاشرے کا پیکر تراشتی ہے۔ یہ انسان ان کے نزدیک انسانِ کامل ہے اور اس کی تمام تر توانائی تسخیرِ فطرت پرمرکوز ہے۔ اس انسانِ کامل کو نطشے کے سپرمین سے مشابہ قراردیاجاسکتا ہے۔ نطشے کا سپرمین کائنات پرغلبے کی قوت رکھتا ہے۔ وہ حقیقت میں معنیٔ کائنات ہے۔ وہ سپرمین کو مسرت کی روشنی کہتا ہے اور اسے انسانی انتہاقراردیتا ہے۔ نطشے کا سپرمین اورمردِ خدا از سرِنو زندہ ہوجانے والی علامتیں ہیں لیکن ان علامتوں کی بازیافت کی پہلی کڑی انسان کی اپنے ذاتی وجود سے آگاہی ہے کیونکہ انتشار، اضطراب اور تضادات کی اس وسیع کائنات میں انسانی شعور ایک طرف زمان و مکاں کی وسعت کا تجربہ کرتا ہے تو دوسری جانب اسے اپنے عدم تحفظ کا بے پایاں احساس ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ اس کائناتی دائرے کا مرکزی نقطہ کہاں ہے اور اس کا یوں زمان ومکاں کا اسیرہوکرجبرکی زندگی بسر کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اقبال کی شاعری وجودکے اسی مرکزی نقطے کے گردگھومتی نظرآتی ہے۔ وہ کبھی خودبیں، کبھی خدابیں ، کبھی جہاںبیں اور کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان فکری تضادات سے اس کے ہاں عمل اورردِ عمل کی مسلسل رسہ کشی دکھائی دیتی ہے ؎
اک اضطرابِ مسلسل غیاب ہو کہ حضور
میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں
(کلیاتِ اقبال، ص53- )
یہ اضطراب اقبال کی وجودی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کے پس منظر میں انسانی جبلتیں، سماجی تضادات، فکری تذبذب اور انسانی زندگی کے فناہوجانے کا خوف چھپاہوا ہے۔ چنانچہ اقبال اس اضطراری حالت کا کھوج لگانے کے لیے مکالماتی اندازمیں کہتا ہے ؎
میں نے پوچھا اس کرن سے اے سراپا اضطراب!
تیری جانِ نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب؟
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خُو ہے ، کیا ہے یہ
رقص ہے ، آوارگی ہے ، جستجو ہے ، کیا ہے یہ
( کلیاتِ اقبال،ص226- )
اضطراب کا یہ مسلسل عمل اقبال کی شاعری میں ایک پیچیدہ سوال بن کر یوں سامنے آتا ہے ؎
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بے تابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
(کلیاتِ اقبال،ص460- )
o
مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا
آرام قلندر کو تہِ خاک نہ آیا
(کلیاتِ اقبال،ص553- )
اقبال کے ہاں اس اضطراب اور پریشانی کے اسباب ان کی ذاتی زندگی میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں تاہم اس سے کہیں بڑھ کران کا یہ اضطراب اس احساس سے جڑا ہوا ہے کہ وہ ایک غلام قوم میں پیدا ہوئے۔ فکری سطح پر وہ مذہبی اور سماجی نظام کی آویزشوں کو دیکھ کر مضطرب ہوئے۔ اپنے اس اضطراب کو انھوں نے فلسفیانہ سطح پر دریافت کیااورپھراسی دریافت کی روشنی میں اپنے وجود کی تلاش کے عمل کاآغازکیا۔جس میں اندیشے اور واہمے مسلسل ان کے تعاقب میںرہے۔ ایک گردابِ فنا میں اقبال کی حالت اس مضطرب ذی روح کی ہے جو اپنے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مارتا ہے۔طوفان کی دہشت اور موت کا خوف اس پر کپکپی طاری کرتا ہے۔ وہ اپنے وجود کوکسی مضبوط وجود سے وابستہ کرکے ہمیشہ کی زندگی کی آرزو رکھتا ہے۔ چنانچہ اقبال ہائیڈیگر کی طرح لیکن غیرمحسوس طورپر موت کی دہشت اور زندگی کے تسلسل پر غورکرنے کی عادت ڈالتاہے۔ ان کی نظمیںشمع و پروانہ،سیدکی لوحِ تربت پر،عشق اور موت، رخصت اے بزمِ جہاں موت کے ظالمانہ رویے کے اشارے ہیں۔ زندگی کی موت کے ہاتھوں شکست دیکھ کر وہ سوچتا ہے ؎
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کیا وہ جینا کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
(کلیاتِ اقبال،ص112- )
تم بتا دو روز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے
(کلیاتِ اقبال،ص71- )
بالِ جبریل کی نظمیںمسجدقرطبہ اورساقی نامہ میں اقبال یہ بتاناچاہتا ہے کہ زندگی خود موت کی گھات میں ہے اور عشق موت کا تریاق ہے۔’’نپولین کے مزارپر‘‘میں اقبال تسلیم کرتا ہے کہ جوشِ کردار زندگی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ زندگی فرصتِ یک دو نفس ہے۔
ضرب ِکلیم کی ایک نظم کا عنوان ہی موت ہے۔ جس میں اقبال کہتا ہے ؎
فرشتہ موت کا چھوتا تو ہے بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے
(کلیاتِ اقبال،ص578- )
حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
(کلیاتِ اقبال،ص582- )
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
(کلیاتِ اقبال،ص725- )
وجودیت کو انقلاب، تغیر، بحران، انحراف، انکار اور انفرادیت کے فلسفہ کے رنگ میں دیکھاجائے تو اقبال کا فلسفۂ خودی وجودی تناظرکے بہت قریب نظرآتا ہے۔
آغاز میں جب وجودیت نے یونانی فلسفے کی معروضیت اور تجریدیت کے خلاف آواز اٹھائی تو یونانیوں کا کہناتھا کہ کائنات کی سب سے بڑی میزان انسان ہی ہے لیکن شرفِ عظیم بے چارگی کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ اس عینیت پسندی نے بے عملی اور سکون پرستی کو جنم دیا تھا جو ترکِ دنیا اور ترکِ خواہش کے تجربے سے زندگی حاصل کرتی تھی۔ شرفِ عظیم کی بے چارگی اس کی سپردگی کا ایسا روپ تھا جو زندگی کے شعوری تعطل کا جواز بنتا ہے۔ چنانچہ انسان کو اس سپردہ کاری کے عمل سے باہرلاکر شخصی سطح پر زندہ رہنے کا درس دینابھی کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔
دوسری بارجب وجودیت نے جدید فلسفے کی عقلیت پسندانہ روایت کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ ڈیکارٹ کے اس جملے کے طواف میں تھی کہ’’میں سوچتا ہوں،اس لیے ہوں‘‘ اس ضرب المثل نے ڈیکارٹ کے تصورات کے حوالے سے انسانی عقل و فکر کو انسان کابنیادی جوہرقراردیاتھا۔ مادے کے وجود پراس فکری تجریدیت کے تسلط کا خاتمہ ہیگل کے جدلیاتی نظام کے ہاتھوں ہوا۔ ہیگل کی خواہش تھی کہ وہ عقلیت اور رہنمائی کو افلاطونی فلسفے کی روشنی میں ایک دوسرے کے مترادف قراردے۔ اقبال نے یہ کہا تو سہی کہ ع ہیگل کا صدف گہر سے خالی لیکن …فکری، عقلی اور مذہبی سطح پر ان مختلف نظام ہائے فکر سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں اندازہ ہوا کہ مختلف نظام ہائے فکر کا تجربہ بھی ان مسائل سے فرار کا ایک ذریعہ ہے جوانسانی آزادی کو غصب کرنے کا وسیلہ بنتے رہتے ہیں اور فرد واحد سے اس کے بنیادی حقوق چھین کر اسے پامال زندگی بسرکرنے پرمجبورکرتے ہیں۔ اس مجبوری میں ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب انسانی نظام، کائنات اور زندگی کی اصطلاحوں سے منحرف ہوجاتا ہے۔ اقبال اس نظام کو ابلیسی نظام قراردیتے ہیں جو انسان کو خوئے غلامی میں پختہ کرتا ہے اور سجدہ ہائے نیاز اس کا مقدربنارہتا ہے۔ تاہم اقبال ہیگل کے فلسفۂ حرکت اور فلسفۂ تعقل کے ان امور سے اتفاق کرتے ہیں جو حیاتِ انسانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
