پہلا سوال: کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن شریف کے علاوہ بھی وحی کی جاتی تھی یا وحی صرف کتاب اللہ میں منحصر ہے؟ ہر وہ نبی جس پر کتاب نازل ہوئی علاوہ کتاب کے اس پر وحی نازل کی گئی یا نہیں؟
جواب: ہر نبی پر وحی آئی اور ہر نبی صاحبِ کتاب پر علاوہ کتاب کے بھی وحی آئی، بالخصوص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر علاوہ قرآن شریف کے بارہا بکثرت وحی آئی۔
ثبوت: اس بات کا ثبوت کہ وحی کتاب کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ کتاب کے علاوہ بھی ہر صاحبِ کتاب نبی پر وحی آتی رہی یہ ہے کہ ہر نبی صاحبِ کتاب نہیں ہے مگر صاحبِ وحی ہے، یعنی نبی وحی کے بغیر نہیں ہو سکتا اور کتاب کے بغیر نبی ہو سکتا ہے۔ اب اگر وحی کتاب کے ساتھ مختص ہو گی تو ہر نبی کو صاحبِ کتاب ہونا چاہیے حالانکہ اس بات پر اجماع ہے کہ ہر نبی صاحبِ کتاب نہیں ہے اور صاحبِ وحی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثلُکُمْ یُوحٰۤی اِلَیَّ (الکھف 18 آیت 110/حم السجدہ آیت 6)
’کہہ دے کہ میں تمہارے جیسا آدمی ہوں یعنی بشریت میں تم جیسا ہو، فرق یہ ہے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘
اس سے ظاہر ہو گیا کہ نبی غیر نبی سے صرف وحی میں ممتاز ہے، بغیر وحی کے نبی ہوہی نہیں سکتا۔
وحی کی تعریف
وحی کیا چیز ہے؟ اللہ کا بشر سے کلام کرنا وحی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَن یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحیًا اَو مِن وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَو یُرسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ بِاِذنِہٖ مَا یَشَآءُ (سورت الشوریٰ 42 آیت 51)
یعنی ’اللہ تعالیٰ بشر سے تین طریقوں سے کلام کرتا ہے (1) وحی سے (2) پردے کے پیچھے سے (3) یا ایک رسول (فرشتہ) کو بھیجتا ہے، وہ اس کی اجازت سے اس کی مشیت کے موافق اس انسان پر وحی کر دیتا ہے، یہ تین طریقے ہیں وحی کے اور تینوں وحی ہیں۔ اِلَّا وَحیًا میں وحی صاف ہے مِن وَّرَآیِٔ حِجَاب جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، یہ بھی وحی ہے۔ جیسے کہ ارشاد ہے: وَ اَنَا اختَرتُکَ فَاستَمِع لِمَا یُوحٰ (سورت طہ 20 آیت 13) ’میں نے تجھ کو پسند کر لیا تُو سُن جو وحی کی جا رہی ہے۔‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو کلام کیا اس کو اللہ نے وحی سے تعبیر کیا، اَو یُرسِلَ رَسُولًا فَیُوحِیَ میں وحی موجود ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ کا بشر سے کلام کرنا وحی ہے اور جس پر وحی ہو وہ نبی ہے، کیونکہ فرق نبی اور غیر نبی کا صرف وحی ہے۔
ہم کو یہ سمجھانا ہے کہ قرآن شریف جبریل روح الامین لے کر آئے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمِینُ (سورت الشعراء 26 آیت 193) ’قرآن کو روح الامین لے کر آئے ہیں۔ ’فاِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلبِکَ (سورت البقرۃ 2 آیت 97) ’جبرائیل نے تیرے دل پر قرآن اُتارا۔‘ اس سے صاف واضح ہو گیا کہ یُرسِلَ رَسُولًا میں جس وحی کی طرف اشارہ ہے وہ قرآن مجید ہے، وہ رسول اور فرشتہ جو باذن الٰہی وحی کرتا ہے وہ صرف قرآن ہے۔ اور واضح ہو گیا کہ وحی کا انحصار قرآن ہی میں نہیں ہے بلکہ قرآن سے علیحدہ دو وحیاں اور ہیں جن کی طرف اِلَّا وَحیًا اور اَو مِن وَّرَآیِٔ حِجَابٍ میں ارشاد ہے۔
