ہم اس مضمون میں وِکٹر ہیوگو کی ایک تصنیف ‘The Last Days of the Condemned کا ذکر کرنا چاہتے ہیں، جو اس نے اپنی جلاوطنی سے پہلے پیرس میں قلم بند کی تھی۔ اس کتاب کا نفسِ مضمون معاشرتی نقطۂ نظر سے بہت اہم ہے۔
اس میں کسی کو کلام نہیں کہ یہ فرانسیسی انشا پرداز انیسویں صدی میں فطرتِ انسانی کا بہترین ماہر تھا۔ معاشرے کے پیدا کردہ عیوب اور اخلاقی تباہیوں سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اُس کی ہر تصنیف میں ان کے خلاف احتجاج موجود ہے۔ وہ اُمرا کی تعیّش پسندی کو نفرت و حقارت کی نظروں سے دیکھتا اور گرسنہ شکم و برہنہ جسم غربا کی حالت سے متاثر ہوتا۔ اُس کے نزدیک تمام عیوب معاشرے کے پیدا کردہ ہیں اور انسان جب معاشرے کی قیود سے آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ اپنے یک طرفہ، غیرآئینی اور ناقابلِ قبول قوانین سے اُس کو مصائب و نوائب کے بھیانک گڑھے میں صرف اس خیال سے دھکیل دیتا ہے کہ اس کی اصلاح ہوجائے، حالاں کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
جس بات نے ہیوگو کے دماغ کو حد سے زیادہ پریشان کیا، جس مسئلے نے ہیوگو پر راتوں کی نیند حرام کردی، جس قانون نے اُس کے قلم کو اعجاز بخشا، وہ سزائے موت کا خونی فتویٰ تھا۔ چناں چہ اُس نے سزائے موت کے مجرم کے اندرونی احساسات و قلبی کیفیات سے اثرپذیر ہوکر ایک کتاب The Last Days of the Condemned لکھی، جس کا ترجمہ ’’سرگزشت اسیر‘‘ کے نام سے ہوچکا ہے۔
اس کتاب کا اندازِ تحریر پڑھنے والوں کے دماغ سے گزرکر اُن کے دل پر نقش ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب فی الحقیقت ایک بین الملکی مسئلے کی المناک داستان ہے۔ لرزہ خیز حالات اور دردناک مناظر اتنے موثر الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں کہ قاری کی رگ رگ میں جذباتِ رنج و الم جاگ اُٹھتے ہیں اور سزائے موت کی وحشت و بربریت کا صحیح نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ایک مجرم کا روزنامچہ ہے جس نے آغازِ قید سے پھانسی کے دن تک کے تمام واقعات اور حالات نہایت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ جیل کی کوٹھری کے اندر قیدی کیسی زندگی بسر کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ کیا ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ آخر میں اس باکمال مصنف نے سزائے موت کے سیاسی و معاشرتی پہلو پر بحث کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر حساس قلب اُس پر خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
’’سرگزشتِ اسیر‘‘ میں وہ منظر سخت رقّت خیز ہے جب مجرم اپنی اکلوتی لڑکی سے جیل کی کوٹھری میں ملتا ہے:
’’نازک کلی، معصومیت کی تصویر، میری لختِ جگر، میری بھولی بچی میریؔ ، اپنی اماں کے ساتھ میرے کمرے میں آئی۔ تتلی! خوب صورت لباس میں کیسی بھلی معلوم ہورہی ہے۔ میں نے اُسے گود میں اُٹھاکر اُس کے بالوں کو چومنا شروع کردیا۔ کبھی اُسے چھاتی سے لگاتا اور نازک رخساروں کا بوسہ لیتا، کبھی بھینچ لیتا۔ میریؔ ان حرکات پر حیران ہوکر اپنی اماں کی طرف دیکھ رہی تھی جو کونے میں اس منظر سے متاثر کھڑی آنسو بہا رہی تھی‘‘۔
’’میریؔ ! میری پیاری میریؔ !‘‘ یہ کہہ کر میں نے اسے اپنی رنج و الم سے پُر چھاتی کے ساتھ زور سے بھینچ لیا۔
’’ہائے جناب! آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں‘‘۔ میریؔ نے یہ الفاظ ہلکی سی چیخ مارتے ہوئے کہے۔
جناب ۔۔۔۔۔ آہ میرے اللہ!! اُسے مجھ سے جدا ہوئے تقریباً ایک سال ہوچکا ہے۔ وہ مجھے بھول گئی ہے۔۔۔۔۔ اس کے ذہن سے باپ کی شکل و شباہت اور آواز محو ہوچکی ہے، اس کے علاوہ مجھے اس ہیئت میں پہچاننا بھی تو بہت دشوار تھا۔ لمبی سی داڑھی۔ یہ ذلیل لباس۔ اُف! کیا میری تصویر اُس کے ذہن میں اُتر گئی ہے؟
کیا میں اپنی بیٹی کو اسی پیارے اور شیریں لہجے میں ابّا کہتے نہ سنوں گا۔ اُف! دماغ پھٹا جارہا ہے۔ دل ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ’’جناب‘‘؟ اُف! یا میرے اللہ!!
