حجاب کینٹین میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی کہ رو بیندا چا نک سے نمودار ہوگئی ۔ حجاب نے بیزاری سے چائے کے کپ کی طرف دیکھا غالبا اس کا اکیلے بیٹھنے کا موڈ تھا۔ مسلسل چار پیریڈ لینے کے بعد اب اس کا ذہن تھک چکا تھا۔
“میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں اور تم بیگم صاحبہ یہاں بیٹھی ہو” روبینہ حسب معمول آتے ہی شروع ہوگئی۔
حجاب نے اپنی کن پٹی پر انگلی گھمائی۔
“کلاس کے شور سے سر در دکر نے لگا تھا۔‘‘
“اچھا تو پھر میرے لئے بھی چائے منگواؤ میرا بھی سر درد کر رہا تھا‘‘
حجاب روبینہ کے بناوٹی انداز پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ “تم تو دوسروں کے سر میں درد کرتی ہوں تمہیں درد کب سے ہونے لگا‘‘
روبینہ کا منہ پھول گیا۔’’ تم بیٹھوا کیلی میں جارہی ہوں ‘‘
حجاب نے اس کا ہینڈ بیگ کھینچ کر اسے واپس بٹھایا۔
“مذاق کر رہی تھی تم ہی تو میری اکلوتی سہیلی ہو”
حجاب نے اس کے لئے چاۓ منگوائی ۔
روبینہ حجاب کے قریب ہو کے بیٹھ گئی۔
“میں نے تم سے پوچھنا تھا کہ ثانیہ کی شادی کی تصاویر اور مووی کب دکھا رہی ہو”
“کیا کروں، میرا تو خود بہت دل چاہ رہا ہے کہ گھر جاؤں، اماں سے ملوں مگر تم تو جانتی ہو بچوں کے امتحانات ہور ہے ہیں۔‘‘ حجاب ٹیبل پر ہاتھ سے لکیر میں کھینچنے لگی۔
روبینہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
“یہ تم مجھ پر چھوڑ دو، میں یہاں سب سنبھال لوں گی ۔‘‘
’’اس سنڈے نہیں میں اگلے سنڈے پروگرام بنالوں گی۔ ثانیہ کے سسرال بھی جاؤں گی کہ میری کم سن ثانیہ نے بہو کے روپ میں گھر کیسا سنبھالا ہے کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ یہ نوکری چھوڑ کر اماں کے ساتھ پہلے کی طرح رہوں لیکن میری ہر خواہش حالات کے بھنور میں جا کر ختم ہو جاتی ہے۔‘‘
’’اچھا اپنا موڈ مت خراب کرو۔ وہ دیکھو آسمان پر کیسے گھنے سیاہ بادل چھاۓ ہیں ۔ لگتا ہے آج بارش ہوگی۔ چلوا پنی چاۓ اٹھاؤ ، سامنے لان میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔‘‘
روبینہ اپنا کپ اٹھا کے کھڑی ہوگئی ۔
حجاب نے مسکرا کر روبینہ کی طرف دیکھا اور چائے اٹھا کر اسکے پیچھے چل دی اور دونوں جا کر بینچ پر بیٹھ گئیں
حجاب نے اپنی خوبصورت آنکھوں سے بادلوں سے بھرے آسمان کی طرف دیکھا تو کوئی خوبصورت سا خیال اس کے دل کے تار چھیڑ گیا
روبینہ نے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا
“کن سوچوں میں کھوگئی ہو، ویسے کبھی کبھی مجھے تم پر عجیب سا شک ہوتا ہے۔ ادھر دیکھو میری طرف‘‘
حجاب نے اپنی اداس آنکھوں سے روبینہ کی طرف دیکھا۔
” کیسا شک…” حجاب نے حیران کن نظروں سے روبینہ کی طرف دیکھا
“یہی کہ تم نے مجھ سے کچھ چھپایا ہے”
“نہیں تو میں بھلا کیا چھپاؤں گی تم تو میری زندگی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہو” حجاب نے نگاہیں چرا لیں تو روبینہ نے حجاب کے چہرے کو اوپر اٹھایا
“ادھر دیکھو میری طرف”
حجاب نے اپنی اداس آنکھوں سے روبینہ کی طرف دیکھا “تم بتاؤ تمہیں یہ خیال کیسے آیا‘‘
روبینہ نے حجاب کی آنکھوں میں جھانکا۔
مجھے ایسا لگتا ہے تمہاری زندگی میں کوئی ہے جو تمہیں بہت چاہتا ہے کوئی شہزادہ تمہاری زندگی میں محبت کا رنگ بھر گیا اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔”
حجاب نے روبینہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا بس نگاہیں جھکا کے مسکرانے لگی ۔اس کے مسکرانے پر روبینہ اچھل پڑی۔
’’دیکھانہ، میں نے چوری پکڑ لی، اب جلدی سے مجھے اس کا نام بتاؤ۔“
حجاب کی نظریں ایک بار پھر بادلوں سے بھرے آسمان پر ٹک گئیں۔ وہ چندلحوں کے لئے جیسے کہیں کھوگئی بے خودی میں ہی اس کی زبان سے الفاظ نکلے ۔
چاہے جانے کا مجھے زعم نہیں ہے لیکن
میں بکھر جاؤں تو پلکوں سے اٹھاتا ہے کوئی
انہیں لمحوں میں خوشبو کا ایک جھونکا حجاب کی سانسوں میں سرایت کر گیا پھر کسی نے اپنا نرم گداز ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔
حجاب نے خوشبو سے معطر لمبا سانس کھینچا اور آنکھیں بند کئے اپنے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور دھیرے سے بولی ۔ ’’اذہاد۔‘‘
روبینہ کو حجاب کالب و لہجہ غیر متوقع لگا مضبوط شخصیت کی مالک حجاب آج کسی جزبے کے آگے ٹوٹ کر بکھری سی گئی تھی ۔
’’حجاب یقین نہیں آتا کہ تم کسی کے بارے میں اس قدر گہرائی سے سوچ سکتی ہو دوست کہتی ہو اور کبھی اذہاد کے بارے میں بتایا بھی نہیں‘‘
روبینہ کے منہ سے اذہاد کا نام سن کر حجاب نے یکلخت آنکھیں کھول دیں
’’ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو…‘‘
“تو پھر یاد اذہاد کون ہے۔” روبینہ کی سوئی اذہاد کے نام پر ہی اٹک گئی
حجاب چاروں طرف نظریں دوڑانے لگی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔
