حمیدہ معین رضوی(لندن)
زیست کا سنگِ گراں یا وقت کا کوہِ گراں
ان کو شانوں پہ ا ٹھائے
دکھ بھری ویران وادی میں رواں
دیکھتی ہوں ہر طرف، موت کا پھیلا سکوت، بیکراں
کیا میں تنہا ہوں یہا ں؟
یا اور کوئی ہے یہاں،میری سرگوشی ہے گنبد کی صدا،
ربِ مشرق اور مغرب!
تجھ سے کرتی ہوں دعا بھیج اپنا ہمنوا،
لگتاہے صدیوں سے بیٹھی ہوں
اکیلی چوٹیوں پہ نوحہ خو اں،
دیکھنے کو۔۔۔ ا بنِّ دم کارواں در کا واں
مسخ چہروں کے یہ انساں،
چھین کر آ واز بھی تو لے گئے، قتل یہ الفاظ کو بھی کر گئے ہیں عجب عفریت ،گونگے اور بہرے بے نشاں
آنکھیں رکھتے ہیں ،مگر اصلی بصارت کھو گئی،
اہلیت حق سننے کی بھی انکی رخصت ہو گئی
ہر عمل اپنا مگر لگتا ہے انکو خوش نما،چاہے ہو وہ بد نما،
خواہشوں کو پوجتے ہیں یہ ہی ہیں انکے الٰہ
دل منافق جب ہوئے انساں وہ پتھر ہوگئے
چھن گئی انسا نیت ، خصلت میں بندر ہوگئے
سوچتی ہوں میں غلط رستے پہ ہوں کیا ؟
کاٹتی ہے دل کو جس کے آگہی کی اک سناں
یا یہ سارے بے ضمیرہنستے گاتے کارواں در کار و ا ں
میں اکیلی سوچتی ہوں،
ننگے پاؤں یہ مسافت کب تلک؟۔۔۔
اور مسلسل زخمی کرتی یہ جراحت کب تلک؟
خستہ جانی اور جنوں کی یہ حکایت کب تلک؟
اک وفائے رائیگاں
اور ہونٹوں پر جمی اک بد دعا
’’ جس کو اﷲ نے نہیں دی روشنی،
اس کو مل سکتی نہیں ہے روشنیــ ‘‘ القرآن سورہ نور
منتظر ہوں
’’کن ‘‘کی اک آواز آنی ہے ضرور
ریزہ ریزہ ہوکے رہ جائے گا جس سے
ظلم کا سنگِ گراں۔وقت کا کوہِ گراں،
عسرِ یسراّ عسرِ یسراّ
ماوراسے
آتی رہتی ہے صدا!