خلاصہ یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے وحی کی تین قسمیں بتائیں؛اور قرآن شریف تیسری قسم یعنی اَو یُرسِلَ رَسُولًا میں شامل ہے۔ اِلَّا وَحیًا اور اَو مِن وَّرَآیِٔ حِجَابٍ یہ دونوں قرآن کے علاوہ ہیں، کیونکہ قرآن کو روح الامین(جن کو آیت میں رسول سے تعبیر فرمایا ہے) لے کر آئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ وحی کا انحصار صرف قرآن شریف میں نہیں ہے بلکہ وحی علاوہ قرآن شریف کے ان دو طریقوں پر یعنی اِلَّا وَحیًا اور اَو مِن وَّرَآیِٔ حِجَابٍ بھی ہوتی ہے۔
انبیاءِ سابقین پر وحی بغیر کتاب کے
آدم علیہ اسلام: اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ انبیاءِ سابقین پر وحی ہوئی اور وہ وحی کتاب نہیں تھی حضرت آدم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا:
وَقُلنَا یٰۤاٰدَمُ اسکُن اَنتَ وَزَوجُکَ الجَنَّۃَ (سورت البقرۃ 2 آیت 35)
’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو سہو۔‘
یٰۤاٰدَمُ اَنْبِئہُم (سورت البقرۃ 2 آیت 33)
’اے آدم! ان کو یعنی فرشتوں کو ان اشیاء کے نام بتا دے۔
وَ نَادٰىہُمَا رَبُّہُمَاۤ اَلَم اَنہَکُمَا (سورت الاعراف 7 آیت 22)
’ان کے رب نے ان کو پُکارا کہ میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا۔‘
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے بار بار کلام کیا اور یہ کلام کتاب نہ تھا۔
نوح علیہ السلام: حضرت نوح علیہ السلام پر وحی کی:
وَاُوحِیَ اِلیٰ نُوحٍ اَنَّہٗ لَن یُّؤمِنَ مِن قَومِکَ اِلَّا مَن قَد اٰمَنَ (سورت ھود 11 آیت 36)
’نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا، جو ایمان لانے والے تھے وہ لا چکے۔
فَاِذَا استَوَیتَ اَنتَ وَمَن مَّعَکَ عَلَی الفُلکِ (سورت المؤمنون آیت 28)
’جب تُو اور تیرے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں۔
یٰنُوحُ اِنَّہٗ لَیسَ مِن اَہلِکَ (سورت ھود 11 آیت 46)
’اے نوح! وہ (یعنی تیرا بیٹا)تیرے اہل میں سے ہے ہی نہیں۔‘
الغرض متعدد کلام حضرت نوح علیہ السلام سے ہوئے یہ سب وحی تھے اور کتاب نہ تھے۔ کیونکہ مایوسی کے وقت، ڈوبنے کے وقت اور نجات پانے کے وقت کتاب کی ضرورت نہیں تھی، کتاب کا نزول بشارت اور انذار اور رفع اختلاف کے لئے ہوتا ہے وہ اس وقت مقصود نہ تھا۔
ابراہیم علیہ السلام: حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وحی ہوئی:
یٰۤاِبرٰہِیمُ اَعرِض عَن ہٰذَا (سورت ھود 11 آیت 76)
’اے ابراہیم چھوڑ بھی اس خیال کو۔
یہ وحی تھی اور کتاب نہ تھی۔
وَتِلکَ حُجَّتُنَآ ءَاتَینٰہَآ إِبرَہِیمَ عَلَىٰ قَومِہِ (سورت الانعام 6 آیت 83)۔
’حضرت ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلہ کے لئے یہ حجت ہم نے دی تھی۔‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کواکب اور شمس و قمر کے غروب اور غائب ہونے سے ان کے حدوث پر استدلال کیا، اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا لیا اور کہا کہ یہ حجت ہم نے ابراہیم کو سکھائی تھی، یہ وحی تو تھی مگر کتاب نہ تھی۔