’’تم کس کو ڈھونڈ رہی ہو۔” روبینہ نے ایک بار پھر حجاب کو کھوجی نظروں سے دیکھا۔
حجاب نے روبینہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے اٹھایا۔ ”چھٹی ہو جاۓ تو پھر تمہیں اذہاد کے بارے میں بتاؤں گی ۔‘‘
دونوں سٹاف روم کی طرف جانے لگیں تو حجاب نے ایک بار پھر پلٹ کر دیکھا شاید اس کی آنکھیں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اب وہاں نہیں تھا۔
حجاب چھٹی کے بعد اپنے کمرے میں آئی تو اس نے مضطرب کی کیفیت میں فائلیں میز پر پھینکیں اور کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے گی۔
‘یہ کیا کر دیا میں نے، مجھے کسی بھی صورت میں روبینہ کے سامنے اذہاد کا نام نہیں لینا چاہئے تھا۔ اب میں کیا بتاؤں گی ۔ چاہے کچھ بھی ہو جاۓ میں راز واشگاف نہیں کروں گی کہ اذہاد ایک جن زادہ ہے ۔ میں روبین کو آدھا سچ بتاؤں گی۔‘‘ حجاب خود کلامی میں بڑ بڑارہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔
حجاب نے دروازہ کھولا تو روبینہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی تھی ، وہ اپنے کمرے میں جانے کے بجاۓ سیدھی ادھر ہی آ گئی تھی ۔
“تم فائلز رکھ دو میں کھانا لاتی ہوں مجھے تو بہت بھوک لگی ہے مل کر کھانا کھائیں گے مزہ دوبالا ہو جائے گا” روبینہ دھڑام سے بیٹھی اور حجاب کا ہاتھ کھینچ کر اسے بھی بٹھا لیا
“میں یہاں کھانا لینے نہیں آئی کھانا میرے کمرے میں رکھا ہوا ہے میں تم سے اذہاد کے بارے میں پوچھنے آئی ہوں ۔‘‘
حجاب نے بیزاری سے آنکھوں کو ادھر ادھر گھمایا۔
“جس حوالے سے تم اذہاد کے بارے میں سوچ رہی ہو ویسا کچھ نہیں وہ میرا اچھا دوست ہے۔”
“مگر جس طرح تم اس کے بارے میں بات کر رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے تمہاری زندگی میں وہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔” روبینہ نے سوالیہ نظروں سے حجاب کی طرف دیکھا۔
حجاب کی نگاہیں فضا میں ٹھہر گئیں ۔الفاظ اس کی زبان سے ادا ہوۓ تو یوں لگا ااکی آواز فضا میں گونج رہی ہے مگر وہ خود یہاں نہیں ہے۔ وہ سوچوں کی کسی گہری کھائی میں جیسے اترتی جارہی تھی۔
’’اس کا اور میرا رشتہ کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا، میں خود بھی آج تک سمجھ نہیں پائی، بس اتنا جانتی ہوں کہ جب تنہائی میں رونے کے لئے مجھے کسی کا شانہ نہیں ملتا تو وہ میرے آنسو پونچھتا ہے۔ اس کی قربت میرے ہر دکھ
کے آگے آڑ بن جاتی ہے۔ وہ ہوا ہے ،خوشبو ہے جس کا احساس اور مہک میری زندگی سے کوئی دور نہیں کر سکتا۔‘‘ روبینہ حجاب کی باتیں سن کر پریشان ہوگئی ۔ حجاب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’روبینہ! میری اس غموں سے بھری زندگی میں چند ہی تو خوشیاں ہیں، خدا کے لئے تم وہ خوشیاں مجھ سے مت چھینو۔ اگر میں نے تمہیں اذہاد کے بارے میں بتادیا تو میں اپنا دوست کھو دوں گی۔‘‘
روبینہ خاموشی سے حجاب کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی ۔
’’اذہاد کے لئے حجاب کے محسوسات غیر معمولی ہیں۔ یہ کیسا دوست ہے جسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا اور حجاب کا اسکا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح کھو جانا روبینہ اپنی شرٹ کا بٹن گھماتے ہوئے جتنا اس بارے سوچتی جا رہی تھی الجھتی جا رہی تھی اسے علم ہی نہ ہوا کہ کب حجاب وہاں سے چلی گئی ۔
اس بات کے بعد روبینہ حجاب سے اکھڑی اکھڑی رہنے لگی مگر حجاب کسی بھی طور پر اذہاد کے بارے میں اسے بتانے پر آمادہ نہیں تھی اسے روبینہ کی ناراضگی تو منظورتھی مگر اذہاد کوایک بار پھر مصیبت میں ڈالنا گوارہ نہ تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆
صباحت سبزی کاٹنے میں مصروف تھی کہ تحریم ہاتھ میں موبائل لئے اس کے قریب آ بیٹھی۔
“اماں حجاب آپی کو مسز آفتاب زیدی کے بارے میں بتاتے ہیں”
ابھی نہیں، پہلے مجھے ان کے گھر جانے دو اتنے امیر لوگ ہیں ہم جیسے متوسط طبقے سے تعلق جوڑ تا چاہتے ہیں ، کیا خبر ،لڑ کے میں کوئی عیب ہو۔‘‘
” توبہ ہے اماں! آپ تو بہت وہمی ہیں۔”
صباحت سبنری کاٹتے ہوۓ رک گئی ۔ اس نے گہری نظر تحریم پر ڈالی ’’بیٹی! عمر کے ان گنت سالوں میں ہم نے کون سے خزانے جوڑے ہیں۔ ٹھوکریں ، مطلب پرست لوگوں کے بدلتے رویے، ایک ہی انسان کے کئی چہرے، زندگی کے یہ تلخ تجربات ہی تو میری جمع پونجی ہیں۔”
تحریم نے ماں کے گرد بانہیں حائل کر لیں۔
’’اماں! آپ تو سنجیدہ ہوگئیں، میں تو ویسے کہہ رہی تھی لیکن لڑ کے والوں کے گھر سے آنے کے بعد سب سے پہلے میں آپی کو بتاؤں گی‘‘
صباحت مسکرادی ۔’’اس سنڈے وہ خودآ رہی ہے تو پھر بتادینا۔‘‘
“سچ! پھر تو بہت مزہ آئے گا۔ میں تو آپی کو بہت ستاؤں گی۔‘‘ تحریم اچھل پڑی۔
اپنے جھمکے ڈھونڈنے کے لئے تحریم نے پوری الماری چھان ماری ۔ نہ جانے میں نے کہاں رکھ دیئے ۔
