یہ بال و پر تو چلو آگئے نئے حیدر
بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے
۔۔ ۔۔جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے ہی دیکھا کہ اباجی کے سرپر بال نہیں تھے۔ بچپن سے ہی میری شدید خواہش رہی کہ اباجی کے سر پر بال سجے ہوئے دیکھوں۔ اس کی دو ممکنہ صورتیں تھیںیا تو کوئی ایسی دوا مل جائے جس سے بال دوبارہ اُگ آئیں یا پھر وِگ سجالی جائے۔ تب وگ خریدنے کے وسائل میسّر نہیں تھے پھر بھی میں نے ایک بار اباجی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ مسکرا کر رہ گئے۔ اور بس!۔وسائل میسّر آنے سے پہلے اباجی فوت ہوگئے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ انوکھا سا واقعہ رونما ہوا کہ دنیائے فانی سے کوچ کرنے کے بعد اباجی میرے اندر آن بسے۔ دل میں، لہومیں، روم روم میں بس گئے یہاں تک کہ میرے سر پر بھی پوری طرح نمودار ہوگئے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی ہمارا باہر بھی ہمارے اندر کا ایک حصہ ہے۔ اباجی کی محبت نے جب میرے اندر اور باہر پر پوری طرح غلبہ کرکے مجھے تصوف کے مقام فنائیت تک پہنچادیا تب میں، میں نہ رہا۔ میں نے آئینہ دیکھا تو ایسے لگا جیسے بیس برس پہلے کے اباجی کو دیکھ رہا ہوں۔ سر سے پاؤں تک وہی صورت۔ پھر میں نے مقام فنا سے مقام بقا کا رُخ اختیار کرنے کا سوچا۔ دراصل اب ہمہ وقت اباجی سے ہی ملاقات ہوتی رہتی تھی اور اپنے آپ سے ملنے کی صورت ہی نہیں بن رہی تھی۔ تب اپنے آپ سے ملنے کی خواہش نے جوش دکھایا:
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سُونا پڑا ہے
۔۔۔۔سو میں نے ایک مناسب سی وگ خریدی۔ اپنے مخصوص(مگر گمشدہ) ہیراسٹائل کے مطابق اسے برش کرکے سر پر سجالیا۔ وگ کا سر پر سجانا تھا کہ میکدے سے میری جوانی خود ہی اٹھ کر میرے پاس آگئی۔ اپنی جانب کا ویران راستہ رونقوں سے بھرگیا۔ زندگی کا میلہ سا لگ گیا مجھے احساس ہوا کہ میں بیالیس برس کی عمر میں بلاوجہ باون برس کا بنا ہوا تھا۔ وگ کے بغیر میں اپنی عمر سے کہیں آگے نکل گیاتھا۔ وگ نے مجھے میری اصل عمر عطاکردی۔ وگ پہن کے پہلے پہل آئنہ دیکھا تو ایسے لگا کہ کسی ایسے اجنبی مہمان سے مل رہاہوں جس نے میرے گھر میں آکر میرا ہی لباس زیب تن کررکھا ہے لیکن”خود کو پہچان“ والا فرمان یاد آیا تو اپنی معرفت کے مرحلے طے ہونے لگے۔ اپنے آپ سے ملاقات ہونے لگی۔
۔۔۔۔کسی سیلاب یاطوفان کے آنے کے بعد جب کوئی ہنستا بستا شہر ویران اور بربادہوجاتا ہے تب باہمت اور جرأت مند لوگ اسے از سر نو آباد کرکے پہلے سے بھی خوبصورت بنادیتے ہیں جبکہ کاہل اور نکمّے لوگ عرصہ دراز تک خیمے بناکر گزارا کرتے ہیں۔ اسی طرح وقت کا بے رحم طوفان کئی انسانی سروں پر تباہی پھیلا کر ان کی اصل صورت کو بگاڑ دیتا ہے۔ وِگ نہ صرف اسی تباہی کا تدارک کرتی ہے بلکہ انسان کو اس کی اصلی صورت بھی عطا کردیتی ہے۔ وِگ پہننے والے لوگ وہ باہمت اور جرأت مند لوگ ہیں جو وقت کی پھیلائی ہوئی تباہی سے پھر نئی تعمیر کرتے ہیں جبکہ ٹوپی پہن کر گزارہ کرنے والے لوگ خیموں میں پناہ لینے والوں جیسے ہیں۔
۔۔۔ سیاہ رات اس دنیائے موجود کے سر پر ”زُلف دراز“والی وگ ہے۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے اس زُلف پر گرے ہوئے شبنمی موتی ہیں، کہکشاں اس کی مانگ میں بھری ہوئی افشاں ہے اور چاند ایک خوبصورت سنہری کلپ۔ یہ دنیائے موجود،رات بھر کسی محبوبۂ دلنواز کی طرح اپنی زلفوں کی مہک بکھیرتی ہے لیکن دن ہوتے ہی سورج کی تپش سے گھبراکر اس وگ کو اُتار کر رکھ دیتی ہے۔ وگ میں یہ سہولت ہے کہ آپ جب چاہیں وگ پہن کر اپنی اصل صورت دیکھ لیں اور جب چاہیں وگ کو اتار کر قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ کرلیں۔
