ویسے تو رئیس فروغ نے اپنی مختصر زندگی میں ریڈیائی خاکے، فیچرز اور ڈراموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے مگر ہم ’’دادا‘‘ کی شعر گوئی تک محدود رہیں گے۔ طلعت حسین کا کہنا ہے ہم سب انہیں عمر کی وجہ سے ’’دادا‘‘ نہیں کہتے تھے بل کہ اُن کی اُس محبت کی وجہ سے جس میں ایک ’’دادا‘‘ کی شفقت و شخصیت جھلکتی تھی، حتی کہ قمر جمیل بھی انہیں ’’دادا‘‘ ہی کہتے تھے۔
جدید حسیت کے حامل شعرا علامتی و استعاراتی رنگ میں دل کے جذبوں کو زبان دیتے تھے، وہ سدا بہار جذبے جو ہماری شاعری کی اساس کہے جا سکتے ہیں، جن کی بنیاد بدلتے موسموں، رنگوں اور خوشبوؤں اور برکھا رتوں پر ہوتی ہے۔ اُن کے ہاں کوئی فلسفہ یا مربوط فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی نعرہ یا چیختا چنگھاڑتا نظریہ حملہ آور ہوتا۔ نئی شاعری کی تحریک در اصل تجربات و مشاہدات پر وجدان و لاشعور کو ترجیح دیتی تھی۔ چوں کہ وہ علامتی اسلوب میں موضوعی اظہار پر زیادہ یقین رکھتے تھے اِس لیے ایسے شعرا مشاعروں کے شاعر نہیں ہوتے، مشاعرے کی شاعری فکری و اسلوبیاتی سطح پر کچھ اور خصوصیات اور ترجیحات کی حامل ہوتی ہے کہ وہاں شاعر کی نظریں پیاسی اور سماعتیں تشنہ ہوتی ہیں۔ فقط ایک لفظ ’’واہ‘‘ ہی اُن کے سوچ کی کھیتیاں سیراب کر سکتا ہے۔ مگر جدیدیت کی تحریک سے وابستہ شعرا سامع یا قاری کی پسندیدگی پر نہیں جاتے۔
رئیس فروغ کی غزل کا بہترین دور وہ تھا جب اُن کی ترجیح اُن کے معصوم تخیلات (Periscopic vision) تھے۔ جن کی بنیاد اُن کے اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات پر تھی۔ اُن کے لیے Telescopic vision یعنی مشاہدات و تجربات کی اہمیت کم تھی۔ قاضی اختر جونا گڑھی نے لکھا تھا :۔ رئیس فروغ اپنی سرشت، شعری تربیت اور لب و لہجے کے اعتبار سے خالصتاً غزل اور اُس کی مخصوص تہذیب کے آدمی تھے‘‘۔ سلیم احمد نے اسی بنیاد پر اُن کی شاعری میں عصری آگہی اور مسائل کی کمی پر اپنے اخباری کالموں میں بات کی تھی۔ اگرچہ اُن کی اِس بات سے اتفاق ضروری نہیں اور بہت سے ناقدین نے واضح اختلاف بھی کیا۔
رئیس فروغ کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:۔
۱۔ غزل
۲۔ پابند، معرا و نثری نظم
۳۔ قومی و ملی نغمے، ٹیلی وژن کے گیت اور نونہال ادب
اُن کے قاری ہی نہیں ناقد کی بھی رائے ہے کہ اُس کی غزل اگرچہ تجربات و مشاہدات کے تنوع سے مالا مال ہے مگر وہ روایت کی اساس کے منکر بھی ہر گز نہ تھے۔ اُن کی غزل میں وہی کیفیت ہے کہ برکھا رُت میں مور کا ناچ دیکھنے والی آنکھ کو مبہوت کر دے۔ اگرچہ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع موجود ہے۔ فکریات اور مضامینِ نو کی کمی نہیں لیکن اُن کے ہاں تازہ کاری اور نیا پن اسلوبِ بیاں کا ہے، یہاں شمس الرحمن فاروقی کی بات کو یقیناً اہمیت دینا پڑتی ہے کہ تخلیق کو انفرادیت فکر نہیں اسلوبِ بیان عطا کرتا ہے۔ بہر حال مواد اور اسلوب کی بحث بہت پرانی ہے۔
