وہ ہاتھ میں شاپر پکڑے دکان سے باہر نکل رہا تھا جب سامنے سے آتی عینی سے ٹکرا گیا۔
“سوری۔۔۔ ”
وہ نیچے جھک کر چیزیں اٹھانے لگا۔
“وائز تم؟”
وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئی۔
وہ سیدھا ہوتا اسے دیکھنے لگا۔
“ہاں۔۔۔ ”
مختصر سا جواب آیا۔
“کیسے ہو؟”
وہ سائیڈ سے نکلنا چاہتا تھا لیکن وہ سامنے آ گئی۔
“میں ٹھیک اور تم؟”
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
ڈارک ریڈ کلر شرٹ پہنے، ریڈ کلر کی لپ اسٹک لگاےُ وہ دلکش لگ رہی تھی۔سلیو لیس شرٹ سے اس کی دودھیا بازو جھانک رہی تھیں۔
“میں تمہاری کال کا انتظار کر رہی تھی،، فیڈی کو بھی بولا تھا میں نے۔۔۔۔ ”
وہ بس رو دینے کو تھی۔
وائز لب کاٹتا اس سے نظریں ہٹانے کی سعی کر رہا تھا۔
“دیکھو میری شادی ہو چکی ہے بہت جلد بچہ بھی ہو جاےُ گا سو پلیز تم کسی اور کے ساتھ ٹائم پاس کرو۔۔۔۔ ”
وہ نرمی سے اسے سمجھا رہا تھا۔
“تو کیا ہوا؟ شادی کے بعد کیا لوگ ریلیشن میں نہیں ہوتے؟”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
“ہوتے ہوں گے لیکن مجھے اپنا گھر خراب نہیں کرنا۔۔۔۔”
وہ کرختگی سے بولا۔
“وائز میں تمہارا گھر خراب کروں گی؟”
وہ آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھنے لگی۔
“دیکھو تم سمجھ نہیں رہی۔۔۔۔ میرے پاس اب وقت نہیں ہوتا سو پلیز تم بھول جاؤ مجھے دنیا میں بہت سے لڑکے ہیں میں اکیلا نہیں ہوں۔”
وہ اسے بازوؤں سے پکڑ سمجھانے لگا۔
“اچھا پھر آج ملے ہیں تو ایک کافی تو پی سکتے ہیں؟”
وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
“اگر مزید کھڑا ہوا تو یقیناً یہ لڑکی سب خراب کر دے گی۔۔ ”
وہ بڑبڑاتا ہوا اپنا ہاتھ چھڑواتا تیزی سے بائیں جانب سے چلا گیا۔
وہ منہ کھولے اسے جاتا دیکھنے لگی۔
“اف!! یہ لڑکیاں غلط کام کی طرف کیوں بلاتی ہیں؟”
وہ جھرجھری لیتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
“وائز چھوڑ اس سب کو۔۔۔۔ ہمارا بےبی آنے والا ہے بس اسی پر فوکس کرنا ہے۔”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بول رہا تھا۔
“بس جلدی سے میرا بےبی آ جاےُ گا پھر اسی کے ساتھ رہا کروں گا میں سارا دن۔۔۔۔نہ یہ نظر آئیں گیں نہ دماغ میں غلط خیالات پیدا ہوں گے۔ ”
وہ مسکراتا ہوا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
“میرا چھوٹا سا وائز۔۔۔ ”
بولتے بولتے اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ رینگ گئی۔
وہ بیڈ پر بیٹھی میگزین کے صفحے پلٹ رہی تھی جب دروازہ کھلا اور وائز کا چہرہ نظر آیا۔
“سوری میں لیٹ ہو گیا۔”
وہ اندر آتا ہوا بولا۔
زرش کی آنکھوں کے سامنے وہ تصویریں گردش کرنے لگی جو ابھی چند سیکنڈز پہلے اس نے دیکھی تھی۔
وائز کسی لڑکی کو بازوؤں سے پکڑے کھڑا تھا۔
وہ سر جھٹک کر اسے دیکھنے لگی۔
اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز تھے۔
“یہ سب کیا ہے؟ تم تو امی کی طرف گئے تھے نہ؟”
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔
“ہاں لیکن کسی کام سے گیا تھا۔ اب یہ دیکھو۔۔ ”
وہ فون جیب میں ڈالتا بیگز صوفے پر رکھنے لگا۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی۔
اسے افسوس ہو رہا تھا وائز پر۔۔۔
وہ پھر سے بدگمان ہو گئی تھی۔
“یہ ہیں تمہارے فیورٹ شوز۔۔۔ ”
وہ سیاہ رنگ کی پینسل ہیل والے شوز اس کے سامنے لہراتا ہوا بولا۔
وہ پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔
“یہ ہے تمہارا فیورٹ کلر میں فیورٹ ڈریس۔۔۔ ”
وہ بلیک کلر کی فراک تھی جو پاؤں تک آتی۔
وہ بےیقینی سے کبھی وائز کو دیکھتی تو کبھی اس ڈریس کو۔
“اور یہ تمہارا فیورٹ پرفیوم، فیورٹ جیولری۔۔ اور ہاں آج کھانا بھی تمہاری پسند کا لایا ہوں۔”
وہ اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔
اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔
“اور یہ ایک میری فیورٹ چیز ہے۔۔۔ ”
وہ اس کا بائیاں ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی پہناتا ہوا بولا۔
وہ ہکا بکا سی اس سیاہ رنگ والے ڈائمنڈ کی رنگ کو دیکھنے لگی۔
“کیا تم پاگل ہو؟”
وہ چہرہ اوپر کرتی ہوئی بولی۔
“بلکل بھی نہیں۔۔ اس میں پاگل ہونے والی کیا بات؟ میں اپنی بیوی کے لئے شاپنگ نہیں کر سکتا کیا؟”
وہ خفگی سے بولا۔
“اتنا ٹائم اس سب میں لگایا تم نے؟”
وہ چیزوں کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
وہ معصومیت سے اثبات میں سر ہلانے لگا۔
“تھینک یو۔۔۔ ”
وہ بس اتنا ہی بول پائی۔
چہرے پر خوشی کی رمق تک نہ تھی۔
“ضرورت نہیں۔۔۔ بس تم خوش رہا کرو۔”
وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
وہ خاموش اسے دیکھنے لگی۔
“تمہیں بھوک لگی ہو گی نہ؟ میں آتا ہوں۔”
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
وہ ششدر سی اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔
زرش کو کھانا کھلا کر وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔
گھڑی پر نظر ڈالی تو وہ بارہ بجا رہی تھی۔
جسم تھکاوٹ سے چور تھا لیکن نیند آج بھی خفا تھی۔
وہ گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر لیٹ گیا۔
نظریں چھت پر تھیں۔
“کیا یہ آزمائش کبھی ختم نہیں ہو گی؟ اب تو میں نے سب چھوڑ بھی دیا ہے خود کو بس زرش تک محدود کر لیا ہے۔۔ ہر برا کام چھوڑ دیا۔۔۔ آج بھی دل چاہتا ہے شراب کو اپنے اندر اتاروں لیکن میں ہاتھ تک نہیں لگاتا کتنا مشکل ہے میرے لئے یہ میں ہی جانتا ہوں۔”
آنسو بہتے ہوۓ تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔
“تمہارا یہ رویہ مجھے کتنی تکلیف دیتا ہے زرش مجھ سے پوچھو۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
“کیا آزمائشیں موت تک چلتی ہیں؟ کبھی ختم نہیں ہوتیں؟ امی نے تو کہا تھا سب ٹھیک ہو جاےُ گا۔۔۔ لیکن یہاں تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ وائز رضی حیات موسم کی مانند بدل گیا لیکن زرش کے دل میں جمی برف پگھل نہ سکی۔”
وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔
“اب تو پچھتاوا اتنا بڑھنے لگا ہے کہ دل چاہتا ہے خود کو قتل کر لوں۔۔۔ ہاں یہی سزا بتائی تھی نہ زرش نے؟”
اس خالی کمرے میں وہ نجانے کس سے مخاطب تھا۔
“لیکن ہمارا بچہ؟”
اشکوں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔
“میں اسے گود میں اٹھانا چاہتا ہوں۔۔۔ اس کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں، اس کا ماتھا چومنا چاہتا ہوں۔اسے چلنا سیکھانا چاہتا ہوں بولنا سیکھانا چاہتا ہوں، جب وہ مجھے بلاےُ۔۔۔”
وہ آنکھیں بند کئے بول رہا تھا۔
“قسمت کہیں سے تو مہربان ہو جاےُ۔۔ کچھ تو رحم میرے حال پر بھی کر دے۔ کیا میں انسان نہیں ہوں؟ اب تک جس طرح یہ سب برداشت کیا ہے میں ہی جانتا ہوں۔ روز اس کی باتوں سے اس کے رویوں سے ٹوٹتا ہوں اور روز جڑتا ہوں۔ لیکن کب تک؟ میری برداشت کی حد بھی عبور ہو چکی ہے۔
تھک گیا ہوں میں۔۔۔ میرے کندھوں میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ مزید اس بوجھ کو اٹھا سکوں۔۔۔ ”
وہ چہرہ تکیے پر رکھتا اپنی سسکیاں دبانے لگا۔
آج کی پوری رات ہی آنکھوں میں بسر ہونی والی ہے۔
“بس کر دو زرش بس کر دو۔۔۔ ایسا نہ ہو میں مر جاؤ اور پھر تم میرے پاس آؤ۔۔۔ ”
مدھم سی سرگوشی کمرے میں سرسرائی۔
ایک معدوم سی سسکی کے بعد کمرے میں دبیز خاموشی نے ڈیرے جما لیے۔
~~~~~~~~
چھ ماہ بعد:
“بھابھی وائز پچھلے کچھ دنوں سے کسی لڑکی سے مل رہا ہے اور کسی وکیل سے بھی۔”
وہ پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
“کسی لڑکی سے۔۔۔ ”
وہ زیر لب دہراتی اپنا ہاتھ دیکھنے لگی۔
“لیکن اس نے تو۔۔۔ سب چھوڑ۔۔۔۔دیا تھا۔”
الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔
“جی سب چھوڑ دیا تھا اب میں بھی سمجھنے سے قاصر ہوں وہ کر کیا رہا ہے؟”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
جو نرمی اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی پھر سے ختم ہو گئی۔
بدگمانی ڈیرے جما چکی تھی۔
“پھر ایسا کرو کوشش کرو معلوم کرنے کی۔۔ مجھے جاننا ہے وہ میرے ساتھ وفاداری نبھا رہا ہے یا دھوکہ دے رہا ہے۔”
بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی۔
“میں بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن آپ کے اصرار پر۔۔۔ ”
وہ شرمندگی سے کہتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔
“نہیں۔۔۔ بلکل ٹھیک کیا مجھے بتا کر۔۔ میں یہاں سارا دن گھر رہتی ہوں مجھے کیا معلوم وہ باہر کیا کرتا ہے۔”
وہ اِدھر اُدھر دیکھتی بول رہی تھی۔
احسن خاموش رہا۔
“میں چاےُ بناتی ہوں۔”
وہ کہتی ہوئی اٹھ گئی۔
“ارے نہیں بھابھی۔۔۔ آپ اس حالت میں کام نہ کریں میں کام سے جا رہا تھا تو سوچا آپ کو بتاتا چلوں۔”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“نہیں لیکن ایسے اچھا نہیں لگتا۔۔۔ ”
وہ رک کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
“اپنا گھر ہے ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ پھر کبھی سہی۔”
