(Last Updated On: )
زرینہ بیگم: نور سو گئی ہے بھابھی؟
خدیجہ: جی سو گئی ہے آپ نہیں سوئیں ابھی تک جاگ رہی ہیں رات کے دو بج رہے ہیں۔
زرینہ بیگم: نیند کیسے آئے میری تو نیند جیسے آنکھوں سے روٹھ گئی کے خدیجہ، ہماری نور کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔
خدیجہ نے آنسو صاف کیے اور چپ چاپ سر ہلانے لگیں، جیسے ان کے پاس کسی بھی بات کا جواب نہیں ہو۔
زرینہ بیگم: میں سوچ رہی تھی کہ علی کے گھر والوں کو یہ بات کیسے بتائیں گے؟ وہ لوگ اس رشتہ کو کہیں ختم ہی نہ کردیں۔ اس سے پہلے کے خدیجہ کچھ کہتی کوئی جواب دیتیں اس سے پہلے نور کی کانپتی ہوئی آواز سنائی دی،
نور: آپ لوگ فکر مت کریں میرا رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔
خدیجہ: تم جاگ رہی ہو اب تک نور۔
نور: مجھے نیند نہیں آرہی اماں مجھے درد ہو رہی ہے بازو میں۔
زرینہ بیگم: نور کیا علی یہ سب کچھ جانتا ہے کہ تمہیں یہ بیماری ہے؟
نور: جی اور انہوں نے مجھے کہا تھا کہ اس بات سے وہ اس رشتہ کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔
خدیجہ: نور تمہیں کیا ضرورت تھی یہ سب چھپانے کی، کیا فائدہ ہوا یہ بات گھر میں نہ بتا کر۔
نور خاموش رہی اور کچھ بھی نہ بولی وہ کہتی بھی تو کیا اور کس سے کہتی کے اس نے یہ سب کیوں چھپا کر رکھا تھا وہ کتنا ڈرتی تھی بابا سے اسے کتنا دکھ اور تکلیف تھی اپنا رشتہ عادل کے بجائے علی سے ہوجانے کی۔ وہ کیسے عادل کا طنز سہتی تھی وہی جانتی تھی اس بات کو کیسے برداشت کیا کرتی تھی ۔۔۔
گھر کے ماحول نے کبھی اجازت نہ دی کے کسی سے دوستی کرتی یا کسی سے گھر میں وہ اپنی الجھنیں پریشانیاں بیان کر سکتی۔
نور سے کوئی جواب نہ دیا گیا وہ یہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب سو گئی، اپنی ماں کی گود میں سر رکھے رکھے اس کو جیسے سکون مل گیا تھا بے قراری میں قرار آگیا تھا۔
اماں نور نہیں جاگی ابھی تک۔ عادل نے کافی کی چسکی لیتے ہوئے ماں سے پوچھا جو ابھی ابھی نور کے کمرے سے ہو کر آرہی تھی۔ عادل صبح صبح ہی گھر واپس آیا ٹرینگ وغیرہ سے فارغ ہو کر اور اب عادل کو اپنی پوسٹنگ کا انتظار تھا۔ عادل کے سوال پر زرینہ بیگم نے ایک نظر عادل پر ڈالی اور اس کے سوال کو سامنے رکھ کر سوچنے لگی کے آج میرا بیٹا پوچھ رہا اور وہ بھی نور کے بارے میں۔ ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ گھر والوں کے بارے میں عادل زیادہ بات کرے یا ان کے متعلق سوال کرے۔
عادل م تبدیلی تو بہت آئی تھی لیکن گھر والوں کے لیے وہ اب بھی ایک اجنبی سا تھا۔
زرینہ بیگم: نہیں جاگی تو نہیں مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو آج، کیسے اس بیچاری کا خیال آگیا ہے؟۔۔ زرینہ بیگم بھی عادل کے پاس بیٹھ گئی عادل ماں کے سامنے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور ماں کے سوال کے جواب میں مسکرا دیا۔
عادل: امی میں اتنا بھی جلاد صفت انسان نہیں ہوں، اور وہ کوئی بیچاری نہیں ہے ایسے ہی کمزور بنایا ہوا ہے اس کو آپ نے اور ماموں نے، بیچاری تو ممانی ہیں جن کی کوئی سنتا نہیں ہے۔
زرینہ بیگم: عادل نور کو ایسے نہیں بولا کرو وہ بہت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور کل تو جیسے ہم پر قیامت ہی ٹوٹ گئی تھی۔
زرینہ بیگم عادل سے سب باتیں کر کے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھیں،ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ عادل بات کو راز رکھنا جانتا ہے۔ دوسری طرف عادل کی چھٹی حس اسکو یہ اشارہ دے رہی تھی کہ نور کی بیماری والی بات ہی ایسی بات ہو سکتی جو سب کو ہلا کر رکھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کی بات تحمل سے سننے کے بعد عادل نے کوئی ایسا ری ایکشن نہ دیا جس سے زرینہ بیگم کو یہ محسوس ہوتا کہ یہ سب بات عادل کو پہلے سے ہی معلوم ہے۔ عادل جب سے واپس آیا تھا اس کے دل میں نور کے لیے فیلنگز میں بہت تبدیلی آگئی تھی، یہ معاملہ دل کا تھا یا انسانی ہمدردی کا اس فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔۔
عادل نے پہلی بار معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ وہ واپس آنے سے پہلے ملک کے ایک مشہور لیور اسپیشلسٹ سے اس متعلق بات کر آیا تھا جنہوں نے اس بات کا یقین دلایا تھا کہ یہ پرابلم چھوٹی سی سرجری سے اور اس کے بعد با قائدگی کے ساتھ ادویات لیتے رہنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ عادل نے یہ بات گھر میں ایسے بتائی جس سے کسی کو یہ شک نہ گزرے کے عادل سب پہلے سے جانتا تھا۔ سب کو یہی لگا کے عادل نے ابھی کہیں ڈاکٹروں سے بات کی ہے رپوٹس دیکھائی ہوں گی آن لائین۔
لیکن اصل بات کا علم صرف عادل کو ہی تھا۔ عادل نے بنا بتائے علی کو کال کر کے اسے اعتماد میں لیا تمام صورت حال سے آگاہ بھی کیا اور علی نے بھی یہ وعدہ کیا کے سرجری کے دن وہ ضرور نور کے پاس ہو گا۔