میرے کپڑوں سے تو صرف وہی میچ کرتے ہیں۔ صباحت اپنے بروشیے کا دوپٹہ درست کرتے ہوۓ کمرے میں داخل ہوئی ۔
“یہ کیا تحریم تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ۔احسن آتا ہی ہوگا ۔مسز آفتاب زیدی کو ہم نے سات بجے کا ٹائم دیا تھا اوراب ساڑھے سات بج رہے ہیں۔”
تحریم نے لمبا ڈا سانس کھینچا اور کمر پر ہاتھ کس لیئے
“میں جھمکے رکھ کر بھول گئی ہوں‘‘
’’تو کیا ہوا جھمکے کون سا سونے کے تھے ، ویسے ہی جھمکے اور لے لینا” صباحت نے اسے تسلی دی تحریم برا سا منہ بنا کے کپڑے الماری میں واپس رکھنے لگی ۔
”میرے اس جوڑے سے وہی جھمکے میچ کرتے تھے ۔
“بس اب جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔ کوئی سے جھمکے پہن لو” صباحت نے حکم صدر کرنے کے انداز میں کہا۔ اور کمرے سے چلی گئی تھوڑی ہی دیر میں احسن گاڑی لے کر پہنچ گیا۔
وہ بجلی کے جھٹکے کی طرح گھر میں داخل ہوئی ۔
جلدی کرو بہت ٹائم ہو گیا ہے۔ ثانیہ کہاں ہے۔‘‘ صباحت نے کمرے کولاک لگاتے ہوۓ ایک نظر احسن پر ڈالی۔
“ثانیہ کو مسز آفتاب زیدی کے گھر چھوڑ آیا ہوں۔” یہ کہہ کر اس نے تحریم کی طرف دیکھا جو ہاتھ میں ہینڈ بیگ لئے تیار کھڑی تھی ۔”تحریم تم گاڑی میں بیٹھو، میں آنٹی کے ساتھ لاک لگا تا ہوں۔‘‘
تقریباً آٹھ بجے وہ سب مسز آفتاب زیدی کے گھر پہنچ گئے ۔
گاڑی مسٹر آفتاب زیدی کے پورچ میں رکی تو تحریم کی سانس اس کے حلق میں ہی اٹک گئی۔ ماں بیٹی نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی پوری کوٹھی کا جائزہ لیا۔ ”جو کوٹھی باہر سے کسی شیش محل سے کم نہیں ، وہ اندر سے کس قدر خوبصورت ہوگی۔”
احسن نے گاڑی کا درواز کھولا ۔ ’’آ جائیں آنٹی ۔”
صباحت نروس سی بلاوجہ اپنے آنچل کو بار بار درست کرتی ہوئی گاڑی سے اتری مگر ان لوگوں نے جس طرح استقبال کیا ایک پل کی لیئے صباحت امیری غریبی کے امتزاج کو بھول گئی جو ان دو خاندانوں میں تھا
کوٹھی میں داخل ہوئی تو آرائش و زیبائش سے اسکی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں ڈیکوریشن پیس سے لے کر فرنیچر تک گھر کی ہر چیز شاہانہ تھی ۔
دیواروں پر لگے شیشوں میں اپنا عکس دیکھ کر صباحت نے لجاجت سے آنکھین جھکا لیں جیسے اس کا اپنا ہی عکس اس کا مذاق اڑار ہا ہو کہ بیٹی کا رشتہ کر نے یہ تم کہاں چلی آئی ہو ۔
دونوں ماں بیٹی ڈرائینگ روم میں جانے کے بجاۓ لیونگ روم میں ہی بیٹھ گئیں۔ مسز آفتاب زیدی کی دونوں بیٹیاں زرقا اور مناحل بھی وہیں بیٹھ گئیں
’’آپ کو اپنے گھر دیکھ کر مجھے خوشی ہو رہی۔میں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی یہی بلا لیا ہے تاکہ ان کی ملاقات بھی آپ سے ہو جاۓ ۔‘‘
’’ماشاءاللہ بہت پیاری بیٹیاں ہیں آپ کی ، آپ کے داماد نہیں آۓ۔‘‘ صباحت نے پو چھا
مز آفتاب زیدی نے ایک نظر اپنی بیٹیوں پر ڈالی، پھر صباحت سے گویا ہوئی۔’’انہیں ضروری کام تھا، انہیں میرے پاس چھوڑ کر دونوں اپنے اپنے کام پر چلے گئے۔ میرا تو دل تھا کہ آفتاب صاحب کی بھی ملاقات آپ سے ہو جاتی لیکن وہ کام کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں، ایک ماہ کے بعد ان کی واپسی ہوگی۔ زریاب اور فیضان ابھی تھوڑی دیر تک آ جائیں گے۔”
زرقا اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد ملازمہ کولڈ ڈرنک لے کر آ گئی۔ زرقا نے آگے بڑھ کر کولڈ ڈرنک سرو کی ۔مسز آفتاب زیدی نے مسکراتے ہوئے زرقا کی طرف دیکھا۔
’’اپنا دو سال کا بیٹا دادی کے حوالے کر کے آئی ہے۔ بہت شریر اور پیارا ہے ۔ مناہل کے لئے دعا مانگتی ہوں ، خدا اس کی بھی گود بھرے ۔“
” کیوں نہیں ، پروردگار کی ذات بہت بے نیاز ہے، وہ سب کی مرادیں پوری کرتا ہے ۔ ویسے زرقا اپنا بیٹا لے آتی تو اچھا تھا میں بھی دیکھ لیتی”
صباحت کی بات کے جواب میں زرقافورا بولی۔ “آنٹی اب تو آنا جانا لگا رہے گا مما نے حجاب کی اس قدر تعریف کی کہ اس سے ملنے کا اشتیاق بڑھ گیا ۔‘‘
’اسی دوران عقبی دروازے سے آواز ابھری
”السلام علیکم“
صباحت نے دیکھا ایک دراز قد وجیہہ نوجوان کمرے میں داخل ہوا
“آؤ زریاب بیٹا….“ مسز آفتاب زیدی بیٹے کو دیکھ کر اٹھی۔
زریاب نے سلیٹی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ نہایت سلیقے سے صباحت اور تحریم سے ملا ۔اس سے لگ رہا تھا کہ انہیں ٹائم پر آنے کے لئے خاص تاکید کی گئی تھی۔
’’فیضان کہاں ہے؟‘‘ مسز آفتاب زیدی نے زریاب سے پوچھا۔
’’فیضان بھائی بس آتے ہی ہوں گے وہ گاڑی سے کچھ سامان نکلوار ہے ہیں۔”
صباحت کی نظریں دروازے پر جمی ہوئی تھی۔ فیضان کو کی ۔ فیضان کو دیکھنے کی بے چینی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ملازمہ کولڈرنک کے ساتھ پیزا اور برگر بھی لے آئی۔
” آپ نے خواہ خواہ اتنا تکلف کیا۔‘‘ صباحت نے مسز آفتاب زیدی کی طرف دیکھا۔
