پروین شیر(کینڈا)
کھلونا ہی تھا وہ لکڑی کا گھوڑا،پر مِرے معصوم بچے نے
کہا،امی یہ گھوڑا جانور کیسا ہے،ہم نے تو نہیں دیکھا!
مجھے بچپن کی اک بھولی کہانی یاد آئی
اور میں نے اس کو بتلایا
کسی مالک کے پاس اک باوفا،مضبوط گھوڑا تھا
بہت مانوس تھا مالک سے،اس سے پیار کرتا تھا
بجا لاتا تھا ہر اک حکم گھوڑا اپنے مالک کا
بہت دشوار رستوں پر بھی وہ ثابت قدم تھا
بچ کے چلتا تھا
مگر جب ایک دن بیمار ہو کر تھک گیا
تو اس کے مالک نے
اسے آزاد کرکے یہ کہا
جاؤ جہاں جانا ہے،جاؤ،اب خدا حافظ!
مگر پھر بھی وہ گھوڑا اس کی چوکھٹ پر کھڑا ،خاموش آنکھوں سے
اسے کہتا رہا،مجھ کو نہ چھوڑو ایسی حالت میں
’’وفا داری بشرطِ استواری،اصل ایماں است‘‘
مگر مالک نہ مانا،اور اس نے طیش میں آکر
اسے چابک سے پیٹا،ٹھوکریں ماریں،بہت کوسا
مگر گھوڑے نے اس کا در نہ چھوڑا
آنسوؤں میں ڈوب کر سہتا رہا مالک کے چابک،
کوسنے،طعنے!
اب اس کے سارے آنسو بہہ چکے ہیں اوراپنی
خشک آنکھوں کو لیے اب بھی وہیں ٹھہرا ہوا ہے
کل کا زندہ جانور گھوڑا!
’’اگر اب بھی وہیں ہے تو چلیں گے ہم بھی دیکھیں گے‘‘
کہا معصوم بچے نے،مگر میں نے کہا ’’بیٹے!
نہیں وہ درد کی حد سے پرے
بیگانۂ جذبات،اک لکڑی کا گھوڑا ہے‘‘
’’یہی تو ہے‘‘کہا بچے نے اور اپنے کھلونے سے
مخاطب ہوکے یوں بولا
’’ترا گھر اب یہی ہے،تو ہمارے ساتھ رہ گھوڑے!‘‘