رئیس نے زبان کے معاملے میں بہت وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ میں اُن کے کلام میں ایک طرف تو جا بہ جا انگریزی زبان کے الفاظ (بیلون، ایش ٹرے، الوژن، کوبالٹ ریز، وارڈ بوائے، فیٹ، انجائنا، شپ یارڈ، بُلٹ، سی آف، شارٹ سرکٹ، سائیکل، پسنجر، ڈسٹ بن، سیلو لائڈ، بیڈ روم، ٹوئسٹ، اِن وزیبل، فرنیس، واش بیسن، شوکیس، کاسمو پولیٹن، ڈینجر زون، ڈنر، فٹ پاتھ، جمپر، پینو راما، پٹرول ٹینک، ایبسکونڈر، کوریڈور) بھی ملتے ہیں تو دوسری طرف اُردو زبان کے کچھ ایسے الفاظ کا استعمال بھی دکھائی دیتا ہے جو عام طور پر غیر شاعرانہ خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ اگرچہ سلیم احمد کی نسبت قمر جمیل کے قریب بلکہ اُن کے حلقۂ احباب میں شامل تھے مگر چند مقامات ایسے ضرور ہیں جہاں اینٹی غزل ڈکشن بھی دکھائی دیتی ہے۔ ایک مصرع
’’بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا‘‘
ایک نظم ’’ڈی ڈو ڈا‘‘ کی تین لائنیں ملاحظہ کیجیے:
لفظ جو باغی ہو جائیں تو
جو بھی لکھنے پڑھنے آئے
اُن کے ساتھ زنا کرتے ہیں
اُن کی علامتوں اور استعاروں میں خواب، تمام عمر پر محیط ہے، خوبصورت ہے اور اسی کی کھڑکی سے خواب سے باہر کا منظر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے استعارے قدرتی مناظر، کھیت کھلیانوں، لہراتے آنچلوں، پنگھٹوں، اُڑتے بادلوں، برکھا رتوں، ساون رت کے جھولوں، باغ بہاروں، تتلیوں اور جگنوؤں سے کشید کیے ہیں، خوبصورت ذہن کے شاعر تھے اور خوبصورتیاں تلاش کرتے تھے، وہ انسان کی شخصیت کا روشن پہلو دیکھتے اور اُس میں خیر کا عنصر ڈھونڈتے تھے۔ آج ہر دوسرا شاعر جگنو، تتلیاں اور چڑیا کو شعر میں باندھنے میں لگا ہوا ہے جس نے شاید زندگی میں کبھی جگنو، تتلی نہیں دیکھی ہو گی۔ رئیس چاہتے تھے کہ انسان اِن معصوم جانوروں سے جینے کا قرینہ سیکھیں۔ ’’نیم کا پیڑ‘‘ ٹھنڈی چھاؤں، مہمان نوازی اور مشرقی تہذیب کی علامت ہے، وہ نیم کے پیڑ تلے بیٹھنے والے بزرگوں کو سچے، کھرے، محبت نواز سمجھتے تھے۔
اُن کے غزلیہ موضوعات میں احساس نا تمامی و نا آسودگی اہم ہے جو کسی بھی تخلیق کار کا اثاثہ ہوتا ہے، اُن کے ہاں ایک تشنگی کا احساس ہے۔ وہ محبوب کے روپ کو ہر رنگ میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا تھا
الف ایہہ تن میرا چشماں ہووے تے میں دلبر ویکھ نہ رجّاں ہو
لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں اک کھولاں اک کجّاں ہو
اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آوے تے میں ہور کدے ول بھجّاں ہووے
دلبر دا دیدار اے باہومینوں لکھ کروڑاں حجّاں ہو
رئیس کا کہنا ہے
تری بہار کو کس کس لباس میں سوچوں
نفس نفس تو بدلتی ہوئی طلب ہے میاں