آپریشن کے لیے نور کی رضامندی ضروری تھی اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا اسی وجہ سے دیر ہو رہی تھی ۔ عادل کے علاوہ سب نے کوشش کر کے دیکھ لی تھی مگر سب بےکار تھا اسے کسی بھی بات سے سروکار نہیں تھا وہ آپریشن کے کے نام تک سے ڈرتی تھی۔ علی ہنسی مذاق میں کہ دیا کرتا کہ تم علاج کروا لو نا پھر آئس کریم کھلاؤں گا تمھیں اور عادل کہتا فن لینڈ لے کر جاتا ہوں آو آجاؤ نا۔
ان دونوں کی باتوں پر نور لوٹ پوٹ ہو جاتی تھی اور آخر ایک روز خدیجہ نے دھمکی ایسی دی کے نور نے ہتھیار ڈال دیے۔ آبھی تک یہ بات نور کے بابا کو نہیں بتائی گئی تھی جس کی وجہ سے نور کسی کی بھی بات نہیں سن رہی تھی مگر آج ماں نے اصل مرض کی تشخیص کر ہی لی تھی،
( نور آپریشن کے لیے نہ مانی تو میں تمھارے بابا کو بتا دوں گی)۔
لیور سرجری کے لیے جمعہ کے دن بعد نماز ء جمعہ کا وقت دیا گیا تھا اور آج عادل نور کو لے کر آیا تھا ساتھ میں زرینہ بیگم بھی آئی تھیں ۔ نور اماں میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کے ساتھ آتیں، اسی لیے پھپی کے ساتھ بھیج دیا کے وہ ہی یہ سب دیکھ سکتی ان میں ہی حوصلہ ہے غموں کے سہنے کا برداشت کرنے کا۔
اب باری تھی نور کو اسٹریچر پر او، پی، ڈی، میں لے جانے کی ۔ نور کے ایک ہاتھ میں عادل کا ہاتھ تھا تو دوسرا ہاتھ علی نے تھام رکھا تھا۔
تین گھنٹے کے بعد
آپریشن تھیٹر کی لال بتی بجھ چکی تھی، اتنے میں ڈاکٹر طلحہ علی باہر آئے اور مخاطب ہوئے۔
مبارک ہو آپریشن کامیاب رہا اور ابھی ہم پیشنٹ کو وارڈ میں منتقل کر دیں گے کچھ دیر میں اس کے بعد آپ مل لیجیے گا ان سے ابھی آپ سب انتظار کریں پلیز، اور ہاں آپ میں سے عادل کون ہے اور علی؟
ڈاکٹر جاتے جاتے ایک دم سے پلٹ آئے تھے یہ سوال کرنے کے لیے۔
عادل: جی میں عادل ہوں اور نور میرے ماموں کی بیٹی ہے اور یہ علی ہیں نور کے منگیتر۔
عادل کی بات سننے کے بعد ڈاکٹر نے عجیب سی نگاہوں سے دونوں لڑکوں کو دیکھا اور سر کو جھٹکتے ہوئے واپس چل دیے۔ ان کو واپس جاتا دیکھ کر عادل نے علی کو اور علی نے عادل کو دیکھا دونوں حیران تھے مگر خاموش رہے اور ڈاکٹر کا یہ سوال دونوں کے لیے ہی عجیب سا تھا وہ۔ وہ کم دے کم عادل کو تو جانتے ہی تھے پھر بھی یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس بات کا جواب بعد میں سوچا جا سکتا تھا ابھی تو سب سے ضروری کام گھر کال کرنا تھا، زرینہ بیگم تو شکرانے کے نفل ادا کرنے پہلے ہی جاچکی تھی۔ ان کے جانے کے بعد عادل نے گھر فون کی اور ممانی کو یہ خوشخبری سنائی۔
وارڈ میں شفٹ کرنے کے بعد سے لے کر جب تک نور کو ہوش نہیں آگیا تب تک علی اسپتال میں ہی رہا اور کسی بھی طرح سے اس کی توجہ میں کمی محسوس نہیں کی کسی نے وہ ہمیشہ کی طرح ہنس مکھ اور ملنسار تھا اور آج بھی اس مشکل کے وقت میں سب سے زیادہ پر امید اور حوصلہ افزاء باتیں علی کی ہی تھی۔
اس موقع پر عادل کے چہرے سے بھی پریشانی عیاں تھی وہ بھی کچھ بےچین سا لگ رہا تھا شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ پہلی مرتبہ اس نے کسی کی زندگی کا فیصلہ لیا تھا۔ ماموں کو اس فیصلے میں شامل نہ کرنے سے لے کر اسپتال اور ڈاکٹروں کی رائے تک سب کچھ عادل نے ہی تو کیا تھا، بھلے سے علی اس کے ساتھ تھا لیکن ہر فیصلہ عادل کا ہی تھا اور علی کو اس بات سے اعتراض بھی نہیں تھا۔
نور اتوار کے روز گھر واپس آگئی تھی اور علی نے آج ہی واپس جانا تھا، اب ان دونوں کی اگلی ملاقات ممکنا طور پر شادی والے دن ہی ہونا تھی۔ علی جانے سے پہلے نور کو ملنے آیا اور ڈھیروں باتیں کرتا رہا جس میں نور کی پڑھائی سے لے کر اس کی صحت اور اپنی ایک شدید پسندیدہ ترین خواہش شہادت تک تمام موضوعات پر بات کی تھی۔
نور کے لیے شہادت والی بات نئی تھی اسے نہیں لگتا تھا کہ فوج میں علی کو اس قدر دلچسپی ہو گی کے وہ شہادت کے رتبے کی بھی تمنا کرتا ہوگا۔
نور کت آپریشن کو دو ماہ گزر چکے تھے اور اب نور کی صحت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی تھی نور کے لیے پڑھائی کی مصروفیات کے علاوہ اور بھی بہت کام ہوتے تھے کبھی شادی کی شاپنگ تو کبھی بابا کی جگہ کسی سے میٹنگ کے لیے جانا ہوتا تھا۔ علی نے نور کو بتا دیا تھا کے وہ مہندی کی رات کو پہنچ جائے گا اور مہندی کے بعد ویسے بھی دو دن کا ریسٹ تھا اور پھر رخصتی۔
عادل کی پوسٹنگ لاہور میں ہوئی تھی بطور انسپیکٹر کسٹمز اور زیادہ تر عادل کو ائیرپورٹ پر ڈیوٹی کرنی ہوتی تھی، عادل ہر ویک اینڈ پر گھر آجاتا تھا جب بھی عادل آتا گھر میں رونق سی آجاتی تھی۔ ڈاکٹرز نے نور کو ایسے کھیلوں کا بول رکھا تھا جس میں اسکو بھاگنا پڑے اس کی سانس کا اندازہ ہو سکے کے آیا دل کی جو دوائی دی جا رہی ہے وہ ٹھیک سے اثر کر بھی رہی ہے کے نہیں۔ لیکن نور اس بات پر کبھی عمل نہیں کرتی تھی وہ ہمیشہ ہی مصروفیات کا بہانہ بنا لیتی اور کھیل یا جم جانے سے گریز کرتی تھی۔