آہ، میں اپنی چالیس سالہ زندگی کے بدلے صرف ایک چیز کا خواہش مند ہوں۔۔۔۔۔ اپنی موت کے عوض صرف ایک کلمہ سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ اپنی پیاری بیٹی کے منہ سے صرف ابّا کا لفظ!
میں نے اُس کے ننھے اور سفید ہاتھ آپس میں جوڑتے ہوئے کہا ’’دیکھو میریؔ ! لیکن تم مجھے جانتی ہو؟‘‘
وہ میری طرف چمکتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر بولی، ’’جی نہیں‘‘۔
’’میریؔ ! غور سے دیکھو میں کون ہوں‘‘۔
اُس نے بھولے پن سے جواب دیا: ’’ایک صاحب‘‘۔
آہ! جس ذات سے میری تمام خواہشیں اور مسرتیں وابستہ ہیں، جو میری محبت کا مرکز ہے، میرے سامنے بیٹھی باتیں کررہی ہے مگر مجھے پہچانتی نہیں، اپنے تیرہ بخت باپ کی صورت سے ناآشنا ہے۔
میں نے گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے کہا: ’’میریؔ ! میں تمھارا باپ ہوں‘‘۔
میریؔ نے حیرت سے کہا: ’’ہیں؟‘‘
’’کیا میں تمھیں پسند ہوں؟‘‘
’’نہیں جناب، میرے ابّا تو بہت خوب صورت ہیں‘‘۔
میں نے اُس کے چہرے کو اپنے آنسوؤں اور لگاتار بوسوں سے تر کردیا۔ وہ گھبرائی اور چیختے ہوئے کہنے لگی۔
’’آپ تو میرے گال اپنی داڑھی سے چھیل رہے ہیں‘‘۔
میں نے اُسے اپنے گھٹنوں پر بٹھالیا اور کہا: ’’میریؔ ! کیا تم پڑھ سکتی ہو؟‘‘
’’میں پڑھ سکتی ہوں، امّی مجھے روز پڑھایا کرتی ہیں‘‘۔
’’اچھا تو یہ پڑھو‘‘۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے ایک چھپا ہوا کاغذ لیتے ہوئے کہا جس سے وہ غالباً کھیل رہی تھی۔
اُس نے کاغذ کو کھولا اور ننھی سی اُنگلی رکھتے ہوئے لفظوں کے ہجے کرنے لگی:’’ ف، ت، فت، و، ی، ویٰ، م، و، مو، ت، موت، فتویٰ موت‘‘۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے کاغذ چھین لیا۔ وہ میری سزائے موت کا فتویٰ پڑھ رہی تھی جو بازار میں ایک پیسے کا بک رہا تھا۔۔۔۔۔ اُس نے یہ غالباً اپنی ماں سے لیا ہوگا۔
اس وقت میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔
میریؔ چلاّکر بولی: ’’مجھے میرا کاغذ دے دو‘‘۔
’’خدا کے لیے لے جاؤ اِسے۔ یہ کہہ کر میں کرسی پر گر پڑا۔ اب مجھے کسی کا خوف نہیں جب کہ میرے بربطِ دل کا آخری تار بھی ٹوٹ گیا ہے۔ میں موت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کو تیار ہوں‘‘۔
باقی تمام کتاب اسی طرح کے درد انگیز و موثر مناظر سے بھری پڑی ہے۔
یہ کتاب لکھتے وقت اُس کے پیشِ نظر کتابِ قانون کا سیاہ ترین ورق تھا، جس میں متّفقہ طور پر موت کی سزا کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ہیوگو ’’سزائے موت‘‘ کو عدل و انصاف کی رو سے غداری سمجھتا ہے اور تنسیخ سزائے موت کے جواز میں بہت سے قاطع دلائل و براہین پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ تنسیخِ سزائے موت کے معاشری و مجلسی اسباب پر بحث کرتے ہوئے ثابت کرتا ہے کہ معاشرے کو کسی شخص کو اس چیز سے محروم کردینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جو وہ عطا نہیں کرسکتا۔
جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی تو اُس کے سرورق پر مصنف کے نام کی جگہ ذیل کی چند سطور درج تھیں:
