سلامت پرانا مَے خوار تھا۔
اس کا کوئی گھر نہیں تھا، کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گویا وہ پیدا ہی مَے خانے میں ہوا تھا —پلا بڑھا بھی یہیں تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی مَے خانے سے نکلتے ہوئے اس کا سامنا عمومی طور پر نوجوان واعظ عمر سے ہو جاتا تھا۔ عمر اس وقت مسجد سے نماز پڑھا کر نکلتا تھا۔
اس نوجوان واعظ کو آئے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ وہ پہلے واعظ عبدللہ کی وفات کے بعد یہاں تعینات کیا گیا تھا۔
واعظ سلامت کو مسکراہٹ بھرا سلام کرتا اور خاموشی سے آگے نکل جاتا۔
سلامت اس پر طنز کرنے سے کبھی باز نہیں آتا تھا، ’’جو شراب میں سرور ہے، وہ تیری باتوں میں کہاں؟ — یہ غموں کو نچوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ تیری باتیں ڈراتی ہیں۔ جہنم کے ڈرائونے منظر دکھاتی ہیں—‘‘
نوجوان واعظ ہمیشہ اس کی باتوں کو خوش دلی سے نظر انداز کر کے گزر جایا کرتا تھا۔
سلامت اس کے ردعمل کو نہ سمجھتے ہوئے اکثر سوچا کرتا تھا، ’’یہ کیسا واعظ ہے؟ یہ نہ مجھ سے نفرت کرتا ہے نہ میری شراب سے۔‘‘
بستی کے لوگوں میں بھی اس نوجوان واعظ کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں، ’’بزرگ واعظ عبداللہ کی موجودگی میں تو کسی مے کش اور بدکار کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس کے سامنے آئے۔ سارے ہی اس کو دیکھتے ہی نظر بچا کر رفوچکر ہو جایا کرتے تھے۔ اس کا خاصا رعب و دبدبہ تھا۔ ‘‘
عبداللہ کی وفات کے بعد جب سے یہ نوجوان واعظ یہاں آیاتھا، پینے پلانے والوں اور لنڈوروں کی دیدہ دلیری میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ایک شخص نے کہا، ’’یہ کیسا واعظ ہے جو ان پینے والے لونڈوں لپاڑوں کی سرزنش ہی نہیں کرتا۔‘‘
ایک نوجوان تفکر آمیز لہجے میں بولا، ’’اگر بدکاروں کی یہی دیدہ دلیری رہی تو ایک دن ساری بستی برائیوں سے بھر جائے گی— ہر کوئی پینے اور شغل کرنے لگے گا۔ پھر اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں روک سکے گا۔‘‘
ایک اور آواز اُبھری ،’’ہمیں اس نوجوان واعظ کو منصب سے ہٹانے کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔ مجھے تو یہ خود بدکاروں کا ساتھی لگتا ہے۔‘‘
شمس الدین، جو بستی کا معمر ترین شخص تھا، بولا، ’’یہ برائی اور بدکاری اچانک سے تو پیدا نہیں ہوئی۔ پہلے سے موجود چلی آ رہی ہے— یہ پینے والے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ ہاں ! میں مانتا ہوں کہ واعظ عبداللہ کی موجودگی میں کسی بدکار کو سامنے آنے کی جرات نہیں ہوتی تھی لیکن دیواروں کے پیچھے تو یہ برائی موجود تھی—ختم نہیں ہوئی تھی۔‘‘
بزرگ نے سوالیہ انداز میں اس جوشیلے نوجوان سے پوچھا، ’’مجھے بتائو! عبداللہ کی سختی نے اس برائی کو ختم کر دیا تھا؟‘‘
نوجوان نے جواب دیا، ’’میں مانتا ہوں کہ وہ برائی کو ختم نہیں کر سکا تھا لیکن اس نے کم از کم ان کو لگام تو ڈال رکھی تھی۔ ان کی یہ مجال تو نہیں تھی کہ اس کے سامنے سے گزرتے۔‘‘
بزرگ نے فلسفیانہ انداز میں کہا، ’’خوف اور سختی سے برائی وقتی طور پر تو رک سکتی ہے لیکن ختم نہیں ہو سکتی۔ خوف برائی کو دیواروں کے پیچھے دھکیل سکتا ہے لیکن جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتا۔ بیٹا! برائی کو دلیل سےشکست دی جاسکتی ہے، طاقت سے نہیں۔‘‘