”آپ کچھ لیں تو اور تحریم بیٹی، آپ بھی کچھ لیں۔” مسز آ فتاب زیدی نے ٹرے صباحت کے نزدیک رکھی ۔
’’فیضان بھائی بھی آگئے۔” زرقا نے دروازے کی طرف دیکھا۔
سفید قمیض شلوار میں ملبوس ادھیڑ عمر شخص دروازے پر کھڑا تھا۔ اس کا بھی قد لمبا تھا مگر صحت کے حساب سے سے وہ بوڑھا دکھائی دے رہا تھا۔ چہرے کی جلد جھریوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک پل کے لئے صباحت کو لگا جیسے وہ شخص مسز آفتاب زیدی کا خاوند ہے۔ اس نے اپنی تسلی کے لئے پوچھا۔ “یہ فیضان ہے؟‘‘ مسز آفتاب زیدی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“یہی میرا بیٹا فیضان ہے۔”
فیضان مسکراتا ہوا صوفے پر براجمان ہو گیا۔ صباحت کے تو چہرے کا جیسے رنگ اڑ گیا۔ وہ لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ تک نہیں لا پائی اس کے دل کی کیفیت اس کے چہرے سے عیاں ہورہی تھی ۔
تحریم کی کیفیت اس سے الگ نہیں تھی ۔ کمرے کی خاموشی کا سکوت ثانیہ کی آواز نے توڑا۔ کمرے میں اتنے لوگ اور اس قدر خاموشی ۔
صباحت نے شکوہ بھری نظروں سے ثانیہ کی طرف دیکھا۔ “تم کہاں غائب ہو تمہیں ہماری آنے کی خبر تک نہ ہوئی”
“آنٹی کا فون آ گیا تھا۔‘‘
“امی کیا کہہ رہی تھیں۔‘‘ احسن نے ثانیہ سے پوچھا۔
“کہہ رہی تھیں کہ گھر پر مہمان آئے ہیں ہم جلدی گھر پہنچ جائیں آپکا فون بزی تھا اس لئے انہوں نے میرے نمبر پر فون کیا۔‘‘ پھر ثانیہ صباحت سے مخاطب ہوئی۔ “آپ کو کیسے لگے فیضان بھائی۔”
صباحت نے مسکراتے ہوئے فیضان کی طرف دیکھا۔
’’آپ کا بزنس کیسا چل رہا ہے۔‘‘
مسز آفتاب زیدی نے فیضان کے ہاتھ پر شفقت سے اپنا ہاتھ رکھا۔ ”بہت مخنتی ہے میرا بیٹا ، بس کام میں لگار ہتا ہے۔اپنی صحت کی طرف دھیان نہیں دیتا۔”
کچھ دیر تک فیضان ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا رہا پھر اس کا فون آ گیا جس کے بعد وہ اجازت لے کر چلا گیا۔ ثانیہ اور احسن کو بھی جلدی تھی لیکن انہوں نے صباحت اور تحریم کو ساتھ لے کر جانا تھا اس لئے وہ مزید رک گئے۔ فیضان کے جانے کے بعد مسز آفتاب زیدی صباحت کے قریب بیٹھ گئیں۔ ’’آپ بلا جھجک پوچھیں کیا پوچھنا چاہتی ہیں۔ آپ کی بیٹی کا معاملہ ہے، آپ ہر طرح سے اپنی تسلی کر لیں۔‘‘ صباحت نے اپنائیت سے مسز آفتاب زیدی کی طرف دیکھا۔
’’آپ کا خلوص ہی ہے جو مجھے یہاں کھینچ لایا ہے ورنہ جوڑیاں تو عرش پر بنتی ہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ فیضان کی آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی۔ فیضان کی عمرتو کافی زیادہ ہے۔‘‘
مسز آفتاب زیدی کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔
”میں نے بڑے چاؤ سے فیضان کی شادی کی تھی۔ یہ دس سال پہلے کی بات ہے ۔ شادی کے دو مہینے بعد ہی میری بہو کا انتقال ہو گیا۔ اس کی موت برین ہیمرج سے ہوئی اس کی موت کے بعد فیضان کی شخصیت میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس نے فیضان کو بدل کر رکھ دیا۔ آپ ایک بیٹی کی ماں ہیں اس لئے میں آپ سے کچھ چھپانا نہیں چاہتی۔ فیضان کا مزاج انتہائی جھگڑالو ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بکھر جاتا ہے، خوشی کے موقع پر شامل نہیں ہوتا، زیادہ تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔ سائیکاٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اگر فیضان کی زندگی میں پھر سے کوئی لڑ کی محبت لے کر آۓ تو فیضان بدل سکتا ہے۔ میں نے حجاب میں جو سمجھ داری اور خلوص دیکھا ہے میرے دل نے کہا کہ وہی میرے فیضان کو بدل سکتی ہے باقی آگے آپکی مرضی” مسز آفتاب زیدی ٹشو سے اپنے آنسو پونچھنے لگیں
صباحت نے شفقت سے مسز آفتاب زیدی کے شانے پر ہاتھ رکھا
“آپ اپنی جگہ ٹھیک سوچ رہی ہیں لیکن میں بھی ایک ماں ہوں مجھے سوچنے کے لیئے وقت چاہیئے”
”ٹھیک ہے، مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ ویسے فیضان کے لئے لڑکی مل جاۓ تو مجھے زریاب کے لئے بھی لڑکی ڈھونڈنی ہے۔ میں اپنے دونوں بیٹوں کی شادی ایک ساتھ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ مسز آفتاب زیدی نے ترچھی نظر سے تحریم کی طرف دیکھا۔
احسن اور ثانیہ ،صباحت اور تحریم کوان کے گھر ڈراپ کرنے کے لئے جارہے تھے۔ راستے بھر میں صباحت بہت خاموش تھی گویا وہ ثانیہ سے خفا تھی ۔
ثانیہ نے پچھلی نشست کی طرف دیکھا۔
آپ اس قد رخاموش کیوں ہیں ۔ کیا آپ کو وہ لوگ پسند نہیں آۓ ‘‘
”میں اس موضوع پر ابھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ احسن سے کہو تمہیں بھی ہمارے گھر ڈراپ کردے”
صباحت کی اس بات پر ثانیہ پریشان ہوگئی ۔
“گھر میں مہمان آۓ ہوۓ ہیں، میں کیسے….”
احسن نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔ “تم ان کے ساتھ چلی جاؤ۔ میں مہمانوں کوسنبھال لوں گا۔‘‘
“مگر…..”
