مظفر شریف نے 1954 میں ایک تجربہ کیا۔ ان کے کیمپ میں گیارہ اور بارہ سال کی عمر کے بائیس بچے آئے جو ایک ہی پسِ منظر سے تعلق رکھتے تھے لیکن ایک دوسرے کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ ان کو گیارہ بچوں کے دو گروپس میں ان کو تقسیم کیا گیا۔ اوکلوہوما کے ایک سٹیٹ پارک میں ان کو الگ کیمپوں میں رکھا گیا۔
تجربے کے پہلے مرحلے میں ایک ہفتے کے لئے دونوں ٹیموں کے ممبران کا آپس میں تعلق مضبوط کرنے کی ایکٹیویٹی دونوں گروپس کو الگ تھلک رکھ کروائی گئیں۔ اس میں اکٹھے پہاڑیوں کی چڑھائی، تیراکی جیسے کھیل تھے۔ ایک ٹیم نے اپنے نام کا انتخاب ‘عقاب’ اور دوسرے نے ‘ناگ’ کیا۔ ان ناموں کے جھنڈے اور قمیضیں انہوں نے خود تیار کیں۔
اگلے ہفتے میں دوسرا مرحلہ ان کے مقابلے کا تھا اور اس میں ایسی کھیلیں تھیں جو ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے تھیں۔ اس میں رسہ کشی، بیس بال جیسے مقابلے تھے اور ان میں صرف جیتنے والے کے لئے انعام تھے۔ مخالفین سے مقابلے کی اس فضا میں دوران ان کا ایک دوسرے سے رویہ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ ایک دوسرے پر آوازے کسنے سے شروع ہو کر پھر گالی گلوچ تک پہنچ گیا۔ پھر یہاں تک بات آ گئی کہ عقابوں نے ناگوں کا جھنڈا جلا دیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے اگلے روز ناگوں نے عقابوں کا کیمپ اکھاڑ دیا، بستر الٹا دیا اور ان کی چیزیں اٹھا کر لے گئے۔ چند ہی روز میں یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ ان کو زبردستی الگ کرنا پڑا۔
دو روز ان کو ٹھنڈا ہونے کے بعد سب کو ایک سروے دیا گیا جس میں گروپ کے بائیس ممبران کے بارے میں رائے پوچھی گئی۔ تقریبا تمام ممبرز نے اپنے گروپ کے بچوں کے لئے اچھی اور مخالف گروپ کے بچوں کے لئے بری رائے دی۔
یہاں پر یہ یاد رکھیں کہ یہ عام بچے تھے جو کسی مشکل بچپن کا شکار نہیں تھے۔ ان خاندانوں سے تھے جہاں دونوں والدین موجود تھے۔ تمام سفید فام تھے اور ایک ہی مذہبی گروپ سے تعلق تھا اور مڈل کلاس گھرانوں کے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے ذہن کے اس والے حصے کو جلد پہچان سکتے ہیں۔ ہماری اقدار میں اپنے گروہ سے وفاداری کی بڑی اہمیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی وقت میں یہ خیال تھا کہ انسان ہی وہ واحد نوع ہے جو جنگ اور قتل و غارت گری کرتی ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ ایسا ہمیں دوسری انواع میں عام نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر، چمپنیزی اپنے علاقے کا دفاع کرتے ہیں۔ مخالفین کے علاقوں پر حملے کرتے ہیں۔ ہمسائیوں کے نر کو قتل کر کے ان کی زمین اور مادہ چھین لیتے ہیں۔ اور جنگ انسان میں بھی نئی نہیں۔ زراعت اور نجی ملکیت سے پہلے بھی جنگ انسان کی زندگی کا حصہ رہی ہے۔ مخالفین سے مقابلہ، دفاع اور حملوں سے بچنے کے چیلنج انسان کو ہمیشہ سے ہیں۔ ہماری کامیابی کامیاب گروہ بندی کی وجہ سے ہے، نہ کہ انفرادیت کی بنا پر۔
یہ سماجی نوع ہونے کا نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاداری اور بے وفائی کی اخلاقی بنیاد ہمارے جبلی ڈیزائن کا حصہ ہے۔ یہ ہمیں گروہ کا موثر ممبر بناتی ہے۔ کون ہماری ٹیم کا حصہ ہے اور کون ٹیم سے وفادار نہیں؟
ہم اپنی گروہ بندی کی صفت کو اتنا پسند کرتے ہیں کہ اپنی تفریح کے لئے بھی کھیلوں کی ٹیمیں بناتے ہیں جن کا مقصد ہی مقابلہ بازی کرنا ہے۔
کھیلوں کی نفسیات کی بنیاد اسی پر ہے۔ اس میں ہم اپنی ٹیم کی فتح کے لئے اپنی پوری صلاحیت کو جھونک دیتے ہیں تا کہ ٹیم کے لئے ٹرافی حاصل کی جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیم کے وفادار ممبر کے ساتھ ہی منسلک ایک اور جذبہ بے وفا سے نفرت کا ہے۔ اس کو دشمن سے زیادہ برا سمجھا جاتا ہے۔
جنگ میں دشمن کی بہادری کو سراہا جا سکتا ہے لیکن غداری ایک ناقابلِ معافی جرم قرار پاتا ہے۔ ہماری اخلاقی اقدار میں طمع، تشدد، ہوس سے زیادہ بدتر اپنوں سے، اپنی ٹیم سے، اپنی قوم سے بے وفائی کو سمجھا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مختلف طرح کے گروہوں کے ممبر ہیں۔ خاندان، کمیٹیاں، تنظیمیں، ٹیمیں، سیاسی جماعتیں، ممالک، سوشل میڈیا کے گروپ ۔۔۔
گروہی وفاداری کی اخلاقی قدر کے بغیر یہ ممکن نہ ہوتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...