یعقوب علیہ السلام: حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ (سورت یوسف 12 آیت 94)
’مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔‘ حاضرین نے کہا آپ تو وہی پرانے خیالات میں ہیں۔ پھر جس وقت آپ بینا ہو گئے تو فرمایا: ۔
إِنِّی أَعلَمُ مِنَ اللَّہِ مَا لاَ تَعلَمُونَ (سورت یوسف آیت 96)
’مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہو جاتی ہیں جو تمہیں معلوم نہیں ہوتیں۔ بس یہی وحی ہے مگر کتاب میں نہیں ہے، کتاب ہوتی تو بیٹوں کو اور تمام حاضرین کو معلوم ہو جاتی، اس کی تو تبلیغ فرض تھی۔
یوسف علیہ السلام: حضرت یوسف علیہ السلام کو وحی ہوئی:
وَاَوحَینَاۤ اِلَیہِ لَتُنَبِّئَنَّہُم بِاَمرِہِم ہٰذَا (سورت یوسف 12 آیت 15)
’ہم نے یوسف کو وحی کی کہ تُو ان کی اس غلطی پران کو متنبہ کر۔‘
چنانچہ انہوں نے ان کو متنبہ کیا:
ہَل عَلِمتُم مَّا فَعَلتُم بِیُوسُفَ وَاَخِیہِ (سورت یوسف 12 آیت 89)
’تمہیں کچھ پتہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ تم نے کیسا (بُرا) برتاؤ کیا تھا۔‘
بہرحال یہ وحی کنوئیں میں ڈالتے وقت ہوئی تھی اور یہ وحی کتاب میں نہ تھی۔
موسیٰ علیہ السلام: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر وحی ہوئی: یٰمُوسٰۤی اِنِّی اَنَا اللّٰہُ (سورت القصص 28 آیت 30)
’اے موسیٰ میں ہی معبود ہوں۔‘
یہ وحی تھی کیونکہ فرمایا:
فَاستَمِع لِمَا یُوحٰۤی (سورت طہ 20 آیت 13)
’سُن جو وحی (تیری طرف) کی جا رہی ہے۔‘
بہرحال طور کا کلام وحی ہے مگر کتاب نہیں۔
وَاَوحَینَاۤ اِلیٰ مُوسٰۤی اَن اَلقِ عَصَاکَ (سورت الاعراف 7 آیت 117)
’ہم نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ اپنا عصا پھینک دے۔‘
یہ وحی ہے اور کتاب نہیں ہے، کیونکہ توریت ان وحیوں کے بہت عرصہ بعد نازل کی گئی تھی۔
أَوحَینا إِلىمُوسىٰ أَن أَسرِ بِعِبادِی (سورت شعراء 26 آیت 52)
’ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا۔‘
یہ وحی ہے اور کتاب نہیں ہے۔ الغرض متعدد وحیاں ان حضرات کو ہوئیں اور یہ وحیاں کتابیں نہ تھی۔
لوط علیہ السلام: حضرت لوط علیہ السلام سے ملائکہ نے کہا:
یٰلُوطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ (سورت ھود 11 آیت 81)
’اے لوط! ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔‘
یہ وحی تھی کتاب نہ تھی۔ کیونکہ عذاب کے وقت کتاب کیسی؟ عذاب کے وقت کتاب بے سود چیز ہے۔
نبی، بنی اسرائیل: بنی اسرائیل کے نبی نے کہاکہ:
وَ قَالَ لَہُم نَبِیُّہُم اِنَّ اللّٰہَ قَد بَعَثَ لَکُم طَالُوتَ مَلِکًا (سورت البقرۃ 2 آیت 247)
’اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے۔‘
یہ وحی ہے کتاب نہیں ہے۔
سلمان علیہ السلام: حضرت سلمان علیہ السلام پر وحی ہوئی:
فَفَہَّمنٰہَا سُلَیمٰنَ (سورت انبیاء 21 آیت 79)
’ہم نے اس فیصلہ کو سلمان کو سمجھا دیا۔‘
یہ وحی تھی کتاب نہ تھی، کتاب ہوتی تو حضرت داؤد علیہ السلام اسے جانتے۔
زکریا علیہ السلام: حضرت زکریا علیہ السلام پر وحی ہوئی:
یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا بِغُلٰمِ(سورت مریم 19 آیت 7) ’اے زکریا! ہم تجھے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔
فَنَادَتہُ المَلٰٓئِکَۃُ وَہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّی (سورت آل عمران 3 آیت 39)