نوجوان نے استہزائیہ انداز میں قہقہہ لگایا، ’’ اگر دلیل سے برائی رکتی تو یہ نوجوان واعظ ابھی تک کامیاب ہو چکا ہوتا اور مے کش بازاروں میں اس طرح گریبان کھول کر دندناتے نہ پھر رہے ہوتے۔‘‘
بزرگ بولا، ’’بیٹا! تم جوانی کے جوش میں ایسی باتیں کر رہے ہو۔ دلیل زیادہ وقت ضرور لیتی ہے لیکن ازلی کامیابی اسی کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ جبکہ خوف اور تشدد صرف وقتی کامیابی دیتے ہیں—دیکھنا! یہ نوجوان واعظ ایک نہ ایک دن اس برائی کو ختم کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔‘‘
نوجوان اور بزرگ کی بحث سننے کیلئے کافی سارے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ سبھی دونوں کے درمیان ہونے والی باتوں کو غور اور دلچسپی سے سن رہے تھے۔
پھر اور لوگ بھی آہستہ آہستہ گفتگو میں شامل ہونے لگے— کچھ نوجوان کے طرف دار بن گئے تو کسی کو بزرگ کی دانش مندانہ باتیں متاثر کر رہی تھیں۔
نوجوان زچ ہو کر بولا، ’’بابا ! تم نیکی اور بدی کے فلسفے کی آڑ میں نوجوان واعظ کی ناجائز حمایت کر رہے ہو۔ مجھے تو تم اس کے ایجنٹ لگتے ہو۔‘‘
بزرگ نوجوان کی بات سن کر ایک دم غصے میں آ گیا۔
’’تم کمال الدین کے بیٹے جلال الدین ہی ہو نا؟‘‘
نوجوان نے اثبات میں سر ہلایا، ’’جی! ٹھیک پہچانے ہیں آپ مجھے!‘‘
بزرگ بولا، ’’بیٹا! میں تمہیں اور تمہارے ان دو نوجوان ساتھیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میری زندگی بستی کی انہی گلیوں میں گھومتے پھرتے گزری ہے۔ میں تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی پارسائی کی اصل حقیقت سے بھی پوری طرح واقف ہوں۔ رات کے اندھیروں میں تم لو گ جو گل کھلاتے ہو، مجھے پتہ ہے۔ لیکن چونکہ تم امیر ہو، تمہارے گھروں کی دیواریں اونچی ہیں، اس لیے تمہیں کوئی آسانی سے دیکھ نہیں سکتا۔‘‘
بزرگ غصے سے تھوک نگلتے ہوئے بولا، ’’یہی تو منافقت ہے ہمارے معاشرے کی۔ برے لوگ بھی دنیا داری کیلئے پارسائی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔‘‘
یہ باتیں سن کر نوجوان غصے میں آ گیا، ’’تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر انگلی اٹھائو؟— بڑے آئے پارسا— بے غیرت انسان— بابا کہہ کر بلا رہا ہوں تو اوقات سے ہی نکل گئے ۔‘‘
نوجوان اور اس کے ساتھی ایک دم آگے بڑھے اور انہوں نے بزرگ کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔ ایک نے تو حد کر دی۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو، دو تین تھپڑ بھی بوڑھے چہرے پر جڑ دیے۔
بزرگ نوجوان ہاتھوں کی ضربیں کہاں برداشت کر سکتا تھا۔ وہ لڑکھڑا کر منہ کے بل گر گیا۔ اس کے منہ سے خون بہنے لگا۔
لوگوں نے بھاگ کر بیچ بچائو کرایا اور بزرگ کی جان ان لونڈوں سے چھڑائی— لوگوں کی اکثریت اگر چہ بزرگ کی باتوں سے متاثر تھی، بابا جی کو حق بجانب سمجھ رہی تھی، مگر بھرے مجمع میں سے کوئی بھی بزرگ کی مدد کو نہ بڑھا تھا۔ گویا سبھی لوگ اس نوجوان کے باپ کمال الدین کی امارت اور اثرو رسوخ سے ڈرے ہوئے تھے— یہی تو وہ منافقت تھی جس کا ذکر بزرگ کر رہا تھا۔
شمس الدین زمین سے اٹھا اور یہ کہتے ہوئے چل دیا ، ’’جب دلیل ختم ہو جائے تو پھر بندہ لڑائی جھگڑے پر اُتر آتا ہے۔‘‘