لیکن عادل کے آتے ہی نور کی جان پر بن آتی تھی جیسے جیسے عادل رننگ کے لیے جاتا نور کو ساتھ لے جاتا تھا، گھر میں رات دیر تک بیڈمنٹن کھیلی جاتی تھی۔ رات میں جب بھی عادل اور نور کھیلتے تو رات رات بھر جاگتے گزر جایا کرتی تھی، ان دونوں کے ساتھ علی بھی اسکائیپ کال یا ٹینگو پر ویڈیو چیٹ کے ذریعے کھیل میں شامل ہوا کرتا تھا اس کے لیے خاص طور پر لائیٹ کا انتظام کیا جاتا اور سپیکرز اور نور کا کمپیوٹر باہر لان میں لایا جاتا اور علی ریفری کے فرائض بخوبی نبھاتا تھا اور ایسے شاندار فیصلے کیا کرتا تھا جس کی بدولت نور کبھی بھی نہ جیت پاتی تھی۔
جیسے جیسے نور کی شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے وہ بہت نروس رہنے لگی تھی۔ شاید سب ہی لڑکیوں کے لیے یہ چند ماہ یا آخری کے کچھ دن ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس گھر کو چھوڑنا جس میں تمام عمر گزاری ہو وہ تمام رشتے ناتے چھوڑ کر کسی دوسرے گھر میں چلے جانا آسان نہیں ہوتا اور نور جیسی لڑکی کے لیے تو یہ اور بھی مشکل تھا۔ شادی اور پھر اپنے بچپن کے منگیتر کے کو چھوڑ کر کسی اور کی ڈولی میں بیٹھ کر چلے جانا یہ سب آسان نہیں تھا لیکن نور تیار تھی اس چیلنج کے لیے بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور یونیورسٹی سے واپس آئی تو مغرب کا وقت ہو رہا تھا اور گھر کے اندر سے باتوں کی ہنسی کی آوازیں آرہی تھی جو کے اس گھر میں غیر متوقع تھی۔ نور نے ایک بار کار پورچ میں کھڑی گاڑیوں پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کے گھر کی گاڑیوں کی ترتیب میں تبدیلی آئی ہے اور آوازوں میں بھی جانی پہچانی آوازیں ہیں کچھ۔ نور کے دل کی ڈھڑکنیں تیز ہو رہی تھی اسے کتنا انتظار تھا بابا کا بھائی کا وہ جیسے بھی تھے آخر کو اس کے اپنے بھی تو وہی تھے نا نور بھاگ کر اندر آئی اور دیکھ کر حیران رہ گئی کہ صرف بابا ہی نہیں چاچو بھی آگئے تھے اور ساتھ میں،ماہم بھی آئی تھی یاور ماموں کی بیٹی۔
دونوں کزنز ایک دوسری کو دیکھ کر بچوں کی طرح خوشی سے اچھلنے لگی اور بھاگ کر گلے آلگیں اور حیرت اور خوشی کے ملے جلے جزبات نے دوںوں کی زبان جیسے بند کر دی تھی وہ بس ایک دوسرے کی بانہوں میں جھول رہیں تھی۔
یاور ملک: او پتر جی ادھر چاچا کو بھی مل لو میرا بچہ ہم بھی باہر سے ہی آئے ہیں کوئی لالو کھیت سے تو نہیں آئے،
( یاور ملک ملنے کے لیے خود ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور نور کی جانب بڑھنے لگے)
چاچو کے اس انداز پر نور مسکرا دی۔ یاور ملک میں یہی تو خوبی تھی کہ کسی بھی وقت ماحول میں تازگی بھر دیتے تھے اپنے جملوں سے۔
ان کے آنے سے گھر بھر میں چہل پہل ہو جایا کرتی تھی اسی لیے تو بچوں کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ نور ماہم کے بعد چاچو کو ملی پھر بابا اور بھائی کو ملی، بھائی تو ویسے بھی بابا کی کاپی لگتے تھے جیسے خاور ملک کی جوانی لوٹ آئی ہے۔
ماہم کے آجانے سے نور کے لیے بھی بہت آسانی ہو گئی تھی اب کوئی تو تھا جس سے نور دل کی باتیں کر سکتی تھی اور سب سے بڑھ کر شاپنگ وغیرہ میں ساتھ دینے کو کوئی تو تھا جو آج کل کے حساب سے ڈریسسز بنوائے گا ساتھ میں۔ماہم ڈزائینگ میں ڈپلومہ کر رہی تھی اور اب تو اس کی اردو بھی بہت بہتر ہو گئی تھی پہلے کی نسبت۔
علی کے گھر سے شادی کا جو جوڑا آیا تھا وہ بہت ہی پیارا تھا ، فیروزی رنگ کی میگسی کے ساتھ رائیل بلیو دوپٹہ بہت ہی شاندار لگ رہا تھا۔ جسے دیکھ کر نور تھوڑی سی اداس ہو گئی تھی لیکن اس اداسی کا اظہار کسی پر بھی نہیں کیا نور نے مگر ماہم نے نور کے چہرے کو دیکھ کر بھانپ لیا تھا کہ وہ کسی الجھن میں ہے مگر سب کے سامنے یہ بات کرنا مناسب نہیں لگا۔
ماہم کافی کے دو مگ اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی نور کو دیکھ کر مسکرائی اور پاس آکر بیٹھ گئی۔ نور جو اس وقت پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی اور تھکن سے سر درد کر رہا تھا اس موقع پر کافی بہت بڑی نعمت تھی نور کے لیے۔
نور: آہ ماہم اس وقت بہت طلب ہو رہی تھی مجھے کافی کی،تم میرے لیے رحمت کا فرشتہ بن کر آئی ہو سچی میں،
(نور نے ماہم کو پاس بیٹھاتے ہوئے گلے لگا کر زور سے بھینج لیا)۔
ماہم: آپی مجھے لگا کے اس وقت آپکو کافی کی ضرورت ہو گی میں کافی بنا لائی ہوں،لائیں دیں میں ٹائیپنگ کر دیتی آپ یہاں بیٹھ کر آارام سے کافی کے مزے لو۔ ( ماہم نے زبردستی لیپ ٹاپ نور سے لے لیا اور لکھنے لگی)
نور نے روکنا بھی چاہا لیکن اس کی بات کا کوئی بھی اثر نہ ہوا ماہم پر وہ بس لکھ رہی تھی اور بہت رفتار کے ساتھ۔
ماہم: آپی آپ خوش ہو نا ؟
نور: خوش کس بات سے؟
ماہم: آپی میں چھوٹی ضرور ہوں لیکن اتنی بھی نہیں ہوں، کہ کسی کی خوشی کو جان نہ سکوں میں اور میرا سوال ویسے بھی آپکی شادی کی بات کرنی ہے۔
نور: ماہم ایسا نہیں ہے تم کچھ غلط سمجھ رہی ہو، میں خوش ہوں شادی سے۔
ماہم: اور شادی کا جوڑا دیکھ کر بھی آپ کے چہرے پر رونق نہیں تھی آپی آپ تب بھی اداس لگ رہی تھی آپی۔
نور: ماہم بہت بڑی بڑی باتیں نہیں کر رہی ہو تم؟ (
ماہم کے سوالات نور کو ناگوار گزر رہے تھے لیکن وہ اسے کچھ کہ بھی تو نہیں سکتی تھی)