وہ مسکرا کر کہتا باہر نکل گیا۔
وہ کچن کے دروازے کو تھامے اشک پینے لگی۔
“کتنے روپ ہیں تمہارے وائز؟”
وہ چہرہ جھکا کر بولی۔
“آج لیٹ نہیں ہو گئے تم؟”
وہ جانچتی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“ہاں باہر تھا میں۔۔ ”
نگاہیں فون پر تھیں۔
“کیوں؟”
وہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
“کام سے گیا تھا۔”
وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔
“کس کے ساتھ؟”
اس نے اگلا سوال داغا۔
“سعد کے ساتھ۔”
نہایت صفائی سے جھوٹ بولا گیا۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
“تم اتنی تفتیش کیوں کر رہی ہو؟”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“نہیں ایسے ہی۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“آج ڈاکٹر کے پاس جانا ہے نہ؟”
وہ فون سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔
“جی ہاں۔۔اور تم بھول گئے۔”
وہ جتانے والے انداز میں بولی۔
“نہیں۔۔ دیکھو مجھے ٹائم سے پہلے یاد آ گیا۔”
تم چینج کر لو آدھے گھنٹے میں نکلتے ہیں۔ میں ماسی کو فون کر کے منع کر دیتا ہوں کچھ دن تک نہ آےُ واپسی پر گاؤں چلیں گے۔۔ امی کے دس فون آ چکے ہیں مجھے۔”
وہ فون کو دیکھتا ہوا بولا۔
“صبح میں جاتے تو ماسی گھر کی صفائی کر دیتی اس طرح اتنے دن گھر میں گند پڑا رہے گا۔”
وہ اسے دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔
“نہیں بند گھر میں گند کیوں پڑے گا۔۔۔۔ ”
وہ فون جیب میں ڈالتا ہوا بولا۔
“اچھا۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
~~~~~~~~
“سدرہ میں دو دن سے تمہیں فون کر رہا ہوں۔۔۔۔ ”
وہ چہرے پر خفگی سجاےُ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
“تو کیا ہوا گیا؟ میں گھومنے گئی ہوئی تھی۔”
وہ شانے سے بال پیچھے پھینکتی ہوئی بولی۔
“تمہارے پاس سب کے لئے ٹائم ہے اور میری تم کال بھی نہیں لے سکتی؟”
وہ تلملا اٹھا۔
“دیکھو کب تک شادی نہیں ہو جاتی تب تک تو مجھے سکون سے رہنے دو بعد کی بعد میں دیکھی جاےُ گی۔۔۔ ”
وہ لاپرواہی سے کہتی چلنے لگی۔
“پچھتاؤ گی تم۔۔۔”
وہ غراتا ہوا دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔
“میری جوتی بھی نہ پچھتاےُ۔۔۔ ”
وہ احسن کی پشت کو دیکھتی بڑبڑائی۔
~~~~~~~~
“امی وائز دو دن سے حویلی نہیں آیا۔۔۔ کدھر گیا ہے؟”
وہ متفکر سی بولی۔
“مجھے خود بھی نہیں معلوم۔۔۔ پہلے تو کبھی تمہیں یہاں چھوڑ کر خود نہیں گیا۔ میں نے فون کیا تو ملا نہیں۔”
وہ الجھ کر بولیں۔
“میرا فون بھی اٹھا نہیں رہا۔۔۔ پتہ نہیں کیا چل رہا ہے اب اس کے دماغ میں۔”
وہ کہتی ہوئی باہر نکل آئی۔
“کیا ہوا بیٹا کوئی پریشانی ہے؟”
رضی حیات زرش کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
“وائز دو دن سے حویلی نہیں آیا۔۔۔ فون بھی نہیں اٹھا رہا۔”
وہ تقریباً رو دینے کو تھی۔۔ وجہ جاننے سے خود بھی قاصر تھی۔
“آ جاےُ گا فکر مت کرو۔۔ اکثر ایسے ہی بنا بتاےُ چلا جاتا ہے۔”
وہ کہتے ہوۓ ٹی وی آن کرنے لگے۔