نوجوان واعظ کے کانوں میں لوگوں کی چہ مگوئیاں تواتر سے پہنچتی رہتی تھیں لیکن وہ سب سے بے پروا اپنے کام میں مگن تھا۔ وہ ارد گرد دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔ نیک لوگوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا لیکن وہ برائی اور برے لوگوں کی صحبت کو بھی برا خیال نہیں کرتا تھا۔ ان سے نفرت نہیں کرتا تھا۔
اس بستی، اور اطراف کی ملحقہ چند بستیوں پر مشتمل اس راجواڑی کا نظام راجہ اور اس کے درباری مل کر چلا رہے تھے۔ راجہ انصاف پسند تھا۔ اچھا منتظم تھا۔ اس نے اپنے ارد گرد سمجھ دار اور امورِ حکمرانی کو بخوبی سمجھنے والے لوگ جمع کر رکھے تھے۔ راجواڑی میں واعظ کا تقرر بھی راجہ کی طرف سے کیا جاتا تھا۔ واعظ کو بہت سے اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ ان اختیارات کے سبب واعظ کے عہدے کوبہت اہم عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ عموماً نئے واعظ کا تقرر پیش رو واعظ ہی اپنی زندگی میں کر دیا کرتا تھا۔ عمومی طور پر راجہ واعظ کے تقرر پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرتا تھا۔
راجہ کی طرف سے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ ریاست میں اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری راجواڑی کے واعظ پر عائد ہوتی ہے۔
رہنے سہنے، میل جول، لین دین اور خوشی غمی کے اخلاقی اصول اور نیکی اور بدی کا تعین واعظ ہی کیا کرتا تھا۔
راجواڑی میں مرکزی واعظ کے عہدے کی اہمیت راجہ کے برابر گنی جاتی تھی۔ یہاں تعینات ہونے والے واعظوں کی ایک اپنی تاریخ تھی— کوئی واعظ بہت زیادہ سخت تھا تو کوئی نسبتاً کم سخت— کوئی رعایت دینے کا قائل تھا تو کسی کے ہاں رعایت کا بالکل تصور ہی نہیں پایا جاتا تھا۔
اگرچہ ہر واعظ نے عوام کے لیے نیکی اوربدی کا معیار بہت سخت رکھا ہوا تھا لیکن راجہ اور اس کے خاص درباری ان اخلاقی اصولوں سے ایک طرح سے بری الذمہ اور مستثنیٰ تھے۔
تاریخ میں کچھ واعظ ایسے بھی گزرے تھے جنہوں نے راجہ اور اس کے خاص حواریوں کو اخلاقی دائرے میں پابند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے یا جزوی طور پر انہیں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔
راجہ اور واعظ کے تصادم کے نتیجے میں یا تو راجہ اپنے تخت سے محروم ہوا یا واعظ کو راجواڑی سے بے نیل ِ مرام نکلنا پڑا تھا۔ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ راجہ اور واعظ دونوں کو ہی اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونا پڑا —
بعد میں آنے والے واعظوں نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا تھا ۔ وہ اپنے دائرہ ءِ اختیار کو بخوبی سمجھتے ہوئے راجہ اور اس کے درباریوں کے معاملات میں نہ تو دخل دیتے تھے اور نہ کبھی ان پر عمومی اخلاقی قوانین عائد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
راجہ اور امرا کے علاوہ عام لوگوں کے لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کبھی کبھی تو کوئی سزا پانے والاشرابی یا بدکار جھنجھلا کر پکار اٹھتا تھا، ’’یہ کیسا انصاف ہے؟ درباری اور امرا ہر وقت نشے میں مدہوش رہتے ہیں، ان کے جو جی میں آتا ہے وہ کرتے ہیں، مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا جبکہ ہمیں چند گھونٹ پینے کے جرم میں اتنی بڑی سزا سنا دی جاتی ہے۔‘‘
ایسی باغیانہ آواز اُٹھانے والوں کی سزا میں اضافہ کر دیا جاتا تھا۔