ماہم: ہو سکتا ہے میری باتیں آپ کو بری لگ رہی ہوں لیکن آپی یہ ٹھیک نہیں ہے جو آپ کر رہی ہو ایک بار تو آپ احتجاج کرتی نا، اور علی بھائی کی منگنی بھی تو ہوئی تھی اور وہ ان کو بہت پیار بھی کرتے تھے نا۔
یہ بات خود ان کی چھوٹی بہن نے مجھے بتائی تھی۔
نور: اگر وہ پیار کرتے بھی تھے تو اب تو نہیں ہے نا ان کی لائف میں کوئی دوسری لڑکی تو میں کس بات کو لے کر انکار کرتی یا پھر احتجاج کرتی بولو ماہم کیا تھا جس کے لیے میں یہ سب کچھ کرتی۔
ماہم: اس کے لیے آپی،
(ماہم نے اچانک لیپ ٹاپ کی سکرین نور کی طرف کر دی)
سکرین پر موجود تصویر دیکھ کر نور کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پائی کے یہ کیا ہو گیا ہے اور کیسے نور سے یہ غلطی ہو گئی تھی نور اب نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین پر لگی تصویر عادل کی تھی، جس میں عادل نے نور کا ہاتھ تھام رکھا تھا یہ ایک ٹرپ کی فوٹو تھی جب کچھ فیملیز مل کر ہنزہ ویلی گئیں تھیں۔ یہ تصویر تب لی گئی تھی جب نور ایک بڑے سے پتھر سے نیچے اتر رہی تھی اور عادل نے گرنے سے بچانے کے لیے ہاتھ تھام لیا تھا۔
نور ماہم کو جھوٹ نہیں بول سکتی تھی اس قدر واضع معاملے میں وہ کیا جھوٹ بول سکتی تھی چپ چاپ سر جھکائے نور جواب سوچ رہی تھی۔ چند لمحے خاموشی کے گزر جانے کے بعد نور نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا اور بولی،
نور: ماہم جو کچھ بھی تھا ون سائیڈڈ تھا اور بس۔
نور بجلی کی سی تیزی سے کمرہ چھوڑ کر باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نور کو اپنی شادی کا جوڑا لینے جانا تھا اس لیے وہ جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی لیکن ماہم کی سست رفتاری نور کو پریشان کر رہی رہی تھی وہ جلد از جلد جا کر واپس بھی آنا چاہتی تھی۔ اس رات کے واقعے کے بعد نور نے علی کو ہی قبول کر لیا تھا اور ماہم کو بھی اس بات کا یقین دلا دیا تھا کہ اب وہ عادل کو کبھی نہیں سوچے گی۔۔
یہ سب کرنا آسان تو نہیں تھا لیکن کبھی کبھی انسان کو وہ کام کرنا ہی ہوتا ہے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
نور کمرے سے باہر آئی تو وہاں عادل اس کے انتظار میں ٹھل رہا تھا وہ نور کو نکلتے ہوئے دیکھ نہیں سکا تھا، نور جو کے مہرون رنگ کے ڈریس میں تھی اور سر پر دوپٹہ لیے ہوئے کسی ہیروئین سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ نور سر جھکائے کان میں جھمکا ڈالتے ڈالتے باہر آگئی تھی اور بے دیہانی کے عالم میں آگے بڑھتے بڑھتے عادل سے جا لگی۔
عادل: اوہ کیا ہوا دیکھ کر چلو نا کیا کرتی ہو،
( عادل نے پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، عادل نہ جانے کتنی دیر ایسے ہی دیکھتا رہتا مگر نور نے خود کو سنبھالا اور گھوڑتے ہوئے دیکھا )۔
نور: دیکھ کر چلو نا یہاں واک کیوں کر رہے ہو صبح کرتے نا واک پارک میں،
( نور نے الٹا عادل کو ڈانٹ دیا جبکہ غلطی پر وہ خود تھی)۔
ان دونوں کی نوک جھونک بوتیک تک جاری رہی جسے ماہم نے بہت انجوئے کیا اور خوب دل کھول کر ہنستی بھی رہی
۔
بوتیک میں جس جوڑے کو عادل کم سے کم دس منٹ تک کھڑا دیکھتا رہا تھا نور نے آخر میں اسی کو سلیکٹ کیا لیکن اس بات کا پتہ نہ ماہم کو چلا اور نہ ہی عادل نے وہ جوڑا پیک ہوتے دیکھا۔
نور کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جس کے پیچھے کوئی وجہ بھی نہیں تھی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی خود ہی مسکرائے جا رہی تھی۔
باہر سب نور کی مہندی کی تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ نور مہندی کا پیلا جوڑا پہنے کلائیوں میں پھولوں کے گجرے پہنے ہوئے تھے۔ بالوں میں بھی موتیہ کے پھول پنوں کی مدد سے سیٹ کیے گئے تھے نور جنت کی حور لگ رہی تھی وہ نہ جانے کن خیالوں میں گم تھی۔ علی کی آمد میں ابھی ایک روز باقی تھا کل ہی علی نے کال کر کے بتا دیا تھا کہ اس کے آنے میں ایک روز کی تاخیر ہو جائے گی۔۔۔
علی کی امی اس سے اس بات کو لے کر ناراض تھیں کہ کب علی آئے گا اور کب اس کی شیروانی لی جائے گی اور باقی کی چیزیں بھی علی کے آنے کے بعد ہی تو خریدی جائیں گی۔ نورر کے گھر میں بے حد رونق تھی ماہم نے تو بھرپور تیاری کر رکھی تھی گانوں کے مقابلہ کی اور گرلز کے فنکشن میں ڈانس کی بھی جس کی اجازت بڑی مشکلوں سے حاصل کی تھی ماہم نے اور وہ بھی خاور ملک سے جن کو تو مہندی کرنا بھی بہت فضول کام لگ رہا تھا۔
باہر سے آنے والی ڈھولک کی آواز اچانک بند ہونے سے نور کو حیرانگی ہوئی پھر وہ یہ سوچ کر رلیکس ہو گئی کہ ہو سکتا ہے نماز کا وقت ہو عشاء کی اس لیے ہی بابا نے ڈھولک بند کروا دی ہوگی ۔
نور نے یونہی اپنا موبائل اٹھا لیا ٹایئم پاس کرنے کے لیے مگر یہ کیا ابھی تو آذان ہونے میں بھی آدھا گھنٹہ باقی تھا پھر کیوں ڈھولک بجنی بند ہو گئی ہے۔ ضرور بابا نے بند کروائی ہو گی اپنی بیٹی کی خوشی کے لیے اتنا سا بھی نہیں کر سکتے جب کہ مذہب بھی اس سے نہیں روکتا ہے پتہ نہیں بابا کیسے اسلام کو پسند کرتے ہیں میں خود ہی باہر جا کر دیکھتی ہوں۔ یہی سوچتے سوچتے نور ایک دم سے اٹھی اور بائیں ہاتھ میں تھاما ہوا موبائیل ڈریسنگ ٹیبل پر ہی رکھ کر بے دیہانی کے عالم میں نہ جانے کب نور نے دائیں ہاتھ کو کرسی پر رکھ دیا۔