“کہا ناں میں سنبھال لوں گا” احسن نے نہایت اطمینان سے کہا۔ ثانیہ بھی صباحت اور تحریم کے ساتھ کے ان کے گھر چلی گئی ۔
“تحریم ! بیٹی مجھے پانی لا دو ۔‘‘ صباحت نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا ثانیہ بھی صباحت کے قریب بیٹھ گئی۔
’’اماں کیوں اس طرح خفا ہو ۔‘‘
“تم نے ایسا رشتہ دیکھا اپنی حجاب کے لیئے لڑکے کی عمر 42 سال اور جو اس کی والدہ اس کی عادات کے بارے میں بتا رہی تھیں وہ سب سنا تم نے میری بیٹی ابھی اتنی عمر کی نہیں ہوئی جو میں اسکے لیئے ایسے رشتے دیکھوں ۔‘‘
صباحت انتہائی غصے میں تھی تحریم پانی کا گلاس لے کر آئی،صباحت نے پانی پیا۔
ثانیہ انتہائی تحمل سے بولی۔ ’’اماں ، آپ کہہ رہی ہیں کہ میں نے لڑکے کی عمر نہیں دیکھی ۔آپ اس گھر کے عیش و آرام نہیں دیکھ رہیں کہ میں جو میں نے حجاب آپی کے لئے دیکھے ۔
“ثانیہ، عیش و آرام ، پیسے کی چمک دمک تم دونوں کو متاثر کرسکتی ہے لیکن میری حجاب میں یہ کمزوریاں نہیں ہیں۔ وہ سادہ طرز زندگی پسند کرے گی مگر اس کا جیون ساتھی ایسا ہو جو اس کا دکھ سکھ کا ساتھی ہو جو اس کو سکون دے ۔‘‘
ماں کی باتوں سے ثانیہ کا موڈ خراب ہو گیا۔
’’اگرلڑ کے کی عمر تیس برس ہو تو لوگ اس کے لئے بائیس سال کی لڑکی ڈھونڈتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپی حجاب پینتیس برس کی ہوگئی ہیں تو ان کے لئے ان کی عمر کا لڑ کامل جاۓ گا۔ اب تو انہیں ایسے ہی رشتے ملیں گے۔”
صباحت نے سر پکڑ لیا۔ ’’اب مجھ سے اس موضوع پر مزید بات مت کرو، میرے سر میں درد ہورہا ہے۔”
دونوں بہنیں کمرے میں جانے لگیں تو تحریم نے کہا۔ “آپ کے سر میں درد اس لیئے ہو رہا ہے کہ آپ سچائی سے نظریں چرا رہی ہیں آپ ثانیہ کی باتوں پر ٹھنڈے دماغ سے غور کریں۔‘‘
صباحت نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا اب چھوٹی کے منہ میں بھی زبان آ گئی تھی
☆☆☆☆☆☆☆
حجاب کے آنے تک صباحت نے مسز زیدی کو کوئی جواب نہیں دیا صباحت گھر کے کام کاج میں بہت کھوئی کھوئی سی تھی کیونکہ حجاب نے آنا تھا۔
وہ پریشان تھی کہ حجاب سے کیسے بات کرے گی اسی دوران ثانیہ کا فون آ گیا
’’اماں پھر کیا فیصلہ کیا آپ نے حجاب کے رشتے کے بارے میں۔ ”
“میں پہلے حجاب سے بات کرلوں پھر بتاؤں گی” صباحت کے لہجے میں پچتگی نہیں تھی
“پہلے آپ خود کوئی فیصلہ کریں گی تب ہی حجاب سے بات کریں گی”
صباحت نے اپنے ڈھیلے سے وجود کو جیسے صوفے پر پھینک دیا۔
“میرا تو دل نہیں مان رہا۔”
’’اماں میں ابھی آ رہی ہوں کل رات مسز آفتاب زیدی ہمارے گھر آئی تھیں۔ انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں کہ میرا آپ سے ملنا ضروری ہے۔‘‘ ثانیہ کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ ضرور کوئی بڑی بات ہے۔
فون بند کرنے کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ثانیہ صباحت کے پاس پہنچ گئی۔
ثانیہ، صباحت کے قریب بیٹھی۔
’’اماں بات صرف حجاب کے رشتے کی نہیں ہے۔ آنٹی عائشہ چاہتی ہیں کہ ادھر ہم حجاب کے لئے رشتے کی ہاں کریں اور ادھر وہ زریاب کے لئے تحریم کا ہاتھ مانگ لیں ۔ انہیں تحریم بھی بہت پسند ہے۔‘‘
’’ کیا زریاب کے لئے تحریم کارشتہ……زریاب تو لاکھوں میں ایک ہے۔ اس کا رشتہ تو کسی بھی رئیس فیملی میں ہو سکتا ہے تو پھر ہماری تحریم کا رشتہ کیوں مانگیں گے” صباحت عائشہ بیگم کی سوچ پر حیران تھی
“آنٹی عائشہ نے کہا ہے کہ دونوں بیٹوں کا رشتہ ایک ہی جگہ کریں گی انکا اشارہ تحریم کی طرف ہے”
صباحت نے جلدی سے کہا “اگر انہیں تحریم پسند ہے تو ایسا کرتے ہیں تحریم کے لیئے ہاں کہہ دیتے ہیں اور حجاب کی
کی شادی کہیں اور کر دیں گے۔”
“نہیں ایسا ناممکن ہے۔…” ثانیہ نے فوری جواب دیا
صباحت نے گہری نظر ثانیہ کے چہرے پر ڈالی۔ “ثانیہ تمہارے لب و لہجے سے ایسا لگ رہا ہے تم حجاب کی بہن بن کر نہیں بلکہ لڑکے والوں کی طرف سے بات کرنے آئی ہو۔ مجھے صاف صاف بتاؤ تمہاری عائشہ بیگم سے کیا بات ہوئی ہے جو تم دونوں بہنوں کے رشتے کے لئے میرا ذہن بنا رہی ہو ۔“ ,
ثانیہ تزبزب کی کیفیت میں اپنی انگلی کا چھلا گھمانے لگی کچھ کہنے کی کوشش کرتی مگر اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر رہ جاتی ۔
”چپ کیوں ہو بتاؤ ‘‘ صباحت سیخ پا ہوکر بولی۔
ثانیہ نے نظریں چراتے ہوۓ جواب دیا۔
”وہ کہہ رہی تھیں کہ اگر حجاب کے رشتے کے لئے ہاں کہہ دیں تو وہ زریاب کے لئے تحریم کا ہاتھ مانگ لیں گی۔‘‘
“بہت خوب! ایک بیٹی کے دکھ کی قیمت میں دوسری بیٹی کا سکھ خریدلوں۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ فیضان کی شخصیت کے بارے میں پوری طرح چھان بین کروں گی ۔حجاب سے بھی پوچھوں گی ۔ اگر میری تسلی نہ ہوئی تو صاف انکار کر دوں گی ۔
ثانیہ، صباحت کی اس بات پر پریشان سی ہوگئی ۔ ” آپ کہتی ہیں کہ مکان بیچ کر حجاب کی شادی کروں گی پھر کرائے کے مکان میں تحریم کے لئے ایسا اچھا رشتہ نہیں آۓ گا ۔ آگے آپ کی مرضی ہے۔”