مگر اُن کی انفرادی محبت ایک انسان کی محبت کا روپ دھار لیتی ہے۔ کہیں وہ نیم کی چھاؤں میں بیٹھے بڑے بوڑھوں کی مہمان نوازی اور محبت و شفقت کا حوالہ دیتے ہیں اور کبھی خود کہتے ہیں کہ مجھے یہ پودے، پنچھی اور پیارے پیارے لوگ بہت عزیز ہیں، اگر میرے نام کے بادل آ جائیں تو میرے اِن پیاروں پر برسا دینا۔ مزید براں انہوں نے اپنے کلام میں معاشرے کے ایک عام پسماندہ فرد کا کرب بیان کیا ہے کہ آپ نے اُس کا جلتا ہوا گھر تو ملاحظہ کیا ہے مگر اِس بات پر توجہ نہیں دی کہ اُس کے جلتے گھر کے ساتھ اُن کی کتنی تمنائیں بھی جل کر راکھ ہوئی ہیں۔ ایک مزدور کا المیہ بھی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے دھرتی تیری کوکھ میں لاکھ خزانے ہوں گے، کیسے کیسے میٹھے چشمے نہاں ہوں گے مگر میری عمر تو کنکر پتھر ڈھونے صرف ہو گئی ہے مجھے تیرے خزانوں سے کیا لینا۔
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا
ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ، دو جلتے گھر اگر کہیں
تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا
نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں
کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اُس کو دودھ پلا دینا
تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے
جس نے ہمارا دل توڑا ہے اُس کو بھی بیٹا دینا
یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگ
میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا
کہاں سے اٹھتے ہیں بادل کہاں برستے ہیں
ہمارے شہر کی آنکھوں میں اک سوال سا ہے
وہ اک ہجوم تھا گرتے ہوئے درختوں کا
پکارتے تھے سہارا ملے سہارا ملے
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جلا تو میں بھی ہوں
میں دوسروں کے جہنم سے بھاگتا ہوں فروغ
فروغ اپنے لیے دوسرا تو میں بھی ہوں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
دریا تھے اور اُن کی گزر گاہ تھی مگر
اک دن سجے سجائے گھروں سے گزر گئے
ہم نے اپنایا درختوں کا چلن
خود کبھی بیٹھے نہ اپنی چھاؤں میں
اُن کے ہاں جمالیاتی احساس اپنے جوبن پر دکھائی دیتا ہے۔ وہ حسن اور خوبصورتی سے پیار کرنے والے ہیں۔ عشق کو کارِ مسلسل اور محبوب کو صبحِ بہاراں کا حسیں خواب سمجھتے ہیں۔ عشق و محبت اور اُس کے تلازمات کا بیان رئیس فروغ کی شاعری کی اساس ہے۔ انہوں نے دل کے نازک جذبوں اور قلبی احساسات کو اپنے مخصوص رنگ میں پیش کیا ہے۔ اُن کے کلام کا وہ حصہ پُر تاثیر اور شعریت سے مملو ہے، جس میں وجدان و لاشعور اُن کے غزل گوئی کی بنیاد ہیں۔
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اتنا سچا ایسا جھوٹا کون ملے گا اور تجھے
تو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں
تو صبحِ بہاراں کا حسیں خواب ہے پھر بھی
آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر
خواہش کسی کنیزِ خوش آواز کی طرح
خوابوں کی وادیوں میں غزل گائے ہے صنم
تیرا تو انگ انگ مجھے رات رات بھر
یادوں کے آئینے میں نظر آئے ہے صنم
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت بُرا نہیں، اتنا بُرا تو میں بھی ہوں
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
کل کسی اجنبی کا حسن مجھے
یاد آیا تو یاد آئے گیا
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
