(Last Updated On: )
اپنا وطن کو چھوڑے ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ اب تو ماہ و سال بھی یاد نہیں کہ آباء و اجداد کب جلا وطن ہوئے … غریب الوطن ہونا، جلا وطن ہونا، ہجرت ہونا ایک دیرینہ روایت ہے یا انسانی تہذیب کے مقدّرات کی کتاب میں مرقوم فیصلے۔ یہ بات سینہ بہ سینہ چلی آر ہی ہے کہ اپنا وطن بہت خوبصورت تھا۔ جب اپنا تھا تو خوبصورت تو ہونا ہی تھا۔ وہاں شور تھا نہ کوئی شر۔ ہر سوٗ سکون و قرار تھا۔ فرحت و مسرت و شادمانی تھی۔ چاروں طرف لہلہاتا سبزہ پھولوں کی خو شبوؤں سے معطر فضا شب و روز کی رنگینی اور موسموں کی مستی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ میری نسل کے زیادہ تر لوگ اپنا وطن بھول گئی ہیں۔ کبھی کسی کو یاد آتا ہے کبھی کبھی کسی کو بہت یاد آتا ہے۔
جد امجد نے اپنا وطن خیرباد کیا۔ محل نما رہائش گاہ کو چھوڑ نے میں بڑا ہی دکھ ہوا کافی عرصہ تک زبان در زبان اس کا چرچہ ہوا … پھر ذکر کم سے کم تر ہوتا گیا۔ اب تو کبھی یاد آئی تو آپس میں ذکر ہو گیا۔ نسل کے بوڑھے اپنا وطن یاد کر تے، یاد کر کے آہیں بھرتے ان کی آواز میں بڑا درد اور لہجہ رقت آمیز ہوتا۔ نوجوان اور بچیّ کبھی اس ذکر میں شا مل ہوتے تو بے دلی ان کے رویّے سے ظاہر ہوتی نہ تو کبھی توجہ دیتے اور سنجید گی کا ہمیشہ فقدان ہوتا۔ جب وہی بچیّ سنِ پیرانہ سالی کو پہنچتے تو ذکر ان کی دلچسپی کا سبب بن جاتا اور وہ بھی اپنی غریب الوطنی کا شدت سے احساس کرنے لگتے اس کا ذکر کر تے وقت ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں یہ سلسہ دیرینہ وقتوں سے اسی طرح جاری ہے۔ اپنا وطن واپسی کے لئے دلی یا بے دلی سے تیاریوں میں مصروف دکھائی دینے لگتے۔
یہاں اس امر کی جانب یہ اشارہ کرنا ناگزیر ہے جب جب اپنا وطن واپسی کی فکر ہوتی تو اپنے احباب و اقربا کے چھوٹنے سے رنجیدہ بھی ہوتے۔ اکثر بزرگ بھی سامانِ سفر باندھتے وقت دُکھی ہوتے اس وقت اپنے وطن واپسی کی خوشی کم اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا ہوتا۔ حالانکہ واپسی ایک حقیقت تھی۔
اب مسئلہ یہ تھا سفر سے پہلے سامانِ سفر کا باندھنا ضروری اور غیر ضروری چیزوں کا انتخاب کرنا تاکہ بوجھ ہلکا رہے اور سفر میں دقتوں کا سامنا نہ ہو۔ قصدِسفر بھلے ہی اپنے بس میں نہ ہو لیکن متا عِ سفر اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور اگر ضروری سامانِ سفر کی قِلّت کا احساس شدت اختیار کر لے تو وطن واپسی کا خوف ایک ڈراؤ نا خواب بن جاتا ہے۔ وہ بھی اس پل مکھّی کی طرح مکڑی کے جال میں پھنسا تھا۔ کوئی غیبی طاقت یا اندرونی جذبہ سفر کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اس نے سامانِ سفر باندھا اور جیسے ہی چلنے کا ارادہ کیا اسے خیال آیا سفر میں کام آنے والا سامان ایک نظر دیکھ لیا جائے لیکن میں تو اپنے وطن جا رہا ہوں سامانِ سفر باندھنے کی کیا ضرورت؟ سفر کرتے وقت ذہن سامان کی حفاظت اور دیکھ بھال میں لگا رہے گا اور لطفِ سفر فوت ہو جائے گا۔ سفر طویل ہو یا مختصر لطف سے خالی ہو تو بوجھ بن جاتا ہے بوجھ تلے انسان دبا سہما رہتا ہے۔ اپنے آرام کے لئے متا عِ سفر کا بوجھ کتنا ہی بڑھا لے مگر سفر تو پھر سفر ہے۔ تھکا دینے والا۔ اسی لئے سامان کم سے کم باند ہے تاکہ سفر آسان ہو جائے حساب کتاب گننے اور شمار کرنے کی الجھن سے نجات مل جائے۔ یہی نجات کامیاب زندگی اور آ سان سفر کی علامت ہے اس نے سا مان کو ٹٹولا اس میں فا لتو چیزیں زیادہ ہیں اور ضروریاتِ سفر کا سامان کم ہے۔ وہ سو چتا ہے اس میں میرا اپنا کیا ہے؟ میں سفر کا تنہا مسافر اور اتنا بوجھ کوئی بوجھ بانٹنے والا بھی نہیں۔ میں اکیلا مسافر بوجھ تلے دبا ہوا۔ ایک کنگال مسافر جا نب سفر رواں … جیسے تیسے اسٹیشن پہنچا … اسٹیشن پر مسافروں کا ہجوم۔ سب ہی مسافر انجان منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہیں حواس باختہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ ٹرین کی آمدورفت کی گہما گہمی کانوں کو بہرہ کرنے والا ایک شور۔ اس بھیڑ میں آنکھوں کی بینائی آشنائی سے محروم، کسی کو کسی کی خبر نہیں نفسیٰ نفسی کا عالم۔ ٹرین لیٹ ہو گئی۔ مقررہ وقت سے کا فی لیٹ نہیں … نہیں … ٹرین ہمیشہ متعین وقت پر آتی ہے۔ شاید مجھے ہی سفر کی جلدی ہے۔ شاید یاد وطن اور احساس جدائی نے وقت کی گنتی کرنا بھلا دیا ہے۔ آخر! میں بوڑھا بھی تو ہو گیا ہوں۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کوئی اپنا مل جائے بوجھ اٹھانے میں مدد ہو جائے گی سب ہی مسافر اپنے اپنے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں کوئی کسی کا مدد گار نہیں اس نے اپنا بوجھ اٹھا یا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا اسے ویٹنگ روم، عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسا وہ عارضی وطن اور ویٹنگ کے فرق کو جاننے کے لئے دماغ کھپانے لگا؟ نتیجہ صفر نکلا۔ وٹینگ روم سفید پتھروں سے بنا ہوا محل جیسا حسین و جمیل مگر گرد و غبار سے اٹا ہوا … دیواریں رنگ و روغن سے آ راستہ خاک آلود چھت پر نقش و نگار بنے ہوئے مگر صفائی نہ ہونے سے دھند لے پڑ گئے تھے … اس نے ویٹنگ روم میں راحت کی سا نس لی … با ہر کے نا خوش گوار مو سم کے مقابلے میں اندر کا موسم خوش گوار اور مناسب تھا اپنا سا مان احتیاط سے کمرے کے ایک کونے میں رکھا ویٹنگ روم کی بے ترتیب چیزوں کو قرینہ سے رکھنے لگا۔ آئینہ کو کھونٹی پر سیدھا کیافر نیچر کی سمت بدلی … اور وٹینگ روم کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا تھوڑی دیر کے لئے وہ یہ بھول گیا کہ وہ ایک مسافر ہے۔ نہ تکان کا دھیان، نہ بوجھ کی الجھن۔ ویٹنگ روم کی چہار دیواری رنگین اور خو بصورت تصاویر سے سجی ہوئی تھیں ان مختلف تصویروں کے درمیان دیوار کا مختصر حصّہ خالی پڑا تھا جو سپاٹ اور بدنما دکھائی دے رہا تھا اس نے سو چا اگر اس پر کوئی تصویر آویزاں کر دی جائے تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ویٹنگ روم کی زیب و زینت اور آ رائش میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ مسافر ہونے کا گمان اس کے ذہن سے محو ہو گیا وہ بھول گیا کہ ویٹنگ روم میں اس کا قیام صرف اتنا ہے کہ جب ریل گاڑی آ جائے تو اس پر اس کو سوار ہو جا نا ہے اور اسے اپنے وطن جا نا ہے۔ اس کے آباء و اجداد کو اپنی مرضی سے، کسی سازش کے تحت یا کوئی اور وجہ سے خدا جانے اپنا وطن خیر باد کہنا پڑا۔ وہ بوڑھا ہو گیا ہے یاد داشت کمزور ہو گئی ہے۔ نا توانی اور کمزوری ہونے کے سبب مختلف بیماریوں کا غلبہ رہتا ہے جسم سے قوتِ مدافعت زائل ہو گئی ہے معمولی بیماری بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ خیر یہاں تو معاملہ پیرانِ سالی کا ہے اگر عہد طفلی سے جوانی تک کسی بھی عمر میں کمزوری ہو تو معمولی سے معمولی بیماری بھی حاوی ہو جاتی ہے اور اس وقت اپنے وطن کی یاد شدت سے جاگنے لگتی ہے اور اس وقت کمزوری یا کوئی اور وجہ سے دل کا نپنے لگتا ہے، گھبراہٹ اور خوف طاری ہو جاتا ہے چونکہ اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا وطن کی یاد کا الم چھوٹا ہوتا ہے۔؟
ویٹنگ روم کے بائیں جانب دبیز خوش رنگ قالین بچھی تھی۔ دائیں طرف صوفہ پر اس کے قدم خود بخود بڑھنے لگے وہ تھکا ماندہ اس میں دھنس گیا سا منے دیوار پر تصویروں کے درمیان خالی جگہ پر نظر جم گئی … وہ اسی لمحہ اٹھا اسٹیشن کے گیٹ سے با ہر نکلا … گرمی کی وجہ سے دھوپ کی تمازت شدید تھی۔ آسمان صاف تھا ہلکے نیلے رنگ پر سفید بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ سورج سر کے اوپر آگ بر سار ہا تھا۔ اچانک لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کے منہ پر طمانچے لگانے شروع کر دیے وہ گھبرا گیا اسے پیاس محسوس ہوئی ویٹنگ روم کی طرف اس کے قدم واپس ہونے لگے دروازے میں داخل ہوتے ہی پیاس نے شدّت اختیار کر لی۔ اس کی آنکھیں نا معلوم شے کے لئے بے چین ہو گئیں اسے یاد آیا اسے پانی کی تلاش ہے۔ فریج کے قریب گیا۔ پانی کا گلاس بھرا۔ غٹ غٹ ایک سا نس میں پی گیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پھر گلاس میں بھرا۔ غٹ غٹ۔ پیاس ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جوں جوں وہ پانی پیتا تو نس بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے پانی گرم کھولتا ہو الگ رہا تھا۔ وہ گھبرایا ہوا۔ بار بار پانی پیتا رہا پیا سی نظریں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں۔ ویٹنگ روم چند لمحہ پہلے جنتِ نشاں دکھائی دے رہا تھا اچانک دوزخ میں تبدیل ہو گیا۔ بے چینی کے عالم میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے اس کی نگاہیں جائے پناہ تلاش کر رہی ہوں دیوار پر آویزاں تصویروں پر جا کر نگاہ ٹھہر گئی اس نے حواس درست کئے آنکھوں کو تصاویر کی جانب سمینٹا۔ اور صوفہ پر نڈھال ہو کر بیٹھ گیا۔
تصویر نمبر ایک۔ دو جمع تین ضرب دو بولنے لگی۔ خوبصورت سبز قالین کے درمیان پہاڑ کی ہلکی سی سیاہی برف کی چا در سے ڈھکی ہے۔ روئی دھننے پر اُڑنے والا دھواں جیسا برف چاروں طرف گر رہا ہے۔ پہاڑ کی پشت پر ڈوبتے سورج کی شفق آسمان کے چھو ٹے سے کو نے پر پھیل رہی ہے۔ سبز زمین پر قد آوردرخت صف بنائے صلوٰۃ میں مصروف ہیں۔ خو شگوار سبک خرام ہوا کی تال پر مختلف رنگوں کے پھول قطار لگائے نا زک شا خوں پر نازنینوں کی طرح مٹک رہے میں۔ ہلکا ہلکا سرمئی اندھیرا مشرق میں پھیلا ہے اور اس کے درمیان سے ما ہتاب جھانکتا کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھُپتا جیسے کوئی پردہ نشین چلمن کے پیچھے بیٹھی مسکراہٹ کے پھول بکھیر رہی ہو رنگین اور خو شبو سے معطر فضا میں ایک جوان جوڑا اٹھکیلیاں کر رہا ہے فرشتوں جیسے معصوم ہو نٹوں پر کھیلتی ہوئی دلنواز مسکرا ہٹیں اس جوڑے کا استقبال کر رہی ہیں اور برف کے گولے بنا بنا کر ان کی طرف اچھال رہے ہیں ذرا فاصلے پر کچھ جا نور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھاس چر رہے ہیں ایک عجیب اور دلفریب منظر کو دیکھ کر اس کا دل خوش ہو رہا تھا