سزا بڑھ جانے کے ڈر سے آہستہ آہستہ یہ باغیانہ صدائیں دم توڑ گئی تھیں۔
تاریخ میں جتنے بھی واعظ گزرے تھے، ان میں مے کشوں اور بدکاروں کے لیے سب سے سخت دور ’’واعظ عبداللہ‘‘ کا دورِ تعیناتی تھا۔
عبداللہ کو برائی اور برے لوگوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ ایک نیک نام اور پرہیز گار خاندان میں پیدا ہوا تھا— اس کا باپ بستی کا سب سے زیادہ پرہیز گار انسان تھا۔ عبداللہ نے برائی کبھی دیکھی نہیں تھی۔ اس لیے وہ برائی اور برے لوگوں کی نفسیات سے یکسر ناآشنا تھا۔ وہ برائی کے وجود کو سرے سے مٹا دینے کا قائل تھا۔
اگر کوئی برائی کے جواز میں اپنی کوئی مجبوری یا لاعلمی پیش کرتا تو عبداللہ اس کی سزا میں اضافہ کر دیتا اور غصے سے کہتا، ’’برائی کا جواز گھڑنا اور یہ کہنا کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا، برائی سے بھی بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا الگ ہے۔‘‘
عبداللہ یہ بھی کہتا تھا، ’’خدا نے اجر، ثواب اور جنت نیکی کے صلے میں رکھی ہے۔ خدا کے نظام میں برائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
ایک دفعہ اس نے بزرگ شمس الدین کو مے کش سلامت کے ساتھ دیکھ لیا اور اس بات پر اسے کوڑوں کی سزا سنا دی۔ حالانکہ شمس الدین کی پرہیز گاری اور شرافت پوری بستی میں مثال کا درجہ رکھتی تھی۔
عبداللہ نے اپنی زندگی میں ہی نوجوان عمر کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ ماضی میں واعظ کے عہدے پر بزرگ ہی فائز ہوتے چلے آ ئے تھے۔ عمر پہلا واعظ تھا جو جوان العمر تھا۔
عمر کےعہدہ سنبھالتے ہی خوف سے کونوں کھدروں میں چھپی برائی اچانک باہر آ گئی تھی۔ وہ عبداللہ کی طرح سختی کرنے کی بجائے دلیل سے کام لے رہا تھا۔ لیکن اتنے عرصے سے سختی کے قائل لوگ دلیل سننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھے۔
وہ پھر بھی نہ تو مایوس ہوا تھا اور نہ ہی پریشان— اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مہربان اور دلآویز مسکراہٹ رہتی تھی —وہ بڑے عزم سے کہا کرتا تھا، ’’آخری فتح دلیل کی ہو گی۔‘‘
ان حالات کو دیکھ کر بستی کے اکثر لوگ کہنے لگے تھے، ’’واعظ کا کام تو برائیوں کو روکنا ہے — واعظ برائی کو نہ روک سکے تو اسے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘
اس مخالفت میں پیش پیش وہی نوجوان جلال الدین تھا جس سے بزرگ شمس الدین کی لڑائی بھی ہو ئی تھی۔ نوجوان واعظ بستی میں سب سے زیادہ اعتماد اسی معمر شخص شمس الدین پر ہی کرتا تھا اور اکثر اس کے ساتھ نظر آتا تھا۔
بستی کے لوگ واعظ عمر کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ اس کے ماضی پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ وہ کہاں سے آیا تھا، اس کا واعظ عبداللہ سے کیا تعلق تھا، ان باتوں کا صرف شمس الدین کو ہی علم تھا۔
واعظ عمر جس گھرانے میں پیدا ہوا تھا، وہاں نیکی کا تصور ہی سرے سے ناپید تھا۔ اس کے باپ میں دنیا کی ہر برائی موجود تھی۔ وہ چور، ڈاکو، زانی اور شرابی تھا۔ اسے اپنے بیٹے سے کوئی غرض نہیں تھی اور نہ ہی وہ اس کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجہ دیا کرتا تھا۔