’’اس کتاب کی تکمیل دو اسباب کی مرہونِ منّت ہوسکتی ہے۔ اولاً تباہ شدہ انسان کے احساسات، مشاہدات و مدرکات، بوسیدہ کاغذات کی صورت میں دستیاب ہوئے ہوں، جو لفظ بہ لفظ نقل کردیے گئے ہوں۔ ثانیاً کسی حساس، مفکر، شاعر یا فلسفی کے خیالات کا مجموعہ جن کے عمیق سمندر میں برسوں غوطہ زن رہا ہو اور اس وقت تک چین نہ لیا ہو جب تک اُس کے افکار نے کتابی صورت اختیار نہ کرلی۔ ان دو اسباب میں سے کسی ایک سے مصنف کے ذہنی رشتے کی استواری کا انحصار قارئین پر ہے‘‘۔
کتاب کی پہلی اشاعت میں وِکٹر ہیوگو نے جوئے فکر کو آزادانہ بہنے سے عملاً باز رکھا شاید اس لیے کہ وہ تفہم نظریہ کا منتظر تھا۔ اس اشاعت میں اس نے اس امر کا اعلان کیا کہ ’’سرگزشتِ اسیر‘‘ کا مقصدِ وحید سزائے موت کی تنسیخ ہے۔ مصنف کے پیش نظر کسی خاص فرد کا تحفظ نہیں اور وہ تمام مجرموں کی طرف سے وکالت کرتا ہے خواہ وہ عہدِ حاضر کے ہوں یا ازمنۂ مستقبل کے۔
ہیوگو انسانی حقوق کا یہ مقدمہ سب سے بڑی عدالت یعنی سوسائٹی میں پیش کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے خیال میں سزائے موت کے المناک تاثرات عدالت کی فصاحت میں گم ہوجاتے ہیں۔ وہ ’’زندگی اور موت کے سوال‘‘ کو جو ایک واضح اور عیاں مسئلہ ہے، اس کے حقیقی قیام گاہ پر روزِ روشن میں دکھانا چاہتا ہے۔
انھیں تاثرات کی تخلیق کے لیے اُس نے یہ کتاب لکھی تاکہ اُس کے تاثرات سے متاثر ہوکر سوسائٹی مصنف کے نظریے کو شرفِ قبولیت بخشے۔ اس خیال کے پیشِ نظر کہ اس کی کتاب زمان و مکاں، امصار و افراد کی تخصیص سے آزاد ہو۔ مصنف نے ’’سرگزشتِ اسیر‘‘ میں کسی خاص فرد، خاص مقام، خاص جرم، خاص عدالت اور خاص جلاد کا ذکر نہیں کیا۔ اس نے جانفشانی کے ساتھ اپنے خیالات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر حسّاسِ قلب اُس پر خون کے آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکے۔
اس کے پیشِ نظر اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ سزائے موت کا وجود دنیا سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے اور اُس کی خواہش ہے کہ اقوامِ عالم کے روشن دماغ معلّم اُس کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس شجر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے جسے انقلاب کی تند موجیں بھی تباہ نہیں کرسکتیں۔ ہیوگو لکھتا ہے:
’’اگرچہ کلیدِ انقلاب قفلِ زیست کو وا کرتی ہے اور انقلاب اپنے پس و پیش قحط، زلزلے اور بجلیاں لاتا ہے تاہم اس تخریب میں تعمیر کا راز مضمر ہوتا ہے لیکن انقلاب بھی ’سزائے موت‘ کو موت کے گھاٹ نہیں اُتار سکا‘‘۔
اس کتاب میں وہ اپنے ہم وطنوں کو دعوتِ مبارزت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھارے پاس سزائے موت کے جواز میں جس قدر بھی دلائل ہیں مجھے اُن سے آگاہ کرو۔ وہ لوگ جو سزائے موت کو جائز قرار دیتے ہیں، دلائل پیش کرتے ہیں کہ ایسے متنفس کو کہ جس نے معاشرتی زندگی میں تلخی پیدا کی قابلِ اخراج ہے۔ سب سے بہترین دلیل جو وہ پیش کرتے ہیں وہ نظریۂ عبرت ہے۔ ہیوگو نظریۂ عبرت کے ابطال میں مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’اگر ان مثالوں کی موجودگی میں بھی تم نظریۂ عبرت کے قائل ہو تو گردشِ ایّام کا رُخ ماضی کی طرف پھیرکر ہمیں سولہویں صدی عیسوی میں لے چلو، حقیقت میں خوفناک بن جاؤ، ہمارے لیے تکالیف و مصائب کے دروازے کھول دو۔ گزشتہ زمانے کی وحشیانہ سزائیں از سرِنو رائج کردو، ہر راہ گزر پر تختۂ دار نصب کردو، بدنی سزا کو عام کردو۔ پیرس کے بازاروں میں دیگر دکانداروں کی طرح ایک دکان جلاد کی ہو، جہاں انسانی گوشت پوست دیگر اجناس کی طرح فروخت ہو۔۔۔۔۔ فنا کو بادۂ ہرجام کرنے اور سزائے موت کو اس طرح عام کرنے سے تم نظریۂ عبرت کو زیادہ کامیاب بنا سکوگے‘‘۔
ہیوگو تنسیخ سزائے موت کے معاشری و مجلسی اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’جس انسان کے لیے تم موت کی سزا تجویز کرتے ہو اس کے معاشرتی حالات کی حسب ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں:
اوّلاً وہ شخص افرادِ خاندان اور صحبتِ احباب سے محروم ہے۔ اس صورت میں وہ صحیح تعلیم و تربیت حاصل نہیں کرسکا۔ جب اُس کے دماغ کی اصلاح کے لیے کوئی سعی نہیں کی گئی تو تمھیں اس معاشری۱ یتیم کے قتل کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟
تم اُسے اس لیے قتل کرتے ہو کہ اُس کا زمانۂ طفلی عدمِ نگہداشت کی نذر ہوا۔ تم اسے اپنے کیے کی سزا دیتے ہو۔ تم اس بدبخت کو جرم کا لباس پہناتے ہو۔
کیا تم اس وقت خوف زدہ نہیں ہوتے جب تم اس کے بچوں اور بچیوں کا خیال کرتے ہو؟۔۔۔۔۔ اُن بچوں کا جن سے زندگی کا سہارا چھن جائے گا۔
کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ آئندہ پندرہ برس تک اس کا بیٹا بھی غالباً زنداں میں ہوگا اور بیٹی تعیّش پسند اُمرا کی نفسانی خواہشات کے بجھانے کا ذریعہ ہوگی‘‘۔
وہ غربا کی لامتنا ہی و غیر مختتم تکالیف سے متاثر ہوکر لکھتا ہے:
’’ترازوئے عدل کی طرف دیکھو۔ تمام مصائب غربا کے لیے اور تمام مسرتیں اُمرا کے لیے۔ دونوں پلڑے غیر مساوی ہیں۔ حکومت کو اس فریب دہی میں مدد نہ کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے غربا کے مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔
تم عدل و انصاف کو کام میں لاؤ تاکہ غربا کو معلوم ہوجائے کہ ان کے لیے بھی نیلگوں آسمان کے نیچے کوئی جاے پناہ ہے، ایک عرضی جنت ہے جس کی لطیف فضاؤں سے وہ بھی متمتع ہوسکتے ہیں۔ ان کا مرتبہ بلند کرو تاکہ انھیں بھی معلوم ہو کہ اُمرا کی عشرت پرستی میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں‘‘۔
ہیوگو اخوت اور محبت کی تلاش کرتا ہے، چناں چہ وہ اس کتاب کے دیباچے کے آخر میں تحریر کرتا ہے:
’’میں تمھاری معاونت چاہتا ہوں۔ کس مسئلے میں؟۔۔۔۔۔ تبدیلی قوانین میں۔ مسیح کے اخلاقی قانون، انسانوں پر پھر حکمران ہوں گے۔ وقت آنے والا ہے جب ہم جرم کو مرض تصور کریں گے اور ججوں کی جگہ ان امراض کے رفع کرنے والے اور زندانوں کی جگہ شفا خانے ہوں گے۔ ایک نئے افق سے اخوت و محبت کا آفتاب طلوع ہوگا‘‘۔
’’سرگزشتِ اسیر۲‘‘ لکھنے کے بعد ہیوگو نے ایک مختصر افسانہ ”Claude guex”۳ لکھا، اس افسانے کا مقصد بھی تنسیخِ سزائے موت تھا۔
حواشی:
۱ Social Orphan
۲ یہ کتاب راقم الحروف کی ترجمہ کردہ ہے۔
۳ اس افسانے کا راقم الحروف ’انتقامِ اسیر‘ کے نام سے ترجمہ کرچکا ہے۔