وہ کرسی کا سہارا لے کر اٹھنے لگی تھی کے دائیں ہاتھ میں لگی مہندی جس میں اے پلس این اور اس کے اندر ہی کہیں چھپا ہوا علی کا نام لکھا ہوا تھا ۔ اوہ میرے خدا یہ کیا کر دیا میں نے، نور نے پریشانی کے عالم میں ایک نظر ہاتھ پر ڈالی جہاں اب صرف این لکھا باقی رہ گیا تھا۔ نور کا جیسے سانس حلق میں اٹک کر رہ گیا تھا اور دل کی دھڑکن جیسے ڈوبنے لگی تھی وہ کسی بھی قسم کا وہم یا برا خیال دماغ میں لانا نہیں چاہتی تھی مگر تب نور کو خود اس کی سوچوں پر کوئی اختیار نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور سوچوں میں الجھی ہوئی ابھی اپنے کمرے کے دروازے تک ہی پہنچ پائی تھی کے باہر سے ماں کے رونے کی آواز آنے لگی ساتھ ہی بھائی کی رعب دار آواز سنائی دی جس میں وہ ڈھولکی اٹھانے اور سب کو کپڑے بدلنے کو کہ رہے تھے۔ نور نے ہمت کر کے دروازے کا لاک گھمایا اور بوجھل ہوتے قدموں کے ساتھ باہر نکل آئی آپنے کمرے سے جہاں سامنے سے عادل چلا آرہا تھا وہ نور کے کمرے کی طرف ہی جا رہا تھا۔ عادل کے چہرے کو دیکھ کر کسی بھی بات کا اندازہ لگا لینا بہت مشکل تھا کیونکہ عادل کو اپنے اوپر بلا کا کنٹرول تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تھا نور کی نظریں عادل سے ملیں مگر آج پہلی بار عادل نے نور سے نظریں ملانے کے بجائے اپنا سر جھکا لیا تھا ۔
نور: عادل کیا بات ہے سب ایک دم سے چپ کیوں ہو گئے ہیں اور امی کیوں رو رہی تھیں مجھے ان کے پاس جانے دو نا، کیا ہے کلائی چھوڑو نا عادل کیا مذاق ہے یہ۔
(نور نے ایک نظر عادل کو دیکھا وہ بت بنا کھڑا تھا جیسے اس نے کوئی بات بھی نہیں سنی تھی)
عادل: نور کمرے میں چلو ممانی ٹھیک ہیں ان کے پاؤں میں موچ آگئی ہے اماں ان کے پاس ہی ہیں تم چلو اندر،
(عادل کے انداز میں زبردستی کا عنصر واضع تھا وہ نور کو اندر لے جانے کے لیے بضد تھا)
نور عادل کے جواب سے کچھ دیر تو چپ ہوگئی لیکن عادل کا ایسے اسے پکڑ کر لے جانا اور آگے نہ جانے دینا سب کچھ سمجھ سے باہر تھا۔
گھر میں کہرام مچ گیا تھا اس بات کی خبر ہوتے ہی نور کو اب تک اپنے کانو سنی بات پر یقین نہیں آرہا تھا وہ بیٹھے بیٹھے خود سے ہنسنے لگتی اور کچھ دیر بعد چیخ چیخ کر رونے لگتی تھی ۔ بات ہی کچھ ایسی تھی جس پر سب کے پھول کی طرح کھلے چہرے ایک دم سے مرجھا گئے تھے۔
علی جو کے ایس ایس جی کمانڈو تھا اسے اچانک سے ایک آپریشن کے لیے کال کر لیا گیا تھا اس کی وجہ سے ہی علی کی واپسی میں تاخیر ہو گئی تھی۔ یہ بات کس کو معلوم تھی کے اب کے علی اپنے قدموں پر چل کر نہیں بلکہ ایک تابوت میں بند پاکستانی پرچم کے اندر لپٹا ہوا جسد خاکی بن کر لوٹے گا۔۔
نور نے تو دفن ہونے سے پہلے علی کو دیکھا بھی نہیں تھا مگر پھر بھی وہ بار بار ہوش میں آتی اور پھر سے اچانک سے بے ہوش ہو جاتی تھی۔ نور کی زبان گنگ ہو گئی تھی اس پر سکتا طاری تھا، نور کے منہ سے پانی کے علاوہ کسی نے اگر کوئی لفظ سنا تھا یا کوئی بات نور نے کی تھی تو وہ تھے، علی، مہندی اور انتظار ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی کی شہادت کے بعد نور پر سکتے کی کیفیت طاری رہی جس کے بعد ڈاکٹرز کے مشورے کے مطابق نور کے لیے ضروری تھا کے وہ سٹریس فری رہے اس کے اوپر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے اسی وجہ سے خاور ملک نے بیٹی کو اپنے ساتھ کینیڈا لے جانے کے لیے زیادہ زور نہیں دیا ۔ یہ فیصلہ نور کا تھا کے وہ پھپی کے ساتھ عادل کے لاہور والے سرکاری گھر میں شفٹ ہو جائے گی مگر پاکستان سے باہر نہیں جائے گی۔ اس کی وجہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ نور ملک سے جانا کیوں نہیں چاہتی لیکن یہ سوال کسی کے لبوں تک نہیں آسکا تھا، علی کے جانے کے بعد دونوں فیملیز کے لیے نور کی صحت نور کی خوشی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔
نور کے معمولات ء زندگی بری طرح سے ڈسٹرب ہوئے تھے وہ رات رات بھر جاگتی رہتی تھی اور دن میں بس چند گھنٹے مشکل سے نیند کر پاتی تھی۔ اس وجہ سے زرینہ بیگم بھی پریشان سی دکھائی دیتیں تھ، اس بات کا تذکرہ بہت بار عادل سے بھی کر چکیں تھی مگر عادل ہر بار یہی کہتا کے اماں نور کو ایسے ہی جینے دو جیسا وہ چاہتی ہے۔ نور نے ہنسنا مسکرانا بہت کم کر دیا تھا وہ عادل کے ساتھ جب بھی وقت گزارتی تھی اس کو جیسے سکون مل جاتا تھا وہ اپنی دل کی بات عادل سے کہ دیا کرتی تھی وہ اب شکوہ شکایت بھی نہیں کرتی تھی اسے لگتا تھا کہ یہ جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے شکوہ کیا تھا اس نے کیوں کہا تھا کہ میں مرنا نہیں چاہتی کیوں میں نے اللہ جی کے آگے ضد کی تھی۔
عادل ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا تھا