باپ کے برعکس والدہ نیک اور پارسا خاتون تھی۔ وہ اپنے بیٹے کیلئے ہر وقت پریشان رہتی تھی۔ وہ اسے نیک اور اچھا انسان بنانا چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عمر کے باپ کی مرضی کے خلاف اس کی ماں نے اُسے ایک مکتب میں داخل کرا دیا تھا۔
مکتب میں جانے کے باوجود اس پر باپ کا اثر غالب رہا تھا اور وہ بھی شباب کی عمر کو پہنچتے ہی زنا اور شراب کا رسیا ہو گیا تھا۔ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کیلئے پہلے وہ ماں اور باپ سے حیلوں بہانوں سے رقم اینٹھتا رہا پھر چوری چکاری جیسے مکروہ دھندے سے منسلک ہو گیا۔
نوجوان واعظ عمر برائیوں میں اپنے باپ سے چار قدم آگے نکل چکا تھا۔ انتہا پر پہنچ کر اچانک اسے برائی سے نفرت ہو گئی — وہ پارسا زندگی کی طرف ایسا لوٹا کہ اس جیسا پارسا اور نیکی پسند شخص معاشرے میں کوئی اور نہ رہا تھا۔
ایک دن اس نے شمس الدین سے کہا، ’’برائی ایک جسم کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ دیکھ سکتی ہے۔ اس کے کان ہوتے ہیں۔ وہ سن سکتی ہے۔ اس کی اپنی ناک ہوتی ہے۔ وہ سونگھ سکتی ہے۔ الغرض اس کی تمام حسیات ہوتی ہیں۔ وہ محسوس کر سکتی ہے۔ برائی کا جسم انتہائی کریہہ، غلیظ، گندہ اور بدبودار ہوتا ہے لیکن یہ اپنے آپ کو چھپانے کے لیے نت نئے خوب سے خوب تر لباس اوڑھتی رہتی ہے— انسان اس کے چمک دار ملبوسات سے دھوکہ کھا کر اس کے فریب میں آ جاتا ہے۔ میں نے برائی کی انتہا پر پہنچ کر اس کا لباس تار تار کر کے، اس کی گندگی کو اندر تک جھانک کر دیکھ لیا تھا۔ اس لیے میں نے اچانک واپسی کا راستہ پکڑا اور جہاں سے چلا تھا، وہیں آ کر رُک گیا۔‘‘
باتیں کرتے ہوئے اس پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ شاید وہ ماضی میں کہیں کھو گیا تھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے سلسلہءِ کلام جوڑا، ’’برائی کی انتہا پر پہنچ کر جو پارسائی اختیار کرتا ہے ، پھر اس جیسا پارسا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ انتہا کے بعد بندہ آگے نہیں جا سکتا— آگےبند گلی ہے۔ بندگلی سے الٹے پیروں بھاگ کر نکلنا پڑتا ہے۔ جو نکلنے میں کامیاب ہو گیا، وہ بچ گیا اور جو الجھ گیا، وہ غرق ہو گیا۔‘‘
شمس الدین اس کی باتوں سے بہت متاثر تھا۔ وہ بولا، ’’برائی کی دلدل میں دھنسنے والے پھر نکل ہی نہیں پاتے۔ لیکن جس طرح تم نے اپنے آپ کو برائی کی اس اتھاہ دلدل سے نکالا ہے، اس پر میں تمہاری ہمت اور قوتِ ارادی کو سلام کرتا ہوں۔‘‘
واعظ کے لبوں پر ایک ہلکا سا تبسم ہویدا ہوا اور وہ گویا ہوا، ’’میں نے برائی کا ہر رنگ دیکھ لیا تھا۔ اور کوئی رنگ بچا ہی نہیں تھا جس کو دیکھنے کی طلب رہتی۔ اس لیے میرے لیے برائی میں بالکل ہی کشش ختم ہو گئی تھی۔‘‘
واعظ کا رویہ ہر ایک سے انتہائی مشفقانہ تھا۔ وہ جس تبسم اور انکساری سے پارسائوں سے ملتا تھا، اسی تبسم اور خوش اخلاقی سے مے کشوں، بدکاروں اور بھٹکے ہوئوں کو بھی ملتا تھا۔
شمس الدین نے یہی سوال واعظ سے کیا، ’’آپ بدکاروں کو سرزنش نہیں کرتے۔ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ خواہ کوئی بدکار ہو یا پارسا۔ پھر برائی کا خاتمہ کیسے ہو گا؟‘‘
وہ مسکرایا، ’’میں خالق سے محبت کرتا ہوں۔ خالق کی ہر تخلیق سے محبت کرتا ہوں۔ برائی بھی خدا نے پیدا کی ہے اور اچھائی بھی اسی کی تخلیق ہے۔ ہر انسان چاہے برا ہو یا بھلا، خدائے بزرگ و برتر کی تخلیق ہی ہے۔ ہے نا؟‘‘