’’لو از لائف‘‘ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا
شبنم کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو وہ میرے دل کی کلی پرا یسے گری کہ پھول کی طرح کھل گیا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹی سرخ جوڑے میں ملبوس، میرے گھر میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح بر سی۔ میرا گھر ہرا بھرا ہو گیا۔ زندگی کا ہر درد انگیز لمحہ اس کی ایک مسکراہٹ سے نشاط انگیز ہو جا تا۔ پھر وہ اپنے پھول سے بچوں میں ایسی مست ہوئی کہ میں فاضل اور فضول شے بن گیا۔ محبت کا سفر جب ممتا پر رکتا ہے تو وہی شریک حیات کی منزل ہوتا ہے۔
’’شبنم بھی ہے بچے بھی ہیں اور میں سفر کا اکیلا مسا فر۔ بالکل تنہا‘‘ اس کے منہ سے نکلا
اچانک تصویر نمبر دو۔ تین جمع چار ضرب دو بولنے لگی۔ ایک بار عب شخص سونے کا تاج اور چا ندی کے نعلین پہنے بڑے کر وفر کے ساتھ تخت نشین تھا سا منے ایک باریش انسان زنجیروں میں جکڑا ہوا کھڑا تھا۔ ایک بد نما شکل کا آدمی ہاتھ میں تلوار لئے اس کے سا منے کھڑا تھا۔ چھلے دار مونچھوں کے نیچے سیاہ ہونٹ ہل رہے تھے اور آنکھیں حکم کی منتظر تھیں۔ درباری نگاہیں بسجود ہاتھ باندھے اپنے ناخدا کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ قطار میں کھڑے تھے۔
’’سچ بولنے کا انجام سزائے موت‘‘ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا
تصویر نمبر تین۔ چار جمع پا نچ ضرب دو پر اس کی نگاہ گئی ایک مثلث کے اندر روشنی کو بکھیرتی ہوئی آنکھ، یہ آنکھ علم کی علامت، مثلث کے اضلاع کے چاروں طرف پھوٹتی ہوئی کرنیں جو جہالت کے سیاہ بادلوں کو ہٹا دیں گی۔
کئی چھڑیوں کا ایک بنڈل: – اتحاد میں قوت ہے۔
ٹوٹی ہوئی زنجیر: -غلامی سے نجات آزادی کی علامت۔
زمین پر گرا ہوا عصائے شا ہی! پیروں کے نیچے دبا ہوا سونے کا تاج۔
سانپ اپنی دم کو کاٹتے ہوئے ایک حلقے کی صورت میں: – ہمیشگی کی علا مت کیونکہ کسی حلقے کی نہ تو ابتدا اور نہ انتہا۔
پنکھ دار عورت: – قانون کی تمثیل۔
قا نون کی تختی: – قا نون سب کے لئے ایک ہی جیسا، اس کے سامنے سب برابر ہیں۔
ایک کھدرد ھاری نیتا کی مٹھی میں انصاف کی دیوی۔
تصویر نمبر چار۔ پانچ جمع چھ ضرب دو بولنے لگی۔ بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مو تیوں جیسے دانتوں کے بیچ پائیریا کے کالے کالے کیڑے ان کے اوپر اڑتے ہوئے ہوائی جہاز اور ہیلی کوپٹر۔ سڑک پر دوڑتی ہوئی مو ٹر گاڑیاں فٹ پاتھ پر دوڑتی ہوئی سائیکلیں اور پیدل دوڑ تے ہوئے لوگ۔ شراب اور رقص و سرود میں ڈوبی ہوئی محفلیں۔ دیواروں کے سا یہ میں زمین پر سوئے ہوئے انسان، جھوٹن پر کتّے کی طرح دوڑتے میلے کچیلے مدقوق بچے۔
