وجدان زمان شاہ زین کی شادی نومبر میں ہونا تہ پائی ۔ لیکن سب کے لئے سب سے بڑا سرپرائز دعا اور ارباز کی شادی کا بھی تھا ۔ زین کو پہلے اس فیصلے پر اعتراض ہوا کے ۔یہ وٹہ سٹہ کی شکل اختیار کر رہا ہے پر سب کے سمجھانے پر وہ مان گیا ۔آخر ارباز کو پچپن سے جانتا تھا ۔وہ غم گسار دوست تھا ۔
اس بات پر سب سے زیادہ اعتراض امبرین اور آئمہ کو تھا کہ اتنے سارے لوگوں کی شادی ساتھ کیوں ہو رہی ہے
” بی جان یہ کیا بات سب کی شادی اک ساتھ الگ الگ ہوتی سب کی ہم سب کی شادی انجو ئے کرتے "۔آئمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
"پہلے زمانے میں سب کی شادیاں یک ساتھ ہی ہو۔ جاتیں تھیں میرے پانچوں بھائیوں اور میری شادی ایک ہی دن کی گئی تھی ۔” بی جان نے جواب دیا
"تو بی جان وہ پہلا زمانہ تھا یہ اگلا زمانہ ہے ۔ اب تو انجوئے کرنے دیں ۔ ” امبرین بولی
"جاؤ بچوں ادھر سے” بی جان بے زاری سے بولیں
وہ دونو ں دل مسوس کر چل دیں ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
دن پنکھ لگا کر اڑ رہے تھے ۔ ایمان پر مقدمہ زیادہ عرصہ نا چل سکا کیونکہ گواہ موجود تھے ۔ اور ایمان کی ذہنی حالت سہی نا ہونے کی وجہ سے اس نے خود ہی اعتراف کر لیا تھا ۔ جس بچے کی ہر جائز نا جائز ضد بغیر کسی روکاوٹ کے پوری کر دی جائے ۔ وہ پھر کہاں ٹھیک رہ سکتے ہیں ۔ ایمان کو اس کی بیماری کی وجہ سے دو سال کی ہو سزا ہوئی ۔لیکن اس سے پہلے اس کو فونٹین ہاؤس منتقل کر دیا گیا ۔ شائد اس کا ٹھکانہ اب یہی تھا ۔
وہ دن رات کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو کر خود سے باتیں کرتی رہتی ۔یا خود کو ہی مارنا شروع کر دیتی ۔ اس کے دن رات یونہی گزر رہے تھے
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
آخر نومبر بھی آن پھنچا تھا ۔ شاہ ویلا اور زوالقر نین ہاؤس میں تیاراں زور و شوروں سے جاری تھیں ۔ میلوڈی اور زیک بھی ان کی شادی میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔
آج مہندی کا فنکشن تھا سب نے ہلا گلا کیا تھا ۔ شہروز نے پہلی بار رباب کو اتنا تیار ہوئے دیکھا تھا ۔
"اگر تم نے گھورنا بند نا کیانا ۔ تو یقیناً بچے تمہاری آنکھوں کے ساتھ ٹینس کھیل رہے ہونگے ۔ ” جس پر شہروز نے حیران ہو کر شیزہ کی طرف دیکھا
"کس کے بچے !!!”