وجودیت کاتیسرامرحلہ اس خودساختہ کشیدگی اور احساسِ مغائرت کے حوالے سے سامنے آیا جہاں یونانی تہذیب عقلیت پسندی کے تجربے سے گزر کرنئے عہد میں آن پہنچی تھی۔ انسان ایک پیداواری شے کی صورت اختیارکرگیاتھا۔ ناپ تول کے اعشاری نظام، حسابات اور شماریات کے ذریعے سائنس والوں نے انسان کو بھی ظن و تخمین کے حوالے سے ناپناشروع کردیاتھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
(کلیاتِ اقبال،ص435- )
اس جدیدیت اور مادے کو بنیادبناکر ایک ایسی دنیاقائم کی گئی جو ایک معروضی دنیاتھی جہاں کسی شخص کا کوئی درجہ متعین نہیں تھا۔ ضروری تھا کہ بے شکل اور بے مقام ہوتے ہوئے اس انسان کو واپس لایاجاتا جسے ایک بے جان پرزہ سمجھ لیاگیاتھا۔ وہ بھول چکاتھا کہ اس کا وجودِ ذاتی کیا ہے؟ اس کی آزادی کے کیا معنی ہیں اور وہ دھیرے دھیرے قریب آتی موت کی دہشت سے کس طرح چھٹکاراپاسکتا ہے۔ وجودیت کا کہنا تھا کہ انسان کو منتشر حالات سے آزاد ہوکرتکلیف دہ خودکار اطاعت سے بچناچاہیے تاکہ ہم اپنے اندرونی مسائل پرسنجیدگی سے غورکرسکیں اور خودمختاری کے معنی سے آگاہ ہوسکیں۔
اسی بات کو اقبال نے اپنے فلسفہء خودی کی روشنی میں یوں بیان کیا ہے ؎
خودی کے نگہباں کو ہے زیر آب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
فرو فالِ محمود سے در گزر
خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر
(کلیاتِ اقبال،ص456- )
فرد کی آزادی اور اس کا امکان وجودی فلسفے کا بنیادی نکتہ ہے۔ جس کی پہلی کڑی آزادیٔ رائے اور اور آزادیٔ اظہار ہے۔ یہ آزادی وجود کو اعتبار بخشتی ہے اور انسانوں کو چیزوں سے ممتازکرتی ہے۔ یہ آزادیٔ رائے انتخاب کا عمل یا فیصلہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے آپ کو دریافت کرتا ہے۔مولانا رومؒ کا کہنا ہے کہ کوشش کر اور اپنے آپ کو بے خودی میں پالے۔ یہ انسان کی دریافت کا بنیادی نکتہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں ؎
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
(کلیاتِ اقبال،ص528- )
وجودیت کی اصطلاح سے اس کی الگ پہچان ضرور ممکن ہوئی لیکن وجودیت اور وجودی ھبوطِ آدم کے ساتھ ہی دنیامیں آئے یعنی ع مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی،کے تجربے سے سب سے پہلا آدمی بھی دوچارہوا۔ اس لیے اقبال جیسے فطری شاعر پروجودیت کے اثرات اور آثار وجودی نہ ہونے کے باوجود تلاش کرناکوئی مشکل نہیں تاہم اقبال کی تحریروں میں وجودی افکارسے غیرمحسوس اور غیرارادی انحراف بھی پایاجاتا ہے جیسا کہ وجودی نظریۂ ارتقا پر غورکرنابھی بے کار سمجھتے ہیں جبکہ نظریۂ ارتقا اقبال کے فکری نظام کا لازمی جزو ہے۔ وجودی صرف فرد کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ نسل، رنگ، زبان کو قابل اعتنا نہیں گردانتا۔’’وہ برہمن جس کو اپنے شرفِ ذات کا غرّہ ہے اگر ہر روز ایک اچھوت کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہونے لگے تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کیسا زبردست انقلاب رونماہوجائے گا۔‘‘(25) وہ کسی وقوعے کے احسا س کو کسی فرد کی پہلے سے وہاں موجودگی کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ حیوان سے انسان بننے کی کیفیت سے انکاری ہے جبکہ اقبال کے فلسفے کے مطابق انسانی تاریخ میں انسان موجودہ حالت میں جبلّی کیفیتوں سے گزرکر پہنچا ہے اور عبادت کے لیے مخصوص سمت کے انتخاب اور باجماعت نماز سے’’اس تمناکااظہار بھی مقصود ہے کہ ہم ان امتیازات کو مٹاتے ہوئے جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں اپنی وحدت کی ترجمانی کریں۔‘‘(26)
وجودی کہتے ہیں کہ انسان وہی کچھ ہے جیسا وہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے مقدر پراسے مکمل گرفت حاصل ہے۔ وہ خدا جیسا نہیں تو اس سے کم بھی نہیں لیکن آزاد نہیں۔ وہ آزادہوبھی نہیں سکتا۔ وہ آزاد رہنے کے لیے بنایانہیں گیا۔ دوستؤفسکی کے ناول سزا وجزا کا مرکزی کردار سکولنی کوف اپنی آزادی اور اختیار کو آزمانے کے لیے ایک بوڑھے کو مارڈالتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے اس قتل کا اعتراف کرناپڑجاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال سے کسی کو سابقہ پڑے تو وہ خوداپنی ذات کو منوانے کے لیے خودکشی بھی کرسکتا ہے۔
کسی فرد کی آزادی کے بارے میں اقبال کا اندازِ نظر وجودیوں سے کسی حد تک مختلف یوں ہے کہ اقبال فرد کی لامحدود آزادی کا ہمنوا نہیں بلکہ اس کا خیال ہے کہ ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرلے
(کلیاتِ اقبال،ص278- )
کسی نے کہہ رکھا ہے کہ آپ ایک وقت میں ایک ٹانگ تواٹھاسکتے ہیں لیکن اسی وقت دوسری ٹانگ نہیں اٹھاسکتے۔
اقبال کے خیال میں خیروہ نہیں جو کسی شدیدمجبوری کے سبب پیداہو۔ خیرذات کاآزادانہ طورپراخلاقی آدرشوں کو قبول کرنے کا نام ہے۔ خیرکی تمنا دو خودیوں کے درمیان اپنی مرضی سے ابھرتی ہے۔ ’’خیرمیں جبر کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا…آزادی خیرکی شرطِ اوّلیں ہے۔‘‘(27)
سارترکوانسانی زندگی پوری طرح جبریت یامکمل طورپرعدم جبریت کامظہرلگتی ہے لیکن وہ ان دونوں صورتوں میں مکمل عدم جبریت یعنی فرد کی کامل آزادی کاحامی ہے۔ وہ آزادی کے جذبے اور مقصد کے تعین کو انسان کے لیے لازمی قراردیتا ہے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے آزاد ہے۔ جبکہ اقبال کا کہنایہ بھی ہے کہ خودی کی کارفرمائی میں رہنمائی اور سمت نمانگرانی کا عنصرواضح کرتا ہے کہ خودی ایک آزادانفرادی علّت و معلوم ہے۔’’اگر ایسانہ ہو تولفظِ تخلیق بے معنی ہوجائے گا کیونکہ ہم خودبھی کچھ نہ کچھ کرنے کے اہل ہیں۔‘‘(28)
اقبال زوردیتا ہے کہ زندگی دراصل مقاصداور نتائج کو اپنی مرضی کی صورت دینا ہے اور پھرانھی کے تابع رہنا ہے۔ ذہنی زندگی ان معنوں میں غایاتی ہے کہ جب ہمارے سامنے کوئی ایسادور ازکار مقصد نہ ہو جس کی طرف ہم پیش قدمی کرتے رہے ہوں تو زندگی کا عمل پھربھی ارتقاپذیرہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نصب العین اور اخلاقیات کے درجے بھی ارتقاپذیراوروسعت پذیرہوتے جاتے ہیں لیکن اس راستے کا تسلسل کسی نظام کے تابع ہے۔ معاملات کے تجزیے میں بظاہر اچانک تبدیلیوں کے باوجود اس کے مختلف مدارج ایک دوسرے کے ساتھ نامیاتی طورپرباہم پیوست ہوتے ہیں۔ فردکی زندگی کی تاریخ مجموعی طورپر یگانگت کا نام ہے اور اس کی زندگی محض باہمی غلطی سے اختیارکردہ واقعات کا سلسلہ نہیں ہے۔’’خودی کی زندگی اختیارکی زندگی ہے جس کا ہرعمل ایک نیاموقع پیداکردیتا ہے۔‘‘(29)