وہ سوچنے لگا وٹینگ روم کی دیواروں پر لگی ہوئی یہ تصویر یں زندگی کی تمام بدصورتیوں کے ساتھ کتنی حسین و جمیل اور خوبصورت ہیں۔ پو ری کائنات ویٹنگ روم میں سمٹ گئی ہے۔ کائنات ویٹنگ روم ہے اور ویٹنگ روم کائنات بن گیا ہے۔ لیکن تصاویر کے درمیان دیوار پر چھوٹی سی خالی جگہ اس سجے ہوئے ویٹنگ روم میں کتنی بد زیب نظر آ رہی ہے اور ویٹنگ روم اس کی وجہ سے بد نما دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اس کی آرائش اور سجاوٹ کے لئے پریشان ہو گیا … ارے … مجھے کیا … کرنا ہے؟
میں تو ایک مسافر ہوں۔ مجھے ویٹنگ روم کی زیب و زینت سے کیا لینا دینا؟۔ میں ایک تنہا مسافر۔ جس کی اہل ہے مگر نہیں ہے۔ جس کے عیال ہیں لیکن نہیں ہیں۔ جس کے عزیز و اقارب، دوست و احباب ہیں مگر نہیں ہیں۔ کوئی نہیں ہے میرا وہ سوچنے لگا اس خالی جگہ کو مختلف ممالک میں چلنے والے سکوّں کی تصویر لگا کر بھر دی جائے۔ خالی جگہ بھر جائے گی اور ویٹنگ روم کی زیبائش میں اضافہ ہو جائے گا۔ پھر وہ سو چتا ہے میں تو ایک مسافر ہوں مجھے مال و دولت سیم و زر سے کیا لینا دینا۔ اچانک ویٹنگ روم کے دروازے پر اس کی نظر گئی ایک ہا کر تصویریں فروخت کر رہا ہے۔ وہ جلدی سے با ہر نکلا مختلف تصاویر کو ہر زاویہ سے بغور دیکھنے لگا۔ اس کی نظر ایک تصویر پر جم گئی سمندر خشک ہو گیا ہے۔ ریت پر سیم و زر بکھرا ہے، مو تیوں، ہیروں اور قیمتی پتھروں کے درمیان مری ہوئی مچھلیاں بکھری پڑی ہیں۔ حواس باختہ انسانوں کا گروہ، جن کے مدقوق چہرے گال پچکے ہوئے، پیٹ جن کے کمروں سے لگے ہوئے ان مری ہوئی مچھلیوں پر جھپٹ پڑے ہیں اور ان کو بٹورنے کے لئے ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں یہ ٹھیک رہے گی اس تصویر کو خرید لوں اور اس خالی جگہ کو بھر دوں ویٹنگ روم کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ پھر اسے خیال آیا کہ میرے متاعِ سفر میں میرا کچھ ہو یا نہ ہو لیکن برسہا برس سے ایک تصویر رکھی ہوئی ہے جسے بڑی حفاظت سے لپیٹ کر میں نے رکھ رکھی ہے شاید آج کام آ جائے اس کے استعمال کا یہی منا سب وقت ہے اسے نکالا جائے اور اس خالی جگہ میں لگا دیا جائے۔
اسے یاد آیا وسیع و عریض میدانِ عرفات میں فریضۂ حج ادا کرتا ہوا انسانوں کا جمِ غفیر ہے۔ ایک جسمانی اور روحانی منظر ہے … لبیک … الٰلھُّم لبیک کی دلسوز صداؤں سے میدان گو نج رہا ہے سینوں میں سوز و گداز کی کیفیت طاری ہے۔ آنکھوں سے زار و قطار آنسوبہہ رہے ہیں اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں سامان ندارد۔ وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ ہذیانی سی کیفیت اس کے اوپر طاری ہو گئی ہانپتا کانپتا وہ صوفہ پر گر گیا۔ سوچنے لگا میرے سا مان سفر میں کارآمد چیزوں کی قلت تھی جو وطن پہنچ کر کام آتیں۔ اب تو ویٹنگ روم کی مصروفیت میں بچی کچی متاع بھی ضائع ہو گئی۔ نقاہت اور مایوسی کے سبب اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اچانک ٹرین آ گئی اس کے پاس اتنی سکت اور طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ صحیح طور سے ٹرین میں سوار ہو سکے۔ اٹھنے کی کوشش میں وہ و ہیں گر گیا چار آدمیوں نے شاید وہ بھی مسافر تھے جیسے تیسے اسے اٹھایا اور ٹرین میں اسی حالت میں احتیاط سے لٹا دیا ٹرین اسٹیشن چھوڑ چکی تھی۔
٭٭٭