"رباب کے بھائی جان کے ۔ ” شیزہ کے کہنے پر اس نے اپنی آنکھیں ادھر پھیر یں ۔تو اس کے بھائی شہروز کو گھورنے مصروف تھے
ان کو دیکھ کر اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کیونکہ اس کے بھائی ڈابلیو ڈابلیو ای کے ریسلر لگ رہے تھے ۔
شیزہ اپنے گرارے کے ساتھ کا دوپٹہ ٹھیک کرتے اٹھ کر چل دی ۔
باقی کا فنکشن بھی بخیر و عافیت سے سر انجام پایا ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
آخر کار بارات کا دن ان پہنچا تھا ۔ آج کسی کے آنگن میں اداسی نے ڈیرے ڈالنے تھے تو کسی کے گھر میں شہنایاں بجنی تھیں ۔
ہانیہ نے لمبا میکسی ٹائپ کا ریڈ لہنگا پہن رکھا تھا ۔ جس پر گولڈن کام ہوا ہوا تھا ۔ ماتھا پٹی پہنے بال آگے کی طرف کر کے کریل کئے گئے تھے
باقی دلہننو نے بھی سیم کلر ہی پہنا تھا مگر ڈیزائن مختلف تھے ۔عنایا اور دعا شارٹ فر وک ٹائپ شرٹ تھی اور نیچے لہنگا تھا سرخ رنگ کا ۔
جبکہ کومل نے لونگ فرو ک پہنا ہوا تھا ۔
جبکہ دولہوں میں سب سے پہلے تیار وجدان ہوا تھا جس نے کریم کلر کی شیروانی پہن رکھی تھی ۔ باقی دولہے بھی شیروانی پہنے ہوۓ تھے
بارات میریج حال پہنچی تو پھولوں کی پتیوں سے ان کا استقبال کیا گیا تھا ۔ نکاح پہلے ہی ہو چکا ۔
دلہنیوں کو سٹیج پر لے جایا گیا آخر میں ہانیہ تھی وجدان کھڑے ہو کر ہانیہ کے پاس گیا اور ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر سٹیج پر لے آیا جس پر کافی ھوٹینگ ہوئی
رخصتی کا وقت ان پہنچا تھا سب سے مشکل گھڑی سمیہ بیگم کے لئے تھی ایک ہی اولاد تھی جیسے آج رخصت کر دینا تھا ۔
ہانیہ رخصت ہو کر شاہ ویلا آ گئی تھی ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
زین روم میں داخل ہوا تو عنایا خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی عروسی جوڑا پہنے ۔ زین پہلے تو تلملایا پھر اس کی معصومیت دیکھ کر مسکرایا ۔
پھر پاس بیٹھتے ہوئے اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس کے ماتھے پر محبّت کی مہر ثبت کی ۔ اور کراون کے ساتھ ٹیک لگا کر مسکرا دیا ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
زمان اپنا پورا والٹ دروازے پر کھڑی شیزہ ، رباب آئمہ اور امبرین کو ان کے کچھ کہنے سے پہلے پکڑا کر اندر آ گیا ۔ جس پر باہر سب کے کہکے بلند ہوئے
وہ کومل کے پاس آ کر روک گیا ۔
” بہت مشکل سے بچ کر آیا ہوں ورنہ یہ ظالم سماج پھر سے میرے اور تمہارے بیچ آنے لگا تھا” اس نے کومل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
جس پر کومل کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
"اب میں کسی ظالم سماج کو اپنے درمیان نہیں آنے دوں گا” ۔اس نے کومل کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا
"ٹھیک ہے” وہ زمان کی طرف دیکھ کر بولی پھر رب شکر ادا کرتے ہوۓ آنکھیں بند کر لیں ۔
کہ اس کو اتنی محبت کرنے والا ہمراہ ہمسفر ملا ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
دعا ارباز کا انتظار کر کر کے تھک گئی تو ۔ کھڑی ہو کر ادھر ادھر چکر کاٹنے لگی ۔
ارباز اندر آیا تو اس کو چکر کاٹتے دیکھ کر حیران ہوا
"دنیا کی پہلی دلہن ہو گی آپ محترمہ جو ایسے میرا انتظار کر رہی ہیں ۔” ارباز اس کے قریب آتے ہوئے بولا
"یہ کوئی وقت ہے آنے کا دو بج رہے ہیں رات کے ۔” دعا کچھ سمجھے بوجھے بغیر بولی
جس پر ارباز ہنس پڑا اور اس کا بازو پکڑ بیڈ کی طرف لے
"یہ کیا بات ہوئی ابھی سے ہی کرفیو لگا دیا ۔ ” ابھی تو ایک دن بھی نہیں ہوا شادی کو ۔