’فرشتوں نے ان کو آواز دی جس وقت وہ نماز پڑھنے محراب میں کھڑے ہوئے تھے۔‘
اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحییٰ (سورت آل عمران 3 آیت 39)
’کہ اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے۔‘
تو یہ وحی تھی کتاب نہ تھی، اگر کتاب میں یہ مضمون ہوتا تو نہ دعا مانگتے نہ تعجب کرتے۔
عیسیٰ علیہ السلام: حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی آئی:
قَالَ اللّٰہُ اِنِّی مُنَزِّلُہَا عَلَیکُم(سورت المائدہ 5 آیت 115)
’اللہ نے کہا میں تمہارے اُوپر خوان اُتاروں گا۔‘
یہ وحی تھی کتاب نہ تھی، کیونکہ اگر یہ کتاب ہوتی تو نہ حواری مطالبہ کرتے، نہ ضد و بحث ہوتی۔ یعنی کتاب میں یہ مضمون ہوتا کہ اللہ خوان اُتار سکتا ہے اور اُتارے گا تو اس صورت میں مطالبہ ہی نہ ہوتا، کیونکہ انجیل تورات وغیرہ سب دفعتاً نازل ہو چکی تھیں۔ الغرض جو نبی صاحبِ کتاب نہیں تھے ان پر تو صرف وحی ہی نازل ہوئی اور جو صاحبِ کتاب تھے ان پر کتاب سے پہلے اور کتاب کے بعد برابر وحی ہوتی رہی اور قرآن شریف میں بکثرت یہ وحیاں مذکور ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بشر سے کلام کرنا ہی وحی ہے اور اس کی تین قسمیں ہیں؛ اور کتاب اس کی ایک قسم اَو یُرسِلَ رَسُولًا میں شامل ہے۔ وحی عین کتاب نہیں ہے وحی کبھی کتاب ہو گی، کبھی اَو مِن وَّرَآیِٔ حِجَابٍ ہو گی، کبھی خالص وحی ہو گی۔
قرآن کے علاوہ دوسری وحی پر دلیلیں
اب خاص طور سے اسے سمجھئے کہ حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی علاوہ قرآن شریف کے بھی آتی رہی تھی۔
پہلی دلیل:
وَ اِذ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعضِ اَزوَاجِہٖ حَدِیثًافَلَمَّا نَبَّاَت بِہٖ وَ اَظہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیہِ عَرَّفَ بَعضَہٗ وَ اَعرَضَ عَنۢ بَعضٍ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَت مَن اَنۢبَاَکَ ہٰذَاقَالَ نَبَّاَنِیَ العَلِیمُ الخَبِیرُ
(سورت التحریم 66 آیت 3)
’جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے چپکے سے ایک حدیث بیان کی، پھر اس بیوی نے اس کو کسی دوسری سے کہہ دیا اور اللہ نے نبی پر اس واقعہ کو ظاہر کر دیا۔ یعنی اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ ظاہر کر دیا کہ تیری بیوی نے اس بات کو دوسری بیوی پر ظاہر کر دیا ہے تو نبی نے اس بیوی سے کچھ حصہ بیان کیا اور کچھ حصہ نہیں بیان کیا، جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیوی کو اس واقعہ کی خبر دی تو بیوی نے کہا کہ آپ کوکس نے خبر دی؟ تو نبی نے کہا کہ ’مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔‘ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ واقعہ ظاہر کیا اَظہَرَہُ اللّٰہُ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ نے اس کا اظہار جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا ہے یہ وحی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ کہا کہ علیم و خبیر نے خبر دی یہ وحی تھی۔ اس آیت کے دونوں ٹکڑے وحی غیر قرآن پر دلالت کر رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جو اس واقعہ کو ظاہر کیا یہ قرآن میں کہیں مذکور نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ کہا کہ مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے تو علیم و خبیر کا یہ خبر دینا کہیں قرآن میں مذکور نہیں ہے، اس سے صاف ثابت ہو گیا کہ قرآن کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی ہوئی۔