ثانیہ جاتے جاتے بھی ماں کو اس کی مجبوریاں یاد دلائی ۔ ثانیہ کے جانے کے بعد صباحت گھر کے کام کاج میں پھر مصروف ہوگئی۔ بے حد سوچوں کی زنجیروں نے اس کا ذہن جکڑ لیا تھا۔ ثانیہ اس کے ذہن کومزید الجھا گئی تھی تحریم کالج گئی تھی وہ تھرڈ ایئر میں تھی ۔ ان دنوں اس کے امتحانات تھے وہ دل لگا کر امتحانات کی تیاری کر رہی تھی
کالج سے آتے ہی اس نے حجاب کے بارے میں پوچھا
’’آپی کب آۓ گی ۔‘‘
“وہ کل آئے گی لیکن تم نے اس سے فیضان
کی بات نہیں کرنی میں خود اس سے بات کروں گی۔ تم کھانا کھاؤ”
“ٹھیک ہے آپ خود بات کر لینا” تحریم کھانا کھانے میں مصرف ہو گئی صباحت من میں سوچنے لگی کہ تحریم اور زریاب کی جوڑی کیسی لگے گی مگر جب فیضان کا چہرہ اسکے سامنے آیا اس نے اپنے خیال کو جھٹک دیا
شام کو حجاب اپنے گھر پہنچ گئی۔ صباحت اور تحریم سے ملنے کے بعد حجاب اپنے کمرے میں چلی گئی اپنے بیگ سے ضروری چیزیں اور فیروزی رنگ کا جوڑا نکالا جو وہ ثانیہ کے لئے لائی تھی۔اس نے جوڑے کو چھوتے ہوۓ ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’ آج ثانیہ کے بغیر سب کچھ کتنا عجیب لگ رہا ہے۔خدا اسے خوش رکھے ۔‘‘
حجاب نے سوٹ الماری میں رکھا۔
شام کا وقت تھا۔ آسمان پر سرمئی رنگ کے بادل چھاۓ ہوۓ تھے۔حجاب باہر لان میں بیٹھ گئی۔ تحریم چاۓ کے تین کپ لے کر لان میں آئی۔
“تم پہلے سے یہاں بیٹھی ہو اور میں سوچ رہی تھی کہ تم سے کہتی ہوں کہ لان میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔‘‘ تحریم نے چاۓ کی ٹرے اور بسکٹ میز پر رکھتے ہوۓ کہا۔
’’میں اماں کو بلا کر لاتی ہوں۔” حجاب نے تحریم کو پیچھے سے آواز دی۔ ”ثانیہ کی شادی کی تصاویر بھی لے آنا‘‘
کچھ دیر بعد صباحت اور تحریم بھی حجاب کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
تحریم کے ہاتھوں میں البم تھی
“البم مجھے دو” حجاب نے تحریم کی طرف ہاتھ بڑھایا تحریم نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا “آرام سے پہلے بسکٹ کھاؤ چائے پیو پھر تسلی سے تصاویر دیکھ لینا”
“تحریم کیوں ستا رہی ہو بہن کو البم دے دو” صباحت نے تحریم کوگھورا تو تحریم نے البم حجاب کو تھمادی۔
“دیکھ لو۔ یہ کمال کی تصاویر آئی ہیں تمہاری‘‘
’’حجاب نے تصاویر دیکھنا شروع کی تو جیسے پورا فنکشن ایک بار پھر نظروں کے سامنے آ گیا
“احسن اور ثانیہ کتنے پیارے لگ رہے ہیں اور ثانیہ تو مومی گڑیا لگ رہی ہے”
“یہ تو کچھ بھی نہیں جب مووی دیکھو گی تو تمہاری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی” تحریم مسکراتے ہوئے حجاب کے ساتھ البم دیکھنے لگی ۔ابھی زریاب کے رشتے کی بات تحریم کے کانوں تک نہیں پڑی تھی ۔
تصاویر دیکھنے کے بعد دونوں بہنیں شادی کی ویڈیوں دیکھتی رہیں ۔ حجاب بہت لطف اندوز ہورہی تھی ۔ ہاسٹل کی بور اور تھکا دینے والی ڈیوٹی کے بعد گھر آ کر اس طرح سب کے ساتھ ہنسنا کھیلنا حجاب کو بہت اچھا لگتا تھا۔ حجاب کی موبائل کی رنگ ہوئی ۔ موبائل کے اسکرین سیور پر ثانیہ کا نام تھا۔ حجاب نے موبائل کان سے لگایا۔ ۔
“ہیلو ثانیہ کیا حال ہے میری بہن کا‘‘
’’ حجاب! میں بہت خوش ہوں ۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی میں اتنی خوشیاں مجھے ملیں گی۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے تمہاری یہ بات سن کر میرے دل کو تسلی ہوگئی ہے ۔‘‘
’’تم سناؤ ۔ کیسی ہو۔ جاب کیسی چل رہی ہے ۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں ۔ جاب بھی اچھی چل رہی ہے ۔ تم یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے ملنے آؤ گی یا میں آؤں۔ ’’ حجاب ایسا کرو کہ کل تم سب میرے گھر آؤ۔ ہم اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ ادھر آؤ گی تو تم سب سے مل بھی لو گی۔‘‘ ثانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو حجاب بھی مسکرادی۔
’’ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ میں اماں اور تحریم سے پوچھ کر تمہیں فون کر دوں گی کہ کل ہم کس وقت آئیں گے۔ تمہاری تصاویر بہت اچھی ہیں اور مووی بھی کمال کی ہے ۔تم نے دلہن کے روپ میں کیا ماڈلنگ کی ہے۔‘‘
“حجاب تم میرا مذاق اڑا رہی ہو وہ تو فوٹو سیشن والے کہہ رہے تھے ایسے پوز بناؤ” ثانیہ نے وضاحت کی ۔
’’ ارے پگلی ! ایسا ہی ہوتا ہے میں تمہارا مذاق نہیں اڑا رہی تمہاری تصویریں واقعی شاندار ہیں” حجاب اور ثانیہ کافی دیر باتیں کرتی رہیں پھر فون بند ہونے کے بعد حجاب نے صباحت سے کہا
“ثانیہ کل دوپہر کے کھانے پر ہم تینوں کو مدعو کر رہی ہے”
صباحت نے بے دلی سے کہا۔ “تم دونوں بہنیں چلی جانا ، میں گھر پر ہی رہوں گی۔‘‘
“اماں آپ کیوں ایسا کہہ رہی ہیں” حجاب نے ماں سے انکار کی وجہ پوچھی تو صباحت نے اپنے سر کو خفف سا دبایا ۔
“پتا نہیں آج کل طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی” حجاب نے پریشان ہو کر ماں کا ہاتھ تھاما۔
“آپ ابھی چلیں میرے ساتھ ڈاکٹر سے چیک اپ کرواتے ہیں” صباحت نے پیار سے حجاب کا ہاتھ تھاما