می شود از بہرِ اغراضِ عمل
عامل و معمول و اسباب و علل
(کلیاتِ اقبال فارسی،ص33- )
وجودیت کا غالب رجحان الحادی ہے۔ سارتراورہائیڈیگراسی طرح کی وجودیت کے پیروکارہیں مگر اقبال کا فلسفہ الحادی نہیں موحّدانہ ہے۔ ملحدوجودی کسی طرح کی اقدار، اخلاقیات اور مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے خیال میں زندگی بس یونہی مل جاتی ہے اور اس کا کوئی مقصدنہیں ہے نہ ہی اس کی آزادی کوئی معنی رکھتی ہے۔ اسی حوالے سے زندگی لایعنی ٹھہرتی ہے۔ ان کے مقابلے میں اقبال قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے:
وَمَا خَلَقْنَاالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ m مَاخَلَقْنٰھُمَآاِلَّابِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَ کْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَm
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان کے درمیان میں ہے عبث نہیں بنایاm ہم نے انھیں حکمت ہی سے بنا یاہے لیکن اکثرلوگ نہیں سمجھتےm (۳۹۔۳۸:۴۴؍سورۃ الدّخان)
ایک اور جگہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ:
وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرmاِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاْولِی الْاَلْبَابِm
اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمینوں کی سلطنت اور اللہ اس شے پرپوری قدرت رکھتے ہیںmبے شک آسمانوں کے، زمین کے بنانے میں اوررات اور دن کے یکے بعد دیگر آنے جانے میں دلائل ہیں اہلِ عقل کے لیےm (۱۹۰۔۱۸۹:۳؍سورۃ آلِ عمران)
اقبال ان وجودیوں کے مقابلے میں اس بات کے قائل ہیں کہ زندگی مقصد سے خالی نہیں۔ قادرِ مطلق نے انسان کو دنیامیں انفرادی اور اجتماعی طورپرکوئی اہم کرداراداکرنے کے لیے بھیجا ہے اور اس کے لیے ایک نظام بھی وضع کیا ہے۔ خدا نے انسان کو اپنا نائب بناکربھیجا ہے۔ ’’شخصیت کا یہ بارِ گراں ایک امانت ہے جسے آسمانوں اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کردیاتھا مگر جسے انسان نے خوداپنے آپ کو خطرے میں ڈال کراٹھایا۔‘‘(30)وجودی انسانی مزاج کے مختلف عناصراورمظاہرکا مطالعہ کرتے ہیں جیسے ناراضگی، احساسِ جُرم، افسردگی، تشنج، دہشت، لاچاری، کھنچائو، تنائو جن سے انسان کی فطرت کے بارے میں کائنات کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے ع
زندگی کیا ہے غم کا دریا ہے
اقبال کے خیال میں’’ارتقا کا راستہ…عالمگیردکھ درد اور ظلم و عدوان کا راستہ ہے۔‘‘(31)
اس طرح وجودی انسان کی آزادی بھی الم انگیز دکھائی دیتی ہے کیونکہ انسان اپنی پیدائش کے وقت، مقام اور خاندان کے انتخاب میں آزاد نہیں ہے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ جب وہ شعور کی منزل کو پہنچتا ہے تو خودکوایک مخصوص صورتِ حال میں پاتا ہے جو اس کی تخلیق کی ہوئی نہیں ہوتی اور وہ خودہی ہرطرح کے شیطانی وسوسوں، عادتوں اور عملوں کا اور ان کے نتائج کا بھی ذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسی دنیامیں زندگی گزارنے پرمجبور ہے جس کے بارے میں وہ پہلے سے کچھ نہیں جانتا اور جب عمربھر کے تجربے کے بعدجاننے لگتا ہے تو موت قریب کھڑی ہوتی ہے اور دوبارہ زندگی ملنے کاکوئی امکان نہیں ہوتا۔ موت کا وقت، مقام اور طریقہ بھی اس کے علم یا اختیارمیں نہیں ہوتا۔ اس کے اعمال کے نتائج کی پیش گوئی بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اس کی خوش قسمتی اوربدقسمتی کا انحصار بھی اس کے اپنے اعمال اور تجربوں پرہوتا ہے۔ ان حقائق سے وجودی یہ نتیجہ نکالنے پرمجبورہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے احساسِ جرم کا شکارہے جس سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا چنانچہ اس کی افسردگی، مایوسی اور اضطراب جائز ہے۔ عیسائی عقیدہ بھی یہی ہے کہ انسان گنہگار پیدا ہوتا ہے اور گناہ اس کی اصل ہے۔اقبال اس منظرنامے کو ردکرتا ہے۔ وہ رجائی ہے اور امنگوں بھری زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے لیکن وہ خدااور شیطان دونوں کے وجودکااثبات چاہتا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
(کلیاتِ اقبال،ص251- )
یہ شعراقبال کے مزاج میں توازن اور فکرمیں میانہ روی کاپتادیتا ہے۔ وہ رجائیت اور یاسیت دونوں طرح کی کیفیات کو انسانی نفسیات کا حصہ گردانتا ہے۔ رجائیت پسند برائوننگ کے نزدیک دنیا میں سب کچھ اچھے کے لیے ہوتا ہے اور یاسیت پسند شوپنہار کے نزدیک دنیامسلسل برفانی موسم کی زد میں ہے جہاں اندھا ارادہ زندگی کی مختلف صورتوں کی لاانتہاقسموں میں اپناظہورکرتا ہے جو ایک لمحے کے لیے ظاہرہوتی ہیں اور پھرہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتی ہیں۔ رجائیت اور یاسیت کا معاملہ کائنات کے بارے میں ہمیں ہمارے علم کی اس سطح پرفیصل نہیں ہوسکتا۔ ہماری ذہنی ساخت ایسی ہے کہ ہم چیزوں کو صرف حصوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ان عظیم کونیاتی قوتوں کے اثرات کا احاطہ نہیں کرسکتے جو بیک وقت زندگی کو وسعت دیتی اور قوت بھی فراہم کرتی ہیں اور اسے تہ و بالا بھی کرتی ہیں۔ قرآنی تعلیمات نہ رجائیت بھری ہیں نہ یاسیت پسندانہ جو انسان کے رویے میں بہتری کے امکان اور فطرت کی قوتوں پراس کی فوقیت پریقین رکھتی ہیں۔ (32) یہ اصلاح پسندی ہے جو تسلیم کرتی ہے کہ کائنات ابھی وسعت پذیر ہے اور جوانسان کی شیطان پر حتمی فتح کی امید میں متشکل ہوتی ہے ؎
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
(کلیاتِ اقبال،ص364- )
ایک اور مقام پر اقبال نے کہا ہے کہ ؎
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
(کلیاتِ اقبال،ص391- )
اس سے زیادہ امید افزا خیال کیا ہوگا کہ ؎
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
(کلیاتِ اقبال،ص378- )
جبرئیل مارسیل وجودیت کے مذہبی عنصر کاپیروکار تھا۔ شروع میں وہ ہیگل کی فعالیت پسندی کے زیرِ اثر تھا جسے بعدازاں اس نے تنقیدکانشانہ بنایا۔ اس کے وجودی افکار موضوع و معروض، روح و جسم، من و تو، خداوخودی کی دوئیوں کے گردگھومتے ہیں۔
مذہبی وجودی یہ سمجھتے ہیں کہ مل کر عبادت کرنے سے فرد کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ انھیں یقین ہے کہ جب کوئی فرد اکیلاعبادت کرتا ہے تو اس کا انہماک اتناگہراہوتا ہے کہ وہ اپنی روح میں ڈوب جاتا ہے۔ وجودی ہمیشہ من و تو کے ذریعے مکالمہ کرتے ہیں اور ہم، وہم سے گریز کرتے ہیں۔ میانہ رو اقبال باجماعت نمازپرزوردیتے ہیں اورفرد کو اکیلے میںعبادت کی بھی تلقین کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ نمازکااصل مقصدبہتر طورپراس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب نماز کا عمل باجماعت ہو۔ ہر سچی عبادت کامنشاسماجی نوعیت کاہوتا ہے۔ اجتماع انسانوں کی ایک تنظیم ہے جو ایک ہی جگہ صورت پذیر ہوکر ایک ہی مقصد پرمل کرمنہمک ہوتے ہیں اور اپنے باطن کو ایک جذبے کے ساتھ ایک دوسرے پرظاہر کرتے ہیں۔