رئیس فروغ کے مجموعے ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں بے ثباتی پر بہت سے اشعار ملتے ہیں۔ بے ثباتی کا احساس انسان کو تکبر سے محفوظ رکھتا ہے، یوں انسان تصوف کی طرف راغب ہوتا ہے اور فلسفۂ اخلاق جنم لیتا ہے۔ اُن کے کلام میں جا بہ جا انسان کے دنیا میں سیلانی ہونے، فشارِ مہ و سال سے بدن کے غبار ہو جانے، خرامِ عمر سے انسان کے پائمال ہو جانے، جینے کی مزدوری نقدِ مرگ کی صورت ملنے اور دنیا کے بے ثبات ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ ہر شخص بس میں سوار مسافر کی طرح ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی کھڑا ہوا ہے، کوئی بیٹھا ہوا۔
کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں سیلانیوں کو خطرۂ سیلِ بلا نہیں
پیارے اتنا یاد رہے
میں اک دن مر جاؤں گا
بدن فشارِ مہ و سال سے غبار ہوا
فقیر محو تماشائے ہست و بود میں تھا
خرامِ عمر ترا کام پائمالی ہے
مگر یہ دیکھ ترے زیرِ پا تو میں بھی ہوں
دھوپ مسافر چھاؤں مسافر، آئے کوئی کوئی جائے
گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستہ ہے
جو ہے سو پسنجر ہے مگر فرق تو دیکھو
بیٹھا ہے کوئی بس میں کوئی بس میں کھڑا ہے
جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں
نقدِ مرگ عطا ہوتا ہے صلہ کہوں انعام کہوں
سلیم احمد اُن کی غزل میں معاشرتی مسائل کی کمی پر معترض تھے، حالانکہ شاعر کا مسئلہ تخلیقِ شعر ہے جو شعور و لا شعور کے فشار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ بات کچھ حد تک درست ہے، اِس لیے کہ اُن کی شعر گوئی کے عروج کا زمانہ وہ تھا جب انہوں نے تجربات و مشاہدات کو اپنے معصوم تخیلات پر فوقیت نہیں دی تھی۔ مگر کلی طور پر درست نہیں کہا جا سکتا۔ اِس لیے کہ اُن کے کلام میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو زندگی اور اُس کے متعلقات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید نے کیا خوب کہا تھا
جس تن لاگے سو تن جانے دوجا کوئی نہ جانے عشق آسان نال کی کیتی اے لوک مریندے طعنے
اب رئیس فروغ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے
اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی
جس کے بازو میں کئی دن سے دکھن ہے لوگو
اونچی مسہریوں کے، دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
شارٹ سرکٹ سے اُڑی چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
تپ رہا ہے ریگ زارِ زندگی
یار کیوں کرتے ہو جھگڑا دھوپ میں
ناقدین کی بڑی اکثریت نے اُن کی غزل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اُن کی نثری نظم پر کوئی بات نہیں کرتا۔ شاید ہم اہل ہی نہیں ہیں۔ غزل کے استعارے اور علامتیں ہمارے دیہی ماحول، گرد و پیش اور معاشرت سے کشید کی گئی ہیں جب کہ نثری نظم کی علامتیں قدرے اجنبی ہیں کہ اُن پر مغرب کے اثرات واضح محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اُن کے کلام میں کئی ایک پابند نظم میں بھی ملتی ہیں، جو اُن کے مسترد شدہ کلام کا حصہ ہیں جو بعد ازاں ’’رئیس فروغ، نئی جہتیں‘‘ کے نام سے بھی شائع کیا گیا۔ میں دو نظموں کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا:۔