دوسری دلیل: مَا قَطَعتُم مِّن لِّینَةٍ أَو تَرَکتُمُوہَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِہَا فَبِإِذنِ اللَّہِ (سورت الحشر آیت 5)
’کھجور کے درخت جوتم نے کاٹ دیئے یا ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیئے تو یہ جو کچھ تم نے کیا ہے اللہ کی اجازت سے کیا ہے۔‘
یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے علاوہ وحی ہوئی۔ کیونکہ جس حکم کے ذریعے ان درختوں کو کاٹا گیا وہ حکم قرآن شریف میں کہیں نہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ اذن الٰہی کس جگہ ہے قرآن میں ہے یا قرآن سے باہر ہے؟ اگر قرآن میں ہے تو دکھاؤ کہاں ہے؟ ہرگز قرآن میں ان درختوں کے کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن قرآن سے اجازت ثابت ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ اجازت دوسری وحی سے ہے جو علاوہ قرآن شریف کے ہوئی۔
تیسری دلیل: سورۃ بقرۃ و آل عمران وغیرہ یہ سب سورت مدنی ہیں جو تقریباً دس سال بعد نازل ہوئی ہیں، تو جس طرح یہ نازل ہوئی تھیں اس طرح ان کو کیوں ترتیب نہیں دیا گیا؟ جو سورۃ پہلے نازل ہوئی وہ پہلے لکھی جاتی، جو پیچھے نازل ہوئی وہ پیچھے لکھی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا، بلکہ پہلے نازل شدہ سورتیں پیچھے لکھی گئیں اور پیچھے والی پہلے لکھی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
قَالَ الَّذِینَ لاَ یَرجُونَ لِقَاءنَا ائتِ بِقُرآنٍ غَیرِ ہَذَا أَو بَدِّلہُ قُل مَا یَکُونُ لِی أَن أُبَدِّلَہُ مِن تِلقَاء نَفسِی إِن أَتَّبِعُ إِلآَ مَا یُوحَى إِلَیَّ
(سورت یونس 10 آیت 15)
’جو لوگ ہماری ملاقات کے آرزو مند نہ تھے وہ کہنے لگے کہ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لا، یا اس کو بدل دے۔ کہہ دے مجھے سے کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنی طرف سے بدل دوں؟ میں تو صرف وحی کا پابند ہوں۔‘
اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ تبدیلی بغیر وحی کے نہیں ہو سکتی۔ یہ جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبدیلی تنزیلی ترتیب میں کی ہے یہ وحی سے کی ہے اور یہ وحی قرآن میں مذکور نہیں ہے، یعنی کہیں قرآن میں یہ نہیں ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ سورت یہاں لکھواؤ اور یہ وہاں، لہذا قرآن کے علاوہ ہی وحی ہوئی۔
چوتھی دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِن ہِیَ اِلَّاۤ اَسمَآءٌ سَمَّیتُمُوہَاۤ اَنتُم وَ اٰبَآؤُکُم مَّاۤ اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِن سُلطٰنٍ
(سورت النجم 53 آیت 23)
’یہ صرف اسماء ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں اللہ کی منظوری کے بغیر۔‘