اقبال نے وجودیوں کے اس تصورکی نفی کی ہے کہ اجتماعی عبادت توجہ کو متاثرکرتی ہے۔اقبال کے خیال میں یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ باہمی تعلق عام انسان کی عقلی قوت میں اضافہ کرتا ہے، اس کے جذبات کو گہرا کرتااور اس کے ارادے کو اس کی انفرادی تنہائی میں اس حدتک متحرک کرتا ہے جس کا اسے خود علم نہیں ہوتا ۔
اقبال کے نزدیک باجماعت نماز پڑھنے سے اسلام کے معاشرتی اصول کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اسلام انسانی مساوات پرزوردیتا ہے اس طرح کی مذہبی عبادت یعنی باجماعت نمازپڑھنے سے معاشرے کے مغروراور رتبے کا خیال رکھنے والوں کے غروراور رتبے کا انسداد کرتے ہیں۔’’بحالتِ اجتماع ایک عام انسان کی قوتِ ادراک کہیں زیادہ بڑھ جاتی اور اس کے جذبات میں کچھ ایسی شدت اور ارادوں میں وہ حرکت پیداہوتی ہے جو دوسروںسے الگ تھلگ رہنے میںہرگز ممکن نہیں۔‘‘(33)
اقبال کے نزدیک جماعت فرد سے برتر ہے۔ معاشرہ ایک فرد کو اپنی صلاحیتوں کے آزادانہ اورمنصفانہ اظہار کے مواقع مہیاکرتا ہے۔ اتحاد، اتفاق اور یگانگت کے بغیر انسان کی کوئی وقعت نہیں ؎
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
(کلیاتِ اقبال،ص217- )
o
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطرۂ وسعت طلب قلزم شود
(کلیاتِ اقبال فارسی،ص99- )
مذہبی انفرادیت کاپرچارکرنے والے وجودی خودفریبی کا شکارہوتے ہیں۔ وہ خودساختہ افسردگی اور دل برداشتگی کا روناروتے رہتے ہیں اور انسانوں کو خدا سے دل گرفتگی اور شکایات پرمائل کرتے ہیں۔ وہ انسانوں کی انسانوں سے دوری پر خوش ہوتے ہیں۔ اقبال ان کے مقابلے میں خدا، معاشرے اور فرد کی اپنی اپنی اہمیت کا احساس رکھتا ہے۔
سیاسی طورپر وجودی انفرادیت کے معاملے میں شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی انفرادیت معاشرے کو طوائف الملوکی اور انتشار کا شکار کرسکتی ہے۔ اقبال کا نقطۂ نظر اس بارے میں بھی متوازن ہے ؎
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں جاتا
(کلیاتِ اقبال،ص661- )
اقبال اپنی مثالی ریاست میں فرد کو اپنی صلاحیتوں کے پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع کی گنجائش کے حق کی وکالت کرتا ہے اور اس کے لیے ایک جامع اور مربوط سماجی نظام کی تشکیل پراصرار کرتا ہے۔ فرد اور معاشرہ ان کے مطابق ایک ہی لکیر کے دونکات ہیں لہٰذا انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ؎
فرد می گیردد ز ملت احترام
ملّت از افراد می باید نظام
(کلیاتِ اقبال،فارسی ص99- )
یاپھر ؎
فرد را ربطِ جماعت رحمت است
جوہرِ او را کمال از ملت است
(کلیاتِ اقبال،فارسی ص99- )
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
(کلیاتِ اقبال،ص93- )
بالاسطور میں اقبال کے خطبات کے جوحوالے باربارآئے ہیں ان سے پتاچلتا ہے کہ وجودیت کے علمبرداروں اور مفسروں سے متاثرہوئے بغیر آزادانہ طورپر اقبال ان محسوسات، معاملات، مشاہدات اور تجربات کو تخلیقی اور فکری سطح پر برتتا چلاگیا ہے۔ جیسا کہ اقبال نطشے کے الحاد کو رد کرتا ہے اور کرکے گار کے سچے فرد کی طرح خودکوہرلحظہ خداکے حضور محسوس کرتا ہے۔ کرکے گار ذاتِ خداوندی کے وسیلے سے انسان کو پہچانتا ہے۔ نطشے کے فوق البشر کی کوئی مذہبی اخلاقیات نہیں جیسے کرکے گارمذہب کو ایک قوت تسلیم کرتا ہے اور الوہیت کا پرچارک ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی خودی کی اہمیت تسلیم کرتا ہے۔ وہ انسان کو ہرلحظہ تغیرکا سامناکرتے ہوئے متحرک اور فعال تصورکرتا ہے۔ خودی کا فلسفہ تحر ک اور فعالیت ہی سے مملو ہے ؎
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا
برنگِ بحر ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا
(کلیاتِ اقبال،ص410- )
خودی کی پہلی منزل فرد کا اپنی باطنی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی انفرادیت کی پہچان اور اس کا تعین ہے تاکہ وہ داخلیت سے خارجیت کی طرف جست کے قابل ہوسکے اور اپنے ارادے اور اختیار کو بروئے کار لانے کے قابل ہوجائے۔ خدالگتی کہیے کہ کیا وجودیت اس لحاظ سے فلسفۂ خودی اور بے خودی کا بدل نہیں ہے اگرچہ اس فلسفے کی دیگر تفصیلات، تشریحات اور توضیحات میںتنوع بھی ہے اور اختلافات بھی ہیں۔ تاہم داخلی کیفیات میں فرد کا اپنے وجود کو دریافت کرنا وجودیت کی اساس ہے اور خودی کے فلسفے کی بھی تاہم اقبال وجودی معرفت پر رک نہیں جاتا بلکہ اس حوالے سے معرفت الٰہی کی منزل پاناچاہتا ہے۔
انفرادی حوالے سے اقبال نے خودی کو اپنے نفس اور اپنی ذات کے مکمل شعور کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس زاویے سے اقبال اور جدیدوجودیت کے بانی کرکے گارد اور کارل جیسپرز کے خیالات میں ایک حدتک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اقبال کے مطابق عرفانِ ذات، خدا کی معرفت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ اطاعتِ الٰہی، ضبطِ نفس اور نیابت الٰہی خودی کے تادیب وتہذیب کے تین مراحل ہیں۔ عبودیت میں گم ہوکر انضباط اور جذبات کی تہذیب سے گزرکر نفس کی سرکشی پرقابو پاکرانسان خدا سے ہمکنار ہوتا ہے اور اس سے بندے میں تسخیرکائنات کی الوہی صفات پیداہوجاتی ہیں اس سے انسان خلیفۃ اللہ کے حقیقی منصب پر فائزہوتا ہے جس کے انتظارمیں کائنات بے قراررہتی ہے۔ اقبال انفردی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پربھی ضعف اور نفیٔ خودی کا مخالف ہے۔ اس سے غلامانہ ذہنیت پیداہوتی ہے اور فرد اپنی بے بسی اور لاچاری کو فقراور درویشی کا نام دیتا ہے اور ان کی ایسی زیبائش کرتا ہے کہ اہل ہمت کو بھی اس کی تعلیم میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔ وحدانیت پرایمان دین و حکمت کا سرچشمہ ہے اور فرد اس سے ہر قسم کی قوت حاصل کرتا ہے۔ اس سے اس کا دل بے ہراس ہوجاتا ہے اور ہمت عالی ہوجاتی ہے۔ رسالت بصیرت کا منبع ہے۔ یہ انسانوں کو بے بسی اور ناطاقتی سے نجات دلاتی ہے۔ عشق اور حریت بھی محکومی اور غلامی کی نفسیات کے ساتھ انفرادی خودی کے تصور کا جزولاینفک ہیں لیکن اقبال نے عین اسلامی عقائد کے مطابق فرد اور جماعت میں توازن قائم رکھا ہے اور فرد کی نفسیات کو اس کشاکشِ دنیاوی میں جماعت کے مفادات سے الگ نہیں کیا۔ خودی کی تعلیم غلاموں کو احرار بناتی ہے اور ضعیفوں کو پیکار کی قوت بخشتی ہے اور اسی سے ارتقا کی راہیں کشادہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔خوئے غلامی سے فرداور قوم کو بچانے کے لیے اقبال نے اس طرح کے اشعار کہے ہیں ؎