’’عظمتِ آدم‘‘ میں انسان کی آفاقی شخصیت کا تصور اُبھرتا اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان ایک ذرۂ خاک ہے مگر آسمان گیر ہے اور سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرتا ہے۔ اقبال ہماری ادبی تاریخ کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کے ہاں عظمتِ آدم کا تصور باقاعدہ ایک فلسفے کی صورت میں ملتا ہے۔
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہیں ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
اقبال کے بعد احمد ندیم قاسمی کا بشر دانش ور طبقے کو چونکا دیتا ہے
ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک
جو کچھ بھی ہے آدم کا نشانِ کفِ پا ہو
ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے اُتر کر
انسان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہو
پھر جب انہوں نے اپنی نظم میں کہا کہ ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ تو ادبی دنیا میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ سلیم احمد جیسے کئی دانش وروں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہیں قاسمی صاحب کے شعر پڑھنے کا انداز پسند نہیں تھا۔ دوسری طرف ممتاز حسین جیسے ادیب و دانش ور سر دھننے لگے اور عش عش کرنے لگے۔ رئیس فروغ کا آدم بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے، جو فرشتوں کے برعکس ایک مکمل ارتقا کے عمل سے گزر کر آج تسخیرِ کائنات کے قابل ہوا ہے۔
’’آشوبِ آگہی‘‘ میں شاعر ایک قبر ستان سے گزر ہوتا ہے، ایک شہید کی قبر دیکھتا ہے، اور اُسے طاؤس سے تشبیہ دیتے ہیں، طاؤس ایک خوش رنگ و حسین جانور ہے، اسلام کے عقیدے کے مطابق شہید مرتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور قیامت تک اُن کے زخم تازہ رہتے ہیں، اُن سے لہو رستا رہتا ہے۔
رئیس فروغ کے عہد میں دو مکاتبِ فکر ادبی حوالے سے بہت سر گرم تھے:۔ سلیم احمد جن کی پشت پر پروفیسر حسن عسکری جیسی قابل شخصیت تھی، جنہوں نے ترقی پسندوں سے ہمیشہ فاصلہ رکھا۔ فرانسیسی زبان و ادب پر دسترس رکھتے تھے اور قمر جمیل مغربی علوم سے حد درجہ متاثر تھے۔ ملٹن، کولرج، ورڈز ورتھ، شیکسپئیر، ٹینی سن، اسکاٹ جیمز، ڈرائیڈن، لانجائنس، روسو، میتھیو آرنلڈ کے افکار، تنقید اور شاعری سے اثرات قبول کر رہے تھے، مشرقی ادبی اقدار و افکار سے دور نکل گئے تھے۔ رئیس، قمر جمیل کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ نئے تجربات کے فطری طور پر اہل اور عادی تھے۔ ایک دلیر شاعر تھے کہ عمر کی آخری دو دہائیوں میں انہوں نے غزل گوئی سے کنارہ کر لیا تھا اور قمر جمیل ہی کی تحریک پر نثری نظم کہتے رہے۔