اس سے ظاہر ہو گیا کہ اللہ کی منظوری کے بغیر نام رکھنا جائز ہے، لہذا جو سورتوں کے نام نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رکھے ہیں سورۃ بقرۃ، سورۃ آل عمران وغیرہ یہ قطعی اللہ کی منظوری سے رکھے ہیں اور یہ منظوری قرآن میں کہیں نہیں دی بلکہ قرآن کے علاوہ منظوری دی گئی، یہی وحی ہے جو قرآن کے علاوہ ہے۔
پانچویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذَا قُرِئَ القُرآنُ فَاستَمِعُوا
(سورت الاعراف 7 آیت 204)
’جب قرآن پڑھا جائے تو سُنو۔‘
فَاِذَا قَرَانٰہُ فَاتَّبِع قُراٰنَہٗ
(سورت القیامہ 75 آیت 18)
’جب قرآن پڑھیں تو اس کی پیروی کرو۔‘
مگر قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے کہ اے نبی! جب قرآن نازل ہوا کرے تو لکھ لیا کرو۔ یہ جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو لکھوایا یہ کس وحی سے آیا، وحی قرآنی سے؟ وحی قرآنی تو ساکت ہے لہذا وحی غیر قرآنی سے اس کو لکھوایا۔
چھٹی دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَانکِحُوا مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء مَثنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ
(سورت النساء 4 آیت 3)
’دو دو، تین تین، چار چار جو عورتیں اچھی لگیں ان سے نکاح کر سکتے ہو۔‘
ہم پوچھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو چار سے زیادہ نکاح کیے یہ کس وحی سے؟ وحی قرآنی میں تو صرف چار تک کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل بالضرور وحی غیر قرآنی سے ہو۔
ساتویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاِذَا قَرَانٰہُ فَاتَّبِع قُراٰنَہٗۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہٗ
(سورت القیامہ 75 آیات 18-19)۔
’جب ہم قرآن کی تلاوت کریں تو اس کی پیروی کرو (یعنی سُنو) پھر (اس کے بعد) اس کا سمجھانا ہمارے ذمہ ہے۔‘
یعنی قرآن کے نازل ہونے کے بعد قرآن کا بیان کرنا اور واضح کرنا اللہ کے ذمہ ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ یہ بیانِ قرآن، قرآن ہے یا قرآن سے علیحدہ ہے؟ اگر قرآن ہے، تو اس قرآن کے لئے پھر بیان کی ضرورت ہے۔ اگر قرآن کے علاوہ ہے، تو بیانِ قرآن قرآن سے علیحدہ مُنزِل مِنَ اللہ ہو گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیانِ قرآن ہمارے ذمہ ہے اور بیانِ قرآن غیر قرآن ہے، کیونکہ اگر بیان قرآن قرآن ہو گا تو تسلسل لازم آئے گا۔ لہذا بیانِ قرآن غیر قرآن ہے اور وہ اللہ کے ذمہ ہے یعنی اللہ کی جانب سے ہے، لہذا اللہ کی جانب سے ایسی وحی ثابت ہو گئی جو قرآن سے علیحدہ ہے۔
آٹھویں دلیل: بیت المقدس کو تقریباً 17 مہینے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ بنائے رکھا یہ کس وحی سے بنایا؟ وحی قرآن تو ساکت ہے قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ اے نبی تم بیت المقدس کو قبلہ بناؤ، اور نبی صرف وحی کا پیرو ہے۔ لہذا بیت المقدس کو جس وحی سے قبلہ بنایا وہ وحی وحی غیر قرآنی ہے۔
نویں دلیل: نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے تھے کہ تین ہزار فرشتوں کی امداد تمہیں کافی نہیں ہے۔
أَلَن یَکفِیَکُم أَن یُمِدَّکُم رَبُّکُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ المَلَائِکَةِ
(سورت آل عمران آیت 124)