“نور ایسی بات نہیں ہے مقدر کے آگے تقدیر کے آگے سب بے بس ہوتے ہیں یا یوں کہ لو کے بس دعا ہی ایسا عمل ہے جو اس میں تبدیلی لا سکتی، اور تم ہی تو کہتی ہو وہ اپنی کزن سے بےپناہ پیار کیا کرتا تھا اس لیے وہ واپس جا ملا ارج سے”۔
اب تم بھی لائف میں آگے بڑھتی جاو اب تم بھی جینا شروع کر دو تمھاری وجہ سے امی کتنی اداس رہتی ہیں ماموں بھی پردیس میں تمھاری وجہ سے بی پی ہائی کیے رکھتے ہیں۔ تب نور ہنس کے جواب دیا کرتی تھی ، بابا یہاں کون سا سکون سے رہتے تھے ان کے لیے اولاد سے بڑھ کر کاروبار ضروری ہے۔
عادل روز آفس سے جلدی گھر لوٹ آیا کرتا صرف نور کے لیے اور اب عادل کو نور کے ساتھ وقت گزارنا اچھا بھی لگنے لگا تھا۔ وہ نور کا خیال اس لیے بھی رکھتا تھا کیونکہ کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق یہ سب بھی ضروری تھا۔ عادل کو نور کی باتوں کی گہرائی اس کا انداز بہت اچھا لگنے لگا تھا وہ بہت سنجیدہ اور انوکھی باتیں کیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا تھا جیسے نور کو کوئی غم نہیں ہے کوئی تکلیف بھی نہیں ہے وہ جیسے بلکل ٹھیک ہے لیکن پھر اچانک سے وہ بہت بیمار لگنے لگتی چپ چاپ رہنے لگتی تھی۔
عادل نور کے جس قدر قریب جاتا تھا اس کو اتنا ہی اچھا لگتا تھا۔ جیسے بہار کے آتے ہی ٹنڈ منڈ سے پیروں پر ننہی ننہی سی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں ایسے ہی طویل خزاں کے بعد عادل کے دل میں جزبات میں بہار کے آثار دیکھائی دینے لگے تھے۔ وہ نور کے لیے اپنے دل میں کچھ ایسے ہی جزبات رکھتا تھا جیسے کبھی کشمالہ کے لیے تھے وہ یہ بات ماں سے کرنے کے بجائے اب کی بار سیدھے سیدھے نور سے کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کو کرنے کے لیے وہ کسی اچھے موقع کی تلاش میں تھا وہ روز جب نور سے باتیں کیا کرتا تھا تب بس وہ نور کو چپ چاپ دیکھا کرتا تھا۔ اس کے زرد زرد سے گال، لپ سٹک لگے ہونٹ جنکی خشکی کو چھپانے کے لیے وہ لپ سٹک لگا لیا کرتی تھی۔ باتیں کرتے کرتے وہ سر کو کرسی کی پشت سے ٹکا دیا کرتی تھی اور آسمان پر اڑتے ہوئے پنچھی دیکھنے لگتی تھی اور باتوں کا تسلسل ٹوٹ ہی جاتا تھا، مگر عادل اس قدر مبہوت سا ہو کر دیکھ رہا ہوتا تھا کہ اس کو احساس بھی نہ ہوتا کہ کب نور نے باتیں کرنا بند کر دیا اور کب چپ ہوگئی۔
اکثر نور چٹکی بجاتی اور کہتی کدھر گئے انسپکٹر صاحب اور عادل بھی سر جھٹک کر ہنس دیتا اور ستانے کی غرض سے کہتا
” میں دیکھ رہا تھا کہ کہیں تم ڈرگز تو نہیں لیٹی ہو ایسی ویسی جس سے نشہ کی کیفیت رہتی ہو،”۔
اور نور غصہ سے جھنجھلا اٹھتی بھاگ کر اندر کی طرف چلی جاتی اور کہتی جاتی میں بتاتی ہوں پھپو کو۔ایسے ہی ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا دونوں کے درمیان ، اسی لیے عادل نے نور کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عادل اور نور آج باہر جا رہے تھے نور نے بہت دنوں کے بعد باہر جانے کی ہامی بھر لی تھی، اور عادل نے بھی دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ آج وہ بات کر کے ہی رہے گا۔
گھر سے باہر کسی اچھی سی جگہ جا کر دل کی بات کرنے سے بہت اچھا اثر رکھے گا اور نور بھی انکار نہیں کر پائے گی اب تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ انکار کرے۔
عادل آج بہت اچھے موڈ میں تھا،سفید کُرتہ شلوار میں پشاوری چپل اور کُرتے کی آستین چڑھائے ہوئے عادل کسی فلمی ہیرو جیسا لگ رہا تھا۔ آنکھوں پہ کالا چشمہ لگائے جب عادل کمرے سے باہر آیا تو زرینہ بیگم نے بیٹے کی بلائیں لی اور نظر نہ لگ جائے اس لئے گردن پر کالا ٹکہ بھی لگا دیا سرمہ کی مدد سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہر کے کنارے گھاس پر بیٹھے عادل اور پاس ہی ایک پتھر پر بیٹھی ہوئی نور میں پچھلے پانچ منٹ سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی تھی وہ دونوں خاموش تھے اور بہتے ہوئے پانی کو دیکھ رہے تھے۔ عادل نے گلا صاف کیا اور مصنوعی کھانسی کی مدد لے کر نور کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔
نور: کیا ہوا ابھی تو ٹھیک آیے ہو گھر سے اب یک دم کھانسی کیوں ہونے لگ گئی ہے؟
عادل: نہیں بس یوں ہی شروع ہو گئی ہے کوئی خاص وجہ تو نہیں شاید گھاس کی وجہ سے ہو رہا ہے یہ عجیب سا گلے میں۔
نور عادل کو دیکھ کر مسکرا دی اور پھر سے پانی کو دیکھنے لگی۔
عادل: نور مجھے کچھ کہنا ہے تم سے۔ (عادل نے نور کے چہرے کو بغور دیکھا،اور سوچنے لگا کیسے وقت بدل جاتا ہے)
نور: جی بولیں
عادل: ادھر دیکھو تو سہی کیا ہوا ناراض ہو۔۔
نور: نہیں ایسا نہیں ہے آپ بولو نا
( نور نے متوجہ ہوتے ہوئے عادل کو دیکھا، اس عادل کو جس کو دیکھ کر وہ اپنے صبح شام کیا کرتی تھی)
عادل: نور میں نہیں جانتا یہ بات کیسے کرنی چاہئے اور اس بات کے لیے کون سے الفاظ بہترین ہوتے ہیں اور تم جانتی ہی ہو میں کوئی زیادہ فلم ڈرامہ دیکھتا نہیں ہوں۔۔۔
نور: اچھا اب بات کیا ہے یہ بھی تو بول دو نا۔
