غذا کے لئے کیلوری کی پیمائش کے استعمال کے ساتھ کئی نقائص ہیں۔ یہ ہمیں اس بارے میں راہنمائی نہیں کرتی کہ کوئی غذا ہمارے لئے اچھی ہے یا بری۔ اور کیلوری کی روایتی پیمائش اس بات کا خیال نہیں کرتی کہ کسی خوراک کا کتنا حصہ جذب ہوتا ہے اور کتنا نکل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کئی میوے مکمل ہضم نہیں ہوتے۔ اگر آپ بادام کی 170 کیلوریز لیں تو 130 جذب ہوں گی۔
ہم غذا میں سے توانائی اخذ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اور اس کی وجہ صرف ہمارا اچھا میٹابولزم ہی نہیں بلکہ ایک اور فن ہے جو ہم نے بہت پہلے سیکھا تھا۔ کھانا پکانا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا آغاز کب سے ہوا۔ ہمارے پاس اس بات کے تو اچھے شواہد ہیں کہ ہمارے اجداد تین لاکھ سال قبل آگ کا استعمال کرتے تھے۔ اس پر کام کرنے والے محقق رچرڈ رانگھم کا کہنا ہے کہ آگ استعمال کرنے کی تاریخ کم و بیش پندرہ لاکھ سال پرانی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ بڑے قدم قدیم نیم انسان بھی ایسا کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پکانے کے بڑی فائدے ہیں۔ یہ زہر ختم کرتا ہے۔ ذائقہ بہتر کرتا ہے۔ سخت اشیا کو چبانے کے قابل بناتا ہے۔ کھانے کے قابل اشیا کا دائرہ وسیع کرتا ہے۔ اور جو ہم کھاتے ہیں، اس سے زیادہ کیلوریز اخذ کرنا ممکن کرتا ہے۔
لیکن کھانا پکانے کیلئے، آپ کو اسے اکٹھا بھی کرنا ہے۔ بڑے دماغ کو ایندھن فراہم کرنے کے لئے توانائی چاہیے۔ اس کیلئے شکار اور خوراک اکٹھا کرنی ہے۔ اس کیلئے اوزار بنانے ہیں۔ رابطے اور تعاون کرنا ہے۔ وہ سب کچھ جو قدیم سے جدید کی طرف لاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرتی ماحول میں ہم آسانی سے بھوکے مر جائیں۔ ہم زیادہ تر پودوں سے غذائیت اخذ کرنے کے قابل نہیں۔ ہم سیلولوز نہیں توڑ سکتے اور پودے زیادہ تر اسی سے بنے ہیں۔ چند ہی پودے ہیں جنہیں ہم کھا سکتے ہیں اور انہیں ہم سبزیاں کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ پھل اور بیج ہیں اور ان میں سے بہت سے ہمارے لئے زہریلے ہیں۔ لیکن اگر ہم پکا سکیں تو بہت کچھ استعمال میں لا سکتے ہیں۔ کچا آلو ہضم کرنا پکائے ہوئے آلو کے مقابلے میں بیس گنا مشکل ہے۔
پکانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس فارغ وقت زیادہ ہے۔ دوسرے پرائمیٹ اپنے دن کے سات گھنٹے تک کا وقت چبانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت ہی کھاتے رہنے کی ضرورت نہیں۔ (اگرچہ کچھ لوگ دن بھر ایسا کرتے رہتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کی خوراک کے بنیادی اجزا پانی، کاربوہائیڈریٹ، فیٹ اور پروٹین ہیں۔ ان کی شناخت دو سو سال قبل ولیم پراوٹ نے کر لی تھی۔ لیکن اس وقت بھی معلوم تھا کہ یہ غذا کی مکمل کہانی نہیں۔
اب ہم انہیں وٹامن اور منرل کے طور پر جانتے ہیں۔ وٹامن نامیاتی کیمیکل ہیں۔ جو ان چیزوں سے لئے جاتے ہیں جو کبھی زندہ تھیں، جیسا کہ پودے یا جانور۔ جبکہ منرل غیرنامیاتی ہیں۔ اور مٹی یا پانی سے آتے ہیں۔ کل ملا کر ایسے چالیس ننھے پارٹیکل ہیں جو ہمیں خوراک سے لینا ہوتے ہیں کیونکہ ہم خود انہیں نہیں بنا پاتے۔
مائیکروغذائیت کے معاملے میں سائنسدانوں کو ٹھیک سے معلوم نہیں کہ آپ کو ان کی کتنی مقدار کی ضرورت ہے یا کہ یہ کرتے بھی کیا ہیں۔ مثال کے طور پر برومین جسم کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا کوئی کام بھی ہے یا کہ یہ محض تماشائی ہے۔ آرسینک ایک اور شے ہے جو کئی جانداروں میں لازم ہے۔ یہ پتا نہیں کہ کیا انسان بھی ان میں شامل ہیں۔ کرومیم کی یقینی طور پر ضرورت ہے لیکن بہت کم مقدار میں اور یہ جلد زہریلی ہو جاتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ جسم میں کرومیم کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن کسی کو پتا نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے۔