حالانکہ وہ زمانہ نثری نظم کی شدید مخالفت کا تھا۔ ۱۹۶۴ جب نثری نظم کا پہلا مجموعہ سجاد ظہیر کا ’’پگھلا نیلم‘‘ شائع ہوا تو اُس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ کہا گیا کہ اُس مجموعے میں بہت سے مصرعے موزوں ہیں تو یہ نثری نظم کیسے ہو گئی۔ مزید براں وہ خود بھی غالب، جگر اور جوش کے معترف تھے۔ غالب رفعتِ خیال اور موضوعاتی تنوع کے شاعر، جگر غزل کی کلاسیکی روایت کی امین، جوش ہمہ صفت موصوف، شاعر انقلاب و شباب ان شخصیات کے توصیف میں رئیس کی نظم میں موجود ہیں مگر پھر بھی وہ علامتی نثری نظم میں لکھنے لگے۔ علامت اور استعارے کے حوالے سے وہ مبارک احمد اور قمر جمیل کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ آخر الذکر کی طرح انہوں نے بھی جنگل اور سورج کو کئی نظموں یا غزلوں میں استعارے کے طور پر برتا ہے۔
وہ بلیغ اشاریت سے کام لیتے تھے، بہر حال جو عام قاری کی علمی و فکری سطح سے بلند تھی۔ یہ اشاریت اِس نوعیت کی تھی کہ جس کی طرف مشہور مورخ والٹر اسکاٹ نے اپنی تاریخ کے آغاز میں اشارہ کیا تھا:۔ اگر قلوپطرہ کی ناک چپٹی ہوتی تو آج تاریخِ عالم مختلف ہوتی‘‘ اِس سے مُراد یہ ہے کہ اگر قلوپطرہ غیر معمولی خوب رو نہ ہوتی تو جولیس سیزر مصر پر حملہ آور نہ ہوتا اور قلوپطرہ کو اپنی ملکہ بنا لینے کی بنیاد پر اپنے جنرلوں کی سازش کا شکار نہ ہوتا، یقیناً اگر یہ تاریخی حوادث وقوع پذیر نہ ہوتے تو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ آج ضرور مختلف ہوتی۔
نثری نظم میں رئیس فروغ کی علامتیں، استعارے:
گرتے ستارے، اُڑتا ہوا بادل، پھیلا ہوا جنگل، دھواں، سبز لہو، چمگادڑ، گھوڑا، کالا جھنڈا، سورج کا بیٹا، ہوا کا لڑکا، اژدھے، نئے پرندے، مٹیالی راتیں، کالے بستر، سگِ ہم سفر، بارہ دری، ساتوں زینہ، موم کی مریم، آٹھواں سورج، ہری شاخ، سانپ والی، زرد مسافر وغیرہ ہیں۔ رئیس کی نثری نظموں پر ناقدین نے بالکل بات نہیں کی۔ یہ رویہ قابلِ ستائش نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا مناسب ہو گا کہ اُن کی چند نثری نظموں پر بات کی جائے:۔
’’نئے شہروں کی بنیاد‘‘
اگر جنگل کاٹ کر، گاؤں کی تہذیب ختم کر کے شہر آباد کیے جائیں تو وہ اس بات کے خلاف دکھائی دیتے ہیں، انہیں تو وہ منظر مرغوب ہیں کہ ہاتھ باگ پر ہے اور رکاب میں پاؤں ہیں۔ شیر جنگلوں ہی میں اچھے لگتے ہیں، شہر میں جاروب کشی کرتے نہیں۔
شہروں کے چہرہ گر جنہیں مرنا تھا مر گئے
پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے
’’ریت کا شہر‘‘: اس نظم میں اپنے شہر سے محبت کا اظہار ہے۔ اُن کے بہ قول جس میں برف پوش چوٹیاں نہ سہی مگر یہ جو سمندر میرے شہر کے ساتھ بہہ رہا ہے، وہ میری ہی ذات ہے۔
’لیاری پیاری‘‘ میں کراچی سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے، ساون بھادوں انہیں ویسے بھی مرغوب ہے، منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِس بار اتنی بارش ہوئی ہے کہ سڑک کے کتوں کا سائز چھوٹا ہو جائے گا۔
’’سانپ والی‘‘
(سن ری سجنی/ جنم جنم سے/ ایک شریر/ آدھا تیرا آدھا میرا/ تو مر جائے تو/ سارا میرا) کبھی اُسے زہر بھری، کبھی زہر کی لہر کبھی سانپ والی کہتے ہیں۔
’ائیر پورٹ‘‘ میں محبوب کو سی آف کرنے کی لذت کا بیان ہے۔