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
(کلیاتِ اقبال،ص655- )
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کا بناتے ہیں بہانہ
(کلیاتِ اقبال،ص652- )
اقبال کا فلسفۂ بے خودی اقبال کے فلسفۂ خودی کی تکمیل کرتا ہے۔ فرد ایک قطرے کی طرح ملت کے دریا میں ملتا ہے لیکن اپنی ہستی فنانہیںکرتا۔ اس طریقے سے اس کی انفرادی خودی مزید استحکام پاتی ہے۔ ’’خودی کی ایسی صورت جو اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو نظراندازکرے، وہ تخریب اور بگاڑ کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا انسانی تجربے نے بتایا ہے کہ خودی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم رنگ قسم کی خودی(شعور)سے متحدہوجاتی ہے۔ یہاں سے ایک اجتماعی خودی کا تصور پیداہوتا ہے۔ جس طرح افراد کا شعور ایک جزو ہوتا ہے اسی طرح اجتماعی خودی کا شعور بھی انفردی خودی کے مانند ہم رنگ کے ساتھ شیرازہ بندہوجاتا ہے…کسی آئین کے بغیراجتماعی خودی پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور اس کے اجزاء یوں بکھرجاتے ہیں کہ فرد کی خودی بھی شدیدطورپرمتاثرہوتی ہے اور اس میں انتشارپیداہوجاتا ہے۔‘‘(34) انفرادی اوراجتماعی خودی ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ ایک طر ف فرد ملت کے آئین اورضوابط کی پابندی کرکے کسی قدر خودشکنی مگراصلاً ارتقا سے گزرکرملت کا بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے اور ملت کی اجتماعی قوت کا امین ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف ملت قوانین کو لاگوکرکے خودی کو تعمیری اور تخلیقی رو کا پابند بناتی ہے۔اجتماعی خودی کے لیے اقبال کی مثالی جماعت ہیئتِ اجتماعیہ اسلامیہ ہے۔ توحیداور رسالت کے تمام پہلو، خبریات اور متعلقات سے انسانیت کا ایک عالمگیر تصورممکن ہے اور اسی سے اجتماعی خودی تشکیل پاتی ہے۔انفس وآفاق دونوں کی ہم آہنگی اسلام کا مطمحٔ نظر ہے۔ خودی اور بے خودی باہم انجذاب سے انسان کو کائنات کی تسخیرکاسبق دیتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روح یہی ہے۔ سائنسی ترقی کے بغیرہئیت ملتِ اجتماعیہ اسلامیہ کا ارتقاء جاری نہیں رہ سکتا۔ اجتماعی خودی کی تشکیل اور ملت کے احساسِ خودی کی توسیع کے لیے علمِ کائنات اورتسخیرِ کائنات کے ساتھ تاریخ اور روایات کا تحفظ اور احترام بھی ضروری ہے۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لیے حافظے کا درجہ رکھتی ہے اور حافظے ہی سے مختلف ادراکات کے درمیان ربط و تسلسل قائم رہتا ہے۔ دنیامیں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ماضی اور مستقبل دونوں جہتوں سے استواررکھتی ہیں۔ شعورِخودی کی کفالت اور نشوونمابھی اسی سے ممکن ہے۔
وجودیت عقل کو مطلق اورحتمی تصورنہیں کرتی۔ بلکہ وہ کسی حد تک منطق کو بھی خاطرمیں نہیں لاتی اور ذات کے تجربے پر انحصارکرتی ہے۔ بانگِ درا کی ایک نظم ’’عقل و دل‘‘میں اقبال نے عقل اور دل کے درمیان مکالمے کی صورت میں یہی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم اگرچہ ان کے ابتدائی دور کی نظموں میںسے ہے لیکن عشق اور عقل کے تصور میں اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس نظم میں انھوں نے عقل اور عشق کے لیے جو مقام متعین کیے ہیں ان کے بعد کے کلام اور افکار میں بھی انھیں یہی مقام حاصل رہا ہے بس اتنا ہوا ہے کہ ان کے احوال اور کیفیات کی مزیدتشریحات اور پہلو سامنے آتے رہے ہیں۔ اس نظم کوسامنے رکھ کر عقل اور عشق کے مقام کو متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ عقل ہستی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مظاہرکے ذریعے سے وہ حقیقت کا بالواسطہ ادراک کرتی ہے۔ حواس کے ذریعے سے جوعلم اسے حاصل ہوتا ہے اس کے واسطے سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے لیکن عشق بلاواسطہ طورپربراہِ راست حقیقتِ ہستی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح عقل کا منزل تک پہنچنا یقینی نہیں ہے مگر عشق بلاشبہ منزل سے آشناہوتا ہے۔
۲۔ عقل زمان و مکان کے حدودکی پابند ہے۔ ان حدودکوتوڑنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ صرف زمان و مکان کے مظاہرکے ادراک کا ذریعہ ہے۔ اس سے ہمیں صرف علم حاصل ہوتا ہے مگر عشق کی پہنچ زمان و مکان کی حدود سے ماورا اور اس عالم نامحدود تک ہے جہاں حقیقتِ مطلق بے حجاب نظرآتی ہے اور یہی ’معرفت‘کا مقام ہے۔
۳۔ عقل علم کے ذریعے حقیقتِ مطلق تک پہنچناچاہتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے جبکہ عشق اپنی کوشش میں کامیاب ہوتا ہے۔ عقل’خداجو‘اورعشق ’خدانما‘ ہے۔ تاہم علم برے بھلے کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ اسی سے سیدھے راستے کی پہچان ہوتی ہے۔ علم حیرانی اور بے تابی پرمنتج ہوتا ہے اور اس مرحلے پرعشق رہنماہوکر منزل تک پہنچاتا ہے۔
ان بنیادی نکات کو سامنے رکھ کردیکھاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ عقل اورعشق کے درمیان کوئی بنیادی تضادیااختلاف موجود نہیں ہے۔ دونوں اپنی اپنی حدود میں وہ کام انجام دیتے ہیں جو ان کے ذمے ہیں۔ابتدائی مراحل میں تو عقل کی اہمیت بھی اتنی ہی ہے جتنی آخری مراحل میں عشق کی ؎
فطرت کو خرد کے رو برو کر
تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر
(کلیاتِ اقبال،ص387- )
گویا عقل کی رہبری میں بھی انسان بہت سے مقامات اور مدارج کو طے کرنے کے قابل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی صداقت اور حقیقت کی متلاشی ہے اور درست راستے کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ اس کے اندر عشق کی کئی صفات بھی پائی جاتی ہیں مگر وہ جوش و خروش، والہانہ تڑپ، حرکت و حرارت اور جرأت مندی جو عشق کا امتیازی شیوہ ہے، عقل کو میسرنہیں۔ اسی لیے وہ رہبرو رہنماہونے کے باوجود منزل سے محروم رہتی ہے ؎
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
(کلیاتِ اقبال،ص375- )
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
(کلیاتِ اقبال،ص409- )
تاہم اقبال نے جزوی اورعملی امورمیں عقل کو بہت کارآمد قراردیا ہے، عقل پران کا اعتراض صرف اتنا ہے کہ کلی امور میں عقل ہمیشہ واماندہ اور عاجز ہے ؎
اک دانشِ نورانی، اک دانشِ برہانی
ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی
(کلیاتِ اقبال،ص356- )