عادل: نور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں تم سے پیار کرنے لگا ہوں۔
نور نے چونک کر عادل کو دیکھا اور دیکھتی ہی رہ گئی وہ اس بات کو سن کر جیسے فلیش بیک میں چلی گئی تھی۔اسے وہ تمام دن یاد آرہے تھے جب جب عادل نے نور کو ہنسی کا نشانہ بنایا تھا وہ کبھی بھی نور کے پیار کے جواب میں دو بول بھی میٹھے لہجے میں نہیں بولے تھے۔
نور: عادل یہ آپ کیا بول رہے ہیں؟˕
عادل: میں سچ کہ رہا ہوں نور،اور یہ پیار ہی ہے میں تم پر کوئی رحم نہیں کھا رہا نہ مجھے ترس آرہا ہے تم پر میں سچے دل سے تمھیں پیار کرنے لگا ہوں۔
نور کالے جوڑے میں ملبوس تھی، اس کا گندمی سا رنگ پانی کے عکس سے بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔ لال رنگ کی چوڑیوں سے کھیلتے ہوئے نور کے ہوںٹوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور جلد ہی ماند پڑ گئی۔
نور: عادل کاش آپ نے اب مجھ سے پیار نہین بلکہ رحم اور ترس کھا کر یہ بات کی ہوتی تو شاید میں آپ کی بات مان لیتی اور آپ سے شادی بھی کر لیتی۔
عادل: مگر نور،
اس سے پہلے کے عادل بات مکمل کرتا نور نے ہاتھ اٹھا کر عادل کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
اور نور پھر سے گویا ہوئی۔
نور: عادل میں آپکے جزبات کی قدر کرتی ہوں میں اس پیار میں کسی بھی طرح کے شک میں مبطلا نہیں ہوں، لیکن میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی ہوں۔
نور کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی ایک فاتحانہ چمک، اس نے آج اس پتھر کو موم کر دیا تھا جو اسے زخم دیا کرتا تھا، نور کے نام تک سے جو شخص چڑتا تھا آج اس کے پیار کے اظہار نے نور کے تمام دکھ درد تکلیفیں بھلا دی تھیں وہ جیت گئی تھی عادل سے۔
عادل: لیکن اس انکار کی کیا وجہ ہے نور؟ تم نے اب تک مجھے دل سے معاف نہیں کیا نا؟
نور: عادل ایسا نہیں ہے میں نے آپکو معافی اسی روز دے دی تھی جس دن آپکو کشمالہ چھوڑ کر چلی گئی تھی، مجھے لگا تھا یہ سزا آپکو شاید میرا دل توڑنے کی وجہ سے ملی ہے۔
عادل: وہ تو سزا مل کے ختم ہو چکی، مگر اب اس سزا کے ختم ہونے میں کتنا وقت باقی ہے نور؟ اس کو ختم کرنے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا اتنا تو بتا دو۔
عادل کی آواز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کے وہ کیسے اپنے آپ کو روکے ہوئے ہے غصہ سے اپنی الجھن کو چھپائے ہوئے، کیسے وہ برداشت کر رہا ہے دوسری بار ریجیکٹ ہونا۔
نور: عادل یہ نہ ختم ہونے والی سزا ہے نہ میرے لیے نہ آپ کے لیے، اور میں امید کرتی ہوں کہ آپ میری ایسے ہی کیئر کرتے رہیں گے ایک دوست بن کر۔ بہت دیر بعد نور نے عادل کی طرف دیکھا تھا، جو کالا چشمہ لگائے نور کی طرف دیکھ رہا تھا۔
کچھ توقف کے بعد نور پھر سے بولنے لگی۔
نور: عادل میں نے خود سے ایک وعدہ کیا تھا، اور وہ یہ تھا کہ میرے ہاتھ میں جس شخص کے نام کی مہندی لگے گی میں تمام عمر اسی کی ہو کر رہوں گئ، عادل مجھے علی سے پیار نہیں تھا مگر میں اپنے آپ سے کیے ہوئے وعدہ کو توڑ نہیں سکتی ہوں ۔
بات مکمل کرنے کے بعد نور بنا کچھ کہے سنے گاڑی کی جانب بڑھنے لگی۔ عادل نور کو خود سے دور جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر گھلتا جا رہا تھا۔
“پیار تو خدا کی عطا ہے، جس کی ناقدری اور نا شکری کی تھی عادل نے شاید اسی وجہ سے وہ آج خالی ہاتھ تھا”۔
شادی کے پرپوزل کو سات روز گزر چکے تھے، دونوں بچوں میں سے کسی کا رویہ بھی ایسا نہیں تھا جس سے زرینہ بیگم کو کسی قسم کا شک گزرے کے ان دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی ہے۔ مگر ایک بات کا فرق تھا وہ یہ کہ نور کو اکثر بائیں بازو میں درد رہنے لگی تھی ایسے ہی ایک رات نور کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جلدی چلی گئی، عادل اب تک سونے کے لیے کمرے میں نہیں گیا تھا وہ ٹی وی دیکھ رہا تھا کے اچانک سے نور کے کمرے سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی نور کی درد ناک چیخ سنائی دی۔
چیخ کی آواز سنتے ہی زرینہ بیگم دوڑتی چلی آئی، انہوں نے جوتے بھی نہیں پہنےتھے پاؤں میں۔ چیخ میں جو سب سے زیادہ فکر کی بات تھی کہ نور نے چیختے ہوئے عادل کا نام پکارا تھا، زرینہ بیگم کو لگا تھا کہ ان کے بیٹے نے کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر دی ہو یا نور کو ستانے کے لیے اس کی چوٹی نہ کھینچ لی ہو۔ عادل کو نور کے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر زرینہ بیگم کے پاؤں من من بھاری محسوس ہونے لگے ان کا دل ڈوبا جا رہا تھا یہ سوچ سوچ کر کے اگر عادل اب جا رہا ہے تو نور نے چیخ کیوں،،،،،،
اس کیوں کے دماغ میں آتے ہی وہ ساکت ہو گئیں۔ جیسے طلسمی قوت نے انکو پتھر کا بنا دیا ہو۔
عادل نے دروازہ پر دستک دی جس کا اندر سے کوئی بھی جواب نہ آیا، ۔ اب کی بار عادل نے لاک پر اس قدر زور سے کک کی کہ دروازہ کھل گیا اور عادل بجلی کی سی تیزی سے اندر داخل ہو گیا ۔