“نہیں میری بیٹی یہ کوئی مرض نہیں ہے بلڈ پریشر اوپر نیچے ہو جاتا ہے بلڈ پریشر کی دوا پڑی ہے، میں لے لوں گی ۔‘‘
رات ہو گئی مگر صباحت ، حجاب سے فیضان کے بارے میں بات نہ کرسکی ۔
رات کے دس بجے ہی حجاب، صباحت اور تحریم کو شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ آسمان پر سرمئی بادلوں نے اب کالی گھٹاؤں کا روپ لے لیا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آسمانی بجلی دھرتی کو روشن کر دیتی اور پھر کڑک دار آواز کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھتی تو دھرتی کا سینہ ہلا کے رکھ دیتی۔ اس طرح کے موسم سے حجاب بہت خوفزدہ ہوتی تھی ۔
اس نے کھڑکی کے پردے پیچھے کیے۔ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ نے لان کے اندھیرے کوخوفزدہ بنادیا تھا۔ سروں کے پودے بھی یوں محسوس ہورہے تھے جیسے دیوسر جھکائے بیٹھے ہیں ۔ ابھی بارش نہیں ہوئی تھی لیکن موسم کا حل بتارہا تھا کہ بہت تیز بارش ہونےوالی ہے صباحت نماز پڑھ رہی تھی اور تحریم کپڑے پر کڑھائی کر رہی تھی ۔صباحت نماز سے فارغ ہوئی تو تحریم نے کہا۔
“آپ نے آپی سے بات کیوں نہیں کی”
“سفر سے تھکی ہوئی آئی تھی مجھے مناسب نہیں لگا کل بات کروں گی”
بجلی کی خوفناک کڑک پر تحریم نے بھنویں سکیڑ کر کہا “موسم بہت خوفناک ہوتا جارہا ہے، آپی ڈر تو نہیں رہی ہوگی ۔‘‘
صباحت بستر پر براجمان ہوگئی ۔ ” وہ توا کیلے رہ رہ کر کافی بہادر ہوگئی ہو گی یہ تم آیت الکرسی پڑھ کر سو جاؤ۔“
تھوڑی ہی دیر کے بعد موسلا دھار بار شروع ہوگئی تحریم آیت الکرسی پڑھ کر ماں کے ساتھ لیٹ گئی۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس لئے اس نے آنکھیں بند کیں تو باہر سے آنے والی آوازیں زیادہ نمایاں ہوگئیں ۔ لان کے جھولے کی چڑچڑ کی آوازوں سے اس نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھی۔اس نے کھڑکی کھولی تولان میں لگا پینگ والا جھولا اس طرح زورزور سے ہلنے لگا جیسے تیز بارش میں کوئی اونچی اونچی پیگیں چڑھارہا ہو۔ تحریم نے اطراف پر نظر دوڑائی تو درختوں کے پتے ساکت تھے۔ ہوا نہیں چل رہی تھی۔ بادلوں کی خوفناک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ تیز بارش ہورہی تھی ۔
“ہوانہیں چل رہی تو یہ جھولا…” تحریم کے وجود میں سنسنی دوڑ گئی ۔
اس نے کھڑکی بند کی اور صباحت کے قریب جا کر اس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ وہ گہری نیندسور ہی تھی۔
تحریم نے ماں کا بازو ہلایا۔
”ہونہہ….” صباحت نیند میں بڑ بڑائی ۔
’’اماں!باہر ہوا کا نام ونشان تک نہیں ہے اور جھولا زورزور سے ہل رہا ہے۔‘‘ صباحت چڑ کر بولی۔
“اس قدر تیز طوفان ہے اور تمہیں جھولے کے ہلنے کا تعجب ہورہا ہے ادھر آ کے سو جاؤ‘‘
تحریم نے ماں کے ساتھ لیٹ کر آنکھیں موند لی۔
حجاب عشاء کی نماز پڑھ کر بست میں گھس گئی تھی۔ اس کا بھی دھیان بار بار جھولے کی آواز کی طرف جارہا تھا۔ اس نے کھڑ کی کا پردو پیچھے کیا۔ اندھیرے میں کچھ ٹھیک طرح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر ایک دم سے آسمانی بجلی بجلی چمکی تو حجاب کی سانس اٹک کے رہ گئی ۔ اس طوفانی بارش میں کوئی جھولے میں پینگیں چڑھا رہا تھا۔ آسمانی بجلی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندھیرے میں ڈوبے لان کو روشن کر دیتی تھی حجاب اپنے کمرے سے باہر نکل کر با غیچے میں آ گئی اب وہ جھولا اسے سامنے سے دکھائی دے رہا تھا۔ “از باد ‘‘ جھولے میں بیٹھے ہوئے شخص کا چہرہ نظر آتے ہی بے اختیار بیکارا اور وہ تیز بارش میں جھولے کی طرف بھاگنے لگی ۔
وہ جھولے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی وہ تیز بارش میں بھیگ رہی تھی اس کا سانس پھولا ہوا تھا
اذہاد نے جھولا روک دیا اور جھولے سے اتر کر وہ حجاب کے قریب کھڑا ہو گیا۔
حجاب کے بال کھلے ہوئے تھے اور بارش کا پانی اس کے بالوں سے دھاریوں کی صورت کپڑوں پر گر رہا تھا۔ پانی کے قطرے اس کے چہرے پر اس طرح چمک رہے تھے جیسے گلاب کے پھولوں پر شبنم ۔ بارش میں بھیگی ہوئی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی لبوں پر مسکراہٹ تھی مگر جب اس نے اذہاد کا سپاٹ چہرہ غور سے دیکھا تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
بارش نے بہت کوشش کی کہ اذہاد کے آنسو اس میں گم ہو جائیں مگر اس کی دہکتی ہوئی سرخ آنکھوں نے حجاب کو بتا دیا کہ وہ رو رہا ہے۔
حجاب کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ کر رکھ دیا۔ وہ تڑپ کر رہ گئی ۔ وہ اس کے آنسو پونچھنے لگی۔
’’اذہاد! تمہاری آنکھوں میں اس طرح آنسو….. کیا ہوا ہے۔”
اذہادگھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، اس نے اپنے ہاتھ کشکول کی طرح حجاب کے سامنے پھیلا لئے اس نے بھیگی آنکھوں سے حجاب کی طرف دیکھا تو اس خواب کی یاد سے حجاب تھر تھرا کر رہ گئی، جس میں وہ اذہادکو اکثر اس طرح دیکھتی تھی ، جیسے فقیروں کے بھیس میں شہزادہ جو اس کے آگے کشکول پھیلائے بیٹھا رہتا ہے۔ حجاب اس کی حسرت بھری آنکھوں میں ڈھونڈتی رہ جاتی کہ وہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ آج بھی اذہاد کی آنکھوں میں وہی سحر تھا جس میں کوئی کھوجاۓ تو دنیا تیاگ تھے۔