تقریباً ہر وٹامن اور منرل میں ضرورت سے زیادہ ہونے اور ضرورت سے کم ہونے، دونوں کے خطرات ہیں۔ وٹامن اے کی بصارت کے لئے ضرورت ہے، صحتمند جلد کیلئے اور انفیکشن سے لڑنے کیلئے۔ یہ بہت کام کی شے ہے۔ اور عام خوراک میں پایا جاتا ہے جیسا کہ انڈوں یا دودھ سے بنی اشیا میں، جس کی وجہ سے اسے ضرورت سے زیادہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ اور یہ مسئلہ ہے۔ روزانہ اس کی ضرورت مردوں کو 900 مائیکروگرام اور خواتین کو 700 مائیکروگرام تجویز کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ 3000 مائیکروگرام۔ اس سے زیادہ اگر اسے باقاعدگی سے لیا جائے تو پھر اس میں خطرہ ہے۔ لیکن ہمیں کیسے اندازہ بھی ہو کہ اس کا توازن ہم ٹھیک رکھ رہے ہیں؟ اسی طرح آئرن خون کے سرخ خلیوں کی صحت کے لئے ضروری ہے۔ اگر یہ کم ہو تو انیما ہو جاتا ہے لیکن زیادہ ہونا زہریلا ہے۔ اور عجیب بات یہ کہ اس کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کی علامت ایک ہی ہیں جو کہ تھکن اور سستی ہے۔ اور اگر اسے سپلیمنٹ کی صورت میں زیادہ لے لیا جائے تو یہ ٹشو میں اکٹھا ہو کر اعضا کو زنگ لگا دیتا ہے۔ ایسا ہونا بیماریوں کے لئے سگریٹ جیسی مہلک شے سے بھی بڑا خطرہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیسن کے ایک معتبر جریدے میں 2013 میں مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ جن ممالک میں خوراک کی کمی نہیں، وہاں وٹامنز وغیرہ کی کمی بھی نہیں اور ہیلتھ سپلیمنٹ صرف پیسے کا ضیاع ہیں۔
لیکن کئی دوسرے سائنسدان اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ سنٹر فار ڈزیز کنٹرول کے مطابق وٹامن ڈی اور ای کی کمی عام ہے اور آدھی آبادی وٹامن اے بھی پوری مقدار میں نہیں لیتی اور بڑی تعداد پوٹاشیم کی کمی کا شکار ہے اور یہ انتہائی اہم عنصر ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس پر اتفاق نہیں کہ کس شے کی جسم کو ضرورت کتنی ہے۔ تاہم ایک بات جو اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ ہیلتھ سپلیمنٹ اور وٹامن کی گولیوں وغیرہ کا استعمال حد سے زیادہ ہے اور غیرمعقول ہے۔ امریکہ میں 87000 اقسام کے سپلیمنٹ دستیاب ہیں اور ان کی سالانہ چالیس ارب ڈالر کی فروخت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وٹامن کا ایک بڑا تنازعہ امریکی کیمسٹ لائنس پالنگ سے منسوب ہے۔ پالنگ نے صرف ایک نہیں بلکہ دو نوبل انعام جیتے۔ (کیمسٹری کا 1954 میں جبکہ امن کا 1962 میں)۔ پالنگ کا خیال تھا کہ وٹامن سی زیادہ مقدار میں لیا جائے تو فلو، نزلہ اور کینسر کے خلاف بھی مدافعت مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا پروسٹیٹ کینسر اس لئے قابو میں رہا ہے کہ وہ خود بہت سا وٹامن سی میں لیتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے دعووں کے حق میں شواہد نہیں تھے اور بعد میں ہونے والی تحقیقات نے ان کے دعووں کی حمایت نہیں کی۔ لیکن یہ پالنگ تھے جن کی وجہ سے آج بھی بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وٹامن سی نزلہ اور زکام کے خلاف موثر ہے۔۔۔ نہیں، ہم اسے محض پالنگ کا شروع کردہ توہم کہہ سکتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...