کمرے کا منظر کچھ ایسا تھا کے عادل کو خود کی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کے اندر سے ایسی خواہش جنم لے رہی تھی کہ کاش یہ سب کچھ خواب ہو لیکن ایسا نہیں تھا سچ وہی تھا جو آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔
نور بیڈ کے پاس زمین پر اوندھے منہ گر گئی تھی جس سے نور کا سر بیڈ کے کنارے سے جا لگا تھا اور بہت سا خون بہ رہا تھا اور نور ک ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا تھا جو گرنے کی وجہ سے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اور سر کے پاس تھا جہاں سے خون بہ رہا تھا۔ عادل نے اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور فوراً نور کے سر کے زخم کو اپنے رومال کی مدد سے باندھ دیا، نور کی سانسیں مدھم ہوتی جا رہیں تھی۔اتنے میں زرینہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں اور یہ منظر دیکھ کر تو جیسے ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ دیوار کا سہارا لیے وہیں بیٹھ گئیں ان کے منہ سے بس اتنی بات نکلی،
زرینہ بیگم: عادل یہ تم نے کیا کر دیا تم نے نور کو مار ڈالا۔
عادل جو اس وقت بپھرا ہوا شیر لگ رہا تھا، اس نے پلٹ کر ماں کو دیکھا اور سر جھٹک کر آنکھوں ہی آنکھوں میں جیسے کہ رہا تھا ماں میں نے کچھ نہیں کیا، اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا تھا وہ نہ جانے کیسے ہمت کر کے اٹھا نور کو گاڑی تک لایا ماں کو ساتھ لے کر اسپتال کی جانب بڑھنے لگا۔ ایمرجینسی میں نور کو لے جایا گیا جہاں نور کے سر کے زخم کو سب سے پہلے بند کیا گیا تاکہ خون بہنا بند ہو جائے اس کے بعد نور کو آبزرویشن میں رکھا گیا تھا۔ نور کو بے حوش ہوئے چار گھنٹے گزر چکے تھے۔ عادل بت بنا، آئی۔سی۔یو کے باہر بیٹھا تھا۔ ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ اصل وجہ نور کا ہارٹ اٹیک ہے دعا کریں وہہ ہوش میں آجائیں۔
عادل اس سب کے لیے خود کو قصور وار سمجھ رہا تھا،وہ یہ بات ماں سے بھی نہیں کر سکتا تھا،سوچ سوچ کر عادل کا دماغ شل ہونے لگا تھا۔ زرینہ بیگم مسلسل دعائیں مانگ رہی تھیں کینیڈا سے بڑے ماموں اور چھوٹے ماموں دونوں آنے لگے تھے ان کی فلائیٹ میں کچھ ہی دیر تھی۔
چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے لیکن نور کو اب تک ہوش نہیں آیا تھا، نور کے والد اور چچا دونوں ہی پہنچ چکے تھے اور اسپتال میں ہی موجود تھے، زرینہ بیگم کو گھر بھیج دیا گیا تھا ۔
یاور ملک نے عادل کو گھر بھیجنے کی بہت کوششیں کی مگر وہ ناکام رہے، عادل نور کے بیڈ کے پاس زمین پر ہی بیٹھا تھا وہ کمرے سے جانے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔ خاور ملک جن کے غصہ اور سخت مزاج سے لوگ کانپ جایا کرتے تھے آج وہ بھی کسی سوکھے پیڑ کے پتوں کی طرح خزاں رسیدہ دیکھائی دے رہے تھے، جیسے ایک ہی دن میں وہ بوڑھے ہو گئے تھے۔
عادل کی آنکھیں مسلسل جاگتے رہنے کی وجہ سے انگاروں کی مانند لال ہو رہی تھیں۔ اور لگتار ایک ہی بات کو سوچ سوچ کر سر درد کر رہا تھا۔
ماموں کے بار بار کہنے کے بعد عادل فریش ہونے کے لیے واش روم چلا گیا۔ جب وہ واپس آرہا تھا تو نہ جانے کیوں اس کا دل ڈوبنے لگا وہ تیزی سے بھاگتا ہوا واپس آئے لیکن یہ کیا،،،،،، نورررررررررررر عاادل کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی وہ اپنے آپ پر کنٹرول کھو بیٹھا تھا۔
نور جا چکی تھی، اب کی بار ہمیشہ کے لیے چلی گئی تھی۔ عادل نے آج سچ مچ ایک انمول ہیرا کھو دیا تھا ۔ وہ ایک بار پھر ہار گیا تھا۔
نور کا چہرہ ڈھانپ دیا گیا تھا، اس سے کون کیا بات کر رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ کب گھر آئے کب سب انتظامات کیے گئے اس کی عادل کو کچھ خبر نہیں تھی۔
نور کے جنازے کے ساتھ جیسے عادل کے اندر کے انسان کا بھی جنازہ اٹھا لیا گیا تھا۔
جو نوٹ نور نے لکھا وہ عادل نے نور کو دفن کرنے کے بعد پڑھا، جو خون لگنے سے سرخ ہو گیا تھا عادل نے اسے سنبھال لیا تھا ۔
“عادل میں صبح ازل سے تمھاری تھی شام ابد تک تمھاری رہوں گی ، مگر میں تم سے شادی کر کے خود سے کیا وعدہ نہیں توڑ سکتی تھی،میں اس سے بے وفائی نہیں کر سکتی تھی جس کے نام کی مہندی میرے ہاتھوں میں لگی تھی” آپکی پاگل لڑکی۔۔۔۔۔۔
“کبھی کبھی مائیں بھی ہار جاتی ہیں قسمت کے لکھے ہوئے کے آگے ان کے لگائے ہوئے کالے ٹکے بھی ہماری خوشیوں کو نظر بد لگنے سے نہیں بچا سکتے۔
یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ انسان کو دوسری بار بھی موقع ملے اپنی کی ہوئی غلطی کو درست کرنے کا۔ پیار اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عطا ہے یہ ہر کسی کو نہیں ہوتا اور جس کو ہو جاتا اس کی جان تک لے لیتا ہے۔ جان نہ بھی لے تو اندر کے انسان کو جیتے جی راکھ کا ڈھیربنا دیتا ہے”۔
نور کے جانے کے بعد عادل نے شادی نہیں کی، اب وعدہ وفا کرنے کی باری عادل کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔THE END۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