’’شیرانی‘‘ بچپن میں بچے اکثر بڑی خواتین جو اُن سے بہت پیار کرتی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بڑے ہو کر اِن سے شادی کریں گے۔ ایسا ہی اِن کے ساتھ بھی ہوا کہ اب وہ سلمیٰ باجی قبرستان میں ہیں۔
’’امپوسٹر‘‘ کسی ایس جگہ کی جستجو ہے جہاں انسان کا اندرون اور بیرون دونوں روشن ہوں۔
’’جنریشن گیپ‘‘ میں انہیں گئے سالوں کے زندہ لمحوں کی تلاش ہے۔
’’ایک رومانی قصے کا عنوان‘‘: وہ تو ایک مردہ عورت کی قبر پر پھول چڑھانے آیا تھا۔ بارش ہو گئی، شکستہ قبروں سے لاشیں اُبل پڑیں اور ہر طرف سے مردہ عورتوں کی آوازیں آنے لگیں ’’میں تیری محبوبہ ہوں‘‘۔
’’ایکسیڈنٹ‘‘: ایک پیاری سی لڑکی روز اُس طرف سے گزرتی ہے، شاعر سمجھتا ہے کہ اسکول جاتی ہے مگر ایک دن وہ اُسے فٹ پاتھ پر نظر آتی ہے، تو اُس کے لیے یہ ایک بڑا جذباتی حادثہ ہوتا ہے۔ اُس کے فٹ پاتھ پر نظر آنے کی کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں۔
’’پینوراما‘‘
ہمارے عہد کی منافقتیں ظاہر کی گئی ہیں کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔
’’تنہا لوگ‘‘ میں رگبِی اکثر شادی بیاہ والے دن صدقہ خیرات لینے چرچ میں آتی، اسی طرح اپنی عمر گزار کے ایک دن لمبی نیند سو گئی۔ فادر میکنزی خاموشی سے اُسے دفنا کے مٹی میں لتھڑے ہوئے اپنے ہاتھ صاف کرتے واپس لوٹ آئے۔
’’تکا کارنر‘‘ کے کونے والے صوفے پر وہ ہری شاخ کو دیکھ لیتا ہے۔
اچھی لگیں جو سبز لبادے میں ٹہنیاں پھر شوقِ آشیاں مجھے بے چین کر گیا (منیر صابری)
’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں ایک نظم ’’کالا دن‘‘ کے نیچے درج ہے کہ یہ چارلس بادلئیر کی نظم کا ترجمہ ہے۔ دن عام طور پر امید، رجائیت اور نئے عزم کی علامت ہوتا ہے۔ مگر اِس نظم میں انتہا درجے کی مایوسی اور قنوطیت ہے، شاعر کو آسمان آہیں بھرتی روح کے اوپر ایک ڈھکنا محسوس ہو رہا ہے، دھرتی سیلی جیل لگ رہی ہے، مُردے تلاش کرنے والی ایمبولینس شاعر کی روح میں داخل ہوئی جا رہی ہے، کرب نے اُس کی کالی کھوپڑی میں اپنا کالا جھنڈا گاڑ رکھا ہے۔ فرانسیسی شاعر چارلس بادلیئیر (1821 تا 1867) کو نثری نظم کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ اُس کی اہم ترین کتاب (The flower of evil 1857 شائع ہوئی تھی، جس کا موضوع اخلاقی انحطاط اور جنس تھا۔ زندگی کے آخری 12 برسوں میں انہوں نے نثری نظمیں بھی لکھیں جو (Paris Speen) کے نام سے شائع ہوئیں۔ کسی حد تک کہانی پن لیے ہوئے، یہ ۵۰ نظمیں ہیں جو موضوعاتی اعتبار سے The flower of evil ہی کی توضیح کہی جا سکتی ہیں۔ خود بادلئیر برتراں کو نثری نظم کا پہلا شاعر مانتا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ نظمیں لکھنے سے پہلے اُس نے برتراں کی نظموں کو 20 بار پڑھا تھا۔ بادلئیر نے اپنے ایک سانیٹ میں ’’علامتوں کے جنگل، کا ذکر کیا ہے۔ یہی جنگل در اصل تخلیق کاروں کا مطمحِ نظر ہوتا ہے جہاں سے وہ حقیقتیں تلاش کر کے لوٹتے ہیں۔
مذکورہ نظم ’’کالا دن‘‘ ہی نہیں، رئیس فروغ کی علامتیں، اسلوبِ بیاں، لفظیات، موضوعات، حتی کہ اُن نظموں کے عنوان اور کردار بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کہیں اور تخلیق ہوئی ہیں اور انہیں ترجمے کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