عقل کی قوتوں نے سائنسی انکشافات انسان سے کرائے ہیں۔ تسخیرِفطرت میں انسان کی رہنمائی کی ہے۔ تمدن اور تہذیب کے مدارج طے کرنے میں انسان کی مدد کی ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت کے نئے نئے راستوں کو اجاگرکیا ہے۔ گویاانسان کی ظاہری زندگی کو بنانے سنوارنے، قاعدے میں لانے اور منظم کرنے میں تمام کارہائے نمایاں عقل نے انجام دیے ہیں۔ عشق نے دوسری طرف انسان کا دل روشن کیا ہے اور باطنی ارتقاء میں حصہ لیا ہے۔ روحانی اوراندرونی مسائل کا ادراک کیا ہے اور انسان کو روحانی اور قلبی سکون فراہم کیا ہے ۔
عشق و ایمان سے زیادہ طاقت ور جذبہ دنیامیں اورکوئی نہیں ہے ۔عقل اسباب و علل کے چکرمیں پھنسی رہتی ہے ۔ اس سے آگے قدم بڑھاناعشق کا کام ہے جسے چشمِ غیبی نصیب ہوتی ہے۔ اس کی ایک ہی جست سے انسان زمان و مکان کی حدود سے آگے نکل جاتا ہے ؎
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
(کلیاتِ اقبال،ص355- )
o
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
(کلیاتِ اقبال،ص310- )
یہی وجہ ہے کہ اقبال عقل پرعشق کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عشق ہی سے حقائقِ اشیا کامکمل علم اور صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اقبال عقل کے مخالف نہیں۔ کرکے گار کے ہاں بھی عقل اور عشق کے درمیان یہی تفریق موجود ہے یعنی جب تغیراور تحرک کے کسی نتیجہ خیزمرحلے پرعشق اورمنطق میں سے انتخاب کرناپڑے تو عقل کے تابع مہمل بننے کی بجائے عشق ہی سے کام لیناچاہیے۔اقبال کا ایک اور قطعہ’ عقل و دل،اس کیفیت کی زیادہ واضح توضیح کرتا ہے ؎
ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی
باہر نہیں کچھ عقلِ خداداد کی زد سے
عالم ہے غلام اس کے جلالِ ازلی کا
اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے
(کلیاتِ اقبال،ص552- )
اس کے بغیر تصرف اور ایجاد کی صلاحیتیں بے کار ہیں۔ اس کے بغیرزندگی ممکن نہیں لیکن اس پر حدسے زیادہ انحصارکرنا اقبال کے خیال میں درست نہیں۔ عقل کی دسترس ایک خاص حد تک ہے۔ اس سے آگے وجدانی صلاحیتوں کی کارفرمائی ہے جو عشق سے منسلک ہیں لیکن جذبہ، جبلت اور وجدان پربھی اسی صورت میں اعتماد کیاجاسکتا ہے جب انھیں عقل کاآسرامیسرہو۔ کیونکہ عقل کے استعمال کے بغیر منہ زور جذبہ انسان کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ لیکن پھربھی اقبال نے عقل کی بجائے عشق کو زیادہ صاحبِ ادراک قراردیا ہے ؎
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
(کلیاتِ اقبال،ص394- )
عقل اسباب و علل کی بھول بھلیوں میں گم ہوکراصل حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہے۔ عقل میں جرأت رندانہ کی کمی ہوتی ہے۔ عشق کے بغیروہ پیش رفت کرنے سے کتراتی ہے۔ جہاں وہ قدم روکتی ہے عشق زندگی کے کارواں کی زمام سنبھال لیتا ہے۔ اقبال نے خودی کی تربیت کا سب سے بڑا وسیلہ عقل نہیں بلکہ عشق کو قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر تخلیقِ مقاصدممکن نہیں جو خودی کا بنیادی کام ہے۔ تخلیقِ مقاصد جذبۂ عشق کے بغیرممکن نہیں۔ اقبال سے پہلے بھی عشق کی بہت سے تفسیریں ہوئی ہیں ان میں جنسی اور رومانی عشق سے لے کر متصوفانہ عشق تک کئی تصورات شامل ہیں لیکن اقبال کا عشق بے حدوسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اپنی مشہور نظم ’’مسجدِقرطبہ‘‘ کاایک بندعشق کے بارے میں اقبال کے افکارکواپنی تمام ترگہرائیوں اوروسعتوں کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اس سے عشق کو عقل پرترجیح دینے کے لیے اقبال کے تمام دلائل وبراہین واضح ہوجاتے ہیں ؎
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل ، عشق دلِ مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خاک، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہہِ حرم ، عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات ، عشق سے نارِ حیات
(کلیاتِ اقبال،ص419-420- )
اور پھراقبال اسی نظم میں عشق کو سراپا دوام اور رفت و بود سے ماورا قرار دیتا ہے کیونکہ عشق مقصود حاصل کرنے کے بعد ایک نئی آرزو از خودپیداکرلیتا ہے ؎
ہر لحظہ نیا طور ، نئی برقِ تجلّی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
(کلیاتِ اقبال،ص639- )
و ہ خاصیتیں جن کے باعث اقبال عشق کو عقل پرفوقیت دیتا ہے ان میں خوداستحکامی اور خودافزائی کے انتہائی مرتبے کے حصول میں اس کا کردار ہے ؎
صدقِ خلیل بھی ہے عشق ، صبرِحسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
(کلیاتِ اقبال،ص439- )
اقبال معروف معنوں میں وجودی نہیں لیکن دیکھیے کہ وجود یہاں کس درجہ تخلیقی سطح پراستعمال ہوا ہے ع وجود کیا ہے فقط جوہرِ خودی کی نمود(کلیاتِ اقبال، ص546- ) جیساکہ نظری حصّے میں یہ نکتہ سامنے آچکا ہے کہ انسانی وجود کے معنی اور اہمیت کی تلاش اورادراک ہی وجودیت کا جوہرہے۔
سارتر کے نزدیک انسان اپنی قوتِ ارادی اور صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی منزل کو پاسکتا ہے اور شکست و فتح سے بے نیاز رہتے ہوئے ذاتی تجربے سے گزرکر اپنی موجودگی کا پتادیتا ہے۔ اقبال کے ہاں شاہین کا تصور وجود کی اس فعالیت، تحرک اور فطری صلاحیتوں کا مظہر ہے جو گھبرانانہیں جانتا۔ شاہین طیور کا سردار ہے ع
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ
(کلیاتِ اقبال،ص378- )
دوسرے پرندے خوبصورت بھی ہیں۔ خوش آوازبھی ہیں مگر ان کا حوصلہ بلند نہیں ہے۔ ان کی پرواز میں تیزی نہیں، وہ سکون کے عادی ہیں حرکت کے نہیں ؎
کر بلبل و طائوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے ، طائوس فقط رنگ
(کلیاتِ اقبال،ص401- )
شاہین کی پرواز کی کوئی حد نہیں۔ اسی طرح اس کی نظر کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کی آنکھ میں تجسس ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے مظاہر سے دوسرے پرندوں کی بہ نسبت زیادہ باخبرہوتا ہے۔ چاہے وہ پرندے اس سے کتنا ہی حسدکریں۔ اقبال انھیں شاہین کے مقابل کم تر اور اچھوت کہتا ہے ؎
زاغ کہتا ہے نہایت بد نما ہیں تیرے پر
شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر
لیکن اے شہباز ، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دمِ پرواز سر تاپا نظر
(کلیاتِ اقبال،ص681-682- )
وہ پر جنہیں زاغ بدنماکہتا ہے، شاہین ان پر فخرکرتا ہے ع صحراست کہ دریاست تہِ بال و پر ماست
دراصل شاہین نہیں اس کی ہمت پرکُشاہوتی ہے۔ اس ہمت کے سامنے آسماں کی بھی کوئی حقیقت نہیں ؎
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیرِ پر آگیا تو یہی آسماں، زمیں
(کلیاتِ اقبال،ص689- )