شمس الدین سوچ میں پڑ گیا تھا۔ شاید وہ اس کے جواب سے مطمئن نہیں تھا۔
واعظ اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولا، ’’خدا کوئی بھی چیز بلاضرورت پیدا نہیں کرتا۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی افادیت ہوتی ہے۔ جب تک برائی نہ ہو، نیکی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اندھیرا ہے تو رو شنی کی اہمیت ہے۔ بدکار نہ ہو تو لوگ پارسا کو کیسے پہچانیں گے؟ نیکی اور بدی ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ پھر بدی سے نفرت کیسی؟ بدکار سے نفرت کیوں؟‘‘
شمس الدین اس کی بات کو پوری طرح سمجھ گیا تھا۔
ایک طر ف واعظ اپنے کام میں لگا ہوا تھا اور دوسری طرف نوجوان جلال الدین اپنے کام میں مگن تھا۔ وہ لوگوں کو واعظ کے خلاف اکسا رہا تھا، ’’واعظ کو برائی ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ میخواروں کا ساتھی بنا ہوا ہے۔‘‘
وہ یہ بھی کہتا تھا، ’’لوگو! تم نے کبھی واعظ کو دیکھا ہے کہ اس نے کسی بادہ خوار کی سرزنش کی ہو؟ کسی کو سزا دی ہو؟‘‘
بزرگ شمس الدین کو واعظ سے دلی ہمدردی اور محبت تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن بستی سے برائیوں کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکے گا۔
وہ لوگوں کی باتیں سن کر پریشان ہو جاتا تھا۔ ایک دن اس نے یہی سوال واعظ سے کیا، ’’میں نے آپ کو کسی بدکار کو نصیحت کرتے نہیں دیکھا۔ میں خود یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ تم بستی سے برائی ختم کرنے میں کیسے کامیاب ہو گے؟‘‘
واعظ عمر مسکرایا۔ بولا، ’’برے کو لوگوں کے سامنے نصیحت کرنا اور ٹوکنا اچھا اثر لانے کی بجائے ردعمل لاتا ہے۔ یہ عمل اس کے لیے گالی بن جاتا ہے۔ وہ برہم ہو کر باغیانہ انداز اپنا لیتا ہے۔ میں برے لوگوں کو رات کے اندھیرے میں، تنہائی میں، چھپ کر نصیحت کرتا ہوں۔ اسے لوگوں میں شرمسار نہیں کرتا— اس کا بہت اچھا نتیجہ برآمد ہو رہا ہے۔ بہت سارے لوگ آہستہ آہستہ نیکی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔‘‘
واعظ عمر کی محنت رنگ لارہی تھی۔ لوگ آہستہ آہستہ واقعتاً نیکی کی طرف ملتف ہو رہے تھے اور برائی سے کنارہ کشی اختیار کر رہے تھے۔ برائی خوف سے دیواروں کے پیچھے دبکی ہوئی نہیں تھی بلکہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ختم ہو رہی تھی۔ بستی میں چند ہی بادہ خوار رہ گئے تھے۔
شمس الدین کی خوشی اس کے چہرے سے ہویدا تھی۔ وہ واعظ کی کامیابی پر بے تحاشا خوشی اور مسرت محسوس کر رہا تھا۔
دوسری طرف نوجوان جلال الدین حسدکی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ نوجوان واعظ کی کامیابی کو محسوس کر رہا تھا اور اسے کامیابی سے باز رکھنے کیلئے اپنے تئیں ہر کوشش کر رہا تھا۔
اس نے واعظ کو بدنام کرنے کی انوکھی ترکیب سوچی۔ اس نے اپنی ایک شناسا فاحشہ عورت کو یہ سمجھا کر واعظ کے گھر بھیجا ،’’وہاں جا کر شور مچائو کہ واعظ نے میری عزت لوٹ لی ہے— میں وہاں لوگوں کو لے کر فوری طور پر پہنچ جائوں گا۔‘‘
فاحشہ عورت جو واعظ کی نصیحت سے نیکی کی طرف لوٹ رہی تھی، نے واعظ کو جا کر ساری بات بتا دی۔ واعظ پھر بھی غصے میں آنے کے بجائے مسکرا دیا، ’’اللہ جلد ہی اس کوراہِ مستقیم پر لے آئے گا۔‘‘
