اگلے دو روز وہ گھر میں بور ہورہی تھی پر ساریہ کو نہیں بتایا تھا کہ وہ آچکی ہے وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے یہ بات ساریہ کو بتائی تو وہ اسے ضرور وھاج سے ملنے کا کہے گی۔ اور وہ وھاج سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے لیئے یہی کافی تھا کہ وہ خیریت سے ہے۔ آج صبح سے ہی اسے طعبیت بوجھل سی محسوس ہورہی تھی گھر کا کام کر کے وہ فارغ ہوئی تو فریش ہو کر چائے بنائی اور لاؤنچ میں آکر بیٹھ گئی۔ چائے پیتے وہ مسلسل وھاج کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ وھاج سے طلاق کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح بات کرے۔ طعبیت پوچھنے کیلیئے فون نہیں کیا طلاق کیلئے کس طرح کرتی۔ اسے اپنا آپ بہت خود غرض لگا۔ وہ وھاج کو اپنی طرف سے کسی اور پریشانی میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ چائے پی کر اس نے صوفے کی پشت سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں۔ اس گھر میں اسے بابا اور سفھاء بہت یاد آتے۔ آنسو اسکی آنکھوں سے نکل کر اسکا چہرہ بھگونے لگے۔
“تمہیں رونے کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے محترمہ!” شناسا آواز پر وجیہہ نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔
“آپ کے پاس گھر کی چابیاں کہاں سے آئیں؟” وجیہہ نے وھاج کو ساتھ بیٹھتے دیکھا تو حیرت سے بولی۔
” عباس کے خلاف سارے پلان یہاں پر ہی بنتے تھے اس لئے ہم سب کے پاس چابی تھی۔” اس نے وضاحت دی۔ وجیہہ نے وھاج کو بغور دیکھا۔ اس نے پوری آستین والی بلیک ٹی شرت پہنی تھی۔
“مجھے یقین نہیں تھا کہ تم اتنی خودغرض ہو سکتی ہو کہ گوئی لگنے پر ملنے کے بجائے میرے گھر سے بھاگ آئی۔” وھاج نے شکوہ کیا تو وجیہہ نے نظریں جھکالیں وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
” کیا اتنا برا ہوں میں۔” وہ خاموش رہی تو وھاج ایک بار پھر بولا۔ وجیہہ نے نفی میں سر ہلایا۔
” نہیں نہیں آپ تو بہت ہی اچھے ہیں بلکہ جتنا آپ نے میرے لئے کیا کسی نے نہیں کیا ہو گا۔ آپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔” وہ شرمندہ ہوئی تھی۔
“نہیں وجیہہ میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہ تھا بس تمہارا منتظر تھا ہاسپٹل میں اور جب یہ پتہ چلا کہ تم کراچی میں ہو تب بہت افسوس ہوا بہرحال ہمارے درمیان ایک رشتہ بھی ہے۔” وھاج کو وجیہہ کی اس بے رخی سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔
” سوری وھاج ایک وجہ تھی جس کی وجہ سے میں نہیں آ پائی۔ مجھے معاف کر دیں۔” اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ وھاج مسکرایا۔
“کیسی ہو تم؟” وھاج نے بات بدل دی وہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ آپ کی طبیعت اب کیسی ہے درد تو نہیں ہوتا۔ بس آپ کو فون کرنے لگی تھی۔” وھاج نے اس کے بات پر مسکرانے پر اکتفا کیا۔
“درد ہوتا ہے۔ ابھی ہاسپٹل سے چھٹی ہوئی تو میں سیدھا یہاں آگیا۔ وھاج نے اسے بتایا۔
” مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔” وجیہہ نے بات بدلی۔
ہاں بولو کیا بات ہے کوئی پریشانی تو نہیں ہے ناں۔” وہ فکر مند ہوا۔
” آپ جتنی جلدی ہو سکے مجھے طلاق دے دیں۔ خدا نخواستہ آپ کی فیملی کو پتہ چلا تو سب بہت ناراض ہوں گے۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اتنے سارے لوگوں کی محبت ملی ہے جو میں کبھی کھونا نہیں چاہتی۔” اس نے تفصیلاً ساری بات بتائی۔وھاج بہت خاموشی سے سنتا رہا کیا کہتا کچھ کہنے کو تھا ہی نہیں۔
“میں تمہاری خواہش جلد پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے اور یاد رکھنا اگر کبھی میری ضرورت پڑے تو بندہ حاضر ہے۔ میں تمہارے لئے ساری دنیا سے لڑ سکتا ہوں وجیہہ اس لئے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ ہوسکے تو پہلے اپنے لیئے مضبوط سہارا ڈھونڈ لو۔ میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ خدا حافظ۔” وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا تھا۔ کتنی تکلیف سے کہے گئے تھے یہ جملے۔ وجیہہ پر تو جیسے حیرت کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔
“وھاج۔۔۔۔۔” وہ آگے بڑھا ہی تھا جب وجیہہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا دایاں بازو پکڑا تھا۔ وھاج کی سسکی نکلی تھی اور اسے اچھا لگا تھا یوں روکے جانا۔
“مجھے اس بازو پر گولی لگی تھی ابھی بھی درد ہے تم کس چیز کا بدلہ لے رہی ہو۔” وہ فوراً نارمل ہوا تھا۔ وجیہہ نے فوراً اسکا بازو چھوڑا تھا۔
“کیا آپ جانتے ہیں جو آپ سے منسوب ہیں وہ آپ سے کب سے کتنی محبت کرتی ہے۔ میں کسی کا حق نہیں چھین سکتی وھاج۔” اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
” وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اس بات کی فکر ہے تمہیں ذرا آس پاس غور کرنا شاید کوئی تم سے بھی بہت محبت کرتا ہے بہت درد سہا ہے اس نے تمہاری خاطر۔” وہ اسکا گال تھپک کر آگے بڑھ گیا۔ وجیہہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
“کیا ابھی بھی آزمائش باقی ہے اللہ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ بری طرح ٹوٹ گئی تھی۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...