شاہین کی خصوصیات جیسا کہ یہاں بیان ہوئی ہیں، یہی ہیں کہ وہ کبھی پرواز سے تھک کرنہیں گرتا، وہ باہمت غیور اور خوددارہوتا ہے،کسی کا مارا ہوا شکارنہیں کھاتا، آشیانہ نہیں بناتا،بلندپروازہے، خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے، یعنی سراپا اسلامی فقر، حرمت اور حریت کی تمثیل ہے ؎
اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرو کی غلامی
(کلیاتِ اقبال،ص601- )
اقبال کی مکمل نظم’’شاہین‘‘ان کے’’شاہین‘‘ کے بارے میں تصورات کانچوڑہے ؎
کیا میں نے اس خاک داں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
نہ بادِ بہاری ، نہ گلچیں ، نہ بلبل
نہ بیماریٔ نغمۂ عاشقانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی ، زاہدانہ
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں ،بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
(کلیاتِ اقبال،ص495- )
ہمارے لیے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اقبال ایک پرندے ’شاہین‘ کے ذریعے ہم انسانوں کو کیا پیغام دیناچاہتا ہے۔ وہ ان انسانوں کو انسان سمجھتے ہیں جن میں شاہین کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ؎
فطرت کے تقاضوں کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
(کلیاتِ اقبال،ص691- )
دراصل اقبال خاص طورپرنوجوان مسلمانوں کے دل سے زوال کے احساس، تن آسانی اورپژمردگی کو دورکرکے ان میں غیرت، آزادی، بلند پروازی، تیزنگاہی اور قلندری جیسی صفات پیداکرنے کا آرزومند ہے تاکہ انسان ان خوبیوں کو تسخیرِفطرت کے لیے، انقلاب کے لیے، مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اور دنیا اور آخرت میں سرخروئی کے لیے کام میں لائے۔
اقبال شاہیں بچوں کو زاغوں، کبوتروں اور کرگسوں کی صحبت سے دور رکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ وہ ان کی طرح نوجوانوں کو کمزورنہیں بلکہ شاہین کی طرح طاقتور دیکھناچاہتا ہے تاکہ وہ جرمِ ضعیفی کا شکارہوکرمرگ مفاجات سے دوچارنہ ہوں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر یوں متحرک ہوں کہ انسانی معاشرت میں تبدیلی لاسکیں۔ اپنے جوش، کردار اورخیرپرستی کے سبب دنیاپرچھا جائیں۔ ’’آزادی کی قدرشاہین کی حیاتی نمومیں بڑی اہم حیثیت رکھتی ہے۔‘‘(35)
اقبال کا مردِ کامل جسے اقبال نے مردِ مومن، مردِ حق،بندہ ٔ آفاقی، مردِ خدا، مردِ بزرگ، مجاہد، مسلم، قلندر اور کئی اور ناموں سے پکارا۔ اقبال کے خودی کے تصور کا مثالی فرد ہے ع
نقطۂ پُرکارِ حق، مردِ خدا کا یقین
(کلیاتِ اقبال،ص424- )
یا پھرع
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
(کلیاتِ اقبال،ص301- )
یعنی اقبال کے مردِ مومن یا مردِ کامل میں تجدیدِ حیات، جلال و جمال، جہدوعمل، عشق، حق گوئی، بے باکی اور فقر کے اوصاف ضروری ہیں۔اقبال کا شاہین کا تصور بھی اقبال کے مردِ مومن کے تصور سے پیوست ہے۔
فکرِ اقبال اور وجودیت میں اشتراک کے پہلوئوں کی تلاش میں اردواورانگریزی زبانوں کے نقادوں اور محققوں نے بہت زورِ تحقیق صرف کیا ہے۔ یہ بجا ہے کہ وجودیت کی تحریک اقبال کے زمانے میں ہی پروان چڑھی اور اپنے عروج کو پہنچی لیکن یہ امرباعثِ حیرت ہے کہ اقبال کی اپنی تحریروں میں وجودیت کا کوئی براہِ راست حوالہ موجود نہیں حالانکہ وہ اپنے عہد کے سب سے زیادہ کثیرالمطالعہ شخص تھا۔ وجودی مفکروں میں سے نطشے کا ذکراس کے ہاں زیادہ ملتا ہے۔پیامِ مشرق میں صحبت ِرفتگاں میں کارل مارکس اور ہیگل کے ساتھ نطشے بھی موجود ہے۔ جاوید نامہ میں حکیم المانوی نطشہ اور ضربِ کلیم میں حکیم نطشہ کے عنوان سے نظمیں شامل ہیں۔ ایک نظم یورپ، نطشے سے ماخوذ ہے جو بالِ جبریل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ شذراتِ فکر اقبال میں ہیگل کا نظام فلسفہ (ص71- )ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل ،ورڈزورتھ(ص105- )اور برگساں کے افکار پر بھی اقبال نے بہت توجہ صرف کی ہے۔ ان کاایک مقالہ ’’بیدل برگساں کی روشنی میں‘‘دریافت ہوچکا ہے۔ یہ بھی اقبال کے قاری جانتے ہیں کہ اقبال نے فلسفے میں ایم۔اے کیاتھا چنانچہ پرانے اور نئے افکار سے ان کی دلچسپی ظاہروباہرہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں ہرفلسفہ اور ہرفکربھاتی ہو۔ وہ ہر لحظہ غوروفکر کرنے والا مفکر تھا لیکن شاعری کا جوہر انھیں فطرتی طورپر ودیعت ہوا تھا۔ ان کی تحریروں کا بغور مطالعہ کرنے والے بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ کوئی بھی نکتۂ نظر یا اندازِ نظر من و عن قبول کرنے کا قائل نہیں تھا۔ اس نے خوداپنے اس مزاج کا اظہارکئی مقامات پر کیا۔ مثلاًضربِ کلیم کی نظم اجتہاد میں وہ کہتا ہے ع آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق (ص32- )ضربِ کلیم ہی میں فلسفہ، نظم میں وہ اپنے آپ کو تلقین کرتا ہے ع الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا،(ص55- )بالِ جبریل کے قطعے فلسفی (ص170- ) میں وہ کسی فلسفی پر یوں طنز کرتا ہے جو اغلباً نطشے ہوسکتا ہے ؎
بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سرِ محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار
شکارِ زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
(کلیاتِ اقبال،ص494- )
اس قطعے میں وہ فکر و نظر کی جدت اور طبع زادیت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ برگساں اور ہیگل کو بھی اس نے جوں کا توں قبول نہیں کیا۔ آپ ذرا یہ اشعار دوبار پڑھیں ؎
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زنّاریٔ برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
(کلیاتِ اقبال،ص530- )
یہاںنظم’ فلسفہ‘کا یہ مصرع یادکرنے کا مقام ہے : ع غواص کو مطلب ہے، صدف سے کہ گہر سے، بالا دو شعروں کے بعد یہ اشعار بھی اقبال کا ذہن فلسفے کے بارے میں پڑھنے کے لیے دہرانے ضروری ہیں ؎
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفۂ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت
(کلیاتِ اقبال،ص530- )
اس پربھی غور کریں کہ ضربِ کلیم کی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سیدزادے کے نام‘کے عنوان میں اقبال نے فلسفہ زدہ کی ترکیب مرض کے طورپراستعمال کی ہے۔ ضربِ کلیم ہی کی ایک اور نظم’’علم وعشق’’ میں بھی اقبال کسی ایسے ہی صاحبِ مطالعہ شخص کو نصیحت کرتا ہے ع بندۂ تحسین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن (ص33- )بجا کہ اقبال نے وجود، ذات، خودی اور اس کے ملتے جلتے ہم معنی الفاظ، تراکیب اور علامتیں اپنے اشعار اور خطبات میں باربار استعمال کی ہیں اور ان میں وجودیت پائی بھی جاتی ہے جیسے ؎
و ہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
(کلیاتِ اقبال،ص526- )
