(Last Updated On: )
پیمبر نے دعا کے بعد اس وادی سے رخ موڑا جناب ہاجرہؓ کو اور بچے کو یہیں چھوڑا جناب ہاجرہؓ بیٹھیں تھیں اس صحرائے وحشت میں سنبھالے طفل عالیشان کو آغوش الفت میں یہاں صحرا ہی صحرا تھا چٹانیں ہی چٹانیں تھیں جناب ہاجرہؓ یا ایک بچہ دو ہی جانیں تھیں نہ دانہ تھا نہ پانی تھا بھروسہ تھا فقط رب پر بڑھی جب دھوپ کی گرمی تو جان آنے لگی لب پر زمیں کا ذرہ ذرہ مہر کی صورت چمکتا تھا بہت بیتاب تھی ماں گود میں بچہ بلکتا تھا عطش سے کرب و بے چینی جو دیکھی اپنے جائے میں لٹایا خاک پر بچے کو ایک پتھر کے سائے میں صفا و مروہ پر ہر سو تلاش آب میں ڈوریں بلند و پست پر فکر شے نایاب میں ڈوریں کبھی اس سمت جاتی تھیں کبھی اس سمت جاتیں تھی خیال آتا تھا بچے کا تو فوراَ لوٹ آتیں تھیں تڑپتے دیکھ کر بچے کو بڑھ جاتی تھی بے تابی ٹپک پڑتی تھی اشک یاس سے پانی کی نایابی بہت ڈھونڈا نہ کچھ آثار پانی کے نظر آئے جدھر اٹھی نظر جھلسے ہوئے ٹیلے نظر آئے یوں ہی بس سات بار آئیں گئیں پانی نہیں پایا چٹانیں سرخ پائیں دشت شعلہ آفریں پایا قیامت کی گھڑی تھی پڑ گئے تھے پاؤں میں چھالے چلی جائی تھیں آنکھیں آب میں بچے میں دل ڈالے سنی آواز ننھے کے بلکنے اور رونے کی تڑپ اٹھیں کہ ساعت آگئی ہے جان کھونے کی پلٹ آئیں تو دیکھا دور سے ننھا تڑپتا ہے کہ جس پتھر کے سائے میں لٹایا تھا وہ تپتا ہے رگڑتے ایڑیاں دیکھا زمیں پر اپنے بچے کو پکارا ہاجرہؓ نے کانپ کر اللہ سچے کو قریب آئیں تو پر کھولے ہوئے جبریل کو پایا انگوٹھا چوستے سائے میں اسمٰعیل کو پایا ٹھٹک کر وہ گئیں اک اور نظارہ نظر آیا قریب پائے اسمٰعیل فوارہ نظر آیا زمیں پر ایڑیاں بچے نے رگڑی تھیں بہ ناچاری ہوا تھا چشمہ آب سرد و شیریں کا وہاں جاری یہ پہلا معجزہ تھا پائے اسمٰعیل کم سن سے کہ چشمہ جس کا زمزم نام ہے جاری ہے اس دن سے بیاباں میں خدا کی رحمتیں جب اس طرح پائیں جھکیں پیش خدا اور شکر کا سجدہ بجا لائیں بجھائی سیدہ نے پیاس بچے کو ملی راحت کھجوریں خلد کی رکھ کر فرشتہ ہو گیا رخصت