وہ چینل آگے پیچھے کر رہے تھے جب ایک نیوز چینل پر ان کا ہاتھ منجمد ہو گیا۔
“جی ناظرین آپ نے بلکل درست سنا رضی حیات کے بڑے بیٹے محمد وائز رضی حیات پر ریپ کیس کی پہلی سنوائی آج ہے۔ ابھی وائز رضی حیات کو پولیس وین میں یہاں لایا جاےُ گا۔
دو روز قبل انہوں نے گرفتاری دی اور آج اس کیس کی پہلی سنوائی ہے۔۔۔ ”
وپورٹر مائیک لئے کورٹ کے باہر کھڑی بول رہی تھی۔
رضی حیات اور زرش پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسکرین پر چلتی وائز کی تصویر کو دیکھ رہے تھے جس میں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا۔
“بابا سائیں؟”
وہ حواس باختہ سی بولی۔
“گل ناز۔۔۔ بہو کو سنبھالو تم ہم فیض کے ساتھ شہر جا رہے ہیں۔”
وہ چلاتے ہوۓ کھڑے ہو گئے۔
“جانے مانے سیاستدان کا بیٹا وائز رضی حیات آپ انہیں دیکھ سکتے ہیں ان کا چہرہ جھکا ہوا ہے۔”
وہ پولیس کے گھیرے میں چلتا ہوا آ رہا تھا۔
“یہ سب۔۔۔ ”
وہ گل ناز کو دیکھتی ٹی وی کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
“حد ہوتی ہے۔۔۔۔ یہ لڑکا کبھی سدھر ہی نہیں سکتا۔۔ ساری عزت خاک میں ملا دی۔۔ فیض جلدی باہر نکلو۔”
وہ چکر لگاتے ہوۓ چلا رہے تھے۔
“بیٹا حوصلہ کرو۔۔۔ آؤ میں تمہیں کمرے میں لے جاتی ہوں۔”
گل ناز زرش کو ساتھ لگاتی ہوئی بولی۔
“صحیح کہا آپ نے بابا سائیں۔۔۔ وہ کبھی نہیں سدھر سکتا۔”
زرش آنسو صاف کرتی سختی سے بولی۔
“امی میں ٹھیک ہوں آپ فکر مت کریں۔۔۔ مجھے میرے کمرے تک لے جائیں۔”
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگی۔
“تم بہو کے ساتھ ہی رہنا۔”
رضی حیات کہتے ہوۓ فیض حیات کے ہمراہ باہر نکل گئے۔
“امی ٹی وی آن کر دیں۔”
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
“رہنے دو تم آرام کرو۔”
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔
” میں ٹھیک ہوں آپ فکر مت کریں۔”
وہ سپاٹ انداز میں انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔
“ناظرین جیسے ہی محمد وائز رضی حیات کے وکیل باہر نکلیں گے تو ہم ان سے معلومات لے کر آپ تک فراہم کر دیں گے۔تب تک انتظار کیجئے ملتے ہیں اس بریک کے بعد۔”
وہ آواز بند کرتی الماری کو گھورنے لگی۔
“تو تم ان کاموں میں پڑے ہوۓ تھے۔۔۔ اسی لئے مجھے یہاں چھوڑ گئے۔ میں نے کیسے سمجھ لیا کہ تم سدھر گئے ہو۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی بول رہی تھی۔
“تم کبھی نہیں سدھر سکتے وائز رضی حیات کبھی نہیں۔۔۔ ”
وہ تاسف سے کہتی پانی پینے لگی۔
نظر اسکرین پر پڑی تو وائز کا چہرہ نظر آیا۔
بلیک چیک والی شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پہنے وہ وکیل اور پولیس کے ہمراہ زینے اتر رہا تھا۔
سیاہ بال پیشانی پر منتشر تھے۔
وہ اسی حلیے میں تھا جس میں وہ زرش کو گاؤں چھوڑ کر گیا تھا۔
وہ متجسس تھی جاننے کے لیے۔
وائز جا چکا تھا۔
“نجانے کیا ہوا ہوگا اندر۔۔۔ ”
وہ بے چینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔
“ایک حیران کن بات آپ کو بتاتے چلیں کہ محمد وائز رضی حیات نے خود عدالت سے درخواست کی کہ انہیں سزاےُ موت دی جاےُ تاکہ وہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت کی نشانی بن سکیں۔ مزید ایک انکشاف کرتے چلیں کہ انہوں نے خود اپنی گرفتاری دی۔۔ اور اب اپنی آخری خواہش کے طور پر اپنے لیے یہ سزا تجویز کی۔ جج صاحبہ نے ان کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوۓ جمعرات کی صبح پانچ بجے انہیں پھانسی دینے کا حکم دے دیا۔
اس طرح یہ کیس پہلی سنوائی میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔وائز رضی حیات کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ فضا راجپوت جو کہ جانے مانے سیاستدان کی بیٹی ہیں وہ اس وقت خوش ہیں کہ ان کے مجرم نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا اور اعتراف جرم کیا جس کے باعث انہیں انصاف مل سکا۔”
زرش نے ہاتھ بڑھا کر ٹی وی بند کر دیا۔
“یہ سب کیا ہے؟ وائز نے خود؟”
وہ جھنجھلا کر بولی۔
کچھ سوچ کر اس نے فون اٹھایا اور احسن کا نمبر ملانے لگی۔
“جی بھابھی؟”
وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
“نیوز دیکھی؟”
وہ متفکر سی بولی۔
“جی بھابھی۔۔۔میں اس وقت پولیس اسٹیشن میں ہوں وائز کا انتظار کر رہا ہوں۔”
وہ ٹہلتا ہوا بولا۔
“یہ سب کیا ہے؟ اس نے کیوں خود کو۔۔۔ ”
الفاظ دم توڑ گئے۔
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
“بھابھی آپ فکر مت کریں میں سب سیٹ کر لوں گا۔۔۔ جہاں تک میرا دماغ کہتا ہے اس نے خود یہ سب کیا ہے۔ فضا راجپوت کی جو رپورٹس دی گئیں کورٹ میں وہ فیک ہوں گی ان فیکٹ یہ کیس ہی فیک ہے۔”
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
“واٹ؟”
وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
“جی۔۔ میں جانتا ہوں وائز فیک کیس بنوانے میں ماہر ہے اس سے قبل وہ کسی کے خلاف یہ کر چکا ہے اور وہ انسان ابھی تک جیل میں ہے۔”
وہ دروازے کی سمت دیکھتا ہوا بولا۔
“لیکن کیوں؟”
وہ الجھ کر بولی۔
“یہ تو وائز ہی بتا سکتا ہے آخر اس نے یہ حماقت کیوں کی۔۔۔ ”
وہ تاسف سے بولا۔
“ٹھیک ہے پھر جیسے وائز سے بات ہو مجھے بتانا۔۔۔ ”
وہ آہستہ سے بولی۔
“آپ ٹینشن مت لیں۔۔۔میں دیکھ لوں گا اسے۔ اور ایک بات آپ لوگوں میں سے کوئی بھی باہر نہ نکلے۔ میں نے گیٹ پر گارڈز بھیج دئیے ہیں۔ عوام کا کوئی بھروسہ نہیں وہ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔”
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
“تم نے کیوں کیا ایسا؟”
وہ خود کلامی کرتی دیوار پر لگی اس کی تصویر دیکھنے لگی۔
جامنی رنگ کی شرٹ کے ساتھ سیاہ رنگ کی جینز پہن رکھی تھی گلے میں گرے کلر کا مفلر پہن رکھا تھا۔ شیو ہمیشہ کی مانند بڑھی ہوئی تھی، بال نفاست سے سیٹ کئے وہ مغرور انداز میں کھڑا تھا۔
زرش کے پاس الفاظ ختم ہو گئے تھے۔
اس کا دماغ یہ صورتحال سمجھنے سے قاصر تھا۔
وہ وائز کی تصویر کو دیکھتی اپنی سوچوں کو جھٹکنے لگی۔