وقت کے دریا میں اٹّھی تھی ابھی پہلی ہی لہر
چند انسانوں نے لی اک وادیِ پنہاں کی راہ
مل گئی ان کو وہاں
آغوشِ راحت میں پناہ
کر لیا تعمیر اک موسیقی و عشرت کا شہر،
مشرق و مغرب کے پار
زندگی اور موت کی فرسودہ شہ راہوں سے دور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس جگہ ہر صبح کو ملتا ہے ایمائے ظہور
اور بنے جاتے ہیں راتوں کے لیے خوابوں کے جال
سیکھتی ہے جس جگہ پرداز حور
اور فرشتوں کو جہاں ملتا ہے آہنگِ سرور
غم نصیب اہریمنوں کو گریہ و آہ و فغاں!
کاش بتلا دے کوئی
مجھ کو بھی اس وادیِ پنہاں کی راہ
مجھ کو اب تک جستجو ہے
زندگی کے تازہ جولانگاہ کی
کیسی بیزاری سی ہے
زندگی کے کہنہ آہنگِ مسلسل سے مجھے
سر زمینِ زیست کی افسردہ محفل سے مجھے
دیکھ لے اک بار کاش
اس جہاں کا منظرِ رنگیں نگاہ
جس جگہ ہے قہقہوں کا اک درخشندہ وفور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمّتِ یزداں ہے چور
جس جگہ ہے وقت اک تازہ سرور
زندگی کا پیرہن ہے تار تار!
جس جگہ اہریمنوں کا بھی نہیں کچھ اختیار
مشرق و مغرب کے پار! ٭٭٭