یعنی اللہ نے ان کے قول کو نقل کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول سے قبل یہ قول کہیں قرآن میں نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قول کی وحی قرآن سے الگ ہوئی تھی۔
دسویں دلیل: یُوصِی بِہَا أَو دَینٍ (سورت النساء 4 آیت 11)
اس آیت میں ’وصیت دین پر مقدم ہے،‘ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کو وصیت پر مقدم کر دیا۔ اور نبی وحی کے خلاف نہیں کر سکتا اور وحی قرآنی میں اس تبدیلی کا حکم موجود نہیں ہے، لہذا قرآن کے علاوہ وحی ہوئی تھی۔
گیارہویں دلیل: وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰى مَا ہَدٰٮکُم
(سورت البقرۃ 2 آیت 185)
’اللہ نے تم کو جس طرح ہدایت کی ہے اس طرح تکبیر کہو۔‘
اللہ نے قرآن میں کہیں تکبیر کا طریقہ نہیں بیان کیا، صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا ہے، اللہ نے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنی طرف منسوب کیا۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کی کہ اس طرح تکبیر کہو یا تکبیر پڑھو، اور یہ وحی کہ اس طرح تکبیر کہو قرآن شریف میں شامل نہیں ہے۔
بارھویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِذ قُلنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 60)
’(یاد کرو اس وقت کو) جب ہم نے تجھ سے کہا تھا کہ بیشک تیرے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔‘
یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ قرآن شریف کے علاوہ دوسری وحی حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ہوئی، کیونکہ قرآن شریف میں ’اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاس‘ کہیں نہیں ہے، اور یہاں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تجھ سے کہا تھا کہ بیشک لوگوں کو تیرے رب نے گھیر لیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ نے نبی سے قرآن کے علاوہ دوسری وحی کے ذریعے کہا تھا کہ: اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاس یعنی ’تیرے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے‘ اور اب اس کہنے کو یاد دلایا ہے۔
تیرھویں دلیل: فَاَوحٰۤى اِلٰى عَبدِہٖ مَاۤ اَوحٰى
(سورت النجم 53 آیت 10)
’اللہ نے اپنے بندہ کو جو وحی کرنی تھی کی۔‘
یہ صاف دلیل ہے کہ جو کچھ وحی ہوئی وہ وحی قطعاً قرآن نہیں ہے، اس لیے کہ وحی قرآنی سب کو معلوم ہے اور اس وحی کا کسی کو صحیح پتہ نہیں۔ نیز قرآن یا مکی ہے یا مدنی اور یہ وحی نہ مکی ہے نہ مدنی۔ غرض بے شمار دلیلیں قرآن کے علاوہ دوسری وحی پر موجود ہیں۔
وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الہَوٰى (3) اِن ہُوَ اِلَّا وَحیٌ یُّوحٰى
(سورت النجم آیت 3، 4) ”
’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا اس کا نطق صرف وحی ہے۔‘