ایک دن شمس الدین نے اس سے کہا، ’’عمر! آپ کو نوجوان جلال الدین نے بہت دکھ دیے ہیں۔ بہت تنگ کیا ہے۔ آپ کو بدنام کرنے کی بہت کوششیں کی ہیں حالانکہ وہ اور اس کے ساتھی رات کے اندھیرے میں اپنی بڑی حویلی میں شراب و شباب کی محفلیں منعقد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
شمس الدین کی آنکھوں میں نوجوان اور اس کے ساتھیوں کے لیے شدید نفرت موجزن تھی۔ اس نفرت کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
اس نے واعظ سے کہا، ’’کسی رات اس کی حویلی میں چل کر اسے رنگے ہاتھوں پکڑتے ہیں اور سزا دیتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟‘‘
واعظ اس کی بات سن کر مسکرا رہا تھا۔ جب شمس الدین نے اصرار کیا تو اس نے رات کے اندھیرے میں جلال الدین کی حویلی پر جانے کی حامی بھر لی۔
ایک رات وہ اور شمس الدین اندھیرے میں جلال الدین کی حویلی پہنچے۔ حویلی بستی سے کچھ فاصلے پر واقع تھی۔ واعظ اور شمس الدین نے دیکھا کہ حویلی کے دالان میں شراب و شباب کی محفل اپنے پورے جوبن پر تھی۔ نوجوان، واعظ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا اور غصے سے بولا، ’’آخر کار تم انتقام لینے میری حویلی تک آ ہی گئے ہو۔ آئو، مجھے اور میرے ساتھیوں کو کوڑے مارو۔ دُرے مارو۔ جو دل میں آئے وہ سزا دو— اپنے کلیجے میں انتقام کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر لو۔‘‘
واعظ اس کی باتوں سے طیش میں بالکل نہیں آیا بلکہ اس کے لبوں پر ہمیشہ فروزاں رہنے والی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ دل آویز اور مہربان مسکراہٹ۔
وہ بولا، ’’جلال الدین! میں انتقام لینے نہیں آیا۔ انتقام بھی برائی ہے۔ میں نے انتقام لینا ہوتا تو کب کا لے چکا ہوتا۔ میں تو تمہیں سچائی کے راستے پر لے جانے کے لیے یہاں آیا ہوں۔ میں تو تمہیں صرف اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا چاہتا ہوں۔‘‘
جلال الدین کو اس کی باتوں اور مہربان رویے پر یقین نہیں آ رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں سچائی دیکھ کر وہ اندر سے پگھلنے لگا تھا۔
وہ اچانک واعظ کے پیروں میں گر گیا اور گڑگڑاتے ہوئے بولا، ’’مجھے معاف کر دو واعظ— میں تمہیں سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔ تم وہ نہیں جو مجھے نظر آتے تھے۔ تم وہ ہو جو مجھے نظر نہیں آتے تھے۔ آج سے میں ہر برائی سے توبہ کر کے اس راستے پر چلنے کا وعدہ کرتا ہوں جس راستے پر تم چل رہے ہو۔‘‘
واعظ نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور نم لہجے میں اس سے مخاطب ہوا، ’’جلال الدین! معاف کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی بے نیاز اور غفور الرحیم ہے۔ وہ اپنے انسان کی توبہ کا ہر وقت انتظار کرتا ہے۔وہ کسی کی معافی کو رد نہیں کرتا— وہ تمہاری معافی کو بھی رد نہیں کرے گا۔‘‘
شمس الدین ، جو جلال الدین کو بھیانک سزا دلوانے کے لیے واعظ کو یہاں لایا تھا، اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ اس نے کوڑا ایک طرف پھینک دیا اور فرطِ جذبات سے کہا، ’’میں تو جلال الدین کو سزا دینے کے لیے انتقام کی آگ میں تڑپ رہا تھا۔ آج مجھے پتہ چلا کہ انتقام کی آگ بھی نیکیوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔‘‘
اس نے جلال الدین کو بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نیکی اور خوشی کے منور آنسو!