اور ایسے شعروں میںآزادی، ارادہ، اختیار، عظمت، فعالیت اور قوت کا بھرپور اظہار وجودی افکار سے مماثلت رکھتا ہے لیکن یہ تحقیق مماثلت اور اشتراکات کی حد تک درست ہے اور اقبال کے وجودیت کے بالاستیعاب مطالعے کے شواہد فراہم نہیں کرتی جس سے اقبال کا وجودیت سے متاثرہوناثابت نہیں ہوتا چاہے آپ اقبال اوروجودیت کا اشتراک ہیگل کے فلسفے کو مسترد کرنے کی مشترکہ قدر میں بھی تلاش کیوں نہ کرتے ہوں اوروجودیت کو ہیگل سے نطشے کی طرف بڑھنے کا نام ہی کیوں نہ دیتے ہوں۔ ذرا حکیم نطشے کے بارے میں اقبال کے خیالات تو دیکھیے ؎
حریفِ نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم
نگاہ چاہیے اسرارِ لا الٰہ کے لیے
خدنگِ سینۂ گردوں ہے اس کا فکرِ بلند
کمند اس کا تخیل ہے مہر و مہ کے لیے
اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی
ترس رہا ہے مگر لذّتِ گنہ کے لیے
(کلیاتِ اقبال،ص597- )
اس نظم اور بالا حوالوں سے کیا ظاہرہوتا ہے یہی ناں کہ اقبال اپنے اردگرد نگاہ ضرور ڈالتے ہیں اور زندگی کے راز کو کھولنے کی سعی بھی کرتے ہیں لیکن ان کی کیفیت علم کے جویافرد کی ہے، جو اپنے بارے میں خودکہتا ہے کہ ع جاتاہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ(فلسفہ و مذہب،بالِ جبریل،ص104) لیکن اس کی پیروی زیاد ہ دیرسوچے سمجھے بغیرنہیں کرتا۔ چنانچہ عمومی طورپر اقبال کی شاعری اور افکار پر ’وجودیت‘ کی جوپرچھائیاں نظرآتی ہیں وہ اسی قدر ہیں جو ہرفطری شاعر کے ہاں ڈھونڈی جاسکتی ہیں کیونکہ وجودیت بہرحال انسانی زندگی اور انسانی نفسیات سے علاقہ رکھتی ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ اپنی زندگی کے کسی مرحلے پر اقبال نے وجودی افکار سے استفادہ کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب وجودی نظامِ فکر کے دوسرے پہلو جیسے کائنات، بیگانگی، الحاد اور لایعنیت کا تذکرہ ہوگا تو اقبال کے ہاں ایسے تصورات، معاملات اور نکات آپ کو کیفیات یا جذبات کے حوالے سے تومل جائیں گے لیکن فکری سطح پر ان کااثبات کہیں نہیں ملے گا کیونکہ غوروفکر کے بغیروہ کچھ بھی تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں ہوتے ؎
شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا
(کلیاتِ اقبال،ص531- )
اقبال اپنے دور کی ذہین ترین اور طباع شخصیت تھا ۔اس کے افکار میں تنوع، وسعت، گہرائی اور ندرت ہے۔ بطور شاعر ان میں ہررجحان اور ہرفکر کے شعر مل جائیں گے۔جیسے آپ میر، غالب، کافکا، بریخت، رلکے، مصحفی، آتش جیسے ہر شاعراور ہرافسانہ نگار میں ہرتحریک اور تصورات کے آثار تلاش کرسکتے ہیں ویسے ہی اقبال پر بھی آپ کو ہرفلسفے کا پرتو ملے گا جو ان کے زمانے سے پہلے اور بعد میں معروف ہوا۔
اقبال حددرجہ تجزیاتی ذہن کے حامل بھی تھے اور ان کی تخلیقی قوت بھی انتہا کی تھی۔ وہ خودہرمسئلے، ہرخیال اور ہرنکتے پرہرممکن پہلوئوں سے غوروفکر کے عادی تھے مگر نتیجہ اپنے زاویۂ نگاہ سے نکالتے تھے۔اس لحاظ سے وہ بذاتِ خود وجودیت کا عملی نمونہ ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ کرکے گار کی طرح یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ’’ جب کسی دور میں طوفانِ برق و باراں آنے لگتے ہیں تو مجھ جیسے افراد ظاہرہوتے ہیں۔‘‘(36) کیونکہ انہونی نے ہی انسان کو بے یقینی، عدم اعتماد اور بحران سے نکال کر خوداعتمادی کا سبق پڑھایا ۔ اقبال میں خودستائی نہیں تھی تاہم دوسرے وجودیوں کی طرح وہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہے کہ”I am what I am” کیونکہ وہ فکروعمل کی آزادی کا پرچارک ہے مگر اپنی انفرادیت کے ساتھ اور اجتماعیت کے ساتھ بھی ؎
آزادیٔ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
(کلیاتِ اقبال،ص589- )
وجودیت اور اقبال کے افکارمیں مماثلت یااشتراک کے ساتھ ساتھ توازن اور تفریق کا پہلو بھی بالاقطعے اور مندرجہ ذیل شعرسے واضح ہے ؎
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(کلیاتِ اقبال،ص498- )
حواشی و حوالہ جات
-1 ڈاکٹرسہیل احمدخان۔محمدسلیم الرحمن(مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات: شعبۂ اردو،
جی سی یونیورسٹی، لاہور،بار اوّل2005 ،ص78-
2- J.A.Cuddon: The Penguin Dictionary of Literary
Terms and Literary Theory; Penguin Books;
London; 1999; P.294.
3- New Encyclopedia Britannica: Volume VIII, P.78
4- W. Barrel: What is Existentialism?, Grove Press,
New York, 1964; P.46.
5- Ibid. P.46.
6- J. Ortega Y-Gasset: Towards a Philosophy of
History, Translated by H.Weyl, The World
Publishing Company, New York; 1941, P.216-17
7- Walter Kaufman (Ed): Existentialism; From
Dostoevsky to Sartre: Meridien Books,
New York;1961: P.11.
8- J.P.Sartre: Existentialism and Religious Belief, P.Mairet
Methuen, London, 1965; P.25.
9- Everyman’s Encyclopedia; Vol. V: J.M.Dent and
Sons, London 1958; P.57-58.
-10 میر تقی میر: انتخابِ میراز ناصرکاظمی،مکتبۂ خیال، لاہور ،1989 ،ص342-
11- J.P.Sartre: Being and Nothingness. English
Translation by Hazel E.Barnez Philosophical Library,
New York, 1956; P. 709.
12- George Novack: Introduction to
Existentialism/Marxism, Marjorie Grene,
Chicago, 1959, P.5.
13- J.P.Sartre: Op. cit. P.784.
-14 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان، محمدسلیم الرحمن(مؤلفین): کتاب مذکور ،ص79-
15. Wikipedia, the free encylopedia from internet.
16- Ibid: Internet.
-17 بحوالہ ڈاکٹروزیرآغا: تصوراتِ عشق و خرد؛اقبال کی نظرمیں،اقبال اکادمی پاکستان،
لاہور، طبع ثانی1987 ، ص197-98-
18- Wikipedia: Op.cit.
19- Ibid: Internet.
20- Ibid: Internet.
21- Ibid: Internet.
-22 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد ۔ ۱ (ادبیات): قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،
نئی دہلی، 2003 ئ، ص۔ 302 ۔
23- Wikidpedia: Op. cit.
-24 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد- ۱ (ادبیات) مذکور، ص۔ 428 ۔
-25 اقبال: تشکیلِ جدیدالٰہیات ِاسلامیہ، مترجمہ سیدنذیرنیازی، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ،
لاہور، طبع سوم، 1986 ، ص140-
-26 اقبال:ایضاً،ص141-
-27 اقبال:ایضاً،ص128-
-28 اقبال:ایضاً،ص120-
-29 اقبال:ایضاً،ص136, 187-
-30 اقبال:ایضاً،ص132-
-31 اقبال:ایضاً،ص121-
-32 اقبال:ایضاً،ص123-
-33 اقبال:ایضاً،ص138-
-34 شیخ عطاء اللہ(مرتب):اقبال نامہ مجموعہ مکاتیبِ اقبال،حصہ اول،
شیخ محمداشرف، لاہور،س۔ن۔ ص24-
-35 عزیزاحمد:اقبال نئی تشکیل، گلوب پبلشرز،لاہور،س۔ن۔
-36 ڈاکٹرجمیل جالبی:تنقیداورتجربہ،یونیورسل بُکس، لاہور،1988 ،ص315-