اب اگر کوئی کہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف قرآن اپنی خواہش سے نہیں بولتا تو یہ غلط ہے۔ اس لئے کہ قرآن کو آیت میں محذوف نکالنا پڑے گا اور حذف خلاف اصل ہے۔ دوسرے ’ہُوَ‘ کی ضمیر کا مرجع اُوپر مذکور نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ سیدھے راستے سے رُکا اور نہ ٹیڑھا چلا۔ عمل کی صفائی مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم وَ مَا غَوٰى (سورت النجم 53 آیت 2) کر دی۔ اور قول کی صفائی مَا یَنطِقُ عَنِ الہَوٰى (سورت النجم 53 آیت 3) سے کر دی، یعنی اس کا قول و فعل من جانب اللہ ہے۔ اس کے علاوہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ مطلقاً نطق ہوائی کی نفی ہے اور اگر قرآن نطق ہوائی کی نفی ہو گی اور اس کے علاوہ الگ نطق ہوائی ہو گا، تو نطقِ ہوائی سے نطق غیر ہوائی قطعاً ثابت نہیں ہو گا۔ کیونکہ جس وقت وہ یہ کہے گا کہ یہ اللہ کا قول ہے یعنی یہ کہے گا کہ’الٓمّٓ، ذٰلِکَ الکِتٰبُ‘ اللہ کا قول ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قول اگر ’الہَوٰى‘ سے ہو گا تو اللہ کا قول اس ہوائی قول سے ہرگز ثابت نہیں ہو گا، لہذا اس کا ہر قول غیر ہوائی ہے اور وحی ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہر قول و فعل جو قرآن میں مذکور نہیں ہے اس کی بابت کیا کہتے ہو؛ اگر وحی سے ہے، تو قرآن کے علاوہ وحی ثابت ہو گئی۔ اور اگر وحی سے نہیں ہے، تو اس آیت کے خلاف ہوا جاتا ہے کہ:
اِن اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوحٰۤی اِلَیَّ
(سورت الاحقاف 46 آیت 9)
’میں تو صرف وحی کا پیرو ہوں۔‘
اگر کوئی کہے کہ نبی کا ہر قول و فعل وحی سے ہے اور وحی قرآنی سے ہے، بعض اقوال و افعال نص سے ہیں بعض استنباط سے ہے، تو یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِتَحکُمَ بَینَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰٮکَ اللّٰہُ
(سورت النساء 4 آیت 105)
’اللہ جو معنی دکھاتا تھا اس پر حکم صادر فرماتے تھے۔‘ استنباط نہیں کرتے تھے، اس کے علاوہ استنباط کے لیے اشتراکِ عِلت ضروری ہے، جہاں علت مشترک نہیں ہے وہاں استنباط نہیں ہو سکتا۔
اب دیکھئے۔ شدید القویٰ عَلَّمَہٗ شَدِیدُ القُوٰى (سورت النجم 53 آیت 5) میں ’روح الامین‘ نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمِینُ (سورت الشعراء 26 آیت 193) فَاَرسَلنَاۤ اِلَیہَا رُوحَنَا (سورت مریم 19 آیت 17) میں ’رسول الکریم‘ إِنَّہُۥ لَقَولُ رَسُولٍ کَرِیمٍ (سورت الحاقہ 69 آیت 40) میں، ان سب سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی استنباط نہیں کر سکتیں کہ ان الفاظ کے معنی جبرائیل علیہ السلام ہیں، جب تک متکلم خبر نہ دے کہ ان الفاظ سے جبرائیل علیہ السلام مراد ہے۔ قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ ان الفاظ سے جبرائیل علیہ السلام سمجھ لینا۔ اسی طرح ’ذو النون‘ اور ’صاحبِ حوت‘ سے مراد یونس علیہ السلام ہیں، کہیں سے بھی مستنبط نہیں ہو سکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایسے اقوال موجود ہیں اور ایسے افعال موجود ہیں جو قطعاً نہ قرآن میں موجود ہیں اور نہ قرآن سے ثابت ہے نہ اشارتاً، نہ اقتضاءً، نہ دلالتاً۔ بتاؤ یہ اقوال و افعال بالوحی ہے یا نہیں؛ اگر بالوحی ہیں، تو یہ وہی وحی ہے جس کے ہم در پہ ہیں۔ اگر بالوحی نہیں ہیں، تو قطعی: اِن اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوحٰۤی اِلَیَّ (سورت الاحقاف 46 آیت 9) کے خلاف ہیں۔ اور ایسا کہنا کفر ہے کہ نبی صلی و سلم وحی کے پیرو نہ تھے۔ معاذ اللہ! بہر حال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہر قول و فعل بالوحی تھا۔