۔۔۔ ۔ہرے بھرے کھیت، باغات اور جنگلات بہار کے موسم میں خوبصورت وگیں پہن کر اپنی اصل صورت دکھاتے ہیں لیکن خزاں کسی حاسد کی طرح اُن وگوں پر طنز کرتے ہوئے آتی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان سب کی وگیں اتارتی اور اُدھیڑتی چلی جاتی ہے۔ پھر ایک شیطانی قہقہہ لگا کر کہتی ہے: یہ باغات، جنگلات اور کھیت سب جھوٹ تھے۔ ان سب نے بھیس بدل کر انسانوں کو دھوکہ دیاتھا انہیں بہار کا غلام بنانے کی سازش کی تھی۔ اب اُن کا اصلی روپ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ تمام انسان اُن کا اصلی روپ دیکھ لیںاور باربار جان لیں کہ یہ بہار ایک دھوکہ ہے۔ زندگی کی حقیقت فنا ہے۔ خزاں اسی سچائی کو پھیلانے کے لئے قدرت کی طرف سے مقرر کی گئی ہے۔ وقتی طور پر خزاں کی نحوست اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اسی دوران بہار پھر اپنے کھوئے ہوئے وقت کو واپس لانے کے لئے اندر ہی اند کام کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ جیسے ہی خزاں کی نحوست زائل ہونے لگتی ہے بہار پھر سارے کھیتوں، باغات اور جنگلات کے سروں پر ہریالی کی نئی وگیں سجادیتی ہے۔ پھولوں کا مسکرانا، پرندوں کا چہچہانا، تتلیوں کا آنا، بھنوروں کا منڈلانا۔ زندگی کا میلہ پھر سے لگ جاتا ہے۔
خزاں کے ہمنوا بعض دل جلے بھی وگ پہننے کو بھیس بدلنے یا بہروپ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن وگ پر بہروپ کا الزام بہتان ہے۔ یہ تو ایک ایسی سیدھی سادی سچائی ہے جو انسان کو اس کے اصل روپ میں پیش کرتی ہے۔ کوئی اس سچائی کو مانے نہ مانے یہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس کے برعکس بہروپ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے شیطان کو مہارت کے ساتھ چھپا کر باہر فرشتہ بناپھرے۔ مایالگی ہوئی پگڑی کا اکڑا ہوا طرّہ، تکبر کی ماری اکڑی ہوئی گردن، ریاکاری، کی لمبی داڑھی اور نفیس جبّہ۔ یہ جبّہ و دستار بہروپ ہے۔ ایسے بہروپیوں کا یہ سازوسامان اُتارلیا جائے تو نیچے سے ن۔م۔راشد کا لا=انسان برآمد ہوگا۔ جبّہ و دستار کا بہروپ تو خلقِ خدا کو گمراہ کرنے اورغلام بنانے کا ڈھونگ ہے جبکہ اس کے برعکس وِگ اس فکری آزادی کا اعلامیہ ہے جو غلامی سے نجات دلائے۔
۔۔۔۔وہ لیڈر بہروپیے ہیں جو عوام کی فلاح کے دعوے کرتے ہیں اور عملاً عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی بہروپیے ہیں جو مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے من گھڑت اور جھوٹے بیانات دیتے ہیں کہ گوئبلز کی روح بھی شرما جائے اور اپنے تمام جھوٹے بیانات کے باوجود سچائی کے علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ادب میں بھی ایسے کئی بہروپیے پائے جاتے ہیں۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپے کھا کر اسے ۲۵ہزار روپے کا انعام دلانے والے، مناسب حق الخدمت کے طور پر کسی لولے لنگڑے افسانے کو دور حاضر کا ممتاز ترین افسانہ قرار دینے والے، کمپیوٹر کے عہد کی مناسبت سے کمپیوٹر کی قیمت پر مدح سرائی کرنے والے، ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غریب مزدوروں اور کسانوں کی حمایت میں ادب لکھنے والے، اصل بہروپیے تو اس قماش کے لوگ ہیں جبکہ وِگ کیرلین پراسیس کے بیان کردہ گم شدہ حصے کی دریافت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ وِگ کا جہان بہروپیوں سے یکسر مختلف ہے۔ وِگ پر بہروپ کاالزام عائد کرنے والے حقیقتاً خود بہروپیے ہیں جو اپنے بہروپ کا بھرم قائم رکھنے کے لئے وِگ کی اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وِگ پہننا اپنے گم شدہ حصے کی بازیافت کا عمل ہے جس کے بغیر اپنی پہچان اور اپنے عرفان کے مرحلے طے نہیں ہوسکتے۔
۔۔۔۔ یہاں تک لکھنے کے بعد میں نے ایک بار پھر آئینے میں خود کو دیکھا تو مجھے ایسے لگا کہ اباجی میرے سامنے کھڑے ہیں۔ اُن کے سر پر گھنے اور خوبصورت بال سجے ہوئے ہیں جنہیں سلیقے سے سیٹ کیاگیا ہے۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ میری بچپن کی وہ آرزو پوری ہوگئی ہے کہ کبھی اباجی کے سر پر بھی بال سجے ہوئے دیکھ سکوں۔ تب ہی مجھ پر منکشف ہوا کہ اباجی میرے اندر کی طرح باہر بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے وِگ سے پہلے موجود تھے، اس فرق کے ساتھ کہ میں ان کی عمر کا جو زمانہ نہیں دیکھ سکا تھا اب مجھے وہ زمانہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ میں آئینے میں اباجی کو دیکھ کر مسکرایا تو وہ بھی مسکرادیئے۔
انکشافِ ذات کا یہ نظارہ وِگ سے سر افراز ہوئے بغیر کہاں ممکن تھا!
٭٭٭