آہستہ آہستہ میخانہ ویران ہو رہا تھا۔ صرف سلامت اور اس کے چند اوباش ساتھی ہی رہ گئے تھے۔
ایک دن سلامت نے ازراہِ مذاق واعظ کو میخانے آنے کی دعوت دے دی۔ واعظ ہلکا سا مسکرایا اور اس کے ساتھ ہو لیا۔
سلامت کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹنے کو آ گئیں— کہاں واعظ اور کہاں میخانے کا راستہ —
وہ دونوں میخانے پہنچ گئے۔ دو تین بادہ خوار — ایک پر شباب ساقی کے ساتھ سلامت کے منتظر تھے۔ اس کے ساتھ واعظ کو دیکھ کر ان کی حالت غیر ہونے لگی۔
سلامت ادب کی ساری حدیں پار کر چکا تھا۔ وہ آج ہر صورت واعظ کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ اس نے ساقی کے ہاتھ سے ایک بلوریں جام پکڑا اور واعظ کو بڑے ادب و احترام سے پیش کر دیا۔ صاف عیاں تھا کہ اس کا مصنوعی ادب اس کے اندر کی خباثت کا آئینہ دار تھا۔
واعظ نے اس کا ہاتھ نہ جھٹکا نہ خالی لوٹایا بلکہ جام پکڑ لیا۔ کچھ سوچا پھر منہ میں کچھ پڑھ کر جام لبوں سے لگا لیا۔ ایک گھونٹ بھرا۔ پھر حیرت سے دیدے پھیلائے کھڑے سلامت سے مخاطب ہوا، ’’چونکہ خاصا بے ذائقہ اور تلخ ہے، اس لیے بس ایک گھونٹ — ورنہ اور بھی پی لیتا۔ بہت شکریہ!‘‘
سلامت اور اس کے ساتھیوں کے منہ سے کچھ پھوٹ نہیں رہا تھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا، ’’تم کیسے واعظ ہو؟ میخانے میں بھی آگئے ہو، شراب بھی پی لی اور تمہیں کوئی دکھ ملامت بھی نہیں ہے۔‘‘
وہ حسبِ عادت مسکرایا، ’’سلامت! شراب پینا بہت بڑا گناہ ہے۔ لیکن کسی کا دل توڑنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے— میں نے آج تمہارا دل ٹوٹنے سے بچانے کے لیے شراب پینے کا کڑوا اور بدذائقہ گناہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔‘‘
سلامت چند لمحے واعظ کو دیکھتا رہا۔ لہجے اور چہرے سے عیاں صداقت اور اعتماد پرکھتا رہا پھر ایک سسکی لے کر واعظ کے پیروں میں گر گیا، ’’واعظ! مجھے معاف کر دو۔ میں آج سے تمہارے راستے پر تمہارے ساتھ ہوں۔ آج تم نے مجھے خرید لیا ہے۔ مجھے گناہ اور برائی کا فلسفہ سمجھا دیا ہے۔ آج تم نے مجھے بتا دیا ہے کہ انسان کیا ہوتا ہے؟ انسانیت کیا ہوتی ہے؟ — اور گناہ کیا ہوتا ہے؟—‘‘