لیڈی ڈفرن (معری نظم ہے)، ہوا کا لڑکا، ڈاکٹر فانچو، ایسا بھی اک توتا، سگِ ہم سفر، وہ لڑکی، سات پُل والی سڑک، ڈی ڈو ڈا، بوسٹن پارٹی، ہیلو گڈ بائی، تنہا لوگ، وہ ایک شہر ہے جلا ہوا اور غیر آباد، قبر اُس کے نام کی، یہ بات سر جان مارشل کو معلوم نہیں، نتشے نے کہا۔
رئیس فروغ نے بہت سے گیت اور قومی و ملی نغمے بھی لکھے جو ناہید اختر، عابدہ پروین، مہناز، احمد رشدی، سلیم رضا، ریشماں، بلقیس خانم، عالمگیر اور محمد علی شہکی، ایس بی جون، اور تاج ملتانی نے گائے۔ یہاں میں صرف ایک گیت ہی کے حوالے پر اکتفا کروں گا:۔
میری ہم جولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں (ریشماں)
بچوں کی نظمیں ابتدا ہی سے لکھتے رہے۔ اُن کی یہ نظمیں ’’غنچہ‘‘ بجنور اور ’’مدینہ‘‘ بجنور میں شائع ہوتی رہیں مگر جب وہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو سے منسلک ہو گئے تو ریڈیو کی سیدہ ناز کاظمی اور ٹیلی وژن کے عبید اللہ علیم، فہمیدہ نسرین اور سلطانہ صدیقی کے کہنے پر زیادہ تعداد میں بچوں کے گیت تخلیق کیے اور اصل شہرت انہیں کراچی ٹیلی سنٹر کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ سے ملی۔ اُس پروگرام کے لیے وہ کئی برسوں تک لکھتے رہے۔ 1979 میں بچوں کے عالمی سال کے موقع پر اسی پروگرام سے اُن کی منتخب نظمیں ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے نام سے شائع کی گئیں۔ اِن گیتوں میں شروع سے آخر تک ایک تخلیقی رو کار فرما نظر آتی ہے۔ اِن نظموں میں عام روش سے ہٹ کر نصیحتیں ذرا کم کی گئی ہیں۔ شاید اُن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ خشک نصیحتوں کی زیادتی بعض اوقات بچت کی شخصیت کے لیے مضر بھی ہو جاتی ہے۔
اسی لیے محب عارفی نے کہا تھا کہ ’’یہ گیت پڑھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ شروع سے پھر پڑھنے لگیں‘‘ اور عبید اللہ علیم نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے کہ ’’میں نے اُن سے کہا بچوں کے لیے بھی لکھیے اور بچو آپ گواہی دو گے کہ میں نے ٹھیک ہی کیا‘‘
میں نے گزارش کی تھی کہ وہ مشاعرے کے شاعر نہیں تھے، وقتی واہ وا کے لیے نہیں لکھتے تھے۔ اِس لیے کہ انہوں نے خود کو اپنے ہی رنگ میں پیش کیا، نگاہِ تماشائی کی فرمائش پر نہیں گئے۔ اپنی اندر کے شخص کو مرنے نہیں دیا۔ مزید براں اُن کی کئی غزلیں اول و آخر شاعرانہ انا کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں رو پوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
یہی خیال کہ برسے تو خود برس جائے
سو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا
ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
ملی سڑک پہ تو بادِ صبا سے کچھ نہ کہا
جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے
آدرش کو سینے سے لگائے ہوئے میں نے
لکھا ہے اگر شعر تو فاقہ بھی کیا ہے
٭٭٭