حجاب اذہاد سے آنکھیں چراتے ہوئے چند قدم پیچھے ہٹ گئی
’’اذ ہاد تم مجھے اس طرح مت دیکھا کر تمہاری سحر زدہ آنکھیں کسی دن تمہارا اور میرا جن وانس کا فرق مٹا دے گی۔ تمہاری آنکھوں کے جذبات بہت گہرے اور سچے ہیں ۔”
اذ بادا یک فقیر کی طرح اس کیفیت میں گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔
“میں نہ جانے کب تمہارے لیئے انسانوں میں بھٹک رہا ہوں میری توانائی دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہے دل چاہتا ہی کہ انسان بن کر تمہاری ماں سے تمہارا ہاتھ مانگ لوں اور زندگی بھر تمہیں خود سے دور نہ کروں” تجاب نے اذہاد کے شانوں پر ہاتھ رکھ کے اسے کھڑا کیا۔
“جو تعلق تم بنانا چاہتے ہو، وہ ایک فریب ہے اور اس فریب سے ہماری کچی دوستی زیادہ بہتر ہے۔ یقین کرو، جتنا سکون ،جتنی خوشی مجھے تمہاری دوستی سے ملی ہے اور کہیں نہیں ملی ۔ میری بے رنگ زندگی میں تمہاری قربت ہی تو ہے جس میں، میں اس قدرخوش ہو جاتی ہوں تم تو غموں کی تپتی دھوپ میں میرے لئے گھنے سائے کی طرح ہو، میں لفظوں میں نہیں بتاسکتی کہ تم میرے لئے کیا ہو، بس اتنا بتاسکتی ہوں کہ تم میرے قریب ہوتے ہوتو غم و پریشانی کا احساس مجھے نہیں چھوسکتا۔ اگر تم جن نہ ہوتے تو تم سے پہلے میں تمہاری محبت میں گرفتار ہو جاتی‘‘ احساس کی رو میں بہتے ہوۓ جذبات میں حجاب کو خیال ہی نہ رہا کہ وہ اس قدر بھیگ گئی ہے ۔
حجاب کی باتیں اذہاد کاغم کم نہ کرسکیں، اس کی آنکھوں سے آنسو یونہی بہتے رہے ۔کافی دیر کی خاموشی کے بعد وہ دھیرے سے بولا۔ ” تم بہت بھیگ چکی ہو، بیمار پڑ جاؤ گی۔ اگلی ہی ساعت میں حجاب اپنے کمرے میں تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی کھڑکی کی طرف لپکی اذہاد بھی جھولے کے پاس سے غائب ہو چکا تھاحجاب جا جگہ کھڑی تھی ادھر قالین گیلا ہو گیا۔
“اوہ مجھے تو اندازہ نہ ہوا کہ میں اتنی گیلی ہو گئی ہوں” وہ جلدی واشروم چلی گئی دوسرے کپڑے پہننے کے بعد وہ بستر پر لیٹ گئی۔ اس کی نیند بھی کسی بدلی کی طرح ہوا ہو چکی تھی۔ وہ ٹکٹکی باندھے چھت کی طرف دیکھتی رہی ۔ وہ اذہاد کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کے لئے ہم اپنی خوشیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں، جن کی راحت سکھ چین کھو دیتے ہیں ۔ ان سے ہمیں وفا نہیں ملتی اور کبھی یوں اذہاد کی طرح کوئی وفا کا سر چشمہ بن کر ہماری زندگی میں دبے پاؤں داخل ہو جاتا ہے ۔آ گے یہ ہمارا نصیب کہ ہم وفا کے ساگر کے قریب کھڑے پیاسے رہ جائیں مگر اذہاد، وہ اس طرح کیوں رورہا تھا۔ اچانک ایسی کیا بات ہوگئی تھی کہ وہ اس طرح رنجیدہ ہو گیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ انسانوں میں اس طرح بھٹکنے سے اس کی توانائی ختم ہورہی ہے ۔ میں صبح ہی اس سے بات کروں گی کہ وہ اس طرح ہر وقت میرے ساتھ رہ کر خود کو ختم نہ کرے۔ وہ جہاں جانا چاہتا ہے، چلا جائے ۔ جب اس کا دل چاہے وہ مجھ سے ملنے آ جایا کرے۔‘‘ اسی سوچ میں گم اس کا حلق خشک ہو گیا، وہ پانی پینے کے لئے اٹھی تو کمرے میں پانی نہیں تھا۔ وہ کچن میں پانی لینے گئی تو صحن میں بکھرے سوکھے پتوں پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ حجاب کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
’’شاید کوئی چور ہے قدموں کی چاپ مسلسل آتی رہی۔ حجاب نے ڈرتے ڈرتے کھٹڑ کی سے باہر جھانکا۔ حجاب کو کوئی نظر نہیں آیا ۔ ۔ کھڑکی سے تو کوئی نظر نہیں آیا۔ بس اس نے یہ دیکھا کہ کوئی انار کے درخت کے پاس سے اس طرح گزرا ہے کہ درخت جھول کے رہ گیا ہے ۔ وہ درخت اس کمرے کے قریب تھا جہاں پہلے اذہاد رہتا تھا ۔ پھر ایک دم اس کمرے کے لائٹ جلی جب کہ کمرے کے باہر تالا لگا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد انار کے درخت کے پاس سے اذہاد نمودار ہوا۔ حجاب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔اذہاد کا ہوائی جسم قفل چڑھے دروازے سے آر پار ہو کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
حجاب لمبے لمبے سانس لیتے ہوۓ اردگرد دیکھنے لگی ۔
’’اذہاد! پھر اس کمرے میں کیسے آ گیا؟ پچھلی بار اسے کتنی اذیتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ اس بار بھی اگر اماں کو شک ہو گیا تو وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ یہ سوچ کر ان الجھنوں میں حجاب دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اذہاد کے کمرے تک آئی ۔اس نے کھڑکی سے دیکھا تو اذہاد گہری نیند سو رہا تھا۔ حجاب کافی دیر وہیں کھڑی سے دیکھتی رہی مگر اس میں ہمت نہ ہوئی اسے جگانے کی پھر وہ بھی اپنے کمرے کی طرف چل دی
•●•●•●•●•●•●•●•●•
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...