"جو بھی ہے مجھے نہیں پتا اتنا لیٹ کوئی دلہا نہیں اتا ”
"چلو آئندہ سے لیٹ نہیں آؤں گا ۔” وہ شرارت سے مسکرا کر اس کی طرف جھکا ۔ اور گال پر آئی آوارہ لٹ کو ہلکا سا اپنی طرف کھینچا اور اس کے گال پر ہونٹ رکھ دیے ۔
اور دعا کو اپنے حصار میں قید کر لیا
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
ہانیہ کو وجدان کے کمرے میں بیٹھایا گیا تھا سرخ گلاب اور مدہم روشنی نے ماحول کو پر سرور سا بنا دیا تھا ۔
جبہی دروازہ کھلنے پر اس کے سمٹی ۔ "نظریں نیچے کروں کیا ۔اف پرانے زمانے کی۔ ہیروئن لگوں گی ۔ ” ہانیہ نے گھبرا تے ہوئے سوچا ۔
وجدان بیڈ پر بیٹھ چکا تھا ۔
” مجھے نہیں پتا کے کیا بولنا چاہیے ۔ بس اتنا ہی کہوں گا کے تم جان وجدان ہو اور جان وجدان رہو گی ۔ ” اس نے مسکرا کر کہا
جس پر ہانیہ نے تکیہ اس کے سر پر دے مارا
تکیے تو وجدان کو نا لگا پر ہانیہ کی کلائی وجدان کی گرفت میں آ گئی ۔ وجدان نے اسے اپنی طرف کھینچا اور ہانیہ کو اپنے حصار میں لے لیا ۔
"وجدان !! ” ہانیہ آہستہ سے بولی
"ہم ریسٹورانٹ میں نہیں ہوں محترمہ آج میں آپ کے ساتھ ایسی ویسی حرکت کر سکتا ہوں ۔” وہ یہ کہتے اس پر جھکا پھر پیچھے ہو گیا
"کیسا لگا پینڈنڈ ۔” وجدان بولا
"کونسا ۔ ” ہانیہ نے اپنی گردن کے گرد ہاتھ پھرا تو پینڈنڈ اس کے گلے میں تھا جس پر وجدان لکھا تھا ۔
"یہ سٹیمپ کیوں لگائی ہے” ہانیہ نے وجدان کی طرف دیکھا
"تاکہ سب کو پتا لگ سکے کے تم میر وجدان شاہ کی بن چکی ہو ”
جس پر ہانیہ نے دوسرا تکیہ اٹھایا پر پھر سےکلائی ہی وجدان کے ہاتھ میں آئی ۔۔وجدان نے پیچھے کی طرف گرتے ہوئے اسے اپنے پہلو میں گرا لیا ۔
"وجدان ! ”
"ہممم !”
” ہمارے رب نے ہمارے لئے کتنی بہتری رکھی ہوتی ہے نا اگر ہم یوں جدا نا ہوتے تو ہیں تو ہم انسان ہی اور دو لوگوں کے درمیان تیسرا شطان آ جاتا ہے اگر ہم کچھ غلط کر بیٹھتے تو ۔ اور اگر وجدان اور ہانیہ کا اعتبار شادی کے بعد ٹوٹتا تو اور ہمیں پھر اچھے برے کا پتا بھی نا چلتا کون اپنا ہے اور کون پرایا ” ہانیہ نے اپنی انگوٹھی گھوماتے ہوئے کہا
"بس یہی وجہ ہے کے مجھے اپنی ہانیہ سے محبت ہے ۔” وجدان نے محبت سے ہانیہ کو دیکھ کر کہا
۔ باہر خنکی بڑھ رہی تھی ۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا ۔ عشق نے بسیرا کیا محبت نے ترنم چھڑا ۔اور دو دلوں کے ساز محبّت کی دھن سے واقف ہو گئے ۔
آج ان کی فیری ٹیل کا آغاز تھا ۔ان کی کہانی پوری ہو چکی تھی ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
سال بعد
لندن
ہانیہ اور وجدان دونوں آج ہونے والے لائٹ فیسٹول میں شرکت کرنے آئے تھے ۔ساتھ دو ماہ کا میر ریان شاہ بھی تھا ۔
وہ آج پھر اس جگہ کھڑے تھے جہاں انہوں نے ساتھ رہنے کے وعدے کئے تھے ۔۔
ڈریگن آج بھی آگ اگل رہا تھا برقی قمقمیں آج بھی روشن تھیں ۔ایک سحر زادہ سا ماحول تھا وجدان اور ہانیہ تھے
The day we met frozen
I held my breath
RIGHT from the start
I know that i found a
” HOME FOR MY HEART”
………..
I have died every day waiting for you darling don’t be afraid
i have loved you for a thousand years
I will love you for a thousand more
ہانیہ اور وجدان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ کیونکہ محبت کو الفاظ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وہ آسمان پرچمکتے ستاروں کو دیکھ رہے تھے ۔ ان کے دل کو گھر مل گیا تھا بسیرا کرنے کے لئے ۔ کہانی کے آخری صفحے سے ہیپیلی ایور آفٹر کا آغاز ہو چکا تھا ۔
ختم شد ❤❤